آرام سے چل لے میرے پاؤں میں درد ہورہا ہے اب تو نور کے بولنے پر بھی اسکی اسپیڈ کم نہیں ہوئی تھی وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی
اوئے کسی کے کئے کی سزا اپنے پیروں کو کیوں دے رہی ہے آہستہ چل لے وہ خود اسکی اسپیڈ سے تو چل ہی نہیں سکتی تھی آج ایسا لگ رہا تھا کہ اگر وہ اولمپکس کی ریس دوڑتی تو اول آتی۔۔۔۔۔۔۔۔
تو میرے پیچھے مت آ دماغ سٹکا ہوا ہے فضول میں تیری شامت آجائے گی
ہاں تو بھلے آنے دے ۔۔۔۔۔ وہ بھاگتی بھاگتی بلا آخر اسکے ہم قدم ہوئی تھی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا پھولی سانس بحال کرنے میں اس نے کچھ ٹائم لیا تھا
کیا مصیبت ہے تجھے نور کی بچی کیوں خالی پیلی میں دماغ گھوما رہی بول دیا نا کہ آئندہ اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی تو نہیں رکھوں گی جا بول دے اپنی ماں کو
ہائے میری بہنا اتنا غصہ نور نے حیران ہونے کی بہت گندی اداکاری کی
اپنا یہ پوپلے جیسا منہ لے کر غرق ہو جا تو ورنہ اسی سال پرانی جوتی سے منہ لال کردینا میں
ہائے پوپلا منہ ہو میرے دشمن کا۔۔۔۔۔۔
ہاں تو تیری دشمن تو ہی ہے نا اب جا اکیلا چھوڑ مجھے
کیوں ایسے کر رہی ہے چھوڑ نا گھر چل وہ اسکی منتیں کرنے پر اتر آئی تھی
ہاتھ چھوڑ میرا مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔۔۔۔
وہ غصے سے بھری بیٹھی تھی
میرے لئے چل لے پلیز اس نے ترچھی نظر اس پر ڈالی اور منہ پھیر لیا
دیکھ چل کے شام ہونے کو آرہی ہے اماں آجائیں گی تو بہت غصہ ہونگی
تیری ماں کو آتا ہی کیا ہے اور اس کی بات پر وہ اور بھڑکی
اچھا اب میں بولوں گی نا اماں کو تجھے کچھ نا کہا کریں بس تو چل نا
پکا وعدہ بولے گی ۔۔ اس نے ہاتھ آگے پھیلا کر تصدیق چاہی
ہاں میری بہنا پکا وعدہ نور نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر مضبوطی سے پکڑا
یہ بات وہ دونوں ہی جانتی تھی کہ یہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوگا نا کبھی ہوا لیکن وہ ہر بار ایسے کی وعدہ کیا کرتی تھیں شاید اس سے اسے خوشی ملتی تھی۔۔
تو غصہ مت کیا کر نا تجھے پتا تو ہے اماں کا۔۔نور نے اسے سمجھایا تھا
تو یہ بات اسے بھی بول سکتی ہے نور کہ ایک یتیم سمجھ کر ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا کرے۔۔۔
میں تو پھنس جاتی ہوں نا ایک طرف ماں ایک طرف بہن۔۔۔
تو پھر تو چپ رہا کر اپنی ماں کی وکالت نا کیا کر میرے سامنے۔۔وہ سخت چڑی ہوئی تھی۔۔
اففف اللّٰہ ایک تو تیرا غصہ۔۔ کم کر ورنہ ساس جوتے مارے گی۔۔۔
نور نے اسے ڈرایا
ہاں جیسے میں آرام سے کھا لونگی ہیں نا۔۔ آنسہ کامران اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والوں میں سے نہیں ہے۔۔۔۔
اس نے فرضی کالر کھڑے کئے تو نور ہنس دی۔۔۔
اووو بھائی کیوں جان کا دشمن بنا ہوا ہے میری اسپیڈ کم کر۔۔۔گاڑی فل اسپیڈ سے روڈ پر ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی
وہ فل اسپیڈ سے گاڑی دوڑاتا ایک نظر ساتھ بیٹھے گھبرائے گھبرائے اپنے یار پر بھی ڈال لیتا جو خوف نے مارے سفید پڑ رہا تھا
لیکن اس کی چیخ و پکار سے بے نیاز وہ فل اسپیڈ سے گاڑی چلاتا میوزک بھی تیز کر چکا تھا
مائکل جیکسن کا گانا گاڑی میں گونج رہا تھا اور میوزک کے ساتھ اس کے ہاتھ بھی اسٹیرنگ پر چل رہے تھے جیسے وہ فل انجوائے کرنے کے موڈ میں ہو
جتنی دیر تک وہ لوگ کلب پہنچے حاشر کا آدھا خون تو خشک ہی ہوچکا تھا گاڑی رکتے ہی وہ غصے سے کھولتا گاڑی کا دروازہ زور سے بند کرتا باہر نکلا تھا ۔۔۔
ابراہیم نے ایک نظر اپنی ناراض حسینہ کو دیکھا جو منہ پھلائے باہر کھڑی تھی وہ زیر لب مسکراتا گاڑی سے باہر نکلا
آجا یار چل اس نے حاشر کا بازو پکڑا تو اسنے فوراً سے پہلے اپنا ہاتھ اس سے چھڑایا تھا
ہاتھ مت لگا تو کمینے مجھے۔۔۔۔وہ سخت ناراض تھا جس کا ثبوت وہ اسے دے رہا تھا
ارے یار اچھا سوری نا۔۔۔اسکا پھولا منہ دیکھ ابرہیم کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہورہا تھا
ہاں تیرا سوری ہوگیا جب میں مر جاتا ہارٹ اٹیک سے تو تب بھی یہی بولتا تو اور اگر ایکسیڈنٹ ہو جاتا تو؟؟؟ وہ حد سے زیادہ ہی جذباتی تھا
کچھ ہوا تو نہیں نا دیکھ تجھے صحیح سلامت یہاں لے کر آگیا ہوں تو اب موڈ خراب مت کر انجوائے کر آجا وہ زبردستی اسکو تقریباً گھسیٹتا اندر کی طرف بڑھا۔
لنگڑا نہیں ہوں جو یوں لے کر جارہا یے چھوڑ۔۔۔
اس سے خود کو چھوڑا کر وہ خود لمبے لمبے ڈاگ بھرتا اندر گھس گیا
وہ بھی اسکے پیچھے بھاگا تھا کیونکہ اپنی ناراض سی حسینہ کو منانا بھی تو تھا۔۔۔
اندر کلب میں رنگ و بو کا سیلاب آیا ہوا تھا
لڑکے لڑکیاں اپنی اپنی مستیوں میں مگن تھے کوئی کاؤنٹر پر بیٹھا تھا تو کوئی فلور پر ڈانس کرنے میں مصروف وہ اندر آیا تو کئی نظریں اس تک آئی تھی اور پلٹنا بھولی تھی
صاف رنگت پر کھڑی ناک بکھرے بال ہلکی بڑھی شیو وائٹ شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے بے نیاز سا ادھر ادھر کسی کو دیکھ رہا تھا
وہ کبھی زیادہ ڈریس اپ نہیں ہوتا تھا آفس کے بعد اسکا حلیہ ایسا ہی ہوتا تھا میسی سا جس میں وہ سکون محسوس کرتا تھا
حاشر پر نظر پڑتے ہی وہ اسکی طرف بڑھا
اور اس کے گلے میں بازو ڈالے
جند جان تو کیوں ناراض ہوتا ہے اپنے یار سے۔۔۔۔وہ لاڈ سے اسکے پاس آیا تھا
اور اس کے اس انداز پر حاشر کی ساری ناراضگی دور ھوئی تھی لیکن تھوڑا نخرہ دیکھانا تو بنتا تھا نا کبھی کبھی تو وہ ہاتھ لگتا تھا
اس لئے ناراض ہوتا ہوں کہ تجھے نا میری پرواہ ہے نا اپنی۔۔
ایسے گاڑی چلاتا ہے جیسے رشتہ دار کی سڑک ہو
خدا نا خواستہ کچھ ہوجاتا تو۔۔۔وہ اب بھی اسے اس کی غلطی کا احساس دلا رہا تھا کیونکہ وہ اسکا دوست تھا مخلص دوست۔۔
اچھا چل نا کان پکڑ کر سوری اب چل نا منہ ٹھیک کر۔۔۔
ابرہیم نے اسے پیار سے پچکارہ
ہممم۔۔۔۔ اس نے ہمم کہنے پر اکتفا کیا
کیا ہمممم؟ چل نا معاف کر اور بتا کیا کھائے گا
چیز پاستہ۔۔، رشین سیلڈ اور گرل چکن ود سیون اپ۔۔۔۔ ابرہیم کے پوچھنے پر اسنے مزے سے اپنا آرڑر بتایا تھا
اتنا کچھ۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں باہر کو نکلیں تھیں
منگوانا ہے تو ٹھیک ورنہ میں ناراض ہی ٹھیک ہوں۔۔۔ وہ اب بھی فل موڈ میں تھا
اچھا نا بھوکے فقیر منگواتا ہو۔۔۔ اس نے اسکی ناراضگی کی وجہ سے ہتھیار ڈالے تھے
ویری گڈ میرا بچہ ہاں اب بتا کیا کرنا۔۔۔۔۔؟؟؟ کھانا آرڈر ہوتے ہی وہ ابراہیم کے گلے پڑا تھا
تو بہت کمینہ ہے حاشے۔۔۔۔۔۔اس نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا
ہاں لیکن تو میرا بھی باپ ہے اس نے دانت نکالے تھے
کبھی کبھی تو ہاتھ لگتا ہے تو اب اس میں بھی بندہ شریف بنا رہے ایمپوسیبل۔۔۔۔
اسکا اپنا موڈ آن ہوچکا تھا ابراہیم نے شکر ادا کیا تھا
دفاع ہو وہ ابھی اسے اور بھی کچھ سناتا کہ پیچھے سے آنے والی آواز نے اسکی زبان کو بریک لگائے تھے۔۔۔۔۔۔
ہائے ابے بی کیسے ہو؟؟؟؟
اسنے آواز پر پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا
ٹائٹ جینس پر ٹاپ پہنے گلے میں مختلف رنگوں کی مالا پہنے گوری رنگت پر لال رنگ میں رنگے بال جو اس پر جچ بھی رہے تھے ہیزل براؤن لینس لگائے ہونٹوں کو لال رنگ میں رنگے وہ اروبہ جمشید تھی
جس کی ایک نگاہ کے لئے لڑکے ترستے تھے لیکن ابراہیم کے ساتھ تو اسکا خاص رشتہ تھا
اےےے روبی میں فٹ تم کیسی ہو؟ میوزک کی وجہ سے وہ تھوڑا اونچا بول رہا تھا
ایم گڈ تم یہاں کیا کررہے ہو میں کب سے ویٹ کر رہی ہوں چلو ڈانس فلور پر وہ اسکا ہاتھ تھامتی ڈانس فلور پر آگئی میوزک کی بیٹ پر وہ مہارت سے اسٹیپ کر رہی تھی اور ابراہیم اسکا ساتھ دینے کی کوشش۔۔۔۔
تم اپنے اس چمچے کو کیوں ساتھ لے کر گھومتے ہو وہ تھوڑا اس کی طرف منہ کر کہ بولی اور حاشر کی طرف اشارہ کیا جو ایک کونے میں بیٹھا اپنے موبائل میں مصروف تھا۔۔
اسے ناگوار تو گزرا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا تھا
دوست ہے یار میرا۔۔۔۔ اس نے بھی اسی طرح اس کی طرف جھک کر کہا شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔۔
بہت ہی تھرڈ کلاس دوست ہے ڈریسنگ ہی دیکھ لو تم تمہیں دیکھ کر ہی کچھ سیکھ لے وہ منہ بنا کر بولی جبکہ ابراہیم نے اسے حیرت سے دیکھا
حاشر کا ڈریسنگ سینس بہت زبردست تھا وہ خود اکثر اسکے کمرے پہن لیا کرتا تھا
چھوڑو اسے یار آجاؤ کچھ کھاتے پیتے ہیں وہ اسکا ہاتھ تھام پر کاؤنٹر پر لے آیا۔۔
اور اس کے اور اپنے لئے جوس آرڑر کیا
کم ان یار مجھے نہیں پینا یہ بچوں جیسی چیز۔۔ وہ منہ بناتی گلاس پرے کر گئی آجاؤ شیشہ پیتے ہیں اس نے اسے شیشہ کارنر پر لے جانا چاہا۔۔
اروبہ نہیں میں نہیں پیتا۔۔اس نے اسے منع کیا تو وہ منہ بنا گئ
کم ان یار کیا عجیب بات کر رہے اٹس ٹرینڈی لیٹس گو وہ تقریباً اسکا ہاتھ گھسیٹتی اسے کارنر پر لائی ایک کش پر ہی اسکی حالت ٹائٹ ہوئی تھی
کیونکہ شاید اس میں کچھ ملا ہوا تھا
ون مور نا بے بی وہ اس تک آئی
لیکن وہ کھانستا ہوا جلدی سے کاؤنٹر پر آیا اور پانی کا گلاس جلدی سے خالی کیا۔۔۔۔۔۔
اووو اے بی تم تو بہت ہی کمزورہو ایک شیشہ برداشت نہیں کرسکے وہ ہنستے ہوئے بولی تھی
اٹس ٹو ہارڈ اروبہ ۔۔۔۔۔
اووو سوری پر اٹس جسٹ کا پرانک بٹ یو فیل۔۔۔ اس نے منہ بنا کر کہا
سوری یار پر یو نو میں یہ سب یوز نہیں کرتا۔۔وہ ناجانے کیوں شرمندہ ہوگیا
ہمم آئی نو۔۔۔ وہ کندھے ویل انجوائے مجھے جانا ہے ایک کام سے۔۔۔
کہا؟؟؟
بس جانا ہے ہر بات بتانی ضروری تو نہیں نا وہ اسکے گال سے اپنا گال مس کرتے اسے بائے بول کر کلب سے نکل گئی
جبکہ وہ پیچھے اسے دیکھتا رہا۔۔۔
کیا ہوا گئی وہ۔۔۔ حاشر نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے چونک کر اسے دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا
چل پھر چلتے ہیں ہم بھی بہت دیر ہوگئی ہے اور میں تو قسم سے بور ہوگیا ہوں وہ سڑے منہ کے ساتھ بولا تو وہ ہنس دیا
چل پھر۔۔۔
اسکے بولنے وہ اسکا ہاتھ تھامتا باہر کی طرف بڑھا تھا۔۔
جاری ہے۔۔۔
ہاں تو جی کیسی لگی پہلی قسط؟؟؟ امید ہے اچھی لگے گی شارٹ کوئی نا بولے کیونکہ کچھ ٹائم تک اتنی ہی ملے گی آگے پوری کوشش ہوگی کہ لانگ ایپی دوں رسپانس کا انتظار رہے گا۔۔
تب تک میرے پیج کو لائک،شئیر اور فالو لازمی کریں اور رویو دینے نا بھولیں
آگئی مہارانی دل ہوگیا گھر آنے کا۔۔۔ وہ دونوں گھر میں آئیں تو زلیخا نے اسے دیکھتے ہی تیوری چڑھائی۔۔۔
کیوں میں کیوں نا آؤ۔۔ وہ سخت چڑی تھی
ہاں تو کیون آئی جب اتنی ہی ناک ہے تو ۔۔۔۔
اماں۔۔۔۔۔۔۔ نور نے انہیں اشارے سے منع کیا کہ کچھ نا بولیں
کیوں نا آتی میرے باپ کا گھر ہے تم جہیز میں نہیں لائی تھیں آئی سمجھ تو اگر جاؤ گی تو تم جاؤ گی یہاں سے میں نہیں۔۔۔وہ غصے سے بولی تھی
دیکھوں زرا کیسے قینچی جیسی زبان ہے اب تو چپ نہیں کروائے گی اسے مجھے ہی بولتی رہتی ہے۔۔۔ انہوں نے نور کا دیکھ کر اسے سنایا تو وہ بے بس ہوئی تھی
چپ کر نا آنسہ چل اندر چل۔۔۔ وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اندر لے گئی تو وہ بڑبڑانے لگی
دیکھ لے اب پھر مجھے بولتی ہے ۔۔۔۔
چھوڑ نا یار اماں ہیں نا۔۔۔وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی تھی بہت مشکل تھا اس کے لئے ان دونوں کو سنبھالنا
تیری اماں ہیں میری نہیں سمجھ آئی تو جیسا بولے گی ویسا سنے گی بھی۔۔وہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی
بچاری نور اسے دیکھ کر رہ گئی کیا بولتی وہ ماں اور بہن میں پھنس کر رہ گئی تھی بہن کی سائیڈ لیتی تو ماں کی بری،ماں کی لیتی تو بہن بھڑکتی۔۔
اچھا چھوڑ بتا کھانا کھائے گی لاؤں۔۔اس نے آنسہ کو پچکارا تھا
نہیں کوئی ضرورت نہیں بس چھالی دے اگر ہے تو ساری ختم ہوگئی۔۔اپنے پاس دیکھ وہ چنی کاکی بنی بولی تو نور کو ہنسی آئی
میرے پاس سپاری ہے وہ چاہیے تو بول نور کے بتانے پر اسکا منہ بنا تھا
بچے کھاتے ہیں یہ سپاری لیکن لا پھر بھی دے دے منہ کڑواہ ہورہا ہے۔۔اس کے ہاتھ سے سپاری لے کر وہ ایک ساتھ ہی ساری کھا گئی تھی
مت کھایا کر سارا خون نچوڑ لینگی تیرا۔۔۔۔
جتنا خون یہ تیری اماں نچوڑتی ہے نا اس سے زیادہ نہیں کرتی ہوں گی یہ چھالیاں۔۔۔ اس نے ہتھیلی پر دوسری سپاری کھول منہ میں ڈالی۔۔اور پھر کچھ یاد آنے کر اسکی طرف مڑی
سن کل روشنی کے گھر قرآن خوانی ہے چلے گی ؟؟؟
میں کیسے جاؤنگی اماں کام پر جائینگی تو گھر کون دیکھے گا۔۔۔۔ نور نے اپنے ناجانے کی وجہ بتائی تو وہ کندھے اچکا گئی
چل خیر ہے میں تو جاؤنگی بریانی ہی مل جائے گی کھانے کو۔۔ وہ تو سدا کی بریانی کی دیوانی تھی بس چلتا تو ہر وقت وہی کھاتی۔۔۔۔
اس نے اٹھ کر ریموٹ سنبھالا اور گانوں کا چینل لگا کر آواز تیز کردی جانتی تھی اب باہر بیٹھی عورت جلتی رہے گی۔۔۔۔
نور نے اسے تاسف سے دیکھا اور الماری میں سے کل کے لئے کپڑے نکالنے لگی
کس کی شادی ہورہی ہے جو یہ گانے اتنے تیز چل رہے بند کر نور میرے سر میں درد ہورہا ہے
وہ کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی کہ کچھ نہیں بولے گی لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔۔
اتنی تکلیف ہے تو جا کر باہر جاؤ یہ میرا گھر ہے
وہ بھی اونچی آواز میں بول کر آواز اور تیز کرنے لگی لیکن اللّٰہ کا کرنا اسی وقت لائٹ بند۔
اللّٰہ تیرا شکر… زلیخا کے ہنسنے کی آواز پر اسکے آگ لگی تھی
اللّٰہ پوچھے ان لائٹ والوں کو کمینے کہی کے جب دیکھو لائٹ کی بند کردیتے منحوس وہ بکتی جھکتی اوپر چھت پر چلی گئی جب کے اس کے چپ ہونے پر زلیخا اور نور دونوں نے سکھ کا سانس لی۔۔۔۔
روشن محلہ تمام علاقوں میں سب سے مشہور تھا تقریباً تیس کے قریب گھر تھے ایک مسجد اور کریانے کی دوکان۔۔۔۔
گلی کے کونے پر راحیل بھائی کا چپس اور سموسے کا ٹھیلا جس پر ہر وقت بچوں کا رش رہتا
اس کے علاؤہ ثریا خالہ کی ایک چھوٹی سی چیز کی دوکان بھی تو تھی جو انہوں نے گھر میں کھولی ہوئ تھی
رمضان کریانہ اسٹور پر روز رات محلے کے آدمی محفل جماتے حالات حاضرہ پر بحث کرتے تو وہی دوسری طرف رضیہ خالہ کے گھر کے باہر عورتیں چبوترے پر یا کرسی پر بیٹھ کر غیبتیں کرتی نظر آتی تو وہی لڑکیاں کسی ایک کی چھت پر ہوتی تو لڑکے باہر کبھی لڈو کیرم یا دوسرا کوئی کھیل کھیلتے نظر آتے
وہ واقعی روشن سا محلہ تھا جہاں ہر وقت رش ہوتا تھا کبھی سناٹا یا اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔۔۔
اسی محلے کے ایک دو کمروں کے گھر میں کامران صاحب اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ رہنے آئے تھے
وہ ریلوے میں کلرک تھے ایماندار اور بے حد رحم دل۔۔۔۔ انکی بیوی بھی انہیں کی طرح تھی نسا بیگم
وہ ٹوٹل تین ہی افراد تھے زندگی میں سکون تھا بہت۔۔۔
کامران صاحب نے اپنے باپ کی جائداد سے ملنے والی زمین کو بیچ کر مین بازار میں ایک دوکان خرید کر کرائے کر چڑھا دی تھی تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے کام آسکے
شادی کے دس سال بعد اللّٰہ نے انہیں اولاد سے نوازہ جس کا نام انہوں نے آنسہ کامران رکھا
گندمی رنگت پر گول گپا چہرہ اور اس پر پرکشش آنکھیں کہ دیکھنے والے کو خود ہی پیار آجائے
دوسرے بچے کی پیدائش پر نساء زندگی کی بازی ہار گئیں بچہ بھی چند دن بعد ہی چل بسا ان کی زندگیوں میں اچانک طوفان آگیا تھا۔
فریدہ بیگم نے پوتی کی زمہ داری لے لی لیکن وہ بوڑھی جان کب تک اسکے ساتھ رہتی انہوں نے کامران صاحب پر دوسری شادی کے لئے دباؤ ڈالا
وہ دوسری شادی کے لئے راضی نہیں تھے لیکن آنسہ کے لئے ہونا پڑا اور یوں ان کی خالہ زاد زلیخا ان کے نکاح میں آئیں جو ساتھ میں اپنی تین سالہ نور کو بھی لے کر آئی تھیں
جو شروع میں تو اسکے ساتھ بہت اچھی رہیں اسکے لئے اسکی ماں بن گئی لیکن پھر ولید اور عریشہ کے بعد انکا رویہ تبدیل ہوگیا فریدہ بیگم کے انتقال کے بعد کامران صاحب نے ایک فیصلہ کیا کہ اپنا گھر اور دوکان آنسہ کے نام کردی پتا نہیں انہوں نے اپنے باقی بچوں کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں لیکن آنسہ کو وہ کبھی بھی تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے وہ انکی پہلی اولاد تھی ان کو اس نے باپ کا نام دیا تھا سب سے پہلے وہ اسکا بہت خیال رکھتے تھے لیکن اس کے بعد زلیخا کا رویہ اس سے تبدیل ہوا تھا پہلے جو تھوڑا بہت پیار کرلیتی تھیں وہ بھی ختم کردیا وہ اگر بہت بری نہیں تھی اس کے ساتھ تو اچھی بھی نہیں تھیں
وہ اسے ولید اور عریشہ کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتی تھیں صرف نور تھی جو اسکے ساتھ رہتی تھی ہر حال میں زلیخا کے رویے کی وجہ سے اسکا سارا دن شبانہ کے یہاں گزرتا تھا جو اسکی ماں کی دوست تھی ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی روشنی اس کی پکی سہیلی جبکہ شان اور علی اس کے استاد اسکول کے بعد وہ ڈائریکٹ ان کے گھر آتی تھی جہاں وہ تینوں اسے سوتیلی ماں سے نبٹنے کے طریقے سیکھاتے تھے جنہیں خود کچھ آتا جاتا نہیں تھا
وہ اسے اپنے ساتھ لڑکوں والے کھیلوں میں شامل کرتے تھے تو اسے بھی گڑیا گڈوں سے زیادہ کرکٹ اور گلی ڈنڈے میں دلچسپی ہوئی
جس عمر میں لڑکیاں گھر گھر کھیلتی ہیں وہ ہاتھ میں کنچے لئے اسو پنجو کھیلتی یا کسی کی چھت پر پتنگ اڑا رہی ہوتی۔۔۔
وہ زلیخا کو جلانے کے لئے روز ان لڑکوں کے ساتھ محلے میں کرکٹ کھیلتی
کامران تو خوش ہی ہوتے تھے کہ ان کی بچی لڑکوں کے مقابلے میں نا صرف کھیلتی ہے بلکہ جیت بھی جاتی ہے باقی کنچوں اور پتنگ کو لے کر وہ اسے سمجھاتے رہتے تھے
لیکن ایک دن اسکا یہ سمجھانے والا بھی اسے چھوڑ کر چلا گیا ایک ایکسیڈنٹ میں
اسنے رو رو کر خود کو بیمار کرلیا ناجانے کتنے دن وہ باپ کی یاد میں روتی تڑپتی رہی
پھر شبانہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی علی اور شان ہر وقت اسکا دماغ کھاتے رہتے روشنی اس نے لئے ہر وقت کچھ نا کچھ نیا بناتی
یہاں اسکا بڑا دل لگا تو وہ تھوڑی سنبھلی اور دو مہینے بعد پھر محلے والوں نے آنسہ کو واپس اپنے موڈ میں دیکھا لیکن اس بار زلیخا نے اس پر سختی شروع کردی وہ اسے گھر سے نکلنے نہیں دیتی تھی
ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار سے تنگ آکر وہ چھتیں پھلانگ کر شبانہ کے گھر پہنچ جاتی
زلیخا اسے جتنا روکتی ٹوکتی وہ اتنا ہی اسکا جینا حرام کردیتی وہ روز شان اور علی سے سوتیلی ماں سے نبٹنے کے ایک سو ایک گن سیکھتی تھی
شبانہ ان کوسمجھا کر ڈانٹ کر تھک چکی تھی
لیکن ان پر اثر ہی نہیں ہوتا تھا اسے مار کٹائی وہ سیکھاتے تھے اسے بلکل ایسا کردیا تھا کہ وہ خود کو لڑکی نہیں لڑکا سمجھتی تھی اور اسے مزہ بھی اسی میں آتا تھا
کامران صاحب کے انتقال کے بعد انکا گزارہ ان کی پینشن اور دوکان کے کرائے سے ہوتا تھا اور اب زلیخا نے گھر میں ہی سلائی کا کام شروع کردیا تھا کسی کے کہنے پر اب وہ دفتروں میں کھانا پہچانے کا کام کرنے کا سوچ رہی تھیں جس کے لئے انہیں پیسے چاہیے تھے کرائے دار نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا تھا ایسے میں وہ بہت زیادہ پریشان تھیں تین بیٹیوں کا ساتھ آسان تھوڑی تھا
وہ مست مگن سی گھر میں داخل ہوئی تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ورنہ سلائی مشین کی آواز تو لازمی ہی آتی تھی
اندر آئی تو زلیخا خاموش سی اک طرف لیٹی تھی
اس نے نور کو اشارہ کیا کہ کیا ہوا
تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے اسے صبر کا کہا لیکن ہماری امل میڈم میں صبر تھا ہی کب
نور کی اماں کیوں چپ چپ لیٹی ہو؟؟
اس سے انکی خاموشی برداشت ہی نہیں ہوئی تو انکے پاؤں کا انگوٹھا ہلایا
ہٹ جا امل مجھے نہیں لگنا ابھی تیرے منہ
ہاں تو نہیں لگو لیکن ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ کیوں منہ سوجا کر بیٹھی ہو
کرایے دار نے کرایا دینے سے منع کردیا ہے بولتا ہے بھول جاؤ دوکان
نور کے بتانے پر اسکا دماغ گھوما تھا
اس کا تو باپ بھی کرایا دے گا وہ غصے میں باہر کی طرف نکل گئی
جبکہ نور اس کے پیچھے بھاگی تھی
جبکہ زلیخا نے اپنا سر پکڑا تھا