(Last Updated On: )
ڈیڈ اسکا کچھ پتا چلا یا نہیں”انس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا”فلحال تو کچھ نہیں مگر جلد پتا چل جائے گا “وجاہت نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا”کب آخر کب پتا چل جائے گا جب بال ہمارے کورڈ سے نکل جائے گی تب”وہ غصے سے چلایا”ریلیکس سن اپنا ٹیمپر لوز کرنے کی ضرورت نہیں”وجاہت نے انہیں سمجھانا چاہا “آپ جانتے ہیں ڈیڈ یہ سب اتنا آسان نہیں صرف ایک بار وہ میرے ہاتھ لگ جائے وہ حشر کروں گا اسکا کہ خود سے ہی نظریں نہیں ملا پائے گی”اسنے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اس کی آنکھوں کا خمار با آسانی پڑھ سکتی تھی۔وہ اسے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ انکا سیل فون بج اٹھا۔
“ہاں کچھ انفورمیشن ملی کہاں ہے وہ”انہوں نے کال ریسیو کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا”کہاں۔۔۔کیا کہا وہ یہیں استنبول میں ہے گریٹ”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تو انس جو رخ موڑے کھڑا تھا چلتا ہوا ان کی طرف آیا جو اب فون بند کر رہے تھے “میں آج ہی استنبول جا رہا ہوں “اسنے کہا “کالم ڈاون سن وہ ہماری مٹھی میں ہی ہے مگر یوں جلد بازی میں گیم ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ہمیں سب کچھ پلین کرکے اسے قید کرنا ہے اور پھر تمہارا ہی کھلونا ہے وہ چاہے جیسے مرضی کھیلو یا توڑ دو اٹس اپ ٹو یو”انہیوں نے مسکراتے ہوئے اسکا گال سہلایا تو وہ بھی مسکرا دیا”بلکل میری چیز ہے میں میرے اختیار میں ہے چاہے سنواروں چاہے برباد کروں آخری بار تو بخش دیا تھا اس بار ہر غلطی کی سزا سود سمیت وصول کروں گا اسکے باپ کو بھی ساتھ ہی ٹھکانے لگا دوں گا بیوقوف انسان “کہتے ہوئے دونوں نے بلند آواز میں کہکا لگایا ۔مگر آخری جملے نے اندر آتے شخص کے قدم زنجیر کر دیے تھے۔
********
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آخر وہ کیا کرے ممی اس پر دباو ڈال رہیں تھی کہ وہ عائشہ سے منگنی کر لے اور ایک ماہ بعد انکی شادی کر دیں “آخر تم مان کیوں نہیں جاتے عرشمان۔۔عائشہ میں برائ ہی کیا تم جانتے ہو جن لڑکیوں کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں بہت مشکل سے ہی کوئ ان سے شادی کے لیے رضامند ہوتے ہیں اس معصوم کا قصور ہی کیا ہے۔۔”انہیوں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا “ممی عائشہ کا کوئ قصور نہیں مگر کیا میں اسے کبھی خوش رکھ پاوں گا عائشہ بہت اچھی ہے مگر۔۔۔”اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا جواز پیش کرے وہ دو سال سے انہیں انکار کرتا آیا تھا اس امید سے کہ شائد اسکی زندگی لوٹ آئے اسے معاف کر دے وہ رات میں استنبول میں در بدر پھرتا کہ شائد وہ اسے کہیں مل جائے نیند اسکی انکھوں سے بہت عرصہ ہوا دور جا چکی تھی۔
“عرشمان اب اسکی تلاش چھوڑ دو اسنے لوٹنا ہوتا تو ضرور پلٹتی کب تک خود کو اور مجھے اذیت دو گے تمہاری ماں ہوں ہر شب تمہیں اسکی یاد میں بکھرتا اب نہیں دیکھ سکتی عائشہ بہت سمجھدار ہے وہ تمہارے لیے بہت بہترین ہم سفر ثابت ہوگی”جیسے آپکی مرضی”کہتے ہوئے وہ اپنے روم میں چلا گیا اس میں وہاں کھڑے رہنے کا مزید ضبط نہیں تھا
*****
وہ دونوں اب بلکل تیار ہو چکی تھی فریشہ نے سی گرین کلر کی شرٹ اور ساتھ ٹی پنک کلر کا ٹراوزر پہنا تھا جس پر باریک نگوں کی لائننگ تھی اور ہور نے نیٹ کا وائٹ فراک پہن رکھا تھا اور ساتھ شمری دوپٹہ جس پر پرلز لگے تھے۔ ساتھ وائٹ ہیلز دونوں نے بہت نفاست سے اسے پن اپ کیا اور اپنے چہرے کے گرد نقاب کیا میک اپ کے طور پر اسنے صرف کاجل اپلائ کیا تھا۔”حور آ بھی جاو یار اتنا ٹائم ہو چکا ہے “فریشہ نے اس سے کہا”بس آ گئ”
وہ دونوں نو بجے کے قریب مرمرا ہوٹل پہنچی۔ ہوٹل کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اینٹرینس پر کچھ لوگوں نے انکا ویلکم کیا ائیر کنڈیشنر ہالز بیک گراونڈ میں سوفٹ میوزک پلے کیا گیا تھا۔ لڑکیاں ایک دوسرے سے مسکرا کر باتیں کر رہیں تھی۔ سٹیج کو بھی بہت خوبصورتی سے ربنز اور فلاورز سے سجایا گیا تھا “آو تمہیں انکی منگیتر دکھاتی ہوں “فریشہ اسے کچھ آگے لے گئ۔ سٹییج پر بیٹھے دونوں وجود کی صورتیں دیکھ کر اسکا تو جیسے سر چکرا گیا تھا کیا دنیا اتنی گول اور اتنی چھوٹی کہ جنہیں ماضی کے ادھورے صفحات پر ہم چھوڑ آئیں وہ یوں ہمارے روبرو آجاتے ہیں۔۔۔۔
اسنے پاس پڑی کرسی کا سہارا لیتے ہوئے خود کو بامشکل سنبھالا ورنہ سامنے موجود منظر نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ یعنی اگر عائشہ عرشمان سے انگیجمنٹ کر رہی ہے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ۔۔۔اور اس سے آگے اسکی سوچ کے دریچے مقفل ہونے لگے۔”اوگوڈ یعنی ریحان کی ڈیتھ ہو چکی ہے مائے گڈنیس عائشہ پر کیا بیتی ہوگی مجھے اب مزید اسکی زندگی میں دخل نہیں دینا چاہیے اسکا بھی حق ہے خوشیوں پر مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔اسکی کاجل سے لبریز نگاہیں پانیوں سے بھرنے لگیں۔
عرشمان اب سٹیج سے اتر کر ہال میں مہمانوں سے مل رہا تھا۔وہ ایگزٹ ڈور کی طرف بڑھی ہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی پرکشش آواز نے اسکے قدم زنجیر کر دیے”سنیں آپ کہاں جا رہیں ہیں ابھی تو ڈنر سٹارٹ ہوا ہے ڈنر سے پہلے میں کسی بھی گیسٹ کو جانے نہیں دے سکتا”اسنے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جانتی تھی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں”اب میرے یہاں رکنے کا کوئ جواز نہیں”وہ زیر لب بڑبڑائ”میں سمجھا نہیں آپ نے کچھ کہا کیا”اس سے پہلے کہ وہ کوئ جواب دیتی فریشہ چلتی ہوئ اسکے پاس آئ “کہاں تھی تم کب سے ڈھونڈ رہی تمہیں اینی ویز آپ کو منگنی بہت بہت مبارک ہو ہیڈ” اسنے مسکراتے ہوئے عرشمان سے کہا تو وہ بھی ہلکا سا مسکرا دیا “تھینکس ویسے تعارف نہیں کروایا آپ نے اپنی فرینڈ کا”
اسنے نیٹ کے فراک پر سکارف باندھے ہوئے اسکو دیکھتے ہوئے کہا”او سوری میرے تو ذہن سے ہی نکل گیا ان سے ملیں یہ ہے میری بیسٹ فرینڈ۔۔۔”حور کی جان اسکے اگلے الفاظ پر حلق میں اٹکی ہوئ تھی اس سے پہلے کہ فریشہ کچھ مزید بولتی ماہین نے سٹیج پر سے عرشمان کو پکارا”بھائ اب آ بھی جائیں ٹائم نکل رہا ہے آکر رنگ پہنائیں”اردگرد سے تالیوں اور ہووٹنگ کی آواز سنائ دے رہی حور سے مزید اب وہاں کھڑے ہونا مشکل ترین ہو گیا تھا بہتے آنسووں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے اسنے اپنی انگلی سے رنگ اتار کر فریشہ کو تھمائ”فریشہ مجھے ایک بہت ارجنٹ کام سے ابھی جانا ہوگا سوری میں رک نہیں سکتی یہ رنگ ان کی fiancee کو میری طرف سے ایز آ گفٹ دے دینا “فریشہ اسکے اس عمل پر بہت حیران ہوئ”مگر یہ تو تمہاری رنگ۔۔۔”فریشہ کے الفاظ لبوں پر دم توڑ گئے “کچھ چیزوں پر ہم سے زیادہ کسی دوسرے کا حق ہوتا ہے۔۔اب میں چلتی ہوں تم ٹائم پر واپس آجانا ” وہ کہتے ہوئے جلدی سے ایگزٹ ڈور کی طرف بڑھ گئ مگر اسکے آخری جملے پر عرشمان مڑ کر فریشہ کی طرف آیا تو اسنے ہاتھ میں بند رنگ عرشمان کی طرف بڑھا دی۔
“یہ رنگ میری فرینڈ حور نے آپکی fiancee کے لیے ایز اے گفٹ دی ہے آئے ایم سوری اسے کچھ کام تھا سو وہ جلد نکل گئ۔عرشمان نے رنگ ہاتھ میں تھامی تو اسے لگا کہ زمین پھٹے گی اور وہ اس میں سما جائے گا”کیا۔۔۔کیا نام بتایا آپ نے اپنی فرینڈ کا”اسنے اپنے حواس پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی “حور۔۔آپ جانتے ہیں کیا اسے”فریشہ نے پوچھا”کوئ اپنے دل کی چلتی دھڑکن کو بھی بھول سکتا ہے”اسنے سوچا نہیں میں اب اسے نہیں جانے دوں گا بہت مشکل سے وہ مجھے ملی ہے ” او خدایا حور”وہ سر تھام کر باہر کی طرف لپکا جہاں سے اسنے حور کو چند لمحوں پہلے جاتے دیکھا تھا۔
******************
وہ دیوانہ وار اب وہاں سے دور بھاگ رہی تھی اور ساتھ حلق میں امڈتے آنسووں کے گولے کو بامشکل روکنے کی سعی کر رہی تھی کچھ دیر پہلے کے مناظر اسکی آنکھوں کے سامنے فلم کی صورت چل رہے تھے۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہچکیوں سے روتی ہوئ اواز کا گلہ دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔رات کی سیاہی میں وہ مرمرا ہوٹل سے باسفورس برج پار کرتے ہوئے کن سنسان راستوں پر چل رہی تھی اسے کچھ خبر نہ تھی۔”آئے جسٹ ہیٹ مائے لائف”وہ ایک بند گلی میں گھٹنوں کے بل گرتی ہوئ پوری قوت سے چلائ تھی “مجھے میرا عرشمان واپس چاہیے آپ تو جانتے ہیں میں اسے کتنا چاہتی ہوں پلیز اللاہ تعالی اسے مجھے دیں دے پلیز”وہ اب گھٹنوں میں منہ چھپائے رونے لگی کہ اسے اپنے قریب کسی کی ماجودگی کھٹکی چہرے پر نقاب اب بھی موجود تھا۔
اسنے سر اٹھا کر دیکھا کوئ سیاہ کوٹ ایک ڈریس پینٹ میں موجود وہ شخص مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا حور کو اپنی سانسیں تھمتی ہوئ محسوس ہوئیں “کیا ہوا سوئیٹ ہارٹ اتنی حیران کیوں ہو مجھے دیکھ کر تم خود تو آئ نہیں اسی لیے مجھے ہی آنا پڑا تمہیں لینے کیا ہوا اگر وہ شخص تمہیں نہیں ملا تو میں ہوں تو تمہارے پاس”اسنے خمار آلود نظروں سے اسے دیکھا”ان۔۔انس۔۔۔تم خدا کے لیے چلے جاو میرا پیچھا چھوڑ دو جانے دو مجھے”وہ روتے ہوئے کھڑی ہوئ اسے کسی بھی طرح یہاں سے نکلنا تھا۔ہر طرف اسکے گارڈز موجود تھے “جاو میں نے کب روکا ہے چاہو تو ابھی ہی چلی جاو”انس نے گارڈز کو اشارہ کیا جنہوں نے اسے راستہ دیا وہ گلی کے سرے پر پہنچی ہی تھی کہ کسی نے فائر کیا۔ اسکے قدم منجمد ہوگئے اسنے پلٹ کر دیکھا انس نے گن جوسیف کے سر کے قریب رکھی تھی”ابھی تو صرف ہوا میں گولی چلائ ہے مزید ایک قدم بھی بڑھایا تو یہ جان سے جائیں گے”اس سے پہلے کہ وہ مڑتی کسی نے اسکے منہ پر کچھ رکھا جس سے وہ اپنے حواس کھونے لگی شدیڈ مزاحمت کے باوجود بھی وہ کچھ نہ کر سکی نگاہیں بند ہونے سے پہلے اسکی آنکھوں کے سامنے ریور تھیمز کا وہ منظر یاد آنے لگا اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھی۔
*****************
وہ باسفورس برج پر دوڑتے ہوئے اسے پکارنے لگا”حور پلیز واپس آ جاو خدا کے لیے اب مجھے چھوڑ کر مت جاو اتنا وقت گزر چکا تمہاری جدائ میں اب مزید یہ فراق میری روح کو ویران کرنے لگا”وہ متلاشی نگاہوں سے اسے ہر طرف لھوجنے لگا۔ “ہیڈ رکو میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ ہم ڈھونڈ لیں گے اسے”فریشہ بھی سانس بحال کرتے ہوئے اسکے قریب پہنچی”فریشہ مجھے ہر حال میں وہ واپس چاہیے کچھ بھی کرو مجھے وہ میرے قریب چاہیے اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں خود سے ہی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہوں گا”فریشہ نے عرشمان کو اس سے مجبور اور بےبس پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ اندر سے اسے بہت بکھرا ہوا لگا یوں جیسے اسکی عزیز ترین شے اس سے چھن گئ ہو۔۔”
“ریلیکس عرشمان وہ ہمیں بہت جلد مل جائے گی خدا سب کا مخافظ ہے وہ اسے بھی اپنے امان میں رکھے گا وہ اب اسے تلاش کرتے تاریک گلیوں سے گزرنے لگے کہ عرشمان کو موبائل کی وائبریشن محسوس ہوئ گلی کے آخر پر اسنے سرچ لائٹ سے کچھ تلاشنا چاہا زمین پر پرا موبائل اس نے اٹھایا “یہ تو حور کا ہے”فریشہ نے کہا”اوگوڈ یعنی وہ لوگ اسے اپنے ساتھ لے گئے ہیں فریشہ کو اپنا سانس اٹکتی ہوئ محسوس ہوئ”پلیز عرشمان جلدی کچھ کریں وہ لوگ بلکل بھی اچھے نہیں ہیں انہوں نے حور کی آدھی زندگی برباد کر دی اور باقی بھی کر دیں گے”فریشہ نے بہتے انسووں سمیت کہا”میں جانتا ہوں اس بار میں کچھ نہیں ہونے دوں گا حور کے ساتھ خدا ہمارے لیے کوئ راہ ضرور نکالے گا مجھے پوری امید ہے اتنے میں عرشمان کے ہاتھ میں موجود حور کا سیل فون بج اٹھا جہانگیر صاحب کی کال تھی۔
عرشمان نے فورن کال اٹھائ وہ جانتا تھا ترکی میں انکی مدد کے لیے جو واحد شخص موجود ہے وہ یہی ہیں اسنے جلد ہی انہیں تمام حالات سے اگاہ کیا”ڈونٹ وری میں جلد ہی معلوم کرتا ہوں وہ کہاں ہیں اگر وہ استنبول میں ہیں تو ہم جلد ہی پتا لگا لیں گے آپ جلد سے جلد میرے افس پہنچو ان خبیث لوگوں کو تو آج میں انکے اختتام تک پہنچا کر رہوں گا”انہوں نے کہتے ہوئے سیل آف کیا۔ “فریشہ آپ گھر جاو اور اس کی سلامتی کے لیے دعا کرنا میں اسے لے کر ہی اب واپس آوں گا” وہ کہتے ہوئے وہان سے نکل گیا۔
*************************
اس کی آنکھ کھلی تو وہ کسی اندھیر کمرے میں موجود تھی البتہ اسے کسی زنجیر سے باندھ کر نہیں رکھا گیا تھا بس کمرہ لاک تھا “یا خدا یہ میری کون سی نئ آزمائش ہے پلیز مجھے اس مشکل سے نجات دلوا دیں”اسنے اپنی انکھوں کے نم گوشے صاف کیے اتنی ہی دیر میں انس اندر داخل ہوا اور چلتا کرسی کے قریب پہنچ کر اس پر بیٹھ گیا “تمہارے پاس دو چوائسز ہیں یا تو سیدھے طریقے سے مجھ سے نکاح کرنے پر راضی ہو جاو اور تمام ایریا میرے حوالے کردو تو تمہارے ڈیڈ کی زندگی بخش دوں گا ورنہ تم جانتی ہو دوسری صورت کیا ہو سکتی ہے میں تم اور یہ حسین شام جسے ہم مل کر مزید رنگین بنا سکتے ہیں حور کو اسکی نگاہوں سے خوف آنے لگا۔ وہ یقینن ڈرنک تھا مگر پھر بھی اپنے ہوش برقرار رکھنے کی صلاحیت تھی اسمیں۔
“نو نیور میں نہ تم جیسے گرے ہوئے انسان سے شادی کروں گی نہ ہی کوئ پراپرٹی تمہارے حوالے کروں گی”اسنے تیز آواز سے کہا”اب تم مجھے غصہ دلا رہی اس نے سامنے پڑی میز کو ٹھوکر ماری جو ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگئ وہ خوف سے باہر کی طرف لپکتی اس سے پہلے ہی انس نے مضبوطی سے اسے پکڑ کر اندر گھسیٹا “اتنی آسانی سے تمہین کیسے جانے دے سکتا ہوں کرسٹی ڈارلنگ اب تمہیں دور جانے نہیں دے سکتا اسکے لہجے سے اسکے شیطانی عزائم باخوبی عیاں ہو رہے تھے۔ وہ دیوار کے اک کونے سے جا لگی۔
مارے خوف کہ اسے اپنا آپ کانٹوں پر بچھتا ہوا محسوس ہوا”تمہیں خدا کا واسطہ ہے انس مجھ پر ترس کھا کر ہی مجھے چھوڑ دو کتنا ذلیل اور رسوا کرو گے”وہ اسکے سامنے گرگرانے لگی “شش آواز نہیں ورنہ جان لے لوں گا وہ اسے سختی سے تھامے اب اسکے سکارف کی پنز کھولنے لگا ہوس اسکی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔خوف کی اک لہر اسکے وجود کو چھوتے ہوئے گزری “کسی کی عزت کا تماشہ بنانے والے کو خدا عبرت ناک موت دیتا ہے دور ہٹو مجھ سے”وہ مزید تڑپنے لگی اس سے پہلے کہ وہ مزید اسکے قریب آتا۔ انس کو اپنے جسم میں درد کی اک لہر اٹھتی موجود ہوئ “ساری عمر تو اسکی خفاظت نہ کر سکا مگر اب تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا جوسیف نے اسے ایک گولی ماری اس سے پہلے وہ مزید فائر کرتے وجاہت نے ان کے سینے میں چار فائر کی تو وہ زمین بوس ہو گئے۔
اتنی ہی دیر میں پورے ایریا کو سیل آوٹ کر لیا گیا ۔ ایجنسی کے کچھ لوگوں نے وجاہت کو اپنی حراست میں لیا ساتھ ہی مزید دو گولیوں کے چلنے کی آواز آئ جو انس کو چیرتے ہوئے گزری “عرشمان “اسنے ہاتھ میں پسٹل پکر رکھا تھا “سر اسے آپ ہمیں واپس دے دیں “ایک آفیسر نے اس سے پسٹل واپس لیا اتنے میں ہی وہ اسکے قریب ائ اور اسکی بانہوں میں سما گئ۔”ریلیکس اب کوئ تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا میں ہوں تمہارے پاس وہ اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے اسکا چہرہ اوپر کیا اور اپنی انگلیوں کی پوروں سے اسکے آنسووں کو صاف کرنے لگا تو وہ پھر اس میں سما گئ۔
************************
دونوں کی شادی بہت دھوم دھام سے کی گئ تھی۔ ماہین اور عائشہ نے اپنے سب ارمان پورے کیے تھے میچنگ ہئیر سٹائل سے لے کر میچنگ جیولری تک۔ رات وہ دونوں اسے عرشمان کے کمرے میں چھوڑ کر گئیں تو وہ کافی کنفیوزڈ تھی۔ خوش تو وہ بے انتہا تھی۔ کچھ دیر میں ہی عرشمان روم میں داخل ہوا جوں جوں وہ قدم بڑھاتا اسکی طرف آ رہا تھا دل عجب لہہ میں دھڑک رہا تھا وہ اسکے قریب آکر بیٹھا اود کچھ پل مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگا “تو مسز عرشمان مصطفی اب ہم ایک نئ زندگی شروع کرنے جارہے ہیں تم میری زندگی کی حسین ترین حقیقت ہو جسے میں اپنےدل کے بہت قریب رکھو ں گا میں نے تمہارے فراق میں بہت اذیت ناک وقت گزارا ہے اب تمہیں خود سے دور کبھی جانے نہیں دوں گا”اسنے کہتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خوبصورت سی ڈبیہ نکالی جس میں وہ رنگ موجود تھی جس وہ لوٹا گئ تھی۔ اسنے نرمی سے وہ رنگ اسکے ہاتھ کی انگلی میں پہنائ”اس پر اب سے نہیں بلکہ اس وقت سے صرف تمہارا جب سے خدا نے عرش پر حوروں کو اتارا تھا آسمان کے شہزادوں کے لیے” کہتے ہوئے اسنے اپنے لبوں سے اس کے نازک ہاتھ کو چھوا۔اسکا لمس اسکی ہر اذیت کو اس سے دور لے جانے لگی۔
*********************
ایک سال بیت چکا تھا ان کی شادی کو اور اس حسین وقت نے زندگی کو بہت بدل دیا تھا۔ عائشہ کی حسن سے شادی ہو چکی تھی اور انکی ایک کیوٹ سی بیٹی بھی علیزے ۔حسن عائشہ کا بہت خیال رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ زندگی کی طرف واپس لوٹ آئ تھی اور اب بہت خوش رہنے لگی تھی۔عائشہ کو پر سکون دیکھ کر حور کو بہت اچھا لگتا۔ عرشمان کو ایک میٹنگ کے سلسلے میں ترکی آنا تھا اسی لیے وہ حور کو بھی ساتھ لے آیا۔ فریشہ اور عرشمان نے مل کر اسکے لیے ایک سرپرائز پلین کیا تھا۔ وہ اسے وہاں لایا تھا آج جو جگہ اسے سب سے عزیز تھی۔ دونوں نے مل کر کوٹیج کو ویسے ہی رینویٹ کروایا تھا جیسے ہور کی بچپن کی تصویروں میں وہ ہوا کرتا تھا
“عرشمان کتنا ستاو گے پورا راستہ بھی تم نے کچھ نہیں پتایا کہاں لے جارہے ہو”اسکی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ وہ پیچھے گیا اور اسکی آنکھوں پر سے گرہ کھولی اور وہ تو جیسے دنگ ہی رہ گئ وہ اس کی کمر کے گرد بازوں حائل کرتے ہوئے اسکے قریب ہو کر پوچھنے لگا” کیسا رہا سر پر ائز “تو وہ بے آواز رو دی “تھینک یو سومچ”وہ زیر لب بربرائ “مگر میں تو کچھ اور سننے کے مود مین تھا”اسنے کہا۔تو وہ اسکی گرفت سے باہر نکلی ۔ اب انکی زندگی میں آنسووں کی کوئ گنجائش نہ رہی تھی۔
The Ęnd….