مجھے بے حد مسرت ہے حسن بیٹا آپ جیسے مخلص با کردار حوصلہ مند نوجوان آرمی میں آیا ہمارے ملک کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دھن من سب وطن پے قربان کر دے
ہادی کے والد صاھب نے حسن کو گلے لگاتے ہوئے کہا
حسن ,سعد رضا ابھی باہر سے آئے تھے
انکل ہادی کدھر ہے سعد نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا
ابھی اپنے روم کی طرف گیا ہے ….
چلو بیٹا مجھے اجازت دیں اک ضروری میٹنگ میں جانا مجھے ورنہ آپ لوگوں کے پاس کچھ وقت بیٹھتا انہوں نے معذرت کرتے ہوے کہا اور لاؤنج سے نکل گے
جب کے سعد ہادی کو بلانے اسکے روم کی طرف بڑھ گیا
حسن رضا کی جانب موتوجہ ہوا …جس کے چہرے سے خوشی کے تاثرات جھلک رہے تھے …
کافی خوبصورت ہے نہ وہ
حسن نے سوالیہ انداز میں پوچھا
کون؟ رضا چونکا ۔۔۔۔۔۔
وہ ہی جس کے خیالوں میں گم جس کے ساتھ شاپنگ کر رہے تھے تمہے کیا لگا میں اندھا ہوں جو دیکھ نہیں پاؤ گا یاد کرو میں بھی ادھر ہی تھا بلکہ تم میرے ساتھ ہی تو گے تھے لڑکی کیا ملی مجھ دوست کو بھول گے مجھ سے بھابھی جی کو ملوانا ضروری نہیں سمجھا حسن نے شکوہ کرتے کہا
او مائی گاڈ …
تم کیا سمجھ رہے میں کس کے ساتھ تھا……..رضا ماتھے پے ہاتھ رکھتے ہو ئے بولا ۔۔۔۔
وہ ہی جیسے وائٹ فراک گفٹ کی ۔۔۔جیسے دیکھ کے تمہارا چہرہ کھل اٹھا چاہو تو پروف بھی دیتا ہوں
حسن نے موبائل سامنے کرتے ہوے کہا …
رضا نے سکرین کی طرف دیکھا تو سامنے رضا کی نوال کے ساتھ پک تھی جس میں نوال بے تھشا کیسی بات پر ہنس رہی تھی
حسن سےمال میں بائی چا نس یہ منظر کیپچر ہوا تھا ….
او شٹ یار یہ تو نوال ہے اف حسن تم بھی کیا سوچنے لگ گے یہ میری بہنوں جیسی ہے …اسکے ساتھ تو میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا
پھر جس کے بارے میں سوچتے ہو اسکا بتاؤ ویسے تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں یہ نہیں وہ لیکن مجھے یقین کوئی نہ کوئی ضرور ہے وہ تھی بھی اس وقت مال میں کیوں کے جب تم گے تھے تو بہت اپسیٹ تھے لیکن آتی بار بہت خوش اور میں یہ بھی پورے وثوق سے کہ سکتا ؤہ جو بھی ہے اسکا اس لڑکی سے کوئی نہ کوئی کونیکشن ضرور ہے
حسن موبائل کی سکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولا
یار آج سعد کی طرح کیوں کر رہے ہو رضا نے بیچارگی سے کہا. …
تم سیدھے طریقے سے بتاؤگے کے نہیں حسن نے جارحانہ انداز میں کہا ………
یار نوال کی کلاس فیلو پلس دوست ہے وہ مجھے اسکا ہی بتانے آئے تھی کے وہ بھی ادھرہے اور وہ فراک بھی اسکے لیے تھا
پکا نہ یہ نہیں ہے حسن کو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا
ھاں یار یہ نہیں وہ ….ویسے بھی ہادی کی شادی میں یہ ہوں گی تو اپنی بہن سے ملوا دوں گا
اور بھابھی سے ؟ اور یہ ہادی کی شادی میں کیوں ہو گی حسن نے سوال پے سوال پوچھا
او یار تو جان چھوڑنے والا نہیں…. ..نوال زہرا بھابی کی دوست ہے
اور ابھی تک میں نے سبین کو خود نہیں بتایا تمے پہلے ملوا دوں
پلیز اب ان دونوں کو نہ بتانا …. ابھی رضا نے التجا کی ….
سعد تمے اسکے ساتھ دیکھ چکا …..ہوسکتا ہے اسے بھی میری طرح غلط فہمی ہوئی ہو میں سنبھال لوں گا حسن نے دلاسہ دیا
اتنے میں ہادی اور سعد آ گے وہ دونوں انکی طرف موتوجہ ہو گے
حسن کے زہین سے بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔۔۔۔
کیوں کے نوال سے پھیلی مڈ بھڑ جو جیو لری شاپ کے سامنے ہوئی تھی وہ نوال کی آنکھوں کا اسیر ہو چکا تھا
اسے خود یقین نہیں تھا کے اس جیسا ریزرو بندے کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا وہ تو اسکے دوبارہ ملنے سے مایوس ہو چکا تھا پھر مال میں رضا کے ساتھ دیکھ کے مایوسی ہوئی تھی لیکن اب ساری ٹینشن ختم ہو چکی تھی….
”
سعد بیٹا آپ کیا کر رہے ہیں فوزیہ بیگم سعد کی امی نے روم میں داخل ہوتے ہوے پوچھا
وہ جو کیسی میٹنگ میں جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا مڑ کر ماں کی طرف دیکھا
آپکو کوئی کام تھا کیا——- کیوں کے وہ اپنی ماں کا لہجہ پہچانتا تھا ۔۔۔۔
جی بیٹا مجھے ضروری بات کرنی آپ سے ۔۔۔۔
جی حکم کرے میری سویٹ ماں سعد نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پے بیٹھتے ہوے کہا
بیٹا اب تو آپ نے کاروبار بھی سنبھال لیا اپنے بابا کی طرح ہر وقت مصروف رہتے میں اکیلی سارا دن اکیلی رہتی ہوں ۔۔۔۔ کوئی تو رونق ہو ۔۔
ماں آپ کہنا کیا چاہتی ہے کھل کے بولے مجھے نہیں سمجھ آئی ۔۔۔۔۔سعد نے ناسمجھی سے کہا
ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے وہ اپنے بیٹے کے سہرے کے پھول دیکھے اگر تمہے کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا دو ..فوزیہ بیگم .نے رازدانہ انداز میں پوچھا. ….
نہیں امی ایسی کچھ نہیں ۔۔۔۔
اچھا بیٹا تمہے زہرا یاد کر رہی تھی اور ناراض ہو رہی تھی کے جب سے ڈیٹ فکس ہوئی تم اک بار بھی ادہر نہیں گے آج چلے جانا ….
اوکے ماں مجھے اجازت دیجیے آ کے پہلے ادہر ہی جاؤں گا……
سعد ،زہرا ،اور ہادی کزن تھے تینون کا بچپن اک ساتھ گزرا
تینوں کے گھر ساتھ ساتھ بس چھوٹی سی دیوار سے پورشیوں کو الگ الگ کیا گیا تھا سعد ہنس مکھ شوخ شرارتی
: سا
لیکن ینگ کامیاب بزنس مین جس نے بڑی جلدی بزنس کی دنیا میں اک الگ نام بنا لیا تھا
اسکے بر عکس ہادی…. کسی کام کو سیریس نہیں لیتا بابا کے بزنس میں اسے کوئی انٹریسٹ نہیں تھا لیکن کچھ سب کے پریشر کی وجہ اور کچھ وہ بور ہو چکا تھا کیوں کے سب اپنی اپنی لائف میں بزی ہو چکے تھے تبی اس نے بھی ڈیڈ کے ساتھ آفس جانا سٹارٹ کر دیا….
اسکے آفس جانے سے ہی اسکی شادی کا خیال آیا کیوں کے بچپن سے ہی زہرا کے ساتھ اسکی نسبت تہے تھی
زہرا فیشن کی دیوانی ہر نیا فیشن آزمانے والی ڈریس ڈیزائنر
خوبصورت چست جسم کی مالک ہے
: …بھا …سعد نے روم کے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے زہرا کو زاہرا کو ڈرانے کے لیے پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھا
یہ کیا بےہودگی ہے serish نے غصے سے کہا
سعد نے جلدی سے ہاتھ ہٹا لیا اور حیرانگی سے کہا آپ کون اور میری بہن کے روم میں
کیا کر… اک منٹ آپ چورنی تو نہیں کیا چورانے ائی کیا کیا چورا چکی دیکھاو ۔۔۔سعد نے بیگ کی طرف دیکھ کر کہا جو زہرا کے بیڈ پر پڑا تھا چیکنگ کے لیے بیگ کی طرف بڑا
دیکھے مسٹر آپ حد سے بڑ رہے ہیں میں کدھر سے آپکو چور لگتی اور آپکو کسی نے مننرز نہیں سیکھائے کسی کے روم میں جانے سے پہلےنوک کرنا چاہئے
کیا ہو گیا خیر ہے کیوں اتنا شور کر رہی زہرا واشروم سے اس کی آواز سن کے باہر آئی ۔۔۔۔۔سحرش کی جانب دیکھتے ہوے پوچھا
یہ مسٹر مجھے چور سمجھ رہے ہیں اک تو اجازت کے بنا کمرے میں آئے اور دوسرا الزام لگا رہے ہیں سحرش نے خوفگی سے کہا
زہرا سعد کی طرف دیکھنے لگی جس نے اسے موتوجہ دیکھ کر کہا کے مجھے لگا کے یہ شادی کا گھر سمجھ کے چوری کرنے ائی اور رہی سہی کسر اس بیگ نے پوری کر دی
سعد نے بیگ کی طرف اشارا کرتے ہوئے تھوڑا شرمندہ لہجے میں کہا …….
ہاہاہا …….او نہیں سعد بھائی یہ میری دوست سحرش ہے ….اور سحرش یہ سعد بھائی صبح تم فوزیہ چچی سے ملی یہ انکے بیٹے ..
سحرش کو وہ سوبر سی خاتوں یاد ائی جو صبح بہت پیار سے ملی تھی اور کافی دیر اسکے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی رہی
جس کی وجہ سے نوال نے بڑا تنگ کیا تھا
کے دال میں کچھ کالا لگتا ہے کیونکے فوزیہ بیگم سحرش سے بہت محبت سے اسکی پسند نہ پسند جاب فیملی کے بارے میں پوچھ رہی تھی: سحرش کی غیر ارادی نظر سعد کی جناب اٹھی تبی سعد نے بھی اسکی جانب دیکھا
دونوں کی نظریں ملی یہ لمحہ دونوں پر بہت بھاری گزرا …….,,,,,,,,سعد نے آنکھیں چورا لی اور زہرا کی جانب موتوجہ ہوا جو اتنے دنوں بعد آنے کی وجہ سے لڑ رہی تھی
سحرش بھی اپنے موبائل پے مصروف ہو گئی ۔۔۔۔
“””””””’نوال میں سوچ رہی تھی جب ہم بھی پیا دیس چلی جائینگی ۔۔۔کتنا مشکل ہو گا نہ اک دوجے کے بنا رہنا ابھی تو ہم اک منٹ بھی دور نہیں رہ سکتی تب کیا ہو گا سبین نے روآنسی آواز میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور نوال آج کالج آئی تھی ابھی دونوں فری ہو کے اسٹاف روم آئی تھی ۔۔۔۔۔
””””””سب خیریت کوئی مل تو نہیں گیا جو ا یسی باتیں کر رہی ہو ۔نوال حیران تھی کہ سبین آج ایسی بات کیوں کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
”””””’اُ ف توبہ
“””””””نوال تم سے بات کرنا ہی فضول ہے میں تو ویسے که رہی ہوں اور تم نے پتا نہیں کیا سمجھا “””””…………
“””””””میں کیسے کسی کے بارے میں سوچ سکتی ہو مجھ تو اسائنمنٹ کی ٹینشن بنی رہتی جو جتنی مرضی اچھی بنا لوں اک بار ریجیکٹ ضرور ہوتی …………………
“”” “شکر ہے ابھی وہ ٹینشن ختم ہوئی نیکسٹ سیمسٹر میں دیکھے گے کیا ہوتا سبین کافی پر سکون لگ رہی تھی ……………….
ویسے سبین سر رضا اتنے برے نہیں جتنے تم سمجتی بہت اچھے ہیں ………..
“”””””””””نوال بی بی تم انکی چمچی ہو مجھ سے پوچھو کیسے وہ ہر وقت گھورتے رہتے مجھے سبین کافی بد گمان لگ رہی تھی ……..
“”””””””””تم انکے گھورنے کا کچھ اور بھی مطلب لے سکتی ضروری نہیں کے جو تم سوچتی ویسا ہو تھینک پوزٹو میں پورے وثوق سے کہ سکتی ہوں وہ تم میں انٹرسٹڈ ہیں تھینک ابوٹ اٹ ۔۔۔۔نوال
نے مسکراہٹ چھپاتے ہو ئے کہا ۔۔۔۔۔۔
“”””””””چلو اب چلے “سبین نوال کی باتوں کے بارے میں سوچتی اٹھ کھڑی ہوئی دونوں آج کالج آئی تا کے زہرا کی شادی کے لیے لیو لے سکیں ……
“””””””دونوں اسٹاپ پر وین کا وائٹ کر رہی تھی تبی اک کار انکے سامنے آ کر رکی فرنٹ ڈور کھولا تو دونوں نے ادھر دیکھا ……
“”””””””سر ادھر کیوں آ رہے ہے ۔۔۔سبین نے نوال کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور ڈرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
“”””””””مجھے کوئی الہام ہوا ہے جو پتا ہو گا کیوں آئے خود ہی پوچھ لو وہ ادھر ہی آ رہے ۔۔۔۔۔۔۔
“””””””””نوال آپ ادھر کیوں کھڑی رضا نے پاس آ کر پوچھا وہ ان دونوں کی باتیں سن چکا تھا تبی سبین کی طرف نہیں دیکھا بہت مشکل سے خود پے کنٹرول کیا اسکی طرف دیکھنے سے
“”””””””ہم کالج کام سے آئی تھی اب واپسی کے لیے وین کا انتظہآ ر کر رہی نوال نے مختصر جواب دیا
“”””””او اوہ میں چھوڑ دیتا ہوں… تم لوگ زہرا کے گھر ہی روکی ہوئی نہ میں بھی ادھر ہی جا رہا ………
“”””””نوال تو مان گئی لیکن سبین ہچکچا رہی تھی اک تو کچھ وقت پہلے والی نوال کے ساتھ ہوئی باتوں کا اثر تھا وہ غیر ارادی طور پے رضا کے بارے میں سوچنے لگ گئی تھی ..
“””””””اسے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر رضا نے نوال سے پوچھا بظا ہر سنجیدہ لہجے میں پوچھا لیکن شرارت اسکی آنکھوں سے عایا تھی آپکی دوست نے چپ کا روزہ رکھا ہوا کیا ان کو کہے چلے. …….کوئی کھا نہیں جاؤں گا …………””””””آپ جس طرح کا سلوک کرتے بیچاری کےساتھ اور وہ پھر کیسا سوچے آپ کے بارے میں
نوال نے جل کر کہا …..
ہاہاہا اوکے
“”””””””میں سبین سے اپنے رو یے کی معافی مانگتا ھوں پلیز اب تم ہی سمجاؤ انکومیرے رویے کی اصل وجہ آخری بات دھمے سے کہی لیکن سبین سن چکی تھی اسکے چہرے پر کئی رنگ آ کے گزرے ……………
“”””””او پلیز رضا میں جنتی آپکی پوزیشن کلیر کرنے کی کوشش کرتی پھر آپ آ کے خراب کر دیتے ………..
“””””””سبین ان دونوں کی بات سمجھ چکی تھی گھر جا کر کلاس لینا کا پروگرام بنایا وہ راستے میں کوئی تماشا نہیں بنانا چاہتی تھی نوال اسکا ہاتھ پکڑ کر کار کے پاس لے ائی وہ صرف اسے گھور کے ہی ره گئی………..
“”””””””
انکا تعارف نہیں کرواؤ گے
وہ دونوں پچھلی سیٹس پر بیٹھنے لگی تھی جب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوے حسن نے رضا سے شرارتی آواز میں کہا
وہ دونوں بھی اسکی جانب موتوجہ ہو چکی تھی ……..
نوال نے رضا کو گھورا جیسے پوچھ رہی ہو یہ نمونہ کون
رضا نے اسکے گھورنے کو سمجھ لیا
یہ ہے حسن میرے اور ہادی کے مشترکہ دوست
حسن یہ میری بہن نوال انکا بتایا تو تھا تھمے اور یہ انکی دوست سبین اور میری سٹوڈینٹ”””
وہ آپ کی بہین تو یہ میری بہین ہوئی۔۔۔۔حسن نے شرراتی نظروں سے رضا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
…کیونکہ وہ رضا کی آنکھوں میں سبین کو دیکھ کر آنے والی چمک کو پہچان چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
…….رضا حسن کی کی گئی معنی خیز بات کو سمجھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
…..۔۔۔۔۔۔”””” تم لوگ گاڑی سٹارٹ کر رہے یو یا ہم نیچے اتر جائے ۔۔۔۔نوال حسن کی توفشیش سے بہت زیادہ تنگ آ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
“”””*******”””””””’ حسن نے گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔اور رضا پورا راستہ بیک مرر سے پر شوک نظروں سے سبین کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔
*****””””””
“””””””””””””کیا ہوا اتنی خاموشی کیوں ہے کوئی گھر میں ہے بھی کے نہیں ………..زہرا نے فوزیہ بیگم کے پورشن میں داخل ہوتے ہوے کہا جدھر مکمل خاموشی کا راج تھا اتنے میں فوزیہ بیگم اپنے کمرے سے نکلی انکی نظر زہرا کے ساتھ ائی نوال سحرش اور سبین پر پڑی……. آج تو میری قسمت جاگ گئی میری بیٹا ں آ ئی ہیں میرے گھر ۔۔۔۔۔۔۔خوشی سے گلے لگتے ہوے کہا انہیں لے کر لاؤنج میں آ گئی ملازمہ کو انکے لیے چاۓ لانے کا کہا ۔۔۔۔۔۔
آنٹی اتنی خاموشی کیوں ہے باقی کدھر زہرا نے پوچھا
بیٹا آپکو پتا تو ہے آپکے انکل ہر وقت کاروبار کے سلسلے میں زیادہ طرح باہر ہی ہوتے اور رہی بات سعد کی وہ بھی اپنے باپ کے نقشے قدم پے چل نکلا ہے ہر وقت کبھی کدھر میٹنگ کبھی کدھر کب گھر بیٹھتا وہ بھی ……..
فوزیہ بیگم نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ………
چھوڑے آنٹی پرشان نہ ہو آپ ……….سب ٹھیک ہو جاۓ گا آپ سعد بھائی کی شادی کر د ے بہو آ جاۓ گی تو آپکی پرشانی دور ہو گی اور یہ خاموشی کا راج بھی ختم ہو جاۓ گا …..
ہاہاہا …….تمہے تو ہر مسلۓ کا حل شادی ہی لگتا سحرش نے نوال کی بات کا حسبے عادت مذاق اڑایا ………..
تم دونوں پھر شروع ہو گئی کچھ موقع محل کا بھی خیال کر لیا کرو ہر وقت اک دوجے کو زچ کرنے میں لگی رہتی سبین نے دونوں کو گھورتے ہوے کہا…
“”””””””””بیٹا مجھے تو ان دونوں کی یہ عادت بڑی اچھی لگتی کیسے چوٹکیوں میں موڈ فریش کر دیتی انکی نوک جھوک میں بھی پیار چھپا ہوتا
انٹی آپ سے یہ کبھی کبھی ملتی مجھے تو انکو ہر وقت برداشت کرنا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
تم ہماری انہی باتوں کو یاد کر کے رو گی کبھی۔۔۔۔۔۔۔ سحرش نے سبین کی بات کاٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے نوال کا مشورہ بہت اچھا ہے لیکن مسلئہ یہ ہے کہ وہ کسی لڑکی کو پسند کرے تو نہ فوزیہ بیگم نے سحرش کو پیار بھری نظروں سے دیکھا
کس کو لڑکی پسند آئے ۔۔۔۔۔۔۔ کس کی بات کر رہی سعد نے ماں کی آدھی بات سنی تھی تبی لاؤنج میں داخل ہوتے ہوے کہا
سامنے ماں کے ساتھ بیٹھی ھستیوں پر نظر پڑی تو دل کے تار بجے …….کیوں کے ان میں سے اک دل کے بہت قریب لگی… لیکن وہ نظریں چورا گیا
کسی کی نہیں آو بیٹھو تم ان کے پاس فوزیہ بیگم نے بات
ٹا لتے ہوے کہا کیوں کے وہ انکی بات مذاق میں ٹال دیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
سعد بھائی یہ کیا بات ہوئی آپ ہر وقت آفس میٹنگز میں رہتے میرے لیے کوئی ٹائم ہی نہیں آپکے پاس آپکو پتا بھی پھر میں نے دوسرے گھر چلے جانا زہرا نے بلیک میلنگ کی ناکام کوشش کی. …
ہاہاہا…… بس کر دو میری بہن کونسے دوسرے گھر جا رہی پہلے دائیں طرف تھی اب بائیں طرف شفٹ ہو جاۓ گی سعد نے بیٹھتے ہوے زہرا کا مذاق بنایا …….باقی تینوں بھی ہنسنے لگ گئی جبکہ فوزیہ بیگم ہنستے ہوے کچن کی طرف گئی تا کہ وہ سعد کے لیے چاۓ کا کہ سکے. ………….
زہرا روہنسی ہو گئی سعد کو ترس آ گیا …………یار مذاق کر رہا تھا رونے نہ لگ جانا اب انکا تعارف تم خود کرواؤ گی یا میں خود فریضہ پورا کروں. …………..اسکو تو تم مل چکے سحرش کی طرف اشارہ کر کے کہا
یہ نوال اور سبین یہ وہ ہی نہ جن کا ذکر اکثر کرتی رہتی تم سعد نے کہا تبی ملازمہ ٹرالی لے کر آگئی اور سبکو چاۓ سرو کی ساتھ کباب اور چپس میز پر سجا گئی
اسی وقت سعد کا موبائل بجا رضا کی کال تھی یس کی تو حسن بولا کدھر دفع ہے تو کتنی بار کال کی اٹھا کیوں نہیں کر رہا تھا ابھی بھی تیرے گھر کے سامنے کھڑے ہم دونوں حسن نے حال چال پوچھنے کی بجا ئے برستے ہوے کہا
یار ابھی گھر ہی ھوں آ جو تم دونوں بھی بھابھی سے ملواتا
“””””””””او کمینے کب کی شادی تو نے ہمیں اب بتا رہا …..
“””””””ہاہا او نہیں یار زہرا کی بات کر رہا ہوں وہ بھی ادھر ابھی سعد دیکھ سحرش کو رہا تھا
“”””””””دو منٹ میں وہ دونوں بھی آ گے…… انکا پروگرام تو سعد کی کلاس لینے کا تھا لیکن ادھر ان سب کو دیکھ کر چپ ہو گے سب کو مشترکہ سلام کر کے سعد کے ساتھ ہی بیٹھ گے رضا تو سب کو جانتا تھا لیکن حسن سحرش کے بارے میں سوالیہ طور پر دیکھ رہا تھا یہ ہیںں مس چورنی سعد نے کہا سارے سحرش کی طرف دیکھ رہے تھے
“””””زہرا نے غصے سے سعد کو گھورا اور اس دن والا سارا واقعہ بتایا سب کو۔۔۔۔۔۔ سارے ہنسنے لگ گے جب کے سحرش بیچاری اپنی جگہ شرمندہ سی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔
زہرا بھابھی ہمارے بھائی صاھب کدھرہے ۔۔۔ رضا نے پوچھا
مجھے ابھی سے کیا پتا آپ لوگوں کو پتا ہو ………
زہرا ,سحرش رضا کے اتنے اچھے موڈ سے حیران ہوئی جبکے سبین جانتے ہوے انجاں بن گئی ……….
سعد سحرش کی جانب پر شوق نظروں سے دیکھ رہا اسکی چوری حسن پکڑ چکا تھا بعد میں اس بارے میں پوچھنے کا سوچ کے باقی کی جانب موتوجہ ہو گیا……….
“””””یہ موبائل کس کا بج رہا ہے زہرا جو سونے کی کوشش کر رہی تھی لیکن موبائل کی بیل سونے نہیں دے رہی تھی اس نے سخت جنجھلائی ہوئی کیفیت میں کہا …..————-
“””””””””””جی اتنا غصہ ہم پر نہ کرے یہ آپ کا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔سحرش نے کہا
پیلز یار دیکھو کون کال کر رہا زہرا نے سحرش سے کہا کیونکہ سیل اسکی سائیڈ پر رکھا تھا۔۔۔۔۔ ہادی بھائی کی کال آ رہی ہے سحرش نمبر دیکھتے ہی بلند آواز سے بولی
سحری کال رئیسو کر کے سپیکر آن کرو ……..
ہم بھی سنے کیا کہنا چا رہے ہیںں ججو نوال نے شرارت سے کہا ……سبین بھی پاس آ کے بیٹھ گئی —————-زہرا منع کرنا چاہ رہی تھی لیکن اسکی سنتا کون
“”””” میری چاہت میری راحت
جسٹ یو
میرا دل میری جان
اونلی فور یو
“”””””سحرش کے کال رئیسو کرتے ہی ہادی نے کہا یہ جانے بنا کے زہرا کے علاوہ کوئی اور رئیسو کر چکا ……….چاروں کے زوردار ققھے سے ہادی بیچارہ شرمندہ ہوا لیکن خود کو مشکل سے سنبھالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج سالیوں کے ہتھے چڑ چکا ھوں میری خیر نہیں ………
“””””ہمیں پتا تھا آپ اسی بے تابی کا مظاہرہ کرے گے تو ہی فون سپیکر پر رکھا نوال نے چہکتے ہوے کہا
“””””میں بھی کیوں بھول گیا تھا جدھر تم جیسی شیطان کی نانی ہو ادھر کچھ تو ایسا ہونا ہی نہیں ہادی نے نوال کو چڑھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“””””””اب تم شروع نہ ہو جانا………. لو زہرا بات کرو ہم بعد میں آتی سبین نے نوال کا ہاتھ پکڑ ا اور ٹیرس کی طرف چال پڑی جب کے سحرش کچن سے کھانے کے لیے لینے کچھ چلی گئی………
نوال مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے سبین نے ٹیرس پر اتے ہی کہا
سبین تمہے مجھ سے اجازت لینے کی کب سے ضرورت پڑنے لگ گئی
”””””نوال بی سیریس…..
“””””””اوکے پوچھو کیا پوچھنا ………
”””””””””’نوال سحرش کی طرف دیکھنے لگی
کیا یہ سچ کے رضا مجھ میں انٹرسٹڈ ہیںں سبین نے انتہائی سنجیدہ انداز میں پوچھا ……
ہاہاہا…… اس بارے میں کیوں تم سے مذاق کروں گی وہ صرف انٹرسٹڈ نہیں بلکے بے انتہا چاہتے ہیں تھمے لیکن بتانے سے گھبراتے ۔۔۔۔
۔۔۔خاک چاہتے ھوں گے۔۔۔۔۔ ہر وقت ہٹلر بنے رہتے سبین نے جل کے کہا۔۔۔۔۔۔ ویسے آج تھمے اس بات کا کیسے خیال آیا ورنہ میں تو کافی ٹائم سے تمہیں انکے بارے میں بتانے کی کوشش کر رہی ھوں بس ایسے ہی سبین نے بات ٹا لنے کی کوشش کی”””””” اوے ہوے مطلب ادھر بھی کچھ کچھ ہو رہا”””
کیوں میں نہیں ایسا سوچ سکتی سبین نے کہا
گوہنی مسنی کب سے آئی یہ تبدیلی نوال اسکے انداز سے
”””سمجھ چکی تھی مجھے تو بلکل بھی بھنک تک نہیں پڑی اس بارے میں سحرش دونو کی باتیں سن چکی تھی لقمہ دیتے ہوئی بولی
”””میں سر رضا کو ابھی کال کر کے بتاتی ھوں اس تبدیلی کا
تو چپ کر کے بیٹھ وہ خود بتا لے گی سحرش نے نوال کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھایا جو رضا کو کال کرنے لگی تھی
””مطلب میری کومپنی کا اچھا اثر ہوا کافی عقل مند ہو گی نوال نے سحرش کو پچکارتے ہوے کہا
میں زہرا کو بتا آتی سحرش اٹھ کے بھاگ گئی ………
ہاہاہا اسکی عقل مندی صرف ادھر تک تھی…….. سبین نے ہنستے ہوے کہا اور اسکے پیچھے چل دی ……….جبکے نوال رضا کو ہنٹس میں یہ بات بتانے کا سوچنے لگ گئی….
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...