ماہیے کے وزن کی بحث اب اتنی نکھر چکی ہے کہ کسی کے خلط مبحث کے باوجود اب اس کے خدوخال کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے وزن کے سلسلے میں جن دوستوں نے اخلاص کے ساتھ تحقیق کی اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے رہے، ان میں سے بعض نے یہ سمجھا کہ دوسرا مصرعہ کبھی پہلے اور تیسرے مصرعوں کے وزن کے برابر بھی ہوتا ہے اور کبھی اس کا ایک ”سبب“ کم بھی ہو جاتا ہے۔ بعض نے یہ سمجھا کہ دوسرا مصرعہ نہ صرف کبھی برابر ہوتا ہے، کبھی ایک ”سبب“ کم بلکہ کبھی ایک ”سبب“ زائد بھی ہو جاتا ہے۔ بعض نے یہ باور کیا کہ صرف دوسرا مصرعہ ہی نہیں ماہیے کے باقی مصرعے بھی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ تمام تر اخلاص کے باوجود ایسی غلط فہمیاں محض اس لئے پیدا ہوئیں کہ پنجابی ماہیوں کا وزن اردو قواعد و ضوابط کے مطابق پرکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پنجابی زبان کی ساخت اور اس میں لفظوں کے برتاﺅ سے متعلق یہ حقیقت میں متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ پنجابی زبان میں اردو جیسے لسانی قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کے باعث لچک بہت زیادہ ہے چنانچہ شعری ضرورت کے مطابق اس کے الفاظ کو کھینچ کر لمبا بھی کرلیا جاتا ہے اور الانگ کر مختصر بھی کرلیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں جو دوست بھی پنجابی ماہیے کے وزن کو سمجھنے کے لئے پنجابی الفاظ کو اردو عروض پر پرکھنے کی کوشش کریں گے، مغالطے کا شکار ہوں گے۔ میں نے شروع ہی سے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ماہیے کا اصل وزن اس کی دھن میں موجود ہے۔ یہ وہ بنیادی کلید ہے جس سے ماہیے کے وزن کا مسئلہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ اس مسئلے پر مزید وضاحت آخر میں کروں گا۔ یہاں میں ڈاکٹر بشیر سیفی کے مضمون کے بعض ایسے مندرجات کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جو ریکارڈ کی درستی کے لئے ضروری ہیں۔ بشیر سیفی لکھتے ہیں۔
”جب یہ اعتراض سامنے آیا کہ پنجابی ماہیا کے دوسرے مصرعہ میں ایک رکن کم ہوتا ہے، اس لئے اردو میں تخلیق ہونے والے تین یکساں مصرعوں کے ماہیے پنجابی ماہیا کی اصل ہیئت کے مطابق نہیں تو بعض ماہیا نگاروں نے فوراً دوسرے مصرعہ میں ایک رکن کم کر دیا۔“
حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں صرف میں نے ہی اصل وزن کی ماہیا نگاری اختیار کی اور اس کی سزا کے طور پر یار لوگوں کی طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنا۔ دوسرے دوست تو ۱۹۹۲ءکے آخر میں جا کر توجہ کرنے لگے تھے وہ بھی خال خال۔
ناصر عباس نیئر کے موقف میں تبدیلی کا بھی بشیر سیفی نے خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ماہیے کے وزن کا مسئلہ تو صرف اس کی دھن سے ہی حل ہوتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی وزن کا فیصلہ نہیں کرنا صرف اسے ماہیے کی دھن سے دریافت کرنا ہے۔ جہاں تک ناصر عباس نیئر کا تعلق ہے میں انہیں نوجوان تنقید نگاروں میں بے حد اہم سمجھتا ہوں۔ انہوں نے بھی ماہیے کے وزن کے سلسلے میں اردو قواعد برتنے کی کوشش کی تھی سو نتیجہ وہی نکلا جو ایسی صورت میں نکلنا تھا۔ تاہم ماہیے کے ضمن میں یہ ان کا اخلاص ہی تھا کہ وزن کے مقابلے میں اس کے مزاج کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے بعد تھوڑا آگے چل کر ان کا موقف پھر متوازن ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا ”نئی صنف کی مخصوص ہئیت اور خارجی خدوخال کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفرد داخلی اوصاف کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا“ (اوراق لاہور مئی جون ۱۹۹۳ء)۔
میں نے ناصر عباس نیئر کے مذکورہ مضمون کے جواب میں ایک مضمون ”اوراق“ میں اشاعت کے لئے بھیجا تھا۔ ”ماہیے کے وزن کا مسئلہ“ میرے اس مضمون کو اوراق میں خطوط کے صفحات میں جگہ دی گئی۔ شاید اسی وجہ سے بشیر سیفی نے میری وضاحتوں کا اپنے ”قیمتی تحقیقی“ مضمون میں ذکر نہیں کیا۔ اپنے مذکورہ جواب کی آخری سطور یہاں درج کر رہا ہوں کہ ان سطور میں جس حقیقت کی طرف تین سال پہلے اشارہ کیا گیا تھا وہ اب کافی نمایاں ہو چکی ہے۔
”اس کے وزن کے معاملے میں دو طرح کے موقف سامنے آئے ہیں۔ ایک تو وہ ادباءجو غلط فہمی کے باعث نیک نیتی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید ماہیے کے تینوں مصارع ہم وزن ہیں۔ ان کی غلط فہمی کو اس طرح کے مضامین اور ادبی مباحث سے دور کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے وہ شعراءکرام ہیں جو پہلے تو بے خیالی اور لاعلمی کے باعث تین یکساں وزن کے مصارع میںغلط ماہیے لکھتے رہے لیکن جب انہیں غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی تو بجائے غلطی کی اصلاح کرنے کے اسے حق بجانب ثابت کرانے پر تل گئے“ (اوراق نومبر، دسمبر ۱۹۹۳ء)
بشیر سیفی لکھتے ہیں ”یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ حیدر قریشی نے جن پنجابی ماہیوں کو اپنے موقف کے ثبوت میں پیش کیا ہے (ابلاغ، جولائی ۱۹۹۲ء) وصی محمد وصی نے ان کی تقطیع کر کے انہیں مساوی الوزن ثابت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو ابلاغ اکتوبر ۱۹۹۲ء) اس ”پُراز دلچسپی“ بات میں دلچسپی کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن میں پھر اپنی بات کو دہرا رہا ہوں کہ پنجابی ماہیے کی تقطیع اردو قواعد کے مطابق کرنے میں لازماً دھوکہ ہوگا۔ وصی محمد وصی اسی دھوکے کا شکار ہوئے۔ باقی بشیر سیفی یہ دلچسپ باتیں بتانا بھول گئے ہیں کہ وصی محمد وصی نے ساحر لدھیانوی کے ماہیے اس دعوے کے ساتھ پیش کئے تھے کہ یہ مساوی الوزن ہیں لیکن وہ ماہیے ہمارے موقف کے مطابق نکلے۔ پھر وہ یہ دلچسپ بات بتانا بھی بھول گئے کہ وصی محمد وصی ببانگ دہل یہ دعویٰ فرما رہے تھے کہ ماہیے صرف تین ہم وزن مصرعوں پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ وہی دعویٰ اب عبرت کے اس مقام تک آ گیا ہے کہ یار لوگ ہمارے ماہیوں کو تو ماہیے مانتے ہیں اور حیلے بہانوں سے اپنے ثلاثی کو بھی ماہیے منوانا چاہتے ہیں۔ (ویسے ابلاغ میں نہ صرف میرے خط کا ایک اہم حصہ حذف کر دیا گیا تھا بلکہ مزید فٹ نوٹ کے ساتھ حاشیہ آرائی کر کے دھونس بھی جمائی گئی تھی۔ ظاہر ہے بشیر سیفی کو اس پس منظر کا علم ہی نہیں ہوگا سو ان سے گلہ بھی نہیں)۔
بشیر سیفی کے مضمون میں اس نوعیت کی اور بھی باتیں ہیں جن سے حقائق کو مشکوک کرنے کا شبہ ہوتا ہے تاہم میرا خیال ہے میری اتنی وضاحتوں سے ہی ان کے ”تحقیقی“ مضمون کا مجموعی تاثر سامنے آ گیا ہے۔ سو اب میں ماہیے کے وزن کی بحث کی طرف واپس آتا ہوں۔ میں نے پہلے دن ہی سے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ماہیے کے وزن کو اس کی دھن سے دریافت کیا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ بشیر سیفی اپنے مضمون کے آخر میں اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اگرچہ اس نتیجہ کو بھی انہوں نے دانستہ یا نادانستہ خلط ملط کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے ان کی رائے ان کے اپنے الفاظ میں دیکھ لیں۔ ”اس ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ ماہیا گائی جانے والی صنف سخن ہے جس کی ایک مخصوص دھن ہے جو ماہیا اس دھن پر گایا جا سکتا ہے۔ وہ ماہیا ہے خواہ اس کے تینوں مصرعے ہم وزن ہوں، خواہ پہلا، دوسرا یا تیسرا مصرعہ چھوٹا بڑا ہو۔“ خواہ سے پہلے بشیر سیفی نے جو رائے دی ہے وہ وہی ہے جو میں شروع سے عرض کرتا چلا آ رہا ہوں۔ سو مجھے خوشی ہے کہ بشیر سیفی نے بھی اس حقیقت کو مان لیا ہے۔ اس اصول پر وزن کا مسئلہ آسانی سے طے ہو جاتا ہے لیکن ”خواہ“ کے بعد انہوں نے جس تاثر کو ابھارنے کی کوشش کی ہے وہ خواہ مخواہ کی کوشش ہے۔ پھر بھی انہی کے بیان کے مطابق یہاں مسئلے کا حل واضح کئے دیتا ہوں، ماہیے کی دو دھنیں ذہن نشین کرلیں۔
پنجابی اردو
چٹا ککڑ بنیرے تے تم روٹھ کے مت جانا
ریشمی دپٹے والیئے مجھ سے کیا شکوہ
منڈا صدقے تیرے تے دیوانہ ہے دیوانہ
(مسرت نذیر) (رفیع+آشا)
اب دونوں طرزوں پر ماہیے کے اس وزن کو گنگنا کر چیک کرلیں۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
(دوسرا مصرعہ ایک سبب کم)
اس وزن کو سہولت اور روانی کے ساتھ گنگنایا جا سکتا ہے۔ اب یوں کریں کہ دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ کم رکھنے کی بجائے تینوں ہم وزن مصرعوں میں بھی اور دوسرے مصرعہ میں ایک ”سبب“ زائد کر کے بھی گنگنانے کی کوشش کریں۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
(تینوں مصرعے ہم وزن)
——–
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
(دوسرا مصرعہ ایک سبب زائد)
دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم کے علاوہ آپ ماہیے کی دھن میں کسی اور وزن کو نہیں گنگنا سکیں گے۔ مجھے امید ہے کہ تین مصرعوں کے ہم وزن ثلاثی لکھنے والے شعراءکرام اب حقائق کا سامنا حوصلے کے ساتھ کریں گے۔ علمی اور ادبی معاملات میں جہاں تحقیق کو بنیادی اہمیت حاصل ہو وہاں حقیقت کو زیادہ دیر تک نہیں چھپایا جا سکتا۔ دوستوں کے ذریعے خلط مبحث کرانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ہم نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آنے والا وقت جب ذاتی تعلقات کے اثرات سے نکل چکا ہوگا تب اس کا فیصلہ یقیناً ہمارے حق میں ہوگا۔ اگرچہ اس وقت بھی ہمارے موقف کو واضح پذیرائی مل چکی ہے لیکن آنے والے وقت میں سچائی مزید نکھر جائے گی۔
————————–
۱۔ ”ماہیا اور اردو میں ماہیا نگاری“ از ناصر عباس نیئر، مطبوعہ ”اوراق“ لاہور،
مئی جون ۱۹۹۳ء
۲۔ ”فاروق لودھی کے ہائیکو“ از پروفیسر عرش صدیقی ، مطبوعہ ”تجدید نو“ لاہور،
دسمبر ۱۹۹۲ء
۳۔ ماہیا وزن اور فن از ریاض احمد مطبوعہ ”صریر“ کراچی، مارچ ۱۹۹۶ء
(مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت ۲۱اپریل ۱۹۹۷ء راولپنڈی)ٍ
(نوٹ: ایڈیٹر ماہنامہ ”صریر“ کراچی نے میرے اس مضمون کو ”صریر“ کے شمارہ مارچ ۱۹۹۷ءمیں اس طرح سینسر کر کے شائع کیا کہ بشیر سیفی صاحب کے زیر بحث مضمون کی اصلیت نہ ظاہر ہونے پائے۔ مزید کرم یہ کیا کہ میری کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ کا ایک حصہ ”حاصل بحث“ اس کے ساتھ اس طرح جوڑ کر شائع کیا گیا کہ پورا مضمون ہی بے ربط لگے۔ یہ بھی شاید ساختیاتی قرات کا کوئی کمال تھا۔)
٭٭٭٭٭٭٭٭