(یہ مضمون پرویز بزمی کے نہایت جارحانہ مضمون کے جواب میں لکھا گیا)
”اوراق“ کے شمارہ جنوری فروری ۱۹۹۹ءمیں ایک مضمون شائع ہوا ہے ”پنجابی ماہیا کی ہیئت اور وزن“۔ اس کے مضمون نگار نے بہت اچھا کیا ہے کہ ”اوراق“ کے اسی شمارہ میں اپنے ماہیے بھی پیش کر دیئے ہیں۔ ”اوراق“ کے صفحہ نمبر ۳۵۲پر موصوف کے ۱۸ماہیے موجود ہیں ان ماہیوں سے ان کے مضمون اورنفس مضمون کو سمجھنے میں خاصی آسانی رہے گی۔
مضمون نگار موصوف کے ایک ماہیے سے بات شروع کرتے ہیں۔
چکوے سے کہوری سکھی
پار کنارے پر تڑپے ہے تری چکوی
موصوف کے اب تک کے شائع شدہ سارے ماہیوں کا وزن مکمل طور پر وہی ہے جس کے لئے ہم لوگ گزشتہ دس سالوں سے اصرار کر رہے ہیں اور مخالفین کا ہدفِ ملامت بھی بنے ہوئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ موصوف نے اسے ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں پیش کیا ہے جبکہ ہم اسے سہ مصرعی ہیئت میں پیش کر رہے ہیں۔ اردو میں ماہیے کے بارے موصوف نے عملاً ہمارے موقف کی تصدیق کی ہے بس صرف تین مصرعوں کی ہیئت کی جگہ ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر اصرار کیا ہے۔ سو اس اختلاف کو پنجابی ماہیے کی روایات کے تناظر میں بہتر طور پر دو رکیا جا سکتا ہے۔ سہ مصرعی اور ڈیڑھ مصرعی ماہیے کے مسئلہ سے ہٹ کر مضمون نگار نے بہت سے ایسے امور کو بھی چھیڑا ہے جس کے سلسلے میں یا تو ان کی معلومات ناقص ہے یا پھر انہوں نے دیدہ دانستہ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ سو اصل اور بنیادی مسئلے پر بات کرنے سے پہلے میں بعض ایسے امور کے سلسلے میں حقیقت حال واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جن سے غلط فہمیاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
”اوراق“ کے صفحہ نمبر ۳۲۶پر مضمون نگار نے ماہیے کی بحث کا نچوڑ گیارہ نکات کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ان میں سے نمبر ۶کے تحت ریاض احمد کا یہ ادھورا جملہ دیا ہے ”ماہیا کے بول عوامی فنکار ترتیب دیتے ہیں جس سے عروض اوروزن کی پابندی کا تقاضہ بے سو دہے“ حالانکہ اس جملہ سے آگے ریاض احمد کے یہ الفاظ ہیں: ”تاہم ان بولوں کے آہنگ میں عروضی وزن کی تلاش کچھ اتنا بے معنی عمل بھی نظر نہیں آتا“۔ شاید یہ جملہ مضمون نگار کو پسند نہیں آیا حالانکہ ریاض احمد کی بات یہیں آ کر پوری ہوتی ہے ۔ اپنے اس مضمون میں ریاض احمد نے یہ اصولی باتیں بھی لکھی تھیں : ۱۔ ماہیا صرف ایک شاعری کی صنف ہی نہیں، ایک لَے یا سُر کا نام بھی ہے“۔
۲۔ ”پنجابی اوزان میں موسیقی کے بنیادی تصورات مثلا سُر،تال وغیرہ کی مدد سے آہنگ کو اس طرح نمایاں کیا جاتا ہے کہ عروضی وزن اس آہنگ کو مدنظر رکھے بغیر مقرر کرنا مشکل ہو جاتا ہے“۔۔۔۔۔۔
ہم نے اسی آہنگ کی بنیاد پر عروضی اوزان کو دریافت کیا ہے۔
مضمون نگار نے اپنے بیان کردہ نکتہ نمبر ۴میں میرے اور مناظر عاشق کے حوالے سے ماہیے کے پانچ اوزان کا ذکر کیا ہے اور اگلے صفحہ پر یوں مجھ پر اعتراض کیا ہے۔
” ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ماہیے کے پانچ وزن دریافت ہو چکے ہیں یعنی ابھی کچھ اور اوزان بھی دریافت ہوں گے۔ ایک طرف تو فرماتے ہیں کہ ماہیا سُر،تال کے ساتھ گایا جا سکے اور لے کی روانی میں فرق نہ آئے وہ ماہیا صحیح وزن میں ہے۔ دوسری طرف ماہیے کی جو بحریں وجود میں لا رہے ہیں اور جو نئے نئے اوزان سامنے آ رہے ہیں ان کی کچھ صورتیں ملاحظہ فرمائیں“
اس کے بعد مضمون نگار نے یونس احمر اور اشعر اورینوی کے غلط وزن کے دو دو ”ماہیے ؟“ درج کئے ہیں۔ یہاں اگر موصوف نے دیدہ دانستہ حقائق کو مسخ کیا ہے تو بھی اور اگر اپنی لاعلمی کے باعث ایسا کیا ہے تو بھی ان کا تجزیہ بے حد افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق کے بیان کردہ عروضی اوزان اور تھے اور میرے بیان کردہ اور ہیں۔ ڈاکٹر مناظر نے بھی بعد میں ان اوزان کوترک کر دیا تھا۔ ان کے بیان کردہ اوزان” گلبن “کے ماہیا نمبر میں چھپے تھے اور ان اوزان کے ساتھ ہی یہ بھی درج تھا۔ ”ویسے ابھی تک فعلن فعلن فعلن /فعلن فعلن فع/فعلن فعلن فعلن اور مفعول مفاعیلن/فعل مفاعیلن/مفعول مفاعیلن کے اوزان ہی مروج ہیں“۔ اس کے باوجود میں نے اپنے مضمون ”اردو ماہیے کی تحریک“ میں (اس مضمون کا آخری حصہ گلبن کے ماہیا نمبر کے تجزیہ کے طور پر الگ سے بھی چھپ چکا ہے) ڈاکٹر مناظر کے ان اوزان کو تسلیم نہیں کیا اور صاف لکھا ہے کہ ”جو اوزان انہوں نے تجویز کئے ہیں وہ ماہیے کی پنجابی لَے سے میل نہیں کھاتے ۔ اسی لئے انہیں بطور ماہیا قبول نہیں کیا جا سکتا“—– صرف یہی نہیں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے ادبی رسالہ ”کوہسار جرنل“ کے شمارہ مئی ۱۹۹۸ءمیں میرا خط شائع کیا اور میرے موقف سے اتفاق بھی کیا ۔ گویا جنوری تا اپریل ۱۹۹۸ءکے گلبن میں ان کے متنازعہ اوزان شائع ہوئے اور مئی ۱۹۹۸ءکے ”کوہسار“ میں تنازعہ ختم بھی ہو گیا۔ یہاں کوہسار سے میرے خط کا اقتباس پیش کر دینا مناسب رہے گا:
”آپ نے ماہیے کی سات نئی بحریں لکھی ہیں(تفصیل کے لئے گلبن کے ماہیا نمبر میں میرا مضمون ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ہرگانوی) ان میں سے صرف ایک بحر فاعلاتن /فاعلاتن فاعلن/فاعلاتن فاعلاتن تھوڑی سی ترمیم کے بعد یعنی : فعلاتن فعلاتن/فعلاتن فعلن/فعلاتن فعلاتن میرے لئے محض اس لئے قابل قبول ہے کہ اسے بھی ماہیے کی پنجابی لَے میں گنگنایا جا سکتا ہے۔ باقی کوئی بھی بحر نہ ماہیے کی لَے سے مطابقت رکھتی ہے نہ ہی ماہیا ہے۔ ماہیے کے معاملے میں میرا موقف بالکل سیدھا اور سادہ سا ہے کہ جو ماہیا پنجابی ماہیے کی لَے میں گایا جا سکتا ہے وہ ماہیا ہے۔ ہمیں دُھن کی بنیاد پر ہی ماہیے کو قائم رکھنا ہے اور صرف لَے میں آنے والے متبادل اوزان ہی قبول کرنے ہیں۔ (حیدر قریشی صاحب! ہمیں آپ کی رائے سے سو فی صد اتفاق ہے۔ نئی بحروں کے تجربے محض تجربے تھے تاکہ مساوی الوزن کہنے والوں کی سوچ بدلے اور انہیں عروضی راستے صاف نظر آئیں۔ ہرگانوی)“۔
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ جو اوزان لَے کے مطابق نہیں تھے میں نے ان سے اختلاف کیا تھا اورڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اعلیٰ ظرفی کے ساتھ میرے اختلاف سے اتفاق کر لیا تھا۔ لہٰذا یونس احمر اور اشعر اورینوی کی مثالوں سے کسی کو ملزم کرنا مناسب نہیںہے ۔ میں نے اپنے مضمون ”ماہیا پابندِ لَے ہے“ میں ماہیے کی لَے کی بنیاد پر جو پانچ اوزان پیش کئے تھے وہ بھی یہاں درج کئے دیتا ہوں اور ان کے بعد جو تین نئے اوزان اردو کے عروضی قواعد کی پابندی کے ساتھ سامنے آئے ہیں وہ بھی درج کئے دیتا ہوں۔
۱۔
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
۲۔
فعلن فعلن فعلن ۳۔ فعلات مفاعیلن
فعلن فعلن فع فعل مفاعیلن
فعلن فعلن فعلن فعلات مفاعیلن
۳۔
فعلات مفاعیلن
فعل مفاعیلن
فعلات مفاعیلن
۴۔
فعلاتن فعلاتن
فعلاتن فعلن
فعلاتن فعلاتن
۵۔
مفعول مفاعیلن ۶۔مفعول مفاعیلن
فعل فعولن فع فاع مفاعیلن
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
۷۔
فعلن فعلن فعلن ۸۔مفعولن مفعولن
مفتعلن فعلن مفعولن فعلن
فعلن فعلن فعلن مفعولن مفعولن
۸۔
مفعولن مفعولن
مفعولن فعلن
مفعولن مفعولن
اپنے ماہیوں میں میرے موقف کی عملاً تصدیق کرنے لیکن اپنے مضمون میں میرے موقف کو دھندلانے کی کوشش کرنے والے مضمون نگار ان اوزان کو ماہیے کی کسی بھی ایسی لے پر گنگنا کر چیک کر لیں جس پر وہ اپنے اردو ماہیے گنگنا سکتے ہیں ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
مضمون نگار کے نکتہ نمبر ۸او ر۱۰میں ایک ہی بات ہے۔ پھر ان کے الگ الگ نمبرز لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ سمجھ نہیں آئی۔ دونوں نکات دیکھ لیں ۔ دونوں میں ایک ہی بات بتائی گئی ہے۔ ۸۔” گاتے وقت اگر لے کی روانی نہ ٹوٹے تو ماہیا صحیح وزن میں ہے“۔ ۱۰۔”پنجابی میں ماہیا گانے کی ایک خاص دُھن ہے جو ماہیا اس دھن پر پورا اترے گا اس کا وزن درست ہے“۔
نکتہ نمبر ۱۱میں مضمون نگار نے لکھا ہے ”ماہیے کا وزن مفعو۔۔۔۔۔لمفا۔۔۔۔عیلن بھی ہے (حیدر قریشی)“ اور تھوڑا اور آگے چل کر یوں تمسخرانہ انداز اختیار کیا ہے! ”یہ ناقدین اگر پنجاب کے کسی گاﺅں میں جائیں اور کسی چرواہے سے ماہیا سُن کر اسے کہیں کہ تمہارا ماہیا ”مفعو ۔ ۔ ۔۔۔لمفا۔۔۔۔عیلن“ کے مطابق نہیں ہے تو وہ سمجھے گا کہ اسے گالی دی جا رہی ہے اور ناقدین کو کسی ناخوشگوار صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا“۔
جواباً میری پہلی گزارش یہ ہے کہ میں نے ماہیے کا وزن مفعولمفاعیلن نہیں قرار دیا تھا بلکہ مفعول مفاعیلن والے وزن کو فعلن فعلن فعلن والے وزن ہی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی صورت لکھ کر اسے مفعو لمفا عیلن سے ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ احمد حسین مجاہد نے اسی حوالے سے اپنا بے حد اہم مضمون ”اردو ماہیا عروضی تناظر میں“ تحریر کیا تھا جس میں عروضی حوالے سے تسکین اوسط کی کرشمہ سازی کو مدلل طریقہ سے واضح اور ثابت کر دیا تھا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ پنجابی ماہیے گانے والوں کے لئے کسی فعلن فعلن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ تو ہمیں اردو میں ماہیے کے خدوخال واضح کرنے کے لئے پیش آیا ہے ۔ ویسے پنجابی میں بھی ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری، تنویر بخاری، پروفیسر شارب اور متعدد دیگر پنجابی ادیبوں نے بھی ماہیے کی بحث میں بہت سارا فعلن فعلن کیا ہے اور اردو میںیہ مسئلہ سامنے آنے سے بھی پہلے پنجابی میں ایسا ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری اپنے مضمون ”ماہیے دی عروضی بحر “ میں لکھ چکے ہیں۔ ”پنجابی شاعری پر فارسی عروض کو لاگو کرنے کی کاوش ایک نئے سمندر میں ”بیڑا ٹھیلن“ والی بات ہے۔ اس لیے کسی کے رستے کو درست یا غلط کہنے کا ابھی کوئی مطلب نہیں ہے۔ ابھی پتہ نہیں اور کتنے لوگ اس موضوع پر قلم اٹھائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بھی جس سے بن پڑتاہے، مبارک ہے“ (پنجابی سے ترجمہ)۔
اس کے باوجود تمسخر کا نشانہ ہم ہی ہیں تو یہ بھی سر آنکھوں پر!
تیسری گزارش یہ ہے کہ پنجاب کے دیہاتی بھی تھوڑا سا عربی قاعدہ ضرور پڑھے ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ گالی کے مغالطہ کا شکار نہیں ہوں گے ۔ اردو عروض عربی سے آیا ہے اور اس کے اوزان کو پڑھتے ہوئے صرف وہی شخص گالی کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گا جو عربی الفاظ کو اپنی مادری زبان میں لینے کی بے وقوفی کرے گا۔ میری مادری زبان پنجابی ہے اور مجھے مذکورہ اوزان کو پڑھتے ہوئے کبھی کوئی الجھن پیش نہیں آئی ۔ شاید یہ اپنے اپنے ذہن کی بات ہے۔
اپنے نکتہ نمبر ۷میں مضمون نگار نے درج کیا ہے ”ماہیا کا نام بگڑو اور ٹپہ بھی ہے (حیدر قریشی ، مناظر عاشق ہرگانوی، افضل پرویز)“۔ اس کے بعد یوں برہمی کا اظہار کرتے ہیں: ”تین مصرعوں کے ماہیا کی وکالت کرنے والے محققین اور شعراءکا کہنا ہے کہ ماہیے کا ایک نام بگڑو ہے اور ایک نام ٹپہ بھی ہے“۔
”بگڑو“ نام کے بارے میں سرائیکی دانشور بشیر ظامی نے کہا تھا کہ بگڑو ہماری زبان کا بہت قدیمی گیت ہے اور افضل پرویز نے ”بگڑو“ نام کی توجیہہ پیش کی تھی لیکن بشیر ظامی اور افضل پرویز دونوں ”تین مصرعوں کے ماہیا“ کے نہیں بلکہ ڈیڑھ، دو مصرعوں کے ماہیا کے وکیل تھے۔ مجھے علم نہیں کہ مضمون نگار موصوف نے جان بوجھ کر انہیں ہمارا وکیل بنایا ہے یا وہ خود بھی اس سے بے خبر تھے۔ ماہیے کا دوسرا نام ٹپہ پنجابی دانشور تنویر بخاری نے بیان کیا ہے ۔ ۱۹۹۳ءمیں میری دلی میں امرتاپریتم سے دو تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان میں ضمناً ماہیے کا بھی تھوڑا سا ذکر ہوا تو انہوں نے مجھ سے چند اردو ماہیے سنے اور پھر کہنے لگیں یہ تو ٹپے ہیں ۔۔۔ ماہیے کا کوئی نام ٹپہ یا بگڑو تھا ، اس پر اتنا بگڑنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ یہ کوئی بنیادی مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ماہیے کا نام اردو میں بھی رائج ہو گیا ہے اور اب یہی زیر بحث ہوتا ہے۔
اب میں مضمون نگار کے اصل اور بنیادی مسئلے کی طرف آتا ہوں ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے سلسلے میں ان کا یہ بیان توجہ طلب ہے ”ماہیے کے تین مصرعوں اور وزن کی بحث اتنے زور شور اور تواتر سے چلی ہے کہ اس کے زیر اثر پنجاب کے پیدائشی اور سکونتی شعراءنے بھی ماہیا کو تین مصرعوں کا سمجھ لیا ہے ۔ ان کا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ پنجابی میں ماہیا کی ہیئت ڈیڑھ مصرعہ کی ہے“۔
یہاں بھی مضمون نگار غلط بیانی یا لاعلمی کا شکار ہیں۔ خود پنجابی دانشوروں نے پنجابی میں ہی ماہیے کی ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو رد کرتے ہوئے اسے سہ مصرعی ہیئت میں قبول کیاہے ۔ یہ علمی بحث اردو میں ماہیے کی موجودہ تحریک کے آغاز سے بہت پہلے ہو چکی ہے، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ہماری بحث کے زیراثر پنجاب کے شعراءنے بھی ماہیے کو تین مصرعوں کا سمجھ لیا۔ ڈاکٹر روشن لال آہوجا اسے تین مصرعوں کا مانتے تھے۔ تنویر بخاری نے پنجابی میں ڈیڑھ مصرعی ماہیے کا ذکر کرنے والے بیشتر دانشوروں کے حوالے درج کرنے کے بعد ان کے موقف کو مسترد کر کے سہ مصرعی ہیئت پر اصرار کیا۔ ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری نے وزن کے سلسلے میں تنویر بخاری سے اختلاف کیا لیکن اپنے اختلافی مضمون میں بھی انہوں نے سہ مصرعی ہیئت پر واضح الفاظ میں صاد کیا ۔یہاں ان کے بیان کا متعلقہ حصہ پیش ہے۔ ”ماہیا ایک چھوٹی نظم ہے۔ اس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اس کے پہلے مصرعہ کو آدھا مصرعہ کہتے ہیں اور اگلے دونوں مصرعوں کو یکجا کر کے، ایک مصرعہ بنا کر پوری چھوٹی نظم کو ڈیڑھ مصرعی کہتے ہیں ۔۔۔ تنویر بخاری صاحب نے ڈاکٹر روشن لال آہوجہ کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اسے ڈیڑھ مصرعی نہیں بلکہ سہ مصرعی تسلیم کیا ہے۔میں تنویر بخاری صاحب کے موقف کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں“ (ماہیے دی عروضی بحر“ مطبوعہ سہ ماہی ”پنجابی ادب“ لاہور شمارہ اپریل تا جون ۱۹۸۷ء۔۔۔ (پنجابی سے ترجمہ)
ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے حامیوں کی ایک لسٹ دینے کے بعد مضمون نگار نے ”اوراق“ کے صفحہ نمبر ۳۲۶پر ہی یہ دردبھری شکایت کی ہے:
”کئی حضرات نے ماہیا سے کئے جانے والے اس سلوک کے خلاف ضرور صدائے احتجاج بلند کی لیکن ان کی نحیف آواز بہت سے اصحاب تک نہیں پہنچ سکی“۔ اردو ماہیے کی موجودہ تحریک کے آغاز سے پہلے ہی افضل پرویز، عبدالغفور قریشی، مقصود ناصر چوہدری، کرم حیدری، محمد بشیر احمد ظامی وغیرہ نے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا مسئلہ اٹھایا تھا اور اس مسئلے کوعلمی و ادبی لحاظ سے ان سے کہیں بڑے پنجابی اسکالرز نے نہ صرف مدلل طریقے سے رد کر دیا تھا بلکہ تین مصرعوں کی ہیئت کو رائج بھی کر دیا تھا۔ یہ جو اَب اردو ماہیے کی تحریک کے بعد پنجابی ماہیے کی اصل ہیئت کے علمبردار سامنے آئے ہیں، کیا ان سب نے اس وقت آواز اٹھائی جب ستّر کی دہائی میں لوک ورثہ کے قومی ادارہ نے سہ مصرعی ہیئت میں اسلم جدون کا مرتب کردہ ضخیم انتخاب ”ماہیے“ شائع کیا؟
کیا اس وقت احتجاج کیا جب پنجابی ادبی بورڈ لاہور نے اکادمی ادبیات پاکستان کے تعاون سے تنویر بخاری کی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“ کو شائع کیا؟ ۱۹۸۸ءمیں چھپنے والی اس کتاب میں تنویر بخاری نے ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو رد کر کے سہ مصرعی ماہیے کا انتخاب پیش کیا تھا۔
کیا اس وقت کسی نے اختلافی مضمون لکھا جب ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری بھی تنویر بخاری کے موقف کو تسلیم کر رہے تھے؟
پھر اردو میں ماہیا کے نام پر ثلاثی قسم کی چیزیں لگ بھگ ۱۰۸۳ءسے چھپ رہی تھیں کیا تب ان پر مضمون نگار موصوف نے صدائے احتجاج بلند کی؟۔ آخر یہ ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا شوشہ اتنی دیر کے بعد کیوں چھوڑا گیا؟ اہلِ نظر اس سے بے خبر نہیں ہیں۔
اردو ماہیے کی تحریک کا باقاعدہ آغاز افتخار احمد کے مضمون ”اردو ماہیے“ سے ہوتا ہے۔ یہ مضمون روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کے ادبی صفحہ پر ۲۴مئی ۱۹۹۲ءکی اشاعت میں شامل تھا۔ اس میں افتخار احمد نے لکھا تھا ”ماہیا کو ہم دو صورتوں میں لکھ سکتے ہیں“ اور پھر ڈیڑھ مصرعی اور سہ مصرعی دونوں ہیئتوں میں ماہیا پیش کیا ہے۔ میں نے بھی اپنی کتاب ”اردو میں ماہیانگاری“ کے صفحہ نمبر ۱۳پر مذکورہ دونوں ہیئتوں کی مثالیں درج کرنے کے بعد لکھا تھا: ”یہ اختلاف رائے صرف ماہیے کو تحریری صورت میں پیش کرنے کا ہے۔ وگرنہ مذکورہ بالا دونوں ہیئتوں میں ماہیے کا اصل وزن محفوظ ہے۔ اگرچہ ماہیا کو تین مصرعوں کی ہیئت میں واضح پذیرائی مل چکی ہے اور یہی صورت ماہیے کی مقبول اور مروّج صورت ہے تاہم دوسرے موقف سے بھی ماہیے کا مجموعی وزن بہرحال قائم رہتا ہے“۔۔۔۔ ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ ہم لوگ ڈیڑھ مصرعی ہیئت سے بے خبر نہیں تھے لیکن ہم نے پنجابی ماہیے کی مضبوط سہ مصرعی ہیئت کو اہمیت دی۔
لگ بھگ دو سال پہلے ایک حلقے کی طرف سے مشورہ دیا گیا تھا کہ اگر ماہیے کو ڈیڑھ مصرعہ میں لکھا جائے تو ثلاثی سے اسکی الگ پہچان ہو سکے گی۔ تب میں نے جواباً لکھا تھا ”ماہیے اور ثلاثی یا ہائیکو کا محض ہم شکل ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ رباعی اور قطعہ بظاہر ہم شکل ہیں لیکن دونوں کا فرق واضح ہے۔ دوہے اور دوپدے میں بسرام کی تفریق دونوں کو ہم صورت ہونے کے باوجود الگ الگ شناخت دیتی ہے۔ دِکھنے میں آزاد نظم اور نثری نظم (نثرِ لطیف) ایک جیسی ہیں لیکن فرق صاف ظاہر ہے“ (”ماہیے کی کہانی “مطبوعہ” گلبن “احمد آباد ماہیا نمبر ۱۹۹۸ء)
میرے اس جواب کے معاً بعد ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا مسئلہ حکماً پیش کیا جانے لگا ہے تو میں اس کے پس منظر کا اندازہ بھی کر سکتا ہوں۔ ماہیے کی ہیئت پر مزید بات کرنے سے پہلے یہاں مضمون نگار موصوف کے ایک ماہیے کے وزن کا جائزہ لے لیا جائے ۔ میں نے شروع میں ان کا ایک ماہیا درج کیا تھا:
چکوے سے کہوری سکھی
پار کنارے پر تڑپے ہے تری چکوی
اب اسے سہ مصرعی ہیئت میں لا کر دیکھیں:
چکوے سے کہوری سکھی
پار کنارے پر
تڑپے ہے تری چکوی
موصوف کا ماہیا ۔۔۔ ماہیے کے وزن پر پورا اترتا ہے ابھی تک مضمون نگار موصوف کے جتنے ماہیے بھی رسائل میں شائع ہوئے ہیں سب کے سب اسی وزن کے مطابق ہیں لیکن مضمون نگارنے اپنے مضمون میں تین مساوی الوزن مصرعوں کے مبینہ ماہیوں کو بھی ماہیے کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟ کیا یہ قول اور فعل کا تضاد نہیں ہے؟ ۔۔۔ راجی کی جو دُھن پیش کی گئی ہے وہ جیسی بھی ہو اگر اس پر موصوف کے ماہیے پورے اترتے ہیں تو بات تو وہیں پر ہے جہاں ہم نے ختم کی تھی۔
جہاں تک ماہیے کی تحریری ہیئت کے مسئلے کا علمی سطح پر تعلق ہے۔ اس سلسلے میں یہ جان لینا بے حد ضروری ہے کہ ماہیا پنجاب کا لوک گیت ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ سفر کرتا رہا ہے۔ بیسویں صدی میں جب لوک سرمائے کو جمع کر نے کا کام شروع ہوا تب اس لوک گیت کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ۔ پنجابی میں ماہیا تین طریقے سے تحریر کیا گیا۔ پہلے طریقے کے مطابق اسے،۔۔ پورے ماہیے کو ایک ہی مصرعہ بنا کر لکھا گیا۔
تھالی وچ کھنڈ ماہیا ، کنڈھ دے کے لنگنا ایں، تیری کنڈھ دی وی ٹھنڈ ماہیا
تنویر بخاری اور امین خیال نے یک مصرعی طریقۂتحریر کی نشاندہی کی ہے ۔ عاشق حسین عاشق نے تودو سال پہلے”نوائے وقت“راولپنڈی میںایک مضمون شائع کرایا تھا۔”ماہیے کی ہیئت اور وزن“ کے عنوان سے چھپنے والے عاشق حسین عاشق کے مضمون میں شدت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ ماہیا ایک مصرعہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوسرے طریقے کے مطابق اسے ڈیڑھ مصرعہ کر کے لکھا گیا:
تھالی وچ کھنڈ ماہیا
کنڈھ دے کے لنگنا ایںتیری کنڈھ دی وی ٹھنڈ ماہیا
”پنجابی ماہیا کی ہیئت اور وزن“کے مضمون نگاراسی طرزِ تحریر پر اصرار کر رہے ہیں ۔اور تیسرے طریقے کے مطابق ماہیا تین مصرعوں میں لکھا گیا:
تھالی وچ کھنڈ ماہیا
کنڈھ دے کے لنگنا ایں
تیری کنڈھ دی وی ٹھنڈ ماہیا
یہ تینوں طریقے اس صدی کے اوائل میں اختیار کئے گئے لیکن یہ تینوں طریقے ہی ماہیے جمع کرنے والوں کی ایجاد تھے۔ پنجاب کے عوام اسے کسی تحریری روپ میں نہیں ، صرف ایک لَے اور سُر کے روپ میں جانتے تھے۔ جب ماہیے کو پنجابی میں تینوں ہیئتوں میں لکھا گیاہے تو کسی ایک ہیئت کو ہی ماہیے کی اصل ہیئت کہہ کر باقیوں کو کیسے ردکیا جا سکتا ہے؟۔۔۔۔ پنجابی ادبی بورڈ لاہور، اکادمی ادبیات پاکستان اور لوک ورثہ کے قومی ادارہ نے اگر سہ مصرعی ماہیے کو اہمیت دی تھی تو اس سے ماہیے کی سہ مصرعی ہیئت کو قوت ملی ہے۔ پنجابی ماہیے کی سہ مصرعی ہیئت کے حق میں پنجابی کے ہی تنویر بخاری، ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری، علامہ غلام یعقوب انور، ڈاکٹر روشن لال آہوجہ، فارغ بخاری اور امین خیال جیسے دانشور موجود ہوں تو اس موقف کو کیسے غلط کہا جا سکتا ہے۔ پھر ماہیے کی لے پر غور کریں تو اس میں بھی اتار چڑھاﺅ کی تین کیفیتیں ملتی ہیں۔ امین خیال نے لکھا ہے کہ گاتے وقت ماہیے کے تینوں برگ واضح ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ پر میں اپنے مضمون ”پنجابی لوک گیت ماہیے کی تحریری ہیئت؟“ میں زیادہ تفصیل سے اپنا موقف بیان کر چکا ہوں۔ اس مضمون کے آخری حصہ کو یہاں دہرا کر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
”پنجابی لوک گیت ماہیا صدیوں سے سینہ بہ سینہ رائج چلا آرہا تھا۔ اسے لکھنے کی کوئی روایت تھی ہی نہیں۔ تحریری طور پر جب لوک سرمائے کو جمع کرنے کا خیال آیا تب اسے تحریری ہیئت دی گئی۔ یک مصرعی، ڈیڑھ مصرعی اور سہ مصرعی تینوں ہیئتیں مختلف اوقات میں اپنائی گئیں۔ اس لئے کسی ایک کو قبول کرکے باقیوں کو رد کرنے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ سہ مصرعی تحریری ہیئت کے بارے میںیہ ضرور کہوں گا کہ اب ماہیے کی لَے سے اس کے اتار چڑھاﺅ کی تین حالتوں کی نشاندہی کے بعد شواہد اس کے حق میں زیادہ ہو گئے ہیں۔ گویا (۱) لَے کی تین حالتوں کی بنیاد پر (۲) سہ مصرعی ہیئت میں زیادہ ہرا بھرا دِکھنے کی بنیاد پر (۳) پنجابی میں سہ مصرعی ہیئت کے بیشتر نمونوں کی بنیاد پر اور (۴) اردو میں مقبولیت کی بنیاد پر ماہیے کی سہ مصرعی تحریری ہیئت ہی مروّج ہیئت بنتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ماہیا نگار اصل وزن کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماہیے کو ڈیڑھ مصرعی ہیئت میں لکھے، چاہے ایک ہی لمبے مصرعہ کی ہیئت میں لکھے، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ماہیا نے جس طرح اپنی لَے کے ذریعے اپنے وزن کا تعین خودکیا ہے ایسے ہی اس کی تحریری ہیئت بھی اس کی لَے کے ذریعے سے خود بخودر ائج ہوتی جائیگی۔ جو ہیئت اسے مناسب نہیں لگے گی ،از خود قصۂپارینہ بن جائے گی۔ ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر بے جا اصرار کرنے والوں کو بھی اس کا یقین ہونا چاہئے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ: ماہنامہ ”سخنور“ کراچی شمارہ اپریل ۱۹۹۹ء)
(مطبوعہ ”اورا ق“ لاہور جولائی اگست ۱۹۹۹ء)