رکشے سے نکل کر تپتی دھوپ میں ہونٹوں اور ناک کے درمیان پسینے کو اچھی طرح سفید چادر کے ساتھ صاف کیا مگر آچ بھڑکتا سورج دل میں پڑی ٹھنڈک کو کم نہیں کر پارہا تھا ۔
پرس میں موجود پچاس ہزار کا چیک روفہ کے لیے کارون کے خزانے سے کم نا تھا ۔۔۔
” روفہ آج تو بہت خوش ہے نا مجھے لگتا خوشی کے آنسو ہی نا تیری آنکھوں سے بہہ نکلیں ۔۔”
روفہ کے برابر چلتی ہوئی ہدی نے تبصرا کیا ۔۔اس نے ایک چت ہدی کے سر پر ماری ۔۔
” تو نے آج تک مجھے کبھی روتے دیکھا ہے ۔۔جانتی تو ہے مجھے pseudobulbar affect ہے ۔۔۔”
راستے میں پڑے کنکر کو ٹھوکر سے پرے کرتی پرس کو زور سے دبوچ کر بولی ۔۔
” ایک تو تجھے بھی نا انوکھی ہی بیماری ہے ۔۔مطلب کہ تو رو نہیں سکتی ۔۔یہ کیا بات ہوئی بھلا ۔۔کبھی کبھی انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ کھل کر روئے دکھ آنسو بن کر آنکھوں سے بہہ جائیں تو دل کو سکون آجاتا ہے ۔۔مگر اللہ نے تجھے رونے سے ہی محروم کر رکھا ہے ۔۔تبھی نظر کا چشمہ بھی لگ گیا تجھے ۔۔آنسو تو آنکھوں کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں یار”
ہدی بڑے افسوس سے منہ بسور کر بولی روفہ نے فقط کندھے اچکا دئیے ۔۔۔
اس سب کا رمشہ اور روفہ کو تب پتا چلا جب وہ آٹھ سال کی تھی اور جھولہ جھولتے ہوئے وہ بری طرح زمین پر گری تھی ۔۔ایک ٹانگ میں ٹانکے بھی لگے تھے مگر اتنے درد کے باوجود بھی وہ روئی نا تھی اور درد کی شدت سے آنکھیں بھری طرح سوجھ گئی تھیں تب ہی ٹیسٹ کرنے پر پتا چلا کہ دماغ کی مخصوص نس پر چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ رو نہیں سکتی اور PBA کا شکار ہوچکی ہے ۔۔
“ایک تو آج محلے والوں کو تیرے اچھے نمبروں کا نیا مصالحے دار خبر نامہ مل گیا ہے ۔۔اب بھی دیکھ تیرے گھر کے باہر کتنا رش لگا ہوا ہے جیسے مفت میں لنگر بٹ رہا ہو۔۔”
ہاتھ سے روفہ کے گھر کی طرف اشارہ کرتی ہنس کر بولی
” پتا نہیں پاکستانیوں کو دوسروں کے گھروں میں ٹوہ لینے کی اتنی بیماری کیوں ہوتی ہے ۔۔”
سر جھٹک کر اپنے قدموں کی رفتار مزید تیز کر دی اب تک تو رمشا بھی سیف کے ٹیسٹ کروا کر آچکی ہو گی ۔۔
اپنا چیک وہ سب سے پہلے رمشا کے ہاتھ میں تھمانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
چادر کاپلو سر پر اچھے سے جماتی لوگوں کے ہجوم کے قریب پہنچی ۔۔۔
لیپ ٹاپ بیگ ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے ایک ہی جست میں لفٹ سے نکل کر نانا کے آفس داخل ہوا ۔۔۔
اپنے گردن سے نیچے آتے بالوں کی پونی ایک پل کو رک کر ٹائیٹ کی ۔۔جامنی رنگ کے ہونٹ جو کہ سگریٹ نوشی کا نتیجہ تھے ان پر اگی ہوئی گھنی کالی مونچھیں کو ہاتھ سے مڑور کر دھپ سے کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔
سراج ایک نظر اس پر ڈال افسوس سے نفی میں سر ہلانے لگے ۔۔۔ان کی حرکت پر فودیل نے آنکھیں گھمائیں ۔۔۔
” میرے پیارے نواسے یہ کون سا وقت ہے تشریف آوری کا چلو اب عزت سے اپنے گھر کا راستہ ناپو ۔۔ویسے بھی تمہارے شو میں صرف آدھا گھنٹہ بچا ہے اور آج کون سے گیسٹ بلانے ہیں ۔اس کا تم نے کوئی انتظام نہیں کیا ۔۔”
بڑے میٹھے انداز میں اس کی لاہ پاہ کرکے اس کے ہاتھ پکڑائی ۔۔فودیل ان کے شریں لہجے کو انظرانداز کر کے اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ یو ایس بی لگانے لگا ۔۔یہ تو نانا نواسے کا روز کا معمول تھا ۔۔۔وہ جگری یار بھی تھے اور جانی دشمن بھی ۔۔۔
” نانا پلیز یار عزت کا کچومر نا نکالو ۔۔۔اگر آپ تلاش نیوز چینل کے چئیرمین ہیں تو میں بھی سی ای او ہوں ۔۔ویسے اب آپ کے سگنل نہیں آتے بڈھے ہوگئے ہیں ۔۔۔بالکہ کچھ حد تک سٹھیا بھی گئے ہیں ۔۔”
مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بھی تیلی لگائی ۔۔پاس بڑا پیر ویٹ سر پر لگنے پر فودیل کی چیخ نکل گئی ۔۔
” تم سے تو اب بھی پھرتیلا ہوں نکما کہیں کا ۔۔یہ بتاو فضا کا کیا حال ہے کل ترتیل سے پتا چلا مجھے کہ روفہ کی وجہ سے پھر ہسپتال پہنچ گئی ہے ۔۔”
فائیل پر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ فودیل سے سوال بھی کیا ۔۔
” یار آپ کو کیا ضروت تھی روفہ کے بورڈ ٹاپ کی نیوز بریک کرنے کی ہمیشہ سے چھوٹی ماما اس کی وجہ سے بیمار ہوتی ہیں وہ نا ہوکر بھی عالم ولا میں بیس سال سے ہرجگہ موجود ہے ۔۔پتا نہیں چھوٹے بابا اور چھوٹی ماما اس کو بھول کیوں نہیں جاتے ۔۔”
سر جٹھک کر تلخی سے بولا ۔۔سراج نے چونک کر فائیل سے سر اٹھایا ۔۔۔
” تم شاید بھول رہے ہو فودیل زکی ۔۔۔روفہ عالم اس گھر کا لازم جزو ہے ۔۔تمہارے چاچا چاچی کی اکلوتی بیٹی ہے وہ اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ کن حالات میں ان دونوں نے اپنی بیٹی کو خود سے دور کیا تھا ۔۔”
” ہاں پتہ ہے سب کچھ مجھے ۔۔آپ یہ بتائیں ۔۔آپ نے نیوز کیوں بریک کی تھی ۔۔”
روعب سے پوچھنے پر سراج نے آبرو اچکا کر اس کے انداز کو داد دی ۔۔۔
” بیٹے یہ میرا چینل ہے تم بھولو مت اور ہمارا کام ہی بریکنگ نیوز دینا ہے ۔۔اگر میں نا دیتا کسی اور چینل سے تمہاری چاچا اور چاچی کو پتا چل جاتا ۔۔اور ہاں واپسی پر مجھے ساتھ لیتے جانا فضا کی خیریت معلوم کرنی ہے ۔۔”
گہرا سانس بھر کر فودیل نے سر ہلایا ۔۔اس کے شو شروع ہونے میں چار منٹ باقی تھے اب اس کا رخ سٹوڈیو کی طرف تھا ۔۔۔۔
سراج نے اس کے سر کے پیچھے بنی پونی دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری کتنی بار اس کو اپنا حلیہ درست کرنے کو کہتے تھے مگر اس کے گردن تک لمبے بال اور گھنی مونچھیں بیس سال کی عمر سے تھیں اور یہ دونوں ہی اس کو بہت عزیز تھیں ۔۔۔
اپنی اکلوتی بیٹی اور داماد کی وفات کے بعد فودیل اور ترتیل دونوں ہی سراج کو اس دنیا میں سب سے بڑھ کر پیارے تھے ۔۔۔
لوگوں کی بھیڑ کو چیرتی ہوئی روفہ آگے بڑھی ۔۔
” اففف ہووو ۔۔ہٹو سب لوگ پیچھے ۔۔یہاں کوئی ونڈی وڈائی کی چیز نہیں مل رہی چلو بھاگو سارے لوگ ۔۔”
ایک پٹ کے لوہے کے دروازے کو ہاتھ سے پورا کھول کر ہرے رنگ کا پردہ ہٹا کر اندر کو بڑھی ۔۔۔
مگر اندر بھی عورتوں کا ایک بڑا سا ہجوم صحن میں موجود تھا ۔۔یہ سب دیکھ کر روفہ کو تپ چڑھی تھی ۔۔ایسا بھی کیا اس نے کارنامہ انجام دے دیا کہ محلے والے ہاتھ دھو کر پیچھے ہی پڑ گئے تھے ۔۔۔
” ارےے ہٹو کیا رش لگایا ہوا ہے یہاں ۔۔۔”
غصے سے کہتی آگے بڑھی تھی ۔۔کچھ عورتیں اس کو مڑ مڑ کر کسی عجوبے کی طرح دیکھنے لگی ۔۔۔
مگر سامنے ہی دو چارپائیاں پڑی تھیں جن پر سفید رنگ کی ریسکیو کی چاردیں پڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ایک چارد پر خون کے دھبے سے صاف ابھر رہے تھے ۔۔۔
وہ پتھرائی آنکھوں سے بے جان مجسمہ بنی ان دو چاریائیوں کو دیکھنے لگی جس پر رمشہ اور سیف سویا کرتے تھے ۔۔
کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔کسی نے اس کے سر کی چادر پر ہاتھ جمایا تھا ۔۔مگر اس کی نظریں ان چارپائیوں میں الجھی ہوئی تھیں ۔۔۔
” روفہ دیہان سے جانا بچے ۔۔۔۔
روفہ تو کتنا بولتی ہے چپ کر جا ۔۔۔
یہ دیکھو آج میں نے تمہارے لیے چینی والا پراٹھا بنایا ہے کھا کر بتاو کیسا بنا ہے ۔۔۔
امی مجھے وہ گڑیا لینی ہے ۔۔وہ دیکھو وہ لال رنگ کی گڑیا کتنی سوہنی ہے نا اماں ۔۔۔ابو جب ٹھیک ہوجائیں گے نا تو میں ابو جی سے بولوں گی وہ ایسی ہی دلہن بنی گڑیا لا کر دیں ۔۔۔
چار سالہ روفہ نے حسرت سے ماں کا ہاتھ تھام کر دکان کے شیشے پر ناک رکھ کر گڑیا پر نظریں گاڑھ کر بولا تھا ۔۔اس کی آنکھوں کی چمک رمشا کا سینہ چیر گئی تھی ۔۔۔۔۔
روفہ نے ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر شیشے کی ڈسپلے دیوار پر ٹھوکر ماری تھی ۔۔۔
اماں وہ گڑیا بالکل کوجی سی ہے مجھے نہیں لینی ۔۔۔رمشا نے اس کو سینے میں بھینج لیا ۔۔۔
اور ہاتھ تھام کر بغیر کچھ بولے چل دی ۔۔۔
مگر رمشا نے ایک نظر اس گڑیا کو مڑ کر دیکھا اور روفہ نے چہرہ موڑ کر دیکھتی رمشا کو ۔۔۔
ابو جی یہ دیکھو میں نے سموسے بنائے ہیں ۔۔۔جلے ہاتھ میں چھوٹا سا عجیب شکل کا سموسہ پکڑ کر روفہ نے سیف کے ساکت وجود کو دیکھایا تھا ۔۔۔سیف کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر کنپٹی پر بہہ گیا جس کو روفہ نے اپنے چھوٹے ہاتھ سے صاف کیا
رمشا تڑپ کر اگے بڑھی تھی ۔۔اس کا جلا ہاتھ دیوانہ وار چومنے لگی ۔۔۔
روفہ تو میرے جگر کا ٹوٹا ہے ۔۔کیوں آگ کے پاس گئی ۔۔۔
اماں صحن میں جھولا لگاو نا ۔۔۔۔روفہ نے ضد کی۔۔۔
رمشا درخت سے جھولا لگا کر آٹھ سال کی روفہ کو جھولانے لگی ۔۔۔۔ان دونوں ماں بیٹی کی کلکاریاں ویل چیئر پر بیٹھے سیف نے اپنی ایک طرف کو جھکی گردن سے مسرت سے دیکھا ۔۔ان دونوں کے قہقہے پر سیف کے ہونٹ ایک طرف کو زرا سے مسکراہٹ میں ڈھلکے تھے ۔۔۔
یہ قہقہے یہ آوازیں۔ آہ ہ ہ ہ رگوں کو کاٹ گئی تھیں ۔۔رمشا اور سیف کے مسکراتے چہرے صحن میں ہوا میں تحلیل ہو گئے تھے ۔۔۔قہقہے تھم گئے تھے ۔۔رمشا کی کھلکھلاہٹ جھولا گر جانے کی وجہ سے تھم گئی تھی ۔۔۔چیخیں تھیں ہر طرف چیخیں ۔۔۔روفہ کا بے جان وجود زمیں پر گر پڑا تھا ۔۔سیف نے روفہ کو گرنے سے بچانے کے لیے خود کو حرکت دی اور خود بھی نیچے گر پڑے ۔۔۔۔
ساری آوازیں سارے قہقہے چیخیں کہیں پس منظر میں چلی گئی ۔۔ایک دم آنکھوں کے آگے گول گول دائیرے سے بنے تھے ۔۔۔آہستہ آہستہ رمشا اور سیف کے چہرے ان دائیروں میں کہیں کھو گئے اور پھر وہ پورے قد سے نیچے گری تھی ۔۔۔۔۔کسی نے اس کا نام پکارا تھا شاید رمشا نے یا پھر وہ کوئی اور تھا۔۔ نا جانے وہ کون تھا ۔۔مگر ہوا کے جھونکے میں رمشا کی محسور کن خوشبو روفہ کو محسوس ہوئی تھی اور پھر سب کچھ دھویں کی مانند اڑ گیا ۔۔۔۔۔۔
حواس مجنمند ہوگئے تھے ۔۔ہاتھ پیر سن پڑگئے ۔۔۔
کسی نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا تھا روفہ نے بامشکل آنکھیں کھول کر دیکھا ۔۔۔
“ماموں ۔۔۔۔”
دھیمی سرسراتی ہی سرگوشی لبوں سے نکلی تھی اور پھر آنکھیں بند ہوگئیں ۔۔۔۔