“سر” سنان جو فائل پر سر جھکائے بیٹھا تھا کریم کی آواز پر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“ہوں بولو؟” اسے پریشان دیکھ سنان نے سوال کیا تھا۔
“وہ جیک۔۔۔۔” وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا تھا۔
“جیک؟” سنان نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
“اطلاع ملی ہے کہ وہ میڈم کی تلاش میں پاکستان آگیا ہے۔۔۔۔ اور اب موقع کی تلاش میں ہے” کریم کی بات پر اس نے جبڑے بھینچے تھے۔
“گھر کے آس پاس کی سکیورٹی ٹائٹ کردو کریم۔۔ اور زویا کو ان سب کی بھنک نہ لگے۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے” سنان کی ہدایت پر سر اثبات میں ہلائے وہ سٹڈی سے نکلی تھی جب کہ ایک سایہ دیوار کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سست قدموں سے چلتی وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔ بیڈ پر بیٹھے سر ہاتھوں گرائے بےبسی سے رو دی تھی۔
“جیک وہ پاکستان آگیا تھا اس کی تلاش میں۔۔۔۔” تکلیف سے وہ سسک اٹھی تھی۔
“اگر وہ مجھے تک پہنچ گیا؟” یہ سوچ کتنی تکلیف دہ تھی اس کا کسی کو بھی شائد اندازہ نہ ہوتا۔
بیڈ پر ڈھے وہ دو سال پہلے کے منظر میں کھوچکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج اسکی سولہویں سالگرہ تھی جو مارتھا کے ساتھ ملکر اس نے ایک چھوٹا سا کپ کیک کاٹ کر سیلیبریٹ کی تھی اور اب مزے سے وہ بیڈ پر سوئی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔
نشے میں دھت وہ لڑکھڑاتا اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ کمرے میں موجود زیرہ بلب کی روشنی میں اس کا سویا وجود جیک کے اندر ایک انجانا احساس جگارہا تھا۔
پراسرا سا مسکراتا وہ دھیمے قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا تھا۔ بیڈ کے قریب پہنچے وہ بہت دلچسپی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ نشے کی وجہ سے آنکھوں میں خماری چھائی ہوئی تھی۔
“مانو بلی۔۔۔۔ میری مانو” وہ مسکرایا تھا۔
اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرے ایک ایک نقش کو انگلی سے چھوے ایک انجانی خواہش نے اس کے دل میں جگہ لی تھی۔۔۔ جس پر عمل کرتا وہ اس پر جھک گیا تھا۔
پورا ولا زویا کی چیخوں سے گونج اٹھا تھا۔ ساتھ والے روم میں موجود مارتھا تیزی سے اس کے روم میں داخل ہوئی تھی۔ آنکھیں حیرت کے مارے پھٹ گئی تھی۔
جیک زویا کو اپنے قبضے میں لیے اس پر جھکا ہوا تھا اور وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے دور دھکیلنے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔۔ الٹے پیر بھاگتی مارتھا نے تیزی سے گارڈز کو بلایا اور دوسری میڈ سے مرینہ چوہان کو بلانے کا کہا تھا۔
گارڈز نے آتے ہی اسے قابو کیے زویا سے پیچھے کیا تھا جو اب روتی ہوئی مارتھا کی پناہوں میں جاچھپی تھی۔
مرینہ چوہان بھی میڈ کے ساتھ فوراً وہاں آئی تھی۔۔۔۔ زویا اور جیک دونوں کی حالت دیکھ انہیں کہانی پل بھر میں سمجھ آگئی تھی۔
مارتھا کی پناہوں میں ڈری سہمج سی زویا اور گارڈز کی گرفت میں ہوش و حواس سے بیگانہ جیک۔۔۔۔
“اسے روم میں لیجاؤ” گارڈز کو انہوں نے حکم دیا تھا۔
“اور اس کا حلیہ درست کرواؤ۔۔۔ اگلی بار مجھے ڈسٹرب مت کرنا خود ہینڈل کرلینا” بےپرواہ لہجے میں بولتی وہ وہاں سے جاچکی تھی۔
مارتھا نے افسوس سے انہیں دیکھا تھا اور اب زویا کی جانب متوجہ ہوگئی تھی جو بری طرح خوف کے زیر اثر تھی۔۔۔۔۔ اس کے لبوں پر موجود خون کے نشان جیک کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔۔۔۔
اس دن کے بعد زویا بری طرح سے جیک نامی خوف میں مبتلا ہوگئی تھی۔۔۔ اگلے ہی دن جیک کہی چلا گیا تھا۔۔۔۔ کہاں؟ نہیں معلوم۔۔۔۔ مگر وہ زویا کے دل و دماغ پر اپنا خوف اچھے سے بٹھا کر گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکنگ چیئر سے ٹیک لگائے معتصیم کی نظریں بس اسی پر ٹکی تھی جو دو دنوں سے ہوش و حواس سے بیگانہ تھی۔
“پلیز ماورا۔۔۔۔ پلیز اٹھ جاؤ مزید ازیت مت دو مجھے۔۔۔۔ یہ نا ہو کہ انتظار کی یہ گھڑیاں ختم ہوتے میں ختم ہوجاؤں” ایک آنسوؤں اس کی آنکھ سے بہہ نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
“انکل آپ نے مجھے بلایا؟” شزا نے ان کے کمرے میں داخل ہوئے سوال کیا تھا۔
“ہاں آؤ شزا۔۔۔۔ تمہارا ہی انتظار تھا۔۔۔۔ کچھ بتانا ہے تمہیں” شبیر زبیری نے گہری سانس خارج کی تھی۔
“خیریت انکل آپ پریشان لگ رہے ہے؟” شزا کے پوچھنے پر بےبسی سے انہوں نے گہری سانس خارج کی تھی۔
“ْخیریت ہی تو نہیں ہے شزا۔۔۔۔ ارحام شاہ کے ہوتے مجھے اور کونسی بات پریشان کرسکتی ہے؟”
“اب کیا کردیا اس انسان نے؟” شزا نے مٹھیاں بھینچی تھی۔
“ابھی تو کچھ نہیں مگر۔۔۔۔ مگر وہ کچھ کرنے والا ہے”
“کیا کرنے والا ہے؟”
“ہر انسان کی ایک کمزوری ہوتی ہے شزا۔۔۔ میری بھی ہے جو اس ڈیوڈ کے ہاتھ لگ چکی ہے اور وہ اپنی جان بخشی کی خاطر میری وہ کمزوری ارحام شاہ کے حوالے کرنے والا ہے۔۔۔ اگر ایسا ہوگیا تو سب برباد ہوجائے گا۔۔۔۔ ہمیں اسے روکنا ہوگا”
“مگر کیسے؟” شزا کے سوال پر مسکراتے انہوں نے ایک پاکٹ گن اس کے حوالے کی تھی۔
“یہ کام اب تمہیں کرنا ہے شزا۔۔۔۔ تم ہی ہو جو یہ باآسانی سے کرسکتی ہو۔۔۔ تمہیں ختم کرنا ہوگا۔۔۔”
“ڈیوڈ کو؟” اس نے گن پکڑے سوال کیا تھا۔
“اونہوں۔۔۔۔ وائے۔زی” وہ دھیما سا پراسرار سا مسکرائے تھے جبکہ شزا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی دونوں آنکھوں کو ٹارچ کی روشنی سے چیک کرتے ڈاکٹر نے ایک نگاہ معتصیم پر ڈالی تھی جو لب چباتا انہیں دیکھ رہا تھا۔
ڈاکٹر نے ایک بار پھر ماورا کو دیکھا تھا جو گم صم سی تمام کاروائی خاموشی سے دیکھ رہی تھی تھی۔
“مسٹر معتصیم میرے ساتھ آئیے!” ماورا پر آخری نگاہ ڈالے انہوں نے معتصیم کو اشارہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پیشنٹ کو ہوش کب آیا تھا؟”
“کل رات کو” اس نے جھٹ جواب دیا تھا۔
“اور تب سے وہ ایک لفظ تک نہیں بولی؟”
“نہیں” اس نے سر نفی میں ہلایا تھا
“وہ ٹھیک تو ہوجائے گی نا؟” آس سے سوال کیا گیا تھا۔
“اسے کسی چیز یا بات کا گہرہ صدمہ لگا ہے معتصیم۔۔۔ جس نے اس کے بولنے کی حس کو برے سے متاثر کیا ہے۔۔۔۔۔ اور مجھے شک ہے کے۔۔۔”
“کے؟” ادھوری بات کا پورا مطلب جاننا چاہا تھا اس نے
“کے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہی بولنے سے محروم نہ ہوجائے” ڈاکٹر لے الفاظ ہتھوڑے کی مانند اس کے سر پر بجے تھے۔
“وہ۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہوجائے گی؟۔۔۔۔ میں, اب میں کیا کروں؟” معتصیم کا دل چاہا تھا اپنے بال نوچ ڈالنے کو۔
“اس کا ایک نیچرل حل ہے میرے پاس”
“کیا؟” بےتابی سے اس نے سوال کیا تھا۔
“اسے اس ماحول سے کہی دور لیجاؤں معتصیم۔۔۔۔ یہ گھٹن زدہ ماحول اسے مزید اذیت دینے کا سبب بن سکتا ہے۔۔۔۔ اسے کسی ایسی جگہ لیجاؤں جہاں سکون ہو۔۔۔۔ یہ دنیا خوبصورت کرشموں سے بھری پڑی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے کہی بھی لیجاؤ مگر یہاں سے دور جہاں اس نے اپنی زندگی کے ازیت ناک پلوں جیا ہو” ڈاکٹر کے سمجھانے پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم کہاں جارہے ہو؟” وائے۔زی کو لگا جیسے اس نے سننے میں غلطی کردی ہو۔ وہ دونوں ابھی ابھی ماورا کا پاسپورٹ اور باقی کا پیپر ورک کرکے آفس سے باہر نکلے تھے
“بتایا تو ہے کشمیر جارہا ہوں” معتصیم نے کندھے اچکائے۔
“تم آخر کرنا کیا چاہ رہے ہو معتصیم؟۔۔۔۔ پہلے اسے تکلیف دینا چاہتے تھے, اذیت سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور اب جب اس میں کامیاب ہوگئے تو اس پر یہ مہربانیاں کیسی؟ اب کونسا نیا بدلا لینا ہے اس سے؟” وائے۔زی کے سوال پر معتصیم نے غصے سے اسے گھورا تھا جس پر وائے۔زی نے مزے سے کندھے اچکا دیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ڈرائیو کیے اس کا رخ ڈیوڈ کے کلب کی جانب تھا۔۔۔۔ معتصیم آج صبح ہی ماورا کو ساتھ لیے پاکستان,آزاد کشمیر جاچکا تھا۔۔۔ بقول اس کے ماورا کی ذہنی کنڈیشن کے لیے اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی۔
کلب میں داخل ہوتے ہی ڈیوڈ کا ایک خاص آدمی اس سب سے چھپاتا ایک پرائیویٹ روم سے ہوتا پچھلی جانب لے آیا تھا جہاں ڈیوڈ دونوں بازو پینٹ کی جیبوں میں ڈالے اس کے انتظار میں تھا۔۔۔۔۔ لبوں پر پراسرار سی مسکراہٹ سجائے اس نے وائے۔زی کو دیکھ سر خم کیے ویلکم کیا تھا۔
“اگر یہی بلانا تھا تو اتنا تردد کرنے کی وجہ؟۔۔۔۔ویسے ہی بتادیتے آجاتا میں” وائے۔زی کا اشارہ خفیہ طریقے سے اسے یہاں لانے کی جانب تھا۔
“ضرورت تھی وائے۔زی ہمارے اور بھی بہت سے دشمن ہے جو کب سے گھات لگائے بیٹھے ہیں!” اس کا اشارہ سمجھتے وائے۔زی نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“اب کام کی بات بھی کرلیجائے ڈیوڈ۔۔۔۔ کلب کے پیپرز!” وائے۔زی نے طلب کی تھی۔
“کون سے پیپرز؟” ڈیوڈ انجان بنا۔
“گارڈز!” ڈیوڈ کے بولتے ہی پانچ چھ لوگ اپنی پستول وائے۔زی پر تانے اس کے گرد گھیراؤ کیے مختلف جگہوں سے آ نکلے تھے۔
“چچچچ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے ڈیوڈ کے تمہارا یہ بھوندا پلان مجھے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے؟” وائے۔زی کی بات پر ڈیوڈ کا قہقہ گونجا تھا۔
“میں جانتا ہوں وائے۔زی, بھلے عمر میں چھوٹے ہو مجھ سے مگر اس کھیل کے بڑے ماہر کھلاڑی ہو تم۔۔۔۔۔”
“کیوں نا ہم ایک ڈیل کرلے؟۔۔۔۔۔ تم یہ کلب میرے پاس رہنے دو۔۔۔ اور اس کے بدلے میں تمہیں ایک ایسا سچ بتاؤں گا جو تمہارے لیے کوہِ نور سے کم نہ ہوگا”
“ڈیوڈ کیا تم اپنے ڈرامے بند کرو گے؟۔۔۔۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ضائع کرنے کو تو جلدی کرو” وائے۔زی بیزاریت سے بولا تھا۔
“ایک بار میری بات تو سن لو وائے۔زی۔۔۔ یقین مانو جو سچ میں تمہیں بتانے جارہا ہوں۔۔۔ وہ تمہاری جڑیں تک ہلادے گا!” ڈیوڈ کی بات پر اس نے آنکھیں گھمائی تھی اور گھڑی کی جانب دیکھ اسے پانچ منٹ کا اشارہ دیے بات جاری رکھنے کو کہاں تھا۔
جھاڑیوں میں چھپی شزا نے گن لوڈ کیے اس پر سائلنسر لگا دیا تھا اور اب وہ بس موقع کی تلاش میں تھی۔
آج وائے۔زی کا چیپٹر کلوز کرکے وہ ارحام شاہ سے اپنے ماں باپ کی بےرحم موت کا بدلا لینے والی تھی۔
اس کی آنکھیں غم و غصے اور بدلے سے لال انگارہ ہوچکی تھی
“یہ سچ ارحام شاہ اور شبیر زبیری کی زندگی سے جڑا ہے۔۔” شبیر کا نام سن شزا نے فوراً ٹارگٹ لاک کیا تھا۔
“کیسا سچ؟” وائے۔زی کو ہلکا سا تجسس ہوا تھا۔
“ارحام شاہ کی بیٹی۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ بات مکمل کرتا شزا کی چلائی گئی گولی وائے۔زی کا سینا چیر چکی تھی۔
ڈیوڈ نے آنکھیں پھاڑے وائے۔زی کے خون آلود جسم کو زمین پر گرتے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...