(Last Updated On: )
اور پھر وہ چلا گیا تھا سب کو چھوڑ کے پلین لینڈ کرنے سے پہلے تک دل میں ایک بے چینی سی تھی وہ اذیت جو وہ اپنے گھر والوں کو دے کر آیا تھا وہ دکھ جو اپنی بیوی کو دے آیا تھا وہ سب اسے بے چین کیے دے رہے تھے اور پھر سفر بھی کٹ ہی گیا اور اس نے مانچسٹر کی سرزمین پہ قدم رکھا کچھ دن تک تو اسے دل نے بے چین رکھا پھر آہستہ آہستہ وہ سیٹ ہو گیا ایک اچھی کمپنی میں اسے جب مل گئی تھی وہ خوش تھا پر کبھی کبھی اپنے کام جب خود کرتا تو اسے وہ یاد آتی اور بہت شدت سے یاد آتی ایسا لگتا تھا جیسے وہ پاگل ہو جائے گا اور پھر وہ گھر سے باہر نکل جاتا وہاں اس کے کافی دوست بن گئے تھے دن ایسے ہی گزر رہے تھے کہ اس کے آفس میں ایک لڑکی آئی اس کا نام ربیکا تھا وہ بہت خوبصورت تھی اور خاصی فرینڈلی بھی جلد ہی ان دونوں کی دوستی ہو گئی اب وہ اکثر ہی ساتھ نظر آتے اس کی سنگت میں وہ مرال کو بھولتا گیا وہ بہت اسٹائیلش تھی الٹرا ماڈ فیملی سے بیلونگ کرتی تھی
جبران کو اس میں ایک چیز بے حد پسند تھی وہ تھا اس کا کونفیڈنس وہ بہت زیادہ بولڈ لڑکی تھی
آج وہ دونوں ایک پارک میں بیٹھے تھے کہ ربیکا بولی
” تم نے بتایا تھا کہ تم میرڈ ہو تو اپنی بیوی کو کیوں نہیں لائے یہاں” وہ اس کی بات پہ بدمزا ہوا
” اس کا یہاں کیا ذکر”
” ویسے ہی پوچھ رہی ہوں” اس نے کندھے اچکا کے کہا
” کیونکہ وہ تمہاری طرح نہیں ہے” جبران مسکرایا تو ربیکا نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا
” میرے جیسی مطلب؟؟؟”
” مطلب یہ کہ تم جیسی نہ وہ بولڈ ہے نہ اس میں تم جیسا کانفیڈنس ہے نا تم جیسی ڈریسنگ کرتی ہے” جبران نے اس کی ڈریس کو دیکھ کر کہا جو ریڈ ٹی شرٹ پہ بلیک پینٹ پہنے ہاتھوں میں بریسلیٹ لائیٹ براؤن سلکی بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے سرخ و سفید رنگت والا چہرے پہ میک اپ کر کے اور جازب نظر بنایا ہوا تھا
” اوہ رئیلی”
” یس” جبران مسکرایا
” لائیک کرتے ہو مجھے” اس نے مسکرا کے پوچھا
” بہت۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ہو تم”
” اوہ۔۔۔۔۔ یعنی تم مجھے اپنی گرل فرینڈ بنانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ تاکہ میرے حسن کو سراہ سکو” جبران شاکڈ تھا وہ اتنی بڑی بات کتنے آرام سے کہہ گئی تھی
اسے ایک دم مرال یاد آئی بیوی ہونے کے باوجود اس نے کبھی اپنا حق نا مانگا تھا اس نے لیکن یہ بنا کسی رشتے کے اس طرح بول رہی تھی جبران کو یک دم غصہ آگیا
” اوہ یو شٹ اپ ربیکا تم اتنی گری ہوئی بات کیسے کہہ سکتی ہو”
” واٹ اس میں گری ہوئی بات کون سی ہے جبران۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی یہ پاکستان نہیں ہے جہاں پہ ان سب چیزوں کی پابندی ہو”
” آئی نو کہ یہ پاکستان نہیں ہے بٹ انسان میں ایک شرم اور لحاظ ہوتا ہے اور خاص کر عورتوں میں”
“اوہ رئیلی؟؟؟” وہ ہنسی ” کون سے زمانے کی بات کررہے ہو جبران شرم لحاظ واٹ ایور”
” آئیندہ مجھ سے اس طرح کی بات مت کرنا ربیکا مجھے برداشت نہیں ہو گا” اس نے بات ختم کرنی چاہی
” برداشت۔۔۔۔۔ تم ہوتے کون ہو مجھے میری حدود بتانے والے میں جیسی ہوں ویسی ہی ٹھیک ہوں تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ میں جا رہی ہوں اوکے دماغ ٹھیک ہو جائے تو پھر بات کرلینا” کہہ کر وہ چلی گئی۔
——–
دن ایسے ہی بے کیف گزر رہے تھے زندگی ایسا لگتا تھا جیسے خالی سی ہوگئی ہے وہ بالکل خاموش ہو کے رہ گئی تھی نا کچھ بولتی تھی نا کہتی تھی وہ ایسے اچانک گیا تھا کہ دل کو یقین ہی نہیں آتا تھا بار بار وہ گیٹ کی طرف دیکھتی شاید وہ آجائے شام کے وقت گیٹ کی طرف بھاگتی پر کوئی نا آتا ماما بڑی ماما اسے دیکھ کے ہولتی رہتی تھیں وہ مرجھا کے رہ گئی تھی نا ٹھیک سے کھاتی تھی نا ٹھیک سے سوتی تھی
شام میں ماما بڑی ماما نے لان میں آئیں تو اسے وہاں گم سم بیٹھا دیکھا
” سب میری غلطی تھی اسمہ میں نے تمہاری بطی کی زندگی برباد کردی اصل گنہگار تو میں ہوں تمہاری معاف کردو مجھے” رافعہ ان سے غمگین لہجے میں بولیں
” نہیں بھابی کیوں شرمندہ کرتیں ہیں غلطی کسی کی بھی مہیں ہے شاید میری بچی کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا اگر جبران نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا”
” یہ تمہارا بڑا پن ہے اسمہ کہ تم نے مجھے ایک لفظ شکایت نہیں کی ورنہ بچوں کے پیچھے بہت سے رشتے ٹوٹتے دیکھیں ہیں” رافعہ بولیں تو اسمہ نے اان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا
” چھوڑیں ان سب باتوں کو بھابی اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ مرال کو واپس زندگی کی طرف لے آئیں”
” ہاں اسمہ چلو” وہ دونوں مرال کی طرف بڑھیں
——
کچھ دن پہلے
جبران نے اسے گلے لگایا سب گھر والوں کو لگا کہ مرال جیت گئی اس کی محبت جیت گئی پر۔۔۔۔۔
جبران نے اس جھٹکے سے الگ کیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا
” آ۔۔آں سویٹی یہ تو ہونا ہی تھا” مرال اسے بے یقینی سے دیکھنے لگی ” میں نہیں رک سکتا بھلے تم جتنے محبت کے واسطے دو آئی ڈونٹ کئیر پتا ہے کیوں؟؟؟ کیوں کہ آئی ہیٹ یو”
” جتنی نفرت پہلے دن سے کرتا تھا اس سے کہیں زیادہ اب کرتا ہوں تمہارے اس چہرے سے” وہ اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کے بولا
” گڈ بائے وائیفی” کہہ کر وہ گاڑی میں بیٹھس اور چلا گیا مرال کو ایک دم زور کا چکر آیا اور لڑکھڑا کے وہیں گر گئی
——
دوسرے دن صبح وہ آفس پہنچا اپنے آفس روم میں آکے وہ بیٹھا تھا اور ربیکا کا ویٹ کرنے لگا وہ روز آتی تھی حال چال پوچھنے پر آج نہ آئی پہلے تو اگنور کیا پھر کچھ سوچ کے اٹھا اور اس کے آفس روم میں پہنچا وہ بیٹھی اپنے کام میں مصروف تھی
” ہائے ربیکا” اس نے مسکرا کے کہا
” ہیلو” وہ بولی اور پھر کام میں لگ گئی
” ناراض ہو؟؟؟” جبران بولا
” نہیں ہونا چاہیے؟؟؟” اس نے الٹا اس سے سوال کیا
” یار تم نے بات ہی ایسی بولی تھی تو غصہ تو بنتا تھا نا”
” اچھا۔۔۔۔۔ کیا غلط تھا اس میں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ ہونا ایک عام سی بات ہے اس میں ہائیپر ہونے والی کیا بات تھی” وہ کھڑی ہوئی اوت چلتے ہوئے اس تک آئی
” اچھا نا یار اب چھوڑو اس بات کو آج ڈنر پہ چلو گی” اس نے آفر کی ربیکا اکسائیٹڈ ہوئی
” شیور یار کیوں نہیں ہینڈسم بوائیز تو میری کمزوری ہیں جانا تو پڑے گا” وہ مسکرائی تو اپنی تعریف پہ جبران کھل کے ہنسا وہ اپنی تعریف میں ربیکا کا ورڈ بوائیز پہ غور کرنا بھول گیا تھا
” اور یہ خوبصورت بولڈ اینڈ کانفڈنٹ سی لڑکی میری کمزوری بن گئی ہے” جبران نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کرکہا تو وہ ایک ادا سے مسکرائی
” آئی نو” تو جبران مسکرادیا۔
——
ان کی دوستی کو ایک سال ہو گیا تھا اس ایک سال میں اس نے کبھی گھر کی خبر نہ لی تھی نہ کبھی ان کے بارے میں سوچا جبران کو آج کل ربیکا کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا اسے وہ اپنے آئیڈیل پہ پورا اترتی ہوئی لگتی ہاں کچھ باتوں سے اسے اختلاف ضرور تھا اسے پر۔۔۔۔۔”جو بھی ہے اب اتنا تو وہ کمپرومائیز کر ہی سکتا ہوں میں۔۔۔۔۔ بے چاری اب اس کی عادتیں تو نہیں بدل سکتا نا میں” رات کو وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس کے بارے میں سوچنے لگا
وہ ربیکا کے بارے میں سہی سے نہیں جانتا تھا نا وہ کبھی بتاتی تھی نا جبران نے کبھی پوچھا
کہتے ہیں نا ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ربیکا بھی ان چیزوں میں سے ایک تھی جو دکھنے پہ سونا معلوم ہوتی تھی پر اندر سے وہ ایک کھوٹے سکے کے برابر بھی نہ تھی۔
تو کیا جبران کو اپنے کیے کا انعام ملنے والا تھا؟؟؟
مرال سارا دن گھر میں ایک مشین بن کے رہ گئی تھی جو کام کرتی کھاتی سوتی بس اس کے علاوہ جیسے اس کی زندگی میں کچھ تھا ہی نہیں نا کوئی مقصد تھا زندگی کا
وہ دو دن سے اپنے گھر آئی ہوئی تھی آج سنڈے تھا بابا والے بھی گھر پہ تھے وہ کچن میں کام کر رہی تھی کہ ماما چلی آئیں
” مرال بیٹا نات سنو” وہ چونکی جیسے کسی گہرے خیال میں گم ہو
” جی” وہ بولی ماما نے اسے غور سے دیکھا وہ بہت کمزور ہو گئی تھی آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے سرخ و سفید رنگت میں جیسے زردیاں سی گھل گئی تھیں
” آؤ بیٹھو یہاں” وہ اسے لے کر کرسی پہ بیٹھیں
” بیٹا کب تک ایسے رہو گی۔۔۔۔۔” انہوں نے اس کے چہرے کو دیکھا جو کبھی صرف ہنستا مسکراتا ملتا تھا اور آج جیسے ہنسنا ہی بھول گیا تھا
“کب تک اس کے جانے کا سوگ مناؤ گی بھول جاؤ سب اور ایک نئی زندگی کی شروعات کرو” اس نے ان کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا
” ہاں بیٹا اسی میں ہی عقلمندی ہے۔۔۔۔۔ کسی ایک کے چلے جانے سے زندگی نہیں رک جاتی بیٹا۔۔۔۔۔” مرال کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی
” ارے رو رہی ہو۔۔۔۔۔ تم تو میری بہادر بیٹی ہو نا پھر یہ کیوں” وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں
” میں۔۔۔۔۔ میں ماما میں کچھ۔۔ کچھ نہیں کرسکتی ماما میں تو ایک عام سی لڑکی۔۔۔۔۔” وہ رو رہی تھی
” کس نے کہا میری بیٹی کچھ نہیں کرسکتی ہاں کس نے کہا میری بیٹی عام لڑکی ہے۔۔۔۔۔ مجھ سے پوچھو میں بتاتا ہوں میری بیٹی کیا ہے” بابا کچن میں آئے وہ مرال کی بات سن چکے تھے
” میری بیٹی وہ ہے جس نے اپمے ماں باپ کو تب سنبھالا جب اس کا باپ ہارٹ پیشنٹ بن گیا تھا ماں بیمار رہنے لگی تھی تو میری بیٹی نے اپنی پڑھائی کمپلیٹ ہونے کے بعد آگے بڑھنے کے بجائے ہمیں امپورٹنس دی۔۔۔۔۔ جو آج تک ہمیں سنبھال رپی ہے جو ہمیں کبھی تکلیف دینے کا سوچ ہی نہیں سکتی جو ہم ماں باپ کا مان اور فخر ہے” وہ اسے گلے لگا کر رندھی ہوئی آواز میں بولے تو وہ اور رونے لگی
” نا میرا بچہ میرا بیٹا” انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے اور اس کے ماتھے پہ پیار کیا اور اسے گلے لگایا
” میری ایک بات مانو گی؟؟؟” بابا بولے اس نے ہاں میں سر ہلایا
” صرف ہمارے لیے پھر سے ہماری مرال بن جاؤ گی” وہ ان کی طرف دیکھنے لگی
” بابا میں مر گئی بابا” وہ بولی تو ماما بھی رونے لگی
” میرو تم میری پہلی اولاد ہو جس نے سب سے پہلے آکے ہماری زندگی کو مکمل بنایا ہمیں مکمل کیا۔۔۔۔۔ اگر تم ہی مر گئی تو ہم۔جی کر کیا کریں بیٹا ہمیں بھی تو پھر۔۔۔۔۔”
” نہیں بابا نہیں” مرال نے ان کو ایک دم روکا ” بابا آپ لوگوں کو آپ کی میرو چاہیے نا ضرور ملے گی آپ کو آپ کی میرو”
” پرامس” بابا نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے کہا ” پرامس” اور نم آنکھوں سے مسکرادی۔
——
” تم نے شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ربیکا” وہ دونوں آج لنچ پہ آئے تھے لنچ کے دوران جبران نے اس سے پوچھا
” شادی؟؟؟ ہاہاہااااہاہاہاہا” وہ ہنسنے لگی
” آر یو کریزی جبران”
” اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے جسٹ پوچھا ہے میں نے”
” تو کچھ ڈھنگ کا ہی پوچھ لیتے۔۔۔۔۔ پوچھا بھی کیا شادی کا افففففف”
” یار ایک لائیف تو ملی ہے شادی کر کے کون باؤنڈ ہونا چاہے گا”
“اس میں باؤنڈ ہونے کی کیا بات ہے اچھا اور جائز رشتہ ہے”
” اففففف جبران تم ایسی باتیں کر کے کیوں بار بار بتاتے ہو کہ تم پاکستانی ٹپیکل مرد ہو”
” بوائے فرینڈ گرل فرینڈ میں بھی تو وہی رشتہ ہوتا ہے نا جو ہزبینڈ وائف میں ہوتا ہے تو پھر شادی کر کے کیوں زندگی کو خراب کریں”
” ربیکا بوائے اینڈ گرل فرینڈ کا رشتہ ایک ناجائز رشتہ ہوتا ہے شادی شدہ لائف کی اپنی ایک خوبصورتی ہوتی ہے” وہ اسے سمجھانے لگا
” تو یہ خوبصورت لائف اپنی بیوی کے ساتھ گزارتے نا یہاں کیا کر رہے ہو” جبران اس کی بات پہ کچھ دیر تو بول ہی نا سکا پھر بولا
” وہ میرے ٹائپ کی نہیں تھی”
” تو پھر کون ہے تمہارے ٹائپ کی؟؟؟” ربیکا نے پوچھا
” تم۔۔۔۔۔” جبران فوراً بولا
” واااٹ۔۔۔۔۔ میں اور تمہارے ٹائپ کی ہونہہ نو وے”
” کیوں تم کیوں نہیں ہو؟؟؟”
” بیکاز تمہاری سوچ اور میری سوچ بہت الگ ہے”
” سوچ کو ایک جیسا بنایا بھی تو جا سکتا ہے نا”
” کچھ اور بات کرو جبران”
” میں سچ کہہ رہا ہوں ربیکا تم جیسی ہی لڑکیاں مجھے اٹریکٹ کرتی ہیں تم میں ایک بولڈنیس ایک کانفیڈینس ہے جو مجھے اچھا لگتا ہے”
” اففففف انف جبران بس کرو لنچ پہ لائے ہو تو سکون سے لنچ کرنے بھی دو” وہ چڑ گئی تو وہ خاموش ہو گیا۔
—–
“ہاں یار یہ جبران کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے آج کل” ربیکا کسی سے فون پہ بات کررہی تھی اور غصے سے جبران کے بارے میں بتا رہی تھی ابھی جبران اسے گھر ڈراپ کر کے گیا تھا کہ اس کا فون بجا آگے سے پتا نہیں کیا کہاں گیا کہ وہ بولی
” آئی نو یار میں بک ہوں بٹ۔۔۔۔۔ میں نے اسے کہا بھی کہ میں تمہاری گرل فرینڈ بن جاتی ہوں بٹ پتا نہیں اسے کیا شادی کا شوق پڑا ہے” پھر کچھ کہا گیا
” اوکے پھر ملتے ہیں رات کو تمہارے ساتھ اور کون آئے گا” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی
” ہمممم اوکے ٹھیک ہے” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اب رات کے لیے اسے تیار ہونا تھا سب کے بے حد اصرار پہ مرال نے اپنے بابا کا آفس جوائن کرلیا تھا جبران تو تھا نہیں سو اب وہ ہی آفس کی زمہ داری سنبھالنے لگی تھی اس کی لائف ایک دم سے بہت مصروف ہو گئی تھی اور اس روٹین نے اس کی شخصیت پہ بہت اچھا اثر ڈالا تھا وہ اب پروقار عورتوں میں شمار کی جانے لگی تھی اس کی ڈریسنگ اس کی گریس اتنی زبردست تھی کہ سامنے والا دیکھتے ہی مرعوب ہو جاتا وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی کمپنی کی باگ ڈور اس نے تھام لی تھی
اب وہ جبران کو اپنا ماضی سمجھ کے بھول جانا چاہتی تھی اور کافی حد تک کامیاب بھی تھی وہ اب وہ مرال نہیں رہی تھی جو کبھی اک ہاری ہوئی عورت لگتی تھی
ماما بابا نے تو خلع پر بہت زور دیا پر وہ نا مانی بھلا کوئی جانتے بوجھتے جسم سے روح کو جدا کرنے کا سوچ سکتا ہے۔۔۔۔۔ نہیں نا؟؟؟ تو پھر تو وہ اس کی روح کا مکین تھا اسے اپنے سے جدا کردیتی تو وہ خود زندہ رہتی؟؟؟
مرال آج ایک بزنس پارٹی میں آئی تھی ابتہاج اور وہاج صاحب کے ساتھ وہاں ان کی ملاقات حیدر گروپ آف انڈسٹریز کے ٹائیکون ولید یزدانی اور حیدر یزدانی سے ہوئی حیدر یزدانی ابتہاج صاحب کے بہت اچھے دوست تھے
ولید یزدانی کو مرال بے حد پسند آئی اور اس کے کچھ دن بعد ولید یزدانی نے اپنا پرپوزل اس کے گھر بھیجا
وہاج صاحب اور اسمہ نے مرال کی زندگی کے بارے میں انہیں آگاہ کردیا تھا ولید اور اس کے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا
دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے سب لوگ مرال کو خلع لینے پر فورس کررہے تھے پر مرال نہیں مان رہی تھی رات کو اسمہ اس کے پاس آئیں اور اسے سمجھانے لگیں
” بیٹا بہت اچھا رشتہ ہے تم ہمیشہ خوش رہو گی”
” میں اب بھی خوش ہوں ماما” وہ بولی ” ماما پلیز میں منع کرچکی ہوں پلیز مجھے فورس مت کریں میں یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتی”
” کس رشتے کی بات کر رہی ہو مرال سچ یہ ہے کہ جبران تمہیں چھوڑ کے جا چکا ہے اسے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ جب وہ اپنی زندگی میں خوش رہ سکتا ہے تو تم کیوں نہیں”
” بیٹا ہم ماں باپ میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ اپنی اولاد کے دکھوں کا بوجھ اٹھا سکیں ہمیں بھی حق ہے کہ ہم اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں” وہ خاموشی سے سنتی رہی پھر بولی
” یس ماما آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ لوگوں کا حق ہے۔۔۔۔۔ پر ماما اپنے دل کا کیا کروں جو مانتا ہی نہیں ہے”
” تو دل کو سمجھاؤ نا بیٹا۔۔۔۔۔ مناؤ اسے۔۔۔۔۔ ڈھائی سال بیت گئے وہ نہیں آنے والا آنا ہوتا تو کب کا آچکا ہوتا میرو”
” بیٹا سوچو اس بارے میں”
” جی ماما بٹ اس پرپوزل کو فی الحال آپ انکار کہوادیں مجھے ٹائم چاہیے”
” اوکے بیٹا” کہہ کر وہ اٹھ گئیں۔
——