وقت کبھی بھی رکتا نہیں ۔ اسکاکام چلتے رہنا ہے۔
آج عفان کی موت کو دس دن گزر گۓ تھے۔
لیکن ایسا لگتا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو جو کہرام برپا ہوا۔
سبھی کتنا تڑپے تھے۔
صبر تو وقت کے ساتھ آ ہی جاتا ہے۔ لیکن جسطرح کی موت کو عفان نے گلےلگایا تھا۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا۔
اور شاید اپنی موت کے راز کو وہ اپنے ساتھ ہی منوں مٹی تلے لے کے دفن ہوگیا تھا۔
اس وقت بھی ڈیرے پے کافی لوگوں کا آنا جان لگا ہوا تھا۔
دلاور شاہ اپنے بڑے بیٹے فارس شاہ کے ساتھ وہیں پے تھے۔ اور وہ تو ان دنوں ڈیرے کے ہی ہو کر رہ گۓ تھے۔
الماس بیگم کو بھی دوسرے دن ہوش آگیا تھا۔
اللہ نے انکی سانسیں ابھی اور لکھی تھیں۔
لیکن وہ بھی اب بس اپنے کمرے کی ہو کے رہ گٸ تھیں۔
الماس بیگم زیادہ تر اللہ کے حضور سجدہ ریز رہتیں۔ اور ہاتھ کے لیے ہاتھ اٹھاٸے رکھتیں۔ آنسو گرتے رہتے۔ لب خاموش رہتے۔
عفان کا ہنستا مسکراتا چہرہ ہر وقت آنکھوں میں گھومتا رہتا۔ اور اس لمحے تڑپ ہی جاتیں۔
بس کریں مما۔۔!! اور کتنا کام کریں گیں۔۔۔؟؟
تھوڑے کام اپنی بہو کے لیے سنبھال رکھیں۔
اے لو۔۔۔۔!! بَری کے کپڑے ہیں۔ یہ دلہن آکے خود بناۓ گی۔۔۔؟ خوب کہی بھٸ تم۔نے۔۔۔۔!!
عفان مسکرا دیا۔
ایک بات اچھے سے سن لو۔۔۔ میری بیٹی ہے وہ۔۔۔!! اور جب وہ آجاۓ گی۔۔ تو خبردار اسے تنگ کیا۔۔
الماس بیگم نے بہت لاڈ سے کہا۔ تو عفان منہ نیچے کیے سر کھجانے لگا۔
لیکن۔۔۔ اماں۔۔۔!! میں نہیں بخشنے والا آپ کی بہو پلس بیٹی کو۔۔۔!! ڈھیروں کام سوچ کے رکھے ہیں۔ اس کے لیے میں نے۔۔۔۔!!
اچھھھھا۔ نواب صاحب نے کیا پلاننگ کی ہے ہماری بہو پلس بیٹی کے لیے؟
الماس بیگم نے پیار سے چپت لگاٸی۔
تو عفان منہ نیچے کرتاماں کی گود میں سر رکھ کے آنکھیں موند گیا۔
اماں۔۔۔!! کتنا سکون ہے ناں ۔۔ آپ کی گود میں۔۔!!
الماس بیگم عفان کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔
عفان اور فارس دونوں جڑواں بھاٸی تھے۔
فارس کو شروع ہی سے باہر جانے کا جنون سوار تھا ۔ اور اس جنوں کی وجہ سے الماس بیگم نے دل پے پتھر رکھتے ١٢ سال پہلے فارس کو اسکے ماموں علی کے پاس امریکہ بھیج دیا تھا۔
اپنی پڑھاٸی کو وہیں مکمل کیا۔ اور وہیں ماموں کے ساتھ مل کے اپنا بزنس سیٹ اپ کر لیا۔
عفان اور زیان کافی دفعہ امریکہ ویزٹ پے فارس سے ملنے جا چکے تھے۔ الماس بیگم بھی جاتی رہیں۔
لیکن فارس پاکستان نہ آسکا۔
جب بھی وہ پاکستان آنے کی کرتا کوٸی نہ کوٸی مسٸلہ کھڑا ہوجاتا۔
الماس بیگم نے بھی فارس کے حصے کا پیار عفان پے ہی لُٹا دیا۔ اور وہ ماں کے سب سے زیادہ نزدیک ہوگیا۔
اور زیان شاہ۔۔۔۔
ان سے دو سال چھوٹا تھا۔ وہ نٹھ کٹھ سا سب کی جان تھا۔
خاص کر عفان اور فارس کی جان بستی تھی اس میں۔
دونوں بھاٸی اسکی ہر خواہش پوری کیا کرتے تھے۔ اماں۔۔۔!! کیا قبر میں بھی اتنا سکون ہوتا ہے جتنا ماں کی گود میں۔ ۔؟؟
اچانک عفان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ۔ تو الماس بیگم کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔
عفان۔۔۔!! کیا بولے جا رہے ہو۔۔۔؟ کوٸی احساس ہے۔۔۔؟
اللہ تمہیں میری بھی عمر لگا دے۔
الماس بیگم کی آنکھیں بھیگ گٸیں۔
ارے۔۔۔اماں۔۔۔!! کیا ہوا۔۔۔؟ أیسے ہی زہن میں آیا تو پوچھ لیا۔
عفان نے فوراً اٹھتے الماس بیگم کو گلےلگإیا۔ تو وہ رو دیں۔
اچھا ناں ۔۔ اماں روٸیں ناں۔۔۔ معاف کردیں۔۔ آٸیندہ ایسا کچھ نہیں بولوں گا۔
الماس بیگم روتے میں اس کے انداز پے مسکاٸیں۔ تو عفان نے پھر سے انہیں سینے سے لگا لیا۔
جاۓ نماز پے بیٹھیں وہیں وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
وہی۔۔۔بیٹے کا سینہ۔۔۔ وہ ڈھونڈ رہی تھیں۔
جوان جہان بیٹا۔۔انہیں چھوڑ منوں مٹی تلے دفن ہو گیا تھا۔
ماں کی گود کا سکون لیے قبر میں اتر گیاتھا۔
انہیں کیا پتہ تھا وہ انہیں اپنی موت کے لیے پہلے سے ہی تیار کر رہا تھا۔۔
اسکی باتیں یاد کرتے وہ تڑپ ہی تو گٸیں تھیں۔
دھیرے سے دروازہ کھلا۔
آنے والادھیمےقدموں سے اندر آیا تھا۔ اور ایک روشنی چار سو پھیل گٸ تھی۔
اماں۔۔۔۔!! الماس بیگم تڑپ ہی تو گٸیں۔ اس پکار پر۔
فان۔۔۔!! میرے بچے آپ آگے۔۔۔۔۔!! دیکھو ناں۔۔۔!! کیا حال۔ہوگیا آپ کی اماں کا۔۔۔۔ آپکے بنا۔۔۔!! کیوں چھوڑ کے گٸے مجھے۔؟؟
دیوانہ وار وہ عفان کا چہرہ چومے جارہی تھیں۔
اماں۔۔۔!! یہ دیکھیں ناں۔ میرا دِیا بجھ گیا ہے۔
عفان اپنی ہی لو میں لگا ہاتھ میں تھاما دِیا ماں کو دیکھا رہا تھا۔
الماس بیگم نے غور کیا تو انہیں عفان کا بچپن نظر آیا۔
لیکن۔۔۔ وہ تو جوان ہو چکا ہے۔۔۔۔۔!!!!
عفان بہت پریشان تھا۔ جبکہ الماس بیگم حیران۔
فان بچے۔۔۔۔!! میں جلا دیتی ہوں آپ کا دِیا۔ آپ پریشان نہ ہو۔۔۔!
الماس بیگم نے پیار سے مسکرا کے کہا۔ تو دِیا جل اٹھا۔
عفان خوش ہو اٹھا۔
دیکھیں اماں۔۔۔! میرا دِیا جل گیا۔اب میں راستہ نہیں بھٹکوں گا۔عفان کے چہرے کی چمک بڑھتی جارہی تھی۔
الماس بیگم کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگیں۔
اماں۔۔۔! مت روٸیں۔ جب آپ روتی ہیں تو یہ دِیا بجھ جاتا ہے۔
عفان نے ماں کے آنسو صاف کرتے پریشانی سے کہا۔
الماس بیگم نے اسکے ہاتھ اپنے اپنےہاتھوں میں تھام کےلبوں سے لگا لیے۔
اماں۔۔!! اجازت دیں۔ سفر بہت لمبا۔۔ ہے۔۔!! سب چلے گٸے تو میں اکیلا پیچھے رہ جاٶں گا۔ عفان نے اٹھتے ہوٸے کہا اور اندھیرے کی اَور قدم بڑھاۓ۔
عفان۔۔!! میرے بچے۔۔!! الماس بیگم تڑپ اٹھیں۔
عفان نے مڑکر مسکراتے ہوٸے ماں کو دیکھا۔ اور آگے بڑھ گیا۔
جہاں جہاں وہ قدم رکھتا۔ اندھیرے کو چمکاتا جاتا۔
ماں کا خواب۔۔
میں سوٸی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے میرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جارہی ہوں کہیں۔
اندھیراہے اور راہ ملتی نہیں۔
لرزتا تھا ڈر سے میرا بال بال
قدم۔کا تھا دہشت ست اٹھتا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا اک قطار لڑکوں کی تھی
زمرد سے پوشاک پہنے ہوٸے
دیۓ سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوٸے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھےتھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیااسکے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر میری جاں
مجھے چھوڑ کر آگۓ تم کہاں
جداٸی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پرواہ ہماری زرا تُم نے کی
گٸے چھوڑ، اچھی وفا تُم نے کی
جو بچے نے دیکھا میرا پیچ و تاب
دیا اس نے منھ پھیرکے یوں جواب
رُلاتی ہے تجھ کو جداٸی میری
نہیںاس میں کچھ بھی بھلاٸی میری
یہ کہہ کر کچھ دیر کو وہ چپ رہا
دیا پھر دکھا کے یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیاکیااسے؟
تیرے آنسوٶں نے بجھا دیا اسے
علامہ اقبال
عفان۔۔۔۔۔۔۔!! الماس بیگم نے روتے پکارا۔
مما۔۔۔۔!! فارس کے اچانک آجانے سے وہ جو سجدے میں آنکھیں موندے عفان کو پکار رہی تھیں۔
یکدم آنکھیں کھولیں۔
سامنے فارس کا چہرہ نظر آیا۔ انہیں ایک لمحے کو ایسا لگا۔عفان ان کے سامنے آگیا ہے۔
الماس بیگم بےاختیار اپنی تڑپ مٹانے کو فارس کے گلے لگیں۔
فارس نے بھی ماں کو سینے میں بھینچا۔
ایک معجزہ تھا۔جو ہو گیا۔ الماس بیگم کو سکون سا آگیا۔
آنکھیں نم۔تھیں لیکن اب وہ روٸیں نہیں۔
انہوں نے یہی عہد کیا تھا ان لمحوں میں خود سے۔
فارس نے ماں کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما۔ اور ان کے ماتھےپے بوسہ دیا۔اور سہارا دے کے بیڈ پے بٹھایا۔
الماس بیگم۔پر۔سکون تھیں۔
مما۔۔! آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔؟؟فارس نے فکر۔مندی سے پوچھا۔
بیٹا۔۔۔! آپ۔۔ پاس ہو تو سب۔۔۔ ٹھیک ہے۔
تسبیح پے انگلیاں چلاتیں وہ نرمی سے بولیں۔
چہرےپے دھیمی مسکان تھی۔فارس نے ماں کے ہاتھ چومے۔
میں ہمیشہ آپ کےپاس ہوں اماں۔فارس نے عفان کی طرح الماس بیگم کو پکارا۔ تو وہ جی اٹھیں۔مسکراہٹ دوچند ہوگٸ۔اور سکون سے آنکھیں موند لیں۔ فارس نے ماں پے کمفرٹر درست کیا۔ اٹھتے ہوٸے ماں کے ماتھے پے ایک بار پھر بوسہ دیا۔اور باہر آگیا۔
وہ آج دس دن بعد گھر آیا تھا۔ایک درد تھا سینے میں ایک چبھن تھی عفان کے جانے کی۔
اس درد کو اندر دباتے وہ اپنے روم کی جانب بڑھا۔
شاورلےکے تھوڑا خود کو فریش محسوس کیا
لیکن ان دس دنوں میں اک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا تھا۔ جب وہ کاغذ اس کے ذہن سے محو ہوا ہو۔
اپنی کبرڈ کی جانب بڑھا۔
لاکر کھولا۔اندر سے ڈاٸری نکالی۔ اسی ڈاٸری میں وہ ٹکڑا رکھا تھا۔
فارس کے ہاتھ لمحے بھر کوکانپے آنکھوں کے آگے عفان کا چہرہ گردش کرنےلگا۔
دل میں پھر سے درد کی ٹھیسیں اٹھیں۔
دھڑکتے دل مضبوط اعصاب کے ساتھ اس نے وہ کاغذ کا ٹکڑا کھولا۔
اور اس پے نظر دوڑاٸی۔
جیسے جیسے وہ پڑھتے جا رہا تھا۔ اس کے اعصاب تن رہے تھے۔
دماغ کی رگیں ابھر کے واضح ہونے لگیں۔
لب غصے سے بھینچے۔
ساری تحریر پڑھ لی۔ساری حقیقت واضح ہوگی۔
آنکھیں سختی سے میچ لیں۔
تحریر کے آخری الفاظ کی بازگشت بار بار سناٸی دے رہی تھی۔
“میں۔۔ آپ سے نہیں۔۔۔ فارس سے پیار کرتی ہوں۔ ”
“پلیز۔۔۔!! میری اور فارس کی زندگی سے نکل جاٸیں۔”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...