حزیفہ بابا تو ابھی ابھی تیار ہو کر باھر کے لیئے نکلے ہیں ۔۔۔۔
یہ نہیں بتایا کہ کہاں گیا ہے ۔۔۔؟تابین نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے پوچھا ۔۔
یہ تو میں نے نہیں پوچھا ۔۔کہہ رہے تھے کسی دوست کے گھر جارہے ہیں ۔۔۔ملازم نے جواب دیا ۔۔
ٹھیک ہے میں بھی یہی بیٹھ کر انتظار کروں گی ۔۔۔آخر پتا تو چلے کونسا ایسا دوست ہے جس سے ملنے گیا ہے وہ بھی اس وقت ۔۔۔وہ اٹل لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے صوفے پر دھپ ہو کر بیٹھ گئی ۔۔
آپ کے لیئے جوس وغیرہ لاؤں ۔۔۔؟ ملازم نے تابعداری سے پوچھا ۔۔
” دل تو زہر پینے کو چاہ رہا تھا "!! ۔۔۔مگر پھر بھی اس نے چائے کا کہہ کر رخ پھیر لیا ۔۔
پانچ منٹ بعد ملازم نے چائے کے ساتھ ساتھ کچھ کھانے کی اشیاء بھی لا کر اسکے سامنے رکھ دی جنکو نظر انداز کرتے ہوئے اسنے چائے کا کپ ہاتھوں میں لیتے ہوئے لبوں سے لگایا ۔۔
چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اسے یوں محسوس ہوا جیسے زہر کا گھونٹ اپنے اندر اتارا ہو ۔۔شکل کے زاویعے بگاڑتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا جبھی وہ ٹہلتے ہوئے گھر کا جائزا لینے لگی ۔۔
بے خودی میں چلتے چلتے اسکے قدم بے اختیار حزیفہ کے کمرے کے باھر تھم گئے ۔۔۔جہاں آس پاس اسکی ہی خوشبو پھیلی تھی ۔۔۔
اسنے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمانا ہی چاہا تھا جبھی ملازم نے اسے ٹوک دیا ۔۔
حزیفہ بابا کے کمرے میں جانے کی اجازت کسی کو نہیں ۔۔۔۔
کچھ لمحے وہ حیران سی کھڑی اسکے الفاظ پر غور کرنے لگی ۔۔آخر کار کڑتے ہوئے بول اٹھی ۔۔
اور میں ان ” کسی ” میں سے نہیں ۔۔۔اسنے کسی پر زور ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
مگر ۔۔۔ملازم کچھ کہنے ہی لگا تھا جبھی اسے نظر انداز کرتے ہوئے کمرے میں گھس گئی ۔۔۔۔
نفاست سے سیٹ کیا گیا کمرہ اس وقت حزیفہ کی خوشبو سے مہکا ہوا تھا ۔۔وہ اندر جاتے جاتے ٹھٹھکی ۔۔۔دیواروں پر نظر دوڑاتے ہوئے اسکی نظر وہیں اٹک گئی ۔۔
جگہ جگہ پینٹگز کے درمیان سب کے ہنستے مسکراتے چہرے دیکھ کر ماضی کی یادیں اسے اپنے قریب کرنے لگیں ۔۔
آنکھوں میں نمکین پانی لیئے وہ ایک ایک قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ارد گرد نظر دوڑانے لگی ۔۔۔
۔**************۔
ایک دن میں وہ بہت سست ہو گئی تھی یا پھر اسکی نظریں بدلی تھیں ۔۔وہ اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھا اسکا جائزا لیتے ہوئے سوچنے لگا ۔۔جو مسلسل اس سے نظریں چرائے اسے نظر انداز کرنے لگی تھی ۔۔۔
امل تمہارا دوست تو واقعی میں بہت شرمیلا ہے ۔۔بات بھی نہیں کرتا کیا ۔۔۔ماروی چائے کا ٹرے ہاتھوں میں لیئے نمودار ہوئی ۔۔
جس سے وہ شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں جھکا گیا ۔۔۔
میں کرتی ہوں ۔۔۔۔مناہل اٹھ کر اسکی مدد کرنے کے لیئے سب کو چائے سرو کرنے لگی ۔۔۔
یہ دوست کم سہیلی زیادہ ہے ۔۔۔حدید نے بسکٹ سے انصاف کرتے ہوئے بیچ میں لقمہ دیا ۔۔
ایسی بھی بات نہیں ۔۔۔۔دھیمے لہجے میں اسنے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔۔جبھی امل نے جلدی سے نظریں پھیر لیں ۔۔۔” باسط میرا ہے "۔۔۔یہ آواز اسکے سماعتوں پہنچی ۔۔
ویسے تم کام کیا کرتے ہو ۔۔۔ماروی نے اسکا جائزا لیتے ہوئے پوچھا ۔۔
ماروی کے سوال پر اچانک اسکی نظر یں بے اختیار امل کی جانب اٹھی تھیں ۔۔۔جو آنکھیں موندھے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔۔
پارٹ ٹائم کیفے میں جاب کرتا ہوں ۔۔۔اسنے رسانیت سے جواب دیا ۔۔
جبھی حزیفہ نے اچانک باسط کی جانب دیکھا تھا ۔۔۔۔
چائے ۔۔۔مناہل کے پکارنے پر وہ اس جانب متوجہ ہوا تھا ۔۔۔تھنکس ۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ فون میں مصروف ہو گیا ۔۔۔
اسکی نظر بار بار دروازے کا طواف کر رہی تھیں ۔۔۔سب تھے پر تابین نہیں تھی ۔۔
مناہل نے ابھی دوسرا کپ اٹھایا ہی تھا جبھی حدید نے کپ تھمانے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔
آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے اس نے حدید کے ہاتھ میں کپ تھمادیا ۔۔ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس نے کپ لبوں سے لگایا ۔۔۔
اہ ہ ۔۔۔۔۔گھونٹ بھرتے ہی آنکھیں بند کرتے ہوئے وہ مزے سے گویا ہوا ۔۔۔
مناہل حیرانگی سے اس بندے کو دیکھنے لگی ۔۔جو ہر بار اپنی حرکتوں سے کوئی نیا تماشا کھڑا کرتا تھا ۔۔
” ہاتھ اور ایسے خوبصورت ہاتھ ”
” ایسے ہاتھوں کی چائے توبہ ”
بے اختیاری میں نہ جانے کیا کہہ گیا وہ ۔۔ایک قدم کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے مناہل کے سماعتوں اسکی آواز پہنچی ۔۔۔
پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہ پائی اورجب تک اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ۔۔۔وہ ایک گھوری سے اسے نوازتے ہوئے فوراً وہاں سے چلی گئی ۔۔
ہائے ۔۔۔۔!! حدید نے مسکراتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔جبھی کسی کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے فوراً اٹھ بیٹھا ۔۔۔
حزیفہ اپنی ہنسی دبائے آنکھوں میں شرارت لیئے ۔۔اسے تکنے میں مصروف تھا ۔۔۔
سنجیدہ تاثرات سے وہ حزیفہ کی جانب دیکھنے لگا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہو کیا ہوا ۔۔۔
حزیفہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے قریب آنے کا کہا ۔۔اور خود جھکتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا ۔۔۔
” تمہیں یک طرفہ محبت ہو گئی ہے وہ بھی چائے بنانے والی کے ہاتھ سے ۔۔اسکا ثبوت میرے پاس ہے "۔۔
حدید کے بگڑتے تاثرات دیکھتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں لہراتا ہوا موبائل جلدی سے چھپالیا ۔۔۔
۔**************۔
وہ دلبرداشتہ ہو کر وہاں سے نکلی تھی ۔۔۔دیواروں پر سب کی تصویریں نسب تھیں سوائے اسکے ۔۔
جگہ جگہ تلاشی لی مگر کوئی ایک نشانی ۔۔کوئی یاد نہ تو تابی کی تھی اور نہ اس سے جڑی حزیفہ کی ۔۔۔
گاڑی چلاتے ہوئے اسکی آنکھیں آنسوؤں کی وجہ سے بار بار دھندلا نے لگی جنکو ہاتھ کی پشت سے وہ بےدردی سے رگڑنے لگی ۔۔
سب سے زیادہ دکھ تو تب ہوا جب تصویر میں حزیفہ کے ساتھ بھورے بالوں والی لڑکی نظر آئی ۔۔بار بار اسکی نظروں کے سامنے وہ چہرہ لہرانے لگا ۔۔۔ذہن میں بیشمار سوالات نے جنم لینا شروع کیا ۔۔یہ سوچتے ہوئے اچانک گاڑی کا بیلس بگڑنے کی وجہ سے ایک دم اسنے بریک لگائے جبھی کسی کی نسوانی آواز بلند ہوئی ۔۔
وہ اپنے حواس کو قابو کرتے ہوئے جلدی سے باھر کی جانب لپکی ۔۔
گاڑی کے سامنے سڑک پر کسی عورت کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکی ۔۔۔۔
۔*************۔
انھیں ماروی نے زبردستی رات کا کھانا کھلوا کر بھیجا تھا ۔۔۔رات کی چاندنی میں آسمان کے نیچے چار پائی پر بازؤں کے بل لیٹا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا ۔۔
جبھی مناہل آتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔۔
بھائی موسم تبدیل ہو رہا ہے اور آپ یہاں باھر لیٹے ہیں ۔۔۔کہیں موسم کی تبدیلی کی وجہ سے طبیعت نہ بگڑ جائے ۔۔۔
اہ ۔۔۔۔” جب اندر کا موسم خراب ہو تو باھر کا کیسا ڈر "۔۔۔گہری سانس لیتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔۔۔
اب ایسا بھی کیا ہو گیا ۔۔۔؟ امل نے پوچھا ۔۔۔
اماں ابا کے جانے کے بعد اب تمہاری ذمہ داری مجھ پر ہے ۔۔۔وہ سیدھا ہوتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
نہ جانے اب میری زندگی کا بھی کیا بھروسہ ۔۔۔اس سے پہلے تمہیں مضبوط ہاتھوں میں سونپنا چاہتا ہوں تاکہ میرے بعد تمہارا کوئی مجھ سے بھی زیادہ خیال رکھ سکے ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔آپ ایسی باتیں کیوں کر ربے ہیں ۔۔بلکل ٹیپیکل اماؤں والی ۔۔۔۔؟ وہ بھیگے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔آپ کو کچھ ہونے سے پہلے مجھے کچھ ہو جائے گا اگر آپ نے دوبارہ ایسی کوئی بھی بات کی تو ۔۔۔۔وہ شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے باسط کو وارن کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
لیکن گڑیا ۔۔۔۔۔!! وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا جبھی مناہل نے آنکھیں دکھاتے ہوئے بیچ میں ٹوکا ۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔!!
بلاآخر اس نے ہتھیار ڈال ہی دیئے ۔۔۔دوبارہ اسی پوزیشن میں لیٹ گیا ۔۔
اچھا ایک بات تو بتائیں ۔۔۔آپ نے اپنے بارے میں کیا سوچا ۔۔۔۔وہ آنکھوں میں شرارت لیئے اس سے دریافت کرنے لگی ۔۔
مجھے فرصت ملے تو اپنے بارے میں بھی سوچوں نا ۔۔۔۔وہ چاند کو تکتے ہوئے بولا ۔۔۔
"ایسی باتیں فرصت کے لمحات میں نہیں سوچی جاتیں ۔۔۔” مناہل نے زچ ہوتے ہوئے کہا ۔۔
اچھا یہ باتیں آپ کو امل کیسی لگتی ہے ۔۔۔۔؟ بے اختیار اسکے منہ سے اچانک یہ الفاظ جاری ہوئے ۔۔۔
امل ۔۔۔۔۔۔!! باسط نے زیر لب دوھرایا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔امل ۔۔۔۔۔ہے نا وہ بلکل آپ کے ٹائپ کی ۔۔۔بلکل پرفیکٹ ۔۔۔۔وہ امل کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہوئے بولی ۔۔
ارے بتائیں بھی ۔۔۔۔اسکو مسلسل خلا میں گھورتے دیکھ کر وہ اسے ہلاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔
تنگ نہ کرو ۔۔۔۔جاؤ چائے لاؤ ۔۔۔وہ آنکھوں پر بازو رکھتے ہوئے اسے ٹالنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔
میں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی یاد رکھیئے گا ۔۔۔وہ اسے وارن کرتے ہوئے چلی گئی ۔۔۔
۔*************۔
کوئی آیا تھا کیا رؤف دادا ۔۔۔۔؟ گھر میں داخل ہوتے ہی ۔۔ملازم کو لاؤنج سے کھانے کے لوازمات سمیٹتے ہوئے دیکھ کر وہ پوچھنے لگا ۔۔
جی ۔۔۔حزیفہ بابا ۔۔!! تابین بی بی آئی تھیں ۔۔۔ملازم نے جواب دیا ۔۔
تابی یہاں آئی تھیں ۔۔وہ حیران ہوتے ہوئے زیر لب بڑبڑایا ۔۔
کہاں گئی ۔۔۔۔چلی گئی کیا ۔۔۔؟ وہ آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے بولا ۔۔
جی آپ کے آنے کے کچھ وقت پہلے گئیں ۔۔۔
آپ نے اسے روکا نہیں ۔۔۔؟ اس وقت وہ کہاں نکلی ہوگی ۔۔وہ پریشانی کے عالَم میں گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
آپ کے کمرے میں جانے کا ضد کر رہی تھیں ۔۔جب میں نے منا کیا تو غصہ کرنے لگیں ۔۔پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ کمرے سے نکل کر یوں باھر کی جانب بھاگیں کہ پھر پلٹ کر بھی نہ دیکھا ۔۔۔ملازم نے جواب دیا ۔۔
میرے کمرے میں گئی تھی ۔۔۔؟ وہ حیران کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوا ۔۔جبھی پریشانی میں اپنے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔
۔*************۔
آپ ٹھیک ہیں ۔۔۔کچھ ہوا تو نہیں آپ کو ۔۔۔۔؟ رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ ۔۔۔چہرے پر خوف طاری کیئے وہ سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھی عورت سے دریافت کرنے لگی ۔۔
اس عورت نے ایک نظر سامنے کھڑی تابین پر ڈالی ۔۔جسکا سراپا شال میں لپٹا ہوا آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔
ایک طنزیہ مسکراہٹ تابین پر اچھالتے ہوئے وہ اپنے گھٹنے پر تھوک لگانے لگی ۔۔۔جہاں گرنے کی وجہ سے سوجن ہو رہی تھی ۔۔
اسکا یہ عمل تابین غور سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔۔یہ کیا کر رہی ہیں ۔۔ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔
ہمم ۔۔۔ڈاکٹر نے کیا کرنا ہے ۔۔۔ڈھیروں دوائی اور انجکشن دے کر کہنا ہے یہ کھالو اور آرام کرو ۔۔وہ طنزیہ بولی ۔۔
جب کہ چوٹ تو معمولی سی ہے جو اس سے بھی ٹھیک ہو سکتی ہے ۔۔وہ گھٹنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
اسکی لہجے میں ایک چبھن سی تھی ۔۔جو تابین کو مقناطیس کی طرح اپنی جانب کھینچنے لگی تھی ۔۔۔
لگتا ہے کسی پریشانی میں مبتلا ہو ۔۔۔وہ تابی کی سرخ آنکھوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔
آپ سے ایک بات پوچھوں ۔۔۔؟ تابین وقت اور جگہ کو نظر انداز کرتے ہوئے تسلی سے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔
اگر کوئی آپ کو بدلنا چاہے ۔۔اور آپ اسکی خوشی کی خاطر خود کو بدل لو ۔۔اور اگر اسکے باوجود بھی وہ آپ کو نا پسند کرے تب کیا کیا جائے ۔۔۔
تمہیں پتا ہے ۔۔ہماری سب سے بڑی غلطی کیا ہے ۔۔۔؟
"کہ ہم اللہ سے زیادہ اسکی تخلیق کی گئی چیزوں پر یقین کرتے ہیں جو کہ ہمیں پتا ہے کہ وہ اصل میں فانی ہیں جو عنقریب دیر یا بد دیر فنا ہو سکتی ہیں ” ۔۔۔۔۔۔وہ تابین کی بات سنتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
تابین نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔۔
"خود کو بدلو ۔۔۔لیکن اس رب کی خاطر ۔۔کیوں کہ جو ہم چاھتے ہیں ویسا نہیں ہوتا ۔۔لیکن جس میں ہماری بہتری ہو وہ رب صرف وہی کرتا ہے ” ۔۔۔
ایک ھی جملے میں نہ جانے وہ اتنی گہری بات کہہ گئی تھی کہ نا چاھتے ہوئے بھی تابین کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔
"جب تم اس رب پر پختہ یقین کر کے اسکی مقدس کتاب کو کھول کر پڑھو گی اس پر عمل کرو گی ۔۔۔تب ہر مشکل آسان ہو گی "۔۔
"اس سے محبت کرو گی تو خود با خود تمہاری محبت تمہارے قریب آئے گی "۔۔۔
وہ اسکی باتیں سمجھنے لگی تھی ۔۔۔
اب جاؤ ۔۔۔۔تمہارے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے ۔۔اچھی اور شریف گھرانے کی لڑکیاں مغرب کے بعد اکیلے گھر سے باھر نہیں نکلتیں ۔۔۔وہ تلخ لہجے میں اسے باور کرا رہی تھی ۔۔
اور ہاں ۔۔۔ایک بات یاد رکھنا ۔۔وہ جاتے جاتے رکی ۔۔۔
” وتعز من تشا ٕ وتذل من تشا ٕٕ ”
"( عزت بھی رب دیتا ہے اور ذلت بھی رب دیتا ہے )”
۔*************۔
پتا تو کرو آخر وہ گئی کہاں بنا بتائے ۔۔نہ جانے اسکے ابا کو پتا چلا تو کیا ہوگا ۔۔۔تابین کی امی سر پکڑ کر کہنے لگیں ۔۔
اک حادثے نے اس گھر کے مکینوں کے دلوں میں خوف کے نشانات چھوڑے تھے جنکو دوھرانا بیوقوفی کی علامت تھی ۔۔
تائی امی میں پتا کرتا ہوں نہ آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔حدید نے فون نکالتے ہوئے کہا ۔۔
جونہی اس نے موبائل نکالا ہی تھا ۔۔سکرین پر حزیفہ کے الفاظ جگمگاتے ہوئے دیکھ کر اسنے فون کان سے لگایا ۔۔
تابین گھر پہنچی کیا ۔۔؟ فوراً حزیفہ کی آواز ابھری تھی ۔۔
وہ حیران ہوتے ہوئے باھر لان میں کھڑا اس سے پوچھنے لگا ۔۔تمہیں کیسے پتا کے تابین گھر پر نہیں ہے ۔۔؟
حدید کے سوال پر اسنے ساری کہانی اسکے گوش گزار دی ۔۔
اپنے کمرے کی حالت دیکھتے ہوئے حزیفہ کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ غصے میں نکلی ہے ۔۔اور غصے میں انسان اپنی حدود کو بھلا بیٹھتا ہے ۔۔
ابھی تک وہ گھر نہیں پہنچی ۔۔حدید کے یہ الفاظ اسے مزید پریشان کرنے کے لیئے کافی تھے ۔۔
وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر جلدی سے گاڑی کی جانب لپکا ۔۔
"دل میں بس ایک ہی دعا تھی کہ وہ سلامت ہو ۔۔۔”
۔************۔