اردو شاعری کی نئی اصناف میں ماہیا نے نہ صرف اپنی پہچان واضح کی ہے بلکہ ادبی اور عوامی دونوں سطح پر مقبولیت بھی حاصل کی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اپنے ادبی خدو خال کے ساتھ نمایاں ہونے والی اس شعری صنف کی بنیاد پنجابی لوک گیت ماہیا ہے۔ پنجابی ثقافت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماہیے میں عورت کی آواز مرد کے مقابلے میں زیادہ ابھری ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شادی بیاہ اور دوسری گھریلو تقریبات میں رنگ جمانے کے لئے خواتین ماہیے گاتی ہیں، اسی لئے پنجابی ماہیے میں عورت کی آواز زیادہ طاقتور محسوس ہوتی ہے۔دیگر وجوہات میں سے ایک اور اہم وجہ ”قدیم ہندی گیت “کی روایت ہے۔ قدیم ہندی گیت کی صنف بقول ڈاکٹر وزیر آغا بذات خود عورت کی ”پکار“ ہے ۔ عورت کا جذبۂآزادی،محبت کا اظہار اور دل کی پکار ہے۔سو ہندی گیت کے بیشتر اوصاف ماہیے کی لوک روایت میں موجود ہیں۔
اردو ماہیے کے فروغ میں ماہیا نگار خواتین کا قابل قدر حصہ ہے۔ ماہیے کی بحث کے حوالے سے شاہدہ ناز، غزالہ طلعت ،ثریا شہاب ،ڈاکٹر جمیلہ عرشی ،نصرت یاسمین اورشگفتہ الطاف،کے مضامین سامنے آئے۔ ان میں’ ماہیے کی بحث کا منظر نامہ‘، شاہدہ ناز،’ ماہیے کی ہیئت اور وزن‘ از غزالہ طلعت اور ’گلبن کا ماہیا نمبر‘ از ثریا شہاب ،’عالمی تناظر میں اردو ماہیے پر ایک طائرانہ نظر‘ از ڈاکٹر جمیلہ عرشی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ شگفتہ الطاف نے میری ماہیا نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ منزہ اختر شاد نے مضمون تو نہیں لکھا لیکن ماہنامہ ”صریر“ میں چھپنے والا ان کا ایک خط ماہیے کی بحث میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ نصرت یاسمین نے ’ماہیا، اردو ماہیا اور ضمیر اظہر‘ میں اپنی تنقیدی بصیرت کا اظہار کیا ہے۔ان سب خواتین کے ساتھ منزہ یاسمین نے بھاولپور سے اور صبیحہ خورشید نے ناگپور سے یونیورسٹی لیول کا جو کام کیا ہے وہ اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے باقی سب پر فوقیت رکھتا ہے۔منزہ یاسمین کا کام تو ماہیے پر میرے مجموعی کام تک محدود ہے،جبکہ صبیحہ خورشید نے اردو ماہیے کے پورے منظر نامہ کو اس کے پنجابی پس منظر تک جا کر گہرائی کے ساتھ دیکھا ہے۔
ماہیا نگاری میں بھی خواتین تخلیقی لحاظ سے سرگرم عمل ہیں۔ ابتدائی ماہیا نگار خواتین میں غزالہ طلعت، فرحت نواز اور منزہ اختر شاد کے نام شامل ہیں تاہم یہ خواتین ماہیا نگاری کو باقاعدگی سے جاری نہیں رکھ سکیں، غالباً اس کی وجہ گھریلو مصروفیات ہیں۔
شادی کے جھمیلے میں
شعر و ادب چھوٹا
بس ایک ہی ریلے میں
(غزالہ طلعت)
ان کے بعد شاہدہ ناز، صدف جعفری اور بسمہ طاہر ماہیا نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ ان میں بسمہ طاہر مطلع ادب سے جلد ہی غائب ہو گئیں۔ صدف جعفری تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی چھوڑ کر پنجابی لے کی بنیاد پر ماہیے کہنے لگی تھیں لیکن اصلاً وہ لے کی بجائے عروضی حساب سے ماہیے کہہ رہی تھیں۔ بار بار لڑ کھڑا جاتیں چنانچہ لے کی پابندی ملحوظ نہ رکھ پانے کے باعث پھروہ تین ہم وزن مصرعوں کی عافیت گاہ میں لوٹ گئیں۔ شاہدہ ناز اس لحاظ سے پہلی ماہیا نگار خاتون ہیں جنہوں نے تخلیقی لگن کے ساتھ مسلسل ماہیے کہے۔ غالباً اب ان کے ماہیوں کا مجموعہ تیار ہو سکتا ہے۔ شاہدہ ناز کے بعد ثریا شہا ب، سلطانہ مہر اور عذرا اصغر جیسی شاعرات نے ماہیے کو وقار عطا کیا۔ یاسمین سحر اور پرزرق صنم کے ماہیوں نے اردو ماہیے کو پنجاب رنگ سے آمیز کرنے کی کاوش کی جبکہ شبہ طراز ، کوثر بلوچ، یاسمین مبارک، نازیہ رحمان، اختر بانو ناز، مطلوب بی بی اور نزہت سمن کے ماہیوں سے اردو ماہیے کی تحریک کو بڑھاوا ملا۔ ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار بشریٰ رحمن نے بھی اردو ماہیے کہے ہیں اور جب کہنے کی طرف آئی ہیں تو ڈھیروں ڈھیر ماہیے کہہ دئیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ماہیے کی طرف ان کی آمد سے اردو ماہیے کو مزید وقار اور اعتبار ملے گا۔بشریٰ رحمن کی طرح ترنم ریاض نے بھی ماہیا نگاری کی طرف توجہ کی تو پنجابی لَے اور پنجابی رَس کے ماہیوں کے انبار لگا دئیے۔بشری رحمن اور ترنم ریاض کی ماہیا نگاری کے دوران برمنگھم سے رضیہ اسماعیل ،سری نگر سے نسرین نقاش، گوجرانوالہ سے ریحانہ سرور اور اسلام آباد سے ثروت محی الدین نے کمال کردکھایا کہ چاروں نے نہ صرف ماہیا نگاری کی طرف خصوصی توجہ کی بلکہ اتنے ماہیے کہہ لئے کہ اپنے ماہیوں کے مجموعے ترتیب دے کر شائع کر دئیے۔رضیہ اسماعیل کا مجموعہ ’پیپل کی چھاؤں میں ‘،ریحانہ سرور کا مجموعہ’ دل کے کاغذ پر‘ ، ثروت محی الدین کا مجموعہ’ دو پھول کھلے ماہیا‘ اور نسرین نقاش کا مجموعہ’ روحیں چناب ‘کی شائع ہو چکے ہیں۔شاہدہ ناز،ترنم ریاض اور بشریٰ رحمن کے بھی اتنے ماہیے ہو چکے ہیں کہ وہ جب چاہیں اپنے ماہیوں کے مجموعے چھپوا سکتی ہیں۔سو ان تینوں کی طرف سے اچھی خبر کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
پنجابی ماہیے میں نسائی آواز فریاد اور گلے شکوے کی حد سے آگے نہیں جا پاتی۔ اردو میں بھی اسی انداز کے متعدد ماہیے ملتے ہیں۔
تکلے پر پونی ہو
ٹوٹے جب دھاگا
دکھ چادر دونی ہو
(منزہ اختر شاد)
رُت آ گئی یادوں کی
ایک ستم گر کی
اور ٹوٹتے وعدوں کی
(ثریا شہاب)
یہ رات اندھیری ہے
جان مری جب سے
رخ آپ نے پھیرا ہے
(بسمہ طاہر)
یہ رات اندھیری ہے
دل ہے یا فرحت
زخموں کی ڈھیری ہے
(فرحت نواز)
انگور کا دانہ ہے
ہنسنا بھی بشریٰ
رونے کا بہانہ ہے
(بشریٰ رحمن)
شعلوں کو ہوا دی ہے
یاد تجھے کر کے
اس دل کو سزا دی ہے
(شاہدہ ناز)
تاہم اردو ماہیا نگار خواتین نے ماہیے کی پنجابی روایت کو نبھانے کے ساتھ سیاسی اور سماجی شعور کا بے لاگ اظہار بھی کیا ہے۔ بسمہ طاہرنے کراچی کے حالات کے حوالے سے ایسے ماہیے کہے ہیں-:
اک خوف کا ڈیرا ہے
نس نس میں سب کی
دہشت کا بسیرا ہے
گھنگور اندھیرا ہے
کوئی کرن یارب!
بڑی دور سویرا ہے
گھنگھور اندھیرا ہے
کوئی کرن یا رب!
بڑی دور سویرا ہے
اختر بانو ناز کے ہاں بابری مسجد کی شہادت کا المیہ کچھ یوں دکھ کا بیان بنتا ہے۔
ہم سب کو دُکھایا ہے
توڑ کے مسجد کو
دل مندر ڈھایا ہے
شاہدہ ناز کے ماہیوں میں سرکار کی لوٹ مار، ملک میں پھیلی بدامنی، فرقہ پرستی جیسے سامنے کے حالات سے لے کر جلتے ہوئے کشمیر تک سیاسی شعور کی ترقی پسند روایت کو دیکھا جا سکتا ہے۔
اک تھال پکوڑوں کا
قرض وزیروں پر
ہے اربوں کروڑوں کا
اک جال بچھایا تھا
رہ کے حکومت میں
بس مال بنایا تھا
دھڑکا ہے پل پل کا
جس دن سے لاگو
قانون ہے جنگل کا
چنگاری بھڑکتی ہے
سب سے بڑا فتنہ
یہ فرقہ پرستی ہے
مسجد میں نمازی ہیں
خیر سے آئیں تو
سمجھو کہ وہ غازی ہیں
دھرتی ہے چناروں کی
ہولی نہیں کھیلو
اس میں انگاروں کی
رضیہ اسماعیل نے کشمیر کے سیاسی مسئلے کو ایک سماجی مسئلے کے تناظر میں یوں بیان کیا ہے:
کشمیر کی وادی ہے
جائے کوئی روکے
یہ جبری شادی ہے
یاسمین سحر کے ہاں مایوس کن حالات کے باوجود اندھیرے چھٹنے اور سورج طلوع ہونے کی امید روشن ہے۔
چھٹتے ہیں اندھیرے بھی
آس کے آنگن میں
ہوتے ہیں سویرے بھی
اسلحہ، بارود کے ڈھیر اور ایٹم بموں کے انبار کو سلطانہ مہر نے بیک وقت عالمی سطح پر بھی دکھایا ہے اور برصغیر کے علاقائی تناظر میں بھی۔
سو آنسو رلائیں گے
بارودی دانے
پھل ویسے ہی لائیں گے
جیون کی ضمانت بھی
کھیل ہے ایٹم کا
ویرانی کی دعوت بھی
ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر کی صاحبزادی نگارسجاد ظہیر نے ماہیا نگاری میں لوک روایت کو شہری زندگی میں مدغم کرکے اس انداز کے ماہیے کہے ہیں۔
سورج بھی ڈوب گیا آنکھوں میں ستارے تھے جیون ہے سفر لیکن
سردی دسمبر کی تم نے کبھی سمجھا لوٹ کے مت جانا
مرا میت بھی چھوٹ گیا جو من کے اشارے تھے تنہا ہوں تمہارے بن
بعض ماہیا نگار خواتین کے ہاں جنسی جذبہ اپنی پوری لطافت کے باوجود شوخ علامتوں میں بیان ہوا ہے۔ انداز بیان میں علامتوں کے استعمال سے جذبہ بے حد سبک اور لطیف ہو گیا ہے۔
گندم کا ہے اک دانہ
وصل کا موسم ہے
دل توڑ کے مت جانا
(کوثر بلوچ)
کتری ہوئی امبی ہے
آج اکیلی ہوں
اور رات بھی لمبی ہے
(منزہ اختر شاد)
ہر سیپ میں موتی ہے
دل کے سمندر میں
اک ناﺅ بھی ہوتی ہے
(یاسمین سحر)
خواتین ماہیا نگاروں کے ہاں ترقی پسند سوچ کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ماہیوں کی چند ملی جلی مثالیں بھی یہاں پیش کردینا مناسب ہوگا۔
طاقت پہ نہ جا اپنی
جو کچھ بونا ہے
پھل لائے وہی کرنی
(سلطانہ مہر)
پھر بدلیں نہ تقدیریں
پڑ گئیں ہاتھوں میں
حالات کی زنجیریں
(ثریا شہاب)
بڑھ آتا ہے سناٹا
شام کے ہوتے ہی
چھا جاتا ہے سناٹا
(نزہت سمن)
بستی ہے کسانوں کی
پھولی ہوئی سرسوں
اور فصل ہے دھانوں کی
(عذرا اصغر)
پہروں پہ پہرا ہے
دہشت گردی کا
دلدل یہ گہرا ہے
(ریحانہ سرور)
ہم جھوٹ نہیں کہتے
حق کے شیدائی
سولی سے نہیں ڈرتے
(اختر بانو ناز)
ایسے ماہیوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین ماہیا نگاروں کے ہاں عصری حسیت کتنی توانا ہے۔ تاہم ماہیے کا وہ عمومی مزاج جو غنائیت سے لبریز ہے، خواتین ماہیا نگار اس سے بھی بے خبر یا بے تعلق نہیں ہیں۔ جہاں سیاسی و سماجی شعور رکھنے والے ماہیوں میں ماہیا نگار خواتین کی ترقی پسند سوچ اپنا اثر دکھاتی ہے وہیں محبت کے مضمون سے جڑے ہوئے ماہیوں میں پنجابی لوک رس کا جادو متاثر کرتا ہے۔ ایسے ماہیوں میں دکھ اور خوشی، دونوں حالتوں میں جذبوں کی معصومیت، ماہیے کی داخلی نغمگی کے ساتھ مل کر ماہیے کو دو آتشہ کر دیتی ہے۔دوسری خواتین سے پہلے کچھ ذکر نسرین نقاش کا۔ نسرین نقاش کے ہاں جذبے منہ زور ہو کر سامنے آتے ہیں۔ان کی بے باکی اور کھلا انداز ماہیے کی پنجابی روایت کی ایک خاص طرز کی عمدگی سے نمائندگی کرتے ہیں۔
جب تن سے ملے تن من ملتا ہے جو ڈیرے میں جو چاہے وہ شیر کرے
کھلنے لگیں کلیاں کیسے ٹٹولے مجھے میری چلے نہ، مجھے
مسکانے لگے گلشن کم بخت اندھیرے میں جب چاہے وہ زیر کرے
ویسے نسرین نقاش کے ہاں دوسرے مضامین بھی کثرت سے ملتے ہیں لیکن مذکورہ انداز کے ماہیوں کی چمک دمک اتنی ہوتی ہے کہ دوسری طرف زیادہ دھیان نہیں جا پاتا۔
اور اب دوسری ماہیا نگارخواتین کے ماہیے دیکھیں۔یہاں محبت کا جذبہ کئی رنگوں میں جھلکتا ہے۔
لیکن بات ایسے ملفوف انداز میں بیان ہوتی ہے کہ کہیں بھی اظہار بے محابا نہیں ہوتا۔شرمیلی نگاہوں سے محبوب کو سوچنے کا انداز اس محجوبیت کی ترجمانی کرتا ہے جو مشرقی عورت کا امتیاز رہا ہے۔بات صرف محبت اور ملن کی نہیں بلکہ اس میں دوسری کیفیات بھی موجود ہیں۔خوشی ہو یا غم خواتین کی محبت کا مخصوص اندازماہیوں میں انوکھی سی خوبصورتی پیدا کر دیتا ہے۔
پھولوں کی مہک پھیلی
دل کی سنی ہم نے
اور دل سے ہی سب کہہ لی
تم کو نہ دغا دوں گی
بجھ گیا دیپک تو
پوروں کو جلا لوں گی
(شبہ طراز)
یادوں کی پناہوں سے
سوچتی بھی ہوں اسے
شرمیلی نگاہوں سے
امرود کی ٹہنی ہے
اَن کہی بات کوئی
مجھے تم سے کہنی ہے
(کوثر بلوچ)
تسبیح کے دانے ہیں
اپنے حصے کے
غم آپ اٹھانے ہیں
ندیا میں ہے طغیانی
ہار چکے بے شک
پر ہار نہیں مانی
(شاہدہ ناز)
برکھا کی بہاریں ہیں
تجھ بن او سجنا
بے کیف پھواریں ہیں
کچنار کی کلیاں ہیں
آن ملو سجنا
سنسان سی گلیاں ہیں
(عذرا اصغر)
آنگن میں کھلے بوٹے
کیسے موسم میں
وہ ہم سے رہے روٹھے
کیوں من مرا جلتا ہے
اس میں کہیں جیسے
اک کانٹا سا چلتا ہے
(ثریا شہاب)
کیسے کوئی خواب آئے
یاد کے سب منظر
پھر زیر آب آئے
یادوں کو سجا بیٹھے
اڑتے ہوئے پنچھی
کس ڈال پر جا بیٹھے
(یاسمین سحر)
گنجل پڑے دھاگوں میں
لکھنے والے نے
کیا لکھ دیا بھاگوں میں
لسی سے بھری چاٹی
عمر گذاری ہے
اک رات نہیں کاٹی
(منزہ اختر شاد)
تتلی کو اڑاﺅں میں
پیار کے رنگ کئی
کس کس کو چھپاﺅں میں
پازیب چھنکتی تھی
اس کی ہنسی تھی یا
کوئی دھنک چمکتی تھی
(فرحت نواز)
مت دور کہیں جانا
رہ نہ سکوں تم بن
فرقت کا نہ غم ڈھانا
لفظوں کو قلم کاٹے
روگ محبت کا
دیمک کی طرح چاٹے
(پرزرق صنم)
رت بدلی ہے جاڑوں کی
برف نہیں پگھلی
پر اونچے پہاڑوں کی
پتھروں میں بھی جھرنے ہیں
برتن اپنے ہمیں
اب ان ہی سے بھرنے ہیں
(غزالہ طلعت)
تھا ساتھ ہی جب جینا
کس لئے زہر غم
پھر تنہا پڑا پینا
سانسوں میں گھٹن جیسا
کون چھپا ہے یہ
سینے میں چبھن جیسا
(سلطانہ مہر)
جگ حیراں ہوگیا ہے
اک ترے جانے سے
دل ویراں ہوگیا ہے
(نزہت سمن)
یہ دن کب دیکھا تھا
ہم یوں جدا ہوں گے
کب پہلے یہ سوچا تھا
(یاسمین مبارک)
اک چند سا چمکے ہے
پیار ترا پگلی
آنکھوں سے چھلکے ہے
(نازیہ رحمٰن)
نہیں بات یہ بھولوں کی
ان سے بچھڑنے میں
تھی بات اصولوں کی
(اختر بانو ناز)
غم دل کا نہاں رکھنا
لب پہ سدا اپنے
مسرور بیان رکھنا
(صدف جعفری)
سیما شکیب نے پہلے مختلف انداز میں ماہیے کہے تھے ،تاہم ان کے پنجابی لَے والے جو ماہیے فی الوقت دستیاب ہو سکے ہیں،ان کی لوک اور ادبی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ثروت محی الدین کے ماہیوں میں پنجاب رنگ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔جبکہ ترنم ریاض اور بشری رحمن کے ماہیے اردو ماہیے میں خواتین کے اس لب و لہجے کا احساس دلاتے ہیں جو اردو میں خواتین ماہیا نگاروں کے لئے ایک معیار کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔
کتنی بے حال ہوئی
کوئی سنبھالو مجھے
میں غم سے نڈھال ہوئی
OOO
دو اور دو چار ہوئے
سترہ مہینے ہوئے
ماہی سنگ پیار ہوئے
(ترنم ریاض)
OOO
آنکھوں میں پیاس لگے ریشم کی پراندی ہے
شام پہاڑوں کی درد جدائی کا
کس قدر اداس لگے طوفان ہے آندھی ہے
OOO
مجھے اپنا کر ڈالا اب سج گئے اردو سے
پھولوں سے ماہی نے ماہیے مہکتے تھے
مرا دامن بھر ڈالا پنجابی کی خوشبو سے
(ترنم ریاض) (ترنم ریاض)
OOO
مرے پاﺅں میں پائل ہے
دل نہ دکھا ماہیا
دل پہلے ہی گھائل ہے
OOO
تو مرا کھویا ہے
میں اس پار کھڑی
اور بیچ میں نیا ہے
(بشریٰ رحمٰن)
OOO
کھڑکی میں چندا ہے اسمانی تارے ہیں
عشق نہیں آساں دل کو جلائیں جو
یہ روح کا پھندا ہے ہمراز ہمارے ہیں
OOO OOO
دل درد کا ساگر ہے کرسی کی کہانی ہے
ہتھ نہ بڑھا سجنا جیل کے اندر بھی
مرے سر پر گاگر ہے کیا شام سہانی ہے
(بشریٰ رحمٰن) ( بشریٰ رحمٰن)
OOO
دو پھول گلابوں کے
آنکھوں میں پھیلے
یہ رنگ ہیں خوابوں کے
OOO
کمہار کا آوا ہے
تیرے بچھڑنے کا
اب تک پچھتاوا ہے
(ثروت محی الدین)
OOO
بہتا ہوا پانی ہے
میلہ دو دن کا
یہ حسن جوانی ہے
OOO
رنگ لال اناروں کا
تم پردیس گئے
کیا لطف نظاروں کا
(ثروت محی الدین)
OOO
سینے میں چبھا کانٹا
درد جدائی کا
سکھیوں نے نہیں بانٹا
OOO
کچھ منہ سے نہ کہتے تھے
ہم ترے پہلو میں
دکھ ہجر کا سہتے تھے
(سیما شکیب)
دن رات کا جلنا ہے
ترے بنا جینا
تلوار پہ چلنا ہے
OOO
مہندی کا رچاﺅ ہے
کس کو خبر دل میں
کتنا بڑا گھاﺅ ہے
(سیما شکیب)
آخر میں پردیس کے حوالے سے بشریٰ رحمن کا یہ ماہیا:
پردیس نہ جا ماہیا
پھر پچھتائے گا
مجھے دل سے لگا ماہیا
پردیس میں جا بسنے والوں پر پھر کیا گزرتی ہے؟ اس کا جو خوبصورت اظہار رضیہ اسماعیل کے ماہیوں میں ملتا ہے،اس موضوع کے حوالے سے مجھے ابھی تک اس سے اچھے ماہیے نہیں مل سکے۔
کڑوے ہیں سُکھ ماہیا کلچر کا رونا ہے دادا ہے ،نہ دادی ہے
کس کو سنائیں اب آکے ولایت میں پکڑ کے ڈیڈی نے
انگلینڈ کے دُکھ ماہیا اب کچھ تو کھونا ہے شادی کروا دی ہے
میں نے گلبن احمد آباد، بھنگڑا گوجرانوالہ، قرطاس ناگپور اور نیرنگ خیال راولپنڈی کے ماہیا نمبروں کو سامنے رکھا ہے۔ سہ ماہی علم و فن گوجرانوالہ کا خواتین ماہیا نگار نمبر اور عارف فرہاد کی تحقیقی و تنقیدی کتاب اردو ماہیے کے خدو خال بھی میرے سامنے ہیں۔صرف ان رسائل اور کتاب میں شامل ماہیانگار خواتین کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ان میں بعض نے ایک دو بار ہی ماہیا نگاری کی ہے،تاہم بیشتر شاعرات نے ماہیا کو اپنے جذبات کے اظہار کا ایک فطری ذریعہ محسوس کرکے ماہیے کہے ہیں۔اوپر جن خواتین کا کسی نہ کسی حوالے سے ذکر ہو چکا ہے،ان سے قطع نظر یہاں میں ایسی چند شاعرات کے نام ضرور درج کروں گا جنہوں نے تھوڑے ماہیے کہے لیکن جتنے کہے اس سے ماہیے میں خوبصورت اضافہ ہی کیا۔پربھا ماتھر،صابرہ خاتون حنا،کامنی دیوی،انیتا مروندی،رقیہ منیر،زبیدہ صبا،عفراءقریشی،نزہت سمن،انیلا سحر،شگفتہ یاسمین غزل،مصباح مرزا،یاسمین مبارک،رخسانہ نور،شاہدہ لطیف،عظمیٰ ناز،فرحت نسیم ہاشمی، کوثر صدیقی اور نینا جوگن۔
اردو ماہیا نگاری کے فروغ میں خواتین کے حصہ کو دیکھتے ہوئے مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خواتین ماہیا نگاروں نے اردو ماہیے کہتے وقت ایک طرف خود کو ماہیے کی لوک روایت سے منسلک رکھا ہے تو دوسری طرف اپنے عہد کے مسائل اور دکھوں کا بھی سامنا کیا ہے۔ یوں ماہیا نگار خواتین کے ہاں عمومی طور پر اردو ماہیا اپنی اصل روایت سے منقطع ہوئے بغیر ارتقائی سفر کر رہا ہے۔ اردو ماہیے کے اس ابتدائی دور میں ماہیا نگار خواتین کی یہ گراں قدر تخلیقی خدمات فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ مجھے امید ہے کہ ان شمعوں سے مزید شمعیں روشن ہوں گی اور نئی شعری اصناف میں سے اردو ماہیا اکیسویں صدی کی مقبول ترین شعری صنف ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سانجھاں لاہور،نوائے وقت کراچی میں یہ مضمون شائع ہوا تھا۔معیّن حوالے دستیاب نہیں ہیں۔علم و فن گوجرانوالہ کے خواتین ماہیا نگار نمبرمیں بھی اسے شائع کیا گیا۔۔تاہم اس مضمون میں مجھے تدریجاً اضافے کرتے رہنا پڑے ہیںاور اس وقت تک اسے اپ ڈیٹ کر لیا ہے۔)