جس وطن کی کوئی ماں نہ ہو وہ یتیم و مسکین ہوتا ہے۔ مادر وطن وہ ہوتی ہے جس ماں کے دل میں وطن ہو، ہر وطن کی ایک ماں ہوتی ہے جس نے اُسے جنم دیا ہوتا ہے اور اُس کے کچھ زندہ سپوت ہوتے ہیں جو اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔
جب مادر وطن مر جاتی ہے تو اُس کی قبر کی کوئی نشانی ہوتی ہے جس پر قوم جا کر یہ عہد کرتی ہے کہ اے مادر وطن میں وطن کی حفاظت کروں گی جب قوم ہی مر جائے تو وطن زندہ نہیں رہتا پھر مادر وطن کی آنکھوں میں صرف آنسو رہ جاتے ہیں۔
مادر وطن کی ذمہ داری وطن کو جنم دینا ہے، وطن کی حفاظت کرنا مادر وطن کی اولاد کی ذمہ داری ہے۔ مادر وطن تو وطن کی حفاظت کے لئے اپنے جذبات قربان کر دیتی ہے مگر جب وطن کی اولاد ہی وطن کی عزت اور ناموس کو لوٹ لے تو مادر وطن کیا کرے۔ مادر وطن کے سینہ میں جو دل ہے وہ تو صرف خون کے آنسو بہانے کے لئے رہ جاتا ہے۔
مادر وطن تو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے جب اولاد ایک دوسرے کا خون بہانے اور گلہ کاٹنے لگے تو وہ کس کا ساتھ دے ظالم بھی اُس کی اولاد اور مظلوم بھی اُس کی اولاد…!
اے مادر وطن! مت رو کوئی نہیں جو تیرے دُکھ کا احساس رکھتا ہو، اے مادر وطن! تیری عظمت کو سلام، تیرے اُن گم نام شہیدوں کو سلام جن کا خون تیری روح و جان ہے، اُن بیوگان کو سلام جنہوں نے اپنے سہاگ تجھ پر قربان کر دیئے، اُن ندیوں کو سلام جن میں تیرے شہیدوں کا خون ہے، اُن ریگزاروں کو سلام جہاں اُن شہیدوں کی بے گور و کفن لاشیں تیری عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔
اے مادر وطن! تو وطن کی ساری ماؤں کی ماں ہے تیری عظمت اور عصمت جہانوں سے پاک ہے تیرے وجود میں میری محبت کی خوشبو ہے، کوئی نہیں جو تیری ناموس پر قربان ہونے کی تمنا رکھتا ہو ہر کوئی خواہش نفس کی گرفت میں ہے ہر کوئی تیری ردا کو بے آبرو کرنے پر لگا ہوا ہے ہر کوئی تیرے نام کو بدعنوانی کا نام دے رہا ہے۔
اے مادر وطن! تو نے ہمیں سب سے بڑا تحفہ آزادی دی ہے ہم نے آزادی کا مفہوم غلط لیا ہے۔ اپنے ہی گھر کو برباد کرنے کا نام آزادی نہیں، اپنے ہی ضمیر کو شکست دینا انسانیت نہیں، اپنے ہی وطن میں خون کی ندیاں بہانا کہاں کا قانون ہے کہاں کا انصاف ہے کہاں کی آزادی ہے۔
اے مادر وطن! تیری اولاد بدعنوانی اور بددیانتی میں جب مساوات کا نعرہ لگائے گی تو دوسرا کون ہے جو تیری عزت کی حفاظت کرے گا۔
اے مادر وطن! تیرے چہرے پر تو اب چاند کی روشنی بھی مدھم پڑ گئی ہے، تیرے وطن میں تو اب سورج کی موجودگی میں اندھیرا چھا گیا ہے، پورا سورج گرہن لگ گیا ہے، تیرے دل کا آتش فشاں پھٹ گیا ہے۔
اے مادر وطن! ہاتھ بلند کر کے دُعا کر خدایا میرے وطن کو اپنی اماں میں رکھنا اِسے امن کی بھیک دے دے … میرا وطن غریب الوطن ہو گیا ہے جو بے وطن ہو گئے تھے انہوں نے پھر وطن میں آ کر اِسے لوٹ رہے ہیں اِس کی عزت و ناموس سے کھیل رہے ہیں۔
اے مادر وطن! تم بھی اِن جلا وطنوں کے ساتھ ہو جو وطن کو جلا رہے ہیں تم بھی اِن کا ہاتھ نہیں روک رہے بلکہ اِن جلا وطنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہو یہ پھر آپ کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر وطن کو خیر آباد کہہ دیں گے …!
اے جلا وطنو! اب تو رحم کرو اتنا مت جلاؤ وطن راکھ ہو جائے اور تمہیں اِس راکھ پر بیٹھ کر رونے کا بھی وقت نہ ملے۔
اے مادر وطن! تیرے اُن سپوتوں کو سلام جو اب خون سے تیری آبیاری کر رہے ہیں جو تیری ناموس کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں جو جگر لالہ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں جو اپنی ماؤں کی گودیں اجاڑ کر تیری مانگ میں سندور بھر رہے ہیں تیری آبرو کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں جو تیری عزت پر قربان ہو کر شہیدوں کے درجات بلند کر رہے ہیں۔ اے مادر وطن! تیرے اِن سپوتوں کو سلام جو تیری ناموس کی خاطر اپنی جوان بیوگان کے سہاگ کو تجھ پر قربان کر رہے ہیں۔
اے خدایا! میرے وطن کی حفاظت کرنا اور جمہوری قزاقوں سے اِسے محفوظ فرمانا … جب گھر کے افراد ڈاکو بن کر گھر کو لوٹ لیں تو اِس ظلم کی اطلاع کس کو دیں کسے کہیں کہ ہمارا گھر لٹ گیا ہے۔
اے مادر وطن! میری آنکھوں میں تو تعزیت والے آنسو بھی خشک ہو گئے ہیں، اے مادر وطن! تیری آزاد فضاؤں میں، میں ایک قیدی کی طرح ہوں … تیرے ہر سنگ میل پہ انقلاب لکھا ہے … تیرے وطن میں زرگروں کی جنگ ہے چاروں طرف تحفظات کے جھکڑ چل رہے ہیں ہر چیخ میں ایک سرد آہ ہے … “میرے وطن کا کیا بنے گا”دل اور دماغ بنجر اور ویران ہو رہے ہیں چاروں طرف اندھیرے کی حکمرانی ہے … مفادات کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ہر طرف خبروں کے انبار ہیں کسی کو معلوم نہیں سچ کتنا ہے ایسے معلوم ہو رہا ہے وطن کے خلاف سازشوں کے انبار لگ گئے ہیں۔
وطن کا ماحول غیر آباد اور غیر محفوظ ہے۔ وطن کا ہر باسی وسوسوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے “اب کیا ہو گا”… دل بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے … ذہن میں شیطان نے گھر بنا لیا ہے، نفس پر خوف نے قبضہ جما لیا ہے “اب کیا ہو گا”… محلات میں سازشی ٹولے براجمان ہیں … وطن کے سارے مسافر بے منزل سفر کے راستہ پر چل رہے ہیں مادر وطن نے ہاتھ بلند کئے خدا کے حضور دعا فرمائی ہے اے خدایا! میرے وطن پر اپنی رحمت کا سایہ رکھنا اِسے اپنے حفظ و امان میں رکھنا اِسے نظر بد سے بچانا اِسے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے محفوظ رکھ اِسے مافیاؤں سے بچانا۔
خدا کی آواز …اے مادر وطن تو تسلی رکھ تیرے وطن کو کچھ نہیں ہو گا جو وطن سے محبت نہیں رکھتے وہ نیست و نابود ہو جائیں گے نام نہاد شہید پھانسی کے پھندے پر لٹک جائیں گے جل کر مر جائیں گے بے وطن ہو جائیں گے اِن کے خون پکی سڑکوں پر ریت کے صحراؤں میں ضائع ہو جائیں گے۔
اے مادر وطن! میری ساری طاقتیں تیرے ساتھ ہیں … اے مادر وطن! تیری آنکھ سے بہنے والے آنسو آسمان سے برسنے والی بارش سے زیادہ پُر اثر ہیں وہ خدائی رحمت ہوتی ہے اور یہ حکمرانی کے زوال کے اسباب ہوتے ہیں، جب کسی ماں کے آنسو دُکھ سے نکلیں تو اولاد کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ وطن تو ہوتا ہی محبت کے لئے ہے اِس کی مٹی میں جو خوشبو ہوتی ہے وہ سب سے پیاری ہوتی ہے جن کو وطن کی خوشبو میسر نہیں وہ کہیں ہوں انہیں سکون نصیب نہیں ہو گا۔ وطن ایمان ہے اور مادر وطن ایمان کی ماں ہے۔
وطن سے جو پیار کرتے ہیں مادر وطن اُن سے پیار کرتی ہے مادر وطن کا نام وطن کی پاک سرزمین ہے جو اِس پر خون بہائے گا اُس کا ستیا ناس ہو جائے گا جو اِسے لوٹے گا وہ برباد ہو جائے گا جو اِس سے پیار کرے گا وہ آباد اور شاد ہو جائے گا یہی وطن اور مادر وطن کا پیغام ہے …!
آؤ مادر وطن کو وہ پیار دیں اور اتنا دیں جتنا اُس نے دیا ہے یہی وطن سے محبت کی نشانی ہے یہی مادر وطن کی کہانی ہے یہی ایمان کی نشانی ہے
آؤ! مل کر وطن کے گیت گائیں اِس نے ہمیں پہچان دی ہے
“یہ وطن ہمارا ہے … ہم ہیں پاسبان اِس کے”
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...