مارچ ۱۹۹۴ءمیں ماہنامہ ”صریر“ میں ریاض احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ”ماہیا وزن اور فن“ ۔۔۔۔۔ ریاض احمد اپنے مضمون میں جہاں جہاں اصل موضوع کی طرف آئے ہیں عموماً اہم اور کام کی باتیں کہہ گئے ہیں۔ تاہم وہ زیادہ تر اصل موضوع کو چھوڑ کر لسانی بکھیڑوں میں الجھے رہے اور اس میں بھی کبھی عربی کے حروف قلقلہ کا ذکر لے بیٹھے توکبھی قومی ترانے کا، کبھی عربی کی کئی حروف تک پھیلتی چلی جاتی مسلسل حرکات میں الجھ گئے تو کبھی رباعی کے چوبیس اوزان کا تذکرہ کرنے لگے، کبھی عربی قصیدہ بردہ شریف اور قصیدہ غوثیہ کے عروضی اوزان بتانے لگے اور کبھی اقبال کی نظم مسجد قرطبہ کو قصیدہ بردہ شریف کی بحر کی ایک اور مزاحف صورت ثابت کرنے لگے۔ یہ ساری عالمانہ باتیں تھیں لیکن ماہیے کے وزن اور فن کے حوالے سے یہ غیر ضروری تھیں اور محض قاری کو ”بوجھوں مارنے والی“ تھیں۔ اس قسم کی طویل عالمانہ گفتگوکے بعد انہوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے ”مجھے احساس ہے کہ بات دور نکل گئی ہے۔ دراصل میں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ پنجابی زبان کے مخصوص لہجے اور بعض مفرد حروف یا مرکبات کی مخصوص آوازوں کے باعث جو اردو زبان کی سبک یا چست آوازوں کے مقابلے میں بوجھل، کرخت، بل دار لہجے کی حامل ہیں ان کی چولیں مروجہ عروضی اوزان میں ٹھیک سے بیٹھتی نظر نہیں آتیں“۔
ریاض احمد نے جس وضاحت کے لئے کوزے سے دریا بہا دیا ہے وہ سیدھے سادھے الفاظ میں یوں بھی کہی جا چکی ہے کہ اردو زبان میں باقاعدہ قواعد و ضوابط ہیں جن کے مطابق حروف کے استعمال میں رعایت سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور جہاں رعایت نہیں ہے وہاں پابندی بھی کرنی پڑتی ہے۔ اردو کے برعکس پنجابی میں زحافات کے قواعد اور ضابطے نہ ہونے کے باعث لچک اتنی زیادہ ہے کہ ضروریات کے مطابق (کسی قاعدے کے مطابق نہیں، صرف شعری ضرورت کے مطابق، الفاظ کو کھینچ کر لمبا بھی کر لیا جاتا ہے اور گرا کر مختصر بھی کر لیا جاتا ہے۔ اس سیدھی سادی بات کو پنجاب کے تنویر بخاری سے لے کر ۔۔۔ کرناٹک کے انور مینائی تک متعدد ادبا کسی طوالت کے بغیر اچھے انداز میں بیان کر چکے ہیں۔ پھر اسے غیر ضروری طور پر طول دے کر، بکھیر کر اور الجھا کر بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ریاض احمد جب اصل موضوع کی طرف آئے ہیں تو انہوں نے بنیادی نوعیت کی باتیں بھی بتائی ہیں مثلاً اس مضمون کے یہ چار اہم اقتباس دیکھیں:
”ماہیا پنجابی زبان کی ایک مقبول دھن ہے۔ اس کے بول عوامی فنکاروں کے ترتیب دیئے ہوئے ہوتے ہیں جن سے قصداً کسی عروضی وزن کی پابندی کا تقاضا ظاہر ہے کہ بے سود ہے۔ تاہم ان بولوں کے آہنگ میں عروضی وزن کی تلاش کچھ اتنا بے معنی عمل بھی نظرنہیں آتا“۔
”جو نکتہ ہاتھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ عروضی وزن (جو متحرک اور ساکن حروف کی ترتیب سے پیدا ہوتا ہے) کے مقابلے میں پنجابی اوزان میں موسیقی کے بنیادی تصورات مثلاً سرتال وغیرہ کی مدد سے آہنگ کو اس طرح نمایاں کیا جاتا ہے کہ عروضی وزن اس آہنگ کو مدنظر رکھے بغیر مقرر کرنا مشکل ہو جاتا ہے“۔
”ماہیا صرف ایک شاعری کی صنف ہی نہیں، ایک لے یا سر کا نام بھی ہے“۔
”ماہیا دراصل گانے کی چیز ہے۔ تحت اللفظ سننے، سنانے کی یہاں کوئی روایت نہیں۔ گانے کے لئے سر اور تال کی اہمیت زیادہ ہے“۔
ریاض احمد صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ماہیا بنیادی طور پر گائی جانے والی شاعری ہے جس کی اپنی ایک لے (دھن) ہے۔ اسی دھن کے ذریعے سے ماہیے کے وزن کو آسانی سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض احمد مسئلے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں لیکن تھوڑا آگے چل کر وہ پھر کنفیوژ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ تنویر بخاری کے پیش کردہ چار پنجابی ماہیے درج کرکے انہیں اردو کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں:
”مروجہ ماہیے جنہیں لوک فنکاروں نے تخلیق کیا ہے وہ ہر جگہ مجوزہ بحر پر پورے نہیں اترتے۔ دوسرے مصرعہ کے لئے لازمی نہیں کہ دوسرے دو مصرعوں سے چھوٹا ہو (بعض جگہ مقابلتاً لمبا ہو جاتا۔ اس سے پہلے ریاض احمد کے مذکورہ مضمون کے جو پانچ اقتباسات دیئے گئے ہیں ا ن سے ظاہر ہے کہ وہ پنجابی ماہیے کے وزن کو اس کی دھن (لے یا موسیقی) کے ذریعے متعین کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ یہ بالکل اصولی بات ہے لیکن پھر عملاً پنجابی زبان کی لچک کو یکسر نظرانداز کر کے پنجابی ماہیے کو اردو قواعد کے مطابق پرکھنا اور اسی بنیاد پر پھر ماہیے کے دوسرے مصرعے کو پہلے اور تیسرے مصرعہ سے کبھی چھوٹا، کبھی برابر اور کبھی لمبا قرار دے دینا حیران کن ہے۔ کبھی کبھی ایسے بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی کہہ کچھ رہا ہوتا ہے اور کر کچھ اور رہا ہوتا ہے۔ بہرحال ریاض احمد کے مضمون سے یہ اصولی بات تو ملتی ہے کہ ماہیے کا وزن اس کی لے سے ہی طے ہو سکتا ہے۔
۱۹۹۴ءمیں بھارت کے ادبی رسالہ دوماہی ”گلبن“ احمد آباد شمارہ مئی جون میں میرا ایک خصوصی نوٹ ”ماہیے کے بارے میں چند باتیں“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی برس ڈیلی جنگ لندن کی ۲جون کی اشاعت میں ادبی صفحہ پر میرا ایک مضمون ”اردو میں ماہیانگاری“ شائع ہوا۔ مذکورہ نوٹ اور مضمون دونوں تعارفی نوعیت کے تھے تاہم اس کے نتیجہ میں مزید شعرائے کرام درست وزن میں ماہیانگاری کی طرف مائل ہوئے۔ ایسے ماہیا نگاروں میں صدف جعفری، نیاز احمد مجاز اوراجمل پاشا کے نام قابل ذکر ہیں۔
”اوراق“ لاہور شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۴ءمیں نذیر فتح پوری اور رشید اعجاز کے ماہیوں کے ساتھ نثار ترابی کے ثلاثی بھی ”ماہیے“ کے طور پرچھپے۔ میں نے ان پر تبصرہ کرے ہوئے مدیر ”اوراق“ کو ایک خط لکھا۔ یہ خط ”اوراق“ کے شمارہ فروری، مارچ ۱۹۹۵ءمیں شائع ہوا۔ اس خط کا ماہیے سے متعلقہ حصہ یہ ہے:
”رشید فتح پوری اور رشید اعجاز کے ماہیے اچھے لگے۔ نثار ترابی ماہیے کے مزاج آشنا لگتے ہیں مگر وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے۔ کتنا اچھا ہو کہ اب وہ درست وزن میں ماہیے کہنے لگیں۔ درست وزن میں ماہیا نگاری کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے“۔
میرے مشورے سے شاید نثار ترابی صاحب کو احساس ہوا کہ اگر میری بات مان لی گی تو ان کے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا چنانچہ انہوں نے دو طرفہ کارروائی کی۔ پی آر شپ کے زور سے اپنی بے جا تعریف کرانی شروع کی نیز میرے خط کے جواب میں خلط مبحث کی کوشش کرتے ہوئے ”اوراق“ میں خط چھپوایا۔ پہلے ان کی بے جا پی آر شپ کی دو مثالیں دیکھ لیں:
پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کا ایک مضمون ”مختصر شعری ہیئتیں“ سہ ماہی ”ارتکاز“ کراچی کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۵ءمیں شائع ہوا۔ اس میں ماہیے کے وزن کے سلسلے میں دونوں موقف بتائے گئے ہیں۔ نثار ترابی کے بارے میں ڈاکٹر محمد امین لکھتے ہیں:
”بعض ناقدین نے نثار ترابی کی کتاب ”بارات گلابوں کی“ کو اردو ماہیے کا پہلا مجموعہ قرار دیا ہے“۔ حالانکہ ثلاثی کو ماہیے کے نام سے پیش کرنے کا یہ چوتھا مجموعہ ہے۔ ”ارتکاز“ کے اسی شمارہ میں پروفیسر احسان اکبر ”بارات گلابوں کی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: نثار ترابی کو یہ خصوصی اہمیت نصیب ہے کہ اردو میں ماہیے کا تعارف کے بعد دوبارہ اس چلن کا احیا اسی کے قلم سے ہوا“
حقیقت یہ ہے کہ نصیر احمد ناصر اور علی محمد فرشی جب غلط وزن کا تعارف کرا کے ایسے ”ماہیے“ لکھنا چھوڑ گئے (فرشی صاحب اب پھر مائل ہونے لگے ہیں) تب سیدہ حنا کے ہاتھوں اس کا احیا ہوا۔ سیدہ حنا کے بعد دیپک قمر کی اہمیت بنتی ہے جو نثار ترابی سے پہلے ثلاثی کے تین مجموعے چھپوا چکے ہیں۔ نثار ترابی کا نام تو غلط وزن کی ”ماہیا نگاری“ میں بھی بہت بعد میں آتا ہے۔ ہاں شاندار پی آر شپ کے چال چلن کا احیا بے شک انہیں کے ذریعے ہوا۔
بھارت کے ایک رسالہ ماہنامہ ”تعمیر ہریانہ“ کے اکتوبر ۱۹۹۵ءکے شمارہ میں انور مینائی کا ”ماہیے ۔ ایک مطالعہ“ کے عنوان سے ایک تعارفی نوعیت کا مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون میں انور مینائی نے ماہیے کے وزن کے سلسلے میں دونوں موقف حوالوں کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کے التزام کو درست قرار دیا۔ انور مینائی ایک جگہ لکھتے ہیں:
”مالک رام نے دیپک قمر کے ماہیوں کے دوسرے مجموعے ”پھوئیاں پھوئیاں پھہار“ کے فلیپ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اشارتاً یکساں طوالت والے مصرعوں پر مبنی ماہیوں پر یوں تنقید کی ہے۔
”کسی زبان کی مخصوص صنف کلام کو دوسری زبان میں متعارف کرانے کی کوشش ایسا ہی ہے جیسے ایک درخت کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسرے مقام پر لگا دینا۔ زمین نئی،آب وہوا مختلف، ماحول اجنبی، خدا معلوم یہ انجانی باتیں اس درخت کو راس آئیں یا نہیں؟ وہ پنپ سکے یا نہیں“۔
انور مینائی نے اپنے مضمون میں مالک رام کے جس اقتباس کو پیش کیا ہے لگتا ہے اس سے پہلے کا ایک جملہ ان سے سہواً رہ گیا ہے۔ مالک رام نے دیپک قمر کے ماہیوں پر رائے دیتے ہوئے لکھا تھا:
”انہوں نے اس کے موضوع کو بھی وسعت دی ہے اور ہیئت میں بھی کچھ نیا تجربہ کیا ہے۔ کسی زبان کی مخصوص ۔۔۔۔۔۔“ ہیئت کے نئے تجربے کے اشارے میں ہی مالک رام نے بھید کی بات کہہ دی تھی۔
اپنے مضمون کے آخر میں انور مینائی لکھتے ہیں: ”فہیم اعظمی نے دو بنیادی باتیں بتائی ہیں۔ ایک ماہیا کے ثلاثی میں ضم ہو جانے کی بات اور دوسری ہیئت و وزن کا مضمون و معنی پر فوقیت۔۔۔۔ جب یکساں طوالت والے مصرعوں کی وجہ سے ثلاثی اور ماہیا کا فرق ہی مٹ جائے تو ماہیاکی تخلیق کا جواز بھی باقی نہیں رہتا۔ نیز دوسرے مصرعے کے پہلے رکن میں سبب خفیف کی کمی سے ماہیا، ثلاثی سے الگ اپنی پہچان قائم رکھ سکے گا۔ راقم التحریر بھی اسی موقف کا حامی ہے“۔
اب ”اوراق“ شمارہ اگست ستمبر ۱۹۹۵ءمیں شائع ہونے والے دو خطوط یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک خط طاہر مجید کا ہے اور دوسرا نثار ترابی کا۔۔۔ پہلے طاہر مجید کے خط کا ایک اہم حصہ:
”ماہیا پنجابی کا لوک گیت ہے اور موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہ لکھی جانے والی صنف سے زیادہ گائی جانے والی صنف ہے۔ اس کے باوجود اس کے اصل وزن کو سمجھنے کی بجائے اس پر ”طبلے کی تھاپ“ کے حوالے سے طنز کیا جا رہاہے۔ پنجابی ماہیے میں طبلے کی تھاپ تو نہیں البتہ گھڑے یا پرات کی آواز آج بھی ہر گاﺅں میں سنی جاتی ہے۔ جن صاحبان کو ماہیے کی مخصوص نغمگی راس نہیں آ رہی ہے کیا ضروری ہے کہ وہ ماہیے ہی لکھیں۔ ثلاثی لکھ لیں۔ کوئی اور سہ مصرعی صنف ایجاد کر لیں۔ ضروری تو نہیں کہ کبھی ہائیکو پر مشق ناز کی جائے اور کبھی ماہیے پر۔ تین یکساں مصرعوں کی ایک صنف ثلاثی کے نام سے موجود ہے، جو صاحبان ماہیے کے اصل وزن کو ملحوظ نہیں رکھ سکتے وہ ثلاثی کہہ لیاکریں۔ یہ بالکل وہی صورت حال ہے جیسے بعض اخباری کالم نگار اپنے کالموں پر انشایئے کا لیبل لگانے کے متمنی تھے اور اس تمنا کی تکمیل کے لئے وہ اصل انشائیہ نگاروں کی مذمت کرانے لگے تھے۔ اردو ماہیے میں پہلے سے ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی کی روشن مثالیں موجود ہیں:
دل لے کے دغا دیں گے
یار ہیں مطلب کے
یہ دیں گے تو کیا دیں گے
(ساحر لدھیانوی: فلم نیا دور)
تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
(قمر جلال آبادی : فلم پھاگن)
اس کے باوجود اصل وزن کے سلسلے میں گرد اڑائی جا رہی ہے۔ مقصد یہاں بھی یہی ہے کہ اس طرح بعض احباب کو ماہیا نگار منوا لیا جائے اور اس کارخیر کے لئے ضروری ہے کہ اصل وزن اختیار کرنے والوں کو نشانہ بنایا جائے۔ زیر نظر ”اوراق“ میں آٹھ ماہیا نگاروں کے ماہیے چھپے ہیں۔ تین صاحبان نے اصل وزن کو ملحوظ نہیں رکھا لیکن حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پانچ ماہیا نگاروں نے اصل وزن کو مدنظر رکھا ہے۔ فرحت نواز، سعید شباب، شجاعت علی راہی، نذیر فتح پوری اور رشید اعجاز کے ماہیے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو میں اصل ماہیا فروغ پانے لگا ہے“۔
اب نثار ترابی کا وہ خط دیکھیں جو میرے مشورے کے جواب میں شائع ہوا:
”میں چند معروضات ماہیے کے حوالے سے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہاں میرے مخاطب بطور خاص حیدر قریشی صاحب ہیں۔ ان کی خدمت میں بہت احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ وہ اردو ماہیے کے درمیانی مصرعے میں وزن کی بنیاد پر جس قسم کے رویے کو فروغ دے رہے ہیں وہ ماہیے کی کلاسیکی شعری روایات کے منافی ہے۔ وہ ارباب فن جن کا میدان خالصتاً نقد و نظر ہے ماہیے کے ”درست وزن“ سے پوری طرح آگاہ ہیں یعنی یہ ایک رکن کم اور برابر کے مصرعوں میں ظہور ہوتا رہا ہے۔ حیدر قریشی کو مساوی الوزن مصرعوں کو غلط قرار دینے سے قبل یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کیا پنجابی اور اردو میں لکھے جانے والے ماہیوں میں دوسرے مصرعوں کے ”مساوی الوزن“ ہونے کی کلاسیکی اور جدید روایات موجود ہیں یا نہیں؟ واضح رہے کہ لوک ورثہ کے قومی ادارے نے پنجابی ماہیے کے جس ذخیرہ کو کتابی شکل میں عکسی مفتی اور مظہر الاسلام ایسے سینئر دانشوروں کی سرپرستی میں شائع کیا ہے حوالے کے لئے موجود ہے۔ میں یہاں صرف ایک مثال درج کرنے کے بعد بات آگے بڑھانا چاہوں گا ورنہ ”دوسرے مصرعے“ کے مساوی الوزن ہونے کی بے انت و بے حساب مثالیں موجود ہیں۔
چٹا کُکڑ بنیرے تے/ روح ساڈی ایتھے پھر دی/ جند سجناں دے ڈیرے تے
یہاں روح کو ”رو“ باندھا گیا ہے اور ”ح“ کو تقطیع میں شامل نہیں کیا گیا جو جائز ہے۔ اردو ماہیے کا ذکر چھڑے تو مرحوم چراغ حسن حسرت کے اس ماہیے کو کون بھول سکتا ہے۔ باغوں میں پڑے جھولے/ تم بھول گئے ہم کو/ ہم تم کو نہیں بھولے۔
حسرت مرحوم نے لگ بھگ گیارہ ماہیے تخلیق کئے جو آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور ہر ماہیا برابر کے مصرعے میں مکمل ہوا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے دیگر سینئر اور جدید تر نسل کے نمائندہ شعراءمساوی الوزن مصرعوں کی بنت سے اردو اور پنجابی ماہیے تخلیق کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں میری کتاب ”بارات گلابوں کی“ اور سیدہ حنا کی ”سیدہ حنا کے ماہیے“ امجد اسلام امجد کی ” ذرا پھر سے کہنا“ خادم جعفری کی ”میرا چن تارا“ پاکستان میں اور دیپک قمر کے تین اردو مجموعے (جو خالصتاً اردو ماہیے پر مشتمل ہیں) ہندوستان میں شائع ہو کر ۔۔۔۔ مساوی الوزن مصرعوں کی مقبولیت کا زندہ ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ کیا ماہیے کی یہ ہر دلعزیزی اس کے درست وزن میں ہونے کا واضح اعلان نامہ، جیتی جاگتی دلیل، فنی جواز اور روایتی تسلسل کی شعری صداقت نہیں؟ ۔۔۔۔۔ ویسے ماہیے کے وزن کے مسئلے سے قطع نظر اصل بات ماہیے کے مزاج، لفظیات کے ورتارے، بے ساختہ پن، رس، نغمگی، مٹھاس، موضوعاتی فضا اور اس کے اسلوب کی انفرادیت ہے۔ ماہیے میں اگر ہمیں اپنی لوک روایات اور روہتل کی چمک رس گھولتی اور رقص کرتی نظر نہیں آتی تو وہ ماہیا نہیں سہ مصرعی کی کوئی دوسری شکل ہے۔ اس بار سیما پیروز، ایم اے تنویر اور سعید شباب کے ماہیے اپنے رس، رچاﺅاور تازگی کی بنا پر احساس کو بے ساختہ زنجیر کر گئے“۔
”اوراق“ شمارہ اگست ستمبر ۱۹۹۵ءمیں ماہیے کے حوالے سے ہونے والی بحث پر میرے تفصیلی تاثرات ۱۹۹۶ءکے آغاز کے ساتھ ہی سامنے آ گئے۔ تاہم ۱۹۹۵ءکے جاتے جاتے ایک اہم واقعہ یہ ہو اکہ حمایت علی شاعر نے تجدید نو کے شمارہ نومبر ۱۹۹۵ءمیں اپنے ایک مکتوب میں ماہیے کے سلسلے میں روا رکھی جانے والی بے راہ روی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کے مکتوب کے چند الفاظ ہی ہمارے لئے تقویت کا موجب بنے۔ ”اوراق“ کے جنوری، فروری ۱۹۹۶ءکے شمارہ میں میرا تفصیلی خط شائع ہوا جو ماہیے کے حوالے سے ہونے والی سابقہ بحث کا جواب تھا ۔ وہ خط درج ذیل ہے :
”اوراق“ شمارہ اگست ستمبر ۱۹۹۵ءمیں ماہیے کی بحث مزید نمایاں ہوئی ہے۔ جناب طاہر مجید نے انشائیہ کے حوالے سے اس کے ماضی کے مباحث اور ماہیے کی موجودہ بحث کی صورت حال میں دلچسپ مطابقت پیدا کی ہے۔ واقعتاً انشائیہ کے معاملہ میں جب خلط مبحث کیا گیا تب دوستیوں اور پی آر شپ کا مسئلہ تھا تو کہیں سہل انگاری کا۔۔۔۔ اب ماہیے کے معاملے میں بھی یہی صورت حال درپیش ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ بیشتر دوست بے خبری کے باعث ہی تین یکساں مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھتے رہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ شروع میں جب اصل وزن والے ماہیے منظر عام پر آئے تو نہ صرف ان کی مذمت کی گئی بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پنجابی ماہیے تین یکساں مصرعوں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ موقف ”ابلاغ“ کے صفحات پر سامنے آیا اور اسے دیپک قمر وغیرہ کی حمایت اور سرپرستی حاصل تھی۔ لیکن پھر ہماری وضاحت سامنے آنے پر جیسے ہی ان لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کا دعویٰ درست نہیں ہے تب یوں کہا گیا کہ ماہیے کے دونوں وزن درست ہیں۔ ”ابلاغ“ کے صفحات پر چھپنے والے وہ خطوط اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ تین یکساں مصرعوں کے ”ماہیے“ وزن سے بے خبری کے نتیجہ میں لکھے گئے۔ اب تو ہر شخص بڑے مزے سے کہہ سکتا ہے کہ ہمیں دونوں اوزان کا علم ہے اور ہم جان بوجھ کر تین یکساں مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھ رہے ہیں۔ بے خبری کے بعد دوسرا سبب سہل انگاری بھی ہے۔ پہلے اور تیسرے مصرعوں کے مقابلہ میں دوسرے مصرعہ میں ”ایک سبب“ کی کمی کا التزام رکھنا اتنا آسان نہیں ہے اسی لئے یار لوگ تین یکساں مصرعوں کے ”ماہیوں“ پر ہی اصرار کرنے لگے۔۔۔۔۔ بشیر سیفی نے اپنے مضمون ”سیدہ حنا کے ماہیے“ میں ایم اے تنویر کے مضمون مطبوعہ ”صریر“ کراچی سالنامہ ۱۹۹۳ءکا بطور خاص حوالہ دیا ہے۔ اس مضمون میں باقی ساری باتیں ایک طرف اور ایم اے تنویر صاحب کا یہ معصومانہ سوال ایک طرف۔ ”سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کاجواز کیا ہے؟ ہم کیوں اردو ماہیے پر پنجابی وزن کا اطلاق کریں؟“۔۔۔۔۔۔ ریکارڈ کی درستی کے لئے مزید عرض ہے کہ اس مضمون کے آخر میں ”صریر“ کے ایڈیٹر ڈاکٹر فہیم اعظمی نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ الفاظ بھی لکھے ہیں: ”ماہیے کے فارم میں تبدیلی سے اس کی انفرادی حیثیت قائم نہ رہ سکے گی اور یہ اردو کی صنف ثلاثی میں ضم ہو جائے گی“ ۔۔۔۔۔۔ پھرنومبر ۱۹۹۳ء کے ”صریر“ میں جناب وحید انور نے اپنے خط میں مذکورہ مضمون کی ساری بحث ہی سمیٹ لی۔ انہوں نے ماہیے کی کسی بحر کے تعین کی بجائے سیدھی سادی بات کر دی جو ماہیے پنجابی ماہیے کی مخصوص دھن پر روانی کے ساتھ گنگنائے جا سکتے ہیں وہ ماہیے ہیں اور جنہیں گنگناتے ہوئے جھٹکا لگتا ہے وہ ماہیے نہیں ہیں۔ ”صریر“ سالنامہ ۱۹۹۳ءجس کا حوالہ بشیر سیفی دے رہے ہیں، اسی شمارہ میں سعید شباب کا ایک اہم مضمون ”ماہیے کی تفہیم میں پیش رفت“ بھی چھپا ہوا ہے ۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ آج نثار ترابی صاحب اپنے خط میں چراغ حسن حسرت کے ”ماہیوں“ کے حوالے سے جو بات کر رہے ہیں سعید شباب اپنے اس مضمون میں اس کا مدلل جواب دے چکے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے انشائیہ کے اصل خدوخال کی مخالفت کرنے والے اپنے اعتراضات کے جواب مل جانے کے باوجود تواتر سے اپنے اعتراضات کو دہرائے جا رہے ہیں ویسے ہی ماہیے کے اصل وزن کے نام سے ناراض ہونے والے احباب بھی اپنے اعتراضات کو جواب ملنے کے باوجود دہرانے لگے ہیں۔۔۔۔۔ نثار ترابی صاحب نے لوک ورثہ کی چھاپی ہوئی ماہیوں کی ایک کتاب کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں کتاب اور مرتب کا نام بتانے کی بجائے اس کے ناشرین مظہر الاسلام اور عکسی مفتی کی دانشورانہ اہمیت کو اجاگر کرتے گئے ہیں۔ میں دونوں دانشور دوستوں سے کسی رابطے کے بغیر ادبی محبت رکھتا ہوں۔ مجھے اس وقت کتاب کا نام یاد نہیں آ رہا، تاہم اگر یہ کسی جدون صاحب کی مرتب کی ہوئی کتاب ہے تو نہایت معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ یہ کتاب پنجابی ماہیے کی سب سے بری کتاب ہے۔ میں نثار ترابی صاحب سے ہی کہوں گا کہ وہ جی کڑا کر کے یہ کتاب ایک بار پھر پڑھ جائیں۔ اس کے بعد اس کتاب کے بارے میں وہ جو فیصلہ کر دیں میں ان پر بھروسہ کر کے اسے مان لوں گا۔ ویسے پنجابی میں ایک قدرے اچھی کتاب ”ماہیا ۔فن تے بنتر“ چھپی ہے۔ اسے تنویر بخاری نے لکھا ہے۔ اس پر جمال ہوشیار پوری کا ایک اہم اختلافی مضمون بھی چھپا ہے ۔ چونکہ دونوں صاحبان ماہیے کے پہلے مصرعہ کو معیار مان کر ماہیے کی بحر کے تعین میں بحث کر رہے تھے اس لئے ”مفعول مفاعیلن“ اور ”فعلن فعلن فعلن“ کی حد تک بحث چلی، جبکہ ماہیے کے لئے یہ دونوں وزن درست ہیں ۔۔۔۔ جناب نثار ترابی نے پنجابی سے تین یکساں مصرعوں کے ماہیے کی ایک مثال پیش کی ہے اور پھر اعتراض کیا ہے ۔۔۔۔ اس اعتراض کا جواب بھی بارہا دیا جا چکا ہے۔ اب پھر مختصراً عرض کرتا ہوں کہ اردو میں زحافات کی جو رعایت ہے پنجابی زبان میں ایسا کوئی قاعدہ کلیہ موجود نہیں ہے ۔ پنجابی میں بہت سے لفظوں کو شعری ضرورت اور سہولت کے مطابق چھوٹا یا لمبا کر لیا جاتا ہے۔ لہٰذا پنجابی ماہیے کو اگر آپ محض تحریری صورت میں دیکھیں گے تو لازماً دھوکہ کھائیں گے لیکن چونکہ ماہیا بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور اس کی مخصوص دھن ہے اس لئے تحریری صورت میں دیکھنے سے جو مغالطہ ہوتا ہے اسے اس کی دھن پر با آسانی پرکھا جا سکتا ہے۔ ماہیے کی مخصوص دھن میں ہی اس کا اصل وزن موجود ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی اس کے وزن کا تعین نہیں کرنا بلکہ صرف اس وزن کو معلوم کرنا ہے ۔ اس کا موزوں طریقہ یہی ہے کہ ماہیے کو محض لکھتے ہوئے نہیں بلکہ اس کی مخصوص دھن میں گنگناتے ہوئے تخلیق کریں پھر کوئی الجھن نہیں رہے گی۔ ماہیے کی مخصوص دھن کے مطابق جو ماہیا روانی سے گنگنایا جا سکتا ہے وہ کسی بحر میں ہو میں اسے ماہیا تسلیم کرتا ہوں لیکن جو ”ماہیا“ دوسرے مصرعہ میں جھٹکا کھانے لگے وہ ماہیا نہیں کچھ اور ہے لیکن دھن ماہیے والی ہو۔ چاہے مسرت نذیر والے گانے کی ہو، چاہے فلم ”پھاگن“ والے گانے کی ہو اور چاہے پنجاب کے دیہاتوں والی ہو۔ ان کے علاوہ اگر کوئی اور دھن ہے تو اسے بے شک گانا کہہ لیں، نغمہ کہہ لیں، لیکن وہ ماہیا نہیں ہے۔۔۔۔۔ جناب نثار ترابی نے اردو ”ماہیے“ کے بعض مجموعوں کابھی ذکر کیا ہے۔ جواباً عرض ہے کہ ان سے دگنی تعداد میں ہائیکو کے غلط وزن والے مجموعے بھی چھپ چکے ہیں تو کیا وہ ثلاثی محض اس لئے ہائیکو مان لئے جائیں گے کہ ان کے ڈھیر سارے مجموعے ہائیکو کے لیبل کے ساتھ چھپ چکے ہیں؟ باقی اب تیس سے زائد شعراءدرست وزن میں ماہیے کہہ چکے ہیں۔ تین یکساں مصرعوں پر اصرار کرنے والے صاحبان کی تعداد تو اب دس بھی نہیں رہ گئی ۔۔۔۔۔۔ ان ساری معروضات کے بعد خاص طور پر جناب نثار ترابی سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ماہیے کی مخصوص دھن کو معیار مان کر فیصلہ کر لیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ ادبی معاملہ ہے۔ سو اگر اس بحث کو اس رنگ میں آگے بڑھائیں کہ مجھے کچھ سمجھانا چاہیں یا خود کچھ سمجھنا چاہیں تو میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں اور واضح کرتا ہوں کہ اپنا موقف غلط ثابت ہونے کی صورت میں جو بھی ادبی سچائی ہو گی اس کا برملا اقرار کروں گا اور اپنے سابقہ رویے پر معذرت بھی کروں گا“۔
میرے اس خط کے جواب میں ”اوراق“ کے اس سے اگلے شمارے میں نثار ترابی نے معنی خیز خاموشی اختیار کر لی۔ ”اوراق“ شمارہ جنوری فروری ۱۹۹۶ءمیں شائع ہونے والے مندرجہ بالا خط کے معاً بعد ماہنامہ ”صریر“ کراچی شمارہ مارچ ۱۹۹۶ءمیں ڈاکٹر انور سدید کا طویل سالانہ ادبی جائزہ شائع ہوا۔ اس جائزہ میں ماہیا کے حوالے سے ڈاکٹر انورسدید نے لکھا:
”سہ مصرعی اصناف سخن میں اردو ماہیا کو گزشتہ چند برسوں کے دوران اس لئے زیادہ اہمیت ملی کہ اس میں مقامی ثقافت کی باس نمایاں ہے۔ دوم یہ صنف سخن لوک مزاج اور موسیقی طراز ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس میں گیت کی طرح عورت کی کوک بھی زیادہ سنائی دیتی ہے۔ موضوعی اعتبار سے اب اس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ ماہیا کی ہیئت کو پنجابی ماہیا کے مماثل کرنے میں حیدر قریشی نے زیادہ خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے ہیئت کی اس صورت کو قائم رکھنے پر اصرار کیا کہ ماہیا کے وسطی مصرعہ میں ایک رکن کم ہوتا ہے اور قاری پہلا مصرعہ الاپنے کے بعد تھوڑا سا رک جاتا ہے۔ رکاوٹ کا یہ وقفہ محبوب تک آواز پہنچانے کا وقفہ ہے۔ پہلے مصرعہ الاپنے کے بعد تھوڑا بلند آواز ہوتا ہے لیکن آخری مصرعہ ایسا ہوتا ہے جیسے جذبات کی چڑھی ہوئی ندی اب اتر رہی ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ متعدد شعراءماہیا میں تین ہم وزن مصرعے لکھ رہے ہیں اور یوں ماہیا کا مزاج ثلاثی کے ساتھ ملتا جا رہا ہے۔ حیدر قریشی اس مسئلے پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعداد و شمار کی رو سے بتایا کہ اب تین یکساں مصرعوں کو ماہیا کے لئے استعمال کرنے والوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے“۔ ماہیے کے نغماتی زیروبم کو ڈاکٹر انور سدید نے خوبصورتی سے اپنے انداز میں بیان کیا ہے البتہ ان کا یہ بیان توجہ طلب ہے کہ ”متعدد شعرائ“ ماہیا میں تین ہم وزن مصرعے لکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ ”بعض شعرائ“ کی جگہ ”متعدد شعرائ“ کے الفاظ روانی میں لکھ گئے ہیں۔ یہاں ایک سہو کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ اعتراف کر لوں کہ مجھے عروض کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ ماہیے کے وزن کی بحث کے دوران تھوڑی سی شد بد حاصل کرنا پڑی۔ نثار ترابی نے اپنے مکتوب مطبوعہ ”اوراق“ شمارہ اگست ستمبر ۱۹۹۵ءمیں اور ڈاکٹر انور سدید نے اپنے مذکورہ بالا ادبی جائزے میں دوسرے مصرعہ میں ایک سبب یعنی دو حروف کی کمی کو ”ایک رکن“ کی کمی بیان کیا ہے جو دونوں دوستوں کا سہو ہے۔ فعلن ایک رکن ہے اور ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں دو حروف (ایک سبب) یعنی آدھا رکن کم رکھنا ہوتا ہے۔سالانہ ادبی جائزے میں ڈاکٹر انور سدید نے ماہیے کو جو اہمیت دی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نئی شعری صنف اب سنجیدہ اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی ہے۔
اس برس میرے ماہیوں کا پہلا مجموعہ ”محبت کے پھول“ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کے پیش لفظ میں اپنے موقف کو میں نے اپنے ماہیوں کے حوالے سے واضح کیا۔ ماہنامہ ”صریر“ کراچی کے سالنامہ (شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۶ء) میں ڈاکٹر بشیر سیفی کا مضمون ”اردو ماہیا ۔ تحقیقی مطالعہ“ شائع ہوا۔ اس مضمون کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں چراغ حسن حسرت کے تین ہم وزن مصرعوں والے ”ماہیوں“ کے بعد اسی ٹائپ کے بشیر منذر، عبدالمجید بھٹی، منیر عشرت اور ثاقب زیردی کے ”ماہیوں“ کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ یہ ”ماہیے۱۹۵۰ءسے ۱۹۶۰ءکے دوران لکھے گئے تھے ۔ یہ تقریباً وہی زمانہ بنتا ہے جب قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی درست وزن کے ماہیے پیش کر رہے تھے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام تر بحث کے باوجود بشیر سیفی اس اصولی بات کو مان گئے ہیں کہ ماہیے کا وزن اس کی دھن کے مطابق ہونا چاہئے۔
نفس مضمون کے لحاظ سے اصل حقیقت کو تسلیم کر لینے کے باوجود بشیر سیفی نے تحقیق کے نام پر حقائق کو دھندلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اگر ان کی فروگزاشتیں سہواً ہوتیں تو انہیں نظرانداز کیا جا سکتا تھا لیکن چونکہ انہوں نے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لئے تگ و دو کی ہے اس لئے ان کی بعض ”تحقیقی“ باتوں کی حقیقت ظاہر کرنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر بشیر سیفی نے لکھا ہے کہ: ”جب یہ اعتراض سامنے آیا کہ پنجابی ماہیا کے دوسرے مصرعہ میں ایک رکن کم ہوتا ہے اس لئے اردو میں تخلیق ہونے والے تین یکساں مصرعوں کے ماہیے پنجابی ماہیا کی اصل ہیئت کے مطابق نہیں تو بعض ماہیا نگاروں نے فوراً دوسرے مصرعہ میں ایک رکن کم کر دیا“۔ماہیے کے درست وزن کی نشاندہی اگست ۱۹۹۰ءمیں ہوئی۔ اس برس میرے درست وزن کے ماہیے ماہنامہ ”ادب لطیف“ لاہور شمارہ نومبر ۱۹۹۰ءمیں شائع ہوئے۔ ستمبر ۱۹۹۲ءتک میں اکیلا ہی درست وزن میں ماہیے کہہ رہا تھا اور یار لوگوں کی ملامت کا نشانہ بھی بنا ہوا تھا۔ اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں پہلی بار چند دوستوں نے اس طرف توجہ کی۔ ۱۹۹۴ءمیں جا کر شعرائے کرام کو ہمارے موقف کی سچائی کا احساس ہونے لگا۔ ہم نے چار پانچ سال تک سخت محنت کی۔ تب کہیں جا کر ادبی دنیا کو حقیقت معلوم ہوئی۔ فوراً دوسرے مصرعہ میں ایک رکن کم کر دینے کی بشیر سیفی کی تحقیق غلط ہے (ویسے دوسرے مصرعہ میں ایک رکن نہیں، ایک، سبب کم ہوتا ہے) ۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ تین ہم وزن مصرعوں کی نظم کہنا آسان ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کا التزام رکھنا فنی ریاضت چاہتا ہے۔ سو سہل پسندوں کے لئے تین ہم وزن مصرعوں کی ماہیا نگاری زیادہ بہتر تھی۔
ڈاکٹر بشیر سیفی نے ممتا ز شاعر جناب پروفیسر ڈاکٹر صابر آفاقی کے مکتوب مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی شمارہ ستمبر ۱۹۹۳ءکا حوالہ دے کر ماہیے کے تینوں مصرعے ہم وزن ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے لیکن ان کا محققانہ کمال ہے کہ اس مکتوب کے جواب میں ڈاکٹر فہیم اعظمی کے موقف کو گو ل کر گئے ہیں جس میں ہمارے موقف کی معقولیت کا ذکر تھا۔ پھر انہوں نے وحید انور کے خط مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی شمارہ نومبر ۱۹۹۳ءکا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جس میں جناب صابر آفاقی کے مکتوب کا مدلل جواب دے دیاگیا تھا۔ تحقیقی مطالعہ تب منصفانہ ہوتا ہے جب فریقین کے موقف سامنے لا کر کوئی نتیجہ نکالا جائے یک طرفہ موقف پیش کر کے تحقیق کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ ویسے ہمارے لئے یہی بات بہت ہے کہ ۱۹۹۶ءمیں پروفیسر صابر آفاقی کے ماہیے منظر عام پر آئے ہیں اور یہ ماہیے ہمارے موقف والے وزن کے مطابق ہیں۔
ناصر عباس نیئر کے بارے میں بھی بشیر سیفی نے تاثر دیا ہے کہ وہ پہلے ہمارے موقف کے حامی تھے پھر انہوں نے وزن کے مقابلے میں دونوں اوزان کو درست قرار دیا تھا نیز وزن کے مقابلہ میں ماہیے کے مزاج کو اہمیت دی تھی۔ اس سلسلہ میں بھی ڈاکٹر بشیر سیفی نے اوراق لاہور شمارہ مئی جون ۱۹۹۳ءمیں چھپنے والے ناصر عباس نیر کے مضمون کا حوالہ تو دیا ہے لیکن ”اوراق“ کے اس سے اگلے شمارہ کو اپنے تحقیقی مطالعہ میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا جس میں میرا تفصیلی جواب چھپا تھا اور جس کے بعد ناصر عباس نیر کا یا کسی اور دوست کا جواب الجواب ”اوراق“ میں نہیں چھپا۔ ڈاکٹر بشیر سیفی تحقیق کے نام پر جو انداز اختیار کر رہے ہیں محض اس کے جواب کے طور پر یہاں اپنے دوست ناصر عباس نیر کے ۱۹۹۶ءکے تحریر کردہ خط کا صرف ایک جملہ درج کر رہا ہوں۔ ہماری سابقہ بحث اور ماہیے کی جملہ بحث کے تذکرہ کے بعد ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:
”اردو میں ماہیے کی نسبت سے آپ اتھارٹی بن چکے ہیں“
میں برادرم ناصر عباس نیئر کے اس بیان کو ان کی محبت سمجھتا ہوں وگرنہ من آنم کہ من دانم۔
ڈاکٹر بشیر سیفی لکھتے ہیں: ”یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ حیدر قریشی نے جن پنجابی ماہیوں کو اپنے موقف کے ثبوت میں پیش کیا ہے (ابلاغ جولائی ۱۹۹۳ء) وصی محمد وصی نے ان کی تقطیع کر کے انہیں مساوی الوزن ثابت کیا ہے (ملاحظہ ہو ابلاغ اکتوبر ۱۹۹۲ء)“۔
۱۹۹۵ءتک ماہیے کے وزن کی بحث جتنی نکھر چکی ہے اس کے بعد ایسی بات لکھنا صرف ڈاکٹر بشیر سیفی جیسے محقق کا ہی حوصلہ ہے۔ وصی محمد وصی اور دوسرے تمام احباب بھی جو پنجابی ماہیے کی تقطیع اردو عروض پر کریں گے لازماً دھوکہ کھائیں گے کیونکہ پنجابی الفاظ کی ساخت میں جو لچک ہے اسے اردو کے پیمانوں پر جانچنا ہی غلط ہے۔ وصی محمد وصی تو دھن کو معیار مان کر فیصلہ کرنے کی بجائے پنجابی الفاظ کی تقطیع اردو قواعد کے مطابق کرنے لگے تھے اس لئے دھوکہ کھا گئے لیکن بشیر سیفی طے شدہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے والی ایسی تحقیق کر کے کسے دھوکہ دینا چاہتے ہیں؟
ابلاغ کے انہی صفحات پر وصی محمد وصی نے ساحر لدھیانوی کے ماہیے اپنی تائید میں پیش کئے لیکن وہ ماہیے ہمارے موقف کے مطابق نکلے۔ ڈاکٹر بشیر سیفی نے اسے دیدہ دانستہ نظر انداز کر دیا ہے۔ پھر ابلاغ کے صفحات پر وصی محمد وصی ہماری مذمت کرتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کر رہے تھے کہ ماہیا تو تین ہم وزن مصرعوں ہی پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ان کا یہ دعویٰ آج اس عبرت ناک مقام پر آ پہنچا ہے کہ بشیر سیفی، نثار ترابی، ایم اے تنویر اور ایسے ہی دیگر ”ماہیا نگار“ ہمارے ماہیوں کو تو مان رہے ہیں اور اب اس تگ و دو میں لگے ہیں کہ ہمارے ثلاثی کو بھی ماہیا مان کیا جائے۔
ماہیے کے وزن کا مسئلہ سنجیدگی سے اٹھایا گیا تھا۔ شعرائے کرام نے فوراً نہیں بلکہ کافی غور و خوض کے بعد ہمارے موقف کی معقولیت کو تسلیم کیا۔ پنجابی کے ممتاز شاعر جناب امین خیال نے درست وزن میں اردو ماہیے کہہ کر ہماری تحریک کو تقویت پہنچائی ہے۔ نئی نسل کے ایک اہم شاعر عارف فرہاد پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ماہیے کے عنوان سے پیش کرتے رہے۔ پھر طویل غور و خوض کے بعد انہوں نے درست وزن کو اختیار کر لیا اس سلسلے میں ان کے ایک خط کا ایک حصہ درج کر دینا ضروری سمجھتاہوں :
”میں نے اوراق، تجدید نو اور دیگر ادبی پرچوں میں چھپنے والے وہ خطوط بھی پڑھے ہیں جو ماہیے کے حوالے سے تحریر کردہ ہیں اور آپ کے حالیہ خط پر بھی غور کیا ہے۔ واقعی آپ کا موقف درست ہے کہ اصل وزن ہے:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
میں سمجھتا ہوں کہ مساوی الاوزان ماہیے کچھ لوگ اس لئے لکھ رہے ہیں کہ انہیں لکھتے وقت کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میری اس سلسلے میں مختلف معاصرین سے بات چیت ہوئی ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی کا موقف بھی یہی ہے کہ لوگوں نے مروجہ بحر کو آسان سمجھ کر اس میں ماہیے کہہ دیئے ہیں ۔۔۔۔۔ آپ کے موقف پر غور کیا جائے تو دل راضی ہو جاتا ہے۔ ایک بات جو بھلی معلوم ہوتی ہے وہ دھن والی ہے“۔
(مکتوب عارف فرہاد بنام حیدر قریشی ۔ مورخہ یکم اگست ۱۹۹۶ء)
ڈاکٹر بشیر سیفی کا مذکورہ بالا مضمون مجھے اکتوبر ۱۹۹۶ءمیں ملا۔ تب ہی میں نے اس کا مختصر سا جواب لکھ کر ایڈیٹر ماہنامہ ”صریر“ کراچی کو بھیج دیا۔ اس جوابی مضمون کا عنوان تھا ”ماہیے کے حوالے سے چند معروضات“۔ اسی دوران ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مرتب کردہ ماہیوں کا ایک انتخاب ”رم جھم رم جھم“ دہلی سے شائع ہوا۔ اس کا ”حرف اول“ ایک مبسوط دیباچہ ہے جو ماہیے کے وزن کی بحث میں اڑائی گئی گرد کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
۴نومبر ۱۹۹۶ءکی اشاعت میں روزنامہ ”پاسبان“ بنگلور (کرناٹک) نے اپنے تقریباً دو ادبی صفحات ماہیے کے لئے مختص کئے۔ اس میں ۲۱ماہیا نگاروں کے ماہیوں کے ساتھ تین مضامین شائع کئے۔ ”ماہیا اور اس کا دوسرا مصرعہ“ از حیدر قریشی، ”ماہیے ۔ ایک مطالعہ“ از انور مینائی اور ”اردو ماہیے“ از سعید شباب ۔۔۔۔۔ ان مضامین میں سے اول الذکر دونوں مضمون مطبوعہ ہیں اور ان کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ البتہ سعید شباب کا مضمون تازہ اور غیر مطبوعہ ہے۔ انہوں نے اختصار کے ساتھ پنجابی ماہیے کا تعارف کر ایا ہے۔ اس کے وزن کا مسئلہ اٹھا کر اسے ماہیے کی دھن سے واضح کیا ہے۔ اردو ماہیے کی ابتداءاور اصلاح احوال کی روداد بیان کی ہے ان کا مضمون ان الفاظ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ہے:
”خوشی کی بات ہے کہ ماہیے کے مزاج اور خدوخال کی بحث جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے شعرائے کرام ماہیے کے اصل وزن کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ غلط وزن میں ماہیے کہنے والوں کی تعداد اب بالکل گھٹ کر رہ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے شعرائے کرام کے ذریعے اردو ماہیا دوسری اصناف ادب کے دوش بدوش وقار کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہو سکے گا“۔
میرا ایک مضمون ”اردو ماہیا ۔۔۔۔ کل اور آج“ ماہنامہ شاہین ڈنمارک کے شمارہ دسمبر ۱۹۹۶ءمیں شائع ہوا۔ اس مضمون میں میں نے ماہیے کے وزن کے سلسلے میں اب تک بیان کئے گئے مختلف ادباءکے تاثرات کو بیان کر کے حقیقت حال ظاہر کی۔ ماہیے کے مزاج کے حوالے سے بھی میں نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ اس کا یہ حصہ یہاں درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں:
”جہاں تک ماہیے کے مزاج کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کرنا اس لئے مشکل ہے کہ یہ زیادہ تر اپنے اپنے ذوق پرمنحصر ہے ۔ خود پنجابی میں ایسے ماہیے موجود ہیں جنہیں مزاج کی کسی خاص حد میں لانا مشکل ہے۔ مثلاً:
باگے وچ دریاں نیں
اﷲ میاں پاس کرے
اساں فیساں بھریاں نیں
حمد، نعت، منقبت والے ماہیے اور زندگی کے تلخ مسائل والے پنجابی ماہیے بھی ۔۔۔۔۔ اس مزاج سے خاصے مختلف ہیں جو پنجابی ماہیے کی عمومی پہچان ہے۔ ماہیے کے مزاج کے حوالے کو ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے کیونکہ غزل بھی جو کل تک صرف عورتوں کی باتیں کرنے یا عورتوں سے باتیں کرنے تک محدود تھی، آج اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے زندگی کے کتنے ہی موضوعات کا احاطہ کر چکی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں کے ہاں عام طور پر ماہیے کا مزاج از خود آ سکتا ہے بہ نسبت ان ماہیا نگاروں کے جو پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ماہیا نگاروں نے بھی بڑے ہی بے رس اور پھیکے ماہیے کہے ہیں اور پنجاب سے تعلق نہ رکھنے والوں نے ایسے ایسے ماہیے بھی کہے ہیں جو وزن اور مزاج دونوں لحاظ سے عمدہ اور خوبصورت ہیں۔ پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے ماہیا نگاروں کے ماہیے دیکھیں جو درست وزن کو اپنانے اور پنجابی ہونے کے باوجود پھیکے اور اوپرے اوپرے سے ماہیے کہہ رہے ہیں:
مجبور نہیں ہیں ہم
لوٹ کے آئیں گے
تم آنکھ نہ کرئیو نم
ہر آنکھ میں سپنے ہیں
بیرن دنیا میں
یہ روگ ہی اپنے ہیں
٭
اک تیری نشانی ہے
میری اکھین میں
دریا کی روانی ہے
٭
سویا بھی نہیں جاگا
ہوش میں آ جاﺅ
ابھی وقت نہیں بھاگا
یہ مثالیں کسی کی دل آزاری کے لئے نہیں دی گئیں، اسی لئے میں نے ماہیا نگاروں کے نام نہیں دیئے۔ ان مثالوں سے محض یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پنجابی ذہن اور دل رکھنے والے شاعر بھی ماہیے کے عمومی مزاج سے پرے ہو کر ماہیے لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر پنجابی ہونے کے باوجود بعض ماہیے کہنے والے بھی ایسے ماہیے کہہ سکتے ہیں جو بڑی حد تک پنجابی مزاج کے مطابق ہیں۔ چند مثالیں دیکھ لیں:
امواج کے دھاروں تک
اپنی کہانی ہے
طوفان سے کناروں تک
(نذیر فتح پوری ۔ راجستھان)
ہے رنگ بہت گہرا
سرخی اناروں کی
تکتی ہے ترا چہرہ
(انور مینائی۔ کرناٹک)
ساون کی فضاﺅں میں
خوشبو کا افسانہ
زلفوں کی گھٹاﺅں میں
(مناظر عاشق ہرگانوی ۔ بہار)
لفظوں پہ نہ جا بابا
عقل کی باتیں کیا
سن دل کی صدا بابا
(رشید اعجاز، پونا، مہاراشٹر)
اُردو ماہیے کے معیارکو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے، ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر ماہیے کے مزاج کو برقرار رکھنے کی مثبت تلقین ساتھ ساتھ جاری رہنی چاہئے، تاہم ماہیے کے موضوعات میں وسعت آنے سے نئے تجربات میںسے اگر بعض تجربات کچھ کچے اور ادھورے رہ جائیں تو انہیں برداشت کر لینا چاہئے کہ ایسے ادھورے اور کچے تجربات کے نتیجہ میں نئے اور بہتر تجربات کی راہیں بھی نکلیں گی۔ یوں اس دور میں کئے جانے والے بیشتر تجربات آنے والے دور میں اردو ماہیے کی تاریخ کا ایک قیمتی حصہ قرار پائیں گے“۔
۱۹۹۶ءکے آخر تک ماہیے کے وزن اور مزاج کو سمجھنے کے لئے اور حقیقت کو واضح کرنے کے لئے جو مخلصانہ کوششیں ہوئیں ان سے نہ صرف ان مسئلوں کے کئی پہلو کھل کر سامنے آئے بلکہ اصل حقائق بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے۔اب بعض ”صاحبان“ بے شک کج بحثی کرنے یا حقائق کو مسخ کرنے کی تگ و دو کرتے رہیں لیکن ماہیے کے وزن کا مسئلہ ان تمام شعراءپر واضح ہو چکا ہے جو اَب ماہیے کہنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ البتہ جو شعراءپہلے تین ہم وزن مصرعوں کی نظمیں ”ماہیے“ کے نام سے پیش کرتے رہے اب ان کے لئے غلطی کو تسلیم کرنا اور پھر اس کی درستی کی طرف مائل ہونا بے شک خاصا مشکل بلکہ تکلیف دہ کام ہے۔ ایسا کام صرف ان شعراءکے لئے آسان ہو سکتا ہے جو نذیر فتح پوری، ضمیر اظہر، عارف فرہاد اور مناظر عاشق ہرگانوی جیسا حوصلہ اور ظرف رکھتے ہوں جن کے لئے ذاتی انا کے مقابلہ میں ادبی سچائی اہم اور محترم ہے، جسے تسلیم کر لینے سے ان کی شان کم نہیں ہوئی بلکہ ان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے کہ انہوں نے حقیقت واضح ہو جانے پر اسے اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے بشاشت کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔
بہرحال اب وزن کا مسئلہ نئے ماہیا نگاروں کے لئے کسی الجھن کا باعث نہیں رہا۔ وہ اسے بخوبی سمجھ رہے ہیں اور اس کے مطابق کامیابی کے ساتھ عمدہ ماہیے کہہ رہے ہیں۔ ماہیے کے مزاج کی تفہیم میں بھی پیش رفت ہوئی ہے ۔ وزن اور مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے ماہیے کے موضوعات میں بتدریج وسعت پیدا ہو رہی ہے، الفاظ کے برتاﺅمیں بھی عمدہ تجربے ہو رہے ہیں۔ یہ ساری صورت حال خوش کن ہے۔
٭٭٭٭