اس نے خود کو تختے پر اس طرح لٹا دیا کہ اس کا سر اور سینہ تختے پر جبکہ باقی جسم پانی میں تھا کچھ ہی دیر میں وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکی تھی ۔
اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ کتنی دیر بیہوش رہی ۔۔۔ لیکن جب اس کے حواس کچھ بحال ہوئے تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ڈوب رہی ہے ۔ بے اختیار اس نے ہاتھ پیر چلانے کی کوشش کی تاکہ خود کو ڈوبنے سے بچا سکے ۔۔۔ لیکن تبھی اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنا دائیاں بازو نہیں ہلا پارہی ۔ جیسے اس کا دائیاں بازو کہیں جکڑا ہوا ہو ۔
اسی وقت اس کی سماعت سے ایک نسوانی آواز ٹکرائی۔
” ریلکس ۔۔۔۔ حرکت مت کریں کینولا اکھڑ جائے گا۔” اور اس آواز نے جیسے اس کے لاشعور کو جھنجھوڑ کر اس پوری طرح سے ہوش دلا دیا ۔
اسکی آنکھیں کھلیں تو اس نے اپنے آپ کو ہاسپٹل کے بیڈ پر پایا ۔۔۔ اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔ بیڈ کے ساتھ ایک نرس موجود تھی جس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا بائیاں بازو پکڑ کر اسے مضبوطی سے دبا رکھا تھا ۔
پندرہ منٹ تک وہ کچھ بولنے کے قابل بھی نہ ہوسکی ۔
اس کے ساکت ہونے کے بعد نرس نے اس کا بازو چھوڑ دیا ۔ اور اس کا بلڈ پریشر، نبض سمیت دیگر ضروری چیک اپ میں مصروف ہوگئی ۔
” میں ۔۔۔کہاں ہوں ۔۔۔” کافی دیر بعد کورا نے ہوش میں آنے کے بعد پہلا جملہ کہا ۔
” لائف کیئر ہاسپٹل ۔۔۔ آپ لیوانڈر آئی لینڈ میں ہیں۔” نرس نے کہا۔
” اوہ۔۔۔ یہ جزیرہ کہاں ہے ؟ سینڈزبرگ سے کتنا دور ؟” کورا نے پوچھا ۔۔۔
” تقریباً 250 کلومیٹر ۔۔۔” نرس نے کہا ۔
اسی وقت ایک ڈاکٹر اس کمرے میں داخل ہوا ۔ وہ ایک ستائیس اٹھائیس سال کا نوجوان شخص تھا ۔
” آپ کو ہوش آگیا ۔ گریٹ ۔۔” ڈاکٹر نے اس کے بیڈ کے نزدیک پہنچتے ہوئے کہا ۔
” اب کیسی طبعیت ہے ؟ کیسا محسوس کررہی ہیں ۔۔۔؟ ڈاکٹر نے پوچھا اور اس کے معائنے کے لیے سٹیتھوسکوپ گلے سے نکال کر کان میں سیٹ کرنے لگا ۔
” شدید نقاہٹ ہے اور جسم درد بھی ۔۔۔” کورا نے کہا ۔
ڈاکٹر معمول کے چیک اپ میں مصروف ہوگیا ۔۔۔
” پریشانی کی بات نہیں۔ اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر آپ کو واضح بہتری محسوس ہوگی ۔۔۔” چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے کہا اور ایک پیڈ پر نسخہ لکھنے میں مشغول ہوگیا ۔
نسخہ لکھنے کے بعد اس نے نرس کاغذ نرس کو پکڑادیا۔۔۔
” ڈاکٹر صاحب ، میں یہاں کیسے پہنچی ؟” کورا نے پوچھا ۔
” ماہی گیروں کی ایک بوٹ سے آپ کو بیچ سمندر بیہوشی کی حالت میں ایک دھاتی چادر کے ٹکڑے سے لپٹا ہوا دیکھ لیا گیا تھا ۔ انہوں نے آپ کو سمندر سے اپنی بوٹ میں منتقل کیا ۔۔۔ ان ماہی گیروں کا تعلق یہیں لیوانڈر آئی لینڈ سے تھا اور اس وقت وہ واپسی کے سفر پے تھے ۔ چنانچہ ساحل پر پہنچنے کے بعد انہوں نے ایمبولینس کو کال کی اور اس طرح آپ کو ہسپتال منتقل کردیا گیا ۔۔۔آپ کو پورے 10 گھنٹے بعد ہوش آیا ہے۔” ڈاکٹر نے تفصیلاً بولتے کہا۔
” کیا میرے علاؤہ بھی کوئی زندہ بچ پایا ۔۔۔؟ کورا نے پوچھا ۔
” آپ کہاں اور کیسے حادثے کا شکار ہوئیں ۔۔؟ ڈاکٹر نے پوچھا ۔
” میں بلیو کوئین نامی فیری کے مسافروں میں سے ہوں ۔۔” کورا نے کہا اور ڈاکٹر یہ سن کر چونک پڑا۔
” اوہ۔۔۔ لیکن آپ کو جائے حادثہ سے بہت طویل فاصلے پر ریسکیو کیا گیا ۔ اس لیے میرا ذہن اس طرف نہیں گیا ۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ آپ کہیں اور حادثے کا شکار ہوئی ہوں گی کسی اور بوٹ پر۔” ڈاکٹر نے کہا۔
” میں ایک دن اور دو راتیں سمندر میں رہی اور اس دوران ، سمندر کے لہروں نے مجھے اس تختے سمیت کافی دور پہنچادیا ہوگا ۔۔۔” کورا نے کہا۔
” بدقسمتی سے ۔۔۔اس حادثے میں آپ کے علاؤہ کوئی سروائیور نہیں ہے۔” ڈاکٹر نے کہا۔
” مائی گاڈ۔۔۔۔ بہت برا ہوا۔” کورا نے غم آمیز لہجے میں کہا ۔
” آپ اگر اپنے خاندان سے رابطہ کرکے اپنی خیریت کی اطلاع کرنا چاہیں تو میرا موبائل یوز کر سکتی ہیں ۔۔۔” ڈاکٹر نے کہا۔
” جی ضرور ۔۔۔ شکریہ۔” کورا نے کہا جس پر ڈاکٹر نے اپنا سیل فون نکال کر اسے پکڑایا ۔۔۔ کورا نے یکے بعد دیگرے اپنی امی ، ابو اور بھائی کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔ لیکن کسی دفعہ بھی اس کا رابطہ نہ ہو پایا ۔
” پتا نہیں کیوں۔۔۔ کسی کا نمبر نہیں مل رہا۔” کورا نے کہا۔
” ڈونٹ وری ۔۔۔ ہم اتھارٹیز کو آپ کے زندہ بچنے کی اطلاع کردیتے ہیں۔ وہ خود ہی آپ کے خاندان سے رابطہ کرکے انہیں آپ کی خیریت کی اطلاع کر دیں گے اور آپ کی واپسی کا بندوبست بھی کردیا جائے گا ۔” ڈاکٹر نے کہا ۔
” نہیں ڈاکٹر صاحب ، میں آپ سے درخواست کروں گی کہ فی الوقت میرے بچ نکلنے کی اطلاع اتھارٹیز کو نہ کی جائے ۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ آفکورس واحد سروائیور ہونے کا مطلب ہے اتھارٹیز بھی اور میڈیا بھی ، سبھی کی کوشش ہوگی کہ مجھ سے مکمل انکوائری کی جاسکے اس حادثے سے متعلق کہ کیوں ہوا کیسے ہوا کب ہوا ایک ایک تفصیل ، درجنوں سوالات ۔۔۔ میری ذہنی کیفیت اس وقت قطعاً موزوں نہیں ایسی کسی انکوائری کے لیے ۔ میں شدید ڈسٹرب اور انتہائی مغموم ہوں۔” کورا نے کہا۔
” اٹس اوکے ۔۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں۔
ویسے آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟” ڈاکٹر نے کہا ۔
” میں ملبری ٹاؤن سے ہوں۔۔۔” کورا نے کہا تو ڈاکٹر چونک اٹھا ۔
” رئیلی۔۔۔۔ ؟ آپ ملبری ٹاؤن سے ہیں ؟ میرا تعلق بھی بیسکلی ملبری ٹاؤن سے ہے ۔۔۔ میرے بچپن کا زیادہ حصہ ملبری ٹاؤن میں گزرا ۔ بعد میں پاپا کے کنسٹرکشن بزنس کی وجہ سے ہمیں بھی یہیں لیوانڈر آئی لینڈ منتقل ہونا پڑا ۔۔۔ ابھی میں راؤنڈ پر ہوں ۔ واپسی پے چکر لگاتا ہوں ، پھر مزید بات ہوگی ۔۔۔” ڈاکٹر نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کار بدستور ملبری ٹاؤن کی طرف محوِ سفر تھی اور اب صبح کا وقت نزدیک تھا ، کورا بدستور گزشتہ چند دن کے واقعات کی یادوں میں گم تھی ،
اس دن کے بعد وہ ڈاکٹر کہ جس کا نام فہد تھا ، اس کے ساتھ کورا کی اچھی سلام دعا ہوگئی۔ کورا کو 4 دن تک ہاسپٹل میں ٹھہرنا پڑا ، جس کے بعد ڈاکٹر فہد نے نہ صرف اسے سفر کے لیے فٹ قرار دے کر ڈسچارج کردیا ، بلکہ کورا کے ہی ہوم ٹاؤن سے تعلق کی بنا پر اس نے ایک مسافر بوٹ میں کورا کے لیوانڈر آئی لینڈ سے سینڈزبرگ تک واپسی کے سفر کا بندوبست بھی کروا دیا۔۔۔ اور سینڈزبرگ میں ایک جان پہچان والے کیب ڈرائیور سے رابطہ کرتے ہوئے اسے کورا کو سینڈزبرگ میں رسیو کرنے اور وہاں سے واپس ملبری ٹاؤن میں پہنچادینے کا بھی بندوبست کردیا ۔۔۔ اس دوران کورا نے مزید تین مرتبہ گھر کال کرنے کی کوشش کی ، لیکن ایک مرتبہ بھی اس کا رابطہ نہ ہوسکا ۔
جب گاڑی ملبری ٹاؤن کی حدود میں داخل ہوئی تو صبح کا اجالہ نمودار ہوچکا تھا۔۔۔آج اس سانحے کو چھٹا دن تھا ۔
کچھ ہی دیر میں کیب اپنی منزل ، یعنی کورا کے گھر کے نزدیک پہنچ چکی تھی ۔۔۔ ڈرائیور کو کرایہ پہلے ہی ڈاکٹر فہد، موبائل والٹ کے زریعے ادا کر چکا تھا ۔
کیب سے نکل کر کورا گیٹ کی طرف بڑھی۔۔۔
” میرے گھر والے مجھے زندہ سلامت دیکھیں گے تو نجانے ان کی خوشی کا عالم کیا ہوگا۔۔۔” گھر کی طرف قدم بڑھاتے ، کورا یہی سوچ رہی تھی۔
ابھی وہ گیٹ کے قریب پہنچی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور سعد باہر نکلا ،
” واہ آپی۔۔۔ جاگنگ کرکے آ بھی گئی ؟ میں تو اب جا رہا ہوں۔۔۔” سعد نے اسے کہا اور تیز قدموں آگے بڑھ گیا ۔
کورا تو یہ سن کر وہیں کی وہیں ساکت ہوگئی۔۔۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ہفتے بعد اسے زندہ سلامت دیکھ کر اس کے بھائی کا ردِ عمل اس قدر سرد اور جذبات سے عاری بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔ نہ سمجھی کے عالم میں بھاری قدموں وہ گھر میں داخل ہوئی ، اس کے بابا لان میں پودوں کو پانی لگا رہے تھے ۔۔۔ وہ تیز قدموں ان کی جانب بڑھی ،
” ارے بیٹا اتنی جلدی ناشتہ کر بھی لیا ۔۔۔ آج کل کم کھانے لگی ہو کیا ۔” اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بابا نے کہا ۔ اور اسے لگا جیسے کسی نے اٹھا کر پاتال میں پھینک دیا ہو ۔
اس کے قدم وہیں تھم گئے ۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ وہیں چپ چاپ ساکت کھڑی رہی اور اس شاک کو سہارنے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔ بابا اب فوارہ وہیں رکھ کر بیک یارڈ کی طرف بڑھ گئے تھے ۔
پھر اس نے بمشکل تمام اپنے آپ کو گھسیٹا اور لاؤنج کی طرف قدم بڑھایا ۔۔۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس کا سامنا اس کی امی سے ہوا جو ایک کپڑے سے فرنیچر کی جھاڑ پونچھ کررہی تھی ۔۔۔۔ ان پر نظر پڑتے ہی کورا کے دل میں ماں کی محبت کا الاؤ جل اٹھا اور وہ ان کی جانب لپکی ۔۔۔
” ماما۔۔۔۔” اس نے رندھے ہوئے لہجے میں انہیں پکارا اور ان کے گلے لگ گئی۔
” کیا ہوا چندا ۔۔۔ آج بہت پیار آرہا ہے ماں پے ؟” امی نے کا ماتھا چوم کر پیار سے کہا۔۔۔
” کیا ہوا ہے۔۔۔۔” یہ الفاظ سنتے ہی اسے ایسا لگا کہ جیسے غم و اندوہ کی شدت سے اس کا دل پھٹ جائے گا ۔
اس نے رونے کی کوشش کی لیکن وہ رو بھی نہ سکی ۔۔۔ وہ چپ چاپ ان سے الگ ہوئی ، اور باہر کی طرف بڑھ گئی ۔
وہ گیٹ سے نکلی اور چپ چاپ ایک طرف چل دی ۔۔۔۔
” میں ایک پگھلتی کشتی سے سمندر میں کود گئی ، ایک دن اور دو راتیں کھلے سمندر میں بے نیل و مرام بھٹکتی رہی ، چار دن میں نے ہسپتال کے بستر پر گزارے ۔۔۔۔اس سب عرصے میں میں عملی طور پے “لاپتہ” تھی ۔ اور جب لوٹی تو کیا دیکھنے سننے کو ملا ؟
اس قدر بے حسی ، بے مروتی اور سرد دلی۔۔۔ آخر ہو کیا گیا ہے سب کو۔” وہ بوجھل قدموں چلتی سوچ رہی تھی ۔۔۔ یہاں تک کہ وہ ایک قریبی پارک تک پہنچ گئی ۔
کورا پارک میں داخل ہوئی اور ایک الگ تھلگ بینچ دیکھ کر اس پے بیٹھ گئی ۔۔۔۔
” آخری گھر میں سبھی ایسا برتاؤ کیوں کررہے تھے کہ جیسے میں سرے سے کہیں گئی ہی نہ ہوں بلکہ ادھر ہی موجود رہی ہوں۔۔۔؟” اس نے سوچا اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہوگئی ۔
” سعد سمجھ رہا تھا کہ میں جاگنگ کرنے گئی ہوں اور بابا سمجھ رہے تھے کہ میں ناشتے کی میز پر ہوں ۔۔۔ لیکن میں تو ابھی واپس پہنچی ہوں”. اس نے سوچنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
نصف گھنٹے تک وہ یوں ہی الجھن بھری سوچوں میں مگن رہی اور آنسو بہاتی رہی ۔۔۔ پھر جب وہ کسی نتیجے پے نہ پہنچ پائی تو بینچ سے اٹھی اور پارک کے دروازے کی سمت بڑھ گئی۔
پارک سے نکلنے کے بعد وہ گھر کی طرف جانے کے بجائے مخالف سمت بڑھ گئی ۔۔۔ ملبری ٹاؤن کی کشادہ ، خوبصورت گلیوں سے گزرتے ہوئے وہ اپنے محلے کی حد سے نکلی اور دوسرے محلے کی پہلی گلی میں داخل ہوگئی ، مزید چند قدم چلنے کے بعد اس نے ڈور بیل کا بٹن دبایا ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں دروازہ کھل گیا ۔ دروازہ کھولنے والی ایک چودہ پندرہ سال کی لڑکی تھی جو کورا کو دیکھتے ہی دنگ رہ گئی ۔۔۔
” کورا آپی ؟ آپ تو زندہ سلامت ہیں ۔۔۔ ” اس نے حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا ۔
” ہاں ، میں بالکل ٹھیک ہوں سارہ ۔۔۔ تم کیسی ہو ؟ ” کورا نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
” میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ لیکن سبھی بہت پریشان تھے آپ کی گمشدگی کی وجہ سے۔” سارہ نے کہا۔
” اچھا یہ بتاؤ آنٹی کدھر ہیں۔۔۔؟” کورا نے گھر کے اندر قدم رکھتے پوچھا ۔
” ممی سو رہی ہیں ۔۔۔ سر درد کررہا تھا ان کا ، ٹیبلٹ لے کر لیٹ گئیں۔۔ جگاؤں انہیں؟” سارہ نے کہا۔
” نہیں ابھی نہ جگاؤ پھر ، ریسٹ کرنے دو ۔۔۔ عدیم کدھر ہے ؟” کورا نے پوچھا ۔
” ، اپنے روم میں ہے آپ کا “دور کا کزن” ۔۔۔ آپ ہی کا غم منا رہے ہیں اتنے دن سے۔” سارہ نے کہا جس پر کورا مسکرا کے رہ گئی۔
سارہ اور عدیم اس کی چچی کے بھائی کی اولاد تھے اور وہ انہیں مذاق مذاق ” دور کے رشتے دار” کی طرز پے ” دور کے کزن” کہا کرتی تھی ۔
” اوہ اچھا۔۔۔پھر میں زرا عدیم سے مل کر آتی ہوں۔ ” کورا نے کہا۔
” اوکے آپی ۔۔۔” سارہ نے کہا اور کورا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
دوسری منزل پر پہنچ کر کورا ایک کمرے تک پہنچی اور دروازے پر دستک دی ۔۔۔
” کھلا ہے۔۔۔” جواب میں آواز آئی ۔
کورا نے دروازہ دھکیل کر کھولا اور اندر داخل ہوئی ، جہاں عدیم اپنے بیڈ پر آڑھا ترچھا ، بےہنگم لیٹا تھا ، اس کی آنکھیں سرخ اور چہرے پے غم و یاس کے تاثرات تو جیسے کسی مہر کی طرح ثبت تھے ۔۔۔۔
” ہیلو دور کے کزن۔۔۔” کورا نے اسے پکارا اور اس نے بری طرح سے چونک کر اس سمت دیکھا۔
پھر وہ بےاختیار یوں بیڈ سے اٹھا کہ جیسے بیڈ پر کانٹے اگ آئے ہوں ۔۔
” کورا ۔۔۔؟؟؟ کیا یہ واقعی تم ہو؟ یا میں پھر سے تمہارے تخیل کا شکار ہورہا ہوں ۔۔۔؟؟” اس نے حیرت میں لپٹی آواز میں کہا۔
” میں ہی ہوں عدیم ۔۔۔ میں، اس حادثے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔” کورا نے اس کی جانب قدم بڑھاتے کہا ۔۔ عدیم بھی بےاختیار اس کی طرف بڑھا ۔
” بہت پریشان کیا کورا ۔۔۔ Bad Girl۔” عدیم نے اسے اپنے بازوؤں میں بھرتے ہوئے کہا ۔۔ کورا نے اس کے کندھے پے سر ٹکا دیا اور کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پھر کورا نے نرمی سے خود کو اس سے الگ کیا ۔
” مجھے اول تا آخر سب کچھ جاننا ہے ۔۔۔ یہ سب کیسے ہوا اور پھر تم اس سانحہ سے کیسے بچ کر نکل پائی ؟ ایک ایک بات مکمل تفصیل کے ساتھ ۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” ضرور ۔۔۔ لیکن فی الوقت نہیں، پھر کبھی بتاؤں گی۔” کورا نے کہا ۔
” کیوں ، ابھی کیوں نہیں۔۔۔؟ جلدی میں ہو ؟” عدیم نے کہا .
جس پر کورا نے ایک طویل سانس لیا۔۔۔۔
” ایک ناگہانی بکھیڑے میں پھنس گئی ہوں۔۔۔” کورا نے الجھن زدہ لہجے میں کہا۔
” کیسا مسئلہ ۔۔؟؟ سب خیریت تو ہے ناں ؟؟” عدیم نے فکرمند لہجے میں کہا۔
” میری واپسی پر میرے گھر میں سب کا ری ایکشن انتہائی عجیب اور پریشان کن ہے۔۔۔” کورا نے کہا ۔
” کیا مطلب ۔۔۔؟؟ میں سمجھا نہیں۔۔!” عدیم نے کہا ۔
جس پر کورا نے کیب سے اترنے کے بعد گھر پہنچنے اور پھر پریشانی کے عالم میں گھر سے نکلنے اور عدیم کے گھر پہنچنے تک کے سارے واقعات اسے تفصیل سے بتادیے۔
” ناقابلِ یقین ۔۔۔ کورا ، تمہارے جانے پر ادھر ہم سب کی جو حالت ہوئی ، میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔ اور میں خود ایسا کرچی کرچی ہوگیا کہ جیسے پھر کبھی خود کو سمیٹ نہ سکوں گا۔۔۔اگر تم واپس نہ آتی تو نجانے کیا ہوتا میرا ۔۔۔ اگر ہماری یہ کیفیت تھی تو تمہاری فیملی کی کیا حالت ہوئی ہونی تمہاری گمشدگی کا سن کر۔۔۔۔ پھر ان کا یہ رویہ ؟؟ ناقابلِ فہم ہے یہ سب۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” اتنا ہی نہیں۔۔۔ ہاسپٹل میں ہوش آنے کے بعد میں نے کئی مرتبہ گھر میں سبھی کو کال کی ، لیکن کسی نے کال تک اٹینڈ نہ کی۔” کورا نے کہا۔
” گزشتہ کئی دن سے ملبری ٹاؤن کے کئی علاقوں میں موبائل سگنلز سخت ڈسٹرب ہیں۔۔۔ شاید یہ وجہ رہی ہو۔ ” عدیم نے کہا تو کورا سوچ میں پڑ گئی ۔
” خدا سب خیر رکھے ۔۔۔ مجھے ضرور اطلاع کرنا پھر جو بھی بات سامنے آئی۔” عدیم نے کہا۔
” شیور ۔۔۔ ٹھیک ہے عدیم اب میں چلتی ہوں۔” کورا نے کہا۔
” اچھا سنو ۔۔۔ کل شام میرے ساتھ چل سکتی ہو ؟ ڈنر پے چلیں گے ۔۔۔ تمہاری واپسی کی خوشی میں۔” عدیم نے کہا ۔
” کل کا وعدہ تو نہیں کرسکتی ۔۔۔ میں کچھ آرام کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ ہاں پرسوں شام ممکن ہے ۔” کورا نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدیم کے گھر سے فراغت پانے کے بعد کورا نے پھر سے اپنے گھر کا رخ کیا ، اور کچھ ہی دیر میں وہ واپس اپنے گھر پہنچ چکی تھی ۔
دروازہ کھلا تھا ، وہ اندر داخل ہوئی ۔۔ چھٹی کا دن تھا سعد لان میں بیٹھا موبائل پر فیس بک میں مگن تھا ۔
وہ لاونج میں پہنچی تو اسے اپنے بابا کی ، کسی کولیگ کے ساتھ کال پر بات کرنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔ جب وہ کچن کے پاس سے گزری تو اس نے کچن میں اپنی امی کی جھلک دیکھی ۔
یہاں تک کہ وہ اپنے کمرے تک پہنچ گئی۔۔۔
کورا نے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر گھمایا ، لیکن کمرہ لاک تھا ۔
” باقی سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں ۔۔ تو میرے کمرے میں اس وقت بھلا کون ہوسکتا ہے.” کورا نے سوچا اور کمرے پر ہلکی سی دستک دی۔
چند لمحے کے وقفے سے دروازہ کھل گیا۔۔۔۔۔