سکندر صاحب یہ فیصلہ کر کے بے حد مطمئن تھے کہ اگر انکو کچھ ہو بھی گیا تو ایلاف یتیم بچی محفوظ ہاتھوں میں ہو گی۔ ازمیر پہ انکو مکمل بھروسہ تھا۔ ایلاف کے بارے میں جب فیملی میں بتایا گیا بظاہر تو سب نے ترس کا مظاہرہ کیا ۔پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی کچھ ہی دنوں میں انکی فیملی میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ کب تک اسکو اپنے گھر رکھے گے آخر کو جوان لڑکی ہے اور گھر میں جوان لڑکا ہے ۔وہ ان سب سے سخت پریشان تھے۔ آج یہ فیصلہ کر کے انکی روح تک مطمئن تھی۔
اور ازمیر کو تو یقعین نہ تھا آرہا دعائیں یوں بھی قبول ہوتیں ہیں۔کچھ بابا ٹھیک ہوکے گھراگئےتھے۔ وہ خدا کا جتنا شکر کرتا کم تھا اب تو ولید کے بقول
“جس دن سے نکاح ہوا ہے منہ سے آگ کے گولوں کی بجائے پھول برس رہے ہیں۔ “ایلاف غصہ میں اکثر ولید کو بتاتی تھی اکڑو کا برتاؤ گھر میں ۔
“ہےاور جس کے لئے گر رہے وہ ایسی غائب ہوئی ہیں سارا دن نظر نہیں آتیں محترمہ۔”ازمیر برا سا منہ بنا کے بولا۔ ولید کا قہقہ بلند ہوا۔
خان بابا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی تو وہ چھٹی پہ چلے گئے تھے آج کل کی پِک اینڈ ڈراپ کی زمہ داری ازمیر کےسرتھی۔ایلاف تو یونی جا نہ رہی تھی۔احدیہ کو چھٹی نہیں کرنے دے رہی تھی کیونکہ اسکی پریکٹیکلز چل رہے تھے۔
ایلاف پہلے بھی ازمیر سے کم ہی مخاطب ہوتی تھی لیکن آج کل تو نظر انا بھی بند ہو گئی تھی۔ازمیر کا آج کل سارا ٹائم ہی آفس میں گزارتا تھا کام سارا اس پہ ہی آگیا تھا ۔احدیہ کو گیٹ پہ ہی چھوڑ کے چلا جاتا اور کبھی کبھی یہ کام بھی ولید کرتا۔
“اسلام علیکم بابا۔کیسے ہیں اب ۔”وہ سکندر صاحب کے روم میں ہی آگیا تھا سیدھا۔
“وعلیکم سلام۔میں ٹھیک ہو میری فکر مت کیا کروں ۔اب تو ساری ذمہ داری آگئی تم پہ ہی۔”سکندر صاحب بولے۔
“چلیں کام تو اسے ہی سنبھالنا تھا ۔تو اب ہی سنبھال لیا ۔اب آپ آرام کریں گے کوئی ضرورت نہیں آفس جانے کی ۔”پاس بیٹھی ثمینہ بیگم بولیں ۔
“نہیں بیگم صاحبہ مجھ سے نہیں ہو گا آرام ۔ایسے لیٹے لیٹے میں تھک گیا ہوں۔”وہ پاس بیٹھا پیار سے دونوں ماں باپ کی نوک جھونک سے لطف اٹھا رہا تھا ۔
“جی بلکل ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں اب اپ آرام کریں گے۔”ازمیر بھی بولا۔
“لو ماں کم تھی جو بیٹا بھی شروع ہو گیا۔”ازمیر اور ثمینہ بیگم مسکرا دئے ۔
“اچھا بتائیں میڈیسن لیں اپنے ۔”ازمیر نےپوچھا ۔
“ہاں لے لیں ہیں ۔مجال ہے جو میری بیٹی ذرا بھی ٹائم اوپر نیچے ہونے دے۔سارادن وہ انکے گرد گھومتی رہتی ہے۔لاکھ کہتی ہوں بیٹی آرام کر لو خود بھی تم ۔”ثہمنہ بیگم پیار سے بولیں ایلاف کے باری میں اب تو بہو کا عہدہ بھی پا چلیں تھیں محترمہ ۔
“اب تو نظر ہی نہیں آرہی محترمہ ۔میرے آنے کا الحام ہوجاتا ہے ۔”وہ منہ میں بڑبڑایا۔سارا دن آفس گزار کے جب گھر آنے پہ بھی نظر نہ آتی تو جھنجلاہٹ اور تھکن اور بڑھ جاتی تھی۔اسلئے بولا ۔
“اور اس چکر میں محترمہ یونی بھی جانا بند کر چکی ہیں ۔”یہ ہی ایک آئیڈیا تھااسکے ساتھ ٹائم گزارنے کا۔
“کافی دنوں سے سوچ رہا تھا آج آخر بول ہی دیا۔
کچھ دیر بعد منکوحہ صاحبہ کی انٹری ہوئی تھی ۔ازمیر کی آنکھوں میں چمک اور لب مسکرا اٹھے تھے اور مقابل کو جھنجلا ہٹ ہوئی تھی۔
“ادھر آؤ بیٹا میرے پاس۔”ایلاف جو پانی کاجگ رکھ کے پلٹ رہی تھی ۔ثمینہ بیگم باہر جا چکیں تھیں ۔
سامنے ہی کرسی پہ ازمیر بیٹھا ہوا تھا ۔
“یہ میں کیا سن رہا ہو کہ تم یونیورسٹی نہ جا رہی ۔مجھے لگا سمسڑ بریک ہے۔”سکندر صاحب نے استفسار کیا۔اور ازمیر اسے دیکھنے میں مگن تھا جیسے دنیا میں اہم کام یہ ہی ہو۔
“دراصل انکل میں سوچا ابھی کچھ دنوں بعد چلی جاؤں گی۔بلکہ میں جانا ہی نہیں یونی۔”ایلاف بولی۔
“اوہ۔کیا کہا محترمہ ۔آپ نے سوچا۔جس سے سوچتے وہ آپکے پاس ہے یعنی کہ دماغ ۔کل سے یونیورسٹی کے لیے مجھے تیار ملو ۔آئی سمجھ۔” ازمیر کا دماغ گھوما تھا اسکی بات سن کے۔
“مگر ۔”ایلاف نے احتجاج کرنا چاہا ۔
“اگر مگر کچھ نہیں ۔جو کہا ہے بہتر ہے وہ ہی کرو۔”ازمیر بولا اور باہر نکل گیا ۔اسکے جانے کے بعد ایلاف نے سکندر صاحب کی طرف دیکھااور کہا۔
“دیکھا آپ نے ایسے ہی کرتے ہیں ۔ڈانٹتے ہیں ایسے ہی۔ اپنی بات سناتے ہیں بس۔ سامنے والےکی کوئی فکر نہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔سارا غصہ مجھ پہ ہی نکلتا ہے۔”منہ پھلا کے بولی تھی۔ سکندر صاحب کو اس ٹائم بہت پیاری لگی تھی وہ مسکرا کے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
“بیٹا اسے فکر ہے تمہاری ۔اور اسکا مزاج ہی ایسا ہے ۔”سکندر صاحب نے سمجھایا ۔
“ہونہہ۔مزاج صرف میرے لئے ہی ہے ایسا مزاج ۔باقیوں کے ساتھ تو ہنسی ہی ختم ہوتی ۔”اسنے جل کے سوچا۔
“مگر انکل بس کچھ دن جب تک اپ ٹھیک نہیں ہو جاتے پوری طرح سے۔”وہ بضد تھی۔
“یہ جو میرا بیٹھا ہے نہ بہت ضدی ہے جو کہتا ہے وہ کرتا ہے ۔اور ویسے بھی اب یہ تم دونوں میاں بیوی کے معاملہ ہے میں تو کچھ نہیں بولوں گا۔”وہ بھی بات کے آخر میں شرارت سے بولے۔ایلاف نے زیادہ بحث مناسب نہ سمجھی اور باہر آگئی ۔
“میاں بیوی ۔میں تو بوجھ ہو انکے سر پہ زبردستی کا جب چاہیے اتار کے پھینک دیں۔”وہ مسلسل منفی سوچوں کے زیر اثر تھی ۔
لاونج میں آئی تو ازمیر ثمینہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا ۔ایلاف نے غصے سے دیکھا اور کچن میں گھس گئی۔
“انکل کو شکایتیں لگا کے دل نہیں بھرا جو اب ماما کو لگا رہے۔”غصہ سارا برتنوں پہ اترا۔شور سن کے اسے سمجھنے میں ایک منٹ لگا تھا ۔اور مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پہ پھیل گئی۔
“میں ذرا آپکی بہو کے مزاج پوچھ آؤں ۔”وہ شرارت سےبولا ۔
“شریر کہی کا ۔خبردار جو میری بیٹی کو زیادہ تنگ کیا ۔”انہوں نے اسکا کان کھینچا۔
“میں کب کرتا تنگ سارا ٹائم تو اسے آپ لوگوں سے فرصت نہیں ملتی۔میرے تو سایہ سے بھی بھاگتی ہیں خیرسے۔”وہ شرارت سے بولا اور ثمینہ بیگم روم میں چلی گئیں۔
“یقعیناً آپکا دل یہ ظلم میرے سر پہ کرنے کا دل چاہ رہا ہو گا ۔بیچارے برتن۔”ازمیر سینے پہ ہاتھ باندھے کچن کے دروازے پہ کھڑا تھا۔
“جی نہیں ۔مجھے کیا ضرورت ہے۔”ایلاف غصے سے بولی۔
“کچھ چاہیے تھا آپکو۔”ازمیر کے بولنے سے پہلے ایلاف نے تیکھے چتونوں سے بولی۔
“چاہیےتوبہت کچھ تھا مگر اس وقت تم بہت خطرناک موڈ میں ہو۔”ازمیرکے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔
“اس شخص سے بات کرنا ہی فضول ہیں۔”ایلاف منہ میں بڑبڑائی۔
“میری شان میں کچھ کہا ۔مجھے سنائی نہیں دیا۔”ازمیر اسے تنگ کرنے پہ تلہ ہوا تھا۔
“راستہ چھوڑیں ۔”ایلاف بولی جو پھیل کے کھڑا تھاکہ نہ اندرجانےکاراستہ تھا نہ باہر کا۔
“اب تمہارے سب راستے مجھ تک ہی آتے ہیں ۔”ازمیر نے اسکی طرف جھک کے کہا ۔ایلاف نے ایک عدد گھوری سےنوازا ۔ازمیر کا قہقہ بلند ہوا اور راستہ چھوڑ کے ایک طرف ہو گیا۔
ایلاف کی دوست کی برتھ ڈے پارٹی کی تقریب تھی۔
جو احدیہ لوگوں کے پڑوسی تھے کچھ عرصہ تھا ۔ثمینہ کی انسے ہیلو ہائے بھی تھی۔
سب فرینڈز انوئیٹڈ تھیں۔ایلاف کا دل نہیں تھا جانے کا تو اُسنے مناسب الفاظ میں منع کر دیا تھا۔مگر اگلے ہی دن اسکی دوست اپنی والدہ کے ہمراہ خود دعوت نامہ لے کے پہنچ چُکی تھی۔
انکے بے حد اصرار پہ ثمینہ بیگم نے بول دیا تھا کہ وہ لازمی اسے بھیج دئیں گی۔ثمینہ نے اسکا تعارف اپنی بھانجی کے رشتے سے کروایا تھا۔
“آنٹی میں بلکل بھی موڈ نہیں جانے کا اور احدیہ کے بھی فائنلز ہو رہے اسکے بغیر میں کیسے جاؤں گی۔”ایلاف نے ان کے جانے کے بعد ثمینہ کو بولا۔
” میرا بچہ تھوڑے ٹائم کی ہی تو بات ہے ۔لوگوں سے ملتے ملاتے رہنا چاہیے محبت بڑھتی ہے ۔وہ آپکی دوست ہے ایسے اچھا نہیں لگتا”۔ثمینہ نے اسکو سمجھایا تھا ۔
“جی ۔لیکن میں آپکے کہنے پہ جا رہی ہوں میرا موڈ بلکل بھی نہیں ہے”اس نے منہ پھلا کے کہا۔
“ڈیٹس لائک مائےگڈ گرل”
ثمینہ نے اسے ہنس کے گلے لگا لیا۔
سکندر صاحب سے ایلاف کے جانے کی بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ اچھی بات ہے کہ لوگوں میں گھولے ملے۔
اچانک ایک اریجنٹ میٹنگ آ گئی جس کی وجہ سے ازمیر اسلام آباد چلا گیا تھا۔ایک دن بعد منگنی کی تقریب تھی جس میں ایلاف کو شرکت کرنی تھی۔
احدیہ نے اسکے لاکھ منع کرنے پہ بھی زبردستی میک اپ کر دیا جسکو اسنے بعد میں صاف کر کے لائٹ کر لیا۔
لائٹ گرین نیٹ کرتہ سٹائل شرٹ جس پہ پنک اور گولڈن نیک لائن ۔آف وائٹ ٹراوزر۔پنک ڈوپٹہ جو کھول کے کندھے پہ رکھا گیا تھا ۔نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔
“ماشاءاللّہ ۔میری بیٹی کتنی پیاری لگ دہی ہے”ثمینہ نے دیکھا کر اسکی پیشانی چومی۔
“یہ بھی میں مشکل سے ریڈی کیا ہے محترمہ کو ورنہ منہ اٹھا کے چلی جانا تھا انہوں نے۔” احدیہ بھی بولی ۔
“انجوائے کرنا ایلاف۔ماما میں چلتی ہو مجھے واپسی پہ دیر ہو جائے گی پروجیکٹ بھی آج ہی سبمٹ کروانا۔” احدیہ بیک وقت دونوں سے مخاطب ہوئی ۔
“کاش آج میرے بھائی بھی تمہارا یہ روپ دیکھ سکتے ۔
وہ تو دل ہی ہار جاتے “ایلاف کے کان میں گھس کے شرارت سے کہہ کے باہر نکل گئی۔
“ٹھہرو تم ذرا بدتمیز”۔وہ بری طرح بلش ہو گئی۔مگر وہ باہر جا چکی تھی۔ازمیر کا زکر سن کے ایلاف کے دل نے اک بیٹ مس کی ۔اور شکر کیا وہ یہاں نہیں ۔
مگر کون جانے اسکا یہ شکر عارضی تھا۔
رات کو جب وہ تھکا گھر داخل ہوا۔تو لاونج میں خاموشی تھی۔جسکو دیکھنے کی خواہش تھی سامنے نہ پہ کہ تھکن اور جھنجلا ہٹ اور ہو گئی۔
“تم آگئے بیٹا ۔کیسی رہی میٹنگ “۔ثمینہ بیگم نے لاؤنج میں داخل ہوئی تو سامنے بیٹے کو دیکھ کے بولیں۔اور سر پہ بوسہ دیا۔
“آپکو دیکھ کے ایک دم فریش۔”ازمیر ماں کو دیکھ کے بولا ۔
“یہ باتیں تو اب تم اپنی بیوی سے بولا کروں۔”ثمینہ بیگم نے ازمیر کو چھیڑا۔
“ہائے یہ تو حسرت ہی ہے ۔وہ دیکھے تو تب نہ۔”یہ جملہ میں صرف وہ سوچ سکا۔بولا تو صرف اتنا۔
“ہیں کدھر آپکی بہو صاحبہ ۔ہمیں تو وہ بلانا بھی گوارا نہیں کرتی ۔”وہ بھی شوخ سے بولا ۔
“اوہ یاد آیا ۔اسکو تو پِک کرنا تھا میں تو بھول ہی گئی ۔روکوں میں ڈرائیور کو بول کے آتی ہوں”۔یاد آنے پہ ثمینہ بے ساختہ بولیں۔
“کدھر ہے وہ ۔میں خود چلا جاتاہوں۔”وہ کہتے ساتھ ہی اٹھا۔اسے تو بہانہ چاہیے تھا اس سے بات کرنے کا۔
“انوشہ کی آج برتھ ڈے پارٹی ہے ۔انکل ابرار کی بیٹی ۔جو ابھی کینٹ شفٹ ہوئے ہیں ۔ایلاف کی فرینڈ ہے وہ ۔اڈریس تم پوچھ لو۔”ثمینہ بھی بات سمجھ کے مسکرا کے بولیں ۔
ماما کیا ضرورت تھی آپکو اسے وہاں بھیجنے کی۔”انوشہ کا نام سنتے ہی ازمیر کی تیوری چڑھی ۔وہ انوشہ کو بلکل پسند نہ کرتا تھا ۔احدیہ کو بھی اس سے دوستی رکھنے پر ازمیر کی سننی پڑی تھی۔اور اسکے بھائی کی خصلت سے وہ اچھی طرح واقف تھا اسلئے اسے غصہ آیا تھا۔دونوں کی سکولنگ ایک ساتھ تھ اور ایک کالج۔
“احدیہ سے پوچھیں اپ اڈریس”وہ غصے سے بولا۔
“وہ نہیں گئی اسکے تو ایگزامز ہیں۔”ماں کی بات سن کے وہ اور اشتعال میں آ گیا۔
“ماما اپ مجھ سے تو پوچھ لیتی ۔آپ نے اسے بھیجا ہی کیوں۔اس میں تو عقل ہے ہی نئں ۔مگر اپ تو۔”وہ غصے سے گاڑی کی چابی لے کے باہر نکلا۔
“مسٹر اکڑو کالنگ”ایلاف نے ہاتھ میں پکڑے سیل کو غورسے دیکھا کہ شاید اسکو غلط نظر آرہا ہو۔
“ہیلو۔”ریسو کر کے کان کو لگایا ۔
“میں باہر کھڑا ہوں ایک منٹ میں باہر آ جائیے ۔” سخت لہجے میں بولا تھا ۔
“اپ۔آپ تو اسلام آباد گئے تھے۔”ایلاف نے حیرت سے پوچھا ۔
“ساری زندگی وہاں نہیں گزارنی تھی۔آپ باہر تشریف لائیں ۔”لہجے میں کوئی رعائت نہ تھی ۔ایلاف کا دل ڈھڑکا۔
ایلاف نے ادھر ادھر نظر ڈورا کے انوشہ کو ڈھونڈا ۔جو بے حد مصروف تھی اپنے کزن ساتھ ۔ایلاف تو ایک کونے میں لگی بیٹھ تھی ۔اک طرح تو اسنے شکر ادا کیا تھا کے ازمیر آگیا ہے ۔اسے انوشہ کے بھائی رضا کے دیکھنے سے الجھن ہو رہی تھی جو مسلسل یہ ہی کام کئے جا رہا تھا۔
ایلاف کو اپنی طرف دیکھتا پا کر انوشہ اسکے پاس آئی۔
“سوری ڈئیر ۔تمیں ٹائم ہی نہیں دے پا رہی ۔” انوشہ نے معذرت کی تھی ۔ساتھ ہی اسکا چھچھورہ بھائی بھی آگیا تھا۔
“اپ بور ہو رہیں ہو گئیں اپ آہیں میں آپکو مہمانوں سے ملواو”۔ موقع ملتے ہی رضا نے بات شروع کی۔
“نہیں شکریہ میں اب چلوں گی ۔کافی لیٹ ہو گیا ہے۔”ایلاف نے انوشہ سے کہا ۔
“چلیں میں آپکو ڈراپ کر دوں۔”اسنے پھر اپنی خدمات پیش کی ۔ایلاف کا دل کیا اسکا منہ توڑ دے۔
“نئیں اسکی ضرورت نہیں ۔ازمیر باہر میرا ویٹ کر رہے ہیں۔”ازمیر کا نام لیتے ہی ایلاف کو تحفظ کا احساس ہوا۔خوبصورت احساس ۔جو اسکی روح تک شانت کر گیا ۔
“واہ چلو اسی بہانہ ازمیر سے ملاقات ہو جائے۔”ازمیر کا سن کے انوشہ بولی وہ تینوں گیٹ کی جانب بڑھ گئیں۔
گئیں۔
••••••••••※※※※※※••••••••※※※※※※•••••••
جب وہ لوگ باہر آے تو ازمیر گاڑی سے ٹیک لگائے انتظار میں کھڑا تھا ۔
ایلاف کو دیکھ کے ازمیر کی آنکھوں میں کئی رنگ آئیں ۔اس روپ میں آج پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا ۔مگر پیچھے آتے چہروں کو دیکھ کے وہ رنگ اشتعال میں بدل گئے تھے ۔
“ہیلو۔ازمیر بہت بے مروت ہو اگر آ ہی گئے ہو تو اندر آئے بغیر واپس جا رہے ہو مجھے وِش بھی نہیں کیا۔”وہ ایک ادا سے بولی۔
“معذرت کے ساتھ مجھ اس وقت جلدی ہے۔اینڈ ہیپی برتھ ڈے۔چلیں اب۔”انتہائی سنجیدہ انداز میں بولا اور ایلاف کو دیکھاایلاف کا ننھا دل ڈھرکا تھا ۔
“ایلاف اپ سے مل کے بہت اچھا لگا۔پھر ضرور آئیں گا انتظار رہے گا ۔” رضا انتہائی لگاوٹ سے بولا تھا ۔ازمیر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکا منہ توڑ دے اسنے سختی سے لب بھینچ کے کنڑول کیا ۔
“اب ہمیں چلنا چاہیے۔”انتظار کئے بغیر غصہ سے پلٹا اور گاڑی میں بیٹھ کے زور سے دروازہ بند کیاجسکا مطلب تھا اب کوئی بکواس نہیں ۔ایلاف بھی دہل کے رہ گئی تھی۔وہ بھی جلدی سے بیٹھی ۔
اسکے بیٹھتے ہی گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی ۔ہمت کر کے ایلاف نے اسے مخاطب کیا ۔
“آپ ۔۔آپ تو اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔”اسنے ڈرتے ہوئے پوچھا جو اس وقت انتہائی غصے میں تھا چہرے سے صاف پتہ لگا رہا تھا۔
“جی بلکل مگر بد قسمتی سے آگیا اور میری وجہ سے آپکی پارٹی سپوئیل ہو گئی ۔معذرت۔”وہ کاٹ دار لہجے میں بولا تھا ۔
“نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔”ایلاف نے بھی وضاحت دی۔
“جسٹ شٹ اپ ایلاف۔دس ازٹو مچ۔”وہ دھاڑا تھا ۔ایلاف سہم کے دروازے کے ساتھ جا لگے ۔
“کبھی اپنی عقل کا استعمال کیا ہے کہ نہیں تمہیں اتنا بھی پتہ کون سی جگہ پہ جانا ہے اور کہاں نہیں۔”اسکا غصہ کم ہونا کا نام نہیں لے رہا تھا۔کچھ اس رضا کی باتیں ۔کیسے برداشت کرتا وہ اسکی منکوحہ تھی اب۔
“میں آنٹی کے اجازت سے آئی ہوں اور انکل نے ۔”ایلاف ہلکی سی آواز میں بولی۔
“تمہاری شادی مجھ سے ہوئی ہے میری فیملی سے نہیں ۔ایک میری بات کا ہی تمہیں اثر ہوتا نہ ہی کوئی پرواہ ہے ۔” اسکی بات پوری ہونے سے پہلے وہ بولا تھا۔
“اگلی دفعہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ذمہ دارتم خود ہو گی نتیجہ کی اس دفعہ تو میں کنڑول کر لیا ہے اپنا اپ ۔میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا ایسی جگہیں تمہارے لئے۔اور سب سے بڑی بات میں میری علم میں لے بغیر تم ان اجنبیوں کے بیچ تھی دو از لاسٹ وارننگ ۔”اسنے بات پوری کی ایلاف اسکے اس دفعہ کنٹرول کرلیا پہ اٹکی تھی یہ ابھی کنٹرول تھا ۔
باقی راستہ خاموشی سے کٹا ۔ایلاف نے بھی اسے دوبارہ مخاطب کرنا مناسب نہ سمجھا۔