“وہ وہاں ہوگی یا نہیں؟” یہ سوال بار بار اس کے دماغ میں آرہا تھا۔ ٹھٹھرا دینے والی سردی میں وہ صرف ایک ٹراؤزر اور ہالف بازو والی سفید ٹی شرٹ میں ساکت و جامد بیٹھا تھا۔چہرے پر نیل واضح تھے۔ہوں معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے چہرے پر تشدد کیا ہو۔وہ بھول جانا چاہتا تھا جو کچھ بھی کچھ دیر پہلے ہوا پر پتا نہیں ایسی کیا بات تھی کہ اسے اپنے دل میں ٹیسییں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ پھر یکایک اسکے جامد وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔وہ تیزی سے اٹھا،بیڈ کے پاس پڑے اپنے موزے اور جوگرز اٹھا کر پہنے اور دروازے کی طرف لپکا۔اسے دس منٹ لگے تھے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لیے۔اس نے بیس منٹ کا سفر پیدل دس منٹ میں طے کیا۔دروازہ ویسے ہی کھلا ہوا تھا۔وہ تیزی سے اندر کی طرف لپکا۔وہ وہیں تھی جہاں وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ کر گیا تھا۔وہ کرسی کے پاس اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی۔وہ اسکے پاس گیا اور اسکا رخ پلٹا۔خون کی ایک لکیر اس کے ماتھے سے ہوتے ہوئے گردن تک آئی ہوئی تھی جو کہ سوکھ چکی تھی۔اس نے پاس پڑی اس کی چادر اٹھائی اور اسے اوڑھا دی۔وہ گھر سے لے کر یہاں آنے تک یہ سوچتا آیا تھا کہ وہ وہاں ہوگی یا نہیں پر یہ خیال اسے ایک دفعہ نہیں آیا تھا کہ اگر وہ وہاں ہوئی تو وہ کیا کرے گا۔اس نے آہستگی سے اسے باہوں میں بھرا اور وہاں سے نکل آیا۔گھر پہنچ کر اسے نرمی سے بستر پر لٹایا اور پھر موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔
°°°°°°°°°°
“یار عاشی اب کیا ہوگا؟ مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے۔امی کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر نے بولا ہے کہ انھیں ہسپتال داخل کروانا پڑے گا۔ میرے پاس پیسے بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ بس دعا کرو جلدی سے کوئی جاب مل جائے۔” وہ اپنے سامنے موجود اپنی دوست عائشہ سے کہہ رہی تھی۔اس وقت وہ عائشہ کے بہت اسرار پر اسے ملنے ریسٹورنٹ آئی ہوئی تھی۔وہ دونوں باتوں میں مگن تھیں، اس بات سے بے خبر کہ ایک اور وجود ان کی باتوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ مستقیم فارس اپنے ایک دوست سے ملنے ریسٹورنٹ آیا تھا۔ان دونوں کی گفتگو اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کی آوازوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔
“عاشی اگر امی کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی؟” لاکھ ضبط کے باوجود اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔اسکی بھرائی آواز پر بے ساختہ مستقیم کی نظریں اس کی جانب اٹھیں اور پلٹنا بھول گئیں۔وہ لڑکی بہت حسین تھی۔ایسا نہیں کہ مستقیم فارس نے حسین لڑکیاں نہیں دیکھی تھیں پر اس لڑکی کی سنہری آنکھوں میں موجود نمی اور تکلیف نے اسکے دل کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔وہ سفید لباس میں ملبوس تھی اور دوپٹہ سر پہ اوڑھا ہوا تھا۔مستقیم کو وہ لڑکی بہت پاک لگی۔ابھی وہ اسی میں گم تھا جب موبائل کی آواز نے اسے متوجہ کیا۔ اسکے جگری دوست کی کال تھی جو کہ آنے سے معزرت کر رہا تھا اور ایک ایمرجنسی کا بتا کر اسے فوری طور پر بلا رہا تھا۔مستقیم نے نا چاہتے ہوئے بھی اس پر سے نظریں ہٹائیں اور وہاں سے نکل آیا۔
°°°°°°°°°°
وہ دعا حیدر تھی۔ لاکھوں منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونے والی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔حیدد عباس ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ان کی اہلیہ سارہ بیگم ان کی محبوب بیوی تھیں۔کالج کے زمانے سے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔حیدر صاحب نے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتایا تو وہ بغیر کسی اعتراض کے خوشی خوشی سارہ بیگم کا ہاتھ مانگنے چلے گئے اور وہاں سے بھی مثبت جواب ملا۔یوں بغیر کسی رکاوٹ کے انکی محبت کو منزل مل گئی۔حیدر عباس کے ایک ہی بڑے بھائی تھے کریم عباس۔ ان کی اہلیہ شگفتہ بیگم ایک تلخ مزاج خاتون تھیں اور سارہ بیگم سے شروع سے ہی خار کھاتی تھیں۔دعا کی پیدائش سے ایک سال قبل ہی انہوں نے ایک بچی کو جنم دیا۔ دعا کی پیدائش کے بعد یہ نفرت اور بھی بڑھ گئی کیونکہ ان کی بیٹی سونیا،خوبصورتی میں دعا سے بہت کم تھی۔ دونوں بھائی ایک ہی گھر کے الگ الگ پورشنز میں رہتے تھے۔
🖤🖤🖤🖤🖤
“خادم حسین فاتح اٹھا نہیں اب تک کیا؟” ابرہیم خان نے اپنے ملازم سے پوچھا۔ وہ جانتے بھی تھے کہ آگے سے کیا جواب ملنے والا ہے پر پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ بیٹھے۔
“ارے ابرہیم! آپ جانتے ہیں نا کہ وہ نہیں آئے گا۔وہ بہت نفرت کرتا ہے مجھ سے۔ ایم سوری ابرہیم! میری وجہ سے آپ کا بیٹا آپ سے دور ہو گیا۔” وہ آنکھوں میں آنسو لیے ان سے کہہ رہی تھیں۔
“پلیز فائقہ! ایسے مت پریشان ہوں آپ، مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا آپ کا ایک بے بنیاد بات پر پریشان ہونا۔ وہ آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ میرے لاپرواہیوں کی وجہ سے دور ہوا ہے مجھ سے۔وہ نادم نظر آتے تھے۔
اتنے میں وہ سیڑھیوں سے اترتا دکھائی دیا۔بلیک پینٹ شرٹ اور بلیک ہی ہڈ والی جیکٹ ،بلیک ہی شوز پہنے، ایک ہاتھ میں سن گلاسز اور گاڑی کی چابی پکڑے، چہرے پر سرد تاثرات سجائے،بغیر ان پر ایک نگاہ ڈالے وہ باہر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے ابرہیم خان ایک سرد آہ بھر کے رہ گئے۔
🖤🖤🖤🖤🖤
“ماما!ماما! کہاں ہیں اپ؟ وہ سارہ بیگم کو آواز دیتی ہوئی نیچے آرہی تھی۔
“کیا ہوا دعا بیٹا رزلٹ شو ہو گیا کیا؟” وہ دعا سے پوچھنے لگیں۔
“جی ماما اور آپ کو پتا ہے میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ہوں۔” وہ خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ انہیں بتانے لگی۔آج اس کا میٹرک کا رزلٹ تھا جس میں ہمیشہ کی طرح وہ شاندار کامیابی حاصل کر چکی تھی۔
“ماشاءاللہ! مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی ہمیشہ کی طرح شاندار کامیابی حاصل کرے گی.”وہ دعا کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں اور اس کو اپنے ساتھ لگائے لاؤنج میں لے آئیں۔تبھی دروازے کی گھنٹی سنائی دی۔
“میں دیکھتی ہوں ماما آپ یہاں ہی رکیں.” وہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگی۔دروازہ کھولا تو سامنے ہی حیدر صاحب کو دیکھتے وہ خوشی سے چیختی ان کی باہوں میں سما گئی۔
“پاپا اپ کو پتا ہے میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ہوں۔” وہ خوشی سے چہچہا رہی تھی۔
“میری گڑیا ہے ہی بہت جینیسٔ، مجھے پہلے ہی پتا تھا میری گڑیا کا رزلٹ بہت اچھا آئے گا۔ چلو اسی خوشی میں آج لنچ باہر کریں گے ہم جلدی سے ریڈی ہو جاؤ آپ۔” وہ پھر سے اس کا ماتھا چوم کر کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
🖤🖤🖤🖤🖤
“آئی چکنی چمبیلی۔۔۔۔۔”منہ میں پان ڈالے اپنی پھٹے سپیکر جیسی آواز میں وہ گانے کا ستیاناس کرنے میں مصروف تھا جب اسکی نظر سامنے سے آتی اس حسینہ پر پڑی۔ وہ پان تھوکتا اسکی جانب بڑھا اور اپنی گندی نظریں اسکے وجود پر ٹکا دیں۔ حریم کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی اس نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر لی۔
“ارے میری رانی اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ اپنے اس حسین چہرے کا سہی طرح دیدار تو کرواتی جاؤ۔ ویسے اس گلابی لباس میں تو ستم ڈھا رہی ہو۔”اسکی ساری بکواس سن کر حریم کا چہرہ غصے اور ضبط سے سرخ پڑ گیا۔
“بشیر بھائی پلیز راستہ چھوڑیں میرا!” وہ نظریں نیچی رکھ کر بہت ضبط سے بولی۔
“ارے میری بلبل…..” ابھی وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر پایا تھا جب اسکا چھوٹا بیٹا اسے پکارتا اسکی طرف بھاگا چلا آرہا تھا۔ وہ اپنی ماں کا پیغام لے کر آیا تھا۔ بشیر بوکھلا کر تیزی سے اسکے ساتھ اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
حریم نے انگلیوں کی پوروں سے اپنی سنہری آنکھوں میں موجود نمی کو صاف کیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کیا جس نے اس مصیبت سے آج پھر اسکی جان چھڑا دی۔اس نے ایک بے بس سانس خارج کی اور گھر میں داخل ہو گئی۔
آج دعا کا کالج میں پہلا دن تھا اور وہ بہت نروس تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ گرلز اسکول میں پڑھی تھی میٹرک تک پر اب پری- میڈیکل کے لئے حیدر صاحب کو جو کالج پسند آیا تھا وہاں کو ایجوکیشن سسٹم تھا۔ دعا نے تو انکار کر دیا تھا کہ وہ اس کالج نہیں پڑھے گی بلکہ کسی گرلز کالج میں ہی ایڈمشن لے گی پر اپنے ماں باپ دونوں کے اصرار پر اسے اسی کالج میں ایڈمشن لینا پڑا۔ وو بہت چھوٹے اور نازک دل کی مالک تھی۔ وو بہت معصوم تھی۔بچپن سے صرف ماں باپ کے ساۓ میں ہی رہی تھی۔ نانيال تھا نہیں اور دادا دادی کے انتقال کے بعد دديال میں بھی صرف ایک تایا ہی رہ گئے تھے جن کو نہ تو چھوٹے بھائی سے پیار تھا نہ ہی اسکی اولاد سے۔ باپ کی وراثت سے حصہ لے کر الگ ہو گئے اور اب اپنے حال میں خوش تھے۔اس لئے دعا نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو ہی دیکھا اور انکا پیار ہی حاصل کیا۔وہ اکلوتی تھی اور بہت لاڈلی بھی۔اسکے لئے اسکے ماں باپ ہی اسکی کل کائنات تھے۔
🖤🖤🖤🖤🖤
وہ گراؤنڈ میں پریشان سی کھڑی تھی۔حیدر صاحب اسے کالج کے باہر ڈراپ کر کے گئے تھے ور بہت سمجھا کے بھی گئے تھے کہ وہ پریشان نہ ہو۔اگر کوئی مسلہ ہو تو انکو کال کر دے ۔ یہ موبائل بھی انہوں نے کچھ دن پہلے ہی دلوايا تھا کیوں کے اب اسے پڑھائی کے سلسلے میں اسکی ضرورت پڑنے والی تھی۔ وہ پریشان سی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسکے پاس ایک لڑکی آئی۔
“ہیلو پریٹی گرل کیا ہوا اتنی پریشان کیوں ہو اور یہاں کیوں کھڑی ہو؟” وہ دعا کی ہی ایج فیلو لڑکی تھی۔ اور بہت فرینکلی دعا سے بات کر رہی تھی۔ اسکا پوچھنا ہی تھا کہ دعا نے رونا سٹارٹ کر دیا۔
“ارے ارے کیا ہو گیا یار کیوں رو رہی ہو کسی نے کچھ کہا ہے کیا مجھے کچھ بتاؤ تو سہی۔” دعا کے رونے پہ وہ خود پریشان ہو گئی تھی۔
“نہیں میرا فرسٹ ڈے ہے ۔۔۔۔۔مجھے کلاس بھی نہیں مل رہی “وہ روتے ہوئے ہی اس لڑکی کو بتا رہی تھی۔
“اف پاگل لڑکی مجھے بھی ڈرا دیا میں سمجھی پتا نہیں کیا ہو گیا جو یہ پیاری سی لڑکی ایسے رو رہی ہے۔ میرا نام امايا ہے تم مجھے ایمي بھی بول سکتی ہو۔ چلو اب اپنا نام بتاؤ جلدی سے پھر تمہاری کلاس بھی ڈھونڈھتے ہیں۔” دعا کو بھی وہ لڑکی بہت اچھی لگی۔
“میرا نام دعا حیدر ہے اور میں نے FSc(pre-medical) میں ایڈمشن لیا ہے۔”
“ارے واہ تمہارا نام تو بہت پیارا ہے بالکل تمہاری طرح اور مزے کی بات بتاؤں میرا بھی یہی سیکشن اور بیج ہے۔ اسکا مطلب یہ کہ ہم دونوں کلاس فیلوز ہیں ۔” دعا کو بہت خوشی ہوئی یہ سن کے کہ وہ اس کی کلاس فیلو ہے۔ کم از کم کوئی تو ایسا ملا جو اس سے اچھے سے بات کر رہا تھا اور وہ بھی اس سے اپنی پرابلمس ڈسکس کر سکتی تھی۔ پھر امايا نے دعا کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے کلاس کی جانب بڑھ گئی۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
ابراھیم خاں اپنے روم میں راکنگ چیئر پر بیٹھے ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جب انھیں اوپر سے شور سنائی دیا جیسے کوئی چیخ رہا ہو۔ انہوں نے کتاب رکھی اور جلدی سے اوپر کی طرف قدم بڑھاے۔ یہ آوازیں فاتح کے کمرے سے آ رہی تھیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا فائقہ بیگم فاتح کے پاس سر جھکا کر کھڑی تھیں اور وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا اور چیخ رہا تھا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے یہاں ۔ فائقہ آپ کیوں رو رہی ہیں اور فاتح تم یہ کیا کر رہے ہو ۔یہ کمرے کا کیا حشر کیا ہے اور ایسے چیخ کیوں رہے ہو؟” وہ پہلے فائقہ بیگم اور پھر فاتح سے استفسار کرنے لگے۔
“میں نے کہا تھا نہ کہ اپنی بیوی سے کہیں ک میرے معاملات سے دور رہیں وہ اور ان کی ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آ کر میری ماں کی چیزوں کو ہاتھ لگانے کی۔ اٹس انف ڈیڈ میں اب ایک سیکنڈ بھی یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنی ماں کی یادوں کو لے کر جا رہا ہوں یہاں سے آپ اور اپ کی مسز یہاں پہ سکون سے رہیں۔” اس نے بیگ اٹھایا اور وہاں سے نکلنے لگا۔
“رک جاؤ فاتح بات تو سنو کہاں جاؤ گے تم کیسے سروائیو کرو گے ۔”
“میں جہاں بھی جاؤں آپکو اس بات سے کوئی کنسرن نہیں ہونا چاہیے اور جیسے تیسے میں اپنا بندوبست کر لوں گا آپکو میرے سامنے یہ فکر کا دکھاوا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔” وہ آخری نظر گھر پر ڈال کر اپنی گاڑی لے کر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...