رات گئے وہ لوگ گھر پہنچے تھے تھکن سے سب کا برا حال تھا اس لئے بنا رکے سب نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا تھا
وہ بھی تھکی ہاری سی کمرے میں آئی تھی تو چینج کر خود کو ریلکس کیا تھا تبھی وہ اندر آیا تھا۔۔
آنسہ نے ایک کڑوی سی نظر اس پر ڈالی اور تکیہ چادر سنبھالے صوفے کا رخ کیا تھا۔۔۔۔
نخرے تو دیکھو جیسے کوئی پری ہو۔۔
وہ سوچتا سر جھٹکتا چینج کرنے گیا تھا
ایسے رشتے بھلا کب پائیدار ہوتے ہیں جو یوں شرطوں پر مبنی ہوں یہ تو ہمارے لوگ ناجانے کہاں سے سیکھ کر آجاتے ہیں ایسی واہیات باتیں،۔۔
کروٹ لیتے اس نے دل میں سوچا تھا۔۔
وہ دادو اور کنزہ سے دل سے متاثر ہوئی تھی وہ دونوں تھی ہی ایسی حیات صاحب نے بھی جس طرح اسے پیار دیا اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ان میں سے اسے کامران صاحب کی خوشبو آئی تھی۔۔۔۔
اس واقعے نے اس سے واقعی اسکی ساری اکڑ اسکا غصہ سب لے لیا تھا آج اس نے خود کو ان لڑکیوں کی جگہ رکھا تھا جن کے ماں باپ نہیں ہوتے اور وہ دوسروں کے در پر پڑی ہوتی ہیں کسی دوسرے کا بوجھ سنبھالنا آسان نہیں ہوتا اور ہر لڑکی مضبوط بھی نہیں ہوتی اس کے قدم مضبوط نہیں ہوتے کوئی اسکا پرسان حال نہیں ہوتا ۔۔۔
یہاں یتیموں کے حق کے لئے بھلا کب کوئی بولا ہے۔۔
اس کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا اسے کمزور سمجھ وہ اسکے ساتھ یہ معاہدہ کرگیا وہ کمزور نہیں تھی مگر نور کی خاطر اسے یہ سب کرنا پڑا اور فائدہ کیا ہوا اس نے تو بس ماں کی محبت چاہی تھی مگر یہاں تو اسے ایک محبت کا بول تک سننے کو نا ملا اس نے بس سب اللّٰہ پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی۔۔
بیڈ پر ابراہیم کو خواب خرگوش میں دیکھ وہ اٹھ کر فریش ہوئے باہر آئی تھی پورے گھر میں سناٹہ چھایا ہوا تھا
وہ چلتی ہوئی لان میں آئی تھی صبح کا منظر بے حد حسین تھا پرندوں کی چہچہاہٹ عجیب سا سرور بخش رہی تھی
پاؤں کو چپل کی قید سے آزاد کرتی وہ ننگے پیر گھاس پر قدم بڑھانے لگی تھی
تازگی کا احساس رگ وپے پر چھایا تھا
کتنا خوبصورت بنایا تھا اللّٰہ نے دنیا کو۔۔۔
اپنے پیچھے کھٹکے کی آواز پر وہ ایک دم مڑی تھی سامنے دادو کو دیکھ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو وہ دھیمے قدم چلتی اس کے پاس آئی تھیں
کیا بات ہے اتنی جلدی اٹھ گئیں گڑیا؟؟
جی دادو بس آنکھ کھل گئی تو یونہی باہر آگئی۔۔
اس نے مسکرا کر انکا ہاتھ تھاما اور پاس پڑی چئیر پر بٹھایا۔۔
ایک راز کی بات بتاؤں؟؟ ان کے قدرے جھک کر کہنے پر اس نے انہیں دیکھ سر ہلایا تھا
جب ابراہیم نے بتایا نا کہ اس نے شادی کرلی تو مجھے بڑا غصہ آیا پھر دل میں عجیب طرح کے وسوسے کہ ناجانے کیسی لڑکی پسند کرلی مگر تمہیں دیکھ دل ایک دم پرسکون ہوگیا ہے برسوں پہلے ہمارا گھر شاد و آباد تھا پھر حیات چلے گیا تو ہم دونوں ساس بہو مل کر رہتے۔۔
اسکی موت نے ایک خلا سا پیدا کردیا لیکن تمہیں دیکھ ناجانے کیوں یہ دل کہتا کہ اب کوئی ہے جو اس کے جیسا ہے جو کہ گھر سنبھال لے گا ہمیں سنبھال لے گا
ان کی بات پر اس نے ان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی
میں پوری کوشش کرونگی کہ اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی نا کرو ایک عرصہ میں نے اپنی ضد میں گزارہ ہے زندگی کبھی مہربان ہی نہیں رہی سرد و گرم تو چلتے ہی رہے ماں کی محبت کو ہمیشہ ترسی مگر آپ کے پاس سے جو گرمائش ملی شاید سب کو اپنی ماؤں سے ایسی ہی ملتی ہے۔۔
ان کے ہاتھ چومتی وہ بولی تو انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا
میں جانتی ہوں سوتیلی ماں آخر کو سوتیلی ہوتی ہے میں نے محسوس کیا اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نے ہمیشہ خود کو مضبوط رکھا بس میرے گھر کو بھی ایسے ہی مضبوط رکھنا۔۔
ان کے لہجے میں مان تھا اب وہ انہیں کیا بتاتی یہ تو بس چند مہینوں کا معاہدہ تھا۔۔۔
میں پوری کوشش کرونگی۔۔ اس نے بولنے پر انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا اور یہ منظر کھڑکی پر کھڑے ابراہیم نے بڑے سڑے دل سے دیکھا تھا۔۔۔
دن بہت تیزی سے گزر رہے تھے ان کی شادی کو ایک مہینہ ہو چلا تھا اور اس ایک مہینے میں اس نے حیات مینشن کو مکان سے گھر بنایا تھا وہ ذہین تھی سگھڑ تھی اوپر سے محبت و توجہ نے اسکا دل خوبصورت کردیا تھا وہ ہر کام صرف دادو کی خوشی کے لئے کرتی تھی اور ان کی طرف سے ملی ستائش اس کا سیرو خون بڑھا دیتی تھی۔۔۔
ابراہیم کی اسے اتنی پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ شادی کے چوتھے دن ہی اپنے کام کے سلسلے میں دبئی گیا ہوا تھا۔۔۔
کنزہ بھی کچھ دن پہلے ہی واپس لوٹی تھی اور اس دوران اس کی کافی دوستی بھی ہوگئی تھی
ابھی بھی اکثر ہی وہ وڈیو کال پر موجود ہوتی تھی۔۔
اس نے دادو سے کافی چیزیں سیکھی تھیں اور اس عرصے میں وہ ایک بار بھی گھر ملنے نہیں گئی تھی۔۔
حیات صاحب تو اسے دیکھ کر پھولے نہیں سماتے تھے۔۔
وہ روز ان کی فرمائش پر ناجانے کیا کیا بنا رہی ہوتی تھی تو کبھی دادو کے ساتھ اکثر کبھی کوئی کہانی سن رہی ہوتی تو کبھی کچھ نیا سیکھ رہی ہوتی۔۔۔
زندگی ایک دم حسین ہوگئی تھی وہ بہت خوش رہتی تھی مگر پھر ایک دم اداسی کا غلبہ اس پر چھا جاتا کہ یہ سب وقتی ہے سب ختم ہو جائے گا ایسے میں اسکا دل ڈوب جاتا تھا
مگر پھر نئے سرے سے خود کو مضبوط کرتی وہ خوش رہنے کے لئے کوشاں رہتی تھی۔۔۔
اس وقت وہ سب لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے تبھی دروازہ کھلا تھا اس نے گھر میں قدم رکھا تو گانوں میں ہنسی کی آواز آئی اس نے رخ پھیر کر آواز کی سمت دیکھا تو لمحے کو مبہوت ہوا تھا
کائی رنگ کی فراک میں بالوں کی فرنچ باندھیں وہ ہنستی ہوئی بت تحاشہ حسین لگ رہی تھی
وہ بس یک ٹک اسے دیکھتا رہ گیا عجیب سی کشش تھی یا کیا وہ سمجھ نا سکا سمجھ آیا تو اپنی بےخودی پر وہ خود کو ملامت کرتا اندر آیا تھا
اسلام وعلیکم۔۔۔
اس کی آواز پر سب اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے
دادو تو خوشی سے ایک دم اسکے پاس آئی تھیں
آرام سے دادو۔۔۔وہ ناچاہتے ہوئے بھی انہیں ٹوک گئی۔۔
کچھ نہیں ہوتا گڑیا تیری دادو کو۔۔ اے میرا شہزادہ آیا ہے۔۔
میرا بچہ۔ابراہیم کا ماتھا چومتی وہ مسکرائی تو وہ بھی مسکرا دیا
اتنا وقت لگا دیا۔۔
بس دادو کام بہت تھا نا۔۔
جا آنسہ ابراہیم کے لئے کافی بنا کر لا۔۔ ان کے بولنے پر ناچاہتے ہوئے بھی وہ اٹھی تھی
اس کا سڑا چہرہ دیکھ ابراہیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی
دادو بھوک بھی بہت لگی ہے پلیز کچھ فریش بنوائیں نا۔۔۔
اور اندر کی طرف جاتی آنسہ اس کی فرمائش پر کھول کر رہ گئی تھی۔۔
آنسہ۔۔۔ انہوں نے اسے پکارا تھا
سن لیا ہے دادی لاتی ہوں۔۔
کچھ میں آکر اس نے پاستہ بوائل کے لئے رکھا تھا کھانا ملازمہ نہیں بناتی تھی بلکہ یہ زمہ داری اس نے لی تھی۔۔
پاستہ کے ساتھ اس نے کباب فرائی کئے اور کافی ریڈی کرتی وہ باہر آئی تو وہ سکون سے بیٹھا حیات صاحب سے کوئی بات کررہا تھا کپڑے چینج تھے جسکا مطلب تھا وہ فریش ہوچکا ہے۔۔
سب کو چیزیں سرو کرتی وہ دادو کے پاس آکر بیٹھی تھی
انہوں نے بغور ان دونوں کا دیکھا تھا دل میں ایک خیال سا گزرا تھا فل وقت اس خیال کو جھٹک وہ چائے پینے لگی مگر دماغ کئی تانے بانے بن رہا تھا۔۔
آج گرمی زیادہ تھی اوپر سے کالج سے بھی دیر ہوگئی تھی تبھی اسے لگا کوئی اسکے پیچھے ہے۔۔
وہ ایک دم چونک کر پیچھے مڑی تھی مگر پیچھے کسی کو نا پاکر اسے عجیب سا احساس ہوا وہ آگے بڑھی تبھی پھر اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ پاکر اس کے قدموں میں تیزی آئی تھی۔۔۔
اللّٰہ۔۔۔ہلیز مدد۔۔۔ تیز قدموں سے بھاگتی وہ اپنے محلے میں داخل ہوئی تھی۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا
پھولی سانسوں کے درمیان میں وہ گھر میں داخل ہوئی تھی
نور کیا ہوا خیریت سانس کیوں پھول رہا؟؟؟
اسے ہانپتے دیکھ زلیخا نے تعجب سے اسے دیکھا تھا
کچھ نہیں اماں گرمی بہت ہے نا بس تیز چل کر آئی تو۔۔۔
وہ انہیں بتا نا سکی کہ اسے مسلسل یہ لگ رہا تھا کہ کوئی اس کے پیچھے ہے۔۔۔۔
چل منہ دھو کر آ کھانا لگاتی میں ۔۔۔
نہیں آپ بیٹھو میں لگا لونگی۔۔ وہ کہتے کے ساتھ اندر بڑھی تھی
دل ابھی تک زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
تو پاگل ہے نور ہوسکتا ہے تیرا وہم ہو۔۔۔
دل کو سنبھالتی وہ کچن میں آئی کھانا نکال کر کمرے میں آگئی جہاں زلیخا بیٹھی ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی
اللّٰہ جانے کیا ہوگا اس ملک کا۔۔
کیا ہوا اماں؟
بھئی ایک لڑکی گھر سے بھاگ گئی بھائی باپ نے قتل کردیا
بس یہ لڑکیاں بھی نا ڈوب کر نہیں مرتیں ایک اس ناگن نے چاند چڑھایا۔۔
اماں۔۔۔ تم ہر بار اسے بیچ میں کیوں لے آتی ہو سب جانتے ہیں وہ ایسی نہیں ہے۔۔۔
بس کر تو زیادہ حمایتی نا بنا کر۔۔۔ اسے جھڑکتی وہ کھانے میں مصروف ہوگئی جبکہ وہ بس انہیں دیکھ کر رہ گئی۔۔۔
آنسہ بیٹا زرا میرے کمرے میں آنا۔۔۔ وہ ملازمہ کے ساتھ کام کروا رہی تھی دادو کے پکارنے پر سر ہلاتی وہ ان کے کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر بیٹھی تھیں
آجاؤ بیٹا۔۔۔ ان کے بولنے پر وہ انکے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔
ایک بات پوچھوں گی سچی سچی بتانا۔۔
جی دادو۔۔
بیٹا ابراہیم اور تمہاری لڑائی ہوئی ہے یا کوئی اور بات؟؟ میں جانتی ہوں یہ ذاتی سوال ہے
مگر۔۔۔
نہیں دادو ایسا نہیں ہے ہم کیوں بھلا لڑیں گے۔۔۔
تو پھر کیا بات ہے کوئی نئے شادی شدہ جوڑے والی بات ہی نہیں ہے وہ اپنی دنیا میں رہتا تم اپنی۔۔۔
تم بھی بلکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ ابھی شادی ہوئی ہے
بس وہ تو ایسے ہی مجھے یوں تیار رہنا پسند نہیں ہے دراصل شروع سے عادت نہیں تو۔۔۔
عادت ہے نہیں تو بناؤ نا بیٹا یہ کچھ سامان ہے تمہاری ساس کا اب اس پر بس تمہارا حق ہے ۔۔
پر دادو یہ بہت قیمتی۔۔۔سامنے رکھی جیولری کو دیکھ وہ جھجھکی تھی۔۔۔
قیمتی تب ہوگا جب تم یہ پہنو گی چلو شاباش اسے رکھو۔۔
جی وہ سامان اٹھا کر کمرے میں آئی اور اسے لاکر میں رکھ کھڑکی کر آگئی
حیات صاحب کا وقت آج کل آفس میں ہی گزرتا تھا دراب اور کنزہ سے اکثر ان کی بات ہوتی رہتی تھی۔۔
ابراہیم سے تو بمشکل ہی اسکی ملاقات ہوتی تھی اور اسی میں ان کی عافیت تھی ورنہ تو دونوں ہی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔۔۔
باہر کا موسم آج بہت خوبصورت ہورہا تھا شاید بارش ہونے والی تھی کچھ سوچ وہ واپس سے کچن میں آئی تھی
رشیدہ ماسی مجھے بیسن نکال کر دیں۔۔
انہیں بولتی وہ باقی سامان نکالنے لگی
حیات صاحب تو آج خوش ہوجاتے وہ کھانے کے شوقین تھے اسکا اندازہ تو اسے شروع میں ہی ہوگیا تھا۔۔
وہ تن دہی سے اپنے کام میں لگے تھی جبکہ رشیدہ ماسی برابر اسکی مدد کررہی تھیں
اس نے شاید ہی کبھی اتنے شوق سے کوئی کام کیا تھا
تب اس کو ایسی محبت بھی کب ملی تھی یہاں تو ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا سوائے اس پاگل آدمی کے۔۔۔
کنزہ دراب بھائی بھابھی دادو اور بابا ہاں وہ اسکے بابا تو تھے جیسے کامران صاحب تھے ویسے ہی حیات صاحب تھے پہلے وہ اکثر یہ سوچ کر اداس ہوجاتی تھی کہ وہ یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی مگر اب اس نے سوچنا چھوڑ دیا تھا وہ خود میں آئی تبدیلیوں کو بھی اچھے سے محسوس کررہی تھی اس جگ لہجے میں نرمی آگئی تھی مزاج میں ٹہراؤ آگیا تھا
وہ خوش رہنے لگی تھی کہاں اسکا گھر میں رہنے کا دل نہیں کرتا تھا اور اب اسکا یہ گھر چھوڑنے کا دل نہیں کرتا تھا۔۔
کبھی وہ کچھ کر رہی ہوتی تو کبھی کچھ۔۔
کبھی دادو کے ساتھ بیٹھ ماضی کا کوئی قصہ سن رہی ہوتی تو کبھی حیات صاحب کے ساتھ مل کر کچن میں کچھ ٹرائے کر رہی ہوتی۔
زندگی حسین ہوگئی تھی اور یہ سچ ہے اپنوں کے ساتھ زندگی بے حد حسین ہوجاتی ہے وہ تو ابراہیم کو دیکھ کر حیران ہوتی کہ یہ کھڑوس بابا کو بیٹا اور دراب بھائی کا بھائی ہے۔۔۔
ویسے ابراہیم مجھے لگتا تمہیں مزید اپنے کام کو آگے بڑھانا چاہیے تمہارا کیا خیال ہے حاشر؟؟
بلکل خالو میں نے بھی ابراہیم کو یہی مشورہ دیا ہے کہ ہمیں ایک بوتیک اسلام آباد میں بھی اوپن کرنی چاہیے وہاں کے لوگ اکثر آرڈر پر ہمارے ڈریس بک کرتے تو اس کا بھی یہی مشورہ ہوتا کہ ایک برانچ اسلام آباد میں بھی ہونی چاہیے
پر بابا میں اکیلے وہاں سب کیسے ہینڈل کرونگا۔۔
اکیلے کیوں آنسہ بٹیا ہے نا ہماری۔۔
اس کو تو اس کام میں کافی مہارت ہے ہم اکثر ہی ڈسکس کرتے ہیں
ہاں خالو بھابھی کو تو یہ کام آتا ہوگا ان کی امی بھی کافی ایکسپرٹ تھی ہیں نا ابراہیم۔۔
حاشر نے بات بولتے اس کی تائید چاہی اس نے اسے گھوری سے نوازہ تھا
یار خالو میں زرا راؤنڈ پر سے آتا ہوں آپ لوگ بات کرو تب تک۔۔۔
حاشر نے وہاں سے کھسکنا ہی ضروری سمجھا
کیا بات ہے ابراہیم میرا مشورہ پسند نہیں آیا؟؟ ان کے بولنے پر وہ سٹپٹایا تھا
نہیں بابا ایسی تو کوئی بات نہیں ہے آپ کو کیوں ایسا لگا؟؟
مجھے ہی نہیں ہم سب کو لگتا کہ تم آنسہ کے ساتھ خوش نہیں ہو کوئی ایسی بات ہمیں نظر ہی نہیں آتی ۔۔
ارے بابا ایسی بات نہیں ہے بس آپ جانتے تو ہیں آج کل کام کتنا لوڈ ہے۔
کام چاہے کتنا ہی کیوں نا ہو بیٹا انسان کو گھر سے لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے
ایسے تو تمہارا رشتہ خراب ہو جائے گا جو کم از کم ہمیں بلکل اچھا نہیں لگا گا وہ بہت پیاری بچی ہے۔۔
پیاری بچی کے نام پر اسکی آنکھیں پھیلیں تھی اور اسے دیکھ انکا قہقہ گونجا تو ایک دم سیدھا ہوا تھا
بتایا تھا حاشر نے کیسے ہوئی تھی تم لوگوں کی پہلی ملاقات۔۔
منحوس کمینہ۔۔۔ اسے حاشر پر رج کر غصہ آیا تھا
ارے بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں اب سے کوشش کرونگا کہ اسے ٹائم دوں۔۔۔
وہ مسکرا کر بولا تو وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کھڑے ہوئے تھے
کام نبٹالو پھر ساتھ گھر چلتے آج تو موسم بھی بارش کا ہورہا ہے۔۔
جی بابا۔۔
آپ یہاں بیٹھیں میں بس راؤنڈ لگا کر آتا پھر چلتے ہیں۔۔
انہیں بول کر وہ باہر نکلا تو وہ کھڑکی پر آکر کھڑے ہوگئے
ماتھے پر سوچ کی لکیریں تھیں جیسے کچھ چل رہا ہو ان کے دماغ میں۔۔۔
وہ سب گھر پہنچے تو آنسہ نے لان میں ہی سارا ارینجمنٹ کیا ہوا تھا
حیات صاحب تو سب سے پہلے جاکر بیٹھے تھے جبکہ دادو پہلے ہی وہاں موجود تھیں
یہ بڑا اچھا کام کیا بچی نے قسم سے بڑا دل تھا
ٹیبل پر رکھے سموسے پکوڑے کچوری دیکھ وہ تو خوش ہی ہوگئے تھے
بابا یہ سب آپ کو نہیں کھانا آپ کے لئے الگ سے کم آئل میں بنایا ہے آپ وہ کھائیں گے صحت کو لے کر کوئی کمپرومائز نہیں۔۔
ابے بھئی۔۔۔وہ سخت بیزار ہوئے تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور ابراہیم نے پہلی بار اسے ہوں غور سے دیکھا تھا شاید
بس پتر تیری ہی بیوی ہے بعد میں دیکھ لینا۔۔۔ حیات صاحب کے چھیڑنے پر وہ ہوش میں آیا تھا
ایسی بھی بات نہیں بابا۔۔وہ منمنایا تھا
اسے کچھ دن پہلے آنسہ سے اپنا معاہدہ یاد آیا تھا
جب وہ کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پر بیٹھی کوئی کام کر رہی تھی اس نے اسکا ہاتھ تھام اسے کھڑا کیا تھا
تم سمجھتی کیا ہو میرے بابا اور دادو کو اپنی طرف کرلو گی۔۔
ہاتھ چھوڑو میرا۔۔ اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنے کو وہ پھڑپھرائی تھی
کیا چل رہا ہے ہاں کیا چاہ رہی ہو؟؟
میں کیا چاہ رہی تم بتاؤ تم کیا چاہ رہے ہو کب تک مجھے یوں تمہارے گھر میں رہنا پڑے گا ہاں کب تک یہ ڈھونگ کرنا پڑے گا
کیا مطلب ہے اس ڈھونگ کا ہاں جب تک میں چاہوں گا تمہیں یہاں رہنا پڑے گا۔
ایسا سوچنا بھی مت صرف چند دن اور میں یہاں سے بہت دور چلی جاؤنگی مگر ایک حقیقت تمہیں آج ضرور بتا دوں
تم ایک ایسے انسان ہو جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں جو دوسروں کے اشاروں پر ناچتا ہے
اپنا دماغ استمال کرو ورنہ نقصان اٹھاو گے۔۔۔
مجھے تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں
وہ۔ سخت جھنجھلایا تھا
ضرورت نہیں تو میرے معاملات میں بولنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔
تم میرے گھر والوں سے دور رہو۔۔۔
انہیں بولو مجھ سے دور رہیں ۔۔۔۔
میں نہیں بولوں گا۔۔۔ وہ جزر ہوا تھا
تو پھر چپ رہو نا تم میرے معاملات میں بولو نا میں بولو نگی۔۔۔۔
اپنی بات کرتی وہ ٹھک ٹھک کرتی کمرے سے ہی نکل گئی
تو یہ طے ہے تو ان لڑکیوں کے آگے لاجواب رہے گا ۔۔
بالوں کو نوچتے اس نے خود کو لعنت بھیجی تھی تب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الجھتے ہی نہیں تھے
اسے بھی ویسا اپنا سکون بڑا پیارا تھا۔۔۔
وہ کافی دن سے محسوس کر رہی تھی کہ کوئی کالج سے اسکا پیچھا کرتا تھا اور گھر تک آتا تھا اسے اب خوف محسوس ہونے لگا تھا وہ پیچھے مڑ کر دیکھتی تو کوئی موجود نہیں ہوتا تھا اسکا کالج جانے کا دل نہیں کرتا تھا مگر پھر زلیخا کو کیا جواب دیتی ان کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو وہ انہیں ٹینشن دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔
آج بھی وہ کالج سے گھر کے لئے نکلی تو اسے محسوس ہوا کوئی پیچھے ہے مگر اگنور کئے چلتی رہی
موسم ابر آلود تھا ہوا پوری رفتار سے چل رہی تھی تبھی اسے اپنے عقب سے آواز آئی تھی
نور۔۔۔۔۔
گھبرا کر وہ پلٹی تو سامنے ایک لڑکے کو دیکھ وہ ڈری تھی
یار ڈرو نہیں مجھ سے کیسا ڈر؟؟ وہ کوئی پچس چھبیس سال کا خوبرو سا لڑکا تھا
اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو وہ ڈر کر تقریباً بھاگی تھی۔۔
بھاگتے بھاگتے سانس پھولا تھا مگر وہ رکی نہیں۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے پیچھے کوئی بھوت لگ گیا ہو
گھر پہنچ کر اسنے پیچھے دیکھا تو اس کی جان ہتھیلی میں آئی تھی وہ لڑکا وہاں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اسکے دیکھنے پر ہاتھ ہلایا تھا
منحوس ذلیل۔۔۔ گھر میں قدم رکھتے ہی اس نے درازہ ٹائٹ سے بند کیا تھا دل پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تیار تھا
کاش میں آنسہ جیسے مضبوط ہوتی تو آج اس انسان کو ٹھیک ٹھاک سبق سیکھاتی۔۔۔
ٹھیک ہی کہتی تھی آنسہ ایک لڑکی کو اتنا مضبوط تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کرسکے اپنا دفاع کرسکے خود کو دنیا کی غلیظ نظروں سے محفوظ رکھ سکے جو لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں لوگ بھی انہیں کو ٹارگٹ بناتے ہیں
ماں باپ کو بچپن سے ہی بچیوں کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے تاکہ باہر کہ یہ آوازہ کتے انہیں ڈرا نا سکے۔۔
مجھے ہمت کرنی ہوگی مجھے نہیں ڈرنا۔۔
وہ خود کو ہمت دے رہی تھی مگر جانتی تھی وہ کبھی اتنی بہادر نہیں بن سکتی۔۔۔۔