وہ سب رات کو چھت پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔
“ویسے حمزہ بھائی!لندن میں کوئی تو پسند آئی ہوگی آپکو؟”اریبہ کے کہنے پر سمرہ نے اسکو آنکھیں دکھائیں۔ جسکو حوریہ زبردستی ساتھ لائی تھی۔
“کیوں اپنی بہن کے ہاتھوں مجھ معصوم کا قتل کروانا چاہتی ہو؟”حمزہ شرارتی نظروں سی اسکو دیکھتے ہوئے بولا۔
“ایک تو آئی ہوگی ویسے”اریبہ ہنوز اپنی بات پر قائم تھی۔
“رہنے دو لڑکی!اتنی لڑکیاں دیوانی تھیں اسکی پر محترم کسی کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے بلکہ پورا سر اٹھا کر دیکھتے اور تو اور اگر کسی لڑکی کے برابر سے گزرنا ہوتا تو آنکھیں بند کر کے گزرتے تاکہ غلطی سے ٹکر ہوجائے۔”(غلطی پر زور دے کر کہا)کاشان کے کہنے پر سب کی ہنسی چھٹی تھی۔
“اپنی باتیں کیوں بتا رہے ہو؟”حمزہ نے الٹا اسکو پھنسا لیا۔
شہوار!چائے گڑیا! فیضان کے کہنے پر وہ مسکراتی ہوئی کھڑی ہوئی۔
کون کون پیئےگا ایک بار بتا میری بہن بار بار نہیں بنائیگی۔”حوریہ کے کہنے پر سب نے ہاتھ اٹھا لیا
“اور ہاں کچھ کھانے کو بھی”ارسلان نے ہانک لگائی جبکہ حوریہ نے اسے “پینڈو”کا لقب دے دیا۔
“سمرہ آپی آپ بھی چلیں نا ساتھ”شہوار نے اسکو ساتھ لے جانا چاہا تو وہ فورا اٹھ کھڑی ہوئی۔
_______________________
“سنو سنو سنو!!!”وہ سب چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے جب فائز اچھلتا ہوا آیا۔
“سناؤ سناؤ سناؤ!!!”حوریہ نے اسی کے انداز میں کہا
“بینش آپی پرسوں صبح بذریعہ جہاز اپنی تمامتر خوبصورتی سمیت کسی کے دل میں ڈوڑے جمانے عزیز از ملک پاکستان کے شہر کراچی تشریف لارہی ہیں”فائز کے خبر دینے کے انداز میں سب ہنس پڑے البتہ فیضان جی بھر کے بدمزہ ہوا تھا۔
بینش بڑی تائی کی لاڈلی بھانجی تھی جو امریکہ میں مقیم تھی۔جب بھی کراچی آتی فیضان سے چپکنے کی کوشش کرتی جبکہ فیضان ریزرو سا رہتا تھا۔بینش شہوار کو ایک حقیر چیز سمجھتی تھی دونوں بہن بھائی کیلئے وہ ایک عذاب سے کم نہیں تھی۔
_______________________
“پتہ نہیں کونسی الوں والی نسل آگئی ہے رات کو جاگتے ہیں دن میں سوتے ہیں اللہ بخشے ہماری اماں کو فجر کے بعد تو بستر پر بیٹھنے بھی نہیں دیتی تھیں کی کہیں سو ہی نہ جائیں ” وہ سب فجر کے بعد سوئے تھے سوائے شایان اور فیضان کے انکو آفس جانا تھا اسلئے دونوں جلدی سونے چلے گئے تھے اور ابھی ناشتہ کی میز پر دادی کا سامنا ہوا تو باقی سب کا غصہ انپر اتر رہا تھا۔
“ارے دادی جان بچے ہیں اور چھٹیاں بھی تو ہیں نا۔۔۔”شایان نے ٹھنڈا کرنا چاہا
ارے پڑے ہٹو!! ہم کیا بچپن سے بوڑھے ہیں ہم بھی اتنے اتنے سے تھے اسوقت پر مجال ہے کہ کبھی فجر کے بعد سوئے ہوں۔”دادی شاید افسوس کر رہی تھیں۔
“اسمیں اب بھلا ہماری کیا غلطی آپکی امی تھیں ہی اتنی ظالم!!فیضان بڑبڑایا۔جسپر شایان نے ہنسی روکنے کیلئے منہ دوسری طرف پھیر لیا
“ہیں کیا بولا؟”دادی نے چشمہ سیدھا کرتے ہوئے بولا۔
” جج جی یہی کہ رہا تھا نا کہ آپکی والدہ محترمہ واقعی ملنسار شریف اور نیک طبیعت خاتون تھیں ایسا ہی ہونا چاہیئے ہر عورت کو۔۔فیضان نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور جوابا دادی اپنی ماں کی قصیدہ خوانی کرنا شروع ہوگئیں
فیضان اور شایان نے آج کم ہی کھانے پر اکتفا کیا اور آفس کیلیئے آٹھ گئے۔
_________________________
ارے میں کہتی ہوں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے گھر پر ہزاروں کام پڑے ہیں اور یہ بزرگ صاحبان بستر پر
خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔”وہ سب اونگتے ہوئے ناشتہ کے ساتھ ساتھ دادی کی ڈانٹ بھی کھارے تھے۔
“شہوار انکو خاموش کرواؤ نہیں تو مجھے ہارٹ اٹیک ہوجائیگا” اریبہ اسکی جانب جھکتی ہوئی ہلکی آواز میں بولی
“اے لڑکی!کیا بول رہی ہے؟دادی کی نظریں تیز بھی تھیں
“ارے دادی وہ میں کہ رہی تھی واقعی آپ بالکل بجا فرما رہی ہیں ہم نے واقعی سو کر بہت بڑی غلطی کی”اریبہ نے بوکھلائے انداز میں کہا۔
“اماں آئیے آپکی سر کی مالش کردوں”پھپھو جو کب سے بچوں کی درگت بنتی ہوئی دیکھ رہی تھیں اب انکو آخر رحم آہی گیا اور دادی کو کمرے میں لے گئیں اور ان سب نے سکون کا سانس لیا اور ناشتہ کرنے لگے۔
حوری!!!وہ حوریہ کے کمرے میں اسکو بلانے آئی لیکن حوریہ کو واشروم میں پاکر وہیں بیٹھ گئی اور ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگی جب اچانک اسکو تکیہ کے نیچے ڈائری رکھی نظر آئی۔
“اووہ تو محترمہ ڈائری بھی لکھتی ہیں۔شہوار نے اپنے ہونٹ سکورے اور ہاتھ بڑھا کر اس ڈائری کو نکالا اور دیکھنے لگی۔تھی تو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت لیکن طبیعت سے مجبور ہو کر ڈائری کھول لی اور جیسے جیسے اوراق پلٹتی گئی اسکی آنکھیں حیرت سے کھلتی گئیں۔گلابی رنگ کی ڈائری اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی باہر سے ہر ورقہ میں فیضان کے اسکیچس بنائے ہوئے تھے اور ہر اسکیچ کے نیچے ایک شعر لکھا تھا جو اس اسکی محبت کی واضح دلیل تھا۔
اس نے ڈائری واپس ویسے ہی رکھ دی جیسے پہلے تھی اور حوریہ کا انتظار کرنے لگی۔
کچھ دیر بعد حوریہ واشروم سے نہا کر نکلی تو شہوار کو اپنے کمرے میں دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور سب سے پہلی نظر ڈائری پر ڈالی جو بالکل ویسی رکھی تھی جیسے وہ رکھ کر گئی تھی اور پرسکون ہوگئی۔
کیا ہوا شہوار؟”شہوار سوچوں میں گم تھی کہ اسکو حوریہ کے نکلنے کا پتہ نہیں لگا تھا۔
“کچھ نہیں وہ چھوٹی تائی کہ رہی تھیں کہ تم آج جاکر سمرہ آپی کے نکاح کیلئے سوٹ کے آؤ لیکن میں سوچ رہی تھی کل چلیں گے فیضی بھئی کے ساتھ۔”شہوار اسکو گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“ہاں ٹھیک جیسی تمہاری مرضی”حوریہ نے شہوار کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
“ارے کہاں جارہی ہو بیٹھو نا۔”شہوار کو اٹھتا دیکھ کر حوریہ نے کہا۔
نہیں مجھے دادی جان سے کام ہے پھر آتی ہوں۔”شہوار مسکراتی ہوئی چلی گئی وہ منٹوں میں ایک فیصلہ کر چکی تھی۔
_______________________
فیضی بھائی؟؟شہوار چھت پر آئی تو فیضان کو وہاں دیکھ کر حیران ہوگئی کیونکہ عموما وہ ادھر نہیں آتا تھا۔
“جی بھائی کی جان”فیضان نے پیار سے کہا
“مجھے آپ سی ایک بات کرنی ہے”
“ہاں بولو”
“مجھے نا ایک بھابھی چاہئے”شہوار نے ایسے کہا جیسے ایک چیز مانگ رہی ہو۔
“ایک کیوں چار لی کو نا”فیضان اسکو چھیڑنے لگا
“خبردار جو میری دوست کا دل دکھانے کا سوچا بھی تو”شہوار تو ہتھے سے اکھڑ گئی۔
“کیا مطلب کونسی دوست؟”فیضان حیران ہوا۔
“بھائی وہ میں نے آپکو کچھ بتانا ہے”شہوار نے کچھ ڈرتے ہوئے کہا مبادا وہ انکار ہی نہ کردے
“بولو”فیضان نے دلچسپی سے کہا۔اور پھر شہوار نے ساری بات بتادی جسکو سن کر فیضان بہت حیران ہوا
“بھائی آپکو کیسی لگتی ہے حوریہ؟؟”شہوار نے دلچسپی سے پوچھا
“اچھی ہے”فیضان نے مسکراتے ہوئے کہا
“پھر میں دادی سے بات کرلوں نا”شہوار کو بہت جلدی تھی
“نہیں شہوار کیا پتہ کسی اور وجہ سے اس نے اسکیچس بنائے ہوں۔”
“یار آپ لڑکیوں کے معاملات کو نہیں سمجھیں گے”شیوار نے چڑتے ہوئے کہا
“اچھا میری ماں جو کرنا ہے کرلو اب میں جارہا ہوں کمرہ میں کافی کے آؤ چندا”فیضان اسکے بال بگاڑتا ہوا چل دیا جبکہ شہوار اسکے”میری ماں” کہنے پر ہنس دی
_____________________
“دادی!”شہوار دادی کے کمرے میں آئی تو داری نماز پڑھ رہی تھیں شہوار ادھر ہی بیٹھ گئی۔
“بولو بیٹی”وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئیں تو شہوار کی طرف متوجہ ہوئیں۔
“دادی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے”شہوار کچھ کچھ ہچکچا بھی رہی تھی۔
“ارے بول بھی”اور پھر شہوار نے ساری بات انکے گوش گزار دی۔
“بس دادی جان کل آپ ہی اعلان کردیں گی”شہوار کو کچھ زیادہ ہی جلدی تھی۔
“ارے رک جا بھی اسکے ماں باپ سے تو بات کرنے دے۔”دادی اسکی جلدبازی سے خائف ہوئیں تو وہ ہنس دی اور انکے سر پر مالش کرنے کھڑی ہوگئی۔
______________________
اگلے دن صبح صبح بینش پہنچ گئی تھی اور اب وہ سب سے مل رہی تھی۔شہوار کو اسکی موجودگی ہمیشہ ڈرا کر رکھتی تھی۔ابھی بھی اس نے سب کو گلے لگایا سوائے شہوار کے تو وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
“خالہ جانی!فیضان کہاں ہے؟؟؟جب کافی دیر تک وہ نظر نہیں آیا تو بینش نے تائی سے پوچھ ہی لیا ۔
“آفس میں ہی ہوگا کیوں تمہیں کوئی کام ہے؟” تائی نے حیرت سے پوچھا۔
“نہیں نہیں مجھے اس سے کیا کام ہوگا خیر آپ بتائیں تیاری کیسی جارہی ہے؟” بینش نے موضوع بدلا
“تیاری کہاں نکاح ہی تو ہے”تائی نے من چراتے ہوئے کہا اور دونوں آپس کی باتیں کرنے لگ گئیں۔
________________________
“میں حمزہ اور سمرہ کے ساتھ فیضان اور حوریہ کا بھی نکاح کردینا چاہتی ہوں۔” وہ سب ڈنر کر رہے تھے جب دادی نے ہی اعلان کیا جسپر بڑی تائی اور تایا حیران تھے اور چھوٹی تائی اور تایا مطمئن تھے کیونکہ رات کو دادی نے ان سے مشورہ کر کے ہی بات کہی تھی یہ اعلان کیا تھا شہوار شایان حمزہ سمرہ اریبہ ارسلان اور کاشان سب کیلئے ہی خوشی کی خبر تھی اور فیضان اپنی بہن کی جلدبازی پر مسکرایا حوریہ کا تو پوچھو ہی نہیں اسکا منہ ایسا کھلا تھا گویا دنیا کا آٹھوں عجوبہ نمودار ہوگیا ہو۔بینش کیلئے یہ خبر نہایت شاک گزری تھی
“حوری منہ بند کرلو جتنا بڑا کھولا ہوا ہے پورا چڑیا گھر گھس جائیگا” آریہ اسکی کیفیت سے حضرت اٹھاتے ہو ئے بولی جسر سب ہنس دیئے اور حوریہ نے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا اور شرما کر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی کیونکہ وہ دشمن جان بھی اسی کو دیکھ رہا تھا۔
______________
زندگی میں کبھی کبھی ایسے مواقع بھی آتے ہیں انسان اللہ کی رحمت اور محبت پر رشک کرنے لگتا ہے ل۔یہی حال حوریہ کا تھا وہ خوش تھی بے انتہا خوش اسکے گمان میں یہ سب اتنا آسان نہیں تھا لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ جب راتوں کو اللہ سے مانگ لو تو وہ ایسے دروازے کھول دیتا ہے جسر انسان کا گمان بھی نہیں گزرتا۔وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی جب شہوار نے اسکے سامنے ہاتھ لہرایا وہ فورا آٹھ کر اسکو گلے لگانے لگی تو شہوار دور ہوگئی۔
“دور ہٹ جاؤ بات نہیں کرو مجھ سے”شہوار کے انداز پر حوریہ تو پریشان ہوگئی تھی۔
“کیا ہوا شہوار،”
“دنیا جہاں کی باتیں مجھے بتائی جاتی تھیں لیکن دل کی بات مجھ سے ہی چھپائی۔۔
“تمہیں کیسے پتہ؟؟”حوریہ نے حیرانی سے پوچھا۔جوابا شہوار نے ڈائری سے لے کر دادی سے بات کرنے تک ساری بات بتادی
“پاگل تم نے انکو بھی بتادیا؟؟”
“ہاں تو شادی ہی ان سے ہونی ہے انکو بتانا تو ضروری تھا”شہوار نے “ان”پر زیادہ زور ڈالا۔
اور حوریہ اسکو منانے لگی کیونکہ وہ اپنی اکلوتی دوست کو ناراض نہیں کر سکتی تھی اور دونوں گلے لگ گئیں اور شہوار کو اندازہ ہوگیا کہ حوریہ سے بڑھ کر کوئی اسکو نہیں سمجھ سکتا اسکی بھابھی بننے کیلئے حوریہ پرفیکٹ تھی۔
“ہائے!” فیضان آفس سے واپس آکر اپنے کمرے میں جارہا تھا جب بینش اچانک پتہ نہیں کہاں سے نمودار ہوئی۔فیضان سخت کوفت میں مبتلا ہوا۔
“اسلام علیکم”فیضان نے جواب دینے کے بجائے سلام کیا جسپر بینش بے ہودہ انداز میں ہنسی
“و علیکم”شاید اسکو سلام کا پورا جواب بھی نہیں آتا تھا۔فیضان کو بہت افسوس ہوا کم از کم ایک مسلمان کو سلام تو پورا آنا چاہئے چاہے وہ کتنا ہی آزاد خیال کیوں نہ ہو۔فیضان اندر کی جانب بڑھنے لگا جب بینش واپس راستہ میں آگئی
“کیسے ہو؟” بینش نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا
“میں جیسا بھی ہوں تمہیں اس سے کیا اور بار بار میرے راستہ میں مت آؤ جب میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں تو تم بھی اپنے کام سے کام رکھو”فیضان نے اچھی خاصی سنائی۔
“بہت خوش ہو تم حوریہ سے منگنی پر ہونا بھی چاہیے اتنی دولت جو ہے اسکے پاس اور تم بے چارے یتیم۔۔۔۔” آگے وہ بولتی جب فیضان نے ہاتھ اٹھا کر زور سے “بس” کہا
“بس بہت ہوگیا آگے ایک لفظ بھی کیا تو زبان کھینچ لوں گا اور آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ سب سے زیادہ دولت میرے پاس ہے دونوں تایا سے بھی زیادہ اسلئے مجھے دولت کی کوئی ضرورت نہیں آئی سمجھ اب آئندہ میرے سامنے مت آنا”فیضان کہ کر آگے بڑھ گیا لیکن بینش اسکے حصول کیلئے منصوبے بنانے لگی۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...