مال یتیموں کا بھی کھا رئے قہرِ خداسے ڈرتے نئیں
لائے امر پٹّہ لکھوا کر، بیمار ہوئے مرتے نئیں
چمٹا، بیلن، چمچہ، جھاڑو کی تو ہم کو عادت ہے
یہ بیگم کی مار ہے ورنہ اپُن کسی سے ڈرتے نئیں
جان تمنا! آپ ہمارے دلبر ہیں یا لیڈر ہیں؟
وعدے تو کرتے رہتے ہیں لیکن پورے کرتے نئیں
تم نے چنے کے جھاڑ پہ یارو! چڑھا دیا ان کو ناحق
ان کی فطرت کیا بتلاؤں چڑھ جائیں تو اترتے نئیں
اہلِ ہوس کا پیٹ تو بھر جاتا ہے نیت نئیں بھرتی
پھوٹے ہوئے مٹکے میں لیکن ہم بھی پانی بھرتے نئیں
اپنے ہاتھوں خنجرؔ صاحب اپنا کچرا کرتے ہو
چاہے ہوٹنگ ہی ہو جائے، شعر تمہارے سرتے نئیں
۲۔
جب سے کرسی بچھڑ گئی ماموں
توند لیڈر کی جھڑ گئی ماموں
آنکھ یہ کس سے لڑ گئی ماموں
یہ تو پیچھے ہی پڑ گئی ماموں
کونسِلر بن گیا ہے وہ جب سے
اس کی گر دن اکڑ گئی ماموں
آپ نے کیا کیا پڑوسن سے
کیوں تماچہ وہ جڑ گئی ماموں
شیر وانی تھی، بن گئی جاکٹ
یوں سلائی ادھڑ گئی ماموں
آپ اوروں کو درس دیتے رہے
اور اولاد سڑ گئی ماموں
رہنما ہو گئے ضمیر فروش
شرم سے قوم گڑ گئی ماموں
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
قطعہ
اوروں کے قد ناپنے والے اصلی بونے ہیں
چند ہیں ان میں پورے اکثر آدھے پونے ہیں
کِبر و انا کے کٹھ پتلے ہیں مکر و ریا کے بندے
کھیل حسد کا کھیل رہے ہیں خود ہی کھلونے ہیں