کمرئہ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہو ا تھا۔ لوگ افسردہ تھے، غصے میں بھی تھے، اور پریشان بھی سب اپنے اپنے نکتۂ نظر سے اس کیس کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ جج صاحبہ ہنوز نہیں آئی تھیں۔ وقت لمحہ لمحہ آگے کی طرف بڑھ رہا تھا اور میں وقت کی اس گردش سے بے نیاز پیچھے ماضی کی یادوں میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ شاید اس بھیانک المیے کی جڑیں جس نے ہماری پوری کمیو نٹی کو ہلا دیا۔
فون کی گھنٹی بجی۔
’’ہیلو۔‘‘ میں نے ریسیور کان سے لگا کر کہا۔
’’جوزف بول رہا ہوں، ہمارے گھر میں دو ننھی منی بیٹیوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔‘‘ جوزف کا لہجہ خوشی سے بھرپور تھا۔
’’کیا! جڑواں بیٹیاں—؟‘‘ میری جیسے استعجاب اور خوشی سے چیخ نکل گئی۔
’’ہاں شرمین! میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘ جوزف نے مجھے یقین دلایا۔
’’بڑی خوشی کی بات ہے۔ بہت مبارک ہو تم دونوں کو— اچھا یہ بتائو ایمی کیسی ہے، بچیاں کیسی ہیں، کس پر ہیں۔‘‘ میں خوشی سے بھرپور جذبات کی رو میں بولے جارہی تھی۔
’’ارے بھئی سب کچھ فون پر ہی پوچھ لوگی۔‘‘ جوزف ہنستے ہو ئے بولا۔
’’تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔
میں ایمی سے بہت لڑوں گی، اس نے مجھ سے ’’جڑواں بچیوں‘‘ والی بات کیسے چھپائی۔ ایمی میری عزیز ترین دوستوں میں سے تھی۔ اور ہم ایک دوسرے سے ہر اچھی بری بات شیئر کرتے تھے۔ پھر مجھے خود ہی ہنسی آگئی، اچھا تو ایمی صاحبہ نے مجھے سرپرائز دیا ہے۔
میںنے جلدی جلدی کام نمٹائے اور گاڑی اڑاتی ہوئی آن کی آن میں ہسپتال پہنچ گئی۔ پار کنگ میں ادائیگی کی۔ اور گاڑی بندکرکے انٹرنس کے انکوائری کائونٹر سے وارڈ کا معلوم کیا۔ وارڈ نمبر 280 میں جیسے ہی داخل ہوئی میں نے دیکھا ایمی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے دونوں بازوئوں میں گلابی مخملی کمبل میں لپٹی ہوئی دو بچیاں، بالکل گلاب کی کلیاں لگ رہی تھیں۔ جوزف اور ایمی سے گلے مل کر ان کو مبارک باد دی اور دونوں بچیوں کو اپنے بازوئوں میں بھرلیا۔
’’کتنی خوب صورت ہیں دونوں۔‘‘ میں نے محبت سے بچیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نام تو تم لوگوں نے سوچ رکھے ہوں گے کیوں کہ تمھیں تو ’جڑواں بچیوں‘ کا پہلے سے پتا تھا۔‘‘ میں نے ایمی کی طرف دیکھتے ہوئے طنز کیا۔
’’بڑی کا ماریا، جو پانچ منٹ بڑی ہے اور چھوٹی کا میری۔‘‘ ایمی نے میرے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
’’بہت پیارے نام ہیں— اور ایک جیسے بھی۔‘‘ میں نے کہا۔
ایمی بہت خوش تھی، اسے بچے بہت پسند تھے۔ جوزف بھی بہت خوش دکھائی دے رہا تھا، اگرچہ کہ وہ بچے نہیں چاہتا تھا۔ وہ بچوں کو بہت بڑی ذمے داری سمجھتا تھا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا، ’’ بچوںکا کیا کرنا ہے— زندگی انجوائے کرنا چاہیے۔ بچوں کے بعد زندگی ایک ذمے داری بن جاتی ہے۔‘‘
جوزف اور ایمی کی شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے ۔بڑی مشکل سے ایمی، جوزف کو بچے کے لیے راضی کر پائی تھی۔ اور پھر ایک نہیں، دو دو بچیاں پیدا ہوگئیں۔
ایمی ایک سال کی Maternity Leave پر تھی۔ آ فس میں جوزف سے ایمی اور بچیوں کے متعلق روز ہی بات ہوتی رہتی تھی۔ میں خود بھی اپنے دونوں بچوں انجلا اور مارس کے ساتھ اکثر اس کے گھر جاتی رہتی تھی۔ اس وقت انجلا پانچ برس کی تھی اور مارس تین برس کا تھا ۔وہ دونوں ان بچیوں کے ساتھ بہت خوش رہتے۔ دونوں بچیاں انھیں بہت پسند تھیں، بچیوں کو گود میں لیتے، کھلونوں سے ان کے ساتھ کھیلتے رہتے۔ گھر جانے کا نام ہی نہ لیتے۔ بڑی مشکل سے میں ان کو گھر چلنے کے لیے راضی کرپاتی۔
ایمی بہت خوش تھی۔ دن رات دونوں بچیوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتی۔ دوستوں کی پارٹیوں میں بھی کم جاتی اور اگر جاتی بھی تو بچیوں کے ساتھ ہی زیادہ مصروف رہتی، جوزف اکیلا پڑ جاتا۔ ایمی کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں، اس نے جوزف سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔
’’جوزف میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ میں گھر پر ہی پارٹ ٹائم جاب کرلوں۔ اس طرح میں بچیوں کے پاس بھی رہوں گی اور میری جاب بھی چلتی رہے گی۔‘‘
’’میرا خیال ہے تمھیں آفس جوائن کرنا چاہیے۔ ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ تمھاری پارٹ ٹائم جاب سے کام نہیں چلے گا، اور بچیوں کو ہم ’ڈے کیئر‘ میں بھی چھوڑ سکتے ہیں۔‘‘ جوزف چاہتا تھا کہ ایمی بچیوں کی مصروفیت سے اپنے آپ کو باہر نکالے۔
’’دونوں بچیاں بہت چھوٹی ہیں، میں انھیں ’ڈے کیئر‘ نہیں چھوڑ سکتی۔ جب تک بچیاں اسکول نہیں جانے لگتیں میں آفس جوائن نہیں کرسکتی۔ ‘‘ ایمی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
جوزف نے ایمی کو بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ ایمی سے بہت محبت کرتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ ایمی صرف گھر اور بچوں کی ہو کر رہ جائے، مگر ایمی نے الٹا اسے قائل کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ بچیاں بڑی ہو رہی تھیں۔ دونوں بچیاں بے حد خوب صورت تھیں بالکل ایمی کی طرح— نیلی آنکھیں، سنہری بال، گلابی رنگت، مگر ایمی ظاہری خوب صورتی کے ساتھ ساتھ دل کی بھی بہت خوب صورت تھی— ہر وقت ہنستے مسکراتے رہنا، ہر کسی کے کام آنا، جاب پر لوگوں کے کاموں میںان کی مدد کرنا۔ لوگ بھی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ بعض اوقات جوزف جلنے لگتا اور اس سے کہتا، ’’ہر شخص تم سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے؟‘‘ ایمی جواب میں ہنس کر خاموش ہو جاتی۔
بچیوں کا اسکول شروع ہوگیا، لیکن ہاف ڈے۔ ایمی اب بھی جاب پر جانے پر رضا مند نہیں ہوئی۔ وہ گھرسے ہی جاب کر تی رہی۔
’’آج ما رٹن کے گھر ڈنر ہے۔ چل رہی ہونا؟‘‘ جوزف نے ایمی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کس سلسلے میں؟‘‘ ایمی نے پوچھا۔
’’بس ایسے ہی۔ ویک اینڈ ہے، انجوائے کریں گے۔، مارٹن کہہ رہا تھا ڈنر کریں گے، گپ شپ اور ڈانس کریں گے۔ بہت دنوں سے سب دوست اکٹھے نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
ایمی جوزف کے نزدیک آکر بیٹھ گئی، اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولی، ’’چلیں گے۔‘‘
جوزف بہت خوش ہو ا کہ ایمی نے کوئی بہانہ نہیں بنایا اور چلنے پر راضی ہوگئی۔ اس دن وہ جوزف کے ساتھ ڈنر پر گئی بھی اور بہت انجوائے بھی کیا، مگر دونوں بچیوں کو لے کر جلدی گھر آگئی یہ کہہ کر کہ بچیوں کے سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ جوزف نے اسے روکا بھی کہ ساتھ چلیں گے، مگر اس نے یہی کہا کہ ’’بچیوں کو نیند آ رہی ہے۔ مجھے جانا ہوگا۔‘‘
’’گڈ مارننگ!‘‘ ایمی نے جوزف کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
جوزف نے کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموشی سے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتا کرنے لگا۔
’’ناراض ہو۔‘‘ ایمی نے اس کے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
جوزف نے اس کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے غصے سے کہا، ’’میں کل تمھیں کتنا روک رہا تھا، اگر تم رک جاتیں تو کیا ہو جاتا۔‘‘
’’جوزف بچیوں کو بہت نیند آرہی تھی—‘‘ ایمی نرمی سے بولی۔
’’بچیاں— بچیاں— بچیوں کے علا وہ تمھیں کچھ اور سجھائی دیتا ہے؟‘‘
اور وہ ناشتا کیے بغیر ٹیبل سے اُٹھ گیا۔
جوزف اور ایمی کی محبتوں میں دراڑپیدا ہو رہی تھی، ان کے جھگڑے بڑھتے جارہے تھے۔ اس میں مالی مشکلات کا بھی دخل تھا۔ زیادہ تر اخراجات جو زف کی تنخواہ سے ہی پورے ہو رہے تھے۔ ایمی گھر سے پارٹ ٹا ئم جاب کر رہی تھی جس سے بہت کم پیسے مل رہے تھے۔ تنگیوں اور دشواریوں کے سبب جوزف چاہتا تھا کہ ایمی آفس جانا شروع کردے، لیکن ایمی راضی نہیں ہوئی۔
جوزف اور ایمی میںتلخی اتنی بڑھیں کہ طلاق کی نوبت آگئی۔ طلاق کے بعد ایمی کو کچھ نہ مل سکا۔ ان لوگوں کے پاس صرف ایک گھر ہی تھا، جو جوزف نے ان لو گوں کے لیے چھوڑ دیا، مگر بچیوں کے سلسلے میں اس نے کوئی مالی معاونت کا وعدہ نہیں کیا۔ ایمی نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع بھی نہیں کیا۔ گھرکے اخراجات کو ایمی جیسے تیسے گھرسے جاب کر کے ہی پورے کرتی رہی، لیکن اسے جوزف سے جدا ہونے کا بہت غم تھا۔ وہ اس سے ابھی بھی بہت محبت کرتی تھی— وہ جیسے ٹوٹ سی گئی تھی۔
بہت دنوں سے ایمی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے سوچا جاب کے بعد اس سے ملتی جائوں۔ گاڑی کا رخ میں نے ایمی کے گھر کی طرف کردیا اور اسے فون پر بتا یا کہ میں آ رہی ہوں۔
گاڑی ڈرائیو وے پر پارک کی۔ ڈور پر پہنچ کر بیل بجائی۔ ایمی نے دروازہ کھولا۔ ایمی سیدھی کھڑی نہیں ہو پارہی تھی۔ بال بکھرے ہوئے جیسے کئی دنوں سے اس نے کنگھی نہ کی ہو۔ میں نے ایمی کو پہلے کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا۔
’’تمھاری طبیعت صحیح نہیں ہے کیا؟‘‘ میں نے اس سے سوال کیا۔
وہ خاموشی سے فیملی روم میں آکر بیٹھ گئی۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اس کے پاس صوفے پرآکر بیٹھ گئی۔ ہم لوگ اکثر فیملی روم میں بیٹھ کر ہی گپ شپ کرتے تھے۔
’’تم نے شراب پی ہے؟‘‘ میں نے اس کے منہ سے شراب کی بھبک آتے دیکھ کر پوچھا۔
’’ہاں! بس یوں ہی۔ تھوڑی سی— جوزف کی بہت یاد آ رہی تھی۔‘‘ اس نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں بہت دیر تک باتیں کرتے رہے۔ چلتے وقت میں نے اس کو سمجھایا کہ وہ شراب نہ پیے۔ بچیوں پر اس کے اچھے اثرات نہیں ہوں گے۔
بچیوں کا اسکول فل ٹائم ہوگیا۔ ایمی نے آفس جوائن کرلیا۔ ماریا اور میری کو آفس جاتے ہوئے اسکول چھوڑتی اور آفس سے واپسی میں انھیں لیتی ہوئی گھر آجاتی۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کا لمحہ لمحہ خیال رکھتی۔ انھیںجو چاہیے ہوتا ان کے کہنے سے پہلے مہیا کر دیتی۔ ماریا اور میری نہ صرف تعلیم میں اچھی جا رہی تھیں بلکہ اخلاق وآداب میں بھی ان کا جواب نہیں تھا۔ وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا۔ دونوں بیٹیوں نے مڈل اسکول مکمل کرلیا۔ ایمی کے حالات کافی اچھے ہوگئے تھے۔ وہ بہت خوش تھی، لیکن جو زف کو نہیں بھلا پائی تھی۔ وہ اس کو یاد کرکے اکثر اداس ہو جایا کرتی۔ جوزف نے طلاق کے بعد شہر چھوڑ دیا تھا۔ کبھی کبھی میرے پاس اس کا فون آتا، ایمی اور بچیوں کے متعلق پوچھتا۔
بچیوں نے مڈل اسکول کی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ گریجویشن کی تقریب تھی۔ دونوں آسمانی رنگ کے ڈریس میں بے حد حسین لگ رہی تھیں۔ اس روز ایمی کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ جوزف بھی آیا تھا۔ ایمی نے فون کرکے جوزف کو گریجویشن کا بتایا تھا۔ جوزف کا آنا ایمی کے لیے سرپرائز تھا۔
’’کیسی ہو؟‘‘ جوزف نے ایمی کے برابر والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہوں!‘‘ ایمی نے مختصر جواب دیا۔ وہ جوزف سے زیادہ بے تکلف نہیں ہونا چاہتی تھی۔
’’کیا پتا وہ کسی اور کا ہوچکا ہو۔‘‘ یہ سوچ کر اسے جھرجھری سی آگئی، لیکن اس نے اس موضوع پر جوزف سے کوئی بات نہیں کی۔ وہ بہت دکھی تھی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیںتھا کہ اس کے اور جوزف کے درمیان ایسے فاصلے حائل ہو جائیں گے۔ وہ تو اس کے ساتھ اپنا پورا جیون بِتانا چاہتی تھی۔ کاش! جوزف مجھ سے علاحدہ ہونے کے بجائے میری ذمے داریوں کو بانٹنے کی کوشش کرتا، وہ اکثر سوچتی۔
مارس کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے میں فنکشن سے جلدی گھر آگئی تھی۔ رات کو فون کرکے میں نے ایمی کو جلدی آجانے کی معذ رت کی اور فنکشن کے متعلق پوچھا۔ وہ مجھے فنکشن کی ساری تفصیل بتاتی رہی۔
’’جوزف کے ساتھ کیسا رہا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ چلتے وقت اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو لپٹا کر بہت سارے پیار کیے اور ان سے جلد ملنے کا وعدو کیا۔ پھر میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ’گڈبائی‘ کہا اور چلا گیا۔ ‘‘
ایمی کی آواز نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ امڈتے ہوئے گریہ اور شراب کے نشے نے اس کی زبان کو توڑ مروڑ دیا تھا۔
’’ایمی تم نے پھر شراب پی ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا ۔
’’اچھا— بائے! ‘‘ کہہ کر اس نے جواب دیے بغیر فون رکھ دیا۔
’’ایمی شرابن ہوگئی تھی، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
بے چاری ایمی— کاش! میں اس کے لیے کچھ کرسکتی، میں نے سوچا، لیکن میں سوچ ہی سکتی تھی، اور سوچتی بھی رہتی تھی۔
’’ماریا، میری اٹھو اسکول کو دیر ہو رہی ہے، اور مجھے بھی جاب پر جانا ہے۔‘‘ ایمی نے میز پر ناشتا لگاتے ہوئے آواز لگائی۔
’’موم آپ جائو۔ ہم پبلک بس سے چلے جائیں گے۔ آج ہماری کلاس دیر سے ہے۔‘‘ ماریا آنکھیں ملتی ہوئی آدھی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئی۔
’’مگر تم تو کبھی پبلک بس سے نہیں گئی ہو— کیسے جائوگی؟‘‘ ایمی فکرمند لہجے میں بولی۔
’’موم! اب ہم چھوٹے بچے نہیں رہے۔ ہائی اسکول میں یہ ہمارا دوسرا سال ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ماریا دوبارہ بیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ اپنا خیال رکھنا اور میری کا بھی۔ اور ہاں دونوں ناشتا کیے بغیر نہیں جانا۔‘‘ ایمی نے تاکید کی۔
یوں ماریا اور میری پبلک بس سے جانے لگیں۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ ایمی انھیں گاڑی میں چھوڑتی۔
’’موم آج رابرٹ کی سال گرہ ہے۔ اسکول کے بعد ہم دو نوں وہیں چلے جائیں گے۔ سارے دوست مل کر مووی دیکھنے جائیں گے پھر کسی اچھے سے ریسٹو رنٹ میں ڈنر کریں گے۔ کل ویسے بھی Saturday ہے۔‘‘ میری نے اجازت لینے کے انداز میں کہا۔
’’جلدی آجانا۔ زیادہ رات مت کرنا۔‘‘ ایمی نے اجازت دیتے ہوئے تا کید کی۔
جلدی آنے کی تا کید کے باوجود ماریا اور میری رات دو بجے گھر لوٹیں۔ ان کے بواے فرینڈز انھیں چھوڑ کرگئے تھے۔ ایمی غصے میں شراب پیتی رہی اور ان کا انتظار کرتی رہی۔ جیسے ہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوئیں وہ ان پر پھٹ پڑی، برتن توڑے، اور پھر خود فیملی روم میں صوفے پر گر کر سوگئی۔ دونوں بہنیں خاموشی سے اپنے اپنے کمرے میں جا کر سوگئیں۔
حالات دن بہ دن بگڑ رہے تھے۔ دونوں بیٹیاں ا پنے دوستوں کے ساتھ کبھی مووی، کبھی پارٹی، کبھی محفلیں جماتیں۔ جوانی کے ہزارپا،نے انھیں چہار جانب سے جکڑ لیا تھا۔ وہ من مانی کرتیں، اور دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیتیں۔ ایمی محسوس کر رہی تھی دونوں بیٹیاں اس کے قا بو سے باہر ہو رہی تھیں، اور وہ کچھ نہیں کر پارہی تھی۔ جن بچیوں کے لیے اس نے اپنی زندگی تج دی تھی، اپنی محبت کھو دی تھی، وہ بربادی کی طرف جارہی تھیں۔ ایمی کے خواب ادھورے رہ گئے تھے اور وہ اسی دکھ اور غصے میں اپنے آپ کو شراب کے نشے میں ڈبوتی جارہی تھی۔
ایک دن ما ریا اور میری نے اپنے دوستوں کو گھرپر بلایا۔ دوستوں کا ہنگا مہ چل رہا تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ ایمی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، وہ نیچے بیس مینٹ (basement) میں پہنچ گئی اور سب کو بہت ڈانٹا کہ وہ اتنی اتنی رات تک گھر سے باہر رہتے ہیں اور ماریا اور میری کو بھی انھوں نے غلط راستے پر لگا دیا ہے۔ سب کے سب جلدی جلدی باہر نکل گئے۔ ماریا اور میری کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ تھا، رابن (ماریا کا بواے فرینڈ) زیادہ ہی غصے میں آگیا۔ جاتے جاتے بولا، ’’ایسی تکلیف دہ ماں سے تو چھٹکارا پالینا چاہیے۔‘‘
ما ریا کے ذہن میں رابن کا فقرہ تیر کی طرح پیوست ہوگیا۔ البتہ میری نے اس کا بہت برا منایا۔ اس نے رابن کے اس فقرے کے خلاف ماریا سے شکوہ بھی کیا۔ ’’رابن کو موم کے بارے میں اتنی بے ہودہ بات نہیں کہنا چاہیے تھی۔‘‘ وہ اسی پر مصر تھی۔
وہ دونوں اکثر اس واقعے کے متعلق بات کرتیں۔ وہ ایسے حلقۂ احباب میں پل بڑھ رہی تھیں جن کی اخلا قیات ’’میں، مجھ کو اور میری‘‘ کے محور پر گردش کرتی تھی، اور جس کا نعرہ تھا ’’یہ میری زندگی ہے۔ مجھے اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔‘‘ دونوں لڑکیاں شراب کے معاملے بیئر سے آ گے نہیں بڑھتی تھیں۔ شراب سے بچنے کی ایک وجہ ان کی ماں سے جڑی تھی۔ وہ اپنی شرابی ماں اور شراب دونوں سے بیزار تھیں۔ ایمی کا نشہ اور اور بچیوں کی بڑھتی ہوئی آوارگی اور خودسری ایک دوسرے کو بڑھاوا دیے جارہی تھیں۔ دھیرے دھیرے ماں اور بیٹیوں کے درمیان لحاظ اور رکھ رکھائو کی فصیل میں رخنے پڑتے جارہے تھے۔ پانی اپنی طوفانی حدوں کوچھونے جارہا تھا۔
’’میں نے یہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ ایک روز میری نے ماریا کو اپنا فیصلہ سنایا۔ ماریا جو بہرحال اپنے بڑے ہو نے کا فرض نبھاتی تھی یہ سن کر پریشان ہوگئی۔ اس نے اپنی نیلی جھیل سی گہری آنکھیں میری پر مرکوز کر دیں۔ تھوڑی دیرکے بعد بولی، ’’اتنی جلدی فیصلہ کرلیا؟‘‘
’’جلدی نہیں، تاخیر سے، بلکہ بہت تاخیر سے۔‘‘ میری نے زور دیتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو گھر چھوڑ کر جائوگی کہاں؟‘‘ ماریا نے پوچھا۔
’’جہاں سینگ سمائے۔‘‘ میری نے لاپروائی سے کہا۔
ماریا نے ایک مرتبہ پھر میری کو گھورا سر سے پیر تک۔ اس کا رواں رواں فولادی تاروں کی مانند تنا ہوا لگ رہا تھا۔ اس نے ماریا کی نگاہوں سے بچنے کی قطعی کوشش نہیں کی جیسا کہ اس کا معمول تھا۔
ماریا اس کے نزدیک گئی اور پیار سے بولی، ’’یہ بڑی ظالم دنیا ہے، سینگ سمانے کے لیے کوئی گوشہ کوئی جائے پنا ہ نہیں ملتی۔ ہوش کرو۔‘‘
’’ میں ہوش میں رہ کر ہی سوچ رہی ہوں۔ میں موم سے بہت محبت کرتی ہوں، اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ مجھے جانا ہی ہوگا۔‘‘ میری نے فیصلہ سنا دیا۔
’’کن خیالوں میں ہو۔ لڑکیاں آنکھیں پھیرلیں گی، اور لڑکے بھیڑیوں کی طرح بدن بھنبھوڑ کر اپنی خواب گاہوں سے باہر پھینک دیں گے۔‘‘ ماریا نے میر ی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
ماریا جو میری سے زیادہ دانش مند تھی، آخرکار میری کو منا لیا کہ اس صورتِ حال پر پھر بات ہوگی چند دن صبر سے کام لو۔
اس طرح کچھ وقت گزرا۔ ماں سے دو تین لڑائیاں ہوئیں۔ اس مرتبہ ماں سے لڑنے میں دونوں متحد تھیں۔ ماں کچھ دبی بھی، مگر ایمی کو یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ ماں بیٹیوں کے رشتے کی مضبوط ڈوری کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ چکی تھی۔
ماریا کا دماغ کسی اور زاویے سے سوچ رہا تھا۔ اس نے رابن سے مشورہ لیا، اور پھر رابن اور ماریا نے مل کر ایک پلان بنایا۔ میری کو جب ان کے پلان کا پتا چلا تو اس نے بہت مخالفت کی،اور یہ بھی کہا کہ میں ہرگز تم لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گی۔ لیکن آخرکار ماریا اور رابن نے اسے اپنے ساتھ شامل کرلیا۔
ان ہی دنوں میں ان کے دوستوں نے شہر سے باہر پکنک کا پروگرام بنایا۔ ماریا اور رابن نے سوچا یہ اچھا موقع ہے۔ ماریا نے ایمی کو نشے کا انجکشن لگایا، جب وہ بے ہوش ہوگئی تو اسے باتھ ٹب میں ڈال دیا اور ٹب کو پانی سے بھر دیا۔ اس تمام دوران میری، رابن اور ماریا کو ایسا کرنے سے روکتی رہی۔ میری خود سر اور غصیلی ضرور تھی، لیکن اندر سے بہت مہربان اور نرم دل تھی۔ ماریانے میری پر الٹا غصہ کرنا شروع کر دیااور اسے مجبور کیا کہ وہ اپنا منہ بند رکھے۔ میری اندر سے بہت دکھی ہو رہی تھی، مگر خاموش تھی۔ اس کے بعد رابن، ماریا اور میری اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر چلے گئے۔
میں نے ایمی کے گھر فون کیا، ایمی دو دن سے آفس نہیں آرہی تھی۔ فون کی گھنٹی بجتی رہی، کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اس کے سیل پر فون کیا اس پر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ میں نے سوچا گھر چل کر دیکھتی ہوں شاید ایمی کی طبیعت خراب ہو۔ گھر پہنچ کر بہت دیر تک میں ڈور بیل بجاتی رہی، مگر اندر سے کو ئی جواب نہیںملا۔ مجھے تشویش ہو ئی میں نے 911 پر کال کی۔
جیسے ہی 911 والوں نے دروازہ کھولا تعفن کے بھبکوں نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گھر کے ہر کمرے میں تلاش کے بعد بالائی منزل کے واش روم کا جب دروازہ کھولا گیا تو وہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ایمی کا مردہ بدن پانی سے بھرے ٹب میں پڑا تھا۔ معمول کی کارروائی اور پوسٹ مارٹم وغیرہ کے بعد یہی فیصلہ کیا گیا کہ ایمی زیادہ پی کر نشے کی حالت میں باتھ ٹب میں ڈوب گئی۔
اس بھیانک سانحے کے تقریباً ایک ماہ بعد پولیس نے ماریا میری اور رابن کو ایمی کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کرلیا۔ ان کے دوستوںمیں سے کسی نے ان کے خلاف مخبری کر دی تھی۔ اگرچہ ان لوگوں نے بہت ہوشیاری سے اس سانحے کے دوران اپنی غیرموجودگی ثابت کی، لیکن ثبوت اور شواہد سب ان کے خلاف گئے۔
جج صاحبہ کے تشریف لاتے ہی پو رے ہال میں سناٹا چھاگیا سب لوگ ادب سے کھڑے ہوگئے۔ میں ماضی کی تلخ یادوں سے لمحۂ موجود میں لوٹ آئی۔ یہ لمحہ نہ صر ف میرے لیے بلکہ ہال میں جمع کمیونٹی کے بیش تر لوگوں کے لیے ایسا تھا جیسے ہمارے سر پر ننگی تلوار لٹک رہی ہو۔ فیصلہ سنایا جانے لگا۔
ماریا اور میری کو دس دس سال کی سزا اور رابن کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔
اس سے قبل شاید ہی ایسا ہو ا ہو کہ کمرئہ عدالت سے باہر نکلنے والا کوئی شخص بھی اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھا۔ ہر کسی کے دل میں ان کم عمر مجرموں کے خلاف شدید نفرت کے جذبات تھے۔ ہر کسی کے خیال میں ان کو بہت کم سزا سنائی گئی تھی۔ ہرکسی کو ان کا جرم سفاک ہو نے کے علاوہ بے حد گھنائونا لگ رہا تھا۔