دروازے پر پہنچ کر پہلے پہل روحان نے کی وہ آگے کو جھکا اور نگار بیگم سے گلے مل کر سلام کیا۔ نگار بیگم نے خوشی سے اس کے گال پر بوسہ دیا اور خوش آمدید کہا۔
“آنٹی یہ میرے بڑے بھائی ہے۔۔۔۔۔” روحان نے رانا صاحب کے طرف اشارہ کرتے ہوئے جوش و خروش سے کہا۔
نگار بیگم نے نظریں گھما کر رانا صاحب کو دیکھا اور ان کی خوشامد کرتے ہوئے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
“انہیں کون نہیں جانتا۔۔۔ آئے دن خبروں میں ان ہی کے چرچے دیکھنے کو ملتے ہے۔۔۔۔ ہمارے ملک کے سب سے باوقار شخصیت مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔ ویلکم۔۔۔۔۔ آپ سے رو بہ رو ہو کر اچھا لگا۔” انہوں نے نخریلے انداز میں رانا مبشر کے سراپے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
رانا صاحب ان کی اس ادا کو دیکھ کر محظوظ ہوئے۔ ہلکی مسکان لیے سر کو خم دیا اور نگار بیگم کا ہاتھ تھام کر مصاحفہ کیا
“مجھے بھی آپ سے مل کر اچھا لگا” رانا صاحب نے اپنا زینت و وقار برقرار رکھتے ہوئے روعب دار آواز میں کہا اور مصاحفہ کر کے ہاتھ واپس پینٹ کے جیب میں ڈالا۔
ان کی گفتگو ختم ہوئی تو روحان نے رانا صاحب کو نور کی طرف متوجہ کیا۔ نور نے موودبانہ انداز میں انہیں سلام کیا تو رانا صاحب نے نرمی سے سلام کا جواب دیا اور سب گیسٹ روم کی جانب بڑھ گئے۔
کرن ان سب سے کچھ فاصلہ پر تھی اور یہاں سے وہ ان سب کو نظر نہیں آرہی تھی لیکن کرن رانا صاحب کے مہنگے پرفیوم کی خوشبو یہاں تک محسوس کر سکتی تھی۔ ان کی پرسنیلٹی میں عجیب کشش تھی جس سے نگار بیگم اور نور کے ساتھ ساتھ کرن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
گیسٹ روم میں داخل ہو کر رانا صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھتے صوفے پر بیٹھے۔ روحان بھی ان کے ساتھ بڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ جب کہ نگار بیگم اور نور ان کے آمنے سامنے سنگل صوفوں پر بیٹھی۔
رانا صاحب اور نگار بیگم بزنس کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے جب کرن سلام کرتی اندر داخل ہوئی اس کے پیچے خانساماں بھی ٹرالی دکھیلتا ہوا اندر آیا اور میز پر ڈشز رکھنے لگا اور کرن کپ میں چائے انڈیلنے لگی۔
رانا صاحب تھیوری پر ہاتھ رکھے کرن کے اس عمل کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ خانساماں لوازمات کے برتن قطار کر کے واپس نکل گیا۔ چائے کا کپ پکڑتے ہوئے رانا صاحب کی انگلیاں کرن کی انگلیوں کے پھوروں سے ٹکرائی تو کرن نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا وہ خاموشی سے اسی پر نظریں گاڑے ہوئے تھے کچھ لمحوں کے لیے دونوں کی نظریں ملی پھر کرن رخ موڑ کر روحان کو کپ پیش کرنے لگی۔ روحان نے کپ پکڑتے ہوئے اس سے شکریہ کہا جو کرن نے مسکرا کر سر کو خم دے کر تسلیم کیا۔ اسی طرح نور اور چچی کو کپ دیتے ہوئے وہ مڑی تو چچی نے آنکھوں کے اشارے سے باہر جانے کا کہا۔
وہ تہذیب سے سر ہلاتی وہاں سے باہر آگئی۔ نگار بیگم نے رانا صاحب کی نظریں جود پر جمی محسوس کی تو گڑبڑا گئی۔
” آپ کچھ لیں نا رانا صاحب۔۔۔۔ یہ کباب لیں نور نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں۔” نگار بیگم اپنے تاثرات کو نارمل کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوئی۔
رانا صاحب نے ہاتھ اٹھا کر معذرت کرتے ہوئے کچھ نہیں لیا اور صرف چائے پینے لگے جبکہ روحان نے ایک کباب اٹھا لیا اور پہلا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے نور کو دیکھا جو نظریں چرا گئی۔ روحان پہلے بھی کئی دفعہ ان کے گھر چائے اور کھانے پر مدعو کیا گیا تھا اس لیے کرن کے بنائے پکوانوں کا ذائقہ وہ اچھے سے جانتا تھا اس لیے ماما کے جھوٹ پر خاموشی سے کباب کھانے لگا۔
کرن کچن میں آئی اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے سر پکڑ لیا۔ اپنے آپ کو کمپوز کرنے کے لیے دو سے تین لمبی سانس لی اور آنکھیں بند کر لی۔ خانساماں اس کے جذبات سے واقف تھا اس لیے اس کے پاس آیا اور رحم دلی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
“فکر مت کرو بیٹی وہ اوپر والا سب دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک دن وہ اس سب کا حساب لے گا۔۔۔۔ اس نے تمہارے لئے ضرور اچھا لکھا ہے۔۔۔۔ بس تم اس کے انصاف پر یقین رکھو۔۔۔۔ وہ سب کی فریاد سننے والا رب ہے” اس اڈیھر عمر آدمی نے کرن کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
کرن ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر کھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔
“بیشک” کرن نے خانساماں کے جواب میں بس اتنا ہی کہا اور خود کو پر امید کرتے واپس کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔
روحان اور ماما خوش گپیوں میں مصروف تھے نور بھی متذبذب سی بیٹھی ان کے کسی نہ کسی بات پر سر ہلا دیتی البتہ رانا صاحب کم گو انسان تھے وہ خاموش بیٹھے ٹانگ ہلاتے روحان کو ان ماں بیٹی کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہورہے تھے۔ ماما نے کسی بات پر انہیں مخاطب کیا تو وہ سیدھے ہوکر آگے کو ہوئے۔
“نگار بیگم۔۔۔۔۔ یہ لڑکی جو ابھی آئی تھی۔۔۔۔۔ یہ کون ہے” رانا صاحب نے کنکارتے ہوئے پوچھا اور آنکھیں چھوٹی کر کے نگار بیگم کے تاثرات بغور مشاہدہ کرنے لگے۔
نگار بیگم کو رانا صاحب کے جانب سے کرن کے متعلق سوال پر حیرانگی ہوئی۔ انہوں نے باری باری نور اور روحان کو دیکھا وہ بھی ان ہی کے جانب متوجہ تھے۔
“رانا صاحب وہ۔۔۔۔ کرن ہے میرے جیٹھ کی بیٹی لیکن پچپن سے میرے پاس ہے۔۔۔۔ اسے بھی آپ میری ہی بیٹی سمجھیے۔۔۔ بہت اچھی بچی ہے۔۔۔۔ میں نے کبھی نور اور کرن میں موازنہ نہیں کیا دونوں ہی میری آنکھوں کا تارہ ہے۔” نگار بیگم نے گلا صاف کر کے اپنے منہ میاں مٹھو کی طرح ایک کے بعد دوسری اپنی جھوٹی تعریف بیان کئے اور مسکراتے ہوئے رخ پھیر لیا۔
رانا صاحب سنجیدگی سے ہاتھ گھٹنوں پر ٹکائے اور انگلیاں باہم پھنسائے ہوئے بیٹھے تھے نگار بیگم کے جواب پر داد دینے والے انداز میں آبرو اچکائے اور سیدھے ہوکر صوفے کے پشت سے ٹیک لگا لی پھر نور سے مخاطب ہوئے۔ کچھ دیر نور سے اس کی مصروفیات اور مشاغل پر تبصرہ کر کے جانے کی اجازت لی اور کھڑے ہوگئے ان کے ساتھ ساتھ روحان اور باقی سب بھی کھڑے ہوگئے۔ رانا صاحب نے اپنا کوٹ درست کرتے ہوئے میز پر سے گلاسس اور موبائل اٹھایا اور آگے کی طرف گامزن ہوئے۔
دروازے کے پاس کھڑی نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر تھپتپھایا اور نرم لہجے میں خدا حافظ کرتے گیسٹ روم سے باہر نکل گئے۔ نور کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اسے رانا صاحب کے اس انداز میں بہت اپنائیت محسوس ہوی۔ پیچے مڑ کر رانا صاحب نے نگار بیگم سے الوداعی کلمات کہے اور لاؤنج کی سیڑھیوں کے جانب چلے گئے۔ روحان بھی نور اور ماما سے بائے کرتا ان کے ساتھ گیسٹ روم سے باہر آیا۔
کرن اس لمحے پورچ کی سیڑھیوں پر صبح کے دھوپ میں رکھے انڈور پودے اب سورج غروب ہونے کے بعد واپس اندر لارہی تھی۔ وہ ایک گلدان ہاتھوں میں اٹھائے مڑی ہی تھی کہ ٹھٹک گئی رانا صاحب بلکل اس کے پیچے کھڑے تھے۔ ایک ہاتھ جیب میں ڈالے اور دوسرا پہلو میں گرائے سپاٹ تاثرات بنائے اسی کو دیکھ رہے تھے۔ رانا صاحب قد کاٹ کے لمبے تھے اس لیے کرن کو سر ہلکا سا اوپر کر کے انہیں دیکھنا پڑا۔
کرن کی ان پر سے نظریں جاتی ہوئی چچی پر پڑی جو لاؤنج کے سرے پر نور اور روحان کے ساتھ کھڑی دانت پیستے ہوئی زیرِ لب بنا آواز اسے کوستے ہوئے سامنے سے ہٹنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ چچی کا اشارہ دیکھ کرن سر جھکائے واپس پیچے کو مڑی اور سیڑھیاں اتر کر لان میں بھاگ گئی۔
رانا صاحب بنا کوئی اثر لیئے اپنی مخصوص چال چلتے کار کے جانب بڑھ گئے۔ باڈی مین نے اپنے مالک کو آتے دیکھا تو تیزی سے الرٹ ہوگیا اور کار کا دروازہ کھولا۔ رانا صاحب کار کے اندر بیٹھے تو باڈی مین نے ادب سے کار کا دروازہ بند کیا اور اپنی سیٹ کی جانب بھاگا۔ روحان بھی نور اور ماما کو ہاتھ ہلا کر بائے کرتا کار میں بیٹھ گیا اور کار زن کر کے روانہ ہوگئی۔
کرن لاؤنج میں داخل ہوئی تو چچی اسے رانا صاحب کے شان میں گستاخی کرنے کے لیے ڈانٹنے لگی۔ کرن چپ چاپ سر جھکائے ان کے سامنے کھڑی رہی۔ نور آج بہت خوشگوار موڈ میں تھی اس لیے کرن کو ماما کی ڈانٹ سے بچانے کے لیے اپنے ساتھ کمرے میں لے آئی۔ بیڈ پر بیٹھ کر نور اس سے ہمیشہ کی طرح روحان کی باتیں کرنے لگی ایک آدھ بار اس نے رانا صاحب کا ذکر بھی کیا۔ کرن مداخلت کئے بغیر اس کی باتیں سن رہی تھی اور پھر سونے کے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔
**********&&&&***********
روحان اور مبشر دو بھائی تھے۔ روحان 3 سال کا تھا اور مبشر 16 سال کا جب ان کے والدین میں لمبے اختلافات کے باعث طلاق ہوگئی۔ رانا نذیر کے بقول طلاق کی وجہ ان کی بیوی کا کہی اور افیر چلانا تھا اور ایمن نذیر کے نزدیک طلاق کی وجہ رانا نذیر کا ان کے ساتھ بے رحم رویہ تھا لیکن ان کے بچوں کو علیحدگی کی اصل وجہ بہت جلد سمجھ آگئی جب ایمن نے عدت پوری ہوتے ہی اپنے کمپنی کے باس سے شادی کر لی۔ روحان تو بہت چھوٹا تھا لیکن مبشر کو اپنے باپ کے لگائے الزامات سچ ثابت ہوتے صاف نظر آگئے تھے۔ دونوں بیٹوں کی نگہبانی رانا نذیر کو سونپ دی گئی۔ رانا نذیر امریکہ کا بہت جانا مانا بزنس مین تھا اس پر کام کا بہت دباؤ تھا وہ ایک ساتھ دو بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا تھا اس لیے روحان کو انہوں نے safe house (جہاں طلاق شدہ ماں باپ کے بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے) میں ڈال دیا اور مبشر کو بورڈنگ اسکول میں داخل کروایا۔ مبشر کو دو سے چار مہینوں میں ایک مرتبہ ایک ہفتہ کے لیے بورڈنگ اسکول کے ہاسٹل سے نکلنے کی اجازت ملتی اور وہ اپنے گھر آجاتا جب تک وہ گھر پر ہوتا روحان کو بھی امن گھر سے لے آتا اور اپنے پاس رکھتا ۔دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے بہت پیار تھا وہ ساتھ سوتے جاگتے ساتھ کھیلتے۔ مبشر اپنے ہاتھوں سے روحان کو کھلاتا پلاتا اس کی پوری دیکھ بھال کرتا اور جب اس کی چھٹیاں ختم ہوجاتی اور اسے واپس اسکول جانا پڑتا تب روحان اس سے الگ ہونے پر بہت زار و قطار روتا اور مبشر کے ساتھ اپنی ساری قوت لگا کر لپٹ جاتا۔
ایک مرتبہ جب مبشر نے اپنے ڈیڈ سے وہی رہنے اور روحان کی ساری ذمہ داری خود اٹھانے کی درخواست کی تو رانا نذیر نے اسے ڈانٹ لگا دی اور آیندہ بورڈنگ اسکول سے اس کی چھٹیاں منسوخ کروانے کی دھمکی دی۔ مبشر نے اسکول میں قید ہوجانے کے خوف سے روحان کے آہ و بکا کو نظرانداز کیا اور واپسی کے لیے روانہ ہوگیا۔
جہاں ایمن نے دوسری شادی کر لی تھی تو رانا نذیر کیسے پیچے رہتا۔ مبشر کے اگلی چھٹیوں تک انہوں نے بھی اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی۔ اس دفعہ جب مبشر گھر آیا تو اسے 29 سے 30 سالہ نوجوان لڑکی سے اس کی نئی ماں کہہ کر متعارف کروایا گیا۔ مبشر کے مزاج بد مزا ہوگئے اس وقت تو وہ کچھ نہ کہہ سکا لیکن کمرے میں آکر وہ کونے میں چھپ کر بہت رویا تھا۔ مبشر نے کبھی اپنے جذبات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کئے تھے ماں کے چھوڑ جانے سے لے کر باپ کے اسے خود سے دور کر کے بورڈنگ میں بھیجنے تک اس نے کبھی کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا ہر درد ہر تکلیف کو اکیلے رہ کر برداشت کیا۔ لیکن آج رانا نذیر کی دوسری شادی نے اسے باپ کے سائے سے بھی محروم کردیا تھا ماں باپ کے حیات ہوتے ہوئے بھی اسے اپنا آپ ایک بےبس اور لاچار یتیم کے مانند لگ رہا تھا۔
میاں بیوی کے لئے طلاق لے کر نئی زندگی شروع کرنا آسان گزرتا ہوگا لیکن بچوں کے عصاب پر اتنا ہی گراں گزرتا ہے۔ یہ طلاق کے 3 لفظ اولاد کی شخصیت بنانے اور مٹانے کے لیے زہر کے برابر ہوتے ہیں۔ طلاق ہوجانے سے سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے جسے پھر نہ ماں کا پیار مل پاتا ہے نہ باپ کی شفقت۔
ماں باپ کے طلاق اور پھر ان کے الگ الگ دوسری جگہ شادی کر کے اپنے زندگیوں میں مشغول ہوجانے کا مبشر کے نفسیاتی کیفیت پر گہرا اثر ہورہا تھا وہ بہت چڑچڑا بن گیا تھا نہ کسی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا نہ کہیں آنا جانا ہوتا خود کو بلکل اکیلا کر لیا تھا اگر کوئی اس سے بات بھی کرتا تو وہ اسے مارنے پیٹنے پر آجاتا۔ اسی ذہنی کیفیت کے چلتے اس نے ایک مرتبہ رانا نذیر کی دوسری بیوی سے بدتمیزی کی جس پر رانا نذیر نے اس پر ہاتھ اٹھا دیا اور پھر علاج کے لیے نفسیاتی ہسپتال میں بھرتی کروایا۔
1 سال تک وہاں سے زیر علاج رہنے کے بعد وہ گھر واپس لوٹا تو اس نے گھر میں ایک نئے فرد کا اضافہ دیکھا۔ اس کی نوذائدہ سوتیلی بہن۔ وہ ڈیڈ کو اپنی نئی فیملی کی ساتھ مصروف دیکھ کر سمجھ گیا کہ اب ان کی زندگی میں اس کی اور روحان کی کوئی جگہ نہیں بچی اس لیے وہ اپنے اکاؤنٹ سے اپنے پیسے نکال کر روحان کو ساتھ لیئے ہمیشہ کے لیے پاکستان آگیا اور پھر کبھی مڑ کر ایمن یا رانا نذیر کی طرف نہیں دیکھا جیسے ان دونوں نے اسے اور روحان کو اپنی زندگیوں سے مہو کر دیا تھا ویسے ہی مبشر نے بھی انہیں بھولا دیا۔
وہ 17 سال کا تھا جب وہ پاکستان آیا اور اپنی ماں ایمن کے بڑے بھائی کے کمپنی میں ایک چھوٹے کمپوٹر ایڈیٹر کے حیثیت سے نوکری کا آغار کیا۔ روحان کو اس نے شہر کے سب سے بہترین اسکول میں داخلہ کروایا اس کے ہر ضرورت کو پوری کرتا رہا اس کی اپنے بچے کی طرح پرورش کی۔
34 سال کے ہونے تک اس نے خوب محنت کی اسے کئی ترقیاں بھی ملی۔ اس نے اپنی خود کی کمپنیاں بنا لی ایک الگ پہچان بن گئی اب وہ مبشر نہیں رانا مبشر صاحب بن گیا تھا۔
رانا مبشر نے کبھی اپنے نام کے آگے باپ کا نام نہیں لگایا کیونکہ اس کا ماننا تھا کہ اس کا یہ مقام، اس کا یہ رتبہ، اس نے خود بنایا ہے اس نے نہ کبھی باپ کے نام کا استعمال کیا نہ اس کے پیسوں کا۔ اسی طرح روحان کے نام کے آگے بھی وہ اپنا نام لگاتا روحان مبشر۔
روحان نے بھی جب سے ہوش سنبھالا تھا اس نے ہمیشہ رانا مبشر کو ہی اپنا سرپرست پایا تھا وہ ہی اس کے لئے ماں باپ دونوں کا کردار نبھاتے آئے تھے۔ روحان کی جان رانا مبشر میں بستی تھی اور رانا مبشر کی روحان میں۔ دونوں ایک دوسرے پر جان نثار کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ رانا مبشر نے روحان کو پوری آذادی دے رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنا بچپن اور اپنی جوانی تکلیفوں میں گزار دی پر وہ روحان کو وہ سارے آسائش فراہم کرنا چاہتے ہے جس سے وہ خود محروم رہے ہے۔
35 سال کے عمر میں انہوں نے اپنے مقابل کمپنی کے مالک کی بیٹی بیلا شمس سے شادی کر لی۔ وراثت میں ملنے والا حصہ بھی بیلا نے رانا مبشر کے نام کر دیا جس سے رانا صاحب کی کامیابی پروان چڑھ گئی۔ 1 سال تک شادی شدہ زندگی خوشحال چلتی رہی لیکن 1 سال بعد کسی ناگہانی وجہ سے بیلا کی موت واقع ہوئی اور رانا مبشر ایک دفعہ پھر تنہا ہوگیا۔
45 سال کی عمر میں رانا مبشر صاحب اب ایک باوقار نام بن گیا تھا جس کے ساتھ کام کرنے کے لیے لوگ مہینوں انتظار میں بیٹھے رہتے تھے۔
رانا صاحب نے اپنے رہن سہن کے بہت سے قائدہ قانون مرتب کر رکھے تھے اور ذاتی زندگی ہو یا کاروباری ہر کام رانا مبشر اسی قائدہ قانون کے مطابق چاہتے۔ ان کے آس پاس رہنے والوں نے بھی ان کی اس خصوصیت کے ساتھ رہنا سیکھ لیا تھا بس ایک انسان تھا جس کے ساتھ رانا مبشر اپنے قوانین بالائے طاق رکھ کر رہتے اور وہ روحان تھا۔ عمر میں 13 سال کا فاصلہ ہونے کے باوجود بھی دونوں بھائی آپس میں خوب انجوائے کرتے دوستوں کی طرح رہتے۔ رانا مبشر روحان کو میرا بچہ کہہ کر مخاطب کرتے اور روحان انہیں رانا بھائی پیار کے ساتھ ساتھ روحان ان کی بہت عزت بھی کرتا ان کا بہت تابیدار تھا ان کے ایک حکم پر روحان آنکھ بند کر کے ان کی بات مان لیتا۔
نور سے پہلے بھی روحان کی ایک گرل فرینڈ تھی انوشے سرور۔ روحان جب اسکول میں داخل ہوا اس کا اردو لہجا بہت خراب تھا سب بچے اس کا بہت مذاق اڑاتے اسے تنگ کرتے اس کا کوئی دوست نہیں تھا تب انوشے سرور اس کی دوست بنی اور اسے تنگ کرنے والوں کو منع کرتی۔ اسکول مکمل ہونے تک روحان کو احساس ہوا کہ وہ انوشے کو صرف دوست نہیں مانتا وہ اسے پسند کرتا ہے کالج میں ان دونوں کا ڈپارٹمنٹ الگ ہوگیا تھا پھر بھی دونوں کے ملنے کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔
ایک دن وہ رانا بھائی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے انوشے سے ملوانے۔ 45 منٹ ہوٹل میں وہ تینوں میز کے گرد بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ جب ملاقات ختم کر کے ہوٹل سے نکلے تو رانا بھائی نے صرف روحان کے آنکھوں میں دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔ اس دن کے بعد روحان نے دوبارہ کبھی نہ انوشے سے بات کی اور نہ ملنے کی کوشش۔ اور اس سے اپنے سارے تعلقات ختم کر دئیے۔
اور اب نور کی معاملے میں بھی روحان نے یہی سوچ کر رکھا تھا۔
***************&&&&****************
نگار بیگم کے گھر مایوسی کا سماں تھا۔ تین دن سے روحان نے نور سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ پہلے دو تین دن تو اس نے خود کو سمجھا بجھا کر صبر کر لیا تھا پر آج چھوتے دن اس کی ہمت جواب دے گئی تھی وہ صبح سے پریشان پھیر رہی تھی اور اسے ایسے حالت میں دیکھ کر نگار بیگم اور کرن بھی اضطراب میں تھیں۔ دونوں نے اسے سمجھانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ کسی کی بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔
روحان صرف نور کا ہی نہیں بلکہ نگار بیگم کا بھی کال نہیں اٹھا رہا تھا جس کی وجہ سے نگار بیگم بھی کافی فکرمند ہوگئی تھی۔ بیٹی کے پیار کے ہاتھوں مجبور ہو کر اگلے دن نگار بیگم نے خود رانا صاحب کے دفتر میں کال کیا اور ان کی سیکرٹری نے رانا صاحب کا ان سے کل دفتر میں ملنے کی فیصلہ بتایا۔ وقت کے مطابق خود رانا صاحب کا ڈرائیور انہیں لینے آیا اور وہ رانا صاحب کے مقرر کردہ وقت پر دفتر پہنچ گئی۔
سیکرٹری کو اپنا تعارف بتانے کے بعد وہ اس وسیع و عریض سنگ مرمر کے بنے عمارت کا جائزہ لیتی انتظار کرنے بیٹھ گئی۔ آج نگار بیگم نے سفید شرٹ اور بلیک کلر کی لونگ سکرٹ کو زیب تن کیا ہوا تھا اور بالوں کا جوڑا بنائے پوری بزنس وومن کے پوشاک میں تھی۔ 5 سے 7 منٹ بعد سیکرٹری نے انہیں اندر جانے کی اطلاع دی۔
**************&&&&****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...