جینی روشنی سے باتیں کر ہی تھی کہ جینی کا سیل بجا رالف کی کال تھی
” رالف کی کال ہے میں آتی ہوں ” جینی اٹھ گئی اور رالف کا نام سن کے اسے پھر ماضی یاد آنے لگا وہ ماضی کے دھندلکوں میں کھونے لگی کہ پاکستان سے بابا کی کال آگئی سلام دعا کے بعد بابا پھر پاکستان واپس آنے کا کہنے لگے
” بیٹا وہ شرمندہ ہے اپنے کیے پہ اس نے جو تم سے کہا وہ غلط فہمی میں کہا تھا اس کو ایک اور موقع دو”
” بابا یہ آپ کہہ رہے ہیں جس آدمی نے آپ کی بیٹی کو لوز کریکٹر سمجھا اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بعد اسے زندگی سے جانے کو کہا اور آپ کہہ رہے ہیں میں اسے ایک موقع دوں”
” بیٹا مجھے پتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں بٹ پلیز بیٹا”
” نہیں بابا میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے” وہ پھر رونے لگی جاوید آفندی نے مایوس ہو کے فون رکھ دیا۔
روشی گھر آئی تو اسے پتا چلا کہ آج اس کا بھائی آرہا ہے وہ بہت اکسائیٹڈ تھی شام میں روشانے کا بھائی ولید آگیا تھا وہ بہت خوش تھی۔
” اور بھئی گڑیا آج کل بڑا بزی ہوتی کہ بھائی کو فون کر کے بھی نہیں پوچھتی”
رات کو کھانا کھانے کے بعد اس نے روشانے سے پوچھا
” بس بھائی آفس کا کام اتنا ہوتا ہے ٹائم ہی نہیں ملتا تھک جاتی ہوں میں”
” اچھا اب بھیا کے لیے بھی ٹائم نہیں گڑیا کے پاس”
” سوری سوری بھیا اب سے دھیان رکھوں گی ” وہ فوراً بولی تو ولید ہنسا
” ماما جاب واب چھڑوائیں اس کی ہم اس کی شادی کردیتے”
وہ ایک دم اچھل پڑی ” کیوں کیوں بھائی مجھ سے بڑے آپ ہو تو شادی آپ ہی کی ہو گی پہلے”
” لو یہ کیا بات ہوئی بھئی خود ہی تو کہہ رہی ہو کہ میں تھک جاتی ہوں”
” تو اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میں آپ لوگ مہری شادی بھی پلان کر لیں ”
” ولید ٹھیک کہہ رہا ہے لڑکا ڈھونڈنے میں بھی ٹائم لگے گا ابھی سے ڈھونڈنا شروع کرنا پڑے گا ” ماما تو ہوتھوں پہ سرسوں جما کے بیٹھ گئیں تھیں
” ماما آپ بھی۔۔۔۔۔” وہ روہانسی ہو گئی تو ولید بولا ” ارے بھئی میں مذاق کررہا تھا آپ لوگ سریس ہو گئے ”
” آجاؤ گڑیا باہر چلتے ہیں ” اس نے روشانے کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہا
” سریس یہ مذاق تھا؟؟؟”
” ہاں یار اب چلیں” تو روشانے نے سکھ کا سانس لیا۔
************
6 ماہ ہو گئے تھے اسے جاب کرتے ہوئے اور وجدان سے اس کی سلام دعا ہو گئی تھی وجدان کا ارادہ اسے اب پرپوز کرنے کا تھا وہ یہی چاہتا تھا کہ روشانے اسے جان پہچان لے تبھی اتنے دن انتظار کیا پر اب۔۔۔۔۔۔
اب وہ سب کچھ اس سے کہنا چاہتا تھا جو وہ اس کے لیے فیل کرتا تھا بس یہی موقع کی تلاش تھی۔
آج وہ آفس آیا تو دیکھا روشانے کسی کے ساتھ گاڑی سے نکلی پتا نہیں کیوں اسے یہ سب بہت برا لگا آنے والے نے پتا نہیں۔کیا کہا کہ وہ زور سے ہنسی وجدان کو ایک دم غصہ آیا اور وہ تیزی سے وہاں چلا گیا اور انٹرکام اٹھا کے کہا ” مس روشانے آگئی آفس ”
” جی سر ”
” فائن” اس نے کریڈل پٹخا تھوڑی دیر میں روشانے اس کے آفس میں آئی”سر یہ فائل کمپلیٹ ہوگئی ہے”
” یہاں رکھ دیں ” وہ سر پکڑے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کے بیٹھا ہوا تھا
” سر آر یو اوکے؟؟؟”
” ہمممم۔۔۔۔۔۔۔ ”
وہ کچھ سوچتی جانے کو مڑی ” روشانے ” پیچھے سے وجدان نے پکارا
” جی” وہ مڑی
” تمہارے ساتھ ابھی باہر کون تھا؟؟؟”
” بھائی تھے میرے” وہ ایک دم سیدھا ہوا ” رییلی؟؟؟”
” جی سر” روشانے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو نوٹ کر رہی تھی
” پہلے کبھی دیکھا نہیں انہیں”
” جی سر وہ آرمی میں میجر ہیں سو کم کم ہی آنا ہوتا ہے”
” اوہ اچھا اچھا” وہ ایک دم خوش ہوا
” اب میں جاؤں سر؟؟؟”
” ہمممم۔۔۔۔” وہ جانے کو مڑی تو اس نے پھر پکارا ” ایک بات پوچھوں اگر برا نہ مانو تو”
” جی سر کہیے ”
” آپ کہیں انگیج تو نہیں ہیں؟؟؟”
” نو سر بٹ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟؟؟” وہ وجدان۔کو جانچتی نظروں سے بولی
” ویسے ہی”
” اوکے” کہہ کر وہ چلی گئی پر وجدان کا دل چاہا وہ خوشی سی بھنگڑےڈالے اس نے یہ خوشی شئیر کرنے کے لیے فون اٹھایا۔
**********
شہیر نے اس سے ڈائریکٹ رشتہ بھیجنے کو کہا کہ پرپوز کرنے پر وہ پتا نہیں کیا سوچے اس نے ماما بابا سے روشانے کے حوالے سے بات کرنے کا فیصلا کیا۔
گھر آ کے وہ فریش ہوا جہانگیر حیدر تو بزنس کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی تھے اس نے ماما سے بات کرنے کا فیصلا کیا اور سیدھا ان کے روم آیا۔
” ماما کچھ بات کرنی ہے آپ سے”
” ہاں بیٹا کہو” وجدان نے ماما کو بیڈ پہ بٹھایا اور خود ان کے پاس نیچے ذمین پر بیٹھ گیا
” ماما وہ۔۔۔”
وہ رکا ” ہاں بولو بیٹا” اس نے ماما کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما
” ماما اگر میں کہوں کہ مجھے کوئی پسند ہے تو۔۔۔” مہرالنساء بیگم مسکرائیں
” ہممم۔۔۔ اچھا جی تو میرے بیٹے کو کوئی پسند آہی گئی”
وہ جھینپا ” کون ہے وہ لکی لڑکی جس کو میرے بیٹے نے پسند کیا ہے”
” ماما اس کا نام روشانے ہے” وہ ٹہر ٹہر کے بتانے لگا اور پھر وہ انہیں سب کچھ بتاتا چلا گیا۔
مہرالنساء مسکرائی ” تو کب ملوا رہے ہو میری بہو سے”
” ماما میں نے اب تک اسے نہیں بتایا ہے میں ڈائیریکٹ رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں کل آفس چلیں تو میں آپ کو ملواؤں گا اس بٹ پلیز آپ یہ شو نہ کرنا کہ آپ اس سے ملنے ہی آئی ہیں ” وہ لجاجت سے بولا تو ماما ہنسیں ” اوکے جان نہیں کرتی شو بس خوش” مانا نے اس کا ماتھا چوما ” تھینک یو تھینک یو ماما ” اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا مہرالنساء نے دل ہی دل میں اس کی خوشیاں ہمیشہ قائم و دائم رکھنے کی دعا کی۔
***********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...