ایلک سیج
اس کردار کو بچہ سی او کے مقابل رکھا جاسکتا ہے۔ معتوب کان کنوں کے درمیان وہ بھی بچہ ہی تھا۔
ایلک سیج کا اس گروہ میں شمول قطعی بلاجواز تھا۔ اس حد تک کہ اس گروپ کے اکثر لوگ اسے پارٹی کا جاسوس یا مخبر سمجھتے تھے۔
ایلک سیج کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ وہ کسی اعلیٰ مرتبے کے کمیونسٹ اوفیشل کا بیٹا ہے جس کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ بچہ سی او کی عمر کا تھا، لیکن شخصیت میں اس سے بہت دبتا ہوا تھا۔ دبلا پتلا، مرجھایا ہوا سا۔ چہرہ کیلوں اور مہاسوں سے بھرا ہوا اور آنکھوں پر دبیز شیشوں والا چشمہ۔ وہ پارٹی سے نکالا نہ گیا تھا، جب کہ اس گروہ کے سب لوگ پارٹی سے نکالے ہوئے تھے۔ ایلک سیج پارٹی کا مخلص اور وفادار تھا اور اس کا اظہار بھی کرتا تھا۔
لڈوک اور ایلک سیج میں جلد ہی بات چیت کے مراسم پیدا ہوگئے تھے اور کسی حد تک لڈوک اس کا ہم راز بھی بن گیا تھا۔
ایلک سیج گروہ میں نیا شامل ہوا تھا، اس سبب سے وہ سب میں شامل ہونے کے باوجود سب سے الگ تھلگ تھا۔ وہ دن گروہ کے لیے بڑے کٹھن تھے۔ بچہ سی او کی ایما پر نان کمیشنڈ افسر اس گروہ پر نت نئی آفتیں توڑتے رہتے تھے۔ دوسری جانب گروہ میں شامل افراد ان کے احکامات بجالانے میں بہانے بہانے سے کوتاہی دکھاتے تھے۔ ایلک سیج ان کی ان اسکیموں میں شریک ہونے سے گریز کرتا تھا۔
ایک دن ریلے ریس کرائی گئی۔ گروہ کے افراد نے اس کو ناکام بنایا۔ کچھ لوگوں نے تھک کر گرپڑنے کا ناٹک کیا تو دوسروں نے تھکنے کے ساتھ ٹانگوں میں موچ آنے کا بہانہ کیا۔ ان میں صرف اور صرف ایلک سیج ہی وہ فرد تھا جو حقیقت میں تھک کر گرا۔ سب سے پوچھ گچھ ہوئی۔ ایلک سیج نے تھک کر گرنے کو قبول کرنے میں اپنی سبکی محسوس کی اور یہ کہا کہ وہ تھک کر نہیں گرا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچہ سی او نے اسے دو ہفتے کی سزا دی۔ بچہ سی او کے مطابق ایلک سیج نے بغاوت کی (ایلک سیج کے باپ پر یہ الزام تھا کہ اس نے سوشلزم کے خلاف جاسوسی کا ارتکاب کیا تھا)۔ دوسرے لوگوں کی چھٹیوں میں کمی کردی گئی، کیوںکہ بچہ سی او کے خیال میں یہ لوگ چھٹیوں میں ایسا کچھ کرتے پھرتے ہیں جس سے ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے اور وہ کم زور ہوجاتے ہیں۔ گروہ کے ایک فرد ہونزا نے یہ ترکیب نکالی کہ تاروں کی باڑھ کو ایک جگہ نیچے کی جانب سے کاٹ کر باہر جانے اور اندر آنے کا خفیہ انتظام کرلیا۔ لوگ اس سے فرداً فرداً فائدہ اٹھانے لگے۔ اس سلسلے میں لوگوں کی باری مقرر کی جاتی تھی۔ ہونزا کی اس سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ ہونزا اور اس کی کمیٹی کے تین ساتھیوں کا کورٹ مارشل ہوا اور انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ گروہ کے لوگوں کو گمان ہوا کہ ایلک سیج نے ہونزا کی اسکیم کی مخبری کی۔ گروہ کے لوگوں نے ایلک سیج کو زچ کرنا شروع کردیا۔
جب وہ دو ماہ کی سزا بھگت کر لوٹا تو کسی نے اس کے بنک کے سامنے کی چوبی دیوار پر لکھ دیا ’’چوہے سے خبردار‘‘۔ اس دوران ایلک سیج نے لڈوک کو اصرار سے بتایا کہ اس نے کسی قسم کی مخبری نہیں کی۔ اس کے برعکس اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے بچہ سی او کے خلاف لکھ بھیجا ہے۔ ایلک سیج نے لڈوک کو یہ بھی بتایا کہ اس کا ایمان ہے کہ پارٹی کا اصل مقصد کالی پٹیوں والوں کے لیے ری ایجوکیشن کے مواقعے فراہم کرنا ہے۔ سی او اور اس کے ساتھی اس مقصد کے برخلاف کام کررہے ہیں۔ یہ لوگ سوشلزم کے دشمن ہیں یا دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔
سینک نے جب لڈوک سے پوچھا کہ ایلک سیج چوہے سے کیا باتیں ہوئیں؟ تو اس نے جواب میں کہا، ’’ایلک سیج بیوقوف تو ہوسکتا ہے، لیکن چوہا نہیں ہوسکتا۔‘‘
سینک نے لڈوک سے جواب میں کہا، ’’وہ بیوقوف ہو یا نہ ہو، لیکن چوہا ضرور ہے۔‘‘
ان ہی دنوں جنگ کے خدشے پر بہت زور ہوا۔ ایک دن بچہ سی او نے سب کو ’فال ان‘ کروایا اور اپنی تقریر میں کہا کہ کمیونزم کے وہ دشمن جنھوں نے نقاب پہن رکھے ہیں، ان سے سختی سے پیش آنا ہوگا، کھلے دشمنوں سے زیادہ، اور یہاں ایک ایسا ہی ناپاک گندگی کھانے والا کتا موجود ہے۔ یہ کہہ کر بچہ سی او نے ایلک سیج کو آگے آنے کا حکم دیا۔ اس کو وہ خط دکھایا کہ جو اس نے پارٹی کے اعلیٰ عہدے داروں کے نام بھیجا تھا۔ ایلک سیج سے بلند آواز میں اقرار کرایا کہ خط اس کا لکھا ہوا ہے۔ اس خط کو پرزے پرزے کیا۔ ایلک سیج کو زمین پر لیٹنے کا آرڈر دیا اور جب وہ لیٹا تو اس کی پشت پر کچھ دیر کھڑا ہوکر اُترا اور کھڑے ہوئے لوگوں کے کپڑوں کا انسپکشن کرتے ہوئے صف کے آخری سرے تک گیا۔ لوٹ کر ایلک سیج کے پاس آیا اور دوسرا خط پڑھنے کا حکم دیا۔ ایلک سیج نے لیٹے لیٹے اسے پڑھا۔ لکھا تھا، ’’تمھیں اطلاع دی جاتی ہے کہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۵۱ء کو تمھیں کمیونسٹ پارٹی چیکو سلواکیا سے خارج کیا گیا۔ دستخط منجانب ریجنل کمیٹی۔‘‘ اس کے فوری بعد سب کو ڈرل کے حوالے کرکے بچہ سی او وہاں سے چلا گیا۔
اس رات کی صبح سب معمول کے مطابق اٹھے، لیکن ایلک سیج نہیں اٹھا۔ جب کوئی دیر تک سویا پڑا ملتا ہے تو کارپورل اس پر پانی ڈالتا ہے۔ ایلک سیج پر بالٹی بھر پانی ڈالا گیا، لیکن وہ نہیں جاگا۔ اس نے خودکشی کرلی تھی۔ کیمپ کی زندگی کے معمولات میں کوئی تغیر نہیں آیا۔
آئیے ایلک سیج کے کردار کا تجزیہ کرتے ہیں۔
٭۔ وہ پارٹی کے عالی مرتبہ عہدے دار کا بیٹا تھا جس پر یہ الزام لگا کہ اس نے پارٹی اور سوشلزم کے خلاف جاسوسی کی اور پکڑا گیا۔
٭۔ ایلک سیج باپ کے ساتھ شریکِ جرم نہیں پایا گیا۔ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو قابلِ گرفت یا لائقِ تعزیر ہو۔ وہ پارٹی کا آخری سانس تک وفادار رہا۔
٭۔ اس کو بلاکسی جواز کے اس گروہ میں شامل کیا گیا تھا جس کے ارکان یا افراد تعلیمی اداروں سے یا پھر پارٹی سے نکالے گئے تھے۔ سزا کاٹ رہے تھے، جبری کان کنی کررہے تھے، معتوب تھے۔ یہ ناقابلِ فہم، محض اتفاق، بلاجواز، دوسرے لفظوں میں حالات کے ستم ظریف تھے۔
٭۔ ایلک سیج نے اپنے بلاجواز شمول کے خلاف نہ لب کھولے اور نہ ہی تحریری شکایت بھیجی۔ نہ ہی وہ اس گروہِ معتوبین کی کسی سازش یا اسکیم کا شریک بنا جو وہ منتظمین کے خلاف کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ گروہ کے افراد کی نظروں میں آیا۔ ان لوگوں نے اس کو اپنا غدار، جاسوسی کرنے اور مخبری کرنے والا قرار دیا۔ اس کو ’چوہا‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ اس کے بنکر کے سامنے کی دیوار پر ’’چوہے سے خبردار‘‘ کے الفاظ لکھے۔
٭۔ ایلک سیج جس انجام کو پہنچا وہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کا قصور کیا تھا؟ یہ آپ کو، ہم کو اور ناول کے ہر قاری کو معلوم ہونا چاہیے۔ ملن کنڈیرا بھی شاید یہی چاہتا ہو۔
٭۔ آئیے، ایلک سیج کے بارے میں ایک قضیے پر پہلے بات کرلیں۔ لڈوک جاہن اور مصور سینک کے مابین ایلک سیج کے بارے میں ہونے والی بحث میں لڈوک کا مؤقف یہ تھا کہ ایلک سیج بیوقوف تو ہوسکتا ہے، لیکن چوہا نہیں ہوسکتا۔ ایلک سیج کے ساتھ سی او کے غیر انسانی سلوک اور ایلک سیج کی خودکشی نے یہ تو ثابت کردیا کہ وہ ’’چوہا‘‘ نہیں تھا۔ کیا لڈوک کے قیاس کے مطابق ایلک سیج بیوقوف تھا؟
٭۔ ایلک سیج نے جو کچھ ہوتے دیکھا، اس کو پارٹی کے حق میں دشمنی کے مترادف پایا۔ وہ جانتا تھا کہ پارٹی کا مشن اور منشا جبریہ کان کنی اور ڈرل وغیرہ سے خطا کاروں کی اصلاح اور ری ایجوکیشن ہے نہ کہ صرف ایذا رسانی۔ ایلک سیج نے اس کی رپورٹ پارٹی میں اوپر والوں کو بھیج دی۔ اس طرح اس نے اپنا ایک فرض ادا کیا نہ کہ بیوقوفی کی۔ اگر انجام کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو آپ اور ہم اس فیصلے پر پہنچنے پر مجبور ہوں گے کہ ایلک سیج نے جو کچھ کیا، وہ بیوقوفی ہی نہیں صریحاً حماقت تھی۔ کہا تو یہی جاتا ہے نا کہ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اصولوں کے مطابق End justifies the means. (انجام ذرائع کو باجواز بنا دیتا ہے۔)
٭۔ اگر آپ ہم ایلک سیج کے مبینہ اقدام کو بیوقوفی تسلیم کرنے سے انکار کریں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایلک سیج نے پارٹی کے بلند و بالا آدرشوں پر تکیہ کیا، خوش فہمی میں مبتلا ہوا اور مارا گیا۔ سوچا جائے تو جو کچھ ایلک سیج کے ساتھ ہوا، وہ آغاز سے انجام تک مذاق معلوم ہوگا۔
سوشلزم، اچھا کمیونسٹ، ری ایکشنری ایلک سیج کا نقطۂ نظر
ناول سے ایک اقتباس:
جبریہ کان کنی کی سزا بھگتنے والے معتوبوں نے بچہ کمانڈنگ افسر کے حکم سے منعقد کی جانے والی ریلے ریس کو آپس کی ملی بھگت سے ناکام بنا دیا۔ وہ اس کامیابی پر خوش تھے۔ ایلک سیج کو بچہ سی او نے غداری کا مرتکب پایا اور اس کو دو ہفتے کے لیے بطور سزا گارڈ ہاؤس (guard house) جانے کا حکم دیا گیا۔ گارڈ ہاؤس روانگی سے قبل ایلک سیج نے لڈوک جاہن سے بات کی اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کمیونسٹ کی طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ پھر اس نے سختی سے پوچھا، کیا وہ (لڈوک) سوشلزم کی حمایت میں ہے یا مخالفت میں؟
لڈوک جاہن نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ سوشلزم کا حمایتی ہے، لیکن کیمپ میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوںکہ لکیریں مختلف انداز میں کھینچی گئی ہیں۔ یہاں اس لکیر کی اجارہ داری ہے جو دو گروہوں کے درمیان کھنچی ہے۔ پہلا گروہ ان کا ہے جو اپنی تقدیروں پر قابو کھوچکے ہیں اور دوسرا ان کا ہے جنھوں نے پہلے گروہ والوں کی تقدیروں کو چھین لیا ہے اور ان سے جیسا سلوک چاہیں کرسکتے ہیں۔ ایلک سیج، لڈوک جاہن کی منطق سے انحراف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اصل تفرقہ سوشلزم اور اس کے خلاف ری ایکشن کے مابین ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہے۔ اس کیمپ کا مقصد اچھے کمیونسٹ کو سوشلزم کے دشمنوں سے بچانا ہے۔
اسٹانا
کالی پٹی والے، کان کنی کی سزا بھگتنے والوں میں لڈوک نے چند ایک دوست بھی بنالیے تھے۔ ان میں ایک اسٹانا بھی تھا۔ اس کی شادی ماہ مارچ میں ہوئی۔ شادی کے بعد اس کی بیوی کے بارے میں افواہیں ملنی شروع ہوئیں کہ وہ شراب خانوں میں ڈولتی پھرتی ہے۔ اسٹانا نے اس کو خطوط میں ان افواہوں کے حوالے دیے۔ اس کی نوبیاہتا بیوی نے اس کے خطوط کے جوابات سے اس کو خاموش کردیا اور اسٹانا کی پریشانی وقتی طور پر کم ہوگئی۔ سردی خاصی کم ہوئی تو اس کی والدہ اس سے ملنے آئی۔ اسٹانا نے قریباً پورا سنیچر اپنی ماں کے ساتھ گزارا، لیکن جب بیرکس میں لوٹا تو وہ زرد رُو ہورہا تھا اور اس کی زبان تو بالکل بند ہورہی تھی۔ شرم کے مارے وہ کسی سے کچھ نہیں بولا کہ اس کی ماں نے اسے کیا بتایا، لیکن اس کے اگلے دن اس نے اپنے ساتھی ہونزا کے آگے زبان کھولی۔ پھر ایک ایک کرکے گروہ میں دوسروں کو بھی کہہ دیا کہ اس کی بیوی اوباش ہوگئی ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس بے وفا عورت کی گردن مروڑ دے گا۔
اسٹانا نے سی او سے دو دن کا پاس مانگا، لیکن اس کو جواب نفی میں ملا۔ اس کے بارے میں شکایات ملنی شروع ہوگئیں کہ وہ کانوں میں اور بیرکس میں نہ صرف چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے لگا ہے، بلکہ غائب دماغ رہنے لگا ہے۔ سی او نے ان اطلاعات کے ملنے کے بعد جب اسٹانا نے چوبیس گھنٹوں کے پاس کی درخواست دی تو ازراہِ کرم منظور کرلی۔ اس وقت کے بعد اسٹانا کو کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ البتہ اس کے بارے میں سنی سنائی باتیں گشت کرتی رہیں۔
اس کی الم ناک کہانی کچھ یوں ہے:
پراگ پہنچ کر وہ سیدھا اپنی بیوی (بقول ملن کنڈیرا، انیس سالہ لڑکی) پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے اسٹانا کے الزامات قبول کرلیے۔ اسٹانا نے جب مار پیٹ شروع کی تو وہ بھی لڑنے لگی۔ اسٹانا نے اس کی گردن گھوٹنی شروع کی اور اس کے سر پر ایک بوتل سے وار کیا۔ وہ فرش پر گری اور بے حس و حرکت پڑگئی۔ اسٹانا کو تب خوف نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ موقعۂ واردات سے فرار ہوگیا۔ اس کو اتفاق سے ایک خالی کوٹیج مل گیا اور وہ اس میں بند ہوگیا۔ اسے خوف تھا کہ اگر وہ پکڑا گیاتو اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔ دو ماہ بعد وہ پکڑا گیا اور اس پر (حیرانی کی بات ہے کہ) فوج چھوڑنے کے جرم میں مقدمہ چلا۔ اس کی بیوی کو کچھ دیر بعد ہوش آگیا اور جس مہم سے وہ گزری اس کی نشانی کے طور پر اس کے سر پر ایک گومڑ سا نکل آیا۔ اسٹانا جس دوران سزا کاٹ رہا تھا، اس کی بیوی نے اس سے طلاق حاصل کرلی۔ ان دنوں وہ پراگ کے ایک مشہور اداکار کی بیوی ہے۔
لڈوک کبھی کبھار اس اداکار کے ڈرامے دیکھ کر اپنے ساتھی اسٹانا کی یاد تازہ کرلیتا ہے۔
اسٹانا کی ناکام ازدواجی زندگی کی ذمے داری اس کے کردار کی کسی خامی پر ڈالی جاسکتی ہے یا اس جبریت پر جو جبری کان کنی کی سزا کاٹنے والوں کی نجی زندگیوں پر اثر انداز ہورہی ہے۔
ہونزا
ہونزا کو سیاہ پٹی کسی پولیس والے کو مارنے پیٹنے پر ملی۔ یہ قصہ گوئی سنجیدہ معاملہ نہیں تھا، بلکہ بقول ہونزا، دو پرانے اسکول کے ساتھیوں کے مابین خالص ذاتی نوعیت کا جھگڑا تھا۔ اس کو سرکار کے خلاف (قطعی ناجائز طور پر) قرار دیا گیا۔ ہونزا پہلے جیل گیا۔ جیل میں چھہ ماہ گزار کر نکلا تو اسے جبریہ کان کنی کے لیے لڈوک جاہن اور اس کے ساتھیوں میں شامل کروا دیا گیا۔
ہونزا برنو کی مٹی سے اُگا تھا۔ پیشے سے وہ میکانک تھا۔ اس گروہ میں شامل ہونے کے بعد وہ ایک آزاد مزاج، برنو کی بازاری زبان (گالم گلوچ) بولنے والا، نچلا نہ بیٹھنے والا، حالات کے چیلنج قبول کرنے اور اپنے اختراعی ذہن سے نئی نئی تدابیر نکالنے والا کردار ہے۔
ہونزا میں یہ بھی صلاحیت تھی کہ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلتا تھا۔ اس نے آتے ہی مثال کے طور لڈوک جاہن کی علاحدگی پسندی کا خاتمہ کیا۔ خود آگے بڑھ کر اس سے بات کی۔ اس کو بے تکلف بنایا۔ گالی بھی دی۔ اس کے لمبے قد پر طعنہ دیا اور بیوقوف بھی کہا۔ یہ بھی کہا کہ اس کے سر میں سورج نے چھید کردیاہے۔ بہرحال خود لڈوک نے کچھ عرصے بعد ہی اس پورے گروہ میں (بیس بنک کے بیرکس میں)اسے اپنا سب سے قریبی دوست سمجھنا شروع کردیا۔ ہونزا اور لڈوک آٹھ آدمیوں کے ایک گروہ پر مشتمل ہوگئے۔ ساتھ چھٹی گزارنے لگے۔ باہر وقت گزارنے میں بھی ان سب پر حد بندیاں عائد تھیں۔ ایک رات ان کی حد کے قریبی ہال میں رقص منعقد تھا۔ انھوں نے داخلے کی فیس ادا کی اور اندرچلے گئے۔ ہال میں حاضرین کی تعداد خاصی کم تھی۔ لڑکیاں صرف دس تھیں۔ تیس مرد تھے جن میں آدھے فوجی تھے۔ ہونزا کے گروہ کے آنے کو وہاں پہلے سے بیٹھے ہوئے فوجیوں نے پسند نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں الکوحل ممنوع ہے۔ ہونزا نے سوفٹ ڈرنکس منگوائے۔ پھر وہ اٹھا۔ سب سے پیسے اکٹھا کیے۔ تھوڑی دیر بعد رم (rum) کی تین بوتلوں کے ساتھ واپس آیا اور میز کے نیچے ان بوتلوں کی رم کو سوفٹ ڈرنکس میں آمیز کردیا (عام فوجیوں کے مقابلے میں کان کنوں، فوجیوں، کالی پٹیوں والوں کو اجرت زیادہ ملتی تھی۔ جس کی وجہ سے عام فوجی ان سے جلتے اور ان سے الجھتے رہتے تھے)۔
ہونزا نے زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو ان فوجیوں کے قبضے سے بچانے کے لیے ایک تدبیر نکالی۔ وہ سادہ سی ترکیب تھی۔ سب کے سمجھ میں آگئی اور فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع کردیا۔ ہونزا ہال کے بیرونی دروازے پر ٹیکسی کیب منگاتا رہا اور ایک ایک کرکے لڑکیاں باہر جاتی رہیں۔ جب تین لڑکیاں فوجیوں کے چنگل سے نکل کر غائب ہوئیں تو فوجیوں کو صورتِ حالات کا اندازہ ہوگیا۔ اس مرحلے پر ہونزا، اسٹانا اور لڈوک رہ گئے تھے۔ لڈوک سب کی نظروں سے بچ کر کلوک روم تک پہنچا اور مزید ایک لڑکی کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ ہونزا اور اسٹانا کو دروازے پر تین فوجیوں نے گھیرا، لیکن لڈوک کے ان کی مدد کے لیے پہنچنے پر وہ تینوں ہال کے اندر لوٹ گئے، کیوںکہ دونوں جانب نفری یکساں ہوگئی۔ ہونزا نے لڈوک کے کارنامے پر پرجوش تحسین دی اور اس سے لپٹنے کی کوشش کی۔ اس واقعے سے ہونزا کے کردار کے بہت سے پہلو روشنی میں آجاتے ہیں۔
ریلے ریس ناکام بنانے کے نتیجے میں معتوبین کے مابین مفاہمت بڑھی اور ان لوگوں نے باہمی اتحاد کی طاقت کو محسوس کیا۔ بچہ سی او نے دو ماہ رخصت پر پابندی لگا دی۔ ہونزا نے اپنے اختراعی ذہن کو کام میں لاکر ایک راستہ تلاش کرلیا۔ اس پر چل کر ہر روز باہر جانے کی سبیل مہیا ہونی ممکن تھی۔ تاروں کے بنے ہوئے حصار میں ایک کونا منتخب کیا گیا۔ ایک کونے میں زمین کے قریب تاروں کو کاٹ کر اتنی گنجائش بنا دی گئی کہ ایک آدمی لیٹ کر باہر آ،جا سکے۔ ہونزا نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور ہر روز ایک آدمی کے باہر جانے اور واپس آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ افسوس کہ بچہ سی او نے کوارٹر کا معائنہ کیا اور دریافت کرلیا کہ تین افراد موجود نہیں تھے۔ کارپورل نے یہ سوچ کر کہ بھانڈا پھوٹ گیا قبول لیا کہ اسے ہونزا نے پیسے دیے تھے۔ ہونزا اور اس کے تین ساتھیوں کے علاوہ متعلقہ کارپورل کا کورٹ مارشل ہوا۔ ہونزا کے بارے میں پتا چلا کہ اس کو ایک سال کے لیے جیل کی سزا ملی۔
ہونزا کے بارے میں قاری مندرجہ کرداری تجزیہ کرسکتا ہے۔
٭۔ ہونزا بلاجواز کالی پٹیوں والوں میں شامل کیا گیا تھا۔ معاشرہ ایک ہنرمند سے محروم ہوگیا اور ایک فرد کی زندگی رائگاں ہوگئی۔
٭۔ ہونزا اختراعی ذہن اور تنظیمی صلاحیتوں کا مالک، مل جل کر رہنے والا فرد تھا۔
٭۔ وہ مہم جو اور مہم پسند اور زندگی کے ہر چیلنج کے آگے ڈٹ جانے والا فرد تھا۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...