آدھی رات گزر چکی تھی مگر وٹو صاحب منہ بسورے چار پائی کے نیچے شمسی سے ناراض بیٹھے ہوۓ تھے یہ واحد جگہ تھی جہاں شمسی جھک کر وٹو کو دبوچ کر باہر نہیں نکال سکتی تھی ۔۔۔
“آخر وٹو جی آپ کس بات پر مزيد وٹو ہو گئے ہیں ؟؟؟باہر آجائیں مجھے سخت نیند آئی ہے ”
شمسی نے پورا منہ کھول کر جمائی لی تھی
“میں باہر نہیں آؤں گا آج سے میرے اور تمہارے راستے الگ ۔۔۔”
وٹو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے عزم مصمم لئے بولا تھا
“اچھا جو آدھا درجن منی ڈائناسارز پیدا کئے ہیں مجھ سے ان کا کیا ہوگا وٹو جی ؟؟”
“ان کو نوی پال لے گی ۔۔۔”
وٹو نے فورا جواب دیا تھا اس بات پر شمسی کا غصہ آسمان کو چھونے لگا تھا
“تو ٹھہر بونے جن کی اولاد ۔۔۔۔کوڈو۔۔۔۔۔ تمہیں میں نے مزيد پدرا نہ کیا تو میرا نام شمشاد عرف شمسی نہیں ۔۔ ”
شمسی نے مخصوص آواز نکال کر چار پائی ہاتھ میں اٹھا کر پیچھے پھینکی تھی جبکہ وٹو صاحب سر گھٹنوں میں دیے آنکھ بند کر کے طوفان گزرنے کا انتظار کر رہے تھے
شمسی نے وٹو کو اٹھا کر پٹ پر بیٹھایا تھا وہ غصے سے چیخی تھی
“اب لو اس کلموئی نوی کا نام ۔۔ خود کو عامر لیاقت سمجھ لیا ہے ؟؟؟؟”دوسری شادی کرے گا ؟؟؟”
“اس كی پہلی بیوی مجھ جیسی جسیم عورت ہوتی تو وہ ان بلالڑوں فارمی چوزیوں سے ہرگز شادی نا کرتا ۔۔۔”
شمسی نے اپنی اس بات پر بڑا سا منہ کھول کر قہقہ لگایا تھا
“شمسی برج خلیفہ پر ای۔مارٹ کو کون ترجیع دے سکتا ہے مگر تمہارا وٹو مجبور ہے ۔۔ نہایت ہی مجبور ۔۔۔”
وٹو کی ناک سے باقاعدہ پانی آیا تھا شمسی نرم پڑی تھی
“کیا مجبوری ہے آپ کو میری گھیٹھی سركار ؟؟”
“اماں نے مجھے دمكهی دی ہے کہ اگر میں نوی کو اپنے جوڑ کا حسین ہم سفر نہیں بناؤں گا تو وہ مجھے لیکٹوجن(ڈبے کا دودھ) نہیں بخشیں گی ۔۔۔۔
اس بات پر شمسی نے اپنے نتھنے پھیلا لئے تھے
“اچھا تو یہ ساری سازش ان دونوں بہنوں سنتا بنتا کی ہے تبھی اس دن دونوں منہ جوڑ کر ایک ہی ناک سے اکسیجن لے رہی تھیں ۔۔۔کل ہی کرتی ہوں بندوبست ۔۔۔ سنتا کا بھی اور اس بنتا کا بھی”
“خبردار شمسی جو تم نے میری ماں کا کوئی نام رکھا ہو یا اس کے ساتھ کوئی بد تمیزی کا سوچا بھی ہو ۔۔۔۔۔میں قد میں چھوٹا ضرور ہوں مگر اپنی ماں کی شان میں یہ گستاخی بلکل برداشت نہیں کروں گا ۔۔۔۔”
“اچھا وٹو ۔۔۔۔میرے پیارے ۔۔۔۔راج دلارے وٹو ۔۔۔
To be continued …..
“قسمیں بڑی نیند آئی ہے ۔۔۔شمسی یہ کہتے ہی اگلے لمحے خراٹے مارتے سو چکی تھی ۔۔۔جس پر وٹو آہستہ آہستہ شمسی کے پٹ سے نیچے اترا اور پیٹی پر جا کر سو گیا ۔۔۔
صبح ۔۔۔۔۔۔
شمسی بچوں کے لئے ناشتہ بنا کر وٹو اور نهنی کے پاس آ کر بیٹھی تھی ۔۔۔شمسی نے بڑی عزت سے ساس کو آدھا پراٹھا دیا تھا جس پر ساس نے گدھی کی طرح منہ چڑھایا تھا
“اماں ۔۔۔لے خود ہی بات کر لے اپنی بہو سے ۔۔ ”
وٹو نے ہیروز كی طرح اس بات كی مناسبت سے اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھنے كی کوشش کی تھی مگر وہ پیچھے کو الٹ گیا تھا ساس نے اٹھانے كی بجاۓ پراٹھے کا بڑا سا نوالہ منہ میں ڈالے اوں اوں کی آواز نکال کر شمسی کو اسے اٹھانے کا اشارہ کیا تھا
شمسی نے بے دلی سے اسے اٹھا کر بیٹھا دیا تھا
“وٹو اب چھوڑ دیں نا اس بات کو ۔۔۔رات گئی بات گئی ۔۔ ”
وٹو کو تاؤ چڑھا تھا مگر اس بار وہ چارپائی کے سینٹر میں ہو کر بولنا شروع ہوا تھا
“شمسی مجھے تم سے بس اس بات کا جواب دركار ہے کہ کیا میری کتا ہے جو تم اس کو روٹی ڈالنے کا کہہ رہی تھی ؟؟؟
شمسی کو وٹو کی اس بات سے ٹھنڈے پسینے آے تھے
“نہیں ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ٹنگ سلپ ۔۔۔۔۔۔۔۔تھا ۔۔۔۔ ورنہ میری ۔۔۔۔یہ کیا مجال جو میں ۔۔ آپ كی اماں کو ۔۔۔۔ایسا کہوں ۔۔۔۔”
وہ وٹو سے مغلوب ہو کر بولی تھی
“نہیں ۔۔۔مطلب تو یہی تھا تمہارا کہ میری بوڑھی ماں کتا ہے ۔۔ ”
“نہیں وٹو آپ بلکل غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔ ”
نهنی لفظ کتا بولنے پر نوالہ مشکل سے نگل کر وٹو کو غصے سے دیکھ رہی تھی
“پھر مطلب کیا تھا ۔۔۔روٹی ڈال دو سے تمہارا ؟؟؟کیوں کہ روٹی تو گھر کے پالتو کتے کو ہی ڈالتے ہیں ۔۔ ہیں نہ اماں ؟؟”
وہ ماں سے اپنی ہمت پر داد وصول کرنے کی غرض سے مخاطب ہوا تھا ماں نے اسے کھا جانے والی نظر سے دیکھا تھا وٹو کو لگا میری بات میں زور کی کمی رہ گئی ہے شاید اس نے پھر سے شمسی کی طرف دیکھتے ہوۓ بات شروع كی تھی
“نہیں شمسی تم مان کیوں نہیں لیتی کہ تم نے میری ماں کو کتا ہی ۔۔۔۔”
اس سے پہلے کے وٹو اپنا جملہ مکمل کرتا ماں نے اسے کھینچ کر تھپڑ رسيد کیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ لڑک کر زمین پر جا گرا تھا وٹو نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے ماں کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھا تھا
“کیا کتا کتا لگا رکھی ہے توں نے تین فٹیے ؟؟؟؟میں نے شمسی کو ذلیل کرنے کو کہا تھا اور تم کب سے ادھر میرے پہلو میں بیٹھا میری مٹی پلید کر رہا ہے ؟؟؟”
“اس نے صاف صاف نہیں کہا تھا
مگر تم ہو کے پہاڑہ ہی بنا لیا ہے ۔۔۔۔
ایک دونی دونی ۔۔۔۔تے دو دونی چار ۔۔
نهنی نے پولے منہ سے نرم نرم کہا تھا
اتنا برا مجھے شمسی کے دو کنال پر محیط منہ سے نہیں لگا تھا جتنا تمہارے اس چٹانک بھر منہ سے ۔۔۔
“چل نس اب کام پر دفع ہو ۔۔۔شکل گم کر ۔۔۔”
ساس کے منہ میں گویا الفاظ کا ریلہ آیا تھا کچھ الفاظ گال کے گوشت سے ٹکڑا کر باہر نکلنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔
شمسی کو آج اپنی ساس دنیا كی عظیم عورت لگ رہی تھی ۔۔۔
وٹو نے آنسو صاف کر کے شمسی كی طرف دیکھا تھا جس نے چیچی انگلی آگے کر کے کچی کا سائن بنایا تھا
وٹو نے بچوں كی طرف دیکھا تھا جو انگوٹھے نیچے کی طرف کر کے وٹو کو لوزر کہہ رہے تھے ۔۔
وٹو نے آج فرط جذبات سے مغلوب ہو کر خود کو نیچے كی طرف پریس کیا تھا جس پر سب اس کے اس نئے فیچر پر حیران ہوۓ تھے
پھر اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا جس پر وہ مینڈک كی طرح اوچھل کر سیدھا دروازے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔
صبح کی سُبکی کے بعد وٹو رات سب کے سو جانے کا انتظار کر کے گھر واپس آیا تھا وہ سب سے پہلے کچن کچھ کھانے كی غرض سے گیا تھا
آج قیمہ گوشت بنا تھا جو شمسی کی خاص ڈش اور وٹو کی خاص پسند تھی وہ پلیٹ بھر کر دو روٹیاں لئے کچن کے شلف پر چوکڑا مارے بیٹھ گیا تھا
ابھی پہلا نوالا ہی لیا ہوگا کہ دروازے میں شمسی آئی کھڑی تھی
“آگئے تھے تو مجھے بتا دیتے کھانا ڈال ۔۔۔۔نہیں میرا مطلب ہے نکال دیتی ۔۔۔”
شمسی نے جلدی سے جملہ مکمل کیا تھا
“تم جاؤ شمسی میں کھانا کھا کر آتا ہوں ”
وٹو بڑا سا نوالہ لے کر بھاری آواز میں بمشکل بول پایا تھا
شمسی نے ریورس گئیر لگایا تھا وٹو نے سکون کا سانس لیا تھا
۔
آج اتوار کا دن تھا سب گھر پر تھے سارے کام نپٹا کر شمسی باریک كنگی لے کر بیٹھی تھی جبکہ وٹو میاں بچوں کے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیل رہے تھے دروازے پر دستک ہوئی تھی
شاہ نے دروازہ کھولا تھا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹی بجائی تھی جس پر سب اس کی طرف متوجہ ہوۓ تھے اسی لمحے نوی “میں ہوں نہ” کی امریتا راؤ کی طرح لہک لہک کر اندر آئی تھی
وٹو جی کے پیچھے وائیلن بجاتے ہوۓ بونے لڑکوں کا ٹولا بنا تھا خاص دھن بجنے لگی تھی جبکہ ساتھ ہی ٹھنڈی ہوا میں بڑے بڑے پت جھڑ کے پتے گرنا شروع ہوۓ تھے ۔۔۔۔۔۔
سب غا ئب ہوگئے تھے اس موجودہ منظر میں صرف وٹو اور نوی ہی تھے ہاں نبراس،شاہ، جيزل اور غزلان تیز ہوا میں یہاں وہاں قلاباذی مارتے نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔
نوی نے وٹو کو پھول دینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا وٹو پھول پکڑنے کی بجائے بھاگ کر شرماتا ہوا دروازے سے جا لگا تھا “تڑاخ” کی آواز پر وٹو نے اپنی آنکھیں کھول کر پیچھے دیکھا تھا
شمسی نے نوی کے منہ پر تھپڑ جڑا تھا
نوی منہ پر ہاتھ رکھے انتقامی شکل بنائے شمسی کو دیکھ رہی تھی
“وٹو صرف میرا ہے شمسی ۔۔۔۔۔۔اس کا وجود تراشہ ہی میرے لئے گیا ہے ۔۔۔۔تم کیا سمجھتی ہو کہ تم عجیب و غریب بچے پیدا کر کے میرے وٹو کو مجھ سے ۔۔۔۔۔مجھ ۔۔۔۔۔۔نوی سے اسے چھیننے میں کامیاب ہو جاؤ گی اور میں ۔۔۔ میں خاموش رہوں گی ۔۔۔۔”
“نہیں ۔۔۔۔”
“نہیں ۔۔۔ ”
“ہر گز نہیں ۔۔۔”
نوی نے وٹو کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا جس پر وٹو مرغے کی ٹوکری کے اندر جا چھپا تھا
“نوی تمہاری اماں بھی آئی تھی کل تم دونوں جتنی بھی کوشش کر لو مجھ سے وٹو کو نہیں چھین سکتے وہ ان صحت مند موٹے بچوں کا کلم کلا باپ۔۔۔۔ سالم باپ ہے ۔۔۔ کوئی مذاق نہیں ۔۔۔۔”
شمسی نے نتھنے پھلائے تھے
“موٹی عورت ۔۔۔۔۔۔یہ تو وقت ہی بتائے گا”
نوی واپس جانے کے لئے مڑی تھی جب شاہ نے باپ کو اشارہ دیا تھا
“وٹو یار باہر آجا نوی پھپھو جا رہی ہے”
نوی دس منٹ تک وٹو کی طرف دیکھتی رہی مگر کسی قسم کی حرکت نا ہونے پر وہ چل پڑی تھی
“رک جاؤ”
نهنی نے پولا پولا کہا تھا جس پر نوی نے فاتحانہ نظروں سے شمسی کی طرف دیکھا تھا
“یہ کمیٹی کے پیسے اپنی ماں کو دے دینا کل بھی وہ ہی مانگنے آئی تھی ندیدی کہیں کی”
“مجھے بھی اماں نے وہ ہی لینے بھیجا تھا مگر میں وٹو میں کھو گئی تھی خالہ ۔۔۔۔اپنی بہو بنا لو نا مجھے ۔۔۔۔۔قسم سے بلکل بھی خدمت نہیں کروں گی خالہ تیری ۔۔۔۔۔هاهاهاهاها ۔۔۔۔۔۔۔اپنوں میں ویاہ ہو جائے اور ساس پھوپھی یا خالہ ہو تو زیادہ ہی زہر لگتی ہے قسمے ۔۔۔۔۔”
“چل نکل یہاں سے بے شرم نا ہو تو میرے ویاۓ پتر کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے میری بھینس جتنی بہو نظر نہیں آتی تمہیں ؟؟؟؟”
اس بات پر نوی نے نهنی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہ لگایا تھا ۔۔۔۔
پولی نے آنکھ مار کر شمسی کی طرف دیکھا تھا جس سے شمسی کا دل کیا تھا ساس پر چار پائی الٹا دے اس نوی سميت ۔۔۔۔مگر وہ غصہ پی گئی تھی ۔۔۔
“میں بتا رہا ہوں اماں میں نوی سے ہی شادی کروں گا چاہے جو مرضی ہو جائے ۔۔۔۔”
وٹو ٹوکری کے نیچے سے بولا تھا
“وٹو جی ۔۔۔۔داٹس ناٹ فیئر ۔۔۔۔۔۔۔کیا کمی رہ گئی تھی میری محبت میں ؟؟؟؟”
“چلو بچوں ہم یہاں ایک سیکنڈ اور نہیں گزارے گے ۔۔۔”
شمسی نے دروازے کی طرف چلنا شروع کیا تھا جبکہ بچوں نے پیچھے سے قلابازی مارکر اس کا ساتھ دیا تھا
وٹو ٹوکری کے نیچے سے فورا نکلا تھا
“اماں ۔۔۔۔چل توں بھی کھسک ۔۔۔۔۔۔میں ذرا گھٹیا رومانس کر لوں نوی کے ساتھ ۔۔۔”
“ارے توں بھول گیا کیا ؟؟؟اس ناول کی رائیٹر جمیلہ جی ہیں ۔۔۔۔رومانس کا تو سوچنا وی نا ۔۔۔۔”
“اچھا نوی میں تمہارے لئے پھول لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔تم تب تک میری اماں کو برداشت کرو ۔۔۔”
وٹو شرماتا ہوا دروازے سے باہر نکلا تھا ۔۔۔۔۔