ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث میں شامل ہونے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ تاہم شامل ہونے والوں کا فرض بنتا ہے کہ اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے بنیادی ہوم ورک ضرور کرلیا کریں۔ یہ گذارش کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حال ہی میں بعض ایسے دوستوں کے ماہیے پر افکار سامنے آئے ہیں جو نہ تو اردو رسم الخط والی پنجابی پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی جنہوں نے پنجابی ماہیے سن رکھے ہیں۔ جب بحث کا موضوع ایک لوک گیت ہو، آپ اس زبان کو اپنے رسم الخط میں بھی نہ پڑھ سکتے ہوں تو اس لوک گیت کو اسی زبان میں سن لینا تو آپ کی تحقیقی ذمہ داری بنتی ہے۔ جب تک ڈور کا سرا ہی آپ کے ہاتھ نہیں آئے گا آپ ڈور کو سلجھانے کے نام پر مزید الجھاتے جائیں گے۔ ایسے ہی ایک دوست جنہوں نے نہ تو پنجابی لوک گیت ماہیا سنا ہے اور نہ ہی پنجابی پڑھ سکتے ہیں۔ پنجابی نہ پڑھ سکنے کا اعتراف کرنے کے باوجود اس لوک گیت کے حوالے سے لکھے گئے پانچ مختلف مضامین سے اپنا چھٹا مضمون تیار کر کے یہ حکم بھی لگا بیٹھے ہیں کہ ماہیے کو موضوع اور ہئیت کے شکنجوں میں مت جکڑو، ورنہ یہ تکنیکی کرتب بازی کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ماہیے کو اردو میں فروغ دینا ہے تو تین ہم وزن مصرعوں میں کرلو، اس طرح یہ صنف ہر خاص و عام کو اپنا گرویدہ بنا لے گی۔
اردو میں ماہیے کے اوزان دریافت کرنے کے لئے ایک حد تک تو علم عروض سے استفادہ کرنا پڑے گا لیکن جو لوگ عروض دانی کے شوق میں اس لوک گیت کی اصل کو بگاڑ دینا چاہتے ہیں، درحقیقت تکنیکی بازی گری وہی دکھا رہے ہیں۔ تین ہم وزن مصرعوں کے غلط ”ماہیے“ کہنے کا موجودہ سلسلہ ۱۹۸۰ءکی دہائی میں شروع ہوا تھا اور اصلاح احوال کی تحریک ۱۹۹۰ءمیں شروع ہوئی۔ تب سے اب تک غلط وزن کے ”ماہیے“ کے تین شاعروں کے پانچ مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ (اب تو یہ سلسلہ بھی رک سا گیا ہے) جبکہ پنجابی ماہیے کی اصل دھن کے مطابق ماہیے کہنے والوں کے مجموعے مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ ۱۹۹۸ءتک مطبوعہ کتب کی فہرست یوں ہے۔
۱۔ محبت کے پھول (حیدر قریشی)، ۲۔ باد سبز (پروفیسر قمر ساحری)، ۳۔ پھول کہانی (ضمیر اظہر)، ۴۔ یادوں کے سفینے (امین خیال)، ۵۔ ریگ رواں (نذیر فتح پوری)، ۶۔ دل حجرہ (یوسف اختر)، ۷۔ روپ نگر (انور مینائی)۔ ان مجموعوں کے علاوہ پاکستان اور انڈیا میں یہ قابل قدر پیشرفت بھی ہو چکی ہے۔ ۱۔ رم جھم رم جھم (گیارہ ماہیا نگاروں کا مرتب کردہ انتخاب از ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)، ۲۔ اردو ماہیے (۳۵ماہیا نگاروں کا مرتب کردہ انتخاب از سعید شباب)، ۳۔ روزنامہ پاسبان بنگلور (انڈیا) نے ۹۶۔۱۱۔۴کی اشاعت میں اپنے پونے دو ادبی صفحات ماہیے کے لئے مختص کئے۔ ۴۔ پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ نے ۱۹۹۷ءمیں ماہیے پر خصوصی نمبر شائع کیا۔ ۵۔ دو ماہی گلبن احمد آباد نے اپنی اشاعت جنوری تا اپریل ۱۹۹۸ءضخیم ماہیا نمبر کے طور پر چھاپی ہے۔ اس نمبر کی اہمیت اور حیثیت دستاویزی اور مستقل حوالے کی ہے۔ یہ خاص حوالے تھے جن کی میں نے صرف نشاندہی کی ہے۔ ادبی رسائل اور اخبارات سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ پنجابی ماہیے کی اصل بنیاد پر کہا جانے والا اردو ماہیا نہ صرف شعراءکرام کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہے بلکہ مسلسل مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔
علم عروض کے حوالے سے میرا اعتراف پہلے سے ریکارڈ پر موجود ہے:
”مجھے عروض کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ ماہیے کے وزن کی بحث کے دوران تھوڑی سی شدبد حاصل کرنا پڑی“ (کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ صفحہ ۱۵)
”میں عروض کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کرتا لیکن اس میدان میں اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی کا اقرار بھی شروع میں ہی کرلینا چاہتا ہوں۔ مجھے اس علم میں تھوڑی بہت شدبد صرف ماہیے کی وجہ سے حاصل کرنا پڑی۔ غزلوں اور نظموں کے لئے (اور ماہیا نگاری کے لئے بھی) میں موزونیٔ طبع سے ہی کام چلا لیتا ہوں۔ ماہیے کے خدوخال کی بحث کے باعث تھوڑا بہت فعلن فعلن سیکھ لیا ہے تو اسے بھی غنیمت سمجھتا ہوں۔“
(”ماہیا اور چن ماہی“ مطبوعہ پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ شمارہ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
اس اعتراف کے بعد ماہیے کے وزن کے سلسلے میں اپنے موقف کو پھر دہرا رہا ہوں کہ ماہیا پنجابی لوک گیت ہے۔ اس کی مخصوص لَے ہے اور ماہیا اپنی لَے کا پابند ہے۔ اگر اس لَے کے مطابق کہے گئے ماہیے تحریری صورت میں دیکھ کر کسی کو جھٹکا لگتا ہے یا اس کی ”موزونیٔ طبع“ متاثر ہوتی ہے تو صرف اس لئے کہ اس نے ماہیا لوک گیت کے طور پر سنا ہی نہیں ہے۔ دوہے میں بسرام کی پابندی، رباعی میں اس کے مخصوص اوزان کی پابندی اور ہائیکو میں ۵۔۷۔۵کی پابندی بھی ایسے ہی ”موزوں طبع“ افراد پر گراں گزرتی ہے لیکن ظاہر ہے ان کی دل جوئی کے لئے دوہے کو دوپدے میں، رباعی کو قطعہ میں اور ہائیکو کو ثلاثی میں بدل لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے ہی ماہیے کے سلسلے میں بھی کسی ایسی رعایت کا دینا ممکن نہیں جو ماہیے کی اصل صورت ہی کو بدل کر رکھ دے۔ مذکورہ اصناف کے برعکس ماہیے میں تو یہ سہولت ہے کہ جو کوئی بھی اس کی لَے کو جان لے گا اسے دوسرے مصرعہ کے اسی مبینہ جھٹکے ہی میں روانی محسوس ہوگی۔
گیتوں کی جوانی ہے مٹیار اٹھلاتی ہوئی
بحر یہی یارو دھن ہے ماہیے کی
ماہیے کی نشانی ہے ہنستی، بل کھاتی ہوئی (سعید شباب)
اردو میں مفعول مفاعیلن اور فعلن فعلن فعلن کے جو اوزان بتائے گئے ہیں وہ ان دوستوں کے لئے ہیں جو پنجابی ماہیے سے زیادہ آشنا نہیں ہیں وگرنہ ماہیے کے وزن کے سلسلے میں میرا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو ماہیا پنجابی لَے کے مطابق گایا جا سکتا ہے وہ ماہیا ہے، جسے گاتے ہوئے جھٹکے کا احساس ہوتا ہے وہ ماہیا نہیں ”ثلاثی“ ہے۔ ماہیے کی لَے کی بنیاد پر ابھی تک جو اوزان دریافت ہوئے ہیں ان سب کو یہاں یک جا کر دیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے ماہیے کی لَے کی بنیاد پر ان کے علاوہ بھی ایسے ہی متبادل اوزان سامنے آئیں چونکہ یہ اوزان ماہیے کی لَے پر پورے اترتے ہیں اس لئے کسی عروضی باریک بینی میں گئے بغیر یہ ہمارے لئے قابل قبول ہیں۔
۱۔ مفعول مفاعیلن ۲۔ فعلن فعلن فعلن
فعل مفاعیلن فعلن فعلن فع
مفعول مفاعیلن فعلن فعلن فعلن
۳۔ فعلات مفاعیلن
فعل مفاعیلن
فعلات مفاعیلن
۴۔ فعلاتن فعلاتن ۵۔ مفعول مفاعیلن
فعلاتن فعلن فعل فعولن فع
فعلاتن فعلاتن مفعول مفاعیلن
یہ سب ممکنہ اوزان ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وزن نمبر ۱کے دوسرے مصرعہ میں فعلن فعلن فع یا فعلاتن فعلن کا وزن بھی آ جائے۔ اس طرح کے بدل پھیر سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ بنیادی طور پر یہ سارے وزن ماہیے کی لَے پر پورے اترتے ہیں اور ہماری بنیاد پنجابی ماہیے کی لَے پر ہے نہ کہ اردو عروض کی کسی خاص بحر پر۔ یوں ماہیے کے اوزان کے سلسلے میں خاصی آزادی مل جاتی ہے لیکن یہ آزادی اس لوک گیت کی پنجابی لَے کے اندر ہی میسر ہے، اس سے باہر نہیں۔
میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جن دوستوں نے ماہیے کی لَے کی بنیاد پر ماہیے کہے وہ روانی اور بے ساختگی سے ماہیے کہتے چلے گئے اور جنہوں نے عروضی اوزان کو پیش نظر رکھ کر ماہیے کہے، چند مستثنیات کو چھوڑ کر، ان کے ہاں کہیں نہ کہیں گرفت کمزور پڑ جاتی ہے، تاہم مشق سخن سے بہت سارے دوستوں نے ماہیے کے وزن کو عروضی سطح پر بھی بالآخر اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ان کی کامیابی عروضی حوالے سے ماہیے کے لئے خوش آئند ہے۔
پنجابی ماہیے سے ناآشنا اور سہل پسند ایسے دوست جو تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے پر اصرار کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ آخر تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ پنجابی ماہیے کی میٹھی لَے میں کیوں نہیں آتے اور کیا وجہ ہے کہ جب بھی ماہیے کی دھن میں گائے جانے والے اردو ماہیے لکھے گئے وہ ہمارے ہی بیان کردہ وزن کے مطابق نکلے۔ یہاں ایسے ہی چند فلمی ماہیے پیش کئے دیتا ہوں۔
۱۔ سرمست فضائیں ہیں ۲۔ تم روٹھ کے مت جانا
پیتم پریم بھری مجھ سے کیا شکوہ
پھاگن کی ہوائیں ہیں دیوانہ ہے دیوانہ
(پرانی فلم ۔ خاموشی،شاعر ہمت رائے شرما) (فلم پھاگن شاعر ۔شاعر قمر جلال آبادی)
۳۔ دل لے کے دغا دیں گے ۴۔ باغوں میں بہار آئی
یار ہیں مطلب کے مہکی ہوئی رت میں
یہ دیں گے تو کیا دیں گے دل لیتا ہے انگڑائی
(فلم نیا دور۔شاعر ساحر لدھیانوی) (پاکستانی فلم ۔ نام تحقیق طلب٭شاعر ۔ ً)
۵۔ میری چھت پر آیا کرو ۶۔ آنچل میں ستارے ہیں
ٹیچر بن کے تم جب سے تمہیں دیکھا
مجھے پیار سکھایا کرو اس دن سے تمہارے ہیں
(فلم ۔ اف یہ محبت۔شاعر وپن ہانڈا) (پاکستانی فلم ۔ کانٹا۔شاعر نذیر قیصر)
۷۔ لڑکی سائیکل والی
دے گئی رستے میں
اک پیار بھری گالی (فلم پتی، پتنی اور وہ شاعر ۔ نام تحقیق طلب)
۱۹۳۶ءسے ۱۹۹۶ءتک ساٹھ سال پر محیط عرصہ کے دوران لکھے گئے ان گائے جانے والے ماہیوں کا وزن پنجابی ماہیے کی لَے کی مٹھاس کا رس گھولتا ثبوت ہے اور اس سچائی کا اظہار بھی کہ ماہیے کا وزن اس کی لوک لے میں محفوظ ہے۔ اسے کسی تکنیکی کرتب بازی سے مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ پنجابی ماہیا اپنی لَے کا پابند ہے اور اس کی لَے کا جادو علم عروض کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
ادبی دنیا میں آٹھ سال کے مختصر عرصہ میں درست وزن میں ماہیے کہنے والے شعرائے کرام کی تعداد ایک سو سے بھی بڑھ جانا اس حقیقت کا اعلان ہے کہ پنجابی ماہیے کی لے کی بنیاد پر لکھا جانے والا اردو ماہیا قبول عام حاصل کر چکا ہے اور اس قبولیت عامہ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہی اصل ماہیا ہے۔
(مطبوعہ : روزنامہ جنگ لندن ۹۸۔۷۔۹)
٭ ماہنامہ تخلیق لاہور نے پہلے یہ وضاحت کی تھی بعد میں سہ ماہی کوہسار بھاگل پور میں قتیل شفائی نے خود وضاحت کی ہے کہ یہ ماہیے فلم ”حسرت“ کے ہیں۔ انہیں سلیم رضا اور زبیدہ خانم نے گایا ہے۔ فلم ۱۹۵۳ءمیں بنی تھی۔ ماہیا نگار قتیل شفائی ہیں۔ اب قتیل شفائی نے تازہ اردو ماہیے بھی کہے ہیں۔
٭٭٭٭