فون مسلسل بج رہا تھا۔
’’ہیلو!‘‘ میں نے اپنا اسکوٹر پارک کیا اور ہینڈ بیگ سے فون نکال کر کان سے لگا لیا تھا۔
’’میڈم! میں کب سے آپ کو فون لگا رہی ہوں۔‘‘ فیلڈ ورکر ذاکرہ کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’میں راستہ میں تھی بھلا فون کیسے ریسیو کرتی؟ تم جانتی ہو ناں گاڑی چلاتے وقت فون پر بات کرنا منع ہے؟‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’اوہ! ابھی دس بھی نہیں بجے! در اصل ایک خاتون رابعہ پر اس کا شوہر ساری رات ظلم ڈھاتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ وہ بہت پریشان ہے اور آپ سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘ ذاکرہ نے مسلسل فون کرنے کی وجہ بیان کی۔
’’یا اللہ! ایک بے بس خاتون پر رات بھر ظلم ہوتا رہا اور تم نے اسے پولیس اسٹیشن بھی نہیں بھیجا؟ جب کہ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ اس قسم کی ایمرجنسی میں صبح تک انتظار کرنا بھی مظلوم کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جاتا یا وہ کچھ کر لیتی تو ہم اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاتے۔‘‘ میں نے قدرے برہمی سے کہا۔
’’میڈم! میں نے رات 12 بجے اسے پولیس اسٹیشن بھیجا تھا، لیکن اسے وہاں سے کوئی خاطر خواہ رد عمل نہ ملا تو وہ مایوس گھر لوٹ آئی۔‘‘ ذاکرہ نے صفائی پیش کی۔
’’اس وقت وہ کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ دوا خانہ جانے کا بہانہ بنا کر اپنے گھر سے نکل چکی ہے، اور یو ایچ پی (Urban Health Post) میں بیٹھی ہے۔ آپ کہیں تو اسے کونسلنگ سینٹر پر بھیج دوں؟‘‘ ذاکرہ نے تفصیل بتائی۔
’’ہاں، فوری بھیج دو۔‘‘ کہتے ہوئے میں نے فون رکھ دیا۔
ایک عورت جو برسوں اپنے شوہر کا ظلم سہتی رہتی ہے، لیکن جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے تو اسے مکان اور مکین دونوں سے نفرت ہونے لگتی ہے، اور وہ گھر جس میں اس نے بڑے ارمانوں سے قدم رکھا تھا، اسی گھر سے قدم باہر نکالنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔‘‘
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رابعہ میرے سامنے موجود تھی۔ دبلی پتلی، دراز قد، سانولی رنگت، چہرہ مرجھایا ہوا۔ آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی۔
’’ناشتہ کیا؟‘‘ سلام کے بعد میرا پہلا سوال تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا اور آنکھیں بھر آئیں۔ اس کے ساتھ اس کی 4 سالہ چھوٹی بیٹی شبانہ بھی موجود تھی۔ خوف زدہ، سہمی سہمی سی، ماں کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ جیسے خطرہ لاحق ہو کہ وہ اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے۔
’’شبانہ! ادھر آؤ میرے پاس۔‘‘ میں نے اسے پچکارا، لیکن وہ میری آواز سن کر اپنی ماں سے یوں چمٹ گئی جیسے میں اسے اپنی ماں سے چھین لوں گی۔
’’سارے بچے رات بھر ہمارے جھگڑے سے خوف زدہ رہے، روتے رہے، اور ڈر کے مارے کانپ رہے تھے۔ اب تک بھی اس حالت سے باہر نکل نہیں پا رہے ہیں۔‘‘ رابعہ نے شبانہ کی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے کہا، جو اپنی ماں کے زانو پر سر رکھے، آنکھیں میچے خود کو ماں کے برقعہ میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ بچوں پر نفسیاتی اثر کی کھلی علامت تھی۔
’’ناشتہ آ چکا ہے، پہلے تم دونوں ناشتہ کر لو پھر ہم بات کریں گے۔‘‘ میں نے رابعہ سے کہا، لیکن رابعہ کو ناشتہ کرنے سے زیادہ مجھ سے بہت کچھ بانٹنے کی جلدی تھی، تاکہ اس کے دل و دماغ کا سارا غبار نکل جائے اور وہ خود کو ہلکا محسوس کرے۔
’’تمہارے ہاتھ اور آواز دونوں ہی کمزوری سے تھر تھرا رہے ہیں، ہونٹ پر پپڑیاں جم گئی ہیں، اس حالت میں بات کرنے سے تمہیں مزید تکلیف ہو گی۔ پہلے ناشتہ کر لو، خیر النساء بہت اچھی کافی بناتی ہے، جسے پینے کے بعد تم خود کو تازہ دم محسوس کرو گی۔‘‘ میری بات سن کر وہ ڈائننگ روم میں چلی گئی اور میں اپنے ای میلس کے جوابات دینے میں مصروف ہو گئی۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر وہ دوبارہ میرے کیبن میں آ چکی تھی۔
’’کیسا محسوس کر رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ بس خاموشی سے دیوار کو تکنے لگی، جیسے جواب ڈھونڈ رہی ہو۔
’’رابعہ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرو یہ ضروری ہے، کیوں کہ اگر تم اپنے جذبات کو دباتی ہو تو در اصل تم اپنے آپ کو اظہار کرنے سے روک رہی ہو۔ یہ شعوری طور پر (دبانے) یا غیر شعوری طور پر (جبر) ہو سکتا ہے۔ جس سے تمہاری بے چینی، پٹھوں کی کشیدگی اور درد، نیز ذہنی دباؤ میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا اور سوچا کہ جذبات کے اظہار میں مجھے اس کی مدد کرنی ہو گی۔ میں نے کہا: ’’رابعہ اپنی آنکھیں بند کرو۔ اپنے جسم کو سکین کرو اور بتاؤ کہ مختلف جذبات تمہیں کیسے اور کہاں محسوس ہو رہے ہیں؟‘‘ حسب ہدایت رابعہ نے اپنی آنکھیں موند لیں اور کہا: ’’مجھے سینے میں تنگی محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ تب میں نے اسے اپنے ساتھ گہری ڈایا فرامیٹک سانس لینے کی مشق کروائی، اور بتایا کہ ایسا کرنے سے اس کے پھیپھڑے آکسیجن سے بھر جائیں گے اور وہ پر سکون ہو جائے گی۔ مشق کے بعد وہ کافی ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔
’’اب تم اطمینان سے اپنے مسائل مجھے بتا سکتی ہو۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی تو اس نے کہنا شروع کیا: ’’میرا تعلق نظام آباد سے ہے۔ میری شادی دس سال پہلے حیدر آباد کے نوجوان سے ہوئی۔ شادی کے کچھ دن بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ شرابی ہے۔ اس کا رویہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا۔ میں نے زندگی میں کبھی شراب کی بو تک نہ سونگھی تھی، لیکن اب وہ حالت نشہ میں میرے قریب آتا تو مجھے کراہیت ہوتی۔ جی چاہتا گھر سے بھاگ جاؤں۔‘‘ والدین کو بتایا، پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں ہوا، کیونکہ اس لت کے بارے میں انہیں شادی سے پہلے کسی نے نہیں بتا یا تھا۔ رابعہ ان لوگوں سے متنفر تھی، جنہوں نے اس سچائی کو مخفی رکھا تھا۔
’’عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے فریقین کے بارے میں معلومات حاصل کرو تو لوگ سچائی پر یہ سوچ کر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ نیک کام میں رخنہ ڈالنا مناسب نہیں۔ کاش وہ سمجھ پاتے کہ جس کام کو وہ نیک کام سمجھ کر انجام دے رہے ہیں، وہ زندگی کی بربادی کی وجہ بن سکتا ہے، جس کے لیے وہ خدا کے آگے یقیناً جواب دہ ہوں گے۔‘‘ میں نے اس کی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! آپ سچ کہتی ہیں۔ والدین کا کہنا تھا کہ چوں کہ اب شادی ہو چکی ہے اور شادی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس لیے کسی بھی صورت میں مجھے اپنے شوہر سے نباہ کرنا ہی ہو گا۔ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا، سوائے اپنے والدین کی بات ماننے کے۔ میں نے اپنی زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے شوہر کی شراب چھڑانے کی کوشش کرنے لگی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ شادی کے چھ ماہ بعد والدین سے ملاقات کے لیے ہم دونوں حیدر آباد سے نظام آباد گئے تھے۔ ریل کا سفر تھا۔ کسی اسٹیشن پر پانی لینے کے لیے میرے شوہر جنید ریل سے نیچے اترے ہی تھے کہ ریل چلنے لگی۔ یہ دیکھ کر جنید دوڑتے ہوئے آئے اور چلتی ریل میں چڑھنے کی کوشش کی تو پیر پھسلا اور گر گئے اور ان کے دونوں پیر کٹ گئے۔‘‘
’’اللہ اکبر! بہت افسوس ہوا۔‘‘ میں نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔
’’علاج کے دوران دو ماہ تک میں جنید کے ساتھ ہسپتال میں رہی۔ دن رات اس کی خدمت کرتی رہی۔ جنید کی اس حالت کو دیکھ کر میرے والدین اور بھائیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تمہارا شوہر معذور ہو چکا ہے۔ وہ اب نہ تو کوئی کام کر سکے گا نہ ہی ملازمت۔ ابھی تک تمہیں کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی ہے۔ بہتر ہے کہ تم اس سے خلع لے لو۔ ہم کسی بھلے مانس سے تمہارا نکاح کر دیں گے اور تم اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنا۔‘‘ یہ سن کر میں نے اپنے والدین سے کہا: ’’آپ لوگ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ ایک حادثہ کی وجہ سے میں اپنے شوہر کو چھوڑ دوں؟ اللہ تعالیٰ کو کتنا برا لگے گا؟ اگر یہی حادثہ میرے ساتھ ہوا ہوتا اور میرا شوہر مجھے چھوڑ دیتا تب آپ کیسا محسوس کرتے؟ مان لیں میں نے جنید سے خلع لے کر عقد ثانی کر بھی لیا۔ اس بات کا تیقن کون دے سکتا ہے کہ اس کے بعد بھی ہمارے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہو گا؟‘‘ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ساتویں جماعت کامیاب 30 سالہ رابعہ کی فکر، اعلیٰ ظرفی، ہمدردی اور حوصلہ مندی نے مجھے ششدر تو کر ہی دیا تھا، ساتھ ہی بہت متاثر بھی کیا۔ اپنی زندگی کا ایک اہم اور مشکل فیصلہ اس نے بہت آسانی سے لے لیا تھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے دوبارہ اپنی بات کا سلسلہ شروع کیا: ’’زندگی یوں ہی گزر رہی تھی، جس میں بے بسی، بے کسی، بے اعتنائی، بے اعتمادی اپنے عروج پر تھی۔ ہر دن اس امید سے شروع ہوتا کہ شاید میرا شوہر آج مجھے محبت بھری نظر سے دیکھے گا۔ دو میٹھے بول بولے گا، میری قدر کرے گا، لیکن ہر روز میں نے اس کی آنکھوں میں وحشت ہی دیکھی۔ اس کے منہ سے ہمیشہ گندی باتیں ہی سنیں اور نفرت کا ہی سامنا کیا۔ اکثر سوچا کرتی کہ کیا لڑکیوں کی شادی اسی لیے کی جاتی ہے کہ وہ کسی بے جان شے کی طرح خود کو ظالم شوہروں کے حوالے کر دیں کہ کر لو جو کرنا ہے۔‘‘ رابعہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
’’رابعہ! واقعی تم نے بہت کچھ جھیلا ہے۔ تمہاری قوت برداشت کمال کی ہے۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
’’وہ تو اللہ نے مجھے چار بچوں سے نوازا، جن کی وجہ سے مجھے سب کچھ سہنے کا حوصلہ ملا۔ میرے شوہر نے دیور کے نام پر فائنانس سے آٹو خریدا، یوں آمدنی کے ذرائع بھی میسر ہو گئے تھے۔‘‘
’’جنید کے پیر تو حادثہ میں کٹ گئے تھے ناں؟ وہ آٹو کیسے چلا سکتے تھے؟‘‘ مجھے تجسس تھا۔
’’ہاں، انہوں نے آٹو میں ہینڈ بریک لگوا لیا، جس کی وجہ سے انہیں آٹو چلانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔‘‘ رابعہ نے بتایا۔
’’معذوری کی وجہ سے جنید میں احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی بری عادتوں جیسے نشہ کرنا، گالیاں بکنا، بغیر کسی وجہ کے مجھ پر شک کرنا، ان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ گھر والے، پڑوسی، سب میرے شوہر سے ہی ہمدردی جتاتے، کیونکہ وہ معذور تھے، لیکن چار دیواری کے اندر جس وحشیانہ طریقے سے وہ مجھ پر جنسی اور جسمانی زیادتی کرتے اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔‘‘
’’تم نے اس بارے میں کسی کو بتایا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بتایا میڈم! بہت بار بتایا۔ والدین اور بھائی نے یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیا کہ ہم نے تو بہت پہلے تم سے کہا تھا کہ خلع لو اور پیچھا چھڑا لو، لیکن نہیں! تمہیں تو جنید سے ہمدردی جتا کر مہان بیوی کا میڈل جو جیتنا تھا۔ اب بھگتو اپنی مہانتا کا پھل۔ جب بھی کمرے میں کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوتا تو میں خود کو بچانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل جاتی تو ساس کہتیں کہ کمرے کے مسائل کمرے میں سلجھا لو۔ ہم سب کے سامنے واویلا مچانے کی ضرورت نہیں۔ صحن میں جاتی تو کہتیں کہ پڑوسی دیکھ لیں گے، سب کے سامنے تماشہ کرنا ضروری ہے کیا؟ اب بتائیں تو کس کو بتائیں؟ کون تھا جو مجھے سنتا؟ میرے کرب کو سمجھتا؟ کل رات بھی وہی ہوا۔ میری ماں میرے لیے بازار سے کان کی بالیاں خرید کر لے آئی تھی، اور مجھے دے کر چلی گئی۔ میں ان بالیوں کو پہن کر آئینہ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ بالیاں مجھے سوٹ بھی کریں گے یا نہیں؟ اسی وقت جنید باہر سے آئے اور مجھے بالیاں پہنے دیکھا تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ خود کی احساس کمتری کی وجہ سے وہ مجھے نہ تو اچھا کپڑا پہننے دیتے نہ ہی میک اپ کرنے دیتے، اور کبھی اتفاقاً پہن لیا تو پھر گالی گلوچ، مارنا پیٹنا، چیزوں کو اٹھا کر پھینکنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا سب کچھ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اکثر مرد خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ ان کی کمزوری کی وجہ سے کہیں ان کی بیوی انہیں چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ جب مجھ سے ان کی زیادتی برداشت نہیں ہوئی تو میں نے کسی طرح سے رات کے 12 بجے ذاکرہ باجی (فیلڈ ورکر) کو فون کیا اور گھر سے بھاگ کر پولیس اسٹیشن پہنچی اور شوہر کے خلاف شکایت درج کروائی، لیکن مجھے خود پتہ نہیں کہ کون سی طاقت مجھے وہاں لے گئی تھی۔‘‘
’’ذاکرہ کا ایک جملہ کہ تمہیں پولیس کی مدد لینی چاہیے۔‘‘ میں نے اس کے سوال کا جواب دیا تو وہ بولی: ’’شاید‘‘
’’پولیس نے جنید کو بلایا تو وہاں آ کر اس نے اپنی معذوری کا ٹرمپ کارڈ نکال کر پولیس کے سامنے پھینک دیا، کہنے لگا کہ میری حالت دیکھیے اور بتائیے کیا میں اپنی بیوی کو مار سکتا ہوں؟ یا اس پر ظلم کر سکتا ہوں؟ یہ ایک نمبر کی جھوٹی عورت ہے۔ در اصل وہ مجھ پر الزام لگا کر مجھ پر کیس کرنا چاہتی ہے، مجھے پھنسانا چاہتی ہے۔ آپ لوگ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران تھی کہ وہ کس طرح غلط بیانی سے پولیس کو گمراہ کر رہا تھا۔ پولیس آفیسر نے بھی بغیر کسی تحقیق کے اس کی باتوں کو سچ مان لیا اور ایک نفرت بھری نگاہ مجھ پر ڈال کر کہنے لگا۔ کیوں بے چارے کو تنگ کرتی ہو؟ چھوٹی موٹی باتیں تو ہر گھر میں ہوتی رہتی ہیں اس کی معذوری کا بھی احساس نہیں تمہیں؟ اور ایک بات دھیان سے سن لو! معذوروں پر کوئی کیس نہیں بنتا۔ سمجھیں؟ اب چپ چاپ گھر جاؤ۔ خود بھی آرام سے سو جاؤ اور ہمیں بھی سونے دو۔ نیندیں حرام کر رکھی ہے ان مسلمانوں نے۔ ذرا کچھ ہوا نہیں کہ منہ اٹھائے چلے آتے ہیں۔ لڑنے کے سوا کچھ اور آ تا بھی ہے ان لوگوں کو؟ اس کا سلوک اور برتاؤ دونوں سے مسلمانوں کے لیے تعصب صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ لیکن… آپ سنو تو… میں آپ کو سمجھاتی ہوں بات…میں نے آفیسر کو سمجھانا چاہا۔
اب سمجھنے سمجھانے کی کوئی بات ہی نہیں ہے، خاموشی سے گھر جاؤ۔ کہتا ہوا وہ اٹھ کر چلا گیا۔ پولیس پر سے میرا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ میں مایوسی سے اسی دلدل میں چلی آئی، جس سے باہر نکلنے کے لیے میں نے جتنے قدم اٹھائے تھے، اتنا ہی اندر دھنس چکی تھی۔
گھر آتے ہی جنید چھاتی چوڑی کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا کہ خود کو بڑا سورما سمجھتی ہے؟ بڑی شان سے پولیس اسٹیشن گئی تھی ناں؟ کیا ہوا؟ منہ کی کھانی پڑی۔ اب تو پتہ چل گیا ناں کہ پولیس بھی میرے ساتھ ہے۔ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مانو میرا مذاق اڑا رہا ہو۔ میں اسے کیا جواب دیتی؟ جب کہ پولیس نے مجھے صاف بتا دیا تھا کہ معذوروں کے بارے میں کیس ہی فائل نہیں کیا جا سکتا۔
میں تو بس صبح کے انتظار میں تھی۔ جیسے ہی صبح ہوئی، دوا خانہ کا بہانہ بنا کر نکل آئی۔ اب مجھے اس کے ساتھ ہر گز ہر گز نہیں رہنا ہے۔ آپ بس مجھے اس شخص سے چھٹکارہ دلا دیں۔‘‘ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
پولیس کے غیر منصفانہ رویہ سے وہ ٹوٹ چکی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچی، اسے اپنے سینے سے لگایا اور تسلی دی کہ ’’کوئی تمہارے احساسات کو درد کو سمجھے یا نہ سمجھے، میں سمجھ سکتی ہوں، کیونکہ میں بھی ایک عورت ہوں۔ کل تم مقامی پولیس اسٹیشن گئی تھیں، آج تمہیں ویمن پولیس اسٹیشن جانا ہو گا، اور وہاں دوبارہ اپنی درخواست داخل کرنی ہو گی۔‘‘ میں نے اس کی ہمت بندھائی۔
’’جب معذوروں پر کوئی کیس ہی نہیں بنتا تو درخواست کا فائدہ کیا؟ اس نے تو میری زندگی کو ہی معذور کر دیا ہے۔‘‘ اس کی بات میں حد درجہ مایوسی تھی۔
’’رابعہ! معذوروں کے لیے سرکار نے کافی مراعات رکھی ہیں اور کچھ تحفظات بھی، لیکن کسی بھی معذور کو دوسروں کو تکلیف دینے، بیوی بچوں پر ظلم و تشدد کرنے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنی معذوری کو ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ بھی اسی سزا کا مستحق ہو گا، جو ایک عام انسان کو دی جاتی ہے۔‘‘ میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔
’’کیا یہ بات قانون کے رکھوالوں کو معلوم نہیں؟‘‘ اس کے لہجہ میں طنز تھا۔
’’انہیں تو یہی سب کچھ ان کے اسباق میں پڑھایا جاتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ تم جس افسر سے ملی تھیں وہ ایک مرد تھا، اس لیے اس نے خاتون کی شکایت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہم جنس کی باتوں پر اعتماد کا ٹھپہ لگایا۔ زندگی میں اکثر خواتین کے ساتھ اس قسم کا صنفی امتیاز و استحصال قدم قدم پر ہوتا رہتا ہے، لیکن ہم خواتین کو اسے اپنی قسمت مان کر یا تھک ہار کر چپ نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ہر اس حق کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے، جس حق کو تلف کرنے میں مرد یاسماج کا کوئی بھی فرد اپنا مؤثر رول ادا کرتا ہے۔‘‘ میں بھی جذباتی ہو رہی تھی۔
’’لیکن میڈم اس بار میں تنہا نہیں جاؤں گی، آپ میں سے کوئی میرے ساتھ چلے، تاکہ میری ہمت بندھی رہے۔‘‘ پولیس کے تکلیف دہ رویے نے رابعہ کے حوصلوں کے پر کاٹ دئیے تھے۔ میں نے فیلڈ ورکر کے ساتھ رابعہ کو ومن پولیس اسٹیشن بھیجا، جہاں اس کی شکایت درج کی گئی، اور آگے کی کار روائی کا تیقن دیا گیا۔
سوالات
(1) معذور شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا جو فیصلہ رابعہ نے لیا تھا، آپ اس کی حمایت کریں گے یا مخالفت؟
(2) کیا ایک عام انسان کو بھی معذوروں سے متعلق قوانین اور تحفظات کے بارے میں جانکاری رکھنا ضروری ہے؟
(3) کیا آپ عام پولیس اسٹیشن اور ومن پولیس اسٹیشن میں پائے جانے والے نمایاں فرق سے باخبر ہیں؟
٭٭٭