ماہیے کی کہانی ہے
ماہیے کی دُھن میں
ماہیے کی زبانی ہے
دو پھول گلاب کے ہیں
بھنگڑا اور ماہیا
تحفے پنجاب کے ہیں
جی کو بہلاتے ہیں
پیار بھرے ارماں
ماہیے کہلاتے ہیں
جب یاد ستاتی ہے
دل کی ہر دھڑکن
ماہیا بن جاتی ہے
ٹھنڈک بھی ، حرارت بھی
ہوتی ہے ماہیے میں
شوخی بھی ، شرارت بھی
رُودادِ جوانی ہے
اُردو ماہیے کی
کیا خوب کہانی ہے
خوشبو بڑی پیاری ہے
گویا ہر ماہیا
کیسر کی کیاری ہے
کوئی طرزِ بیان نہیں
اردو میں ماہیے
کہنا آسان نہیں
ماہیے کی پذیرائی
محنت ساروں کی
آخر رنگ لے آئی
سمٹا ہوا اَمبر ہے
نمبر ”گلبن“ کا
جو ماہیا نمبر ہے
شہکار بھی ہوتے ہیں
لیکن کچھ ماہیے
بے کار بھی ہوتے ہیں
کس دُھن میں رہتے ہیں
بعضے ماہیے کو
ٹپّہ بھی کہتے ہیں
ٹکڑوں پر پلتے ہیں
اب بھی کچھ شاعر
ماہیے سے جلتے ہیں
فن میں لاثانی ہیں
حیدر ”ماہیے کی
تحریک“ کے بانی ہیں
عکسِ ابوابِ دل
اصل میں ماہیا بھی
ہے ایک کتابِ دل
اردو کے پیاروں کو
اللہ خوش رکھے
سب ماہیا نگاروں کو
آکاش کو بھی چھُو لے
یارب ! دنیا میں
مِرا ماہیا پھلے، پھولے
فلم ”خاموشی“کے ماہیے
اک بار تو مل ساجن
آکر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوا دل ساجن
سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
کچھ کھو کر پائیں ہم
دور کہیں جا کر
اک دنیا بسائیں ہم
یہ طرزِ بیاں سمجھو
کیف میں ڈوبی ہوئی
آنکھوں کی زباں سمجھو
تارے گنواتے ہو
بن کر چاند کبھی
جب سامنے آتے ہو
سر مست فضائیں ہیں
پیتم پریم بھری
پھاگن کی ہوائیں ہیں
اشکوں میں روانی ہے
آنسو پی پی کر
مدہوش جوانی ہے
کچھ کھو کر پاتے ہیں
یاد میں ساجن کی
یوں جی بہلاتے ہیں
کیا اشک ہمارے ہیں
آنسو مت سمجھو
ٹوٹے ہوئے تارے ہیں
دو نین چھلکتے ہیں
ساجن آجاؤ
ارمان مچلتے ہیں
بھیگی ہوئی راتوں میں
ہم تم کھو جائیں
پھر پریم کی باتوں میں
مختلف زبانوں کے ماہیے
پنجابی
دو پَتر اناراں دے
اک واری میل کریں
ربا وچھڑیاں یاراں دے
فارسی
ایں محفلِ یاراں است
گلبن گل مے کند
چہ فصلِ بہاراں است
ہندی
کیسی تروینی ہے
چندر مکھی سجنی
مرگ شاوک نینی ہے
بنگالی
ایکھن امی جاچھی نہ
بندھو ایشے چھے
امی دانڑاں تے پاچھی نہ
گجراتی
دیپک پن جاگے چھے
بھائی نقی ائی دا
تمے کیوو لاگے چھے
مراٹھی
اتا جاؤ کٹھے سانگا؟
گانی پریما چی
می گاؤ کٹھے سانگا
متفرق ماہیے
آ چھت پر آ سجنا
چاند نہیں نکلا
ذرا مکھڑا دکھا سجنا
مِری بگڑی بنانے آ
قسمت روٹھ گئی
اسے پھر سے منانے آ
پردیس تو جاؤ گے
یہ بتلا جانا
کب لَوٹ کے آؤ گے
کہیں دھوکہ نہ کھا جانا
کسی پردیسی کی
باتوں میں نہ آ جانا
کیا گُل یہ کھلا بیٹھے
اک پردیسی سے
ہم اکھیاں ملا بیٹھے
دنیا سے نہیں ڈرتے
عشق ہے لا فانی
عاشق تو نہیں مَرتے
ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں
اک امید پہ ہم
جیتے، کبھی مرتے ہیں
دو بول ہیں گانے کے
بیتے دن سجنا
نہیں واپس آنے کے
کیا جرم ہمارا ہے
چھوڑ کے مت جانا
اک تیرا سہارا ہے
تاروں بھری راتیں ہیں
پیار کی باتیں بھی
سب کہنے کی باتیں ہیں
کیوں پھول نہیں کھلتے
بدلی نچوڑ چکے
میرے اشک نہیں ملتے
موجوں میں روانی ہے
موج اُڑا سجنا
دو دن کی جوانی ہے
پھولوں سے لدی ڈالی
جھوم کے پھر آئی
ساون کی گھٹا کالی
پردیس نہ جا سجنا
آنکھوں میں بس جا
میرے سپنے سجا سجنا
نفرت کا صلہ کیسا؟
اپنی خطائیں ہیں
یزداں سے گلہ کیسا؟
کچھ کر کے دکھاتی ہے
رحمت مولا کی
جب جوش میں آتی ہے
وہ رام ، رحیم بھی ہے
ایک ہی مالک ہے
جو کرشن، کریم بھی ہے
بھٹکا ہوا راہی ہے
کون سی بدلی میں
میرا چن ماہی ہے
رو رو بے حال ہوئی
زندہ دلی اپنی
جی کا جنجال ہوئی
کس نے بھر مایا ہے
کون نگوڑی نے
پردیس بلایا ہے
آویزاں ہے تختی
ساتھ نبھاتی ہے
تا عمر سیّہ بختی
اشکوں کو پی لیں گے
کچھ نہیں بولیں گے
ہونٹوں کو سی لیں گے
اپنے بھی پرائے بھی
بھول ہی جاتے ہیں
آخر ماں جائے بھی
ہمراز نہیں آئی
شیشۂ دل ٹوٹا
آواز نہیں آئی
زلفوں کا اندھیرا ہے
مانگ میں دلہن کی
سانجھ اور سویرا ہے
پھولوں کو کھلنے دو
دنیا میں دو دل
ملتے ہیں، ملنے دو
کم ظرف جو ہوتے ہیں
اپنی ناؤ کو
وہ خود ہی ڈبوتے ہیں
کانٹوں کا بچھونا ہے
دل سے مت کھیلو
یہ ٹوٹا کھلونا ہے
دل چکنا چُور ہوا
جب سے چن ماہی
آنکھوں سے دور ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوگی کے نہیں پھیرے
دل جہاں آ جائے
وہیں ڈال دئیے ڈیرے
(حیدر قریشی)