میں یقین سے کہہ سکتا ہوں خان ذادی اگر میں آپ کو بتا دوں کے شاہ کمال کو گولیوں سے چھلنی کیوں کیا گیا تھا تو آپ مجھے زندہ سلامت میری حویلی تک چھوڑ کر آئیں گیں۔۔۔ میں وجہ جاننا چاہتی ہوں۔۔ دعا نے مضبوط لہجے میں کہا۔۔ ٹھیک ہے آپ وہاں آئیں میں سب کے سامنے نہیں بتا سکتا۔۔۔ ازلان نے اسکی بات سن کر مٹھیاں بھینچ لی۔۔۔ تم میری بہن کو اکیلے لے جا کر بات نہیں کر سکتے خان۔۔۔ ازلان کی بندوق دلاور کے سینے تک چلی گئی۔۔۔ ہم بات کر رہے ہیں ازلان خان تحمل سے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔نہیں خان زادی تحمل سے آپ بیٹھ جائیں جب تک آپ کا یہ بھائی زندہ ہے آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی۔۔۔ سگھا نہ سہی رضائی بھائی تو ہوں آپ کا ازلان کا خون خول رہا تھا دلاور خان کی بات پر میں خود سنوں گا کے دلاور خان کیا چاہتا ہے۔۔۔ دلاور خان نے کندھے اچکائے جیسے مان لیا ہو کے اسکے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔
********
بولو خان کوئی ہوشیاری کی تو بنا سوچے اس بندوق میں موجود ساری گولیاں تمہارے سینے میں ہوں گی۔۔۔۔ دلاور نے کرب سے آنکھیں بند کیں اورمینشان کے سامنے کئے۔۔۔
ناقابل یقین تاثرات کے ساتھ ازلان کبھی کاغذات کو دیکھتا کبھی دلاور شاہ کے جھکے سر کو۔۔۔۔۔ ازلان کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔۔۔ وہ ساکت سہ رہ گیا۔۔۔۔ بولو ازلان خان تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ تم اپنی لے پالک بہن کے لئے مچل رہے ہو ادینہ میری سگھی بہن ہے۔۔ میری نازو پلی جسے بی جی اور باؤجی کے بعد میں نے ماں باپ کی محبت دیتے بڑا کیا دنیا سے لڑنا سکھایا۔۔ کیا حق پہنچتا تھا شاہ کمال خان کو کے وہ اپنی سرداری میری بہن پر آزماتا۔۔۔ اس نے میری بہن کے ساتھ زیادتی کی صرف اس لئے کیونکہ وہ اسکو یونیورسٹی میں پسند آ گئی تھی جس میں وہ پڑھتی تھی۔۔۔۔ وہ اسے گاؤں کا سردار سمجھ کر لفٹ لے کر ہوسٹل تک گئی صرف مجبوری میں۔۔ اور اس مجبوری کو شاہ کمال نے حوس بنایا۔۔ بتاؤ اس بچے کو مار دوں؟ اس لئے کیونکہ یہ اس کے باپ کی سیاہ رات کی نشانی ہے۔۔۔ یا اسکی ماں کی مجبوری کی داستان قتل تو قتل ہوتا ہے چاہے مرد کا چاہے بچے کا۔۔۔ دعا خان زادی کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔ میں اپنی سزا بھگتنے کو تیار ہوں مگر ادینہ اسکا کیا ہوگا۔۔ اس کے ساتھ پل رہی نئی زندگی کا۔۔۔ ایک منٹ کو بے حس ہو کر میں اپنی عزت کا بھرم گواہ کر خان زادی سردارنی کے سامنے انصاف مانگ لوں تو سارے گاؤں کے سامنے دعا خان زادی کی عزت اور انا کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔ ازلان ششد سا تھا۔۔۔۔ دلاور نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھ کر سارے کاغذ نرمی سے لئے اور جیب میں ڈال لئے۔۔ دعا گھونگھٹ سے سب دیکھ رہی تھی۔۔ وہ متجسس ہوئی کے وہ کاغذ وہ دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔۔
ازلان نے ضبط سے سرخ انگارہ ہوتی آنکھیں اٹھائیں۔۔۔۔ اب اگر میں ادینہ کو ونی کرنے کا مطالبہ رکھوں تو دلاور خان انکار مت کرنا۔۔۔ میں شاہ کمال کا گناہ اپنے سر پوری عزت اور شان سے لے کر۔۔۔ اپنی دعا کا بھرم رکھوں گا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ دلاور نے کچھ کہنا چاہا تو ازلان لمبے لمبے ڈگ بھرتا پنچایت کے قریب جانے لگا۔۔۔ نچار دلاور کو بھی اسکے پیچھے جانا پڑا۔۔۔۔۔
“خان زادی ہم خون بہا کے بدلے خون نہیں کر سکتے ۔۔ ازلان نے کہا۔۔۔ ہم اس کے بدلے دلاور شاہ کی کسی انمول اثاثے کو ونی کریں گیں۔۔۔ ہاہ دعا کا سر گھوم گیا۔۔۔ میں یہ فضلیات نہیں پال سکتی۔۔ خون کے بدلے خون ہی ہو گا۔۔ دعا نے گولی بنا سوچے سمجھے دلاور پر چلائی۔۔۔۔ ٹھھھھھھااا گولی کی آواز گونجی۔۔ یہ گولی سیدھا دلاور کا دل چیر کر جاتی اگر جو ازلان بندوق کی نال اوپر کی طرف نہ کر دیتا۔۔۔۔۔ میری بات مان لو خان زادی پلیز۔۔۔۔ ازلان کی ضد نے دعا کا دماغ اور گھما دیا بدلے کی آگ میں اندھی ہوتی دعا نے بندوق دلاور خان کے پیر کے قریب زمین پر گاڑی جس سے کچھ مٹی ہوا میں اچھل گئی۔۔۔
ہر بار ایک عورت ہی کیوں ونی ہوتی ہے مرد کیوں نہیں۔۔ کیا مرد حاکم ہے خدا ہے؟ کسی جگہ کا تیس مار خان ہے؟ بہت بڑا ہے اللہ سے بھی بڑا۔۔۔۔؟؟ مرد کی شان میں فرق پڑتا ہے ونی ہوتے ہوئے یا عورت کا وجود بے مول بے مائع ہوتا ہے۔۔۔ عورت باندی ہوتی ہے اسی کو بندی بنا کر منہ لپیٹ کر بھیج دیا جاتا ہے مرد ونی کیوں نہیں ہوتا۔۔ کیوں اپنے کئے کی سزا وہ خود یا اسکا باپ بھائی نہیں چکا سکتا۔۔ ہر بار بہن اور بیٹی ہی کیوں؟؟ میں چاہتی ہوں اس بار خون بہا معاف کرنے کے لئے دلاور خان کو ونی کیا جائے تب ہی میرے جلتے کلیجے میں ٹھنڈی پھوار آئے گی خان کی انا کو دھچکا پہنچا کر ہی میرے شاہ جی کی روح کو سکون ملے گا۔۔۔ ہاں مجھے خون بہا معاف میں دلاور خان چاہیئے زندہ سہی سلامت۔۔۔۔۔ خان زادی گستاخی معاف مگر مرد ونی نہیں ہوتا۔۔۔ پنچایت کے مردوں نے کہا۔۔۔ انکی مردانگی کو بھی دعا خان زادی کی بات نے ضرب لگائی تھی۔۔۔۔۔۔۔
“خان زادی” میں ہوں چچا آپ “نہیں”۔۔ سردار میرا مرا ہے آپ کا نہیں۔۔۔ اس کی وارث میں ہوں آپ نہیں۔۔۔ اس لئے فیصلہ اور سزا دونوں میری مقرر کی ہوئی ہوں گیں۔۔۔ ہم تم سے پوچھتے ہیں دلاور خان تمہارے پاس دو راستے ہیں۔۔ یا تو خون بہا میں اپنی گردن خود تن سے الگ کر کے ہمارے قدموں میں دو یا ونی ہو جاؤ۔۔۔ تمہارے پاس سوچنے کے لئے ایک دن ہے۔۔۔ کل اسی وقت پنچایت میں تم فیصلہ سناؤگے۔۔۔ یاد رکھنا اگر ونی ہونا مت چاہو تو کٹی گردن بھیج دینا ہمارے پاس فضول وقت نہیں جو تمہاری منحوس صورت دیکھنے یہاں آئیں۔۔۔۔۔
*******
خان زادی آپ نے یہ غلط کیا۔۔ ازلان نے دانت کچکچا کر دعا کو کہا۔۔ اس کے لئے دعا کو اب خان زادی کہنا بہت مشکل تھا۔۔ بے شک وہ اسکی دودھ شریک بہن تھی مگر دونوں میں بہت زیادہ دوستی اور محبت تھی۔۔۔ اتنی کے ازلان اس کے لئے جان بھی دینے سے گریز نہ کرتا۔۔۔۔
کیا غلط کیا ہم نے؟ دعا نے بے رخی اور بے نیازی سے کہا۔۔۔ کچھ دیر ازلان اس کے سفید بے داغ گھونگھٹ کو گھورتا رہا۔۔ پھر اسے پیچھے گرا کر دعا کو خود سے لگا لیا۔۔۔ بہت غیر لگتی ہو۔۔ کیا اب میں تمہارا بھائی نہیں رہا دعا کیا مجھ سے بھی تمہارا پردہ ہو گیا۔۔ کیا مجھے بھی حق نہیں رہا تم پر؟ میرے اور بابا کے لئے بھی تو سردارنی ہو گئی؟؟ شاہ کمال ہوتا تب بھی میں تیرا یہ روعب نہ برداشت کرتا۔۔۔ دعا صرف آنسو بہاتی رہی۔۔ میں جانتا ہوں تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے میری گڈی۔۔۔ تیرا گڈا تجھے دے کر چھینا گیا ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں تو ایسی بن جا۔۔۔۔ دعا کوئی کسی پر گولی کیوں چلاتا ہے وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر ؟ پھر تیری ایک آواز پر وہ انسان چلا آیا۔۔ تجھے لگتا ہے وہ غلط ہوگا۔۔ دعا نے سر اٹھایا۔۔۔ جن آنکھوں میں ازلان نے بچپن سے اب تک ہمہ وقت بھرا بھرا کاجل دیکھا تھا جو کم تو نہیں ہوتا زیادہ ہو جاتا۔۔ آج وہ بنا کاجل کے کتنی ویران تھیں۔۔ ہلکی کالی آنکھیں شکووں سے بھریں تھیں۔۔۔ ان میں محبت کھونے کی داستان تھی تو اجڑنے کا کرب بھی تھا۔۔۔ ازلان کو لگا یہ کسی بیمار کی آنکھیں ہیں۔۔۔ پھر بھی اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کر کے دوبارہ اسکا سر اپنے شانے سے لگایا۔۔۔ تو بتا گڈی اگر ہم دلاور کو ونی کرتے ہیں تو اس کا کیا کرے گی۔۔ زرخیز غلام بنائے گی؟؟ یا کسی ملازمہ سے نکاح کروائے گی۔۔ اگر ملازمہ کو اس سے محبت ہو گئی تو؟؟ تم جانتی ہو اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ اس حویلی کی ہر ملازمہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔۔ یا تم خود اس سے؟۔۔۔۔۔ ازلان نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔۔ اس بارے میں تو دعا نے سوچا ہی نہیں وہ دلاور کی انا اور اسکا غرور توڑ تو دے گی مگر پھر اسکا کیا کرے گی۔۔ وہ چاہتی تھی اسے ایسی بیوی ملے جو کبھی اس سے محبت نہ کرے کبھی عزت بھی نہ دے۔۔ تمام عمر اسکی انا کی پادش ہوتی رہے۔۔۔۔ اور ایسا تو صرف دعا خود کر سکتی تھی۔۔۔ مگر وہ شاہ کمال کے نام کے ساتھ ہی مرنا چاہتی تھی۔۔ دعا نے اسکا بھیگا شانہ اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔۔۔ اب میں کیا کروں اذلان؟؟
تیری خاطر میں جو قربانی دے رہا ہوں پھر تو کیوں پریشان ہوتی ہے۔۔۔ ادینہ میرے ساتھ کبھی خوش نہیں رہے گی۔۔ ہم دلاور سے کبھی اسے ملنے نہیں دیں گیں۔۔۔ تو اسے افسردہ دیکھ کر خوش ہوتی رہنا۔۔۔۔ تم سچ میں اس سے محبت نہیں کروگے۔۔؟ کبھی نہیں اذلان نے لب بھینچ کر کہا۔۔۔۔ ٹھیک ہے کل یہی فیصلہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔
*************
پنچایت کے سامنے تمام شرائط کو مدے نظر رکھ کر ادینہ اور اذلان کا نکاح ہوگیا۔۔۔۔ اذلان بے تاثر تھا جبکہ ادینہ دلاور کے گریبان لگی روتی رہی۔۔ دلہن بنی وہ عجیب سی دلہن بہت عجیب لگ رہی تھی۔۔۔ دعا نے لب کچلے کیا بدلہ پورا ہو گیا؟؟ تو اسکے دل میں ٹھنڈی پھوار کیسے پڑے گی۔۔۔۔ ؟ یہ تمہاری آخری ملاقات ہے اپنی بہن سے کچھ کہنا چاہو تو کہہ لو اذلان نے آنکھ سے دلاور کو تسلی دیتے کہا۔۔ دلاور نے پریشانی سے ادینہ کو دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔۔ دلاورنے ایک آخری نظر دعا خان زادی کو دیکھا وہ گھونگھٹ سے نظر آتے اپنے لب کاٹ رہی تھی ہونٹوں کے نیچے سیاہ تل بھی پریشان تھا۔۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے واپس پلٹ گیا۔۔ دلاور کے لئے اتنا کافی تھا کوئی اسکی بہن کو عزت دے رہا ہے۔۔۔۔
*********
آپ آرام سے اوپر سوجائیں۔۔ زمین پر بستر لگاتے دیکھ ازلان نے ادینہ سے کہا۔۔۔ ادینہ نے چونک کر دیکھا پھر اسکے دیکھنے پہ نظر چرا لی۔۔۔ وہ آپ کی طبعیت خراب تھی نہ اس لئے میں نے کہا۔۔ ازلان نے وضاحت دی۔۔ میں نے دلاور بھائی سے وعدہ کیا ہے میں آپکا خیال رکھوں گا۔۔۔ مگر آپ نیچے سوئیں گے؟ ادینہ نے جھجک کر کہا۔۔۔ نہیں میں دوسرے کمرے میں رہوں گا یہ صرف آپ کا کمرہ ہے۔۔۔ ادینہ کا سر گردن کے ساتھ لگ گیا۔۔۔ اور ازلان کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔
*********
صبح صادق کے وقت دعا نے اٹھ کر نماز پڑھی اپنی چادر زمین سے اٹھائی اور کبوتروں کو دانا ڈالنے چلے گئی۔۔۔ کسی کی آہٹ محسوس کرکے اس نے سر پر گھونگھٹ کر لیا۔۔ سفید گھونگھٹ صرف ناک تک آتا تھا۔۔ جس سے دعا کے شگفتہ لب اور ان کے نیچے موجود تل واضح نظر آتا۔۔ برف جیسی رنگت پر ہونٹ کے کنارے یہ ایسا معلوم ہوتا جیسے چاند پر سیاہ آسمان سجدہ کرنے آیا ہو۔۔۔۔۔ صبح بخیر ازلان نے دانا اس کے ہاتھ سے لے کر خود بھی کبوتروں کو ڈالنا شروع کر دیا۔۔۔ کیسی ہو گڈی ؟ ازلان نے پوچھا۔۔ دعا نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔۔ چند منٹ وہ کبوتروں کی گٹر گوں سنتا رہا پھر اسکا گھونگھٹ ہٹا کر اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔۔۔ آپ باز نہیں آئیں سردارنی جی میرے سامنے گھونگھٹ سے پرہیز سے۔۔ دعا مسکرائی تو ازلان نے پوچھا۔۔۔ آگے کے لئے کیا سوچا ہے تم نے گڈی؟ کیا تمام عمر شاہ کمال کی یادوں کے ساتھ رہنا ہے؟ یہ تو نا انصافی ہوئی نا۔۔۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔ دعا کی غیر متوقع بات پر ازلان چونکا۔۔ پھر ہاں ٹھیک ہے پڑھ لو۔۔ تمہیں پہلے بھی شوق تھا نا۔۔۔ دعا نے کہا مجھے یہاں سے نہیں شہر سے پڑھنا ہے مجھے کراچی بھیج دو۔۔۔ اکیلی کراچی ؟ ازلان حیران ہوا۔۔۔ پھر ادینہ کے ساتھ ہوا حادثہ یاد آیا۔۔۔ تم کہیں نہیں جاؤگی میں یہاں رہی تو مر جاؤں گی ازلان مجھے سانس نہیں آتی۔۔ دعا کی بات سے ازلان گنگ ره گیا۔۔۔ وہ کیسے اسے شاہ کمال کی اصلیت بتا سکتا تھا۔۔۔ وہ بلکل ٹوٹ جاتی۔۔۔ ٹھیک ہے مگر میں تمہارے ساتھ رہوں گا وہاں۔۔ ازلان نے کہا۔۔ دعا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ دھوپ میں اسکی آنکھیں بھوری لگتی تھیں۔۔ ازلان کے محویت سے دیکھنے پر دعا چونکی ادینہ کہاں ہے؟ ازلان نے کندھے اچکائے۔۔ میں نے اپنا کمرہ بدل لیا پرانا اسے دے دیا۔۔ میں تمہارے حصے میں جا کر اسے دیکھ سکتی ہوں؟۔۔۔ دعا نے اجازت مانگی۔۔۔ ازلان نے اسے دیکھا۔۔۔ تم اجازت مانگ رہی ہو؟ ہاں کیونکہ بیاہ کے بعد صرف میں شاہ جی کے ساتھ آ سکتی تھی۔۔ اور وہ نہیں ہیں تو۔۔۔ رسموں کے مطابق میں معیکے نہیں جا سکتی نا۔۔۔۔۔۔ فضول باتیں مت کرو۔۔۔ دعا یہ پوری حویلی تمہاری ہے۔۔۔ میرا حصہ یا تمہارا حصہ کیا ہوا۔۔ تم جان ہو میری آئندہ ایسا سوچنا بھی مت تم جب چاہو میرا گلا بھی دبا دو میں اف بھی نہیں کروں گا۔۔۔ میری زندگی بھی تمہاری ہوئی۔۔۔ زیادہ ڈرامے مت کرو۔۔ بلا وجہ مجھے خوش فہمی ہوتی ہے۔۔ دعا نے مسکراتے کہا۔۔۔ ازلان کو نمی کی ہلکی سی تحریر اسکی آنکھ میں نظر آئی جو اگلے ہی پل اوجھل ہو گئی۔۔۔۔۔۔
ڈرامے نہیں کر رہا میں۔۔۔۔ وہ خفگی سے بولا۔۔ پھر تم نے رات وہ فلم دیکھی ہو گی۔۔ ایک ہزاروں میں میری بہنا ہے۔۔۔ ساری عمر ہمیں سنگ رہنا ہے۔۔۔ دعا ہنس دی جبکہ ازلان خفا ہو کر منہ پھلا کر سیڑھیاں پھلانگنے لگا۔۔ ازو سنو تو۔۔ دعا آواز لگاتی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔۔ پانچ سیڑھیاں باقی تھیں جب اس کا پیر موڑ گیا۔۔ ازلان اس کے گرنے کی آواز پر کرنٹ کھا کر پلٹا۔۔۔ دعا۔۔۔۔۔ وہ فورا لپکا۔۔ مگر تب تک وہ خون میں لت پت بے ہوش ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔ دعا آنکھیں کھولو چندا۔۔۔ دعا۔۔۔۔
**********
گاؤں میں شاہ کمال نے ایک مفت ہوسپٹل بنوایا تھا مگر ڈاکٹر نے کہا آپ انکو شہر لے جائیں۔۔۔ اس لئے ازلان کو اسے شہر لے جانا پڑا۔۔۔۔
**********
وہ ہوسپٹل کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا کافی کے مگ سے اڑتی بھاپ کے مرگلوں کو بے مقصد گھور رہا تھا۔۔۔ ماضی کی تلخ یادیں اسکا دل چھلنی کر چکی تھیں۔۔۔ اپنی سب سے قیمتی متع کا بے مول ہونا وہ جانتا تھا۔۔۔ ربانی غدار لب گھنی مونچھوں تلے سختی سے بھنچے تھے۔۔۔ اسکی ملٹیز آنکھیں اس وقت سب سے خفا تھیں حتہ کے خود سے بھی۔۔۔۔۔
پاس ہی میز پر اسکا آئی فون بج رہا تھا۔۔۔ اور اسکے بلکل پاس اسکا سفید کورٹ پڑا تھا۔۔۔ بلیک شرٹ کے اوپر کے چار بٹن کھلے تھے جس سے اسکے چوڑے سینے کے بال جھانک رہے تھے۔۔ یہی اسکی وجاہت کی گواہی دیتے تھے۔۔۔ بازو کی کلف کو کچھ اوپر فولڈ کئے، بالوں کو جیل سے پیچھے سیٹ کئے وہ ابھی بھی سوچوں میں غرق تھا۔۔۔ پیروں میں چمکتے کالے جوتے مسلسل اضطرابی انداز میں ہل رہے تھے کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔۔ موبائل ایک بار پھر بج رہا تھا۔۔۔ ڈاکٹر ہینڈسم انسان فون ہی دیکھ لے ڈاکٹر سارا یزدانی نے کہا۔۔ وہ چونکا پھر اپنا گولڈن آئی فون چیک کیا جس پر ایمرجنسی کے الرٹ دیئے جا رہے اس کے مطابق اسے فورا آپریشن تھیٹر میں جانا تھا۔۔ وہ تھینکس اینڈ ایکسکیوزمی کہتا اپنی بلیک پینٹ میں فون اڑستہ ابدر کی طرف چلا گیا۔۔۔ ڈاکٹر سارا نے ٹھنڈی کافی کو دیکھا اور خفگی سے اسے ڈسٹ بین کیا۔۔۔ کیا ہو گیا ہے ہمارے ہارٹ ڈاکٹر کو۔۔۔ بھلا اتنا ہینڈسم بندہ یوں افسردہ کیسا لگتا ہے۔۔۔ لگتے تو اس میں اور بھی ہینڈسم ہیں۔۔۔ پہلے ہی ساری ڈاکٹرز اور نرس کی جسن نکالتے تھے۔۔۔ سارا کے دماغ میں اسکی ہلکی بھری ہوئی شیو گھوم گئی۔۔۔
*********
ازلان مسلسل آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہل رہا تھا۔۔ یا اللہ میری بہن کو اپنے امان میں رکھنا۔۔ اگر اسکی زندگی لکھی ہے تو اسکی کوئی چیز نکارہ مت کرنا۔۔۔ ازلان کے دماغ میں ڈاکٹر کی کہی بات گھوم گئی۔۔ آپ دعا کریں انکا برین ڈیمج نہ ہوا ہو۔۔ اگر برین ڈیمج ہوا تو یہ قومہ میں جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔
آپریشن کے دوران بلڈ لگاتے اسکی نظر دعا کے ہونٹ کے کنارے پر بنے تل پر اٹک گئی۔۔۔ وہ بہت خوبصورت نہیں تھی اسے خوبصورت یہ تل بناتا ہوگا۔۔۔۔ یہ میں کیا سوچ رہا ہوں اس نے اپنا سر جھٹکا۔۔۔ اور اسکی ڈریپ نرس کو بدلنے کو کہا۔۔ خود ایک بار پھر پیشانی سے خون صاف کرنے۔۔ نظر بھٹک بھٹک کر اسکی دعا کے تل پر جاتی اور اسی پر الجھ جاتی۔۔ ایسا ہی ایک تل اسے دعا کی گردن پر نظر آیا۔۔ یہ دونوں مصر کی دال کے دانے جنتے تھے۔۔ اسکا دل کیا وہ ہاتھ لگا کر دیکھے کیسا محسوس ہوتا۔۔۔ نجانے اسے یہ تل کسی کی یاد دلا رہے تھے۔۔۔ وہ خفگی سے بولتے لب وہ اضطراب میں لب کاٹتی بلکل ایسی ہی تھی۔۔ مگر وہ بہت بری تھی۔۔۔۔ یا اسے لگی تھی۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب پیاری ہے نا۔۔ صائمہ نرس نے شرارت سے کہا۔۔۔ وہ چونکا۔۔ ہاں۔۔ نہیں بس ٹھیک ہے میں اسکی سانس دیکھ رہا تھا۔۔ وہ اپنی چوری پکڑی جانے پر خجل سہ ہو گیا۔۔ آج تک کسی نے اسے کسی ڈاکٹر کی طرف بھی دیکھتے نہیں دیکھا تھا اب وہ ایک پیشنٹ کو ایسے اتنی کریٹیکل سچویشن میں گھور رہا تھا۔۔۔ اپنا کام کرو تم یہ سٹیچیز لگاؤ میں باہر اسکے گھر والوں کو کہہ دوں اب یہ ٹھیک ہیں۔۔ اور اپنی کجالت مٹانے کو غصے سے بولا اور باہر آیا۔۔ ازلان کو دیکھ کر چونکا۔۔۔ تم یہاں۔۔۔۔ دلاور خان دعا کیسی ہے۔۔۔ ازلان نے تڑپ کر پوچھا۔۔ خان زادی کو کیا ہوا کہاں ہےں وہ؟ دلاور خان پریشان ہو گیا۔۔۔ وہ اندر ہے سیڑھیوں سے گر گئی ہیں۔۔۔ وہ خان زادی ہیں۔؟؟ نجانے کیوں دلاور شرمندہ ہو گیا۔۔۔ تم فکر مت کرو وہ ٹھیک ہیں۔۔ دلاور اسکا چاند سہ سویا مکھڑا یاد کرکے بولا۔۔۔ تو کیا میں بے دھیانی میں اپنی دشمن کا اسیر ہو رہا تھا۔۔ دلاور نے سوچا۔۔۔ وہ دشمن تو نہیں ظلم تو اس کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔ دل نے آواز اٹھائی۔۔۔ او ہوں۔۔۔ اس راہ نہیں چلنا یہ کھاردار راہ ہے آگ کی طرف جاتا ہے وہ شرارہ ہے جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔۔۔ اسے محبت کا ہنر نہیں آتا۔۔ شش دلاور نے دل اور دماغ دونوں کو ڈپٹ دیا۔۔۔۔۔۔
بیٹھ جائیں۔۔۔ ازلان خان آپ نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہوگا۔۔ خان زادی کے ہوش میں آنے میں بہت وقت لگے گا۔۔۔۔ ابھی تو ٹینکولائزر سے بے ہوش ہیں۔۔ اس کے بعد وہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہی ہوش میں آسکیں گیں۔۔۔ اور ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟؟؟ ازلان نے اسکی بات دہرائی اسکا رنگ اڑ چکا تھا۔۔۔ دلاور کو اس کی محبت کا اندازہ ہوا۔۔۔۔ آپ دعا کریں۔۔۔ ہاں۔۔ ازلان نے غائب دماغی سے سر ہلایا۔۔۔۔۔۔
دعا کو آئی سی یو میں ابھی انڈر ابزرویشن رکھا تھا۔۔۔ جب تک وہ ہوش میں نہیں آ جاتی کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔۔ اور کون جانے وہ ہوش میں آتی ہی نا۔۔۔ دلاور نے اسکے کندھے پر دباؤ ڈال کر اسکے آگے برگر کیا۔۔ اور ایک ڈسپوزیبل کپ میں چائے۔۔۔ اور چھوٹی منرل واٹر کی بوتل۔۔۔ ابھی نہیں جب تک دعا کو ہوش نہیں آ جاتا میرے ہلق سے پانی بھی نہ گزرے گا۔۔ وہ بچوں کی طرح ضد کرنے لگا۔۔ یہ بھائی بہن کا رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے نا۔۔۔ لڑتے جھگڑتے بڑے ہوتے ہیں۔۔ مگر بہنوں کے شہزادے بن جاتے ہیں تو بہنیں انکی جان۔۔۔۔۔ دلاور کو اس پر بہت پیار آیا۔۔ اسکا بارہاں دل چاہا ادینہ کا پوچھے کل وہ اسے پرایا کر آیا تھا۔۔ آج اسے یقین ہوگیا۔۔ اس نے بہت پیارے انسان کو اپنی سب سے قیمتی متع دی ہے۔۔۔ جو اسکی حفاظت کرنا جانتا ہے۔۔۔ جو شخص محبت کرنا جانتا ہو وہ بہت رحم دل اور صاف گو ہوتا ہے۔۔ دلاور کے دل کے بے سکون کونے میں سکون بھرنے لگا۔۔۔۔
*********
بیٹا ازلان اٹھا نہیں۔۔ ؟ رحیم خان نے ادینہ سے پوچھا۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں دعا کے پاس ہوگا تم بیٹھو اسے بلاتا ہوں تو ناشتہ مل کر کرتے ہیں۔۔ ادینہ مشینی انداز میں پیڑی پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
کیا معلوم کہاں ہے۔۔۔۔ سوگراں نے چائے میں پراٹھا گھماتے کہا اور اچار کا ٹکڑا منہ میں رکھا۔۔۔۔ آپ نے اسے دیکھا نہیں جا کر۔۔۔ رحیم خان کو انکی بے حسی پر غصہ آیا۔۔۔ہم کون ہوتے ہیں سردارنی کے کمرے میں جھانکنے والے جب دل ہوا آجائیں گی مہرانی۔۔۔ سر پر تاج پہن کر لومڑی بھی خود کو شیرنی سمجھنے لگ جاتی ہے۔۔ آخری بات انہوں نے یلماز کی طرف دیکھ کر کہی۔۔۔ بلکل وہ پیالی منہ سے ہٹا کر بولا۔۔ اور منہ سے گرتی چائے صاف کی۔۔۔ رحیم خان تاسف سے سر ہلا کر دعا کے کمرے میں گئے۔۔۔ دو بار تین بار چار مگر جواب نہیں آیا۔۔۔ جواب نہ پا کر وہ اندر گئے۔۔ کمرہ خالی تھا۔۔۔ کہاں چلے گئے دونوں؟۔۔۔۔۔ وہ گھر اپنی طرف واپس آئے تو ادینہ پیڑی پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔ آؤ ہم دونوں باپ بیٹی کھاتے ہیں۔۔ وہ دونوں بہن بھائی کہیں گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی ضروری کام ہو۔۔۔۔ ادینہ خاموشی سے سر ہلا کر کھانے لگ گئی کیونکہ اسکی اس وقت بھوک سے پھٹ رہی تھی۔۔ اب وہ کم سے کم ازلان خان کے انتظار میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔۔ اس لئے ساری مروت اور ادب ایک طرف رکھ کر اس نے ملازمہ کو ناشتہ بتایا۔۔۔۔
***********
زمینوں میں پانی دینے کی باری صفدر کی تھی۔۔۔ مگر وہ رات پہرے پر نہیں تھا اسکی جگہ فیصل پانی دے کر گیا ہے۔۔۔ اب کون جانتا ہے وہی اناج خراب کر گیا ہو۔۔۔ نا صاحب فیصل میرا چھوٹا بھائی ہے وہ ایسا نہ کر سکتا صفدر نے ہاتھ جوڑتے کہا۔۔۔ تو کیا تم آئے تھے رات؟؟؟ نہیں صاحب صفدر نے کہا۔۔ مجھے میرا نقصان چاہیئے رفیق نے کہا۔۔۔ کون بھرے گا میرا نقصان؟ رفیق نے ایک ٹھوکر صفدر کے بخار سے مچلتے وجود پر لگائی۔۔۔ وہ پیچھے کو گرا۔۔ بھائی صاحب فیصل نے اسے سنبھالنا چاہا تو رفیق نے ایک ٹھوکر اسے بھی لگا دی۔۔۔ اب اس بات کا فیصلہ پنچایت کرے گی۔۔۔ پنچایت کے لئے سب کو اکٹھا کیا گیا وہیں دعا خان زادی کو بھی فیصلے کے لئے بلا بھیجا گیا۔۔۔ دوپہر ہونے کو تھی اسکا کہیں پتہ نہ چلا۔۔۔ کہاں چلے گئے دونوں؟؟ رحیم خان پنچایت ملتوی کرنے کا کہتے وقت شرم سے گڑنے لگے۔۔۔
**********
مشین کی ٹوں ٹوں سے ازلان کا دل مٹھی میں جکڑا جا رہا تھا۔۔۔ شپ نے گھر بتایا۔۔ دلاور نے ادینہ کا میسج پڑھتے سرسری پوچھا۔۔ نہیں ازلان کو احساس ہوا۔۔۔ میں بتاتا ہوں کہہ کر وہ چلا گیا۔۔۔ بے دھیانی میں دلاور دعا کو دیکھنے لگا نظر ایک بار پھر دونوں تلوں کے درمیان بھٹک گئی۔۔۔۔ بھلا کونسا زیادہ خوبصورت ہے؟؟؟ افففف دلاور یہ جان زادی ہے۔۔۔۔۔ نظر بھٹکی بھی تو کس پر دلاور کو خود پر غصہ آنے لگا۔۔۔۔۔۔ظالم ہیں آپ خان زادی بہت زیادہ دلاور منہ میں بڑبڑایا۔۔۔۔۔ شاہ کمال کی جگہ اگر آپ میری مانگ ہوتیں تو میں کبھی کسی لڑکی پر نظر غلطی سے بھی نہ اٹھاتا۔۔ کتنا بد نصیب تھا وہ۔۔ دلاور نا جانے کیا کیا سوچتا کے ازلان واپس آ گیا۔۔۔ پانچ گھنٹے رہ گئے۔۔ دلاور خان دعا کو ہوش کب آئے گا۔۔۔ آ جائے گا۔۔ دلاور نے تسلی دی۔۔۔ اور ایک ازلان کو تسلی دینے کو ایک بار پھر دعا کے کمرے کی طرف چل دیا۔۔ مگر نظر تلوں پر الجھ گئی۔۔۔
***********
تم اچھے سے دروازہ بند کرلو ہم جلدی آئیں گئے دعا کو لے کر۔۔۔ ادینہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔ رحیم صاحب چلے گئے۔۔۔ تو ادینہ نے ایک بار پھر دلاور کو میسج لکھا۔۔۔ بھائی یہ سب لوگ مجھے گھر میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔۔۔۔۔
دلاور نے میسج ٹون سے اپنا آئی فون پکڑ کر دیکھا تو اسکی ملٹیز آنکھیں مسکرائی۔۔ آنکھوں کے قریب پڑتی لائنیں بھی مسکرائیں۔۔ کونسا سیر پر گئے ہیں۔۔ اگر جو پکنک پر گئے اور تمہیں نہ لے کر گئے تو بتانا۔۔ شیور ادینہ نے لکھا۔۔ ویسے کیسی ہے میڈم خان زادی بچنے کے چانسز ہیں؟؟ بری بات ادینہ دلاور نے لکھا۔۔۔ تمہارے ساتھ ہوئی کسی بھی زیادتی کی مرتب خان زادی کبھی نہیں رہیں۔۔ زیادتی ان کے ساتھ بھی ہوئی ہے۔۔ حق تلفی ہوئی ہے انکی اور ظلم بھی۔۔۔۔ وہ شاید تم سے بھی زیادہ مظلوم ہیں ادی۔۔ اسکے زخموں کا تو کوئی مداوا کرنے والا ہی نہیں۔۔۔
آپ بھی میرا ساتھ چھوڑ رہیں ہیں؟ ادینہ کا خفگی سے بھرپور میسج پڑھ کر وہ مسکراہٹ دبا گیا۔۔۔ بلکل میں نے اپنی بلا اتار کر ازلان خان کے سر ڈال دی ہے۔۔ اب وہ جانے اور اسکے فرشتے۔۔۔ اسکے تو فرشتوں کے سسرالی بھی جانیں گیں بھائی۔۔ ادینہ کی گیدڑ بھبی سن کر وہ دل میں ہنس دیا۔۔ بھلا اس سے بہتر کون جانتا تھا وہ کتنی بہادر ہے۔۔۔۔
*******
لاڈو کو ہوش کب آئے گا ازلان۔۔۔۔ رحیم خان نے اسے مشینوں میں جکڑے پوچھا۔۔۔ اس کے پاس کوئی تسلی کا لفظ نہیں تھا۔۔۔ ڈیڈ لائن ختم ہونے میں دو گھنٹے رہ گئے تھے۔۔۔ اب کے دلاور کو بھی تشویش ہونے لگی۔۔۔ اب کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا تھا۔۔۔ مگر سوال یہ تھا کے دعا جیسے سبز قدم لوگوں کی زندگی میں معجزے کب ہوتے ہیں؟؟؟ اگر وہ اتنی ہی خوش قسمت ہوتی تو اسکی ہری چوڑیاں مہندی دھلنے سے پہلے کیوں ٹوٹ جاتیں۔۔۔ وہ سرخ جوڑا بیوگی کے سفید کفن میں کیسے بدل جاتا۔۔ وہ سہاگ کی سیج کانٹوں بھری رات میں کیسے بدل جاتی۔۔۔ اگر وہ اتنی ہی سبز قدم تھی تو آج اگر دعا مر بھی جاتی تو کسی کا کیا جاتا۔۔ کون تھا اسکا؟؟؟ کوئی بھی نہیں۔۔ آج یا کل سب اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتے کبھی نہ کبھی وہ اکیلی رہ جاتی۔۔۔ دلاور نے گہری سانس لی اور اپنی سوچوں کو جھٹک کر ایک بار پھر اسکی آنکھیں کھول کر چیک کیں۔۔۔ پھر ڈریپ کی نال۔۔۔۔ نظر بھٹک کر پھر اسکے سیاہ تلوں پر اٹک گئی۔۔ کون سا زیادہ خوبصورت ہے دلاور نے سوچا۔۔ اور دعا کا ڈریپ والا ہاتھ جو اسنے چیک کرنے کے لئے پکڑا تھا اسے دیکھا۔۔۔ اسے عجیب سہ محسوس ہوا۔۔ جیسے چاند پر داغ ہو۔۔۔ دعا کا رنگ برف سے بھی زیادہ سفید تھا۔۔ اتنا کے شاید ہی کسی کا اتنا سفید رنگ ہو۔۔۔ پتہ نہیں کیا کھاتی تھی وہ۔۔ دلاور کا رنگ بھی صاف تھا جیسے پرکشش مردوں کا ہوتا ہے۔۔ مگر اس وقت وہ دعا کے ہاتھ پکڑے عجیب محسوس کر رہا تھا۔۔ دلاور نے ہاتھ چھوڑ دیا۔۔ اور دوبارہ اپنے ہاتھ کو دیکھا تو عام مردوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔۔ مگر اسکے قریب خوبصورت نہ لگتا تھا۔۔۔
لعنت ہے مجھ پر۔۔۔۔ خان زادی کو پتا چلا تو کچا چبا جائے گی مجھے دلاور نے آہستگی سے چادر اسکے پورے وجود پر ڈال دی تاکہ اس چاند کو کسی کی نظر نہ لگے۔۔۔
***********
بل آخر دعا کو نیم ہوش آ ہی گیا۔۔ وہ سوکھتے لبوں سے پکار رہی تھی۔۔
“شاہ جی۔۔۔”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شاہ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “”
رحیم خان نے اسکے سر پر پیار دیا۔۔۔ جبکہ دلاور نے اپنے لب سختی سے بھینچ لئے جیسے اب کچھ نہیں بولے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
***********
ازلان خان نے کچھ کھایا۔۔۔ ؟ ادینہ کے سوال پر لحظہ بھر کو دلاور حیران ہوا پھر میسج دیکھتے بے ساختہ مسکرایا پھر اسے چھڑنے کی خاطر بولا۔۔ پانی بھی نہیں پیا۔۔۔
آپ انکا خیال نہیں رکھ رہے؟؟
تم نے پہلے کہا ہی نہیں۔۔۔
میں نے اب کونسا کہا۔۔۔
مطلب تو وہی تھا نا۔۔
میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔۔ وہ ایک رات کی بیوی کو چھوڑ کر بہن کے پلو سے لگے ہیں وہ تو کچھ کھانے بھی لگیں۔۔ تو مت کھانے دیجئیے گا۔۔۔
دلاور کو اچھو لگا۔۔۔۔
کیا رات زیادہ وعدے کر لئے تھے ججاجی نے ؟؟؟
میں بعد میں بات کرتی ہوں میرا خیال ہے کوئی خان زادی کا پوچھنے آیا ہے۔۔۔
اپنا خیال رکھنا کہہ کر دلاور نے میسج باکس بند کرکے فیس بک اون کی۔۔۔۔
اور سٹیٹس دیا۔۔۔۔۔
“”فیلنگ کنفیوز “””” ۔۔۔۔۔
جس پر سارا یزدانی کا کمنٹ آیا۔۔۔
کیوں خیریت کہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہو گئی۔۔۔۔؟
دلاور نے موبائل اوف کردیا اس لئے وہ پڑھ نہیں سکا۔۔۔
دوسرا کمنٹ ڈاکٹر جیا کا تھا ہمارے ہوتے کون آ گئی وہ؟
ڈاکٹر شان کا کمنٹ تھا۔۔ ضرور کوئی پری ہوگی۔۔
ڈاکٹر شازیہ نے پڑھا تو انکا حیرت بھرا کمنٹ آیا۔۔۔
یہ میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔۔۔
ہمارے ہارٹ ڈاکٹر نے کہیں دل کی لگی کر لی۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شان نے انہیں چھڑنے کو انکے کمنٹ میں رپلائی کیا۔۔ ارے ہم ہیں نہ آپکے پاس وہ چلے گئے تو کیا ہوا ہم تو ہیں نا۔۔ ہم سے گزرا کر لیں۔۔
بھاڑ میں جاو تم وہ سلگ کر بولی اور یہی بولنے اسکے ڈیوٹی روم میں گئی۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ بول کر پلٹی شان کی آواز پر رک گئی۔۔۔
میری محبوبہ میری دل روبہ مجھ سے روٹھ کر نہ جا۔۔۔
وہ ایسے بولتا شازیہ کو زہر لگا۔۔۔
بھاڑ میں جاؤ تم گھٹیا ڈاکٹر۔۔۔
اچھا اڈریس تو دیتی جائیں گھر کا۔۔۔
شازیہ پلٹی اسے حیرانگی سے دیکھ کر بولی کس کے گھر کا؟؟
آپکے گھر کا ابھی آپ نے ہی تو فرمایا تھا بھاڑ میں جاؤں۔۔۔۔
شازیہ نے دانتوں پر دانت سختی سے جما کر خود کو تھپڑ مارنے سے کنڑول کیا۔۔۔ اور پیر پٹختی باہر چلی گئی۔۔۔ شان کے بتیس دانت باہر نکل کر واپس اندر چلے گئے۔۔۔
********
مجھے معاف کردے گڈی۔۔ ازلان نے ندامت سے کہا میری وجہ سے تو گر گئی۔۔۔
دعا نے خفگی سے آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔۔
ازلان کو کچھ اور شرمندگی ہوئی۔۔۔ بات تو کر چاہے گالیاں ہی نکال دے۔۔ ایسا کر ٹھیک ہو کر تو مجھے انہیں سیڑھیوں سے پھینک دینا۔۔
منظور ہے دعا نے بازو اٹھا کر کہا۔۔۔ ازلان نے منہ بسورا تم ویسے مجھ سے اتنی محبت نہیں کرتی جتنی میں تجھ سے کرتا ہوں۔۔
تو یہ تیرا مسئلہ ہوا مجھے کیوں سنا رہا ہے کونسا میں نے کہا تھا۔۔۔ محبت مت کرتے وہ بے نیازی سے بولی۔۔۔
اچھا ازلان نے دانت پیسے اور پاس بیٹھے مسکراتے رحیم خان کو دیکھا۔۔۔ دیکھ رہیں ہیں بابا آپکی لاڈو بڑی مغرور ہو گئی ہے خود کو کوئی” سردارنی ٹائپ” چیز سمجھ رہی ہے۔۔۔۔
سردارنی نہیں ملکہ وہ تفاخر سے بولی۔۔ اچھا ملکہ جی کچھ کھائیں گیں؟ بلکل وہ ان کو دکھانے کو کھوکھلی ہنسی ہنس دی۔۔ مگر اندر سے دل کٹ رہا تھا۔۔۔
********
دعا کے ہوش میں آنے کے بعد دلاور کسی مصلحت سے اس کے سامنے نہیں گیا۔۔ وہ یہاں اس ہوسپٹل میں کم سے کم اپنی عزت کا تماشہ نہیں لگوا سکتا تھا۔۔۔ وہ بھی ایک سو کال سردارنی کے ہاتھوں۔
*********
ازلان نے اس کے لئے یہاں گھر کا انتظام کر دیا وہ یہاں پڑھنا چاہتی تھی۔م اور تب تک گاؤں کی پنچائیتی فل حال رحیم خان کے حوالے کردی۔۔۔۔
دعا ابھی ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔۔ اس سے بہت مشورہ لے کر بمشکل ازلان نے ادینہ کو یہاں اسکی دیکھ بھال کے لئے بلا لیا۔۔ اسطرح وہ دونوں کا خیال رکھ سکتا تھا۔۔ اور ادینہ کو آسانی سے دلاور سے ملوا سکتا تھا کم سے کم وہ ایک ظالم وڈیرہ نہیں بننا چاہتا تھا۔۔۔۔
(People)Peop lel
مطلب لوگ۔۔۔۔۔
Not peop lel۔۔۔
Its people,
ادینہ پاس سے گزر رہی تھی جب باہر لاؤنج میں بیٹھی دعا کو بے ساختہ ٹوک گئی۔۔۔۔دعا انوائیرمنٹ پر مضمون یاد کر رہی تھی۔۔۔ مگر وہ انلگش ٹھیک سے نہ پڑھ پا رہی تھی۔۔ مگر ادینہ کے ٹوکنے پر دعا نے کتابیں سمیٹ دیں اور خود اندر چلی گئی۔۔۔ ادینہ نے کتابیں دیکھیں اور صوفے کے پاس پڑی دعا کی موجڑی(کھوسہ) دیکھی۔۔۔۔۔ پاس ہی اسکی سفید گرم چادر تھی۔۔۔ کسی ٹرانس کی کیفیت میں ادینہ اس تک گئی۔۔۔ اور اسکی کتابیں کھولنے لگ گئی۔۔۔ اس پر جابجا شاہ جی لکھا تھا۔۔۔ ادینہ کی رگ میں نفرت کی ایک لہر سرسرا گئی۔۔۔ اس نے ساری کتاب پھاڑ دیں۔۔۔ دعا جو واپس کتابیں لینے آ رہی تھی ادینہ کی یہ حرکت دیکھ کر چونک گئی۔۔۔ بے ساختہ اس نے ادینہ کو اپنی طرف کھینچ کر ایک تھپڑ جڑ دیا۔۔۔۔ تم سردارنی یا خان زادی ہو گی گاؤں میں۔۔ نا میں تمہاری کسی پنچائیتی کو مانتی ہوں نا ڈرتی ہوں تم سے ادینہ نے نفرت سے دعا کا گلا دبا دیا۔۔۔۔ دعا دھان پان سی تھی اپنا بچاؤ نہ کر پا رہی تھی کچھ ابھی مکمل صحت یاب نا ہوئی تھی۔۔ کچھ ہی دیر تک اسکی آنکھیں ابلنے لگیں۔۔ پھر رفتہ رفتہ اسکے پھڑپھڑاتے ہاتھ پیر اسکا ساتھ چھوڑنے لگے اور ایک جھٹکا لگنے کے بعد اس کی اس کی کالی اور بھوری آنکھوں کا دیا بجھنے لگا اور وہ ہر درد سے آزاد سی ہو گئی۔۔۔ ادینہ کی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی۔۔ آج اس نے اپنی تذلیل کا بدلہ شاہ کمال کی محبت اور عزت کو فنا کرکے لے لیا تھا۔۔ تھو۔۔۔۔۔ ادینہ نے اسے شاہ کمال تصور کرکے اس پر تھوک دیا۔۔۔۔۔ اسی وقت اس کا موبائل بج رہا تھا ادینہ نے پسینے سے شرابور اپنی ہتھیلیوں کو دوپٹے سے رگڑا اور سرد پسینے میں بھیگی پیشانی صاف کی۔۔ اور کانپتے ہاتھوں سے موبائل ٹٹولا وہ اسے وہیں دعا کے نیچے مل گیا تھا۔۔۔ فون بج بج کر بند ہو چکا تھا۔۔۔ وہ موبائل چیک کر رہی تھی جب ایک بار پھر رنگ بج رہی تھی دلاور کا نام جگمگاتا دیکھ کر ادینہ دعا سے پھلانگ کر کمرے میں چلی گئی۔۔
ہیلو ادی کہاں تھیں پتہ ہے میرا دل گھبرا رہا تھا۔۔ کب سے فون کر رہا تھا پک کیوں نہیں کر رہیں تھیں۔۔۔ ادینہ اپنا بیگ نکال کر اس میں کپڑے رکھ رہی تھی۔۔ وہ وہ میم مم ادینہ کی آواز لرز گئی م وہ مم میں۔۔۔ ادی تم ٹھیک ہو ؟؟ دلاور بے قراری سے بولا میں ساری رات نائٹ ڈیوٹی پر تھا۔۔ ابھی بہت برا خواب دیکھا ہے یک دم تمہارا ہی خیال آیا تم ٹھیک ہو؟ می۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ ٹھیک ۔۔۔۔۔ ہوں۔۔ وہ بمشکل بول پائی۔۔۔ ساتھ ساتھ سامان پیک کر رہی تھی۔۔۔ ادینہ تم مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی میں باہر آ رہا ہوں مجھے مل لو ایک بار۔۔۔ دعا خان زادی کو پتہ نہ چلے۔۔ ہاں آپ آجائیں بھائی اس کو پتہ نہیں چلے گا۔۔۔ کیوں کہیں گئیں ہیں وہ؟؟ نہیں مر گئی ہے وہ میں نے مار دیا ہے اسے میں نے شاہ کمال کی محبت کو قتل کرکے بدلہ لے لیا ہے اپنا۔۔۔۔ ادینہ تم پاگل ہو یہ مزاق تھا نا۔۔۔ بلکل مزاق نہیں تھا آپ مجھے لے جائیں۔۔ وہ ازلان خان مجھے مار دے گا۔۔ ادینہ دعا کہاں ہیں؟؟ وہ باہر پڑی ہے۔۔۔ فون بند ہو گیا۔۔ وہ سر جھٹک کر اپنا سب سامان پیک کرنے لگی۔۔۔۔
*********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...