Yesterday I was clever, so I wanted to change the world. Today I am wise, so I am changing myself.
.
معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لئے معاشرے کی سوچ سے پہلے کسی بھی شخص کا خود ٹھیک ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ معاشرہ کا ہی حصہ ہے ۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔
ارج زلیخا اپنے گھر میں داخل ہوئیں ۔ دونوں نے چپ ساد لی تھی ۔ یہ تو روز کاتھا ۔ کونسا آج پہلی بار ہوا تھا ۔
"تم کب پھنچے؟اور یہ چاول ؟”زلیخا چارپائی پر بیٹھے شکیل سے مخاطب ہوئی
تبھی زری کمرے سے چہکتی ہوئی برآمد ہوئی ۔” اماں میں لے کر آئی ہون پوری تین پلیٹیں ہیں آ کر تم بھی کھا لو "۔ زری یوں بولی گویا الہ دین کا چراغ مل گیا ہو۔
"تم دونون بہنیں کھا لو ۔ نادر تو رات کو ہی آتا ہے ۔ باہر سے کھا آئے گا "۔ زلیخا نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہا ۔
"تم کیا کھاؤ گی اماں ؟ "ارج نے کام کرتی ماں کو دیکھ کر کہا ۔
"دوپہر کا سالن ہے اور ایک دو روٹیاں بنا کر گئی تھی وہی ۔میری بچی ۔” زلیخانے مسکرا کر ارج کو دیکھا ۔
"اب ٹھیک ہو پاؤں میں درد تو نہیں ۔” زلیخا نے ارج سے پوچھا
"درد ؟ کیا ہوا "۔ زری نے کہا جبکہ شکیل کا دھیان بھی اس طرف گیا
"گر گئی تھی نا ؟ ”
"ہاں گری تو تھی ۔ پر وہ جو خطرناک بیگم صاحبہ ہیں نا مارا انہوں نے ۔ ” ارج کی صورت پھر سے رونے والی بنی ۔
"زلیخا بچیوں کو ساتھ نا لے کر جایا کر ۔ویسے بھی اب بڑی ہو رہیں ہیں۔ اس طرح کسی کے گھر جانا اچھی بات نہیں بچیوں کا ۔” شکیل نے تب سے یہی ایک بات کی تھی ۔
"تھوڑی مدد کر دیتیں ہیں ۔ نادر تو ایک بوٹی کوڑی نہیں رکھتا ہاتھ میں ۔ اب میں بھی پچاس کی ہونے والی ہون ۔ کام کر کر کے بری حالت ہے تو کیا کروں ۔” زلیخا پھٹ ہی پڑی تھی ۔ بچیوں کے اسکول کے خرچے گھر کے خرچے شکیل کو بھی کونسا روز روز کام ملتا تھا ۔ اتنی مہنگائی میں مشکل سے گزارہ ہوتا تھا
"اچھا زیادہ غصہ نا کر ، یہ لے چاول کھا لے ۔ "اس نے چاولوں کی پلیٹ زلیخاکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
"چل ۔۔بھلیئے لوکے ۔۔ اتنا غصہ نا کر پچاس کی ہونے والی بزرگوں کی صحت کے لئے غصہ اچھا نہیں ہوتا "۔شکیل نے آدھی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی ۔
"کھا لے دو پلیٹیں ہیں میں تھوڑے ان دونوں سے لے کر کھا لوں گی ۔ ”
وہ مسکراہٹ کے ساتھ کہہ کر کمرے میں چلی گئی ۔
"تو وہاں نا جایا کر۔ زیادہ لگی تو نہیں "زری نے ارج کے کان میں کہا
"نہیں ٹھیک ہوں "۔ ارج نے نم آنکھوں سے مسکرا کر جواب دیا تھا۔ غربت انسان کو بہت جلدی ہی دنیا کے گئیں راویوں سے روشناس کروا دیتی ہے ۔ لوگوں نے اپنے ہی سٹینڈرڈ اور پیمانے بنا لئے ہیں انسانوں کو جانچنے کے لئے ۔ جبکہ اسلام میں کسی کو کسی دوسرے پر”تقوی”ٰ کے علاوہ کوئی سبقت حاصل نہیں ہے ۔
چاند ستاروں نے جگ مگ کر رہے تھے ۔ ارج جو چھت پر لیٹی ستاروں کو دیکھ رہی تھی ۔
"دیکھ لوں گی میں بیگم صاحبہ کو "۔ پیٹھ پر اٹھنے والے درد کی وجہ سے آنسو آنکھوں کے کناروں سے نکال کر تکیے میں جذب ہوا ۔
ارج نے سونے کے لئے کروٹ لے کر آنکھیں موند لیں
(ارج ،عمر تیرہ سال)
"اماں نادر بھیا کی شادی پر نیلا گوٹے کناری والا سوٹ لوں گی” ۔زری نے بری کا سوٹ ٹانکنے میں مدد کرتے ہوئے کہا ۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے ۔ جا دیکھ تین بج رہے ارج نہیں آئی ۔ وہ آ جائے تو میں ذرا کام کے لئے جاؤں ۔” اس نے کپڑے سمیٹتے ہوئے کہا ۔
"بیگم صاحبہ کے پاس اتنا پیسا ہے مجال ہے جو ایک آنا زیادہ بھی ہاتھ پر رکھ دیں ۔ "زلیخا بڑ بڑائی ۔
"تم نے بھی تو ان کا ایک گلدان توڑ دیا تھا ۔ بعد میں مانی بھی نہیں تھی وہ پوچھتیں ہی رہ گئیں لے کس نے توڑا ہے "۔۔ شکیل نے زلیخاکی بات سن کہا
"ہاں تو ایک روپیہ بھی زیادہ دیتیں کونسی گھر میں فوجیں ہیں جن کو پیسے دیے تو کم پر جاییں گے ۔ بہت غصہ تھا اس دن ۔ اس لئے ان کا امپو ٹاڈ (امپورٹڈ) گلدان توڑ دیا ۔” زلیخا نے پھر سے شاہانہ صاحبہ پر تپتے ہوئے کہا تھا ۔
"لگتا ہے نادر آ گیا ہے ۔ زری جا پانی دے بھرا نو ۔ "شکیل نے ادھر کھڑے کھڑے ہانک لگائی
"جی ابا ! یہ بس ارج کو پانی کا گلاس دے دوں "۔ زری نے شکیل کی بات کا جواب دیا ۔
"ا و ہو ! ارج کو دینے دی ضرورت نہیں ۔ وہ خود پی لے گی تو جا بھرا (بھائی ) نو پانی کا کلاس دے "۔ شکیل نے چارپائی پر برجمان نادر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
زری نے بیچاری سی شکل بنا کر ماں کو دیکھا جس نے اسے چپ رہنا کا اشارہ کیا ۔
"یہ کوئی بات ہوئی بھلا "ارج نے باپ کی بات سن کر دل ہی دل میں کہا ۔
"چلو !ارج تم کچھ آرام کر کے یہ کپڑے ٹانک دینا ، تاکہ جلد از جلد کام ختم ہو ۔ میں کام کے لئے جا رہی ہون "۔ زلیخا ارج کو ہدایات دے کر کام کے لئے چلی گئی ۔
جبکہ ارج کا دل سخت خفا ہوا ”۔ ابھی آئی ہون ابھی ہی کام شروع کر دوں ۔”وہ اپنا بستہ اٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔
مہندی کا دن تھا ۔ برقی قمقموں سے سجا گھر جگ مگ کر رہا تھا ۔
گھر سے گانوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔مہندی لگ رہی تھی ۔
ارج بھی بیٹھی ڈولک پرر گانے گا رہی تھی ۔ رضیہ اور نادر کا نکاح مہندی کی شام کو ہی کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے مہندی ساتھ ہی رکھی گئی تھی
لٹھے دی چادر اتے سلاٹی رنگ ماہیا
اب بؤ سامنے کھولوں دی روس کے نا لانگ ماہیا
مہندی لگاؤ مہندی لگاؤ کا شور اٹھا ۔دولہا دلہن کو مہندی لگی ۔ ڈھولک بجی اور مہندی کی تقریب اختتام پذیر ہوا
آج نادر کی بارات تھی ۔ ۔ارج نےجامنی رنگ کا سوٹ پہنا تھا ۔ جبکہ زری نے نیلا ۔
وہ بارات لے کر لڑکی کے گھر پہنچے تھے ۔ گلی میں ہی ٹینٹ لگا کر اہتمام کیا گیا تھا ۔
"ارے یار کتنی دیر ہو گئی ہے ۔ گرمی سے ایسے لگ رہا ہے جیسے تندور میں پک رہے ہیں ” زری نے گرمی سے بحال ہوتے ہوۓ ارج سے کہا
"تھوڑی دیر صبر کر لو بس تھوڑی دیر اور "۔ ارج نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر میں دلہن آ گئی ۔ رضیہ نادر سے دو سال بڑی تھی ۔ رضیہ کے ساتھ رشتہ نادر کی پسند سے ہی تہ پایا تھا ۔
بری کی بار ی آئی تو لڑکی کی ماں نے طرح طرح ے منہ بنائے ۔
"اتنی سی بری اور وہ بھی اتنی سستی ۔” زلیخا کو بہت غصہ آیا ور ضبط کر گئی "۔ نہیں قوقاف سے پری ہے نا جس کو بیاہ کر لے جا رہے ہیں ”
"احسان صاھب اتنا انتظام کیا ہے ہم نے آپ تھوڑا تکلف ہی کر لیتے ۔” دلہن کے باپ نے آ کر کہا ۔
جس پر شکیل احسن بس ہان ہون ہی کر سکا ۔
رخصتی ہوئی اور رضیہ نادر کو۔ دلہن بن کر ان کے گھر آ گئی ۔
رضیہ کا راویہ گھر والوں کے ساتھ کچھ عرصہ بعد ہی بگڑنا شروع ہو گیا تھا ۔ ارج زری اور زلیخا پر تو وہ یوں برستی کے جیسے وہی گھر کی۔ بڑی ہو ۔ وقت گزرا رت بدلی ۔ اور رضیہ نادر کے ساتھ کرائے کے گھر میں چلی گئی ۔جس سے شکیل بھی کسی حد تک خاموش ہو گیا تھا ۔
وقت کا دارہ بدلہ اور ارج نے پندرہ سال کی عمر میں قدم رکھا ۔
ارج نے میٹرک میں امتیازی نمبر لے کر پاس ہوئی تھی ۔ اسے سکولر شپ ملی تھی ۔ زلیخانے ارج کا داخلہ بڑے کالج میں کروا دیا ۔
"اما ں یہ تم نے اچھا نہیں کیا” ۔ زری نے زلیخاکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تھا ۔
"کیوں اچھا نہیں کیا ؟ تو کیوں جل رہی ہے تیرا داخلہ بھی ادھر ہی کرا دوں گی ۔ چل جا اب آرام کرنے دے ۔ دماغ نا کھا میرا ۔” زلیخا نے زری کو اچھی بھلی سنا دیں تھیں ۔
"اماں وہ امیر لوگوں کا کالج ہے ۔ ہم لوگوں کو وہاں نہیں جانا چاہیے "۔زری پھر سے بولی
"تو صرف اس کا حق نہیں اچھے کالج میں پڑھنے کا "۔زلیخا پھر سے بولی
"اماں چٹائی پر بیٹھ کر پہلی جماعت پڑھنے والے بھی پی ایچ ڈی باہر کی بڑی یونیورسٹیوں سے کرتے ہیں ۔اس کے لئے بڑے بڑے کالجوں میں پڑھنا ضروری نہیں ہے "۔ زری کے دل میں ڈر تھا جو پنپ رہا تھا ۔
"تو جاتی ہے کے نہیں ” اب کی بار زلیخانے غصے سے بولی
"جا ہی رہی ہون ۔” زری کہ کر باہر چلی گئی
ارج کو کالج کے پہلے دیں بہت سی مشکلات پیش آئی تھیں ۔ اس کے جوتے اور بیگ برانڈڈ جو نا تھے ۔ مسلہ اچھے اور برانڈڈ کپڑوں۔اور جوتوں کا تھا بھی نہیں مسلہ سوچ کا تھا ۔ جو گئیں لوگوں کی برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہن کر بھی چھوٹی ہی رہتی ہے وہ کسی کی مجبوری نہیں سمجھتے ۔کے دوسرا کیسے زندگی بسر کر رہا ہے ۔اور اس بات نے ارج کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا تھا ۔
"یہ آف آس سی(fsc) پہلے سال کی کلاسز کونسے فلور پر ہو رہیں ہیں” ۔ پہلے دن جب اس نے ایک لڑکی سے پوچھا ۔پہلے تو انہوں نے سر سے پاؤں تک دیکھا تو جواب کچھ یوں ملا ۔” پتا نہیں "۔ اور اسے اگنور کر کے پھر باتوں میں مشغول ہو گئیں ۔
ارج بہت بددل ہوئی پر اتنی محنت کی تھی تو ہمت تو نہیں ہارنے والی تھی ۔
کسی نا کسی طرح کلاس ڈھونڈ ہی لی ۔ پر اس تمام کاروائی میں اسے پورے کالج کا نقشہ ضرور پتا لگ گیا تھا ۔
"کیسا رہا تمہارا آج کا دن” زری نےارج سے پوچھا ۔
"اچھا تھا ۔ بس تھوڑا مسلہ ہوا ۔ پر اب کل سے نہیں ہو گا "۔ ارج نے بہ مشکل مسکرا کر کہا تھا ،
"چلو ٹھیک ہے پھر ۔میں کھانا لے کر آتی ہون ۔ "زری باہر کی طرف جانے لگی ۔
"اماں کب گئیں ۔ اور بنایا کیا ہے کھانے میں ۔۔”ارج بولی
"کھانے میں مونگ کی دال اور اماں تھوڑی دیر پہلے ہی گئی ہے ۔تمہارا انتظار کر رہیں تھیں "۔ زری بولی ۔
"میں تو کہتی ہون ان میں سے ایک مرغی حلال کر لو ۔ ہم نے کونسا پولٹری فارم کھولنا ہے” ۔ارج دال کا۔ نام سن کار چڑ گئی ۔
ا”ماں سے کہنا ۔ ان کی پیاری چہیتی مرغیوں کے خلاف بات کر رہی ہو ۔ ” زری کہتی ہوئی باہر چل دی ۔ ارج پیچھے سے منہ ہی بناتی رہ گئی