ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ (استاد اردو ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی) نے میرے نام اپنے دو خطوط میں ماہیے کے تعلق سے یہ سوال اٹھائے ہیں۔
۱۔ ماہیا سے پہلے اردو میں ہائیکو، ثلاثی اور بعض دیگر سہ مصرعی اصناف موجود ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے ماہیا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
۲۔ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے جس کا تعلق گائیکی سے ہے۔ اردو کے شعری ادب میں ماہیا کی کیا حیثیت بنے گی۔ ادبی صنف کی یا گیت کی؟
۳۔ ایسے وقت میں جبکہ کمرشل میوزک کا رواج ہے (بلکہ راج ہے) ایک لوک گیت کی اردو میں آ کر موسیقی کے حوالے سے بھی کیا حیثیت بن پائے گی؟
یہ سوال اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ اب تک ماہیے کی جو عمومی بحث ہوئی ہے اس سے ہٹ کر کئے گئے ہیں۔ ان سوالات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اس مضمون کے آخر میں کروں گا۔ پہلے میں گذشتہ چند برسوں میں اٹھائے گئے اعتراضات اور نکات پر گفتگو کروں گا تاکہ ماہیے کو سمجھنے اور سمجھانے کی اب تک کی مثبت اور منفی دونوں طرح کی کاوشوں کا مجموعی تاثر سامنے آ جائے اور یہ بھی ریکارڈ پر آ جائے کہ ماہیے کی بحث اب تک کیسے کیسے مرحلوں سے گذر کر آئی ہے ۔چونکہ بیشتر اعتراضات کے جواب مضامین کی صورت میں ساتھ ساتھ ہی ہماری طرف سے دیئے جاتے رہے ہیں۔ اس وجہ سے میرے بعض سابقہ مضامین کے خیالات کی اس مضمون میں تکرار کی بھی گنجائش ہے۔ ویسے میں کوشش کروں گا کہ ایسا کم سے کم ہو۔ تاہم اب تک کے تمام اہم سنجیدہ اور علمی نکات اور غیر سنجیدہ اعتراضات کو یک جا کرنا بھی نیا کام ہے۔ یوں ماہیے کی بحث کی کہانی میں موافقت اور مخالفت کی بیشتر روداد جمع ہو جائے گی۔
ماہیے کے سلسلے میں پنجابی اسکالرز نے مختلف موقف پیش کئے تھے۔ غلام یعقوب انور نے یہ وزن ”فعلات مفاعیلن“ بیان کیا تھا۔ پروفیسر شارب نے اسے ”مفعول مفاعیلن“ بیان کیا۔ تنویر بخاری نے بھی یہی وزن بیان کیا۔ ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری نے ان اوزان کے مقابلے میں ”فعلن فعلن فعلن“ کو موزوں قرار دیا۔ پروفیسر شارب نے عروضی بکھیڑوں سے جھوجھنے کے بعد غیر ارادی طور پر یہ حقیقت بیان کی۔
”سُر ٹھیک لگدی ہو وے تاں سبھ ٹھیک اے“…. ماہیا سُر (لَے) میں ہو تو سب ٹھیک ہے۔ سُر کو گاتے وقت دیہاتی لوگ خود ہی ٹھیک رکھتے ہیں کیونکہ وہ نسل در نسل یہ لَے سنتے آئے ہیں اور ان سے زیادہ ماہیے کی لَے کو اور کون جان سکتا ہے؟ (پنجابی سے ترجمہ)
اسی طرح تنویر بخاری بھی اس حقیقت کے قریب سے گذرتے ہیں۔
”ماہیے کے عام ٹکڑوں کو جب ہم اس وزن پر پرکھتے ہیں تو ہمیں ان میں بہت ساری کمی بیشی دکھائی دیتی ہے۔ کئی الفاظ یا حروف کی کمی کو لَے کو زیادہ کر کے پورا کرلیا جاتا ہے۔“
(پنجابی سے ترجمہ)
غلام یعقوب انور پروفیسر شارب اور تنویر بخاری جو اوزان بیان کر رہے تھے ان کا فرق شاید ”تسکین اوسط“ کی کرشمہ سازی تھا۔ سُر ٹھیک لگنے اور الفاظ کی کمی بیشی کو لَے میں پورا کر لینے کا اندازہ ہونے کے باوجود ہمارے پنجابی اسکالرز پنجابی ماہیے کی ساخت کو گہری نظر سے نہ دیکھ پائے اور یہی گمان کرتے رہے کہ ماہیے کے تینوں مصرعے ہم وزن ہیں۔ ان کے برعکس ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری کو کہیں کہیں دوسرے مصرعہ میں الجھاﺅ محسوس ہوا تو انہوں نے اپنی تمام تر تحقیق کے باوجود برملا طور پر یہ اقرار کیا۔
”شاید کل کلاں کوئی اور بندہ کوئی اور وزن تلاش کر لے جو میرے بیان کردہ وزن پر پورا اترنے والی ساری کلیوں اور مصرعوں پر بھی فٹ بیٹھے اور ساتھ ہی زیر بحث ماہیا کے دوسرے مصرعہ پر فٹ بیٹھ جائے۔ یوں میرے اس مضمون کا دوسرا حصہ لکھا جا سکے جس کے لکھے جانے سے پورا ماہیا (تینوں مصرعوں کا پورا ماہیا ۔ ناقل) عروض کے گھیرے میں آ جائے اور پھر ہم کہہ سکیں کہ ماہیے کا جو مصرعہ اس وزن پر پورا نہیں اترتا وہ غلط ہے لیکن پتہ نہیں کہ وہ دوسرا حصہ کبھی لکھا بھی جائے گا کہ نہیں؟ اگر کبھی لکھا گیا تو لکھنے والا بندہ کون ہوگا؟ تنویر بخاری یا میں، یا کوئی اور؟“
(پنجابی سے ترجمہ)
تنویر بخاری نے اپنے موقف کو پیش کر کے صاف صاف لکھ دیا۔
”یہ درست ہے کہ لوک گیتوں کو عروض کے گھیرے میں لانا، سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے لیکن پھر بھی پنجابی زبان کو علمی اور ادبی زبان بنانے کے لئے کچھ سانچے تو گھڑنے ہی پڑیں گے…. ہو سکتا ہے کسی دن سچ نکھر کر سامنے آ جائے…. میں نے ماہیے اور اس کی بنت کے بارے میں کوئی ”فتویٰ“ نہیں دیا نہ ہی میری بات پتھر پر لکیر ہے، نہ ہی میں خود کو عالموں، فاضلوں اور محققوں میں شمار کرتا ہوں۔ میں تو ادب کا ایک چھوٹا سا طالب علم ہوں، اندھیرے میں تیر چلانے والا۔ مجھے امید ہے کہ میری اس حقیر سی کاوش کے بعد پنجابی زبان کے دانشور اور محقق اس سمت میں مزید پیش قدمی کریں گے“ (پنجابی سے ترجمہ)
مذکورہ پنجابی دانشوروں کی کسر نفسی کے باوجود ماہیے کے وزن کے سلسلے میں ان کی سچی لگن اور جستجو سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے جلائے ہوئے چراغوں سے مزید چراغ جلے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجابی ماہیے میں الفاظ کی کمی بیشی کو جاننے کے باوجود یہ دانشور ماہیے کے وزن کو اردو عروض کے پیمانوں میں تلاش کرتے رہے۔ پنجابی ماہیے میں موجود الفاظ کی کمی بیشی کو لے کے ساتھ پورا کرنے کا ہلکا سا احساس تو انہیں رہا لیکن ان میں سے کسی نے بھی ماہیے کی دھن سے اس کے وزن کو تلاش کرنے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ شاید اسی لئے تنویر بخاری متذبذب تھے اور ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری اسی لئے کسی اور بندے کے مضمون کے منتظر تھے جس کے بیان سے ماہیے کے وزن کا حتمی فیصلہ ہوسکے۔
ہم کوئی حتمی فیصلہ تو نہیں دے رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پنجابی اسکالرز کے کئے ہوئے کام کی روشنی میں ہم نے ماہیے کی عوامی دھن سے اس کے وزن کو دریافت کر کے ایسا اہم کام کیا ہے جسے اب ہمارے بعض ”کرم فرما“ بھی نہ صرف ماننے لگے ہیں بلکہ اسے اس طرح اپنا موقف بتانے لگے ہیں جیسے یہ ان کا ایجاد کردہ ہو۔
ہماری طرف سے جب یہ وضاحت اصرار کے ساتھ کی گئی کہ ماہیے کے دوسرے مصرعہ کا وزن پہلے اور تیسرے مصرعوں سے ایک ”سبب“ کم ہونا چاہئے، تب تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ”ماہیے“ کے نام سے لکھنے والوں نے ہماری شدید مذمت کی لیکن جیسے ہی انہیں احساس ہوا کہ ہمارا موقف درست ہے تب انہوں نے مخالفت کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ماہیے کے لئے دونوں وزن ٹھیک ہیں، یعنی
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن یا مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
ذاتی پریشانی سے دوچار ان ماہیا نگاروں سے قطع نظر بعض ناقدین نے سنجیدگی سے ماہیے کے وزن پر غور کیا۔ پروفیسر عرش صدیقی نے بتایا کہ ماہیے کے لئے مفعول مفاعیلن اور فعلن فعلن فعلن والے دونوں وزن ٹھیک ہیں البتہ فعلن والا وزن زیادہ بہتر ہے۔ ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے سلسلے میں انہوں نے لکھا کہ یہ وزن میں پہلے اور تیسرے مصرعوں سے ایک ”سبب“ کم بھی ہوسکتا ہے، ہم وزن بھی ہوسکتا ہے اور ایک ”سبب“ زائد بھی ہو سکتا ہے۔ لگ بھگ یہی بات ریاض احمد نے کہی ہے۔ پنجابی زبان میں زحافات کے قواعد کی عدم موجودگی اور لچکیلے پن کو ذہن میں رکھے بغیر مختلف پنجابی ماہیوں کو پرکھا جائے تو اردو عروض کے پیمانوں پر بلا شبہ ایسی ہی صورتحال دکھائی دیتی ہے لیکن ہم نے پنجابی ماہیے کو اردو کے پیمانوں پر آزمانے کی بجائے اس کے وزن کو اس کی دھن سے دریافت کرنے کا جو اصول بتایا ہے اس کے بعد ساری غلط فہمیاں دو ہو جاتی ہیں۔ میں نے اپنے مضمون ”اردو ماہیا۔کل اور آج“ میں ماہیے کی بیان کردہ تینوں صورتوں کو سامنے لا کر ماہیے کی دھن پر آزمانے کی دعوت دی تھی۔ وہ تینوں بیان کردہ صورتیں یہاں پھر درج کئے دیتا ہوں۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع (دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم)
فعلن فعلن فعلن
——–
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن (تینوں مصرعے ہم وزن)
فعلن فعلن فعلن
——–
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن فع (دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب “زائد)
فعلن فعلن فعلن
ظاہری اور تحریری طور پر دیکھا جائے تو پنجابی ماہیے میں یہ تینوں صورتیں دکھائیں دیں گی لیکن اگر فعلن وزن کی ان صورتوں کو ماہیے کی کسی معروف دھن میں گنگنانے کی کوشش کی جائے تو صرف ایک ”سبب“ کم والا وزن سہولت اور روانی سے گنگنایا جاتا ہے باقی دونوں اوزان نہیں، ناصر عباس نیئر اور بعض دوسرے دوستوں نے پنجابی ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھ کر یہ گمان کیا کہ ماہیے کے دونوں وزن ٹھیک ہیں۔ اس مغالطے کا سبب بھی وہی تھا جو ماہیے کے تین اوزان سمجھنے والے مغالطے کا تھا۔ ایسے دوستوں کو جب مدلل جواب دیئے گئے تو بیشتر نے کج بحثی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی۔
ماہیے کے خدوخال کی شناخت کے سلسلے میں زیادہ زور ماہیے کے دوسرے مصرعہ پر رہا ہے وگرنہ (اردو قواعد کے حوالے سے دیکھا جائے تو ) ریاض احمد کی یہ بات درست ہے کہ ظاہری طور پر ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن میں بھی ادل بدل ہوتا رہتا ہے لیکن اگر ماہیے کی عوامی دھن کو معیار مان لیا جائے تو پھر نہ پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن کے سلسلے میں کوئی الجھن رہتی ہے نہ دوسرے مصرعہ کے وزن کے سلسلے میں کوئی غلط فہمی۔
ماہیے کو عام طور پر تین مصرعوں میں لکھا جاتا ہے۔ بعض پنجابی دانشوروں نے اسے ڈیڑھ مصرعوں میں بھی لکھا ہے۔ اردو میں غزالہ طلعت نے ماہیے کی ان دونوں تحریری شکلوں کو بیان کرنے کے بعد واضح کیا تھا کہ ڈیڑھ مصرعہ میں بھی ماہیے کا مجموعی وزن وہی رہے گا۔ اس شکل کے مطابق ماہیا یوں لکھا جائے گا۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع فعلن فعلن فعلن
ماہیے کی شکل و صورت کے حوالے سے عاشق حسین عاشق نے بالکل انوکھی بات لکھی ہے۔ ان کے مطابق ماہیا صرف ایک مصرعہ پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کا بیان ریکارڈ پر لا رہا ہوں ممکن ہے کوئی صاحب علم اس سے استفادہ کرلے۔ عاشق حسین عاشق کے فرمان کے ساتھ چند ملے جلے دلچسپ اعتراض اور طنز بھی محفوظ کرلینا مناسب ہے۔ فہیم شناس کاظمی ماہیے کے وزن کے سلسلے میں میرے اصرار پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں-:
۱۔ ماہیے کے دونوں وزن رائج ہیں۔
۲۔ آخر اردو ماہیے پر پنجابی ماہیے کے وزن کا اطلاق کیوں کیا جائے؟
اگر موصوف کی پہلی بات درست ہوتی تو انہیں دوسری بات میں ایسا سوال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جہاں ایم اے تنویر، نثار ترابی اور ان کے ساتھی دوسرے شعراءیہ منوانے کے لئے کوشاں ہیں کہ ماہیے کے دونوں وزن ٹھیک ہیں وہیں ایک غیر ماہیا نگار ضیاءشبنمی نے شدید غم و غصے کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ ماہیا صرف تین ہم وزن مصرعوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے، ساتھ ہی میرے موقف کو میری ضد قرار دے کر اندازہ لگایا ہے کہ میں ماہیا کا بانی بننے کا منصوبہ بنا رہا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔ اگرماہیا تین ہم وزن مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے تو وہ سارے شاعر اور ادیب بے وقوف ثابت ہوتے ہیں جو گذشتہ برسوں میں ہمارے ماہیے کو ماہیا ماننے کے ساتھ اپنے ماہیا نما ثلاثی کو بھی ماہیا منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں تو صاف صاف کہنا چاہئے تھا کہ ماہیا ہوتا ہی تین ہم وزن مصرعوں کا ہے باقی سب غلط ہے۔ اسے ”مدعی سست گواہ چست“ سے زیادہ پنجابی میں ”چور نالوں پنڈ کالی“ کہنا مناسب لگتا ہے۔ ماہیے کا بانی بننے والی بات سے جی خوش تو بہت ہوا ہے لیکن تادم تحریر اردو ماہیے کی تحقیق کے مطابق اس کے بانی ہمت رائے شرما ہیں۔ ان کے بعد قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے نام آتے ہیں لہٰذا میرے بانی بننے کا کوئی امکان نہیں۔ ”یاروں“ کو خواہ مخواہ دکھی نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں ماہیے کے خدوخال اور مزاج کی بحث کو نکھارنے اور اردو ماہیے کی ترویج کے سلسلے میں مجھے تھوڑی بہت خدمت کرنے کا موقع ضرور ملا ہے اسے میں اپنے خدا کا خود پر فضل سمجھتا ہوں۔ (وما تو فیقی الا باﷲ)
یوسف علی لائق نے اپنے مضمون ”ماہیا کی بازیافت“ میں اتنی مضحکہ خیز علمیت بگھاری ہے کہ ان کے بیشتر طنزیہ فرمودات پر ہنسی آتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ماہیا کے لغوی معنی عاشق، محبوب اور شوہر بتائے ہیں۔ اسے بنیاد بنا کر طنزیہ اعتراض کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ معنی لغات میں موجود نہیں ہیں۔ استناد فرمائیں۔
یوسف علی لائق کی لیاقت کا یہ عالم ہے کہ پنجابی الفاظ کا معنی اردو لغات میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اگر موصوف نے پنجابی کی کسی مستند روایت سے ان معانی کی تصدیق کی ہوتی تو ان کے طنزیہ جملے ان کے منہ پر نہ آتے۔ پروفیسر شارب اپنے مضمون ”کجھ ماہیے بارے“ میں کہتے ہیں۔ ”ماہیا لفظ ماہی کے ساتھ الف ندائیہ لگا کے ماہیا بنا لیا گیا ہے جو کہ محبوب، ساجن ،پیارا، ڈھولا اور معشوق کے معنوں میں آتا ہے۔ (پنجابی سے ترجمہ) ۔
تقریباً یہی بات تنویر بخاری نے اپنی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“ میں لکھی ہے۔
مناظر عاشق نے لکھا تھا ”ماہیا لکھی جانے والی شاعری سے زیادہ گائی جانے والی شاعری ہے۔“ یوسف علی لائق کو اس بات میں بھی کوئی تک نظر نہیں آتی کہ ماہیا بیک وقت ادب بھی ہے اور موسیقی بھی۔ یہاں پھر وہی بات کہ اگر موصوف نے پنجابی ماہیے گانے والوں کی آوازوں میں سن لئے ہوتے اور پنجابی ماہیوں کی مختلف کتابیں پڑھ لی ہوتیں یا کم از کم دیکھ ہی لی ہوتیں تو انہیں مناظر عاشق کے جملہ پر کوئی اعتراض نہ رہتا۔
میں نے لکھا تھا کہ ماہیا کو بگڑو اور ٹپا بھی کہتے ہیں لیکن ماہیا نام زیادہ مقبول ہوا۔ لائق صاحب اپنی لیاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹپا اور بگڑو کے ناموں پر بھی بگڑ گئے۔ اپنے بے تکے انداز میں طنز بلکہ طعنہ زنی کرنے لگے حالانکہ میں نے جو کچھ لکھا تھا غلط نہیں تھا۔ گورے چٹے رنگ کے لئے پنجابی میں بگا بولا جاتا ہے۔ اس کی تانیث بگی کو ہمارے ہاں بگڑو کہتے ہیں۔ تنویر بخاری کا خیال ہے کہ محبوب کے حسن کی تعریف میں اس کے گورے رنگ کے بار بار تذکرے کی بنیاد پر ماہیے کو بگڑو کہا جانے لگا۔ افضل پرویز کے بقول بگڑو نامی ایک طوائف ماہیے بہت عمدہ گاتی تھی اس وجہ سے بعض علاقوں میں ماہیے کا نام بگڑو پڑ گیا۔ محمد بشیر ظامی نے بگڑو کو اپنا قدیمی گیت قرار دے کر جو گیت پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بگڑو (ماہیا) بطور نمونہ پیش ہے۔
کوٹھے تے کھیس پیا
ہک دم سجناں دا
او وی ٹر پردیس گیا
اسی طرح ماہیے کو ٹپا کہنے کا ذکر کتاب ”ماہیا۔ فن تے بنتر“ میں موجود ہے۔ پرانے ماہیوں میں ماہیے کا نام ٹپے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ایک مثال۔
تھالی وچ کھنڈ پئی آ
آﺅ سیو ٹپے گایئے
میرے ویرے دی گنڈھ پئی آ
میں نے ماہیا کو لفظ ماہی سے نکلا ہوا لکھا تھا اور ماہی کے معنی بھینس چرانے والا چرواہا بیان کیا تھا۔ بعد میں جب مہینوال اور رانجھا جیسے رومانوی کرداروں نے مرحلۂ عشق میں چرواہے کا روپ اختیار کیا تو لفظ ماہی چرواہے کی سطح سے اٹھ کر محبوب کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یوسف علی لائق نے میری اس بات کا خاصا مضحکہ اڑایا ہے، طنز کئے ہیں اس پر سوائے اس کے اور کیا کہوں۔طنز بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
یہاںچند پرانے اور مستند پنجابی اشعار درج کئے دیتا ہوں جن میں ماہی بہ معنی چرواہا آیا ہے۔
ماہی ڈھونڈ کے بابلا! اساں آندا
صفت ایسدی کہی نہ جاوندی اے
(میرے بابل میں ایک ایسا چرواہا ڈھونڈ کے لائی ہوں جس کی خوبیاں بیان ہی نہیں کی جا سکتیں)
مہیں چرن نہ باجھ رنجھیڑے دے
ماہی ہور سبھے جھک مار رہے
(رانجھے کے بغیر بھینسیں چرتی نہیں ہیں۔ باقی سارے چرواہے (ماہی) جھک مار کر رہ گئے ہیں۔)
ماہی کی جمع ”ماہیاں“ بنتی ہے۔ دیکھیں باقی سارے چرواہے (ماہی) مل کر رانجھے سے کیا پوچھ رہے ہیں:
ماہیاں پچھیا رانجھیا! دس بھائی!
تیرے کن پاڑے ہن کس کان میان
پروفیسر شارب نے تو یہاں تک بتایا ہے کہ میتا چنابی نے فارسی میں جو قصہ ہیر رانجھا لکھا تھا اس کا نام ”قصہ ہیرو ماہی“ رکھا تھا اور اس نے بزبان فارسی بھی ”ماہی“ کو چرواہا اور محبوب دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ یہ قصہ ۱۶۹۸ءمیں پیش کیا گیا تھا گویا آج سے ٹھیک تین سو سال پہلے کی بات ہے۔
سب سے زیادہ مضحکہ خیز اعتراض (اور کردار بھی) ارشد نعیم کا ہے۔ موصوف نے ابھی تک جتنے ماہیے لکھے ہیں ہمارے بیان کردہ وزن کے مطابق لکھے ہیں۔ ۱۹۹۴ءمیں ان کے ساتھ ایک مالی معاملہ تھا جس میں یہ دھوکہ دہی اور بددیانتی کے مرتکب ہوئے۔ اس فراڈ میں بدمزہ ہونے کے بعد انہوں نے کئی ماہ تک چپ سادھے رکھی پھر ایک دم اپنے اندر کا سارا بغض نکال کر رکھ دیا۔ ہمارا معاملہ ۱۹۹۴ءمیں طے ہوا اور جلد ہی ختم بھی ہوگیا۔ اس سے دو سال پہلے ۱۹۹۲ءمیں ماہیے کے تئیں ان کا رویہ کیا تھا؟ اس کا پورا ثبوت ذیل کے دو حوالوں میں مل جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ءمیں سعید شباب کی طرف سے بعض ادبی رسائل میں یہ اعلان شائع ہوا۔
”ضروری اعلان! پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق جن شعراءنے ماہیے لکھے ہیں توجہ فرمائیں!
میں ایک کتاب ”اردو ماہیے“ مرتب کر رہا ہوں، شعرائے کرام سے گذارش ہے کہ وہ اپنے مطبوعہ/غیر مطبوعہ ماہیے مجھے جلد از جلد بھجوا دیں تاکہ انتخاب کرنے میں آسانی ہو….سعید شباب خانپور“
اس اعلان میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ ”پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق“ ماہیے بھیجیں۔ اب ارشد نعیم کا خط بنام سعید شباب دیکھیں-:
”۵ستمبر ۱۹۹۲ئ
جناب سعید شباب صاحب
سلام مسنون
شاہین عباس بڑا تیز نکلا۔ میں نے اس کو ماہیے کی ترغیب دی اور اس نے مجھ سے پہلے ہی ماہیے آپ کے حضور ڈھیر کر دیئے۔ حیدر قریشی صاحب نے اپنے ایک خط میں آپ کا ذکر مبارک فرمایا تھا۔ اب تجدید میں اشتہار بھی آ گیا ہے۔ اس لئے حیدر قریشی صاحب کی تحریک پر لکھے گئے ماہیے حاضر ہیں۔ شیخوپورہ میں اس ”وبا“ کو پھیلانے میں حیدر قریشی صاحب کا زیادہ بلکہ مکمل ہاتھ ہے۔ ہوسکے تو ایف آئی آر درج کروا دیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔امید ہے کہ قلب و قلم کے یہ رشتے دائم و قائم رہیں گے۔
انتظار کروں گا۔ ارشد نعیم۔ شیخوپورہ“
اب موصوف کا فرمان یہ ہے کہ ماہیے کا وزن تو تین ہم وزن مصرعوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے لیکن ماہیے کو ثلاثی سے الگ رکھنے کے لئے حیدر قریشی کی بات مان لی جائے۔ بات تو حیدر قریشی کی مان لی جائے لیکن یہ ہر گز نہیں کہا جائے کہ ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماہیا اَن پڑھ دیہاتیوں کی گھڑت ہے اس لئے اس میں کسی وزن کی تلاش بے سود ہے۔
ارشد نعیم کے رویے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یار لوگ کس طرح ذاتی رنجش میں ادبی سچائی کا بھی انکار کر دیتے ہیں۔ میں نے ارشد نعیم کے بدلتے رویے کی صرف نشاندہی کی ہے ان کی تحریر اس حوالے سے اتنی پرسنل اور متعفن ہے کہ کسی مہذب ادبی رسالے میں اس کے اقتباس دیتے ہوئے سوچنا پڑے گا۔ میں اس افسوسناک حوالہ کو نظر انداز کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ یہ ماہیے کے سفر کا افسوسناک واقعہ تھا اس لئے ریکارڈ کی تکمیل کے لئے اس کا ذکر کرنا پڑ گیا۔
ماہیے کے وزن کے ساتھ ماہیے کے مزاج کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔ پہلے پہل خاور اعجاز نے اس طرف متوجہ کیا۔ بعد میں ناصر عباس نیئر اور ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اس بارے میں توجہ دلائی۔ ماہیے کے وزن کا مسئلہ جسم کے مماثل ہے تو مزاج کے لئے روح کا لفظ کہہ سکتے ہیں۔ جسم کے واضح حدود ہیں، روح کا صرف احساس کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے وزن کی طرح مزاج کے بارے میں کوئی دوٹوک بات کہنا مشکل ہے۔ ہر چند پنجابی ماہیے میں محبت سے جڑے ہوئے مختلف موضوعات کے ساتھ مٹی کی خوشبو اور دیہاتی زندگی کی ترجمانی زیادہ ہوئی ہے تاہم پنجابی ماہیے میں دینی ماہیے، احتجاجی ماہیے، زندگی کے دکھوں کے تذکروں والے ماہیے بھی عام ملتے ہیں جو خود ماہیے کے عمومی پنجابی مزاج سے قدرے مختلف ہیں۔ اردو میں ماہیا نگاروں کو ”پل صراط“ پر چلنا پڑ رہا ہے کہ مزاج کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ خود کو تکرار سے بھی بچانا ہے اور ماہیے کے لگے بندھے موضوعات سے آگے کا سفر کر کے اس کے دامن کو وسیع بھی کرنا ہے۔ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ہمارے ماہیا نگار اس میدان میں کامیاب جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی اور ڈاکٹر بشیر سیفی نے مشترکہ طور پر یہ تجویز پیش کی ہے کہ ماہیے کو تین مصرعوں کی بجائے ڈیڑھ مصرعہ کی صورت میں لکھا جائے تو ماہیا کی پہچان ثلاثی سے الگ طور پر ہو سکے گی نیز یوں تینوں مصرعوں کو ہم وزن کر کے ڈیڑھ مصرعہ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی اس لحاظ سے بڑے مخلص انسان ہیں کہ اپنے دوست ”ماہیا نگاروں“ کا حق دوستی ادا کرتے ہوئے اپنی علمی حیثیت بھی داﺅ پر لگا دیتے ہیں۔ ان کی یہ تجویز بھی دراصل ماہیا نما ثلاثی نگار دوستوں کے ثلاثی کو ماہیے منوانے ہی کی ایک کاوش ہے لیکن ڈاکٹر فہیم اعظمی نے اپنا موقف کیوں تبدیل کرلیا؟ اس قصے کو بعد میں بیان کروں گا پہلے ان کے مذکورہ موقف کے جواب میں میری گذارش-:
ماہیے اور ثلاثی یا ہائیکو کا محض ہم شکل ہونا اتنا بڑامسئلہ نہیں ہے۔ رباعی اور قطعہ بظاہر ہم شکل ہیں لیکن دونوں کا فرق واضح ہے۔ دوہے اور دوپدے میں بسرام کی تفریق دونوں کو ہم صورت ہونے کے باوجود الگ الگ شناخت دیتی ہے۔ دِکھنے میں آزاد نظم اور نثری نظم (نثر لطیف) ایک جیسی ہیں لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ سو ڈاکٹر بشیر سیفی کی تگ و دو تو قابل فہم ہے لیکن صرف ہم شکل ہونے کی بنیاد پر ماہیے کو ڈیڑھ مصرعوں میں لکھ کر تین ہم وزن مصرعوں کو ماہیا مان لینا ڈاکٹر فہیم اعظمی کو نہیں سج رہا۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر فہیم اعظمی کی تحریک پر ہی میں نے اپنا پہلا مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے ”صریر“ میں نہ صرف ہم سے بڑھ کر ہمارے موقف کو بیان کیا بلکہ تین ہم وزن مصرعوں کی ثلاثی کو کبھی ماہیا کے طور پر نہیں چھاپا۔ پھر یوں ہوا کہ ساختیات/پس ساختیات کے مسئلے پر میں نے ایک اختلافی مضمون لکھا۔ اس میں اس ڈسپلن کے منفی پہلوﺅں کو کھول کر بیان کیا۔ ساختیاتی غدر کے باعث میرے مضمون کی زبان سخت تھی لیکن مجھے نقاد کی ادب اور ادیب پر بالادستی کے خلاف اپنے موقف پر اب بھی اصرار ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ میرے اٹھائے ہوئے اہم نکات کا ابھی تک کسی ساختیاتی نقاد نے جواب نہیں دیا۔ ہاں ساختیات کا سارا غصہ بے چارے ماہیے پر ضرور اترنے لگا۔ میرے مذکورہ مضمون کی اشاعت کے بعد سے ہی ڈاکٹر فہیم اعظمی ماہیے کے بارے میں اپنے اصولی موقف سے ہٹنے لگے اور تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی کو بھی ماہیا قرار دینے کا رستہ تلاش کرنے لگے۔ ایک طرف ماہیا کے لئے ڈیڑھ مصرعی نظم کی صورت اپنانے کی تجویز پیش کی گئی تو دوسری طرف ڈاکٹر فہیم اعظمی نے یہ موقف اختیار کیا کہ گانے والے تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیوں“ کو بھی گا سکتے ہیں۔ گویا انہیں یہ تو احساس تھا کہ ماہیے کی دھن کی بنیاد پر اس کے وزن کی دریافت کا اصول بالکل درست ہے لہٰذا اب یہ تاثر دیا جانے لگا کہ گلوکار ماہیا گاتے وقت تین ہم وزن مصرعوں کو کوَر کر لیتے ہیں۔
اس حوالے سے یہاں برصغیر کی دو نامور گلوکاراﺅں کے گائے ہوئے دو نغمات سے مثالیں پیش کرنا مناسب ہوگا۔ لتا منگیشکر نے فلم ”عاشق“ میں ایک خوبصورت گیت گایا تھا۔
لو آئی ملن کی رات، سہانی رات
اس گیت سے پہلے لتا جی نے سریلے انداز میں یہ شعر گایا ہے۔
نشیلی رات ہے سارے چراغ گل کر دو
خوشی کی رات میں کیا کام ہے جلنے والوں کا
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اس شعرے کے دوسرے مصرعہ میں ”ہے“ فالتو ہے؟ بظاہر لتا جی نے گاتے ہوئے اسے کوَر بھی کرلیا ہے لیکن یہ اضافی لفظ پورے شعر کو مجروح کر گیا ہے۔
نور جہاں نے پاکستانی فلم ”پاکیزہ“ میں ایک خوبصورت گیت گایا تھا۔
لوٹ آﺅ میرے پردیسی بہار آئی ہے
اس گیت کا آخری بند یوں ہے
آرزو اجڑی ہوئی مانگ کسی دلہن کی
جستجو سوکھی ہوئی بدلی کوئی ساونوں کی
زندگی درد میں ڈوبی ہوئی شہنائی ہے
پہلے مصرعہ میں ”دلہن“ قافیہ ہے، دوسرے میں ”ساون“۔ نور جہاں نے گاتے ہوئے اسے ”ساونوں“ گا دیا۔ سارے سرتال کے باوجود گیت کا حسن خراب ہوگیا ہے۔ یہ دو مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کھینچ تان کر گائیکی میں وزن کو سمونا اور چیز ہے اور فطری بہاﺅ کے ساتھ الفاظ کا گایا جانا اور چیز ہے۔ جو لوگ تین ہم وزن مصرعوں کو کھینچ تان کر لَے میں لاتے ہیں ان کی مثال مذکورہ دو گیتوں سے مختلف نہیں ہے۔ ماہیا اپنے فطری بہاﺅ میں تبھی آتا ہے جب دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم ہو۔ میرے ناراض دوست اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں۔
لتا اور نور جہاں نے گاتے ہوئے الفاظ میں جو تصرف کرلیا ہے کیا اس کی بنیاد پر اردو غزل اور نظم میں ایسے تصرف کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں۔ تو پھر اردو ماہیے پر ہی ”نظر کرم“ کیوں؟
ایک نکتہ آفرینی یہ کی گئی ہے کہ ماہیے پر غزل کے اثرات ہیں۔ پنجابی ماہیے کی روایت پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں میں بھی اب نہیں آ سکتی۔ وہ پرانے زمانے گذر گئے۔
وضاحتاً عرض ہے کہ میں نے ۱۹۹۳ءمیں لکھا تھا کہ ماہیا میں قافیہ ردیف کا التزام اسے غزل کے قریب کرتا ہے۔ پھر تین مصرعوں میں بات کو مکمل کرنا، کوزے میں دریا بند کرنے کا غزل کا وصف بھی ماہیے میں موجود ہے۔ فی ذاتہ ماہیا ایک چھوٹی سی نظم ہے اور لوک گیت ہونے کی نسبت سے اس کی روایت قدیم ہندی گیت میں بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔ یوں غزل نظم اور گیت۔ برصغیر کی تین اہم ترین شعری روایات ماہیے میں یکجا ہو گئی ہیں۔ سو اگر اس نئی صنف کو اردو میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو اس کے وسیع تر امکانات سامنے آئیں گے۔ لہٰذا صرف غزل کے زیرِ اثر کہہ کر گذر جانے سے بات نہیں بنے گی۔ رہی یہ بات کہ پنجابی ماہیے کی روایت پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں میں بھی نہیں آ سکتی تو یہ بات درست نہیں ہے۔ میں یہاں خود اپنے چند ماہیے پیش کرتا ہوں۔ اس میں معترضین کے مبینہ غزل کے اثرات بھی نہیں اور پنجابی ماہیے کی روایت بھی موجود ہے:
بور آ گیا آموں میں سونے کی انگوٹھی ہے
رونقیںجاگ اٹھیں پیار میں سچی ہے دیہات کی شاموں میں پر قول کی جھوٹی ہے
یہ دل بھی لگا کھلنے
لہنگا ہرا پہنے
آیا ہے کوئی ملنے
سلور کی وہ تھالی ہے چمبیلی کی کلیاں تھیں
رنگ کی گوری ہے اپنی جوانی تھی
پر قسمت کی کالی ہے اور شہر کی گلیاں تھیں
اک خواب ہے جندڑی کا
رس بھری لڑکی ہے
یا آم ہے سندھڑی کا
جہاں تک ڈاکٹر فہیم اعظمی کی ماہیے کے لئے ابتدائی خدمات کا تعلق ہے وہ ماہیے کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی لیکن ساختیاتی نقاد ہونے کے باوجود انہوں نے ذاتی رنجش کو ایک ادبی سچائی پر فوقیت دے کر اپنے اصولی موقف کو چھوڑ دیا ہے تو یہ بہرحال افسوسناک ہے۔ میرے نزدیک یہ ماہیے کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہے کہ وہ ڈاکٹر فہیم اعظمی جیسے دوست کو کھو بیٹھا ہے تاہم ماہیے کی تحریک اب جس طرح رواں دواں ہو چکی ہے، حقائق کو چھپانا اب کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ صنف اپنے فطری بہاﺅ کے ساتھ ماہیا نگاروں کے دلوں میں جگہ بنا چکی ہے اور بناتی جا رہی ہے۔ ہاں اگر اس نئی شعری صنف میں دَم نہ ہوا یا اردو کا ماحول اسے راس نہ آیا تو پھر کسی کی حمایت بھی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکے گی تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ صنف اردو ادب میں خوب پھلے پھولے گی اور ایک توانا شعری ذریعہ اظہار بنے گی۔
ابھی تک جو نکات اور اعتراضات زیر بحث رہے ہیں وہ ماہیے کے وزن اور مزاج کے حوالے سے تھے۔ اب میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کے اٹھائے ہوئے سوالات کی طرف آتا ہوں۔ ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ ماہیا سے پہلے جب اردو میں بعض شعری اصناف موجود ہیں جیسے ہائیکو اور ثلاثی تو پھر ماہیا کو اپنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
میرے خیال میں کسی ادب صنف کا آغاز کبھی بھی کسی پلاننگ کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ غزل قصیدے سے الگ کیوں ہوئی؟ برصغیر میں داستانوں کی عظیم روایات کے ہوتے ہوئے ہمیں ناول اور افسانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسے سوال تو شاید ہر ادبی صنف کے بارے میں کئے جا سکتے ہیں جبکہ حقیقتاً ہر صنف خودرو پودوں کی طرح اپنی زمین اور اپنی زبان سے خود بخود اگ آتی ہے ۔جو تجربے دوسری زبانوں سے آتے ہیں وہ بھی جب تک نئی زبان اور کلچر کے اندر تک اتر کر اپنی جڑیں مضبوط نہ کرلیں تب تک برگ و بار نہیں لا سکتے۔ اس لئے ماہیے کے بارے میں کسی ”نظریۂ ضرورت“ کی تلاش مناسب نہیں ہے۔ ہاں امکانات پر ضرور غور کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ بھی ایک امکانی بات ہے کہ ہائیکو اور ثلاثی کے تجربات اردو میں کسی سہ مصرعی صنف کی داخلی جستجو رہے ہوں لیکن ہائیکو اور ثلاثی ثقافتی سطح پر اردو میں جڑ نہیں پا رہے ہوں تب ماہیے نے چپکے سے اپنے ادبی اور ثقافتی وجود کا اظہار کر دیا ہو۔ ممکن ہے پنجابی اور اردو کی لسانی قربت اور برصغیر کے ایک بڑے علاقے میں اپنی ثقافتی جڑیں ہونے کے باعث ماہیا دوسری تمام سہ مصرعی اصناف کے مقابلے میں کہیں زیادہ زرخیز ثابت ہو۔
ڈاکٹر کرسٹینا نے دوسرا سوال یہ اٹھایا ہے کہ چونکہ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے، گائی جانے والی شاعری ہے تو اردو کے شعری ادب میں ماہیا کی کیا حیثیت بنے گی۔ ادبی صنف کی یا گیت کی؟
یہ اہم اور دلچسپ سوال ہے جس کی طرف اس سے پہلے میرا دھیان نہیں گیا۔ میں نے اب غور کیا ہے تو مجھے لگتا ہے وقت کے ساتھ اپنی حیثیت کا تعین بھی ماہیا آپ کرے گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ماہیا گائیکی سے منسلک رہتے ہوئے ایک شعری ادبی صنف کے طور پر پھلے پھولے گا۔ ہندی روایت کے اردو گیت بھی ہمارے شعری ادب میں موجود ہیں۔ ان میں سے بعض گیت گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ بھی ہوئے ہیں۔ بہت سارے گیت گائے نہیں گئے لیکن وہ گائے جانے والے گیت تو بہرحال ہیں اور ان کی ادبی قدر و قیمت بھی ہے۔ شاید اسی انداز میں ماہیے کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔
تیسرا سوال جو ڈاکٹر کرسٹینا نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ آج کمرشل میوزک کا دور ہے۔ ایسے میں ایک لوک گیت کی اردو میں آ کر موسیقی کے حوالے سے بھی کیا حیثیت بن پائے گی؟
اس سوال نے مجھے ایک وسیع تناظر میں دیکھنے اور سوچنے کا موقع عطا کیا ہے۔ ہم انسانی ترقیات کے سب سے زیادہ حیران کن دور سے گذر رہے ہیں۔ ایجادات و انکشافات میں تیز رفتاری آ گئی ہے۔ سیٹلائٹ کے ذریعے جیسے پوری دنیا ایک ہونے لگی ہے، ایک طرف پوری دنیا کو ایک ملک بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے، دوسری طرف علاقائی سطح پر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ (ممکن ہے یہ ٹوٹ پھوٹ کسی نئی اور خوبصورت تعمیر کا پیش خیمہ ثابت ہو) مقامی اور علاقائی ثقافتی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ساری دنیا کے تہذیبی و ثقافتی رنگوں سے اگر دنیا کو ایک کیا جائے تو اس پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو لیکن اگر کسی کی شخصیت اور تشخص کو ضائع کر کے اور اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کر کے دنیا کو ایک بنانا ہے تو ایسا شاید آسان نہیں ہوگا۔ مغربی موسیقی کے نمائندے اگر مائیکل جیکسن اور میڈونا کو مان لیا جائے تو پھر یہ مغربی سے زیادہ امریکی موسیقی کہلائے گی۔ امریکہ کی سیٹلائٹ تہذیب سے خوف کا یہ حال ہے کہ فرانس جیسے یورپی ملک کو اپنی ثقافت کے تحفظ کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور اسے اس سلسلے میں ضروری اقدامات سوچنے پڑ رہے ہیں۔ اس کمرشل میوزک تہذیب نے باقی دنیا کی طرح برصغیر پاک و ہند کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ وقتی اثر اور نفوذ کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ برصغیر کی مشرقی موسیقی میں اتنا رس اتنا حسن اور اتنی مٹھاس ہے کہ برصغیر کے عوام اس سے بالکل کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ مغربی یا امریکی کمرشل میوزک تہذیب کے مقابلے میں مشرقی موسیقی اور ثقافت کے تحفظ کے کئی اقدامات گذشتہ برسوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی میوزک کے ایسے اثرات قبول کرنا جو مشرقی موسیقی میںجذب ہو کر اس میں مزید خوبصورتی پیدا کر دیں قابل اعتراض نہیں ہے لیکن اپنی موسیقی کی ساری روایات کو تج کر مغربی موسیقی کو اوڑھ لینا بہرحال قابل اعتراض ہے گذشتہ دس پندرہ برسوں میں مغربی موسیقی کی یلغار اتنی شدید رہی کہ انڈیا اور پاکستان کی فلموں اور ٹیلی ویژنوں کے گیتوں پر اس کے گہرے اثرات چھائے رہے۔ اسی دوران پرائیویٹ غزلیں، گانے کا رواج چلا جس میں مہدی حسن، غلام علی، فریدہ خانم، اقبال بانو، جگجیت سنگھ، آشا بھوسلے، پنکج ادھاس اور متعدد دیگر گلوکاروں نے مقبولیت حاصل کی۔ یہ سارے گلوکار غیر ارادی طور پر مغربی موسیقی کی یلغار کے سامنے مشرقی موسیقی کے تحفظ کے لئے مزاحمت کر رہے تھے۔ پرانے فلمی گیتوں کا نئی آوازوں میں ریکارڈ ہو کر مقبول ہونا بھی مشرقی موسیقی کے احیاءکی ایک صورت ہے۔
انڈین موسیقاروں میں نوشاد جیسے موسیقار سے لے کر خیام، روی، رویندر جین اور کلیان جی، آنند جی تک سارے رسیلے موسیقار بیزار ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے تو لکشمی کانت، پیارے لال اور راجیش روشن جیسے موسیقار مغربی موسیقی سے استفادہ کر کے مشرقی موسیقی کو بچانے میں لگے رہے۔ پھر پاکستان میں مہدی حسن کا پاپ میوزک کو شیطانی میوزک کہنا اور نصرت فتح علی کا مغربی موسیقی کی آمیزش سے مشرقی کلچر کو فروغ دینا، یہ ساری صورتیں ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں اور یہ جدوجہد تھی مغربی کمرشل میوزک کے مقابلے میں مشرقی موسیقی کی، اس کی ثقافتی روایات کی حفاظت کی۔ تہذیبوں کے ٹکراﺅ سے کوئی ایک تہذیب کبھی بھی فنا نہیں ہوتی اور کوئی فاتح تہذیب بھی کبھی مکمل غلبہ نہیں پاتی وہ تو تہذیبی اجزاءکے ملنے اور ایک نیا منظر تشکیل دینے کا ایک داخلی نوعیت کا عمل ہوتا ہے، اس میں حملہ آور تہذیب اور مزاحمتی تہذیب کی اپنی اپنی ثقافتی قوت بھی اثر دکھاتی ہے۔ سو مغربی کمرشل میوزک کی یلغار کے سامنے وقتی طور پر مغلوب ہو جانے کے بعد اپنی موسیقی کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا ہے۔ اس احساس نے پہلے سے متحرک مزاحمتی قوتوں کو تقویت پہنچائی ہے۔ اپنی موسیقی کی طرف رجوع کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی تھی کہ قوالی، عارفانہ کلام، بھجنوں اور لوک گیتوں کو مختلف علاقوں میں پھر سے اہمیت ملنے لگی۔ یہاں تک کہ فلمسازوں نے بعض معروف قوالیوں اور عارفانہ کلام سے براہ راست استفادہ کیا اور لوک گیتوں کو بھی فلموں میں نئے الفاظ کے ساتھ پیش کیا جانے لگا۔ مثال کے طور پر پنجابی کا مشہور لوک گیت ہے ”کٹ کٹ باجرہ میں کوٹھے اتے پانی آں“ اسی دھن کو فلم ”بہار آنے تک“ میں اس گیت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے ”کالی تیری چوٹی ہے پراندہ تیرا لال نی“ اسی طرح ایک اور مشہور پنجابی لوک گیت ہے ”کالا ڈوریا کنڈے نال اڑیا ای اوئے“ اسی دھن پر فلم ”پرمپرا“ کا گیت آیا ہے۔ ”آدھی رات کو تاروں کی چھاﺅں میں“ اسی طرح متعدد نئے گانے پنجاب اور برصغیر کے دوسرے علاقوں کے لوک گیتوں کی دھنوں پر بنائے جانے لگے ہیں۔ چند گیت مزید لکھے دیتا ہو-
۱۔ شاوہ یہ نخرہ گوری کا( فلم سہاگ)
۲۔ لال کگری نی تیری لال کگری (فلم انسانیت)
۳۔ عشق کا روگ برا اوئے ہوئے (فلم ڈر)
۴۔سارے لڑکے کریں تو کریں شادی (فلم ڈر)
۵۔ میری چھت پر آیا کرو (فلم اف یہ محبت)
گویا اپنی موسیقی اور مشرقی کلچر (بمقابلہ مغربی کلچر) کی طرف واپسی کی مختلف صورتوں میں لوک دھنوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ عوام میں مشرقی موسیقی کے ساتھ لگاﺅ بڑھنے لگا ہے اور تو اور انو ملک جیسے موسیقار نے بھی بالآخر مشرقی انداز میں کمپوزنگ کر کے جہاں اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا احساس دلایا ہے وہیں یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ مغربی اثرات سے ہٹ کر موسیقی دیں تو کہیں بہتر موسیقار بن سکتے ہیں۔ سو لوک دھنوں کے ذریعے سے جو مشرقی موسیقی کی طرف واپسی اور اپنی ثقافتی جڑوں سے جڑنے کا رویہ فروغ پانے لگا ہے، ادب کی سطح پر شاید اردو ماہیا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے کیونکہ ماہیا اپنی دھن کے حوالے سے موسیقی میں بھی اور اپنی شعریت کے حوالے سے ادب میں بھی غیر محسوس طریقے سے اپنی ثقافت کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ اسے کمرشل میوزک کے ذریعے مغربی ثقافتی یلغار کے سامنے چھوٹی سی مزاحمت کا مقامی ثقافتی روپ کہہ لیں جو اپنی مقامیت سے اوپر اٹھ کر سامنے آ رہا ہے۔
ڈاکٹر کرسٹینا نے اپنے اہم سوالات اٹھا کر ماہیے کی تحریک کو مزید آگے کی راہ سجھائی ہے۔ امیدکرتا ہوں کہ ماہیے سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ ناقدین اور خود ہمارے ماہیا نگار بھی ادب میں ماہیے کے رول پر غور و فکر سے کام لیں گے۔ یوں ماہیے کی بحث وزن اور مزاج کے مدار سے نکل کر ماہیے کے ادبی اور ثقافتی کردار کے مدار میں داخل ہوگی اور اس کے ماہیا نگاری پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
(مطبوعہ : دو ماہی گلبن احمد آباد، ماہیا نمبر، شمارہ جنوری تا اپریل ۱۹۹۸ء)
نوٹ : اس مضمون کا ڈاکٹر کرسٹینا کے سوالات سے متعلق حصہ ”ماہیا کیوں“ کے عنوان سے ادبی جریدہ ”اوراق“ لاہور نے اپنی اشاعت جنوری، فروری ۱۹۹۸ءمیں شائع کیا۔
٭٭٭٭