(بھنگڑا شمارہ جولائی ، اگست ۱۹۹۶ءکے حوالے سے)
”بھنگڑا“ کے ماہیا نمبر پر عمومی طور پر پسندیدگی اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ صرف ان دوستوں کو اختلاف سوجھ رہا ہے جو اپنے مخصوص تحفظات یا بعض تعصبات کی وجہ سے اختلاف کرنا لازم سمجھتے ہیں۔
یوسف علی لائق صاحب کو میں اس لحاظ سے ہمیشہ سے لائق تحسین سمجھتا ہوں کہ وہ علم عروض میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ اتنی اچھی خاصی مہارت کہ جس کے بعد بندہ فکر اور جذبے سے زیادہ عروضی مہارت کا مظاہرہ کرتا رہ جاتا ہے۔ میں عروض کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کرتا لیکن اس میدان میں اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی کا اقرار بھی شروع میں ہی کرلینا چاہتا ہوں۔ مجھے اس علم میں تھوڑی بہت شدبد صرف ماہیے کی وجہ سے حاصل کرنا پڑی۔ غزلوں اور نظموں کے لئے (اردو ماہیا نگاری کے لئے بھی) میں موزونیٔ طبع سے ہی کام چلا لیتا ہوں۔ ماہیے کے خدوخال کی بحث کے باعث تھوڑا سا فعلن فعلن سیکھ لیا ہے تو اسے بھی غنیمت سمجھتا ہوں۔
یوسف علی لائق صاحب کے برعکس ادب کے تئیں میرا رویہ کچھ اور ہے۔ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان پڑھا تھا ”لفظ کے خادم مت بنو بلکہ روح کے بنو کیونکہ روح زندہ رکھتی ہے اور لفظ مار ڈالتے ہیں۔“ سو میں لائق صاحب کی طرح اپنی عروضی لیاقت تو نہیں دکھا سکتا، ہاں ماہیے کی روح کے حوالے سے بات ضرور کر سکتا ہوں۔ لائق صاحب نے اپنے مضمون ”ماہیا کی بازیافت“ میں جہاں اپنے طور پر زبانوں کی گہرائی میں جا کر تحقیق کے جوہر دکھائے ہیں وہاں اہل علم کے لئے دلچسپی کا مواد فراہم کر دیا ہے لیکن جہاں دوسروں کی تحقیق یا امکانی بیان کو انہوں نے تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بنایا ہے وہیں مار کھا گئے ہیں۔ مثلاً میں نے ماہی بمعنی چرواہا بیان کیا ہے تو اس پر مضحکہ خیز قسم کا طنز فرمایا ہے۔ میں ان کے طنزیہ جملوں کا اب کیا جواب دوں۔ وارث شاہ سے بلھے شاہ تک ماہی بمعنی چرواہا کی کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں صرف دو مثالیں درج کئے دیتا ہوں۔
مہیں چرن نہ باجھ رنجھیڑے دے
ماہی ہور سبھے جھکھ مار رہے
——————————–
ماہیاں پچھیا رانجھیاں دس بھائی
تیرے کن پاڑے ہن کس کان میاں
ان دو مثالوں پر غور کرنے کے بعد یوسف علی لائق صاحب لفظ ماہی کے بارے میں میرے بیان پر اپنے عالمانہ طنزیہ الفاظ دوبارہ پڑھیں اور پھر سوچیں کہ وہ اپنی ”تحقیق“ کے ہاتھوں کس حال کو پہنچ گئے ہیں۔ متعدد مقامات پر لائق صاحب کی تحقیق کا انداز ان عالموں جیسا ہے جو گوتم بدھ کی تعلیمات اور کردار کو چھوڑ کر اس بحث میں الجھ گئے تھے کہ گوتم بدھ منگل کے دن پیدا ہوئے تھے یا بدھ کے دن پیدا ہوئے تھے۔ اصل معاملہ جس کی خاطر لائق صاحب نے اتنی مشقت کی ہے صرف یہ ہے کہ ان کے پیارے دوست (جو مجھے بھی بہت عزیز ہیں) پروفیسر قمر ساحری نے چونکہ مفعول مفاعیلن/فعل مفاعیلن/مفعول مفاعیلن کے وزن میں ماہیے لکھے ہیں لہٰذا ماہیے کے لئے صرف یہی وزن قابل قبول ہونا چاہئے باقی کے متبادل اوزان رد کر دیئے ہیں۔ اس لحاظ سے قمر ساحری صاحب زیادہ اچھے رہے کہ انہوں نے اپنے دل کی بات مختصر الفاظ میں صاف صاف کہہ دی ہے۔ اصل میں ماہیے کے اوزان میں فعلات مفاعیلن (علامہ یعقوب انور) مفعول مفاعیلن (شارب اور تنویر بخاری) فعلن فعلن فعلن (جمال ہوشیار پوری، عرش صدیقی) بیان کئے گئے ہیں۔ تسکین اوسط کی کرشمہ سازی اردو میں بھی اس کی گنجائش پیدا کر دیتی ہے تاہم ہمارا بنیادی موقف پہلے دن سے یہی ہے کہ جو ماہیا، ماہیے کی مخصوص دھن پر گایا گنگنایا جا سکتا ہے وہ ماہیا ہے۔ اس کے لئے یہ سارے اوزان بڑی حد تک ٹھیک رہتے ہیں۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی صاحب کا ماہیے کے سلسلے میں خدمات کا ایک سلسلہ رہا ہے۔ مجھ سے ماہیے پر پہلا مضمون انہوں نے ہی لکھوایا تھا۔ ایک عرصہ تک وہ ہمارے موقف کا ہم سے بھی زیادہ پرچار کرتے رہے۔ ۱۹۹۴ءمیں نثار ترابی نے ”بارات گلابوں کی“ کا اشتہار ”صریر“ میں اشاعت کے لئے بھیجا تو انہوں نے اشتہار تو چھاپ دیا لیکن اس میں سے ماہیے کے تمام الفاظ حذف کر دیئے۔ اس سے ماہیے کی تحریک سے ان کی وابستگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۹۵ءمیں ساختیات پس ساختیات کے بارے میں میرے ایک اختلافی مضمون کی اشاعت کے بعد اعظمی صاحب میں یہ پاک تبدیلی آئی کہ انہوں نے (محض میرے سخت الفاظ میں اختلاف کے باعث) ماہیے کے دونوں اوزان کو قبول کرلیا نہ صرف ایسا کیا بلکہ ڈاکٹر بشیر سیفی کے ایک غیر محققانہ مضمون کے جواب میں جب میں نے انہیں مضمون بھیجا تو انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ کی حاشیہ آرائی کے ساتھ میرے مضمون میں سے وہ تمام حصے حذف کر دیئے جس میں بشیر سیفی کے غیر محققانہ رویئے کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی تھی۔ مزید کرم یہ کیا کہ میرے ایک اور مضمون کو بھی اس کے ساتھ مربوط کر کے سارا مضمون ہی بے ربط کر دیا۔ چونکہ ڈاکٹر فہیم اعظمی کا ردعمل علمی نہیں بلکہ ”ذاتیات“ کے پس منظر سے ابھرا ہے اس لئے میں اصل حقیقت بیان کر کے ان کے ساتھ سردست مزید الجھاﺅ نہیں چاہتا۔
ویسے ان کے طرز عمل سے ساختیاتی تنقید کا عملی روپ ضرور سامنے آ گیا ہے اور ساختیات پر میرے اعتراضات کی تصدیق ہوئی ہے میں ابتدائی ایام میں ان کے پرخلوص اور محبت آمیز تعاون پر ان کا شکر گذار ہوں۔ ان کا وہ کردار ماہیے کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آخر میں یوسف علی لائق صاحب کو سلام کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرمان کو دہرا کر یہ مضمون ختم کرتا ہوں ”لفظ کے خادم مت بنو بلکہ روح کے بنو کیونکہ روح زندہ رکھتی ہے اور لفظ مار ڈالتے ہیں۔“
(مطبوعہ: پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ شمارہ اکتوبر ۱۹۹۷ئ)