بزرگ نے فون کر کے بلایا تھا چنانچہ میں ان کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر جا رہا تھا۔ بزرگ نے کہا تھا میں نے افسانہ مکمل کر لیا ہے آ کے لے جاؤ۔
وہ افسانہ نگار تھے۔ ہمارے پرچے میں ان کے افسانے باقاعدگی سے چھپتے تھے کیونکہ باقاعدگی سے وہ پیسے بھی دیا کرتے تھے۔ جب میں نے ان کے دروازے پر دستک دی تو سوچا یہ دو بڑے بڑے کمروں کے فلیٹ میں کتنے اکیلے اکیلے رہتے ہیں، کیوں نا کسی دن میں اپنی محبوبہ کو یہاں لے آؤں۔ کافی پرائیویسی میسر آ جائے گی۔ بزرگ کو کسی بہانے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔
میری محبوبہ بہت اچھی تھی۔ بیچاری مجھ سے شادی کے چکر میں ہر جگہ جانے کو تیار ہو جاتی تھی۔۔ ویسے ہم پارکوں، سینماؤں اور شاپنگ مالز کے علاوہ اب تک کہیں نہیں گئے۔ (کراچی میں جگہ کا مسئلہ تو ہے نا)
میں دروازے پر دستک دے چکا تھا اور ساتھ ہی محبوبہ کے بارے سوچ رہا تھا، ساتھ ہی اس کا گورا چٹا مکھڑا بھی دیکھ رہا تھا۔۔۔ آہا۔۔ یہ کانوں کی بالیاں، یہ ہونٹوں کی سرخیاں، یہ رخسار، یہ چتون، یہ ناک نقشہ، انسان ہو یا پری ہو تم، مخاطب کون کر سکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے، میرے زیر مطالعہ شعر آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے تبھی اس نے سختی سے آنکھیں چار کرتے ہوئے پوچھا ’’کون ہو بھائی تم۔۔۔ بولتے کیوں نہیں‘‘
میں ہڑبڑا گیا، سٹپٹا گیا، لڑکھڑا گیا، غش کھا گیا، مزید بھی جو کچھ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے وہ ہو گیا تو غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ بزرگ کا دروازہ کسی جوان نے کھولا ہے۔
’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ ایں۔۔۔ وہ مجھے۔۔ ان سے ملنا ہے۔ ‘‘ میں بزرگ کا نام ہی سرے سے بھول گیا۔ تاہم وہ سمجھ گئی اور اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آ کر بولی ’’آ جائیں، وہ بلا رہے ہیں۔ ‘‘
میں اس کی قیادت میں اندر داخل ہوا۔ مگر وہ مزید کسی رہنمائی کی بجائے کچن میں گھس گئی۔
بزرگ نے بتایا وہ ماسی ہے، ابھی کام ختم کر کے چلی جائے گی، تم سناؤ۔
میں کیا سناتا، میری تو سٹی گم ہو چکی تھی، جسے محبوبہ بنا کے شادی کرنے جا رہا تھا وہ اچانک ماسی کے درجے پر چلی گئی تھی اور جو ماسی کے درجے پر یہاں نظر آئی تھی وہ محبوبہ سے بڑھ کر ہو چکی تھی۔ آخر یہ کیا چکر تھا؟ یہ کونسا دور تھا؟ کیا اس دور کے بارے میں پہلے کبھی پیشین گوئی ہوئی تھی کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب گھروں کی ماسیاں آسمان سے اتری حوریں ہوا کریں گی۔۔ مقدور میں ہوتا تو بزرگ سے پوچھتا کہ او لئیم، تو نے یہ گنج ہائے گراں مایہ کہاں سے اٹھایا ہے۔
بزرگ جس دوران افسانہ پڑھ کے سنا رہے تھے میری کن انکھیاں کچن میں جا کر اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔ پھر میں ہاتھ میں بزرگ کا افسانہ اور آنکھوں میں ماسی لیے لوٹ آیا۔
شام کو ایک بڑے اخبار کے مدیر کے پاس بیٹھا تھا۔ رہا نہ گیا تو اسے شریک راز کر لیا۔ مدیر مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میری دماغی حالت کنفرم مشکوک ہو چکی ہے۔ بولا ’’ابے تیرے یہ دن آ گئے ہیں کہ اب تو ماسیوں کے لیے خوار ہو رہا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا ’’ابے یار تو اسے ایک نظر دیکھے گا نا تو خود بولے گا۔۔ ‘‘
’’جا بھائی مجھے نہیں دیکھنا کسی ماسی واسی کو۔ ‘‘
’’یار دیکھ اسے ماسی مت کہہ کیونکہ ماسی کا نام آتے ہی کسی بوڑھی مائی کی یاد آتی ہے، تو سمجھ کہ وہ ’بے بی سٹر‘ ہے۔ ‘‘
المختصر کہ میں نے جیسے تیسے کر کے مدیر کو قائل کر ہی لیا زیادہ تفصیل میں جاؤں گا تو آپ کا وقت ضائع ہو گا، ممکن ہے آپ یہ داستان ہی چھوڑ کر اٹھ جائیں۔ تو آگے کہتا ہوں مدیر دو روز بعد میرے ساتھ چل پڑا۔ ہمیں تحقیق کرنا تھی کہ کوئی ماسی اتنی خوبصورت اتنی جوان کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر وہ اتنی خوبصورت اور جوان ہے تو ماسی ہی کیوں ہے اور اگر وہ ماسی ہے تو اتنی خوبصورت کیوں ہے، اس طرح کی الٹ پھیر پہلے کبھی کیوں نہیں نظر آئی۔
مدیر اور بزرگ دونوں لنگوٹیا یار تھے چنانچہ کھل کے بحث کر کے اس گتھی کو سلجھا سکتے تھے
ہم فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے مگر آج دروازہ خود بزرگ نے کھولا۔ ماسی غائب تھی۔ ظاہر ہے وہ گھنٹے ڈیڑھ کے لیے آتی ہو گی۔ اسے کیا پتہ تھا کہ میں کہیں زیر بحث بنی ہوئی ہوں۔
ہم کافی دیر تک جب فالتو باتیں کر چکے تو مدیر نے بالآخر بزرگ کے کندھے پر ہاتھ مارا ’’ہاں بھئی، یہ ماسی کا کیا چکر ہے؟‘‘
’’کونسی ماسی؟‘‘ بزرگ سوچی پے گئے۔
’’وہی۔۔ وہ۔۔ اس دن۔۔ میں افسانہ لینے آیا تھا۔۔ تو۔۔۔ ‘‘ میں نے ہکلا کر یاد دلایا۔
’’اچھا۔۔۔ وہ۔۔ ہاں۔ وہ کوئی مجبور عورت ہے میں نے صفائی کے لیے رکھ لیا ہے۔ منتیں کر رہی تھی۔ ‘‘
’’تو آج کدھر ہے وہ؟‘‘ مدیر کا سوال
’’وہ تو جا چکی ہے۔ ‘‘ بزرگ کا جواب
’’او۔۔ ہو۔۔ ہم اتنی دور سے آئے تھے اس کے لیے۔ ‘‘
مدیر کے منہ سے نکل گیا
اور اب بزرگ مدیر کو ان نظروں سے دیکھ رہے تھے جن نظروں سے پہلے مدیر نے مجھے دیکھا تھا یعنی جیسے کہہ رہے ہوں، ’’ابے چریا ہو گیا ہے کیا کم از کم ماسی کو تو چھوڑ دیا کر۔ ‘‘
مدیر بھی گڑبڑا گیا۔ بے تکی وضاحت پیش کرنے لگا۔ ’’در اصل یہ بتا رہا تھا کہ وہ ماسی نہیں بی بی سٹر ہے۔ ’’اچھا میں اسے فون کر کے دیکھتا ہوں شاید آ جائے۔ ‘‘ بزرگ نے فون پر نمبر ملایا ’’ہیلو، ہاں۔۔۔ دیکھو بیٹا۔۔ وہ۔۔۔ کچھ مہمان آئے ہیں اور فریج میں کچھ ہے بھی نہیں۔۔۔ تم ایسا کرو تھوڑا سا ٹائم نکال کر آ جاؤ اور بریانی بنا دو۔۔۔۔ کیا۔۔۔ وہ (شوہر) گھر پہ نہیں ہیں ۔۔۔ تم بچے سنبھال رہی ہو ۔۔۔ ارے میرا بیٹا۔۔ بس تھوڑی دیر کے لیے آ جاؤ، چلو بس چائے بنا دینا۔۔ ‘‘
بچے اور شوہر وغیرہ کے ذکر پر میں تو مایوس ہوا ہی ہوا مگر مدیر کے بھی ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ شاید اس نے بھی دل میں ایک تصویر بنا لی تھی۔ میں نے تعریفیں جو اتنی کی تھیں۔
مگر جب ماسی نما بے بی سٹر از راہ کرم چائے بنانے کے لیے تشریف لے آئی تو ہم دونوں میں ہی اس نے نئی روح پھونک دی۔
گہرے سی گرین سوٹ میں اس کا چمکتا جھلکتا بدن، گورے گورے ہاتھ اور کلائیاں جن میں چوڑیاں بھری ہوئی۔ کانوں کی بالیاں اور ہونٹوں کی سرخیاں لیے عارض و کاکُل اور پلکیں بھی سی گرین کلر کی ’’اف، یہ ماسی اس قدر میچنگ کے ساتھ کیوں آئی ہے۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ چائے بناتی، مدیر نے جلدی سے مجھے پانچ سو کا نوٹ پکڑایا اور کہا، ’’بھاگ کے جا اور سموسے وغیرہ لے آ۔ ‘‘
میں بھاگ کر گیا اور سموسے چپس رول جلیبیاں اور جانے کیا کیا لے کر آ گیا۔ ماسی نے پلیٹیں فراہم کیں۔ ہم نے وہ تمام اشیاء نکال کر میز پر سجا دیں۔
ہم ماسی کے سامنے مدیر اور نائب مدیر کی بجائے مکمل طور پر نوکر، غلام، چپڑاسی اور کمی کمین وغیرہ بن گئے تھے اوپر سے بزرگ کی زیر لب مسکراہٹ الگ ہماری عزت خراب کر رہی تھی۔ پھر جب چائے آ گئی تو مدیر نے کہا ’’آپ بھی بیٹھیے ناں۔۔ یہ سموسہ لیجئیے۔۔ یہ بسکٹ ہیں، یہ نمکو ۔۔ یہ اتنا سب، یہ بہت زیادہ ہے، ہم اکیلے نہیں کھا سکتے، ادھر آ جائیے، یہ اس والے صوفے پر بیٹھ جائیے۔ ‘‘
ماسی کے چہرے پر اپنے ہی معاملات کا تفکر پھیلا ہوا تھا۔ بولی، ’’نہیں مجھے جانا ہے، اب میں جاؤں نا انکل۔ ‘‘ بزرگ کو اس نے انکل کہا
بزرگ نے کہا، ’’بھئی یہ اتنا ضد کر رہے ہیں تو بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر‘‘
چار و ناچار وہ بیٹھ گئی۔ مگر صوفے پر نہیں، زمین پر۔
ملاحظہ ہو کہ ہم تین بندے صوفوں پر دراز تھے اور وہ زمین پر بیٹھ گئی۔ بالکل نوکرانیوں کی طرح۔
ہم اسے ماہِ تمام کہہ رہے تھے۔ ملکہ بلقیس سمجھ کر تخت پر بٹھانا چاہ رہے تھے مگر وہ ثابت کر رہی تھی کہ نہ صرف ماسی ہے بلکہ نہایت ہی بری ماسی ہے۔ اور اس وقت تو حد ہی ہو گئی جب اس نے اپنے پرس سے ایک خالی پلاسٹک کی تھیلی نکالی پھر اسے کھول کر بالکل بھکاریوں کی طرح کہا، ’’اگر یہ سموسے وغیرہ ضرورت سے زیادہ ہیں تو اس میں ڈال دیں۔ میرے بچے کھا لیں گے‘‘
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...