آج زوہا کی بارات تھی۔ بیو ٹیشن کو گھر ہی بلوا لیا گیا تھا جب کہ رخصتی ہال سے ہونی تھی۔
” ماشاءاللہ۔ ”
بیو ٹیشن کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
” آپ تو بہت حسین لگ رہی ہیں۔ آپ کے دولہے تو ہوش ہی کھو بیٹھیں گے آج اپنے۔ ”
وہ اس کی بات پر جبرا مسکرائی اور نگاہ اٹھا کر شیشے میں دیکھا۔
ایک دفعہ تو وہ بھی حیران رہ گئی خود کو دیکھ کر۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا خود پر۔
اس قدر ٹوٹ کر روپ آیا تھا آج اس پر۔
” تھینکس۔ ”
زوہا کے منہ سے یہ ایک لفظ ادا ہوا۔
” ہوگئی تیار تو۔ ”
نسرین بیگم بولتی ہوئی اندر داخل ہوئیں پر زوہا دوہا کو دیکھ کر انکی چلتی زبان کو بریک لگ گیا۔
وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھیں اور اسے سینے سے لگا لیا۔
لاکھ ناراضگی سہی ان کی زوہا سے پر آخر کو تھیں تو ایک ماں ہی نہ۔ اور ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے اپنی بیٹی کو دولہن کر روپ میں دیکھنے کی۔
اس کا ماتھا چوم کر نظر کا ٹیکا لگایا۔
اور اسے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف داور بھی بلیک شیروانی پہنے کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
حویلی کے سامنے شاندار آتش بازی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
فائرنگ بھی زور و شور سے جاری تھی۔
پوری فضا اس وقت گولیوں اور پٹاخوں کے شور سے گونج رہی تھی۔
دل کھول کر پیسہ بھی لٹایا جا رہا تھا۔
آخر کو بڑی حویلی کے اکلوتے وارث کی شادی تھی۔
صفدر صاحب کے اشارہ کرنے پر داور جا کر پھولوں سے سجی گاڑی میں بیٹھ گیا پیچھے صفدر صاحب اور گلزار بیگم بیٹھ گئے۔
باقی سب بھی اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھ گئے۔
اسطرح شہزادہ اپنے اس شاندار قافلے کے ساتھ اپنی شہزادی لانے کے لئے چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات ہال کے باہر پہنچ چکی تھی۔
سڑک پر آتے جاتے لوگ رک رک کر اس بارات کو دیکھ رہے تھے۔
جس میں اسلحے کی نمائش پر پابندی ہونے کے باوجود دل کھول کر فائرنگ کی جا رہی تھی۔
صفدر صاحب کے کچھ بڑے لوگوں سے تعلقات تھے اور کچھ پیسے دے کر انہوں نے پولیس کا منہ بند کروا دیا تھا۔
تقریبا آدھے گھنٹے کی فائرنگ اور آتشبازی کے بعد بارات ہال کے اندر داخل ہوئی۔
عورتوں کو پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا اندر۔
زوار کا ارادہ آج فائز سے مل کر ساری بات کلیئر کرنے کا تھا۔ کیونکہ فون وہ اس کا اٹھا نہیں رہا تھا پر یہاں آ کر اسے معلوم ہوا کہ وہ تو شادی میں شریک ہی نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا اپنی کزنز کے ساتھ برائیڈل روم میں بیٹھی تھی اور رمشا کو یاد کر رہی تھی۔ جو اس سے دور دور ہی تھی۔
اس کی شادی کے فنکشن میں صرف اس کے تایا تائی اور رمشا ہی شامل ہوئے تھے۔ فائز شہر سے باہر تھا اور مائز کو گھر پر ہی روک دیا تھا عائلہ بیگم نے۔
اس کی کزنز اسے چھیڑ رہی تھیں پر اس کے دل میں کوئی جذبات نہ تھے۔
وہ زبردستی اس کی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔
ابھی سب باتوں میں مشغول تھے کہ بارات آنے کا شور اٹھا ساری لڑکیاں بارات دیکھنے باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہوئی تو سب کی زبان پر دولہے کے چرچے تھے۔
کچھ دل اسکی قسمت پر رشک کر رہے تھے جبکہ کچھ حسد سے جل رہے تھے۔
اس کی ایک کزن داور کی ویڈیو بنا کر لائی تھی جس میں وہ گاڑی سے اتر رہا تھا۔
اس نے موبائل زوہا کے آگے کردیا۔ زوہا نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور نظر جھکالی۔
سب اسکی اس حرکت کو اسکی شرم و حیا سمجھ کر اسے تنگ کرنے لگی۔
اتنے میں برائیڈل روم کا دروازہ بجا۔ ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو اظہار اور انوار صاحب کھڑے تھے مولوی کو لے کر۔
نسرین بیگم بھی آگئیں۔ انھوں نے سندھی کڑھائی کی چادر سے زوہا کا گھونگھٹ کر دیا۔
سب آکر اس کے پاس رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
نسرین بیگم اس کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
” مولوی صاحب شروع کریں۔ ”
اظہار صاحب گویا ہوئے۔
” زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے ۔ کیا آپکو قبول ہے؟ ”
اجازت طلب کی گئی۔
” زوہا جواب دو۔ ”
نسرین بیگم نے اس کو ساکت بیٹھے دیکھ کر بولا۔
” قبول ہے۔ ”
یہ دو لفظ ادا کرتے ہوئے اسے ایسا لگا جیسے کسی نے خنجر اس کے دل میں اتار دیا ہو۔
” زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے۔ کیا آپکو قبول ہے؟ ”
دوبارہ پھر اجازت طلب کی گئی۔
” ق۔قبول ہے۔ ”
اسے لگا خنجر واپس نکال کر دوبارہ اس کے دل میں پیوست کر دیا گیا ہو۔
” زوہا بنت اظہار احمد آپ کو حق مہر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت کے عوض داور علی شاہ ولد صفدر علی شاہ کے نکاح میں دیا جاتا ہے ۔ کیا آپکو قبول ہے؟ ”
ایک دفعہ پھر پوچھا گیا۔
” قبول ہے ”
ایک آخری وار اور اس کے دل کا خاتمہ اور سب ختم ہو گیا۔ جسم سے جسم نکال لی گئی۔ اب اس گھر سے جو رخصت ہو گا وہ ایک خالی جسم ہو گا۔ کو جس میں صرف انتقام ہے۔ اظہار صاحب اور انوار صاحب مولوی کے ساتھ باہر چلے گئے۔ ورنہ اس موقع پر ایک باپ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اسے سینے سے لگاتا ہے اسے خود سے الگ کر کے ہمیشہ مضبوط رہنے کی ہمت دیتا ہے کہ وہ آنے والے تمام مصائب کا بہادری سے مقابلہ کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار صاحب اور انوار صاحب کے جانے کے بعد مشعل نے ذوہا کی چادر ہٹائی جو اسے نکاح کے وقت اڑائی تھی اور بولی۔
” اف اللہ! زوہا بھابھی کتنی پیاری لگ رہی ہیں آپ تو۔ ہم تو پہچانے ہی نہیں آپ وہی زوہا ہیں۔ ویسے داد دینی چاہیئے آپکو تیار کرنے والی کی۔ ”
مشعل شرارتی انداز میں گویا ہوئی۔
زوہا نے اسکی بات پر صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
” یار چیک کرائو تم ہماری زوہا ہی ہو یا تم زبان گھر پر بھول آئی ہو۔ اور یہ رمشا کو کیا ہوا ہے وہ کیوں اتنی دور دور ہے۔ ”
مشعل اس کے قریب جھک کر بولی کیونکہ جب وہ پہلی بار ان سے ملی تھی تو ان کی دوستی دیکھ چکی تھی۔
مشعل کی بات نے زوہا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کیونکہ اس کی باتوں سے تو یہی لگ رہا تھا کہ مشعل سارے واقعے سے انجان ہیں۔
اس کے دل میں موجود داور کے لیے نفرت کے گراف میں ایک درجہ اور بڑھ گیا۔ عورتیں کتنی معصوم ہیں اس گھر کی اور مرد کیسے شیطان صفت ہیں۔
وہ اب چاہ کر بھی اپنا رویہ اس کے ساتھ خراب نہیں کر سکتی تھی۔ اسے پہلے ہی ملاقات میں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ صاف دل کی بے ضرر سی لڑکی ہے۔ اور اب تو اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سارے معاملے سے بے خبر ہے۔
” ماشااللہ ۔ اللہ نظر بد سے بچائے ”
گلزار بیگم نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چوما۔
” چلیں اب زوہا کو لے کر باہر چلیں۔ مییرا بچا کب سے انتظار کر رہا ہے ”
گلزار بیگم نسرین بیگم سے بولیں۔
زوہا کا موڈ جو ان دونوں کی وجہ سے تھوڑا بہت خوشگوار ہوا تھا داور کے ذکر پر اسکا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور نے ایجاب و قبول کے مراحل طے کر لئے تھے۔
اب وہ شہزادہ اسٹیج پر بیٹھا بے صبری سے اپنی شہزادی کا انتظار کر رہا تھا کہ یکلخت ہال کی ساری لائٹیں بند ہو گئیں۔
اور ایک اسپاٹ لائٹ جلی جو اسکی شہزادی کو فوکس کئے ہوئی تھی۔
اسے دیکھ کر وہ پلکیں جھپکانا بھول گیا کہ وہ لگ ہی اتنی حسین رہی تھی۔ اسے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا۔
وہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی ہوئی اسٹیج کے پاس آ کھڑی ہوئی وہ ابھی بھی مدہوش سا اسے تکے جا رہا تھا کہ کیمرہ مین کی آواز اسے ہوش میں لائی۔
” سر آپ میم کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اسٹیج پر لے کر آئیں۔ ”
آں ہاں۔ ” ”
اس نے زوہا کے آگے ہاتھ بڑھایا۔
زوہا نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر ایک نظر نسرین بیگم پر ڈالی انکا مثبت اشارہ پا کر زوہا نے جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ داور کے ہاتھ میں دے دیا۔
داور نے نرمی سے اس کے ہاتھ پر دبائو ڈال کر اسے اسٹیج پر آنے میں مدد دی۔
وہ جا کر اسٹیج پر رکھے کائوچ پر بیٹھ گئے۔
وہ ساتھ میں بیٹھے صحیح معنوں میں چند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔
فوٹو سیشن اور کچھ رسموں کے بعد آخر کار وہ لمحہ آہی گیا جس میں ہر لڑکی کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔
بچپن سے لے کر جوانی جن کے ساتھ گزاری ہوتی ہے ، جس میں انکی جان بستی ہے انہیں چھوڑ کر انجان لوگوں میں جا کر بسنا ہوتا ہے۔
نسرین بیگم نے اسے ساتھ لگا کر اسٹیج سے نیچے اتارا۔ اذان پیچھے اس پر قرآن کا سایہ کئے ہوئے چل رہا تھا۔ اظہار صاحب نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔
زوہا جو کب سے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے ہوئے تھی یہاں آکر اسکا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ باپ کے سینے سے لگ کر رو دی۔
اظہار صاحب اس سے لاکھ ناراض صحیح پر تھی تو وہ ان کی لاڈلی جس کی بچپن سے آج تک کوئی بات نہیں ٹالی تھی۔
انہوں نے بھی آبدیدہ ہو کر اسے سینے میں بھینچ لیا۔ اسکے بعد تو زوہا اس شدت سے روئی کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
باپ بیٹی کے محبت کے اس مظاہرے کو دیکھ وہاں موجود لوگوں کی بھی آنکھیں نم ہوگئیں۔
آخر اظہار صاحب نے اسے خود سے الگ کیا اور اسے لئے باہر کی جانب بڑھ گئے۔
گاڑی میں زوہا کے ایک جانب مشعل تھی اور دوسری جانب گلزار بیگم۔
داور آگے ڈرائیور کے ساتھ براجمان تھا۔
جبکہ صفدر علی شاہ دوسری گاڑی میں تھے۔
زوہا مسلسل رو رو کر خود کو ہلکان کئے جا رہی تھی۔
مشعل اور گلزار بیگم اسے چپ کروا رہے تھے پر اسکے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ آگے بیٹھے داور کے دل پر گر رہے تھے آنسو گر رہے تھے پر وہ مشعل اور گلزار بیگم کی موجودگی کی وجہ سے خاموش تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...