۔” آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے۔؟”
وفا نے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکا۔
ایان نے مسکرا کر سر جھکایا اور ہنس دیا۔
” بتایا تو تھا تمہیں۔۔۔۔”
ایان ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
” کب۔۔۔۔۔!”
وفا بے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” سوچو زرا۔۔۔۔اس پر زور ڈالو۔”
ایان نے کشن اٹھا کر گود میں دھرا اور اسکے چہرے کے اتار چڑھاو تکنے لگا۔
وفا کے چہرے پر سے کرب کے سائے چھٹنے لگے تھے۔
” عینا۔۔۔۔۔”
وفا نے سوچتے ہوئے اسکی طرف دیکھا، جس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر رہے تھے۔
” نہیں۔”
اسکی پیشانی پر تین لکیریں ابھرتی دیکھ خود ہی پوچھ لیا۔
” نہیں۔۔۔۔۔میں گاڑی میں تمہاراچویٹ کر رہوں۔”
رکھائی سے کہتا گاگلز لگاتا اپارٹمنٹ کے خارجی دروازے سے نکل رہا تھا۔
وفا اسکی پشت دیکھ کر مسکرا دی، وہ جانتی تھی اسنے کیا کہا تھا۔
ایان نے پلٹ کے دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھی۔
گاگلز لگائے مڑ گیا، لفٹ میں داخل ہوتے اسکے عنابی لب مسکراہٹ کے ساتھ کھیلنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساریہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی تھی، ماضی کی فلم اسے اداس کر رہی تھی۔
” مام۔۔۔۔وہ ویٹرس آپکی بیٹی ہے۔”
شزا ناگواری سے بولتی ہوئی اسکے برابر آ کھڑی ہوئی۔
ساریہ نے اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی اور رخ موڑ لیا۔
” ہاں۔”
ساریہ نائک اعتراف کر گئی تھی۔
” کیسے۔۔۔۔؟”
شزا نے حیرانگی سے ماں کے چہرے پر ماضی کے سائے لہراتے دیکھے۔
” میں بھی تمہاری طرح تھی، زندگی بھرپور اور حسین.”
ساریہ نائک ماضی میں کھو سی گئی، ماضی کے اوراق پلٹتے پلٹتے ایک صفحے پر رک سے گئے۔
وائٹ شرٹ اور پنک لانگ سکرٹ پہنے، بھورے سنہری بال کھولے وہ یونی کی روش پر چلتی جا رہی تھی، اپنی مرضی کی مالک وہ سب سے لیٹ آتی تھی، اسکے گارڈز چند قدم کے فاصلے پر تھے۔
” ایکسکیوزمی۔”
کسی کی آواز پر وہ رک کر پلٹی۔
گورا رنگ، کشادہ پیشانی، گلابی لب، کسرتی جسم، چوڑا سینا اور اس پر اسکا مسکرانے کا انداز، ساریہ نائک نے ستائشی نظر اسکے سراپے پر ڈالی اور پلٹ کر ابرو اچکائے۔
” میرا نام خیام سعید ہے، مجھے سافٹ وئیر انجینرنگ ڈیپارٹمنٹ میں جانا ہے۔”
خیام سعید بولا تو ساریہ نائک نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
” فالو می۔”
ادائے دلنشینی سے بولتی مڑی تو بھورے بال ہوا میں اڑتے اسکے پیچھے ہو لیے۔
خیام سعید اسکے پیچھے چلنے کی بجاِے اسکے ساتھ ہو لیا۔
ساریہ نائک کلاس میں جا کر سیٹ سنبھال گئی تو خیام نے کندھے اچکائے اور اگلی قطار میں بیٹھ گیا۔
ساریہ نائک کی نظر اسکی اٹھی گردن میں رک سی گئی۔
اس نے سر جھٹکا اور لیکچرار کی طرف متوجہ ہوئی۔
چبد د!وں کے مختصر وقفے میں میں خیام سعید اپنی وجاہت کے بل بوتے پر ساریہ نائک کے دل میں بس سا گیا تھا۔
” ایکسکیوزمی۔”
ساریہ نے کلاس سے نکلتے خیام کو پکارا اور تیز قدموں سے فاصلہ ناپتی ہوئی اس تک پہنچ گئی۔
” one Coffe plz.”
ساریہ نے فوراً سے کہا تو خیام کو شدید جھٹکا لگا۔
ساریہ نائک کی پوزیشنوہ بخوبی جان گیا تھا، وہ ایک امیر باپ کی لاڈلی بیٹی ہے۔
” سوری، ہماری کلاس میں بہت فرق ہے۔”
خیام نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا اور چلا گیا۔
ساریہ نائک پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔
عینا نائک پیلس کے لان میں چہل قدمی کر رہی تھی جب اسکی باس کی کال آگئی۔
عینا نے قدم اٹھائے اور باس کی طرف چلی گئی۔
” کوئی نئی خبر۔۔۔۔۔۔؟”
باس نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” وفا خیام، ساریہ کی بیٹی ہے۔”
عینا نے سرسری سا زکر کیا۔
باس اٹھ کے کھڑکی میں آ گئی۔
” ہممممم۔۔۔تمہارا باس بالاج نائک اسے قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔”
باس کچھ سوچتی ہوئی پلٹی اور اسکے سامنے سے گزر گئی۔
” تم اس بات کو لیک کردو، ہر چینل کی زینت بننی چاہیے یہ خبر۔”
تحکم سے کہتی چیس بورڈ کی طرف بڑھی تھی، ایک جانب سیاہ پیس تھے، دوسری جانب سفید، اس نے سفید پیس اٹھا کر دو سیاہ پیس گرا دیے۔
” بازی تو مجھے ہی جیتنی ہے، شہروز نائک، بالاج نائک اور ساریہ نائک سے۔”
دونوں ہاتھ چیس بورڈ کے اطراف میں رکھ کر جھکتی ہوئی بولی تھی، سیاہ رانی اس نے مارک کر دی تھی۔
” پیاری رانی ساریہ نائک ابھی تم سیو ہو۔”
سیاہ رانی سے مخاطب ہوئی اور ہنس کے پیچھے ہٹ گئی۔
عینا کو وہ نفسیاتی مریض لگی تھی۔
” گو اینڈ ڈو یوور ورک۔”
باس نے غرور سے گردن اکڑائے حکم دیا۔
” ایان ملک کو پتہ چل گیا تو میری گردن اڑا دے گا میم، اس کے لیے تو وہ اپنی فیملی تک کو چھوڑ چکا ہے۔”
عینا پریشانی سے بولی تھی، وہ لڑکی عمر میں اس سے چھوٹی تھی، لیکن خرافاتی دماغ عینا سے بڑا تھا۔
” انٹرسٹنگ۔”
وہ عجیب انداز میں ہنسی تھی۔
” تم ٹرپک سیلری لے رہی ہو اب، اتنا رسک تو بنتا ہے۔”
باس تیز لہجے میں رکھائی سے بولی تو عینا کو شدت سے احساس ہوا، وہ اس دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔
” میم اسکی پک دینی ہے یا ویسے ہی میڈیا کو میل کردوں۔”
عینا خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔
” تصویر مل جائے تو اچھا ہے، مجھے شام تک ہر حال میں یہ خبر سننی ہے۔”
باس نے اب کی بار قدرے سختی سے کہا تو عینا پلٹ گئی۔
ایان ملک کی گاڑی کا پیچھا کیا اور چھپ کر وفا کی تصویر بنا لی۔
فیک ایمیل آئی ڈی سے کیلگری کے تمام چینلز پر میل بھیج دیے۔
شام تک نائک فیملی وفا کے ساتھ ایک دفعہ پھر سے ہر چینل کی زینت بن چکی تھی۔
عینا نے اپنا کام مکمل کیا اور باس کو ڈن کا میسیج کر دیا، وفا سے بدلہ لینے کا موقع مل گیا تھا۔
وہ مسکراتی ہوئی اپنے گھر آگئی، تین گناہ سیلری ایک جاب پر مل رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کافی بیت گئی تھی، ایان اسے ابھی تک لیے مارکیٹ میں گھوم رہا تھا۔
” مسٹر ملک۔۔۔۔میں تھک گئی ہوں۔”
وفا تھکن زدہ لہجے میں سنجیدگی سے بولی۔
” تمہاری جگہ عنائیہ ہوتی تو پورا مال خریدنے لے بعد بھی نا تھکتی۔”
ایان اسے ڈپٹ کے بولا اور مال کے ایگزٹ کی طرف قدم بڑھائے۔
شاپنگ بیگز گاڑی میں رکھے ہی تھے جب میڈیا کا جم غفیر انکے ارد گرد اکٹھا ہو گیا۔
” مسٹر ایان ملک، ہم نے سنا ہے وفا، ساریہ نائک کی بیٹی ہے، پر یہ آپ کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔”
رپورٹر کے اندھا دھن سوال۔
ایان وفا کے آگے آگیا، رپورٹر سے مائک چھینا اور گہری نگاہیں اطراف میں ڈالیں۔
” وفا خیام میری بیوی ہے، اور بے شک یہ ساریہ نائک کی ہی بیٹی ہے۔”
مائک تنفر سے رپورٹر کی طرف اچھالا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر وفا کو اندر بٹھایا۔
ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی پارکنگ سے نکال لی۔
” وفا تم ٹھیک ہو۔؟”
ایان نےگاڑی ایک طرف روک کر اسکے گھبراہٹ زدہ چہرے پر نظر دوڑائی۔
وفا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ایان نے پانی کی بوتل اسکی طرف بڑھائی، وفا نے بوتل تھام لی اور گھونٹ در گھونٹ پانی اندر انڈیلا۔
” خود کو ہر سیچویشن کے لیے ریڈی رکھو، ساریہ نائک ایک بزنس وومین ہے، اسکے متعلق ہر بات پبلک ضرور ہوتی ہے ، تم تو پھر اسکی بیٹی ہو۔۔۔۔”
ایان قدرے نرم لہجے میں اور گاڑی سٹارٹ کر لی۔
ڈنر کا پروگرام کینسل کر کے وہ اپارٹمنٹ چلے آئے۔
” غلطی میری ہے مجھے تمہیں اسکے لیے ریڈی کرنا چاہیے تھا۔”
ایان بیگز صوفے پر رکھتے ہوئے بولا اور ٹی وی آن کیا۔
” بزنس وومین ساریہ نائک کی ایک اور بیٹی منظر عام پر آ گئی، جس کا نام وفا خیام ہے اور وہ نئے بزنس سٹار ایان ملک کی وائف ہیں۔”
اینکر اپنے مخصوص انداز میں بول رہی تھی، وفا نے مایوسی سے ایان کی طرف دیکھا۔
” اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے، اچھا ہے سب کو پتہ چل گیا، ورنہ پھر لوگ طرح طرح کے سوال اٹھاتے۔”
ایان اسکی پریشانی کم کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
” آپ کو بھوک لگی ہے تو کھانا بناوں۔؟”
وفا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بولی۔
” میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں۔”
ایان نے مسکراہٹ لبوں پر سجاتے اسکاچرخسار تھپتھپایا اور باہر نکل گیا۔
وفا نے گہرا سانس خارج کیا اور اپنے رخسار کو چھوا۔
ایان ملک کا لمس ابھی تک موجود تھا۔
” غصے میں رہنے والا ایان ملک اس قدر خیال رکھنے والا ہوگا، یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔”
وفا اپنی ہتھیلی کی لکیریں دیکھتے ہوئے بولی۔
” ایک دن میں ہی میری ڈھال بن گئے ہیں، امید ہے یہ فیصلہ میرے لیے بہترین ثابت ہوگا۔”
وفا شاپنگ بیگ لیے کمرے میں آگئی۔
تھوڑی دیر بعر ایان کھانا لے آیا تھا، وفا نے سرو کیا اور دونوں کھانے لگے۔
آپ اتنے کئرنگ لگتے تو نہیں ہیں۔”
وفا نے کھانا کھاتے ہوئے استفسار کیا۔
” کیوں۔؟”
ایان ہنسا تھا، سیاہ آنکھیں چمک اٹھیں تھیں۔
” پہلے تو آپ سڑیل اور کھڑوس ٹائپ لگتے تھے۔”
وفا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا، ایان اسے دیکھ کر ہنس دیا۔
” ہر کسی کے لیے تو کیئرنگ نہیں ہوا جاتا ناں ڈئیر وائف۔”
ایان نے ابرو اچکاتے ہوئے لو دیتے لہجے میں کہا تھا۔
وفا نے جھینپ کر رخ بدلا، دل کی دھڑکنیں شور مچانے لگیں تھیں، انہیں اتھل پتھل ہونے کو وجہ مل رہی تھی۔
” آج جتنا سٹریس مجھے ملا مسٹر ملک، آپ نہ ہوتےطتو شاید میں ڈپریس ہو جاتی۔”
دونوں اٹھ کر ٹیرس پر آگئے، رات کی ٹھنڈک پور پور میں سرائیت کر گئی۔
” شاید نہیں۔”
ایان نے اسکی نفی کی تھی، وفا نظر اٹھائے اسے دیکھ کر رخ بدل گئی۔
” اللہ نے مجھے تمہاری ہمت کا وسیلہ بنایا ہے تو میں کیسے نہیں ہوتا، تم ہی کہتی یو ناں، اللہ جو بھی کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔”
ایان نے اسکا مکھڑا نظروں میں سمویا اور ریلنگ سے ٹیک لگا کر ہاتھ سینے پر باندھ لیے۔
” بلکل۔۔۔۔اللہ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا، انسان کا ایمان کامل ہونا چاہیے۔”
وفاسر جھکائے بولی تھی۔
ایان نے سر اثبات میں ہلایا، اور آسمان کی چادر پر ٹمٹماتے ستاروں کو دیکھا۔
وفا ٹیرس پر کہنیاں رکھے ہوئے تھی۔
” آپ نے زوہیب سے یہ کیوں کہا تھا، ہماری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔؟”
وفا نے یاد آنے پر ایان کی سمت دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
” ایسے ہی طنزاً کہا تھا۔”
ایان نرمی سے بولا اور ٹیک چھوڑ دی۔
وفا نے سر اثبات میں ہلادیا۔
” گڈ نائٹ۔”
ایان نے جماہی روکی اور کمرے میں چلا گیا۔
وفا نے دور آسمان کی سمت دیکھا اور تبسم اسکے گلابی لبوں پر رقص کرنے لگی، سنہری بھورے بال کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے ستاروں کو دیکھا کہ شاید خیام سعید اسے نظر آ ہی جائیں۔
اپنی حرکت پر خود ہی مسکرا کر وہاں سے ہٹ کر کمرے میں آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی کے خوبصورت لان میں سنگی بینچ پر کتاب گود میں رکھے وہ انہماک سےنوٹس بنا رہا تھا، سورج کی کرنیں اسکے سیاہ بالوں سے ٹکراتیں بالوں پر چمک رہیں تھیں، ارد گرد سٹوڈنٹس خوش گپیوں میں مصروف تھے، وہ سب سے بے نیاز مگن انداز میں کام کر رہا تھا۔
ساریہ نائک اسکے ساتھ آ بیٹھی تھی۔ کتنے ہی لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے، خیام سعید نے نظر ڈالنا بھی مناسب نا سمجھا۔
” بزی ہیں آپ۔؟”
ساریہ نائک مترنم لہجے میں نرمی سے بولی، اسکا غرور فلوقت ناپید تھا۔
خیام نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا، ریڈ شرٹ اور وائٹ جینز پہنے بال کھولے میک اپ سے بے نیاز چہرہ ، وہ خوبصورتی کی مورت لگ رہی تھی، شفاف رنگت گویا نرمی کی حد تک نرم تھی۔
” ییس۔”
خیام نے نظروں کو حد میں کیا اور دوبارہ کتاب بینی کی کوشش کرنے لگا، ساریہ نائک کا غیر معمولی حسن اسکا ارتکاز توڑ چکا تھا۔
” کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟۔”
ساریہ نے اجازت طلب لہجے میں بولی
خیام فقط مسکرا دیا، حسن کی کند چھری کا وار گہرائی سے لگا تھا۔
ساریہ نائک کھل اٹھی تھی۔
کلاسز کا آغاز ہوا تو خیام کلاس کی طرف بڑھ گیا۔
ساریہ نے اسے دور جاتے دیکھا اور بیگ لیے یونی کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی، گاڑی میں بیٹھتے ہی تینوں گاڑیاں نکل گئیں، ساریہ ٹائٹ سیکورٹی یونی آتی تھی۔
خوبصورت محلوں جسے ولاء کے پورچ میں گاڑیاں رک گئیں، گارڈ
نے بڑھ کے دروازہ کھولا تو وہ شان سے چلتی اندر آگئی۔
” مائی پرنسس۔”
لقمان نائک اسے دیکھ کر چہکے تھے۔
” مائی کنگ۔”
ساریہ لقمان کے گلے لگتی ہوئی بولی۔
لقمان نائک کی جان بستی تھی، اپنی لاڈلی اکلوتی بیٹی میں۔
” کنگ آئی لائک سم ون۔”
ساریہ باپ کی گود میں سررکھتے ہوئے اشتیاق سے بتانے لگی۔
” کون ہے وہ۔؟”
لقمان نائک نے سنجیدگی مگر نرم لہجے میں پوچھنے لگے۔
” خیام سعید، فرام پاکستان۔”
ساریہ اٹھتے ہوئے بولی اور رخ انکی طرف کیے بیٹھ گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...