امیون سسٹم جسم بھر میں بکھرا ہوا ہے۔ اور اس میں بہت سی ایسی چیزیں بھی شامل ہیں جنہوں ہم عام طور پر مدافعتی نظام کا حصہ نہیں سمجھتے، جیسا کہ آنسو، کھال یا کانوں کا میل۔ کسی حملہ آور کو ایسے بیرونی دفاع سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور زیادہ تر یہاں پر ہی روک لئے جاتے ہیں۔ اور جو نہ رک پائیں انہیں باقاعدی امیون سیلز کے جھنڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ لمف نوڈ، ہڈی کے گودے، تلی، تھائمس اور جسم کے دوسرے کونوں سے نکل رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کے پیچھے بہت سی کیمسٹری کارفرما ہے۔ اگر آپ اس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اینٹی باڈی، ہسٹامن، سائیٹوکائن، لمفوسائٹ، نیوٹروفِل، بی سیل، ٹی سیل، این کے سیل، میکروفیج، فیجوسائٹ، گرینولوسائیٹ، بیسوفِل، انٹرفرون، پروسٹاگلینڈن، ہیموٹوپوئیٹک سٹیم سیل سمیت بہت کچھ اور سمجھنا پڑے گا۔ (یہاں پر “بہت کچھ اور” سے مطلب بہت زیادہ کچھ اور ہے)۔
ان میں سے کئی ایسے ہیں جو صرف ایک ہی کام نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر انٹرلیوکن۔۱ نہ صرف پیتھوجن پر حملہ کرتا ہے بلکہ اس کا نیند میں بھی کردار ہے۔ اور شاید یہ وجہ ہے کہ بیماری میں کئی بار نیند زیادہ آتی ہے۔ ایک حساب کے مطابق جسم میں 300 مختلف اقسام کے امیون سیل کام کر رہے ہیں۔ لیکن ڈینیل ڈیوس (جو مانچسٹر یونیورسٹی میں امیونولوجی کے پروفیسر ہیں) کا کہنا ہے کہ اس کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ “جِلد میں پایا جانے والا ڈینڈریٹک خلیہ لمف نوڈ میں پائے جانے سے بڑا مختلف ہے۔ قسم کی شناخت کرنا خاصا گڑبڑ والا کام ہے”۔
اور اس پر طرہ یہ ہے ہر شخص کا امیون سسٹم منفرد ہے۔ یہ اس کو جنرلائز کرنا اور سمجھنا زیادہ دشوار کر دیتا ہے۔ اور بیماریوں کے علاج کو بھی۔ اور دوسرا یہ کہ امیون سسٹم کا کام صرف جراثیم کے خلاف نہیں۔ زہریلی اشیا، کینسر، بیرونی آبجیکٹ، کیمیکلز کے خلاف بھی اسے کام کرنا ہوتا ہے۔ اور یہاں تک کہ آپ کی ذہنی حالت بھی اس پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر آپ تھکے ہوئے ہیں یا سٹریس میں ہیں تو اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ آپ کو انفیکشن ہو جائے۔ ہمیں حملہ آوروں سے محفوظ رکھنا ایک لامحدود چیلنج ہے۔ اس لئے یہ کئی بار غلطیاں کرتا ہے اور ہمارے اپنے معصوم خلیوں کو نشانہ بنانے لیگتا ہے۔ اس غلطی ہونے کا امکان اگرچہ بہت کم ہے لیکن چونکہ یہ خلیات ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، اس لئے مجموعی طور پر بہت سی بیماریاں ہیں جو ہمارے امیون سسٹم کی ہی لائی ہوئی ہیں۔ Multiple scleroris, lupus, rhematoid arthritis, Crohns disease جیسی بہت سی بیماریوں کی وجہ کچھ بیرونی نہیں بلکہ ہمارا اپنا دفاعی نظام ہی ہے۔ ہم میں سے پانچ فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کی آٹوامیون بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اور یہ خوشگوار بیماریاں نہیں۔
ڈیوس کہتے ہیں، “اگر آپ ان بیماریوں کی فہرست دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ کتنی عجیب حرکت ہے کہ امیون سسٹم خود پر ہی حملہ آور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اسے دوسرے زاویے سے دیکھا جائے کہ اس سسٹم کو کرنا کیا کچھ پڑتا ہے تو پھر آپ کو حیرت اس بات کی ہو گی کہ ایسا ہر وقت کیوں نہیں ہو رہا۔ امیون سسٹم پر ہر وقت ایسی چیزوں کی بمباری ہو رہی ہے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔ اور ان میں سے کئی اشیا ایسی ہیں جو دنیا میں ہی ابھی ابھی وجود میں آئی ہیں۔ مثلاً نیا فلو کا وائرس جو ہر وقت نت نئی شکلوں میں میوٹیٹ ہوتا ہے ۔۔۔ امیون سسٹم کو ان کی شناخت کرنا ہے، ٹھیک ٹھیک پہچاننا ہے اور ان کا قلع قمع کرنا ہے۔ یہ مسلسل اور لامحدود چیزوں سے ہونے والی جنگ ہے۔ آپ جیسے جیسے اس نظام کو جانتے جائیں گے، اس کی شاندار نفاست اور پیچیدگی آپ کو اپنی مسحور کرتی جائے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالیکیولر سطح پر اس کی نفاست کے باوجود، اس تمام سسٹم کا ایک ہی کام ہے۔ جسم میں کسی بھی ایسی چیز کو شناخت کرنا جو وہاں نہیں ہونی چاہیے۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے قتل کر دینا۔ لیکن یہ پراسس اتنا سیدھا نہیں۔ ہم میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بے ضرر ہیں اور اپنی توانائی اور وسائل کو انہیں مارنے پر خرچ کرنا بے وقوفی ہے۔ امیون سسٹم کو ویسے نظر رکھنی ہے جیسے ائیرپورٹ پر گارڈ لوگوں کا سامان چیک کرتے رہنتا ہے اور صرف اس وقت حرکت میں آنا ہے جب خطرہ محسوس ہو۔