ناصر عباس نیر کو میںاردو تنقید میں ہوا کا تازہ جھونکا سمجھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ مستقبل میں اردو تنقید میں جو بیش قیمت اضافے ہوں گے ان میں ناصر عباس نیر کا اہم حصہ ہوگا۔ اپنے مضمون ”ماہیا اور اردو میں ماہیا نگاری“ (مطبوعہ ”اوراق“ مئی جون 1993ئ) میں ماہیے کی ابتدائ، مزاج اور خدوخال کے بارے میں انہوں نے جو باتیں کی ہیں بڑی حد تک درست ہیں۔ ماہیا ”کتاب ِدل“ ہے جس کی جتنی تفسیریں لکھی جائیں اپنی جگہ ہر تفسیر اہم ہوگی سو اس لحاظ سے ناصر عباس نیر نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ مضمون کے دوسرے حصہ میں ماہیے کے وزن کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے ناصر عباس نیر درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ پنجابی ماہیے کے وزن کو سمجھنے میں جو دھوکہ ہو رہا ہے اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ اردو زبان میں ملفوظی اور غیر ملفوظی حروف کی پوری وضاحت موجود ہے۔ غیر ملفوظی حروف کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔ علم عروض میں اس کی باقاعدہ نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اردو کے برعکس پنجابی زبان میں ایسے اصول اور ضابطے موجود نہیں ہیں۔ پنجابی شاعری میں متعدد ایسے حروف کو گرا دیا جاتا ہے جو اردو میں ملفوظی شمار کئے جاتے ہیں اور حسب ضرورت متعدد ایسے حروف کو کھینچ کر لمبا کر لیا جاتا ہے جو اردو میں غیر ملفوظی ہیں۔ پنجابی زبان میں پائی جانے والی اس لچک کے باعث ماہیے کو کتابی سطح پر سمجھنے میں دھوکہ ہو رہا ہے۔ ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:
”اگرچہ حیدر قریشی کے موقف سے ہم آہنگ پنجابی ماہیوں کی کثیر تعداد موجود ہے تاہم ایسے ماہیے بھی افراط سے مل جاتے ہیں جن کی تینوںلائنیں مساوی الوزن ہیں“….
تینوں لائنیں مساوی الوزن اس لئے دکھائی دیتی ہیں کہ ہم انہیں اردو عروض کے پیمانے سے دیکھتے ہیں جس طرح ”ڈرامہ“ بنیادی طور پر ایسا کھیل جسے دیکھا جا سکے اور محض کتابی ڈرامہ خود ڈرامہ نگاری کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈرامہ اسٹیج نہ کیا گیا ہو یا فلمایا نہ گیا ہو تاہم اصل ڈرامہ وہی ہے جو اسٹیج کیا جا سکتا ہو یا فلمایا جا سکتا ہو۔ کچھ اسی انداز میں سمجھ لیں کہ ماہیا بنیادی طور پر گائی جانے والی لوک شاعری ہے اور اس کی اپنی مخصوص دھنیں ہیں۔ اس کی اصل دھن تو وہ ہے جس میں پنجاب کی دیہاتی عورتیں آج بھی شادی بیاہ کے موقع پر مزے مزے سے ماہیے گاتی ہیں۔ اسی دھن میں مسرت نذیر نے غیر فلمی ماہیے گائے تھے۔ (چٹا ککڑ بنیرے تے) جب فلم والوں کو ماہیے کی غنائیت اورمٹھاس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے بھی متعدد فلموں میں ماہیے پیش کئے۔ ان ماہیوں میں بھی ماہیے کی اصل دھن کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی دھنیں تیار کی گئیں۔ فلمی دھنیں ہوں یا پنجاب کی دیہاتی عورتوں کی ماہیے والی خاص دھن ہو۔ ماہیے کی کسی بھی معروف دھن میں اس کا اصل وزن باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ جب گائے گئے تینوں مصرعوں کا الگ الگ وزن نکالا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ دوسرا مصرعہ جسے ہم پہلے اور تیسرے مصرعوں کے مساوی الوزن سمجھ بیٹھے ہیں درحقیقت مساوی الوزن نہیں ہے بلکہ تھوڑا سا کم ہے۔ اردو عروض کے برعکس پنجابی زبان کی لچک کے باعث ہم گائیکی میں اس کا وزن بخوبی سمجھ سکیں گے۔ ناصر عباس نیر کا پیش کردہ ایک پنجابی ماہیا ہے۔
کوٹھے اتوں اڈ کانواں
سد پٹواری نوں
جند ماہیے دے ناں لانواں
اگر تینوں مصرعے مساوی الوزن ہیں تو ماہیے کی ساری دھنوں میں آزما کر دیکھ لیں آپ پہلا مصرعہ ٹھیک لَے میں اٹھا لیں گے۔ تیسرے مصرعے کو بھی پہلے مصرعے کی لَے میں اٹھانا چاہیں تو کوئی دقت نہ ہوگی کیونکہ پہلا اور تیسرا دونوں مصرعے یکساں وزن کے ہیں لیکن اگر آپ دوسرے مصرعے کو بھی پہلے مصرعے کی لَے پر اٹھانا چاہیں تو پہلے لفظ پر ہی شدید جھٹکا لگے گا۔ وجہ یہی ہے کہ دوسرا مصرعہ وزن میں ”ایک سبب“ کم ہونے کے باعث پہلے مصرعے کی لَے پر پڑھا ہی نہیں جا سکتا لیکن ناصر عباس نیر وزن کی اس نزاکت پر شاید پوری طرح غور نہیں کرسکے چنانچہ میری اس وضاحت اور دلیل کے باوجود لکھتے ہیں۔
”حیدر قریشی جسے لے کا ٹوٹنا کہتے ہیں وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ماہیے کی پہلی اور تیسری لائن ہم وزن ہونے کے ساتھ ہم قافیہ بھی ہوتی ہے جبکہ دوسری لائن ہم قافیہ نہیں ہے۔“
کاش ایسا ہوتا اور میں خوشی کے ساتھ اپنی غلطی یا بے خبری کا اقرار کر لیتا۔ اگر میں صرف غزل کا شاعر ہوتا اور جدید نظم سے بالکل بے بہرہ ہوتا تب بھی میں اس بات کو مان لیتا۔ میں نے دو چار اچھی نظمیں لکھی ہوں یا نہ لکھی ہوں لیکن میں جدید نظم کا ایک اچھا قاری ضرور ہوں۔ اس لئے قافیے کی عدم موجودگی سے مجھے کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔ دوسرے مصرعے کو لے پر اٹھانا چاہیں تو پہلے لفظ پر ہی جھٹکا لگتا ہے اور کسی مصرعے کے شروع میں تو قافیے کا کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ …. تنویر بخاری اورڈاکٹر ہوشیار پوری کے درمیان چونکہ ماہیے کے پہلے مصرعے کو ہی معیار سمجھ کر اس کی بحر کے تعین کی بحث چل نکلی تھی۔ اس لئے دونوں میں سے کسی نے بھی دوسرے مصرعے کے وزن کے فرق کی نزاکت پر دھیان نہیں دیا۔
میرے نزدیک ماہیے کا وزن کسی پنجابی یا غیر پنجابی دانشور نے طے نہیں کرنا صرف اسے دریافت کرنا ہے کیونکہ پنجابی ماہیے کا اصل وزن اس کے اندر موجود ہے۔ جو بھی ماہیے کی مخصوص دھنوں کے ذریعے اسے جاننا چاہے، جان سکتا ہے۔ تنویر بخاری اور ڈاکٹر جمال دونوں کی بیان کردہ بحریں اردو عروض کے لحاظ سے الگ الگ ہیں لیکن پنجابی زبان کی لچک کے باعث ڈاکٹر جمال والی بحر میں بھی ماہیا سما جاتا ہے۔
تنویر بخاری : مفعول مفاعیلن (مف+عول+مفا+عی+لن) = تین سبب اور دو وتد
ڈاکٹر جمال : فعلن فعلن فعلن (فع+لن+فع+لن+فع+لن) = چھ سبب
تنویر بخاری کے تین سبب اور دو وتد مجموعی طور پر چھ سبب کے برابر ہی بنتے ہیں…. ڈاکٹر جمال کی بحر کو ماہیے کی دھن میں گائیں تو گا سکتے ہیں اور اس کے دوسرے مصرعے میں آسانی سے ایک سبب کم رکھا جا سکتا ہے۔
فعلن فعلن فعلن کوٹھے اتوں اڈ کاواں
فعلن فعلن فع سد پٹواری نوں
فعلن فعلن فعلن جند ماہیے دے ناں لاواں
ماہیے کی ایک دو نہیں بیس بحریں بیان کر دی جائیں ہر وہ بحر درست ہے جس میں ماہیا اپنی مخصوص دھن میں گایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جمال اور تنویر بخاری کی بحروں کے حساب سے ماہیے کے دوسرے مصرعے کا وزن یوں بنے گا۔
تنویر بخاری : فعل مفاعیلن (فعل+مفا+عی+لن) دو وتد+دو سبب
ڈاکٹر جمال : فعل فعلن فع (فع+لن+فع+لن+فع) پانچ سبب
یہ عجیب بات ے کہ میں نے محض ماہیے کی دھن کی بنیاد پر جو ماہیے کہے ہیں ان میں سے بعض میں دوسرے مصرعے میں دو وتد اور دو سبب آئے ہیں مثلاً
مستی ہے ہواﺅں میں
رات کی رانی کی
خوشبو ہے فضاﺅں میں
اور بعض میں پانچ سبب آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے دونوں ماہرین کی دریافت کردہ بحروں سے دوسرے مصرعے کا جو اصل وزن بنتا ہے وہ از خود میرے ماہیوں میں آتا رہا ہے اور ماہیے میں اس تصرف کی گنجائش موجود ہے۔ میرے ماہیوں کے دوسرے مصرعے میں پانچ سبب آنے کی ایک مثال بھی دیکھ لیں۔
دن وصل کے تھوڑے ہیں
جی بھر کر مل لو
پھر لمبے وچھوڑے ہیں
اردو شاعری کی تین بڑی روایات گیت، غزل اور نظم مجھے ماہیے میں یک جا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ماہیا بنیادی طور پر ایک چھوٹی سی نظم ہے لیکن اس میں تین مصرعوں کے باوجود پہلے اور آخری مصارع میں قافیہ ردیف کا التزام اسے غزل کے شعر کے قریب کر دیتا ہے۔ پھر کوزے میں دریا بند کرنے کا غزل کے شعر کا وصف بھی ماہیے میں موجود ہے۔ مزاجاً ماہیا گیت جیسا ہے۔ (اس حقیقت کا اظہار ناصر عباس نیر نے بھی کیا ہے) لہٰذا اگر اردو میں اس صنف کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو اس کے وسیع تر امکانات کھل کر سامنے آئیں گے لیکن اس کے لئے بے حد ضروری ہے کہ اس کی بنیادی اینٹ درست رکھی جائے۔ اس کے وزن کے معاملے میں دو طرح کے موقف سامنے آئے ہیں۔ ایک تو وہ ادیب جو غلط فہمی کے باعث نیک نیتی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید ماہیے کے تینوں مصارع ہم وزن ہیں۔ ان کی غلط فہمی کو اس طرح کے مضامین اور ادبی مباحث سے دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے وہ شعرائے کرام ہیں جو پہلے تو بے خیالی اور لاعلمی کے باعث تین یکساں وزن کے مصارع میں غلط ماہیے لکھتے رہے لیکن جب انہیں غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی تو بجائے غلطی کی اصلاح کرنے کے اسے حق بجانب ثابت کرانے پر تل گئے۔
(مطبوعہ: ماہنامہ ”اوراق“ لاہور، شمارہ نومبر دسمبر 1993ئ)
نوٹ : یہ مضمون ”اوراق“ میں خطوط کے صفحات میں شائع کیا گیا۔
٭٭٭٭