“یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔ ”
احسن دیوار پر دونوں ہاتھ رکھے گھورتا ہوا بولا۔
“وائز واٹ از دس۔۔۔ ”
وہ اسے دیکھتا ہی چلایا۔
اس کے برعکس وائز پر سکون تھا۔
“زرش کیسی ہے؟”
وہ اس کے سوال کو نظر انداز کرتا کرسی پر بیٹھ گیا۔
“کوئی کسر چھوڑی ہے کہ وہ ٹھیک رہیں؟”
وہ ٹیبل پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔
“تم اتنا تاؤ کیوں کھا رہے ہو؟”
وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“یہ آپ کا گھر نہیں ہے جیل ہے۔۔۔ ”
وہ اس کے سکون پر تلملا اٹھا۔
“ہاں میں اچھے سے جانتا ہوں۔۔ گزشتہ دو روز سے یہیں ہوں۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“آپ مجھے پاگل کر دیں گے۔”
وہ پیشانی مسلتا ہوا بولا۔
“تمہیں کس نے کہا یہاں آنے کو۔۔۔ حویلی جاؤ اور سب کا خیال رکھو۔”
وہ جتانے والے انداز میں بولا۔
“یہ فیک کیس بنوانے کی کیا ضرورت تھی آپ کو؟”
وہ سیدھا مدعے پر آیا۔
“سچ سننا چاہتے ہو؟”
وہ ہونٹوں پر انگلی رکھتا پرسوچ انداز میں بولا۔
“نہیں کھیلنے آیا ہوں آپ کے ساتھ۔۔۔ ”
وہ جل کر بولا۔
وائز قہقہ لگاتا اسے دیکھنے لگا۔
“اچھا تو سنو پھر۔۔۔ لیکن زرش کو کچھ مت بتانا۔
زرش نے مجھے ابھی تک معاف نہیں کیا۔ ایک بار اس نے بابا سائیں سے کہا تھا کہ انہوں نے مجھے قتل کیوں نہیں کیا۔”
وہ غیر مرئی نقطے کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
“تو اس کا کیا مطلب؟”
وہ فون جیب سے نکال کر ریکارڈنگ آن کر کے وائز کو دیکھنے لگا۔
“تو وہ مجھے سزا دلوانا چاہتی تھی۔۔۔ میں نے بھی وہی کیا مقصد سزا دلوانا تھا، فضا سے میری پرانی دوستی تھی اس کے منگیتر کے ساتھ بیٹھ کر میں نے بات کر لی۔ پیسہ پھینکا اور سب ہو گیا۔ آج کل پیسے سے کیا نہیں ہوتا۔۔۔ اسے لوگوں کی ہمدردیاں بھی مل گئیں۔”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
احسن سر پر ہاتھ مارتا اسے دیکھنے لگا۔
“وہ آپ کے ساتھ رہ رہی تھیں پھر اس سب کی کیا تُک بنتی تھی۔۔۔ ”
وہ ضبط کرتا ہوا بولا۔
غصے سے گردن کی رگیں تنی ہوئی تھیں۔
“وہ مجبور تھی میرے ساتھ رہنے پر۔۔۔ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی اس لئے۔۔۔۔ میں اس سے دور جا رہا ہوں تاکہ اسے بھی تسلی ہو جاےُ کہ مجھے سزا مل گئی اور مجھ سے جان بھی چھوٹ جاےُ گی۔”
وہ سر جھکاےُ بول رہا تھا۔
“یار ایسا کیوں سوچ رہے ہیں آپ؟”
احسن جھنجھلا کر بولا۔
“زرش کو بتا دینا۔۔۔اس کے مجرم کو سزا ملنے والی ہے۔”
وہ اداسی سے مسکرایا۔
“اگر یہ سزا زرش کے مجرم کو مل رہی ہے پھر یہ ڈرامہ کیوں؟”
وہ مٹھیاں بند کرتا ہوا بولا۔
“تو کیا میں زرش کو منظر عام پر لاتا؟ پاگل ہوں کیا؟ آج وہ سر اٹھا کر چلتی ہے۔اگر میں اس کا مجرم بن کر پیش ہوتا تو وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہ پاتی۔۔۔ اہم بات تھی سزا اور وہ مل گئی۔ نماز کا ٹائم ہوگیا ہے اب میں چلتا ہوں تم سب کا خیال رکھنا۔”
وہ اٹھ کر اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
احسن تاسف سے اسے دیکھتا کھڑا ہو گیا۔
“زرش کا خیال رکھنا بہت۔۔۔ ”
وہ اسے سینے سے لگاتا ہوا بولا۔
“میں آپ کو باہر نکالوں گا یہاں سے۔”
وہ جھٹکے سے اسے دور دھکیلتا ہوا بولا۔
“ناممکن میں فضا کو سمجھا چکا ہوں اور اس کے علاوہ کوئی مجھے بچا نہیں سکتا۔”
وہ اس کا شانہ تھپتھپاتا چل دیا۔
“بہت غلط کیا آپ نے۔۔۔ ”
وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔
“بابا سائیں آپ گھر چلیں میں نے بات کر لی ہے۔۔۔ ”
احسن انہیں ساتھ لئے چلنے لگا۔
“ایسے کیسے ہم خود بات کریں گے اس بےغیرت سے۔۔۔ ساری دنیا ہم پر تھو تھو کر رہی ہے۔ آخر وہ باز کیوں نہیں آتا۔”
وہ تلملاتے ہوۓ رک گئے۔
“آپ گھر چلیں سب بتاتا ہوں۔۔۔ میری بات تحمل سے سن لیں خدا کے واسطے۔”
وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔
وہ ہنکار بھرتے گاڑی کی جانب چلنے لگے۔
“رضی حیات آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ کے بیٹے نے۔۔۔ ”
رپورٹر مائیک لاتی ہوئی بولی۔
” ہم کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔۔۔ ”
احسن درشتی سے اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔
رپورٹر سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
وہ سب کو گھورتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
“یہ سب کیا ہے؟”
اس کا اشارہ صوفے کی جانب تھا۔
“سر یہ رضی حیات صاحب کا حکم ہے۔ آپ کے لئے کھانا بھی الگ سے آےُ گا۔”
حولدار سر جھکاےُ بول رہا تھا۔
“باہر نکالو اسے اور جیسے باقی مجرم ہیں ویسے ہی پیش آؤ مجھ سے سمجھے۔۔۔۔۔میں یہاں چھٹیاں گزارنے نہیں آیا۔”
وہ اس کا گریبان پکڑتا ہوا بولا۔
“سر یہ آڈر۔۔۔ ”
“بھاڑ میں گیا آڈر۔۔۔ میں کھیلنے نہیں آیا یہاں۔”
وہ طیش میں چلا رہا تھا۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں؟”
شور و غل سن کر انسپکٹر ادھر آ نکلا۔
“یہ سب کیا ہے؟ کب سے مجرموں کو گھر جیسی سہولیات دی جانے لگی ہیں؟”
وہ سینے پر بازو باندھتا چبا چبا کر بولا۔
“آپ کے والد نے۔۔۔۔ ”
“یہ رشوت لینا بھی حرام ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چائیے تم جیسے ناسوروں کے باعث معاشرہ یہاں تک پہنچ گیا ہے۔۔۔ ”
وہ تاؤ کھاتا ہوا بولا۔
“نہیں چائیے تو آپ کی مرضی جیسے یہ کہتے ہیں ویسے ہی کرو تم۔۔۔ ”
وہ حولدار کو دیکھ کر کہتا الٹے قدم اٹھانے لگا۔
وائز ہنکار بھرتا اندر داخل ہو گیا۔
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ٹہلنے لگا۔
“مجھے نماز پڑھنی ہے۔۔۔ ”
وہ خیال آنے پر بولا۔
~~~~~~~~
“وائز یہ کیا حرکت ہے؟ جب تم نے ایسا کچھ کیا نہیں تو پھر کیوں خود کو سزا دلوا رہے ہو؟”
رضی حیات کمزور پڑ رہے تھے۔
“بابا سائیں معذرت کے ساتھ یہ میرا اور میری بیوی کے بیچ کا مسئلہ ہے۔ اس لئے کوئی دخل نہ دے۔۔۔”
اس نے کہتے ہوۓ فون پولیس آفیسر کی جانب بڑھا دیا۔
“حیات صاحب وہ بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ میں نے اپنا فرض پورا کیا اب یہ آپ کے بیٹے کی مرضی ہے۔”
آفیسر فون کان سے لگاےُ چلنے لگا۔
“پاگل ہو گیا ہے وہ۔۔۔ ”
رضی حیات نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
“احسن کہاں ہے؟”
وہ متفکر سے بولے۔
“زرش سے بات کرنے گیا ہے۔۔۔ مجھے بھی کچھ نہیں بتایا اس نے۔”
گل ناز آنسو بہاتی ہوئی بولی۔
“تم جان کر کیا کر لو گی۔۔۔ ابھی جاؤ یہاں سے ہمارا دماغ خراب مت کرو وہ ایک نواب کافی ہے۔”
وہ ہنکار بھرتے ہوۓ بولے۔
گل ناز بیگم آنسو پیتی باہر نکل گئی۔
“کیا بات ہوئی وائز سے؟”
احسن کو اندر آتے دیکھ کر وہ بےقراری سے استفسار کرنے لگی۔
“وہی جو میں نے کہا تھا۔”
وہ اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“کیا؟”
وہ انجان بنتے ہوۓ بولی۔
“انہوں نے آپ کو انصاف دلایا ہے۔ سزا فضا کے مجرم کو نہیں آپ کے مجرم کو ملی ہے۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
“وہ پاگل ہے کیا؟”
وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“مجھے بھی ایسا ہی فیل ہو رہا ہے۔ نہ وہ کچھ سننے پر تیار پر نہ ہی اپنا فیصلہ بدلنے پر۔ یہ وائس کلپ ہے وائز سے بات کرتے ہوۓ میں نے ریکارڈ کی تھی۔ آپ خود سن لیں۔”
وہ اپنا فون اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے خود کو رونے سے باز رکھ رہی تھی۔
“مجھے فضا کے پاس لے چلو میں اس سے بات کروں گی۔۔ وہ
معافی نامہ سائن کر دے گی تو اسے سزا نہیں ملے گی۔”
وہ بیڈ سے اترتی ہوئی بولی۔
“بھابھی آپ کا سفر کرنا مناسب نہیں۔۔۔ ”
وہ ہچکچاتا ہوا بولا۔
“کچھ نہیں ہو گا مجھے۔۔۔ مجھے فضا سے ملنا ہے بس۔ ہمارے پاس آج کا اور صرف کل کا دن ہے وقت ضائع مت کرو۔”
وہ یاس سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“میں بابا سائیں سے بات کر کے آتا ہوں تب تک آپ کھانا وغیرہ کھا لیں۔”
وہ فون اٹھاتا باہر نکل گیا۔
“ہاں بولو سدرہ۔۔۔ ”
وہ فون کان سے لگاےُ رضی حیات کے کمرے کی سمت میں چلنے لگا۔
“تمہارے بھائی کے کارنامے دیکھ رہی تھی میں۔۔۔”
وہ محظوظ ہوتی ہوئی بولی۔
“بکواس بند رکھو اپنی۔”
وہ تلملا اٹھا۔
“بڑا ہی کوئی۔۔۔ ”
“میری پاس تمہاری فضول باتوں کے لئے وقت نہیں ہے۔”
وہ تاؤ کھاتا فون جیب میں ڈال کر چلنے لگا۔
“بابا سائیں میں لے آؤں گا اسے واپس۔۔۔ بھابھی جا رہی ہیں نہ آپ فکر مت کریں۔”
احسن گزشتہ آدھ گھنٹے سے انہیں سمجھا رہا تھا۔
“نجانے کیا ہو گیا ہے اسے ہماری بات بھی نہیں سن رہا۔”
وہ آنکھیں صاف کرتے ہوۓ بولے۔
“کچھ نہیں ہو گا اسے آپ فکر مت کریں۔میں چلتا ہوا اب۔”
وہ ان کے گلے لگتا ہوا بولا۔
“آج اس نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔۔۔ ”
وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
احسن خاموشی سے باہر نکل گیا۔
~~~~~~~~
“پلیز انکار مت کرو۔۔۔ تمہاری وائز سے دشمنی نہیں پھر کیوں ایسا کر رہی ہو؟”
زرش چادر اوڑھے اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
“زرش دیکھو مجھے وائز نے سختی سے کہا تھا کسی کے بھی کہنے پر میں معافی نامہ سائن نہ کروں۔”
وہ لاچاری سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
“میں بس آخری بار تمہیں کہوں گی۔ اگر تم میرے بچے کو یتیم کرنا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے اپنی ضد پر قائم رہو۔ اس کی تو عقل کام نہیں کر رہی اور تم بھی اسی کے نقشے قدم پر چل رہی ہو۔”
وہ تاسف سے کہتی کھڑی ہو گئی۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے لبریز تھیں۔
“بھابھی آپ ٹھیک ہیں؟”
احسن آگے آتا ہوا بولا۔
“میں ٹھیک ہوں چلو۔۔ کوئی فائدہ نہیں بحث کرنے کا۔”
وہ تاسف سے کہتی چلنے لگی۔
فضا لب کاٹتی انہیں جاتا دیکھ رہی تھی۔
“ایک منٹ رکو۔۔ ”
وہ ان کی جانب بڑھتی ہوئی بولی۔
وہ دونوں چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگے۔
“ٹھیک ہے تم معافی نامہ تیار کرواؤ میں سائن کر دوں گی۔ کسی معصوم کی زندگی تباہ نہیں کر سکتی میں۔۔۔”
وہ زرش کو دیکھتی ہوئی بولی۔
“تھینک یو۔۔۔ ”
زرش اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔
“احسن اب کانفرم وہ رہا ہو جاےُ گا نہ؟”
وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔
“جی بھابھی اب آپ ٹینشن مت لیں۔ وہ صحیح سلامت صبح ہمارے ساتھ ہو گا۔ آپ کو کچھ چائیے؟”
وہ کھڑکی سے دیکھتا ہوا بولا۔
“ہاں پانی لے لو۔۔۔ آگے کوئی دکان نہیں ملے گی۔”
وہ ٹیشو سے چہرہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
“وائز سے ملیں گیں؟”
وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“نہیں حویلی چلو۔۔۔ اب گھر میں ہی بات ہوگی وائز سے۔”
وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکاےُ آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی۔
وہ اثبات میں گردن ہلاتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
“جی وکیل صاحب۔۔۔ بھاڑ میں گیا وائز آپ میری بات سنیں جیسے میں کہہ رہا ہوں کریں جتنے پیسے چائیں مل جائیں گے۔ لیکن کل صبح وائز یہاں ہو۔”
وہ فون کان سے لگاےُ بولتا ہوا چل رہا تھا۔
زرش سر جھکاےُ اس سے آگے تھی۔
“بیٹا ہو گئی بات؟ وائز کہاں ہے؟”
گل ناز بیگم اس کے عقب میں دیکھتی ہوئی بولیں۔
“امی ان شاءاللہ صبح آ جاےُ گا وہ۔۔۔ ”
وہ ان کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
“احسن بات کر رہا ہے؟”
وہ تشویش سے بولیں۔
“جی۔۔ احسن وکیل سے بات کر رہا ہے۔ اب فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔”
وہ کوشش کے باوجود مسکرا نہ سکی۔
“تم آرام کرو جا کر۔۔۔ تھک گئی ہو گی سفر میں۔”
وہ اسے ساتھ لئے چلنے لگیں۔
وہ وائز کی تصویر کے سامنے آ گئی۔
“یہ تم نے کیا کر دیا؟ اپنی عزت کی بھی پرواہ نہیں کی تم نے؟”
وہ آنکھوں میں اشک لئے اس کی تصویر سے مخاطب تھی۔
وہ ریڈ کلر کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔
“تم نے ہمارے بچے کے بارے میں بھی نہیں سوچا؟ جہاں اتنا صبر کیا تھوڑا اور کر لیتے۔ میرا دل نرم ہو رہا تھا تمہارے لیے۔۔۔ ”
وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتی ہوئی بولی۔
“میرے الفاظ دم توڑ چکے ہیں۔ کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا کیا بولوں؟”
وہ اس کی تصویر کو اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہی تھی۔
زرش کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔
اپنی کیفیات سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھی۔
~~~~~~~~
“آپ کے بھائی کا فون ہے۔”
حولدار فون اس کی جانب بڑھاتا ہوا بولا۔
“تیری بھابھی نے معاف کر دیا مجھے؟ لیکن کیوں؟ تو نے کیا بتایا اسے؟”
وائز زمین پر لیٹتا ہوا بولا۔
“جی ہاں۔۔۔ مبارک ہو آپ کو اور اب خدا کے واسطے کوئی مزید مشکل کھڑی مت کر دینا آپ۔ اور انہیں معاف کرنا ہی تھا اگر آپ اتنی مشکوک حرکتیں نہ کرتے تو شاید وہ پہلے ہی معاف کر دیتیں۔”
وہ بیڈ پر ڈھیر ہوتا ہوا بولا۔
“تھکا دیا میں نے تمہیں۔۔۔ ”
وہ ندامت سے بولا۔
“جی اچھا خاصا۔۔۔ اتنے چکر آج تک نہیں لگاےُ شہر سے گاؤں پھر گاؤں سے شہر۔”
وہ گردن دائیں بائیں گھماتا ہوا بولا۔
“زرش ٹھیک ہے؟”
وہ فکرمند تھا۔
“اتنی فکر تھی تو پھر یہ سب کیوں کیا؟”
اس نے الٹا سوال داغا۔
“اتنی لمبی تقریر کی تھی ابھی بھی سمجھ نہیں آیا خیر بات ہی کروا دو اپنی بھابھی سے۔”
لہجے میں بےقراری تھی۔
“وہ ناراض ہیں آپ سے۔۔۔ اس لئے ایسے بات نہیں کریں گیں اب کل تک کا انتظار کر لیں۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“اچھا چلو جہاں اتنے دن انتظار کیا ایک دن اور سہی۔۔۔ چل تو آرام کر کل ملتے ہیں۔”
اس نے مسکراتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
“بس ایک بار تم میرے سامنے آ کر کہہ دو تم نے اس گناہگار کو معاف کیا۔”
وہ انگلی سے آنکھ کا نم گوشہ صاف کرتا ہوا بولا۔
“سر فون۔۔۔ ”
حولدار اسے خود کلامی کرتے دیکھ کر بولا۔
“ہاں یہ لو۔۔۔ ”
وہ سلاخوں کی جانب آتا ہوا بولا۔
رات کی تاریک میں یہ سلاخیں مزید تاریک ہو گئیں تھیں۔
وہ جو موت کا انتظار کر رہا تھا اب زرش سے ملنے کو بےتاب تھا۔ ایک ایک لمحہ صدیوں پر محیط ہو رہا تھا۔وہ پھر سے زمین پر لیٹتا چھت کو گھورنے لگا۔
~~~~~~~~
“جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ۔۔۔ اتنا سب بنانے کو پڑا ہے اگر وائز کے آنے سے پہلے یہ سب مکمل نہ ہوا تو خیر نہیں۔۔۔ ”
گل ناز بیگم ملازموں کو جھڑک رہی تھیں۔
پوری حویلی میں گہما گہمی تھی۔
“اچھے سے سجانا میرا بیٹا آ رہا ہے۔”
آنکھوں میں امڈ آتی نمی کو وہ صاف کرتی ہوئی بولیں۔
“ہاں ہاں حاجی صاحب آج ہی آ رہا ہے وہ۔۔۔”
رضی حیات فون کان سے لگاےُ بول رہے تھے۔
“ہم نے کوئی جبر نہیں کیا بچی پر۔۔۔ اس نے اپنی مرضی سے معافی نامہ سائن کیا ہے۔ چلیں باقی باتیں مل کر کریں گے۔”
وہ خفا انداز میں کہتے فون بند کر گئے۔
“گل ناز؟”
وہ دائیں بائیں دیکھتے ہوۓ بولے۔
“جی۔۔۔ ”
وہ سرعت سے کہتی کمرے سے باہر نکلیں۔
“احسن کہاں ہے؟ دوپہر سے شام ہونے کو ہے نظر نہیں آ رہا۔۔۔”
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔
“جی وہ سو رہا ہے۔۔ تھک گیا تھا کل سارا دن کورٹ کچہری کے چکر لگا لگا کے میں نے سوچا آرام کرنے دوں۔”
وہ بولتی ہوئی بیٹھ گئیں۔
“ہممم ٹھیک ہے۔ ثوبیہ بھی نظر نہیں آ رہی۔۔”
وہ اخبار اٹھاتے ہوۓ بولے۔
“آپ تو جانتے ہی ہیں شروع سے ہی زرش کو پسند نہیں کرتی وہ اس لئے کمرے میں ہی ہے۔ میں نے بھی نہیں بلایا۔”
وہ منہ بناتی ہوئی بولیں۔
“ٹھیک ہے جاؤ ۔۔۔”
وہ اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
اگلے لمحے وہ وہاں سے غائب تھی۔
“جی کون بول رہا ہے؟”
احسن کی نیند میں ڈوبی آواز گونجی۔
“واٹ؟ کون سے ہاسپٹل میں؟”
ایک ہی لمحے میں نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہو گئی۔
وہ اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
“کب ہوا یہ ایکسیڈنٹ؟ میں پہنچ رہا ہوں بس کچھ ہی دیر میں۔۔۔ ”
وہ فون بیڈ پر اچھالتا سلیپر پہننے لگا۔
وہ ٹی شرٹ کے ساتھ ٹراؤذر پہنے ہوۓ تھا۔
چابیاں اٹھا کر فون پکڑتے ہوۓ باہر نکل آیا۔
“اتنی جلدی میں کہاں جا رہے ہو؟ کپڑے بھی نہیں بدلے تم نے۔۔۔ ”
رضی حیات اسے ٹوکتے ہوۓ بولے۔
“وہ بابا سائیں وائز کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل میں ہے اسی کے پاس جا رہا ہوں۔”
رضی حیات کے ساتھ ساتھ زرش اور گل ناز بھی سن چکی تھیں۔
زرش لڑکھڑاتی ہوئی دیوار کا سہارا لینے لگی۔
وہ تینوں پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...