مایہ ناز پاکستانی ادیب ، دانش ور ، محقق اور ماہر آثار قدیمہ لطف اللہ خان نے ترک رفا قت کی۔ایک بے خوف صدا ہمیشہ کے لیے مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی ۔وہ شعلہ ء جوالا تہہ خاک چلا گیا جس نے مسلسل آٹھ عشروں تک بزم ادب کو اپنی مسحور کن گفتگو اور تخلیقی کامرانیوں سے باغ و بہار کیے رکھا اور دلوں کو گرمائے رکھا ۔ان کی علمی ،ادبی ،تاریخی ،تہذیبی اور ثقافتی خدمات تاریخ کے اوراق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔3۔مارچ 2012کی صبح اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھا اس میں لطف اللہ خان کا نام بھی رقم تھا ۔علم و ادب ،فنون لطیفہ اور تاریخ کا وہ نیر تاباں جو25 ۔نومبر 1916کو مدراس (چنائے )کے افق سے طلوع ہوا ،علمی دنیا کو اپنی چکا چوند سے منور کرنے کے بعد 3۔مارچ 2012کو کراچی میں غروب ہو گیا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ان کے غم میں بزم ادب سوگوار ہے اور ہر علم دوست کی آنکھ اشک بار ہے ۔لطف اللہ خان کی زندگی جہد مسلسل کی عملی صورت تھی ۔قیام پاکستان کے بعد وہ 17۔اکتوبر 1947کو کراچی پہنچے اور یہیں مستقل طور پر رہائش اختیار کر لی ۔ان کی وفات سے فروغ علم و ادب اور تاریخ کے تحفظ کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک دبستان علم و ادب تھے۔آثار قدیمہ ،تحقیق تنقید اور علم بشریات پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔ان کے بعد وفا کے سب ہنگامے ختم ہو گئے اور تاریخ کے نادر و نایاب واقعات کی روداد سنانے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔وہ تاریخ کے مسلسل عمل کے چشم دید گواہ اور معتبر ترین راوی تھے ۔اللہ کریم انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ۔اور جنت الفردو س میں ان کے درجات بلند کرے ۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہا ںسے تمھارا جواب لائے گا
لطف اللہ خان کے والد سائوتھ انڈین ریلوے میں ملازم تھے ۔انھوں نے اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کے لیے اسے مدراس کے ایک معیاری تعلیم ادارے میں بھیجا۔ بر صغیر کے عوام کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ جب 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ظالم و سفاک ،موذی و مکار غاصب برطانوی تاجر مکر کی چالوں سے تاجور بن بیٹھے تو یہا ںکے عوام کے چام کے دام چلائے گئے ۔عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں تھے ۔یہاں ایسا نظام تعلیم وضع کیا گیا جس کے تحت شاہین بچوں کو خا ک بازی کا سبق ملتا اور اہل مدرسہ ان ہو نہار بچوں کا گلا گھونٹ کر انھیں حریت فکر و عمل سے بے بہرہ کرنے میں کوئی تامل نہ کرتے ۔لطف اللہ خان کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا میٹرک کے امتحان میں جب دو بار مسلسل انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ دل برداشتہ ہو گئے ۔وہ تعلیم کو خیر باد کہہ کر آرٹ اور فنون لطیفہ کی طرف مائل ہوئے ۔اور اپنی دنیا آپ پیدا کر کے دنیا میں نام پید ا کرنے کی ٹھان لی ۔وہ جانتے تھے کہ زندگی جوئے شیرو تیشہ و سنگ گراں کا نام ہے ۔بچپن ہی سے انھیں کھیل کود سے دلچسپی تھی ۔کھیلوں میں وہ باکسنگ کے دلدادہ تھے ۔انھوں نے باکسنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور کئی مرتبہ اپنے مخالف کھلاڑی کو نا ک آئوٹ کیا۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہ عمر بھر عزم و ہمت کی چٹان بن کر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور سبک نکتہ چینیوں سے بے نیاز رہتے ہوئے اس صاحب کمال نے ہمیشہ بے کمالی کے نمونوں کو مسلسل ناک آئوٹ کر کے ثابت کر دیا کہ روشنیوں کی راہ میں دیوار بننے والے ہر حال میں ہزیمت اٹھاتے ہیں اور لطف اللہ خان جیسے اولوالعزمان دانش مند ستاروں پہ کمند ڈال کر جریدہ ء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیتے ہیں ۔
اپنی ابتدائی زندگی میں لطف اللہ خان نے فنون لطیفہ ،مصوری ،فوٹو گرافی ،موسیقی اور اداکاری میں گہری دلچسپی لی ۔موسیقی سے ان کا جو قلبی لگائو تھا اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب وہ کم عمر طالب علم تھے وہ تعلیمی اداروں میں منعقد ہونے والی ایسے مقابلوں میں بھر پور حصہ لیتے جہاں غزلیں ترنم کے ساتھ پڑھی جاتی تھیں ۔اس نوعیت کے مقابلوں میں انھیں 1939سے 1945 تک کے عرصے میں متعدد انعامات ملے۔یہ دلچسپی عمر بھر بر قراررہی ۔فنون لطیفہ سے ان کی دلچسپی ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی ۔فلمی دنیا سے بھی ان کی دلچسپی روز افزوں تھی ۔وہ فلمی اشتہارات ،اداکاروں اور نامور فن کاروں کی تصاویر اور ان کے کردار پر نظر رکھتے اور ان کا تجزیاتی مطالعہ کرنے میں اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ۔ان کے خیالات سن کر اس عہد کے ممتاز اور کہنہ مشق تجزیہ کار حیرت زدہ رہ جاتے اور انھیں داد دیتے تھے ۔اپنے ذوق مو سیقی کی تسکین کے لیے لطف اللہ خان نے اس عہد کے ایک ماہر مو سیقار کی شاگردی اختیار کی ۔ جس نے استاد عبدالکریم خان سے اکتساب فیض کیا تھا ۔لطف اللہ خان نے راگ درباری میں اپنی مہارت سے استاد کو حیرت زدہ کر دیا ۔ان کا استاد ان کی خداداد صلاحیتوں کا معترف تھا ۔اس نے اس ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کر اس کی صحیح سمت میں رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔لطف اللہ خان اپنے دبنگ لہجے اور الفاظ کی ترنگ سے سامعین کو مسحور کر دیتے تھے ۔ان کے استاد نے ان کی اس خداداد صلاحیت کا احساس کرتے ہوئے انھیں نشریاتی اداروں میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا مشورہ دیا۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ لطف اللہ خان کو خود بھی یہ احساس تھا کہ وہ صداکاری ،اداکاری اور گلو کاری میں اپنے جوہر دکھا سکتے ہیں ۔وہ اپنے استاد کے ہمراہ آل انڈیا ریڈیو مدراس پہنچے جہاں ان کی آواز کا ٹیسٹ ہوا۔ریڈیو کے ماہرین نے متفقہ طور پر اس نوجوان کو اپنے ہاں کام کرنے کے لیے منتخب کر لیا ۔یہ 1933کا واقعہ ہے جب انھیں آل انڈیا ریڈیو میں پیش کار (Presenter)کی حیثیت سے کنٹریکٹ پر کام ملا ۔اس ملازمت کو لطف اللہ خان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کے بعد انھوں نے جو تاریخی کامرانیاں اور علمی و ادبی فتوحات حاصل کیں ان کی بدولت ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔1935میں لطف اللہ خان نے آل انڈیا ریڈیو مدراس سے ’’مدراس میں موسیقی ‘‘کے مو ضوع پر دو گھنٹے دورانیے کا ایک پروگرام پیش کیا ۔اس پروگرام میں لطف اللہ خان نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر اس انداز سے دکھائے کہ ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی ۔اس پروگرام کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ لطف اللہ خان نے خود کرناٹک کی موسیقی پیش کی اور سامعین کے دل جیت لیے ۔یہیں سے ان کی صداکاری اور گلو کاری کے جوہر کھلنے لگے اور ان کے پیش کردہ پروگراموں کو بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی ۔انھوں نے جو کارہائے نمایا ں انجام دئیے اور جو کامرانیاں حاصل کیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے :
کون ستارے چھو سکتا ہے
راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے
شبنم رومانی کے ساتھ لطف اللہ خان کے قریبی تعلقات تھے ۔وہ شبنم رومانی کی شاعری کے شاہ کار’’مثنوی شہر کراچی ‘‘کو بہت پسند کرتے تھے ۔اس زمانے کے کراچی شہر کے بارے میں شبنم رومانی نے جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر قاری چشم تصور سے ایام گزشتہ کی تصویر دیکھ لیتا ہے ۔لطف اللہ خان اپنے احباب کو اس زمانے کی یاد داشتوںکے حوالے سے بتایا کرتے تھے کہ اب تو زمانے کے انداز
یکسر بدل گئے ہیں ۔جب انھوں نے پہلی مرتبہ 17۔اکتوبر 1947کی صبح ساڑھے گیارہ بجے اس شہر میں قدم رکھا تو مسرت اور اطمینان کا عجیب احساس ہوا ۔دل میں ایک لہر سی اٹھی جیسے طلوع صبح بہاراں کے بعد اس شہر کی ہوا ان کے مشام جاں کی تطہیر و تنویر میںمصروف ہے ۔اس شہر میں چلنے سے دامن دل معطر ہو گیا ۔اس زمانے کے کراچی شہر کے بارے میں وہ بتاتے تھے کہ شہر کیا تھا محض کیماڑی سے لے کر پلازہ ہو ٹل صدر تک آبادی تھی پور اشہر ان دو کناروں کے اندر سمٹا ہوا تھا ۔اب تو کراچی کے چاروں طرف بھی کراچی ہی ہے ۔یہ شہر اب اس قدر پھیل گیا ہے کہ کہ اس کی پرانی کیفیات اب خیال و خواب محسوس ہو تی ہیں ۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ آبادی میں بے ہنگم اضافے اور شہر کے بے تحاشا پھیلائو کے باعث یہاں کے مکیں لا ینحل مسائل میں گھر گئے ہیں ۔مسائل و مشکلات اور مصائب و آلام کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہے جس سے گلو خلاصی کی کوئی صور ت نظر نہیں آتی ۔اس زمانے میں شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے لیے صرف اونٹ گاڑیوں پر انحصار کرناپڑتا تھا یہ درست ہے کہ اب اونٹ گاڑیوں کی جگہ بڑی تعداد میں کاریں دکھائی دیتی ہیں لیکن زندگی کی سادگی اورفطری حسن اب عنقا ہے ۔ان کی یہ بات درست ہے کہ زندگی کی برق رفتاریوں میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو ہم نے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔
جھنگ کے ممتاز ادیب محمد شیر افضل جعفری کے ساتھ لطف اللہ خان کی دیرینہ رفاقت رہی ۔سید جعفر طاہر جو ریڈیو پاکستان راول پنڈی سے ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام ‘‘پیش کرتے تھے وہ بھی لطف اللہ خان کے بہت بڑے مداح تھے ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ریڈیو نشریات کے بنیاد گزاروں میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس اور سید ذوالفقار علی بخاری کے نام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔پوری دنیا میں ان نابغہ ء روزگار ادیبوں کا نام بڑی عز ت و احترام سے لیا جاتا ہے ۔بر صغیر میں نشریات کے شعبہ میں ان کی خدمات کا عدم اعتراف نہ صرف نا شکری بلکہ تاریخی صداقتوں کی تکذیب کے مترادف ہو گا ۔بر صغیر میں روایتی انداز کی براڈ کاسٹنگ کا آغاز 1857کی ناکام جنگ آزادی کے کافی بعد ہوا ۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر فیلڈن اس کے بنیاد گزار تھے ۔اس کام میں مسٹر فیلڈن کو پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس اور سید ذولفقار علی بخاری کی معاونت حاصل تھی ۔اس طرح بر صغیر میں روایتی براڈ کاسٹنگ کی ایک مضبوط و مستحکم روایت قائم ہو گئی ۔لطف اللہ خان نے ریڈیو نشریات کی اس درخشاں روایت کو پروان چڑھانے میں اہم خدمات انجام دیں ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے اس وقت پاکستان میں ریڈیو پاکستان کی لائبریری کا سنٹرل پروڈکشن آرکائیو سرکاری شعبے میں بہت اہم اور وقیع ترین سرمایہ ہے ۔آج سے نصف صدی قبل وجود میں آنے والی اس عظیم لائبریری میں قدیم تاریخ کے جو خزانے موجود ہیں اسے پوری دنیا میں معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے میں تمام وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے ۔
سید جعفر طاہر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ لطف اللہ خان کثیر الاحباب شخص تھے ۔ریڈیو پاکستان میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے افسران سے ان کے قریبی تعلقات عمر بھر بر قرار رہے ۔اس معتبر ربط کے ذریعے وہ اپنے ذوق اور مشغلے کی تسکین اور تکمیل کی صورت تلاش کر لیتے تھے ۔ان کے ذاتی آواز خزانے میں موجود بیش تر اہم آوازیں اسی ماخذ کی مرہون منت ہیں۔لطف اللہ خان نے ذاتی کاوشوں اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے جو کارہائے نمایا ں انجام دئیے ان کا موازنہ سرکاری اداروں کے لا محدود وسائل سے تیار ہونے والے آرکائیو سے کرنا غیر حقیقت پسندانہ سوچ کے مترادف ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ بعض ایسی نادر و نا یاب آوازیں بھی ہوں جو سوائے لطف اللہ خان کے خزانے کے کہیں اور دستیاب نہ ہوں ۔ نجی سطح پر یہ اتنا بڑا کام ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں ۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
آوازیں محفوظ کرنے کا سلسلہ لطف اللہ خان نے 1936میں شروع کیا جب انھوں نے پہلی مرتبہ اپنی والدہ محترمہ کی آواز محفوظ کی ۔ان کی میوزیم گیلری میں نادر و نا یاب اشیا کی موجودگی جہاں ان کے ذوق سلیم کی مظہر ہے وہاں ان کی محنت لگن اور انتھک جد وجہد کا انداز ہ بھی اس سے لگایا جا سکتا ہے ۔ان کی میوزیم گیلری میں انواع و اقسام کی اشیا موجود ہیں ان میںقدیم تصاویر ،فوٹو گرافی کا سامان ،ملکی اور غیر ملکی سکے ، سٹیشنری کا سامان ،آواز ریکارڈ کرنے کا سامان ،ڈرائنگ کاسامان ،استاد بڑے غلام علی خان کی موسیقی کے البم اور قدیم فلمیں ۔جہاں تک کتب کا تعلق ہے ان کے اس عجائب گھر میں متعدد اہم اور نا یاب کتب بھی محفوظ ہیں۔ان میں مذہب ،فنون لطیفہ ،آرٹ ،کلچر اور سماج کے موضوعات پر ایک وقیع ذخیرہ موجود ہے ۔لطف اللہ خان کی شخصیت اور فن پر جو تحقیقی کام ہوا ہے وہ بھی اس ذخیرے میں یک جا کر دیا گیا ہے ۔کوئی دس برس قبل لطف اللہ خان کے اسلوب ،فن اور شخصیت پر قریب قریب دو سو مقالا ت شائع ہو چکے تھے ۔ان میں سے 185مقالات اس ذخیرے میں دستیا ب ہیں ۔
لطف اللہ خان نے تخلیق ادب پر بھی توجہ دی ۔اردو نثر میں ان کا اسلوب سادگی اور سلاست کی شاندار مثال ہے ۔ان کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
تماشائے اہل قلم ،سر کی تلاش ،ہجرتوں کے سلسلے ،زندگی کا سفر
لطف اللہ خان نے اپنے ذخیرے میں جس مہارت اور ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے تاریخ کو محفوظ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔انھوں نے مذہب ، بر صغیر کی مو سیقی ،اردو ادب ،اہم شخصیات کی تقاریر،تعلیمی اہمیت کے حامل موضوعات،آرٹ اور فنون لطیفہ اور نادر مخطوطات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔اس ذخیرے میں موسیقی کا ایک گراں قدر انتخاب موجود ہے ۔اس ذخیرے میں قدیم آلات مو سیقی ،قدیم گلوکاروں کی آواز،کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گائیکی کے نمونے ،غزل ،گیت لوک موسیقی ،دھمال ،علاقائی گیت اور قوالی شامل ہیں ۔جن ممتا ز شخصیات کی تقاریر اس ذخیرے میںموجود ہیں ان میں قائد اعظم محمد علی جناح ،لیاقت علی خان ،سردار عبدالرب نشتر ،ایوب خان ،ذوالفقار علی بھٹو ،حکیم محمد سعیداور مولانا ابوالکلام آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔مجموعی طور پر ان کے آواز خزانے میں پانچ ہزار آوازیں محفوظ ہیں ۔اگر ان کو سننا مقصود ہو تو تو پیہم ساڑھے تین سال تک یہ سلسلہ جاری رکھا جائے تب بھی یہ ختم نہیں ہو سکتا ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ذخیر ہ کس قدر ضخیم اور عظیم ہے ۔
اپنی عملی زندگی میں لطف اللہ خان نے بے پناہ محبتیں سمیٹیں۔دنیا بھر میں ان کے مداح کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔نامور علمی اور ادبی شخصیات کے ساتھ ان کے نہایت قریبی مراسم تھے ۔ان کے حلقہ ء احباب میں مشفق خواجہ ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،سید جعفر طاہر ،محمد شیر افضل جعفری ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ،ڈاکٹر محمد ریاض اور مجید امجد شامل تھے ۔پاکستان میں تحقیق اور تنقید پر بالعموم توجہ نہیں دی جاتی ۔لطف اللہ خان کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ نو جوان نسل کو تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی ترسیل وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔اگر نوجوا ن نسل کو اس ورثے کی منتقلی میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی تو ان کے بھٹک جانے کا خطرہ ہے۔لطف اللہ خان کی زندگی شمع کے مانند گزری ان کے اعمال و افعال ایک کھلے ہوئے امکان کی صور ت میں فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلا ص سے بھر پور رویہ اپناتے ۔وہ مصلحت وقت کے بالکل قائل نہ تھے ۔جو بات کہتے وہ بر ملا کہتے تذبذب اور گو مگو کی کیفیت ان کے مزاج میں ہر گز نہ تھی ۔ایسے ابن الوقت لوگ جو در کسریٰ پر صدا کر کے ان بوسیدہ کھنڈرات میں گدا گری کی عادت میںمبتلا ہیں وہ انھیں سخت نا پسند تھے ۔سلطانیء جمہور کے وہ زبردست حامی تھے ۔اس بے حس معاشرے میں جو فروش گندم نما اور موقع پرست عناصر نے اندھیر مچا رکھا ہے ۔لطف اللہ خان نے ہمیشہ عظمت کردار پر زور دیا ۔وہ تخلیقی فعالیت کو تہذیبی ،ثقافتی اور تمدنی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے بروئے کار لانے کے سد آرزو مند رہے ۔
لطف اللہ خان نے اپنی تمام عمر تاریخی اور تہذیبی تحفظ کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔وہ ایک روشن خیال ادیب اور حریت فکر کے مجا ہد تھے۔ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی
جانب سے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ۔وہ اگرچہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے مگر ان کے مداح ان کی تاریخی ،سماجی ،علمی اور ادبی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے
۔سماج اور تاریخ کے ساتھ انھیں گہری دلچسپی تھی ان کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے ۔وہ ہمیشہ قومی دردمندی اور خلوص کے مدار میں سر گرم سفر رہنے پر اصرار کرتے ۔ان کی عظیم الشان آرکائیو کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل سے غفلت برتنا حد درجہ مہلک روش ہے ۔یہ تاریخ ہی ہے جو افراد معاشرہ کو مستقبل کی پیش بینی کی راہ دکھاتی ہے ۔تاریخ کی مدد سے ایام گز شتہ کی کتاب کے اوراق کا مطالعہ ممکن ہے ۔جو اقوام تاریخ کے سبق کو فراموش کر دیتی ہیں ان کا جغرافیہ انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے ۔لطف اللہ خان کو قدرت کاملہ کی جانب سے جو فقیدالمثال تاریخی شعور عطا کیا گیا تھا اس کے اعجاز سے وہ حالات و واقعات پر پڑنے والی ابلق ایام کے سموں کی گرد صاف کرتے چلے جاتے ہیں ۔ان کی خواہش تھی کہ ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہتے ہوئے اور وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے قومی تعمیر و ترقی کی جانب اپنا سفر جاری رکھا جائے ۔وہ تاریخ انسانی کو اس عالم آب و گل کی سب سے عظیم قدر سے تعبیر کرتے تھے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ بہت اہم خیال کرتے تھے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کو درندگی کا نام دیتے تھے انسانیت پر کوہ ستم توڑنے والوں کو وہ سماج اور معاشرے کا دشمن قرار دیتے تھے ان درندوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ مشق ستم کے باعث زندگی کی رعنائیاں گہنا جاتی ہیں گھر ویران ہو جاتے ہیں اور جہاں پہلے سر و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں زقوم اور حنظل سر اٹھانے لگتے ہیں ۔ لطف اللہ خان نے ہمیشہ اخلاقی ،انسانی ،تہذیبی اور ثقافتی اقدار کی ترویج و اشاعت پر زور دیا ۔ان اقدار عالیہ کا وجود معاشرتی زندگی میں امن اور اطمینان کا وسیلہ ہے ۔ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے ۔انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں جا کر دم لیتا ہے ۔موت اک ماندگی کا وقفہ ہے ۔انسان تھوڑا سا دم لے کر آگے چلتا ہے ۔لطف اللہ خان اب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی یادیں تا ابد دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کرتی رہیں گی۔فضائوں میں ہر طرف ان کی یادیں بکھری ہوئی ہیں ہم جس سمت بھی نگاہ دوڑاتے ہیں ان کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے کہ ابھی نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی ۔پر عزم انداز میں سر گرم سفر رہو کیوں کہ ابھی منزل بہت دور ہے ۔وہ سراپا محبت اور خلوص تھے ۔ایسے عظیم لوگ کبھی مر نہیں سکتے ۔شہرت عام اور بقائے دوام ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔
روشن کسی اور افق پر ہو گا
سورج کبھی ڈوبتا نہیں ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...