”اپنے آنسو پونچھ لو زمل۔” رحماء نے زمل کو اپنے بازوں کے گھیرے میں لیتے ہوے کہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہچکیوں سے رونا شروع ہو گئ ۔ ” میں کیسے پونچھ لوں ان کو ۔ مجھے صبر نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں ۔ مجھ میں بھی احساسات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے رحماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رحماء الله نے خودکشی حرام کیو ں کی ہے۔” رحماءجو کہ اتنی دیر سے اسے آنسو بہاتا دیکھ رہی تھی اس بات پر تڑپ گئ کیونکہ آج سے پہلے زمل نے ایسا نہیں کہا تھا ۔ “زمل ! خبر دار جو آئندہ ایسی بات بھی کہی تو۔” رحماء نے اسے جھنجھورتے ہوے کہا کہ شاید وہ ہوش میں نہیں,لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ زمل تو اب ہوش میں آئ ہے۔
“کیوں نا کہوں میں ایسا ۔ ہاں کیوں نا کہوں ۔ وہ میری امی کو مارتے ہیںرحماء وہ میری امی کو۔۔۔۔۔۔۔”, اب کی بار وہ اتنا اونچا بولی کہ چند لڑکیاں مڑمڑ کر ان دونوں کو عیکھنے لگ گئیں۔ “رحماء امی کو بہت اچھا جھوٹ بولنا آتا ہے۔ ایک مہینہ پہلے میں نے ان کے ماتھے پر چوٹ دیکھی تو پوچھنے پر بولیں کہ الماری لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں رحماء ۔۔۔۔۔ میں نے یقین کر لیا۔اب کل میری آنکھ کھلی تو پانی لینے نیچے آرہی تھی کہ ابو کو سیڑھیوں میں امی پر ہاتھ اٹھاتا دیکھا میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔رحماء وہ ہماری زندگی سے چلے کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زمل نے روتے ہوے اسے گزرے دن کی رداد سنائ۔ اس کے بعد چند لمحے وہ چپ رہی لیکن پھر ہمت جتا کر بولی ” زمل وہ تمہارے والد ہیں اور جیسے بھی ہیں۔۔۔۔۔ان کا احترام تم پر فرض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زمل نے رحماءکی بات کاٹی اور چلائ “اور ان کے کیا فائض ہیں ؟ انہوں نے کبھی کیوں نہیں سوچا،وہ کیوں ہمارے احساسات کی قدر نہیں کرتے؟”، اور یہ وہ سوال تھے جن کے جواب رحماء کے پاس بھی نہیں تھے ۔اور آج بھی ہر دفع زمل کے گھر کے حالات پر ہونے والی گفتگو کا نتیجہ خاموشی ہی رہا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گھر آکے زمل اپنی ماما سے کچھ نا کہہ پائ اور دونوں نے بڑی مہارت سے ایک دوسرے کا پردہ رکھ لیاآج زمل کو اپنے ماما اور بابا کے ساتھ رفیق صاحب کے کسی دوست کے بیٹے کی شادی میں جانا تھا ۔ اور ان کی تیاریوں سے لگ رہا تھا کہ ان کی دوستی کافی گہری ہے۔
“تحریم بی بی جلدی کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمل کہاں رہ گئ۔۔۔۔۔۔اچھا اس کو بول دو کہ ڈوبٹا ٹھیک سے اوڑھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کل کی لڑکیوں میں تو جیسے شرم و حیا ہی ختم ہو گئ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈوبٹا لینا تو جیسے بھلا ہی دیا ہے سب نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پشاوری چپل مت نکالنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہمایوں ابھی تک رکشہ لے کر کیوں نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”, اور زمل کی سننے کی قابلیت جواب دیگئ اس نے دروازے کو ٹھوکر لگا کر بند کیا جس سے رفیق صاحب کی آواز خاصی کم ہو گئ ۔ پھر اس نے شیشے میں اپنا سراپا دیکھا جیسے دیکھ رہی ہس کہ کچھ رہ تو نہیں گیا ۔ کالے رنگ کا گٹنوں تک آتا فراک تھا جس پر گولڈن تلے کا کام اس کو نہایت خوبصورت بنا رہا تھا ۔ بازو بھی چوری د ار تھے لیکن زمل نے ان میں کالے اور گولڈن امتیاز کی کچھ چوڑیاں پہن رکھیں تھیں۔اس نے ایک نظر اپنے لمبے کمر تک آتے بالوں کو دیکھا پھر ہنس کر خود کو سراہا اور بالوں کا جوڑا بنا کر کیچر لگا دیا ۔ کیونکہ کھلے بالوں کی اجازت کبھی نا ملی تھی نا ملنی تھی ۔ پھر اس نے سلیقے سے اپنے ڈوبٹے کا حجاب بنایا اور بڑی سی چادر لےکر باہر آگئ جہاں ہمایوں رکشہ لے آیا تھا۔ زمل نے چادر سے نقاب کیا اور تحریم کے ساتھ باہر آگئ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴✴✴✴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔شادی کے فنکشن کا اہتمام گھر میں ہی کیا گیا تھا ۔ زمل کی تو حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں کیونکہ ابھی تک رفیق صاحب نے ان کو کسی قریب کی شادی میں بھی تیل مہندی پر جانے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اور ان کے دوست کے گھر جگمگاتی روشنیوں اور بلند آواز گانوں کی وجہ سے اس کو پتا چلا کہ وہ اجازت کیوں نہیں دیتے تھے۔زمل کو کئ ایک بار اس کی کلاس فیلوز نے اپنے گھروں میں ہونے والے تیل کے فنکشنز کی روداد سنائ تو اس کا بھی دل چاہا کہ وہ بھی دیکھے ۔ کالج میں کئ مرتبہ لڑکیاں اپنے موبائل فونز میں گانے لگاتیں تو زمل بھی ان کے ساتھ مل کر ناچتی۔اور رحماء کے بقول زمل سب سے اچھا ڈانس جانتی تھی ۔ لیکن آج یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اسے ہضم کرنے میں دقت ہو رہی تھی ۔وہ پھٹی ہوئ آنکھوں سے مناظر کو جزب کر رہی تھی جب اسے لگا کہ کوئ اسے دیکھ رہا ہے ۔ لیکن وہ تلاش نہیں کر پائ کہ کون ۔ اتنی میں ٹھوکر کھا کر وہ تھوڑا آگے جھکی کہ تحریم نے اسے تھام لیا ۔ ” تھینک یو ماما۔” ۔ “دیکھ کے کہیں چوٹ تو نہیں لگی ؟” ۔ “نہیں ما ما ۔” پھر وہ سب لان سے گزرتے ہوے گھر کے اندرونی حصے میں آگئے ۔ وہاں تو جیسے الگ ہی جہان تھا ۔ زمل نے اب بھی چادر سے نقاب کر رکھا تھا ۔ کیونکہ وہاں مرد اور عورتیں سب اکٹھے ہی تھے ۔ اندرونی دیواروں اور سیڑھیوں کو اچھے سے پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ ایک طرف کچھ لڑکیاں ڈھولک لے کر بیٹھی ہوئیں تھیں اور ان میں سے کچھ مہندی لگا رہی تھیں۔ان کے ساتھ ہی ان کے کزنز جو کہ چھوٹی عمر سے لے کر شادی شدہ تک بھی لگ رہے تھے موجود تھے جوکہ خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ زمل تو ان کی بےباکیوں کو دیکھ کر حیران رہ گئ ۔ اتنے میں ان کے پاس ایک عورت آئیں جو کے بہت ہی خوبصورت سے گرارے میں تھیں ۔ لیکن ان کے سر پر ڈوبٹا نہیں تھا ۔ اور غور کرنے پر زمل کو معلوم ہوا کہ وہاں پر کسی بھی لڑکی یا عورت کے سر پر ڈوبٹا نہیں ہے سوائے اس کے خود کے اور تحریم کے۔وہ عورت آکر تحریم کے گلے ملیں تو ان کے ساتھ ایک انکل بھی آگئے جن کو رفیق صاحب بہت گرم جوشی سے ملے ۔ (تو یہ ہیں وہ جن کے بیٹے کی شادی ہے )۔ زمل نے سوچا ۔
” آپ کو بیٹے کی شادی کی بہت بہت مبارک ہو شگفتہ بہن ۔” تحریم نے کہا اور ان کی جانب وہ شاپنگ بیگ بڑھا دیا جس میں ان کیلیے تخائف تھے اس بیگ کو بہت ہی لمبی بحث کے بعد قبول کیا گیا جس میں زیادہ تر حصہ یہ ہی تھا کہ “اس کی کیا ضرورت تھی ۔ تکلف کیا آپ نے تحریم ۔” (واقعی ضرورت تو ان کو بالکل بھی نہیں تھی۔) اب وہ لوگ آپس میں رسمی باتیں کرنا شروع ہو گئے ۔ ایک چیز جس نے زمل کو مزید حیران کیا تھا وہ یہ تھی کی تحریم نے اپنا نقاب اتار دیا تھا اور رفیق صاحب بہت آرام سے وہاں کھڑے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ زمل کو یاد تھا کہ جب ایک مرتبہ اس کی ماما نے اپنے بھانجے کی شادی پر نقاب کے بغیر گاڑی میں سفر کیا تھا تو رفیق صاحب ان کو چھوڑ کر چلے آئے تھے کہ ایسی آوارہ شریک حیات ان کو نہیں چاہئیے ۔پھر گھر کے بڑوں نے دخل دے کر معاملہ کس طرح رفع دفع کروایا وہ الگ کہانی ہے لیکن یہاں تو جیسے ان کے چہرے پر ذرا بھی بیزاری نہیں تھی۔ تحریم نے زمل کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اس کا وہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا جس میں اس نے چادر کا کونہ تھا ما ہوا تھا (یہ ایک سگنل تھا کہ نقاب اتار دو ) پھر وہ شگفتہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور بولیں ” یہ میری بیٹی ہے زمل۔” زمل بھی بڑھ کر ملیں تو انہوں نے اسے اپنے گلے لگا لیا ۔ ان خاتون کے کپڑوں سے اٹھنے والی تیز خوشبو ۔۔۔۔۔۔اف خدایا ۔ بدقت مسکراہٹ قائم رکھی ۔ ” بہت خوبصورت نام ہے آپ کا ۔ مطلب کیا ہے اس کا ? ” “خانہ کعبہ کا تخفہ اور عورت کو ڈھانپنے والی چادر ۔۔۔۔۔” اس سے پہلے کہ حریم جواب دیتی رفیق صاحب بول پڑے ۔ ” مطلب بھی آپ کی طرح پیارا ہے ۔” زمل نے مسکرا کر سر جھکا لیا ۔پھر رفیق صاحب سالار صاحب کے ساتھ ڈرائنگ روم میں چلے گئے اور ہمایوں بھی ان کے ساتھ چل دیا ۔ شگفتہ نے اپنی بیٹی کو آواز دی ” عالیہ ۔۔۔۔۔۔ عالیہ۔۔۔” اتنے میں ایک زمل کی ہم عمر لڑکی اسی لڑکے لڑکیوں کے جھرمٹ سے جگہ بناتی ہوئ آئ۔اس نے نہایت ہی خوبصورت کام دار لہنگا پہن رکھا تھا ۔جس کا ڈوبٹا گلے کی زینت بنا ہوا تھا ۔ “السلام علیکم آنٹی ۔ ” اس نے آکر خوشدلی سے سلام لی ۔ ” عالیہ یہ تحریم آنٹی ہیں رفیق انکل کی مسز اور یہ ہیں زمل ۔۔۔۔۔۔ اپ نے ان کو کمپنی دینی ہے ٹھیک ۔ جی ٹھیک ہے مما”۔ اس نے مسکرا کر زمل کی جانب دیکھا تو وہ بھی مسکرا دی ۔ ” زمل مجھے اپنی چادر دےدو ۔” زمل مڑنے ہی لگی تھی کہ تحریم نے روک لیا ۔ عالیہ بھی شاید کسی ملازم کو کچھ کہنے لگ گئ ۔ ” لیکن ماما ۔۔۔۔ بابا ” زمل نے اتنا آہستہ بولا کہ صرف وہ ہی سن سکیں ۔ ” تمھارے بابا نے ہی بولا تھا ۔” انہوں نے بھی اتنی ہی دھیمی آواز میں جواب دیا ۔ زمل نے حیران ہوتے ہوئے چادر اتار کر دی اور عالیہ کے ساتھ چل پڑی ۔ تحریم کو شگفتہ لےگئیں ۔
“آپ کیا کرتی ہیں زمل ؟” عالیہ نے پوچھا ۔ ” میں بی ایس سی کر رہی ہوں ۔ زولوجی میں ۔ ” زمل نے مسکرا کر جواب دیا ۔ ” ارے واہ ! سیم سیم لیکن میں بی ایس کر رہی ہوں دوسرا سمیسٹر ہے میرا ۔” اتنے میں وہ دونوں ڈھولک کے پاس آگئیں ۔ عالیہ نے دو تالیاں بجائیں اور سب کو متوجہ کر کے زمل کا تعارف کروایا ۔ اور جگہ بنا کر بیٹھ گئیں ۔ زمل پہلے تو جھجھکتی رہی لیکن بعد میں ان کے ساتھ تھوڑا گھل مل گئ اور تالیاں بجانا شروع کر دیا ۔ اتنے میں ڈھولک والی آپی نے ڈھولک پر لڈی کی دھن بجائ تو کئ لڑکیاں اور لڑکے لڈی ڈالنا شروع ہو گئے ۔ عالیہ نے زمل سے بھی کہا لیکن اس نے تو صاف انکار دیا “مجھے تو بالکل بھی ڈانس کرنا نہیں آتا ۔”( مانا کہ بابا نے چادر اتارنے کی اجازت دی اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بدل گئے ہیں ۔ بھئی مجھے میری ٹانگیں بہت عزیز ہیں ) اپنی سوچ پر وہ خود ہی ہنس دی ۔ پھر زمل کو احساس ہوا کہ شاید اس کے بال کھل گئے ہیں ۔ تو وہ پریشان ہو گئ ۔ ” عالیہ! ”
” ہاں بولو زمل۔ ”
“مجھے واش روم میں جانا ہے ۔”
“اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ام م م م م ایسا کرو میرے ساتھ آؤ ۔ یہاں نیچے تو کوئی واشروم فارغ ہونا مشکل ہے ۔ تم ایسا کرو کے اوپر سفیان بھائ کے روم میں چلی جاو ۔” سفیان کی ہی شادی تھی ۔ ” وہ مائنڈ نا کر جائیں عالیہ ۔ ” زمل نے اپنا حدشہ بتایا ۔ ” ارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں مائنڈ کرنے والی کون سی بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آو میں چھوڑ آوں ۔”
پھر زمل عالیہ کے پیچھے پیچھے چل دی ۔ سیڑھیاں چڑھ کہ وہ دونوں ایک کمرے کے سامنے آئے ۔ ” تم بے شک آرام سے فارغ ہو جاو میں نیچے ہی ہوں ۔” زمل نے مسکرانے پر اکتفا کیا ۔ اس نے ڈور ناب گما کر دروازہ کھولا تو خاموشی نے اس کا استقبال کیا ۔ اندر آکر اس نے لائٹس آن کیں تو اا کمرے کی خوبصورتی کا اعتراف کیے بغیر نا رہ سکی ۔ بلاشبہ وہ کمرہ بہایت نفاست پسندی سے سجایا گیا تھا ۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا حجاب کھولا تو سارے بال بکھر گئے ۔ اتنے میں کمرے کی کھلی کھڑکی سے باہر لگے ڈیک سے گانے کی آواز آنا شروع ہو گئ ۔
۔ سورج ہوا مدھم
چاند جلنے لگا
آسماں یہ ہائے
کیوں پگھلنے لگا
میں ٹھہرا رہا
ذمین چلنے لگی
دھڑکا یہ دل
سانس تھمنے لگی
کیا یہ میرا پہلا پہلا پیار ہےاتفاق سے یہ گانا زمل کا ان دنوں کا پسندیدہ بھی تھا تواس کا دل کیا کہ وہ ساری حدیں بھلا کر ناچنا شروع کر دے پھر کیا تھا ۔ جب دل اپنی کرنے پر آئے تو نہیں دیکھتا کہ جگہ کون سی ہے وہ وہیں پر ڈانس کرنے لگ گئ اور ڈانس میں مگن ارد گرد سے لاعلم ہو گئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک اسے لگا کہ کمرے سے ملحقہ بالکونی میں کوئ نامانوس سی آواز سنائ دی ہے تو وہ چونک گئ ۔ جب وہ آواز دوبارہ سنائ دی تو ڈر کے مارے زمل کے ہاتھ پاوں پھولنا شروع ہو گئے ۔اس نے جلدی جلدی اپنے کھلے بالوں کو جوڑے میں قید کیااور حجاب کر کے باہر بھاگ گئ ۔ پھولے سانس کے ساتھ نیچے آئ تو عالیہ نے پوچھا ” کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ حیریت تو ہے نا زمل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹھو یہاں پر ۔”
“اوپرسفیان بھائ کے کمرے میں کوئ ہے ۔ ” زمل نے پھولی سانس کے بیچ میں کہا ۔
” اوہ۔۔۔۔۔ میرے خدایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لیزا ہو گی ۔ سفیان بھائ کی بلی ۔ میں دیکھتی ہوں ۔ ” یہ کہہ کر وہ اوپر کی جانب چل دی ۔ اور زمل نےسکون کا سانس لیا کیونکہ وہ یہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ کسی نے اسے اس حالت میں دیکھا ہے پھر وہ تحریم کی جانب چل دی ۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ آواز لیزا کی نہیں کسی اور کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعے سے وہ محتاط ضرور ہو گئ ۔ اور کھانے تک کا سارا وقت تحریم کے ساتھ ہی گزارا ۔ “زمل بچے ذرا اپنے بابا کو گقن تو کر لو اور پوچھو کہ وہ کہاں ہیں ۔ گیارہ بج رہے ہیں۔۔۔۔۔” تحریم نے فکرمندی سے زمل کو کہا تو اس نے فرضی جیب میں ہاتھ ڈالا ( یہ اس کی عادت تھی کیونکہ وہ یونیورسٹی میں موبائل جیب میں ہی رکھتی تھی ) “امی موبائل میرے پاس تو نہیں ہے ۔”زمل کے ساتھ ساتھ تحریم بھی پریشان ہو گئیں ۔پھر کچھ یاد آنے پر زمل بولی ۔ “ماما میں واشروم گئ تھی وہاں نا رہ گیا ہو ۔ میں دیکھ کے آتی ہوں ۔” زمل نے تحریم سے اپنی چادر واپس لی اس کو بازو پر ڈالا اور عالیہ کی جانب آئ ۔”عالیہ شاید میں اپنا موبائل سفیان بھائ کے کمرے میں بھول آئ ہوں کیا لے آوں ?”
“ارے زمل اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے دیکھ لو جاکے ۔ بلکہ میں یہاں کچن سے فارغ ہو کر اوپر ہی آجاتی ہوں ۔ ” عالیہ نے زمل کے ہاتھ میں وہ چھوٹا سا موبائل دیکھا تھا جب وہ واشروم میں گئ تھی ۔ لہذا اس کی پریشانی سمجھ کر بولی ۔زمل اوپر آگئ اوپر والے پورشن میں اب اسے کوئ نظر نہیں آیا ۔ سب نیچے دلہے کو مہندی لگا رہے تھے ۔ زمل نے جب کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر گھپ اندھیرا تھا جبکہ وہ لائٹ جلتی چھوڑ کر آئ تھی ۔ (عالیہ نے بند کر دی ہوگی لائٹ ) اپنی سوچ کا خود ہی جواب دے کر آگے بڑھی کہ ڈریسنگ ٹیبل پر اسے اس کا موبائل نظر آگیا ۔ ابھی اس نے موبائل اٹھانے کیلیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ بند ہونے آواز آئ ۔ وہ مڑی تو کسی نے لائٹ آف کر دی ۔ زمل نے دوڑ لگانا چاہی لیکن دروازے کے پاس پہنچتے ہی کسی نے اسے بازو سے کھینچ کر دیوار کی جانب دھکیلا اور آگے بڑھ کر ایک بازو کی پشت زمل کی گردن پر رکھی جس سے اس کی آواز نکلنا محال ہو گیا تو دوسرے ہاتھ سے زمل کےپیٹ پر اپنی پانچوں انگلیوں سے دباو ڈال کر اسے دیوار سے لگا دیا ۔زمل نے ڈر کے آنکھیں بند کر لیں ۔
“یہاں کیا کر رہی ہو ؟ ” بھاری آواز میں پوچھا گیا ۔
“م م م م ۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔م م م ۔۔۔میں اپنا سیل فون۔۔۔۔۔۔ل ل ل لینے آ۔۔۔۔۔آئ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ووو۔۔۔وہ وہاں ہے ۔” گردن پر بازو ہونے کی وجہ سے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اس چور (ایسا زمل کو لگا کہ یہ چور ہے ) کی توجہ دلوائ ۔ “اوہ۔۔اچھا تم لڑکی ۔۔۔۔نام کیا ہے تمہارا ؟ ” ۔ “زز۔۔۔زم م م مل ۔۔۔زمل ۔” بمشکل کہہ پائ ۔
” ہاں تو مس زمل اب اگر تم نے نیچے کسی کو بھی یہ تیایا جو یہاں ہوا ہے تو تمہاری عزت تو جائے گی ہی لیکن میں تمہارا حشر نشر کر دوں گا ۔۔۔۔۔۔ آئ بات سمجھ میں ؟ ”
“ججج۔۔۔۔جی ۔” زمل کو ناجانے کیوں لگا کہ وہ شخص اپنی اصل آواز چھپا رہا ہے ۔ لیکن اس کی دھمکی کا یہ اثر ہوا کہ زمل زور زور سے کانپنے لگی ۔ اب اس شخص نے آہستہ آہستہ زمل کی گردن پر اپنے بازو کی گرفت ڈھیلی کی آیاکہ دیکھ رہا ہو کہ وہ چینخے نہیں اور جیسے ہی یقین آیا کہ اب وہ نہیں چینخے گی وہ بالکونی کی جانب بھاگ گیا ۔جبکہ زمل اپنی پھولی ہوئ سانس بحال کرنے کی سعی کرنے لگ گئ ۔ دوبارہ دروازہ کھلا اور عالیہ اندر آئ ۔ ” ارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمل لائٹ تو جلا لیتی ۔ اور ایسے کیوں کھڑی ہو ؟ “، عالیہ نے لائٹ آن کی تو اسے کانپتی ہوئ زمل دیوار کے ساتھ لگی نظر آئ ۔ ” زمل ۔ ۔ ۔ ۔ زمل کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب ٙٹھیک تو ہے نا ؟ ” ۔
“عالیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ووو۔ ۔ ۔وہ ” ابھی زمل نے بتانا شروع ہی کیا تھا کہ لیزا بالکونی سے اندر کمرے میں آگئ ۔” افو۔ ۔ ۔ ۔ زمل ایک بلی سے ڈر گئ ۔ ” لیزا اب زمل کے پاوں کےگرد اٹھ کھیلیاں کر رہی تھی ۔ “آو لیزا تمہیں نیچے لے جاوں ۔ موبائل ملا زمل؟ ” عالیہ نے زمل سے پوچھا لیکن وہ کسی اور ہی دنیا میں تھی ۔ “زمل” اب کیبار عالیہ نے کچھ اونچا بولا تو زمل ہوش میں آئ ۔ ” ہ۔ ۔ہ۔ ۔ ۔ ہاں کیا ہوا؟ ” اس نے بوکھلاتے ہوے پوچھا۔ “زمل میں موبائل کا پوچھ رہی ہوں ۔ ملا کیا ؟” عالیہ بھی حیران ہوئ۔ ” ہاں ۔ ۔ ۔ ہاں مل گیا ” پھر وہ خود پر گزری قیامت پر قابو پاتے ہوے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گئ اور موبائل اٹھا لیا ۔ اب وہ جلد از جلد یہاں سے جانا چاہتی ہے ۔ “عالیہ میں نیچے چلتی ہوں ماما میرا انتظار کر رہی ہوں گی ۔” عالیہ کو دیکھ کر اس نے خود پر کافی حد تک قابو پاتے ہوے کہا۔ “ہاں چلو میں بھی آتی ہوں ۔۔۔۔ آو تم بھی لیزا ” پھر اس نے لیزا کو بھی گود میں اٹھا لیا ۔ اور جب وہ نیچے آئیں تو زمل تقریبًا دوڑ کر تحریم کے پاس گئ اور موبائل ان کی طرف بڑھا دیا۔
“ماما ! بابا سے کہیں کہ جلدی چلیں ۔ مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے یہاں۔” زمل نے تحریم کا بازو اپنی گرفت میں لیتے ہوے کہا ۔ ” ہاں ہاں میں کہتی ہوں کیونکہ ان لوگوں نے تو ابھی رات گئے تک یہ شور شرابا جاری رکھنا ہے۔” تحریم نے بھی زمل کی تائد کی ۔ پھر وہ لوگ وہاں پر سالار صاحب اور شگفتہ کے کہنے پر بھی نہیں رکے ۔ رفیق صاحب بھی باہر اتنا آزادانہ ماحول دیکھ کر بمشکل مسکراہٹ قائم کئے ہوے تھے۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر زمل نے اپنی آنکھیں موند لیں ۔ اور ذہن میں ایک مرتبہ پھر سے سارا واقعہ چلنے لگا ۔ “ارے بھئی حد ہوتی ہے بے شرمی کی۔۔۔۔۔۔وہ تو سالار نے اتنا اسرار کیا تو میں آنے پر راضی ہو گیا مجھے کیا پتا تھا کہ یہاں تو کسی کو مذہب کی تمیز نہیں۔۔۔۔۔۔۔” آج ذندگی میں پہلی بار زمل کو رفیق صاحب کا چلانا برا نہیں لگا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا بس کسی طرح اس جگہ سے بہت دور چلی جاے ,کبھی واپس نا آنے کیلیے…
___________
رحماء پچھلے آدھے گھنٹے سے زمل کو چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس پر کوئ اثر ہو تب نا ۔ اور زیادہ تر باتیں جو وہ رونے کے دوران کر رہی تھی ان میں “اگر کوئ وہاں آجاتاتو” ۔ “آیا تو نہیں نا زمل”
“اگر کوئ مجھے وہاں ایسے دیکھ لیتاتو” ۔ “دیکھا تو نہیں نا زمل”۔
“اس نے کہا تھا کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو وہ میرے ساتھ اچھا نہیں کرے گا ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے رحماء”
رحماء نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور بولی ” اس کو پتا نہیں چلے گا زمل ۔ الله کا شکر ادا کرو کہ اس نے بہت بڑے نقصان سے میری دوست کو بچا لیا ہے۔ پتا نہیں وہ شاید کوئ چور تھا ,اور کچھ چرانے آیا ہوگا ۔ زمل بس الله کا شکر ادا کرو اور اس پر معاملہ چھوڑ دو ۔ ” رحماء نے مکمل خلوص سے اسے سمجھایا تو اس کا رونا دھونا سوں سوں میں بدل گیا ۔
“زمل رحماء تم دونوں یہاں پر ہو , جلدی کلاس روم میں آو ۔ علینہ اپنا بلوتوتھ لائ ہے ۔” ان کی کلاس فیلو رامیشا ان دونوں کو بلانے آئ کیونکہ زمل تو دیوانی تھی ڈانس کی ۔ “نہیں بابا میں نہیں آرہی ۔” رحماء اور زمل ذمین سے اٹھتے ہوئے اپنے کپڑے جھاڑ کر بولی ۔ رحماء نے حیرت سے اسے دیکھا تو رامیشہ بولی ۔
” واقعی ! ۔”
” جی واقعی ۔ کیونکہ مجھے بھوک لگی ہے اور ڈانس تو میں کچھ کھانے کے بعد ہی کروں گی ” زمل نے رحماء کا ہاتھ پکڑا جو ہنس رہی تھی اور کینٹین کی جانب چل دی ۔ رحماء نے سکون کا سانس لیا کہ اب زمل بہتر ہوئ ہے وہ تھی ہی ایسی جتنا دقیانوسی اور تنگ اس کے گھر کا ماحول تھا وہ اتنی ہی معصوم اور چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرنے والی تھی ۔ وہ اپنے دن کو کالج میں ہی جی لیتی لیکن اب مسلہ یہ تھا کہ اس کا تعلیم کا یہ آخری سال تھا ۔ جیسے تیسے رفیق صاحب نے بی ایس سی کی اجازت دی تو ساتھ ہی کہہ دیا ۔ “اس کے بعد یہ لڑکی مجھے نا کہے کے آگے پڑھنا ہے ۔ بچیاں گھر میں ہی اچھی لگتی ہیں ۔ اور تم کالج جاتے وقت برقع لو گی اور اگر مجھے کبھی کسی بھی ایسی بات کا پتا چلا جو مجھے پسند نا آئ تو اسی دن تمہارا گھر سے باہر نکلنا بند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
درحقیقت جو کچھ سالار صاحب کی طرف ہوا رحماء ابھی بھی وہی سوچ رہی تھی کہ کوئ ایسا کیوں کرے گا لیکن مطمعن تھی کہ اب زمل اس واقعے کو بھلا دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” السلام علیکم چندا ”
زمل جب کالج سے گھر آئ تو اپنے موبائل پر موصول ہونے والے غیرشناسہ نمبر سے آئے میسج پر حیران ہو گئ۔ ” یہ کس کا میسج ہو سکتا ہے بھلا ؟” وہ صرف سوچ کے ہی رہ گئی ۔ کیونکہ اس کے جاننے والوں میں سے کوئی بھی اسے “چندا” نہیں کہتا تھا ۔ جب وہ جی بھر کے حیران ہو لی تو اس سوچ میں پڑ گئ کہ یہ کون ہو سکتا ہے ۔ ” ہو سکتا ہے کہ رحماء نے نیا نمبر لیا ہو ۔”، ” لیکن وہ مجھے چندا تو کبھی نہیں کہتی ،” ۔ ” تو کیا کسی نے غلطی سےکر دیا ہے”۔ “لیکن اگر وہ چندا کہہ رہا ہے تو مطلب جس کو میسج کیا ہے اسے جانتا بھی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اپنی سوچوں سے تنگ آگئ تو جھنجھلا کر موبائل بیڈ پر پٹخ دیا “بھاڑ میں جائے “۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ✴✴✴✴✴✴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب وہ رات کا کھانا کھا رہے تھے تو بالکل خاموشی تھی اور رفیق صاحب کے ہاتھ میں زمل کا موبائل تھا ۔ جسے وہ ابرویں اچکا کر چیک کر رہے تھے جیسے اس میں انڈین آرمی کے بلوپرنٹس ہوں اور وہ پاکستانی انجینئیر ۔۔۔۔۔ ہنہ۔
زمل نے اپنی سوچوں کو جھٹک کر کھانا کھانے پر فوکس کیا ۔ “یہ کیا بے ہوگدی ہے ؟ ” رفیق صاحب کی آواز پر اس نے سر اٹھا کے دیکھا ۔ اسے لگا کہ ہمایوں نے پھر کوئ شرارت کی ہے لیکن وہ تو اس کی ہی طرف دیکھ رہے تھے تو وہ گڑبرا گئ ۔
“ک ۔ ۔ ۔ کیا ہوا بابا ؟” وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائ کہ اس پر کیوں غصہ ہو رہے ہیں جبکہ زمل نے تو ایسا کچھ کیا ہی نہیں ۔ تو انہوں نے موبائل سکرین زمل کی جانب کر دی جس پر صبح موصول والا میسج جگمگا رہا تھا ۔ ایک لمحے کیلیے تو زمل کا سر ہی گھوم گیا لیکن بظاہر خود پر قابو پاتے ہوے بولی ” بابا ۔ ۔۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ رحماء کا نیا نمبر ہے آج وہ یونی نہیں آئ تھی اس لیے کام پوچھنے کیلیے فون کیا ۔۔۔۔۔۔” اور آج پہلی دفعہ جھوٹ بولتے ہوئ آخری دفعہ اس کی آواز کپکپائ ۔ ” اس سے بول دو تم کہ آئیندہ ایسے القاب سے تمہیں نا بلائے ۔ زہر لگتی ہیں مجھے وہ لڑکیاں جن کو بات کرنے کی تمیز بھی نا ہو ۔ یہ پڑھتے ہو تم لوگ اداروں میں ۔ یہ تمیز سکھائ جاتی ہے وہاں ۔ یہ سب پڑھنا ہوتا ہے تو پھر بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” زمل نے سب باتوں کو سنا ان سنا کیا اور جلدی سے کھانا کھا کر کمرے میں آگئ ۔ آج خلافِ معمول موبائل اس کے پاس تھا ۔اپنے کمرے میں آ کر زمل نے غصے سے دروازہ بند کیا اور لمبے لمبے سانس لےکر اپنا غصہ کم کرنے کی سعی کرنے لگی ۔ اسی غصے کے زیرِاثر زمل نے میسج کا جواب دیدیا ۔
“کون ہے؟ ” اور موبائل کو بیڈ پر پٹخ کر کتابیں لےکر بیٹھ گئ ۔ ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ جواب آگیا۔
” وعلیکم السلام ” زمل نے پڑھا تو اسے لگا کہ رحماء ہے کیونکہ رحماء ہمیشہ اس کی اس غلطی کو ٹوک دیا کرتی تھی ، تو جواب دیا ۔ ” رحماء آج یونی کیوں نہیں آئ ۔ یاد کیا تم کو میں نے ” زمل نے بغیر تصدیق کئے جواب دےدیا ۔
“آج طبیعت خراب تھی اس لیے ۔”
موصول ہونے والے جواب نے اس کے شک کی تصدیق کر دی کہ وہ رحماء ہی ہے ۔ ” مت کیا کرو یوں چھٹی ۔” محبت سے غلہ کیا گیا ۔ ” اوکے جناب اب نہیں کروں گی ۔” ساتھ ہی جواب آگیا ۔
” رحماء مجھے میسیجز پر ” چندا ” مت کہا کرو ۔ آج بابا نے اتنی باتیں سنائ ہیں ۔” زمل کا غصہ نکل ہی گیا۔۔۔۔۔۔اور وہ رات کافی دیر تک اس انجان شخص سے اسے رحماء سمجھ کے باتیں کرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✴✴✴چھہ مہینے بعد ✴✴✴
زمل نے رات کو اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک عجیب سی خوشی اس میں سرایت کر گئ ۔ وہ اپنی کپڑوں کی الماری کے سامنے آئ اور اس کو کھول کر اندر سے کپڑوں کی تہہ کے نیچے سے ایک موبائل نکال لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح زمل کو یاد آیا کہ کس طرح اس کا پہلا موبائل بابا نے توڑ دیا تھا ۔ بات یہ تھی کہ اس کے ایک ٹیسٹ میں %70 سے کم مارکس تھے جس پر وہ غصہ تھے اور دوسرا ان کو پتا چل گیا تھا کہ زمل رات کے وقت موبائل اپنے پاس رکھتی ہے ۔ ” بابا ٹیسٹ میں کم مارکس بخار کی وجہ سے آئے تھے , قسم لےلیں آئیندہ ایسا نہیں ہو گا ۔” زمل نے روتے ہوئے ان سے کہا لیکن وہ اس کی آنکھوں میں چھپی سچائ کو دیکھ نا پائےزمل کو ٹیسٹ والے روز واقعی بخار تھا لیکنانہوں نے موبائل کو ہوا میں بلند کیا اور ایک جھٹکے سے اسے ذمین پر دے مارا ۔ وہ موبائل کوئ اچھی کمپنی کا تھا بھی نہیں لہزا کئ حصوں میں ٹوٹ گیا ۔ اس دن وہ صرف موبائل نہیں تھا جو ٹوٹا تھا وہ زمل کا اپنے بابا کے ساتھ مان کا رشتہ تھا جو ٹوٹ گیا تھا ۔”مجھے آئیندہ اس لڑکی کے ہاتھ میں یہ خرافات نظر آئ تو میں اس کے ہاتھ تو توڑوں گا ساتھ تمہارے پاوں بھی توڑ دوں گا تحریم ! تمہارے کہنے پر میں نے اس کو یہ لے کر دیا تھا۔۔۔۔۔ایسی ہوتی ہیں اچھے گھروں کی لڑکیاں۔۔۔۔۔” زمل نے ایک نظر ان ٹوٹے ٹکڑوں کو دیکھا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئ ۔اس عزم کے ساتھ کہ آئیندہ کبھی رفیق صاحب کو مخاتب نہیں کرے گی ۔
یہ اس دن کے ایک ہفتے کی بات ہے جب وہ رات میں کمرے میں سونے آئ تو سرانے کے نیچے سے “زوں زوں ” کی آواز پر حیران رہ گئ ۔ اس نے سرانہ ہٹا کر دیکھا تو وہاں ایک خوبصورت سا موبائل تھا ۔ زمل تو اسے دیکھ کر سکتے میں آگئ ۔ دوڑ کر نیچے تحریم کے پاس آئ ۔ ” ماما میرا موبائل ۔” وہ حسبِ معمول باورچی خانہ میں ہی تھیں جب زمل نے پوچھا ۔ ” زمل میری جان ۔۔۔۔۔۔ تمہارے بابا کا غصہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ میں ابھی ان کو موبائل کیلیے نہیں کہہ سکتی ۔” زمل حیرانی کا پتلا بنی ماں کو دیکھتی رہی پھر بولی ,” نہیں امی مجھے موبائل نہیں چاہئیے ۔ ویسے بھی پیپرز قریب ہیں ۔” یہ کہہ کر وہ اوپر کمرے میں آگئیں ۔ آکر دروازہ اچھی طرح سے بند کیا ۔اور بیڈ پر آگئ ۔ اب موبائل زوں زوں نہیں کر رہا تھا ۔ اس نے اپنے ہاتھ میں موبائل پکڑا اور اسے دیکھنے لگی وہ Samsung کمپنی کا J5 ماڈل کا موبائل تھا ۔ ابھی وہ اس کو پلٹ کر دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ پھر سے وائبریٹ کرنے لگ گیا ۔ زمل نے ڈرتے ڈرتے کال اٹھا لی ۔ وہ ” زی” کی کال تھی وہ اس سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کیسی ہے , اس کو بتا رہا تھا کہ اس نے موبائل ایک مزدور جو کہ ان کے گھر کام کرنے آیا تھا اس کے ہاتھوں بھجوایا تھا , وہ اسے بتا رہا تھا کہ زمل سے ایک ہفتہ بات نا کر کے وہ بے سکون تھا اور اس وقت زمل کو وہ اپنا سب سے بڑا غم گسار لگا ۔آج بھی الماری سے موبائل نکالتے ہوئے زمل کو وہ پہلی رات یاد آئ جب اس کو موبائل دیا گیا تھا ۔ زمل نے مسکرا کر موبائل آن کیا تو ڈھیروں نوٹیفیکیشنز آگئ جو کہ اس بات کی گواہ تھیں کہ “زی” اس سے کافی ناراض ہے۔ زمل نے کال ملائ تو دوسری بیل پر ہی فون اٹھا لیا گیا ۔
“السلام علیکم ! ” بہت خوشگوار موڈ میں کہا گیا تو زی کو تو جیسے آگ ہی لگ گئ ۔ ” کیا مطلب السلام علیکم , اتنے دنوں کے بعد تم نے کال کی ہے اور میری حالت جو کہ مرنے کے قریب ہے اس پر تم مجھ پر سلامتی بھیج رہی ہو ۔۔۔۔اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہو زمل ” زی کا زمل کو نام سے بلانے کا مطلب تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے ورنہ وہ اسے کہتا ہی “چندا ” تھا ۔ زمل نے کئ مرتبہ منع بھی کیا تھا لیکن وہ کہتا کہ مجھے یہ نام پسند ہے میں تو یہ ہی کہوں گا ۔
“زی ! آپ کو پتا ہے کہ میرے فائنلز تھے ۔” زمل نے بہانہ گڑھا ۔
” میرے خیال سے زمل بی بی آپ کے پیپرز تین دن پہلے ختم ہو چکے تھے ۔” زی بھی باخبر تھا ۔ جب وہ اس کے گھر میں فون رکھوا سکتا تھا تو پیپرز کی آخری تاریخ پتا کروانا تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔
” ام م م وہ ۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔۔” زمل سے بہانہ نہیں بن پا رہا تھا ۔
” جھوٹ مت بولنا زمل ۔” زی نے وارنگ دی ۔
” میں ماما کے ساتھ گاوں شادی پر گئ ہوئ تھی ۔ ” زمل نے اقرار کر ہی لیا ۔
” پورے تین دن کیلیے ۔” زی کو ابھی بھی یقین نہیں آیا ۔
” ہم۔۔۔۔۔” زمل نے آہستہ سی آواز میں کہا ۔
” اچھا چلو پھر تصویریں تو لی ہوں گی نا ? ”
” جی ” زمل نے جیسے ہی کہا , کہہ کر پچھتائ ۔
” چلو پھر دکھاو مجھے۔۔۔۔۔۔” ساتھ ہی زی نے وہ فرمائش کر دی جس سے وہ بچنا چاہتی تھی ۔
” آپ جانتے ہیں زی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” زمل نے آہستہ سے کہا ۔
” کیا۔۔۔۔۔۔? ” زی جانتا تھا لیکن اس کے منہ سے بار بار سننا اچھا لگتا تھا ۔” میں پردہ کرتی ہوں ۔” ہلکی معصوم آواز میں اس نے دفاعی پل باندھا , جانتی تھی یہ کام کر جائے گا ۔
” تم حجاب کیوں کرتی ہو چندا ? ” ,( چندا کہنے کا مطلب تھا کہ اب وہ ناراض نہیں ہے لیکن ) آج سے پہلے اس نے ایسا سوال نہیں کیا تھا , زمل نے سوچنے کیلیے چند لمحے لیے اور بولی ,” میں حجاب اس لیے کرتی ہوں تاکہ میں خود کو اس کے احترام کے نتیجے میں باحیا رکھ سکوں ۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ کوئ میری طرف بری نگاہ سے دیکھے یا نہیں ۔ میں صرف اپنی نظر کی حفاظت کی جوابدہ ہوں۔۔۔۔۔”
“اور؟ ” زی نے جیسے اسے مزید کریدا ۔
” اور جب میں حجاب کر کے باہر جاوں تو خود بخود نظریں جھک جاتیں ہیں ، کیونکہ اگر میں حجاب کر کے بھی اپنی نظر کی حفاظت نا کر پاوں تو مجھے لگتا ہے کہ دہرا گناہ ہو گا ، ایک پردے کی بےحرمتی پر اور دوسرا بگاہ کی حفاظت نا کرنے پر ۔ ” اور آج بھی ہر مرتبہ کی طرح زمل نے زی کو خاموش کروا دیا ، وہ واقعی کئ لمحے بول نا سکا ، پھر بولا ” تم اچھی لڑکی ہو زمل ، اب سو جاو ، اچھی لڑکیاں زیادہ دیر تک جاگا نہیں کرتیں ۔” زمل نے مسکرا کر ہاں میں ہاں ملائ اور فون رکھ دیا ۔ زمل نے فون تو رکھ دیا لیکن کافی دیر تک یہ سوچتی رہی کہ اسلامی بنیادوں پر لیے جانے والے ملک کی زیادہ تر شادیوں میں حجاب قبول کیوں نہیں کیا جاتا تھا ۔ وہ حال ہی میں جس شادی سے لوٹی تھی بلا شبہ وہ ایک گاوں میں تھی لیکن وہاں پر بھی ڈوپٹے کو سر کی زینت بنانے کی بجائے گلے کا ہار بنایا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور بات صرف یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ جب تک حجابی لڑکیوں کو تنز کی نگاہوں سے دیکھ نا لیا جائے یا ان کی حجاب پر سوال نا کر لیا جائے خود کو ماڈرن خیال کرنے والی لڑکیوں کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اور تو اور افسوس زیادہ ان لڑکیوں کے حصے میں آتا ہے جو حجاب لینا صرف اس لیے چھوڑ دیتی ہیں کہ ” لوگ کیا کہیں گے”۔
اور اس معاملے میں زمل رحماء کو بھی قائل نہیں کر پائ تھی ۔یہ ان کی فئیرویل کی تقریب تھی , جب رحماء سٹیج پر کھڑی الوداعی غزل پڑھ رہی تھی :
” سرِشام سورج کے ڈوبنے پر
آج عجب سی اداسی چھائی ہے
ہوا کے جھونکوں کی مانند
آج پھر تیری یاد آئی ہے
تم مانو یا نا مانو میری دوستو
وجئہ اداسی تیری جدائی ہے ”
وہ چند لمحے رکی پھر بولی , اب شاعرہ خنساء کی زبانی میں میری دوستوں سے کہنا چاہوں گی,
” بس اتنا ہی تھا ساتھ ہمارا
ناممکن سا لگتا ہے یہ
کہ
دوستی کو میں بھول جاوں
وہ دن جب ساتھ تھے سارے
تھیں چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی
بے وفا نکلے کچھ دوست
چھوڑ کے تنہا بچھڑے کچھ دوست
بس یادیں ہیں اور اداس شام
یادیں بھی سرمایہ ہیں
بچھڑے کچھ دوستوں کی
باتیں بھی سرمایہ ہیں ”
سارا ہال تالیوں کی گونج میں جھوم اٹھا ۔ رحماء نے دوبارہ آکر اپنی نشست سنبھال لی , وہ ہمیشہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں مہارت رکھتی تھی ۔ زمل نے بھی جھک کر اسے داد دی ۔ جسے رحماء نے مسکرا کر وصول کیا ۔ زمل کو آج جو واحد بات پسند نہیں آئ تھی وہ یہ تھی کہ رحماء جس نے کالج کے چار سال سر سے ڈوپٹا نہیں اتارا تھا آج بال کھولے پھر رہی تھی ۔ اور کئ ٹیچڑز اور کام کرنے والے بھی مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔
“رحماء ایک دوست ہونے کے ناطے میں تمہیں یہ بتانا اپنا حق سمجھتی ہوں کہ تم نے مجھے آج مایوس کیا ہے۔ ”
“زمل میں نے جب یونس بھائ کی شادی پر سکارف لیا تھا تب سب نے کتنا مذاق اڑایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے آج میں نے ۔۔۔”, رحماء نے ہلکی سی آواز میں کمزور سی دلیل دی ۔ جس پر زمل تو غصہ ہو گئ اور بولی ,” مطلب حد ہے کہ آپ شادیوں میں صرف اس لیے حجاب نا کریں کہ لوگ کیا کہیں گے , اور کھلے بال اس لیے چھوڑ دیں کیونکہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ لوگوں سے ڈرنا کب چھوڑیں گے۔۔۔۔۔” زمل نے اس سے زیادہ رحماء سے کچھ نہیں کہا , کیونکہ وہ اس خاص دن کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔✴✴✴✴✴✴✴✴✴✴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی صبح زمل کچن میں ایک نئ ترکیب سے کباب بنا رہی تھی ، جب پلیٹ سجا لی تو اس کی ایک تصویر کھینچی کہ رات میں زی کو بھیج کہ اس کا دل جلائے گی اور پھر ساتھ ہی موبائل کو بند کر کے سویٹر کی اندرونی جیب میں چھپا لیا ۔ ابھی وہ پلیٹ لے کر اپنے ڈوپٹے سے بے خبر کچن سے نکلی ہی تھی کہ باہر لاونچ میں ہارون کو کھڑے دیکھا ، وہ ہمایوں کا دوست تھا اور اس سے کتاب لینے آیا تھا ، زمل کے ہاتھ میں کباب دیکھ کر بولا ،” زمل باجی آج گھر میں کوئ دعوت ہے کیا ؟ ” تو وہ ہنس کر بولی ” نہیں ، نہیں دعوت تو نہیں ہے ۔ لیکن تم بڑے خوشقسمت ہو ، ادھر ہی رکو میں پلیٹ میں لے کر آتی ہوں ، ” جب وہ کچن میں آئ اور دروازے پر لٹکا ڈوپٹا دیکھا تو اپنی بے خبری پر خود کو جی بھر کے کوسا ، پھر ڈوپٹا ٹھیک کر کے پلیٹ میں ہارون کے لیے کباب نکال کر اسے دیے اور اس کے کھانے تک وہیں بیٹھی رہی ، کیونکہ ابھی ہمایوں گھر پر نہیں تھا ، پھر جب وہ چلا گیا تو زمل بھی اپنے کمرے میں واپس جانے لگی کہ رفیق صاحب کی غصے سے بھر پور آواز نے اس کے قدم روک دیے ، ” زمل ! رکو “، زمل کا ہاتھ بے اختیار اپنی جیب پر گیا جس میں موبائل تھا ، وہ آج رفیق صاحب کے گھر پت ہونے سے بے خبر تھی ۔ زمل وہیں رک گئ ، پھر مڑی اور رفیق صاحب کو سیڑھیاں اترتا دیکھ کر ان کی جانب بڑھی ، ” بابا یہ چکھ کے دیکھیں ، میں نے کباب بنائے ہیں آج ہی دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ابھی زمل کی بات بیچ میں ہی تھی کہ رفیق صاحب نے ہاتھ مار کر پلیٹ گرائ جو کے سیڑھیوں میں گرتے ہی چکنا چور ہو گئ ، زمل ابھی حیرانی سے ان کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ انہوں نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے زمل کے بائیں گال پر انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا ، زمل نے بے اختیار اپنا ہاتھ اپنے گال پر رکھا جہاں اب اس کے آنسو ابل ابل کر گر رہے تھے ، رفیق صاحب کچھ بولتے کہ اس سے پہلے تحریم آگئیں اور انہوں نے زمل کو اپنی بانہوں کے حسار میں لے لیا اور بولیں ، ” کیا کر رہے ہیں آپ ۔” زمل کو اس طرح دیکھ کر ان کا کلیجہ ہی کٹ گیا۔” پوچھو اپنی اس بے حیا بیٹی سےکیسے غیر مردوں کے سامنے دندناتی پھر رہی تھی وہ بھی بغیر ڈوپٹے کے ، کسی باہر والے نے دیکھا تو کیا کہے گا یہ تربیت دی ہے میں نے اپنی بیٹی کو ، میں کہتا ہوں رشتا دیکھو اس کا اور اپنے گھر کا کرو اسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ تو جانے اور کیا کیا بولتے لیکن تحریم بول پڑیں ” میں سمجھا دوں گی اسے ، آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ فکر نا کریں ۔ ”
” فکر میں نا کروں ، میں تو جان سے مار دوں گا اسے اگر دوبارہ اس طرح دیکھا بھی تو ، اور تم ۔ تمہیں بھی ذندہ نہیں چھوڑوں گا میں ، تم نے ہی ایسی تربیت کی ہے اس کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، زمل اس ساری گفتگو کے دوران خاموش سامع کا کردار ادا کرتی اپنے گال پر ہاتھ رکھی سسکیاں لیتی رہی ، تھپڑ کی تکلیف سے کہیں زیادہ تکلیف ان الفاظ کی تھی جو وہ اپنے لیے اپنے باپ کے منہ سے سن رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی غم و غصے میں اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے بابا سے ان کی عزت کا غروراور تکبر چھین لے گی ، پھر چاہے اس کیلیے اسے کسی بھی حد سے گزرنا پڑے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...