اپناآخری سینٹ بھی خرچ کر کے مروں گی
لیوژرن ایک چھوٹا سا پُر فضا شہر ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ شہر سر سبز و شاداب اور رنگا رنگ پھولوں سے مزینہے۔ یورپ کی روایت کے مطابق پرانے مگر خوبصورت مکانوں کی کھڑکیوں کی کارنسوں پر ان دنوں رنگارنگ پھولوں کی بہار سی آئی ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں سڑکوں کے کناروں پر، گھروں کے سامنے ، دکانوں اور ریستورانوں کے آگے غرضیکہ ہر طرف پُھول ہی پھول مسکرا رہے تھے۔
ہم اپنے ہوٹل کی بجائے شہر کے وسط میں واقع ایک خوبصورت جھیل کے کنارے پر جا کر رُکے۔ اس جھیل کی سیر کرانے کے لئے ایک بڑی سی فیری ہمارے لئے پہلے سے بُک تھی۔ فشر اور مولی ہمیں فیری پر بٹھا کر بس لے کر ہوٹل چلے گئے۔ انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آکر ہمیں ہوٹل لے جانا تھا۔ سیاح فیری پر سوار ہو گئے۔ فیری اس خوبصورت شہر کے بیچوں بیچ نیلے شفاف پانی پر تیرنے لگی۔ وہ نہایت ہی دلفریب منظر تھا ۔ اس وقت علامہ اقبالؔ کے یہ دوشعر اس خوبصورت منظر کے حسبِ حال تھے۔
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ ،دریا نرم سیر
تھی نظر حیران کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب!
جیسے گہوارے ہر سو جاتا ہو طفلِ شیر خوار
موجِ منظر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب
جھیل کے ایک سمت سر سبز و شاداب پہاڑی اور دوسری جانب ایکطویل پارک تھا۔ جو جھیل کے ساتھ ساتھ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ پارک میں سبز گھاس کے ساتھ ساتھ پھولوں کے قطعات نظروں کو فرحت اور دل و دماغ کو تازگی بخش رہے تھے۔ پارک کے پیچھے تھوڑے تھوڑے فاصلے پرسرخ ٹائلوں والے دلکش مکانات بنے ہوئے تھے۔ پارک میں استادہ بنچوں پر اکا دکا لوگ بیٹھے جھیل ، اس میں چلنے والی کشتیاں اور دوسری جانب کی پہاڑی کا نظارہ کر رہے تھے ۔کہیں کہیں رنگ برنگے ملبوسات میں خوبصورت بچے پارک میں کھیلتے نظر آرہے تھے۔
فیری والوں نے خیر سگالی کے طور پر مہمانوں میں مفت بیئر اور دوسرے مشروبات تقسیم کئے ۔ دن بھر کے پر تکان سفر کے باوجود سیاح ان دلفریب نظاروں سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ خصوصاً ایک دو بیئر پینے کے بعد ہلکی سی ترنگ میں آکر خوب چہک رہے تھے۔ فیری دو منزلہ تھی۔ نیچے کی منزل شیشے کی دیواروں میں بند تھی۔ اندر ائیر کنڈیشنر آن تھا۔ لیکن ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاح دوسری منزل یعنی چھت پر جا بیٹھے جو مکمل طور پر کھلا تھا۔ صرف کناروں پر ریلنگ لگی تھیں۔ چھت پر بھی کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ بیئر اور کولڈ ڈرنک کے علاوہ نیچے کافی مشین بھی موجود تھی۔
میں نے وہاں سے کافی لی اور چھت پر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر دھوئیں کے مرغولے اُڑانے لگا۔ جوزی دو ہی بیئر کے بعد اٹھ کر ناچنے لگی۔ جسٹن تالیاں بجا کر اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ جوزی کی دیکھا دیکھی کئی مرد اور عورتیں اٹھ کر فیری کی چھت پر تھرکنے لگے۔ یہ سچ ہے کہماحول کی خوبصورتی انسان کے دل و دماغ پرنہایت خوشگوار ا ثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسا ہی ماحول خوبصورت شعروں اور دلفریب دُھنوں کوتخلیق کرنے کا باعث بنتا ہے۔لیوزرن کی یہ خوبصورت جھیل، اُجلی اور نکھری نکھری نرم رو پہلی دھوپ ، ہلکی سی خنک ہوا اور اردگر کے ہوش ربا نظارے اچھے بھلے سنجیدہ دانشور کو بھی ترنگ میں لانے کے لئے کافی تھے۔ جبکہ یہاں تو پہلے ہی سب جولی موڈ میں تھے۔
میرے ساتھ نیوزی لینڈ سے آنے والی ادھیڑ عُمر عورت مارگریٹ بیٹھی تھی۔ جس نے سرخ بلا وٗز اور ٹائٹ جینز پہنی ہوئی تھی۔ مارگریٹ سے ہیلو ہائے کے علاوہ میری زیادہ بات نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عام طور پرچند مخصوص بڈھے اور بڈھیوں کے ساتھ ہی نظر آتی تھی اورشام ہوتے ہی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی جاتی تھی۔ اس دن فیری پر اس کے ہاتھ میں بھی کوک ملی اسکاچ کا کین تھا۔ وہ ان بوڑھے بوڑھیوں کے بیچ سے اٹھی اور سیدھی میرے بنچ پر آ بیٹھی’’ طارق! تمھارے پاس ایک فالتو سگریٹ ہو گی‘‘
میں نے سگریٹ نکال کر اُسے دی توکہنے لگی ’’میں تمھیں بتائوں۔ میں کبھی کبھار ہی سگریٹ پیتی ہوں۔ یہ شاید دو ہفتے کے بعد پہلا سگریٹ ہے‘‘
میں نے کہا’’ اچھی بات ہے۔ تمھیں زیادہ سگریٹ پینے کی عادت نہیں ہے۔ لیکن مجھے یہ بتائو کہ سگریٹ کی طلب تمھیں کب محسو س ہوتی ہے۔ جب اداس ہو یا جب خوش ہو؟ ‘‘
’’جب خوش ہوںجیسے آج! جب اُداس ہوتی ہوں تو زیادہ پیتی ہوں ،زیادہ کھاتی ہوں اور زیادہ سوتی ہوں‘‘
’’ آج اتنی خوش کیوں ہو؟ ‘‘
’’اس لئے کے سب خوش ہیں۔ یہ اتنی خوبصورت جگہ ہے کہ یہاں تو ناچنے گانے کودِل چاہتا ہے۔ تمھیں یہ جگہ کیسی لگی؟ ‘‘مارگریٹ کے چہرے سے مسرت عیاں تھی۔
’’اچھی ! بہت اچھی ! آپ پہلے یہاں آئی ہیں؟‘‘
’’ نہیں! یہاں پہلی دفعہ آئی ہوں۔ تا ہم پہلے کئی دفعہ یورپ آچکی ہوں ۔بلکہ میں تو تمھارے ملک پاکستان بھی کئی مرتبہ گئی ہوں‘‘ مارگریٹ نے بتایا
’’اچھا! گھومنے پھرنے یا کام کی وجہ سے؟ ‘‘
نہ گھومنے پھرنے اور نہ ہی کام کی وجہ سے، بلکہ کرکٹ دیکھنے ! ‘‘
’’کرکٹ دیکھنے؟ ‘‘ میں نے حیرانگی سے کہا
’’ہاں کرکٹ دیکھنے! میں کرکٹ کی بہت بڑی فین ہوں۔ خصوصاً نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی تو عاشق ہوں۔ اس لئے جہاں جہاں ہماری ٹیم کرکٹ کھیلنے جاتی ہے میں بھی وہیں جاتی ہوں ۔ جتنا عرصہ کرکٹ ٹیم وہاں رہتی ہے اتنا عرصہ میں بھی وہیں گزارتی ہوں‘‘
میں نے دلچسپی سے مارگریٹ کی طرف دیکھا ’’کیا واقعی ! اس طرح تو تمھارا تقریباً آدھا سال نیوزی لینڈ کے باہر ہی گزرتا ہوگا‘‘
’’ آدھا سال تو نہیں تا ہم دوتین مہینے باہر ہی گزارتی ہوں ۔اس سلسلے میں پاکستان، ہندوستان، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، برطانیہ، ساوٗتھ افریقہ اور شارجہ میں کافی وقت گزار چکی ہوں‘‘
’’ تم نے تو ریکارڈ قائم کردیا مارگریٹ ! لیکن تمھارا ذریعہ روزگار کیا ہے؟ چھ چھ ماہ فارغ رہتے ہوئے سفر کے اتنے زیادہ اخراجات کہاں سے پورے کرتی ہو‘‘ میں مارگریٹ سے متاثر ہو کر حیرانگی سے پوچھ رہا تھا۔
’’چھ ماہ نہیں ! میں پورا سال ہی فارغ رہتی ہوں یعنی میں کام نہیں کرتی،سوائے اس سیر سپاٹے کے ۔جہاں تک ذریعہ روزگار کا تعلق ہے میرا خاوند میرے لئے اتنا کچھ چھوڑ کر مرا ہے کہ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘
’’ اچھا! تمھار خاوند بہت پیسے والا تھا۔ ویسے وہ کب اس دنیا سے رخصت ہوا تھا؟ ‘‘
’’دس سال پہلے ! جہاں تک پیسے کا تعلق ہے اس نے میرے رہائشی مکان کے علاوہ سرمایہ کاری پر مبنی دو مکان اور کافی نقد رقم چھوڑی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی حادثاتی موت کے بیمے کے طور پر بھی مجھے ایک ملین ڈالر ملا ہے؟‘‘
’’ اس کی موت کیسے ہوئی تھی؟‘‘ میں نے اپنی جرح جاری رکھی
’’کار ایکسیڈنٹ میں ! ایک ٹرک نے کار کو اس بری طرح ٹکر ماری کہ میرا خاوند جائے حادثہ پر ہی فوت ہوگیا‘‘
’’اوہ! افسوس ہوا یہ سن کر ! مارگریٹ تم نے دوسری شادی نہیں کی‘‘
’’نہیں شادی تو نہیں کی لیکن میرا بوائے فرینڈ ہے۔ تاہم ہم اکھٹے نہیں رہتے ۔ ہفتے میں ایک آدھ بار مل لیتے ہیں‘‘
’’لگتا ہے تمھیں کرکٹ کا بہت شوق ہے؟ ‘‘ میں نے واپس کرکٹ کی طرف آتے ہوئے کہا
’’ہاں! کرکٹ کی تو میں دیوانی ہوں۔ اسی بہانے ان ممالک کی سیر بھی ہو جاتی ہے۔ ویسے مجھے لاہور بہت پسند ہے‘‘
’’ کوئی خاص بات لاہور کی جو تمھیں پسند آئی ہو‘‘
’’ رونق بہت ہے وہاں۔ وہاں بازار میں چلے جائیں تو ہر طرف کھانے پینے کی اتنی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کی خوشبوئیں ہر طرف بکھری ہوتی ہیں۔ مٹھائیاں آپ کے سامنے بن رہی ہوتی ہیں۔ مشروبات تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب میرے لئے انتہائی دلچسپی کی چیزیں ہیں۔ کیونکہ نیوزی لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا ۔ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز گاہکوں کے سامنے تیار نہیں ہوتی ۔بلکہ اندر سے تیار ہو کر باہر لائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے لوگ بھی بہت مخلص ، بھولے بھالے اور مہمان نواز ہیں‘‘
’’ شکریہ مارگریٹ! لاہور کے علاوہ تم نے پاکستان کے کون کون سے شہر دیکھے ہیں؟‘‘
’ کراچی، ملتان ، راولپنڈی ، فیصل آباد ، حیدرآباد ، پشاور اور اسلام آباد میں بھی میںنے کافی وقت گزارا ہے۔ ملتان میں بھی ہم سیاحوں کی دلچسپی کی کافی چیزیں ہیں۔جس میں مٹھائیاں، چوڑیاں ، زیورات نوادرات ، ہاتھوں سے کڑھائی کئے ہوئے خوبصورت ملبوسات اور دیدہ زیب ظروف شامل ہیں۔ پشاور ، حیدر آباد ، کراچی اور راولپنڈی بھی مختلف دلچسپیوں کے حامل شہر ہیں۔ میں جب بھی وہاں گئی خوب لطف اندوز ہوئی اور پھر جانے کو دل چاہا‘‘
پاکستانیوں کی کوئی خاص بات جو تمھیں پسند آئی ہو؟‘‘ میں نے اپنا انٹرویو جاری رکھا
’’ مہمان نوازی! پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور کوچ وغیرہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس لیے کئی غیر سرکاری دعوتوں میں مجھے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کھلاڑیوں کی بلکہ ہم سب کی بہت آوٗ بھگت ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ غیر حکومتی ادارے اور افراد نجی سطح پر دعوتیں کرتے ہیں اور دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ بلکہ آسٹریلیا اور یورپ میں یہ رواج بالکل نہیں ہے‘‘
مارگریٹ کی زبان سے اپنے وطن کی تعریف سن کر مجھے دلی مسرت ہو رہی تھی۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں پاکستان یا پاکستانیوں کے منفی پہلو تو یاد رہتے ہیں لیکن مثبت پہلووٗں کو اکثر فراموش کر دیتے ہیں۔ لیکن مارگریٹ نے اپنے بے لاگ تبصرے میں اسی مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ میں نے مارگریٹ کے انٹرویو کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا’’ مارگریٹ ! تم تو صرف کرکٹ ٹیم کے ساتھ ملک سے باہر جاتی ہوپھر ہمارے ساتھ اس دورے پر کیسے نظر آرہی ہو؟‘‘
’’اس لئے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کافی عرصے سے کسی دورے پر نہیں گئی اور میں گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہی تھی ۔دوسری بات یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ ، جرمنی اور ہالینڈ کو میں نے پہلے اچھی طرح نہیں دیکھا تھا۔ میں نے چاہا یہ خواہش بھی پوری کرلوں۔ اس کا اپنا مزہ ہے۔ دیکھونا! کتنا خوبصورت منظر ہے۔ کتنی حسین جگہ ہے‘‘
’’ ہاں ! واقعی یہ علاقہ قدرتی حُسن سے مالا مال ہے ۔حالانکہ پاکستان اور آسٹریلیا میں بھی بہت خوبصورت جگہیں ہیں ۔لیکن اس سے پہلے اتنا خوبصورت منظر میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ تم نے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں! نیوزی لینڈ میں بھی قدرت نے ایسی خوبصورتی اور حُسن دل کھول کر عنائت کیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں کئی جگہوں پر ایسے مناظر میں نے دیکھے ہیں۔ لیکن یہاں آپ سب لوگوں کے ساتھ اور اتنے اچھے موسم میں لیوزرن کی یہ شام یقینا میری زندگی کی ناقابلِ فراموش شام ہے‘‘ مارگریٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’’ اس سیاحتی دورے پر آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جوں جوں میری زندگی کی شام قریب آرہی ہے توں توں میں زندگی کی ہر رعنائی اور ہر حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ کوئی خواہش ، کوئی تمنا دل میں لے کر نہ مروں ۔ ویسے بھی یہ دولت میری ہے۔ میں اسے دوسروں کے لئے کیوں چھوڑ کر مروں۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی دولت کا آخری سینٹ بھی خرچ کر کے مروں‘‘
’’ مارگریٹ! تم تو خواہ مخواہ ہی مرنے کی باتیں کررہی ہوحالانکہ تمھاری عمر ایسی نہیں ہے۔ ابھی تو نصف صدی مزید جیوگی‘‘
’’ نہیں طارق! میں پینسٹھ کی ہو چکی ہوں۔ اگر دس پندرہ سال اور جی لیا توغنیمت ہے۔ ویسے میں نے دس سال کا بجٹ بنایا ہوا ہے۔ اگلے دس سال میں یہ ساری دولت اور جائیدا د اپنے اوپر خرچ کر دوں گی‘‘
’’ اگر د س سال کے بعد زندہ رہی تو پھر دولت کے بغیر کیا کروگی؟ ‘‘
’’اس وقت تک اگر میں زندہ ہوئی بھی تو بستر پر ہوں گی۔ لہذا میرے لئے بہترین جگہ نرسنگ ہوم ہو گی۔ ساری زندگی میں نے حکومت کو ٹیکس ادا کیا ہے آخر اس کے استعمال کا بھی تو مجھے حق ہے‘‘
مارگریٹ نے نہ صرف مرنے سے پہلے اپنی دولت کو خرچ کرنے کا پورا پروگرام بنایا ہوا تھا بلکہ حکومت کو ادا کیا ہوا ٹیکس بھی وصول کرنے کے چکر میں تھی۔ مارگریٹ کی سوچ خالصتاً مادی سوچ ہے۔ مارگریٹ بھی ان لوگوں میں شامل تھی جن کے لئے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ وہ اس زندگی میںہر دنیاوی نعمت کا حصول ، ہر خواہش کی تکمیل اور ہر عیاشی کر لینا چاہتے ہیں۔ آخرت ، دوسری دنیا ، قیامت، دوزخ ، جنت ، حساب کتاب ، نیکی بدی، احسان، مروت ، دوسروں کے لئے قربانی کا جذبہ، اپنی دولت میں سے ناداروں اور حاجت مندوں کا حصہ نکالنا، یہ سب کچھ ان کی ڈائریکٹری میں شامل نہیں ہے۔ والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق ، معاشرے کے حقوق، ان کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔ سوائے اس کے جو قانون کی کتاب میں لکھا ہے یعنی ٹیکس ادا کرنا اور بس! یہ ٹیکس بھی ظاہر ہے مجبوری کے عالم میں ادا کیا جاتا ہے شوق اور خوشی سے کوئی نہیں دیتا۔ لیکن اس ٹیکس سے حکومت ان ٹیکس دینے والوں کی جانب سے معاشرے کے غریبوں، ناداروں، حاجت مندوں ، معذروں، ضعیفوں اور بے روزگاروں کی مدد کر تی ہے۔ لہذا ان کے نہ چاہنے کے باوجود ان کی دولت ضروت مندوں تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ کاش اس میں ان کی خواہش اور خوشی بھی شامل ہوتی۔ سب سے بڑھ کر انسانیت کی ہمدردی اور خدا کا خوف اس کا باعث بنتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
میرا ہر شہر میں بوائے فرینڈ نہیں ہے
لیوژرن میں ہم جس ہوٹل میںٹھہرے وہ ہمارے اس دورے کا سب سے بہترین ہوٹل ثابت ہوا۔ حالانکہ بظاہر وہ ہوٹل نہیں لگتا تھا بلکہ بہت ساری خوابگاہوں پر مشتمل ایک بڑا ساگھر نظر آتا تھا۔ یہ ایک نہیں بلکہ دوچھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ ان دو گھروں کے درمیان سے سڑک گزرتی تھی۔ ایک عمارت میں متعدد کمروں کے علاوہ استقبالیہ ، لاوٗنج، ریستوران اور تفریحی ہال تھا ۔جبکہ سڑک کے دوسری طرف والی عمارت میں صرف کمرے ہی کمرے تھے ۔مجھے اسی عمارت میں کمرہ ملا۔ بظاہر سادہ سی نظر آنے والی اس عمارت کے کمرے میں داخل ہوا تو میر دل خوش ہو گیا۔ انتہائی صاف ستھرا ، روشن، ہوادار اورآرام دہکمرہ تھا۔ بستر کی چادریں، سرہانے کے غلاف اور کمبل وغیرہ اتنے صاف ستھرے تھے کہ لگتا تھا کہ ابھی فیکٹری سے نئے نئے آئے ہیں۔ تازہ خوشبودار پھولوں کا گلدستہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا بہت خوشنما لگ رہا تھا۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کاسٹاف بھی عموماً ایک بوڑھی مگر انتہائی مہربان عورت تک محدود دکھائی دیتا تھا ۔تا ہم ناشتے اور شام کے کھانے کے وقت دلکش خدوخال اور پُر کشش جسم کی مالک ایک سوئس دوشیزہ بھی وہاں موجود ہوتی تھی۔ یہ دونوں عورتیں مہمانوں کی خدمت کر نے پر اس طرح کمر بستہ رہتی تھیں اور اتنی خوش خلق تھیں کہ ہمارے گروپ کیہر فرد نے ان کی تعریف کی ۔ اس ہوٹل میں ہمیں بالکل گھر کا سا ماحول ملا۔ ناشتے کے وقت ہم خود کچن میں جا کر اپنی مرضی کا ناشتہ بنواتے۔ بلکہ کئی تو وہیں کھڑے ہو کر ناشتہ کر لیتے۔ وہ بوڑھی عورت غالباً اس ہوٹل کی مالکہ بھی تھی۔ لیکن مہمانوں کے ساتھ اس کا سلوک ایسا تھاجیسا اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ فارغ وقت میں وہ ہمارے کمروں میں آکر گپ شپ بھی کر لیتی تھی۔ اگر طلب محسوس ہو تو چائے اور کافی بنا کر وہیں لے آتی تھی۔ شام کا کھانا ہم نے وہیں ہوٹل میں ہی کھایا جو سادہ مگر لذیذ تھا۔ میر ی فرمائش پر ہماری میزبان نے میر ے اور دوسری انڈین فیملیوں کے لئے مرچوں والا سالن بھی بنا دیا تھا۔ جو ظاہر ہے پوری طرح اطمینان بخش تو نہیں تھا لیکن پھر بھی روکھے پھیکے کھانوں سے بدرجہا بہتر تھا۔میرے لئے اس نے مسالے وغیرہ ڈال کر دو انڈے بھی فرائی کر دیئے تھے ۔جبکہ بھارتی فیملیوں نے سبزیوں پر مشتمل مرچ مسالے والی کری اور ابلے ہوئے چاولوں کوبہت رغبت سے کھایا۔
کھانے کے بعد ہم چہل قدمی کے لئے باہر نکلے تو سورج ساڑھے آٹھ بجے بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ سڑکیں انتہائی صاف ستھری اور خالی خالی دکھائی دے رہی تھیں۔ گاڑیوں سے زیادہ رنگ برنگی سائیکلیں نظر آرہی تھیں۔ سوئس لڑکے اور لڑکیاں نیکریں اور ٹی شرٹس پہنے سائیکلوں پر ادھر ادھر آجارہے تھے۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی بھی ہمارے پاس سے گزر جاتی۔ ہم دو دو چار چار کی ٹولیوں کی شکل میںفٹ پاتھ پر چلے جا رہے تھے ۔میں جسٹن ، جوزی او جولی اکھٹے تھے۔ جانجی اور مشی ہمارے آگے ایک دوسرے سے چپکے چلے جارہتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور گال ایک دوسرے سے چپکائییک جان و دو قالب نظر آتے تھے۔ ہر دو منٹ کے بعد وہ رُکتے۔ اپنا پیار ایک دوسرے پر نچھاور کرتے اور پھرآگے چلنا شروع ہو جاتے۔ ادھر جوزی پورے موڈ میں تھی۔ اس خوشگوار شام، ہلکی خنک مگر پھولوں کی خوشبو بھری ہوا، صاف سُتھرے اور خوبصورت ماحول نے جیسے اس پر وجد سا طاری کر دیا تھا۔ وہ کبھی لطیفے سناتی، کبھی کبھی خواہ مخواہ ہنستی، کبھی جسٹن سے لپٹ کر اس کے گال پر ایک دو بوسے دے دیتی ۔ ایک دو بار اس نے میرے ساتھ بھی یہی عمل دہرایا۔ جسٹن کی موجودگی میں اس کی بیوی کا بار بار مجھ سے لپٹنا مجھے خفت میں مبتلا کر دیتا۔ لیکن جسٹن کے کان پر جیسے جُوں تک نہیں رینگتی تھی۔ وہ اسی طرح دھیمی سی مسکراہٹ سے ہم سب کا ساتھ دیتا رہا۔ جولی نے مستقل میرا ایک ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ وہ غیر محسوس انداز میں جانجی اور مشی، جسٹن اور جوزی کے جوڑوں کے سامنے میرے ساتھ ایسے لگ کر چل رہی تھی جیسے ان جوڑوں کی طرح ہمارا بھی ایک جوڑا ہو۔
لیوژرن کے گھر سادہ مگر خوبصورت ہیں۔ زیادہ تر عمارتیں پرانی ہیں۔ ان دنوںہر طرف رنگ برنگے پھولوں کی بہتات تھی۔ گھر وں کے آگے، سڑک کے کنارے ، کھڑکیوں اور دروازوں کی کارنس پر اور فٹ پاتھ پر لگے گملوں میں بے شمار رنگوں کے پھول ہی پھول نظر آرہے تھے۔ یورپ میں پھولوں کی زیادتیکا ذکر میری تحریر میں بار بار آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو اتنے بہت سارے پھول میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ دوسرا یہ کہ پھول مجھے پسند بہت ہیں ۔ تیسرا یہ کہ آسٹریلیا میں سبزہ اور پودے تو بہت زیادہ ہیں لیکن پھول اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ اس لئے مجھے یورپ کے یہ پھولوں بھرے مناظر بہت جاذب نظر لگ رہے تھے۔ جس طرح پاکستان سے یورپ جانے والے سیاح وہاں کی صفائی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔اس طرح آسٹریلیا اور یورپ میں مجھے چند چیزیں مختلف اور الگ محسوس ہوئیں۔ ان میں سے ایک موسم، دوسری تاریخ اور تیسرا یہاں کے بے شمار پھول تھے ۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جن چیزوں سے آپ سے متاثر ہوتے ہیںلا محالہ انہی کا زیادہ تذکرہ کرتے ہیں۔
سوئس لڑکے لڑکیاں صحت مند سرخ و سفید رنگت والے اور بھولے بھالے سے تھے۔ ہمارے پاس سے گزرنے والے سائیکل سوار ہاتھ ہلا کر گزرتے تھے۔ بعض گاڑیوں والے بھی اس طرح ہاتھ ہلا کر اور مسکراہٹیں بکھیر کر گزرتیتھے جیسے وہ ہمارے جاننے والے ہوں ۔سوئس لڑکے لڑکیاں اتنے بھولے بھالے ہیں کہ سڑک اور خوابگاہ کا فرق بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر بھی وہی حرکتیں کرتے نظر آ رہے تھے جو صرف بند خوابگاہوں میں زیب دیتی ہیں۔ ان میں سے بعض لڑکے لڑکیاں بہت کم عمر تھے۔ لگتا تھا کہ سوئس قوم جنگ و جدل سے جتنی نفرت کرتی ہے پیار محبت اور جنس کی اتنی ہی رسیا ہے۔ نیوز ایجنسی میں سجے ہوئے اخباروں اور رسالوں پر اتنی عریاں تصاویر تھیں کہ شریف آدمی انہیں دیکھ کر نظر جھکا لے۔ رات کو ٹی وی لگایا تو کئی چینل مستقلاً بلیو فلمیں براڈکاسٹ کرتے نظر آئے۔ یہ عام ٹی وی کے چینل تھے جو ہر گھر میں دیکھے جا سکتے تھے۔ اس طرح یہ جنسی عریانی والی ننگی فلمیں گھر گھر دیکھی اور دکھائی جا رہی تھیں۔ لیکن کسی بھی ٹی وی چینل پر لڑائی اور مارکٹائی والی کوئی فلم نہیں دکھائی دی۔ بقول ہماری میزبان سوئس عورت کے’’ لڑائی والی فلمیں دیکھ کر نئی نسل کا کردار خراب ہو سکتا ہے اس لئے سوئٹزرلینڈ میں ایسی فلموں پر مکمل پابندی ہے۔ جہاں تک عریاں فلموں کا تعلق ہے وہ ایک’’ قدرتی عمل ‘‘ہے جو ہر نوجوان لڑکے لڑکی کو سیکھنا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ پیار و محبت کی دنیا میں کھو کر تشدد اور لڑائی جیسی برائیوں سے بچے رہیں گے‘‘
سوئٹزرلینڈ میں جنس کی حکومتی سطح پر ترغیب و تشہیر کی جاتی ہے۔ اس سے بقول ان کے ان کی نئی نسل کا کردار’’ پروان‘‘ چڑھتا ہے اور وہ اس مثبت قدرتی عمل کی وجہ سے تشدد اور جنگ و جدل کے جذبات کو دل دماغ میں نہیں گھسنے دیتے۔
ہماری میزبان ہمارے دو روزہ قیام کے دوران ہمارے دل و دماغ کو بھی سوئس رنگ میں رنگنا چاہتی تھی ۔ لہذا ہمارے کمروں میں عریاں رسالے، عریاں تصاویر اور ٹی وی پر عریاں فلمیں سبھی کچھ اس نے مہیا کر رکھاتھا۔مزید کسر پوری کرنے کے لئے شہر بھر کی طوائفوں، نائٹ کلبوں اور سٹرپ کلبوں کے فون نمبر ہمارے سائیڈ ٹیبل پر موجود تھے۔ آپ اپنے کمرے میں کسی سوئس حسینہ کو طلب کر سکتے تھے۔ اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو پھر فون پر ان حسیناوٗں سے جنسی باتیں کر کے دل پشاوری کر سکتے ہیں۔ ایسی فون کال کے ہر منٹ کے تین ڈالر ادا کرنے پڑتے تھے۔ غرضیکہ ان کے پاس سیاحوں کی جیبیں ہلکی کرنے کے بے شمار طریقے تھے۔ سوئٹزرلینڈ نے اتنی دولت ویسے ہی تو اکھٹی نہیں کی ہے۔ اس کے پیچھے ان کا کاروباری ذہن پوری طرح کار فرما ہے۔
اس رات لیوژرن کے اس چھوٹے سے مگر انتہائی آرام دہ ہوٹل کے بار میں تقریباً سبھی سیاح نائو نوش میں مشغول تھے۔ آج خلافِ معمول بھارت سے تعلق رکھنے والے مگر امریکہ میں رہائش پذیر ڈاکٹر رمیش ، اس کی بیوی ، پانڈے ، اس کی بیوی اور سالی سبھی وہاں موجود تھے۔ تا ہم ان کے بچے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ یہ سب ہمارے ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ جسٹن، جوزی، جولی اور ہماری گائیڈ مولی بھی خلافِ معمول آج ہمارے ساتھ ہی بیٹھی بیئر سے شغل کر رہی تھی۔ ورنہ اس سے پہلے رات کو ہمارے ساتھ وہ کم ہی نظر آتی تھی۔ دراصل سالہا سال سے اس رُوٹ پر گائیڈ کے فرائض انجام دینے کی وجہ سے اس کے ہر شہر اور ہر ملک میں دوست موجود تھے۔ وہ وہاں جا کر انہی کے ساتھ وقت گزارتی تھی۔ میں نے مذاق کرتے ہوئے ایک دفعہ اس سے کہا’’ جس طرح کہا جاتاہے کہ ملاحوں کی ہر پورٹ میں ایک بیوی موجود ہوتی ہے اس طرح لگتا ہے یورپ کے ہر شہر میں تمھارا ایک آدھ بوائے فرینڈ موجود ہے ۔کیونکہ ہم جہاں بھی جاتے ہیں تم راتوں کو ہوٹل سے غائب رہتی ہو۔ کبھی ہم غریب الوطن سیاحوں کی طرف بھی نظر ِکرم کر لیا کرو جو تمھارے رحم وکرم پر ہیں‘‘
مولی حسبِ معمول ہنستے ہوئے بولی’’ یہ مبالغہ آرائی ہے۔ میرا ہر شہر میں بوائے فرینڈ نہیں ہے۔ تا ہم فرینڈز ضرور ہیں ۔ جہاں تک تمھار خیال رکھنے کی بات ہے۔ لگتا ہے اس میں تم خود کفیل ہو چکے ہو۔ ‘‘
بہر حال اس رات مولی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی اپنے دلچسب تجربے سنا رہی تھی۔ اس کی باتیں بہت دلچسپ اور معلوماتی تھیں۔ باتوں باتوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چپقلش کا موضوع چل نکلا۔ مولی نے ڈاکٹر رامیش سے پوچھا’’ آخر آپ دو پڑوسی ملک کیوں آپس میں لڑتے رہتے ہو۔ اس تنازعے کی اصل وجہ کیا ہے؟ ‘‘
ڈاکٹر رامیش نے وہسکی کا گلاس ہاتھ میں لے کر دانشورانہ سٹائل سے جواب دینے کی کوشش کی’’ اصل وجہ پاکستان کے اندر موجود انتہا پسند طبقہ ہے۔ مذہبی انتہا پسند اور جنگی جنونمیں مبتلا کچھ پاکستانی جرنیل پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ ہیں۔ دراصل وہ ماضی کی برصغیر پر مسلم حکومت کو ابھی تک فراموش نہیں کر پائے۔ وہ ہندو اکثریت کی بجائے مسلم اقلیت کو دوبارہ برسرِاقتدار دیکھنا چاہتے ہیں ۔کبھی وہ بروز ِشمشیر دہلی پر قبضہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور کبھی پورے برصغیر کے لوگوں کو مسلمان بنانے کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس آغاز میں ان کا خواب دیوانوں کا خواب ہے۔ لیکن وہ ہیں کہ کوئی نہ کوئی شرارت کرتے رہتے ہیں ‘‘
میں ابھی اس کا جواب دینے ہی والا تھا کہ پانڈے نے اپنی ٹانگ بیچ میں اڑا دی اور بولا’’ حالانکہ پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اگر جنگ شروع ہو گئی تو پاکستان ایک دن کی مار بھی نہیں برداشت کر سکتا۔ بھار ت ایک دن میں پورے پاکستان کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ لگتا ہے جیسے حالات پاکستان پیدا کر رہا ہے ،یہ ہو کر رہے گا ‘‘
جسٹن ، جوزی، جولی وغیرہ دلچسپی سے یہ باتیں سن رہے تھے لیکن انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم مولی نے درمیانی رابطے کا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے کہا’’ ڈاکٹر رمیش اور پانڈے نے بھارتی نقطہ نظر سے بات کی ہے۔ تم بتائو پاکستان کا کیا نقطہ نظر ہے؟ ‘‘
میں اس پورے دورے میں غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے تھا۔آج پہلی دفعہ سنجیدہ ہوتے ہوئے میں نے کہا ’’ہم تفریحی دورے پر یہاں آئے ہیں۔ یہاں اتنی سنجیدہ بلکہ تلخ باتوں کا سلسلہ نہیں شروع ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ڈاکٹر رامیش اور پانڈے نے جس طرح اظہار خیال کیاہے میں اس کا جواب ضرور دوں گا ۔آپ سب پی رہے ہیں اور ظاہر ہے اس موقع پر صرف ہنسنے کھیلنے کی باتیں زیب دیتی ہیں۔ ایسی سنجیدہ باتیں نہیں! لیکن اب بات شروع ہو گئی ہے تو تھوڑی دیر کے لئے میں آپ سب کی توجہ چاہوں گا‘‘ میر ی بات کے دوران ڈیوڈ ، مسز مارگریٹ اور دو اور صاحبان بھی ہماری ٹیبل پر آ بیٹھے۔ میں نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا’’ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعے کی یوں تو کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ کشمیر پر ہندوستان کا ناجائز قبضہ ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان الگ ہوئے تھے تو تقسیم کے لئے یہ بنیادی اصول رکھا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے باقی ہندوستان میں ۔ کشمیر میں اسی فیصد سے زائد مسلمان رہتے ہیں اور وہ سب پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ وہ کشمیر پر ہندوستان کیتسلط کے خلاف ہیں اور اس سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیکن بھار ت بذریعہ طاقت اسخطے اور اس کے باسیوں کو اپنے تسلط میں رکھے ہوئے ہے۔ کشمیری پہلے دن سے اس قبضے کے خلاف ہیں ۔ا نہوں نے تقسیم کے فوراََ بعد اپنی آزادی کی جنگ شروع کر دی تھی۔ پاکستان کشمیریوں کے اس بنیادی حق کی اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ جبکہ بھار ت یہ سمجھتا ہے کہ جنگ پاکستان نے شروع کرائی ہے ۔بہرحال 1948 میں بھارت خود یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر لے کر گیا۔ اقوام متحدہ نے متفقہ طور پر ایک قرار دا منظور کی۔ جس کے مطابق کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے لئے کہا گیا۔ اس استصوابِ رائے سے کشمیری عوام نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے اس ریفرنڈم کی حامی بھرلی۔ لیکن آج تک نہ تو اس نے ریفرنڈم کرایا اور نہ ہی کشمیر یوں کو آزادی کا حق دیا۔ یوں وہ پوری دنیا کے سامنے کئے گئے اپنے وعدے سے پھر گیا۔ کشمیریوں نے ہر طریقے سے اپنی آزادی کا مطالبہ جاری رکھا۔ جب بھارت نے ان کی ایک نہیں سنی تو کشمیری عوام اپنا حق لینے کے لئے کھل کر سامنے آگئے۔ بھارت نے طاقت کے ذریعے ان کو کچلنا شروع کر دیا اور کشمیر میں لاکھوں کے حساب سے فوج بھیج دی جو گھر گھر کی تلاشی لیتی ہے ۔کسی کو بھی زبردستی اٹھا لیتی ہے۔ انہیں غیر قانونی طریقے سے جیلوں میں بند رکھا جاتا ہے۔ انہیں ٹارچر کیا جاتا ہے اور بہت سوں کو توٹارچر سیلوں میں قتل کر دیا جاتاہے ۔ بھارتی فوج لوگوں کے گھروںمیں داخل ہو کر عورتوں کی آبروریزی کرتی ہے۔ مسجدوں اور عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرتی ہے۔ پچھلے بیس سال میں کشمیر کی آزادی کی اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر دیاگیا۔ ہزاروں مکانات نظر آتش کیے گئے اور سیکڑوں با عصمت خواتین کی بھارتی فوجیوںنے زبردستی عصمت دری کی۔ پاکستان کشمیریوں کی آزادی کی جنگ میں اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ لیکن بھارت کو پاکستان کی یہ حمایت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔وہ بار بار پاکستان پر الزام لگاتا ہے۔ دھمکیاں دیتا ہے بلکہ تین دفعہ پاکستان پر حملہ بھی کر چکاہے۔
پاک بھارت تنازعے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندو اکثریت کے بل بوتے پر ہندوستان کے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو ہمیشہ کے لئے محکوم رکھنا چاہتا تھا۔وہمسلمانوں کی ہندوستان پر ایک ہزار سال کی حکومت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کو جب یہ حالات نظر آئے تو انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے لئے الگ ملک حاصل کر لیا ۔جہاں وہ آزادی سے سانس لے سکیں۔ ہندوستان کو مسلمانوں کی یہ آزادی اور پاکستان کا قیام بالکل پسند نہیں آیا۔ وہ اب بھی پاکستان کو دل سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہر وقت پاکستان کا وجود ختم کرنے کی سوچ میں مبتلا رہتے ہیں۔ بھارت براہ ِراست تین جنگوں کے علاوہ پاکستان کے اندر بے شمار ایجنٹ داخل کر چکا ہے۔ جووہاں ہر طرح کی دہشت گردی ،بموں کے دھماکے ، فرقہ وارارنہ اختلافات کو اُبھارنے، دہشت گردوں کو اسلحہ سپلائی کرنے اور پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی کھوج لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایجنٹ مختلف مسالک کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے بے گناہ نمازیوں کو شہید کرتے ہیں۔ یوں ان مسالک کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ یہ دو بڑی وجوہات ہیں پاکستان اور ہندوستان کے تنازعے کی‘‘
مولی جس کی معلومات قابلِ رشک تھیں، بولی ’’میں نے تنازعہِ کشمیر کا سن تو رکھا تھا لیکن اس کے اصل پس ِمنظر سے پہلی دفعہ واقف ہوئی ہوں۔ میڈیا میں تو صرف ایسی خبریں آتی ہیں کے پاکستانی ایجنٹ کشمیر کے اندر گڑ بڑ پھیلا رہے ہیں ۔لیکن تمھاری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگ خود کشمیر ی کر رہے ہیں‘‘
ڈاکٹر رمیش جو میرے طویل بیان کے درمیان بار بار نتھنے پھلا اور پچکار ہا تھا ،گویا ہوا ’’پاکستانی ایجنٹوں والی بات درست ہے۔ کشمیر کے اندر ساری گڑ بڑ پاکستان کے تربیت یافتہ ایجنٹ پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے تربیتی کیمپ لگے ہوئے ہیں اور پاکستانی فوج ان ایجنٹوں کو تربیت دے کر کشمیر میں دہشت گردی کے لئے بھیجتی ہے۔ بلکہ ان میں پاکستانی فوجی بھی شامل ہوتے ہیں‘‘
میں نے کہا’’ اگر یہ بات ہے تو بھارت پاکستان کا یہ مطالبہ کیوں نہیں مانتا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بین الاقوامی آبزروتعینات کئے جائیں جو کنڑول لائن کراس کرنے والوں پر نظر رکھ سکیں۔ اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو کیوں نہیں جانے دیتا۔ اگر کشمیری عوام آزادی نہیں چاہتے تو بھار ت اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے کیوں نہیں کراتا؟ یہ سب بھارتی پروپیگنڈہ ہے۔ وہ دنیا کو یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان کرارہا ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کے ہر شہر، ہر گاوٗں اور ہر گھر پر فوج اور پیرا ملٹری فوسز کے ذریعے چڑھائی کرتا رہتا ہے۔ اگر سب کچھ پاکستان کر رہا ہے توو ہ ان کشمیریوں کی جان کے لئے کیوں عذاب بنا ہوا ہے۔ وہ انہیں آزاد کیوں نہیں کر دیتا۔ سڈنی کے علاقے ایش فیلڈمیں بھارت کے مقبوضہ کشمیر یوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک سیمینار منعقد کیا ۔وہاں میری ملاقات درجنوں کے حساب سے ایسے کشمیریوں سے ہوئی جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکا تھا۔ وہ سب مقبوضہ کشمیر کے باسی تھے۔ ان میں سے کسی کی قبر بھی پاکستان میں نہیں تھی۔ کسی کا گھر پاکستان میں نہیں تھا۔بلکہ ان کا گھر اب کہیں بھی نہیں ہے۔ وہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ آج اکیسیوی صدی میں جب ہر طرف آزادی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسٹ تیمور بین الاقوامی مدد سے آزاد ملک بن چکا ہے تو بھار ت کو بھی کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ بند کر کے ان کی آزادی کا حق انہیں دے دینا چاہیئے۔ بقیہ دنیا کو بھی ان مظلوم اور بے بس کشمیریوں کی کم از کم اخلاقی اور اصولی حمایت کرنی چاہیے‘‘
ڈیوڈ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا’’ دنیا تو ان کی اس وقت حمایت کرے گی جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہو گا ۔مولی کی طرح میرا بھی یہی خیال تھا کہ چند پاکستانی بھارت کے علاقے کشمیر میں جا کر گڑبڑ پھیلا رہے ہیں۔ لیکن آج پہلی دفعہ اس معاملے کی سنجیدگی کا احسا س ہوا ہے ۔ ایک لاکھ انسانوں کا قتل کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہم مغربی معاشرے میں رہنے والے ایشائی اور افریقی ممالک میں بڑے سے بڑے نقصان کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری طر ف امریکہ یا یورپ میں ایک کتا بھی مرجائے تو اخباروں کی سرخی بن جاتی ہے‘‘
پانڈے نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کہا’’ پاکستان کے کشمیر پر دعوے کے جواب میں بھارت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ بھی ہمارا ہے۔ لیکن بھارت نے اس کا قبضہ لینے کے لئے یہ سب کچھ تو نہیں کیا جو پاکستان ہمارے کشمیر میں کر رہا ہے‘‘
’’ یہ تو سوئی ایک جگہ اٹکنے والی بات ہے کہ پاکستان یہ کر رہا ہے وہ کر رہا ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے سب لوگوں کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ جو کچھ کر رہے کشمیری عوام کر رہے ہیں، پاکستان نہیں۔آزاد کشمیر پر بھارت کے قبضے کی بات تو دیوانے کے خواب جیسی ہے ۔ پورے آزاد کشمیر میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ہو گاجو بھار ت کے ساتھ الحاق کا حامی ہو۔ بلکہ آزاد کشمیر کے کشمیری اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔ اگر کسی کو شک ہو تو پورے کشمیر میں ریفرنڈم کر ا کر دیکھ لے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا‘‘ میں نے بلا لحاظ جواب دیا
پانڈے نے بُرا سا منہ بنایا۔ جیسے کڑوی گولی نگل لی ہو لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا ۔ ڈاکٹر رامیش کچھ بولے بغیر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ گڈ نائٹ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا ۔چند لمحوں کے بعد پانڈے نے بھی بیوی اور سالی کو اشارہ کیا او ر وہ بھی اپنے کمروں کی طرف چل پڑے ۔ ان کے جانے کے بعد جوزی نے بیئر کا گلاس اٹھایا اور بولی ’’طارق! مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی سنجیدہ گفتگو بھی کر لیتے ہو ۔ میں نے تمھیں ہر وقت ہنستے کھیلتے اور غیر سنجیدہ گفتگو کرتے ہی سنا ہے۔ اس گفتگو سے ہم سب کے علم میں اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال اب موضوع تبدیل ہونا چاہیے‘‘
مولی نے اٹھتے ہوئے کہا ’’بھئی مجھے تو اجازت دو ۔میں نے کمرے میں جا کر کچھ پیپر ورک کرنا ہے۔ ویسے طارق! تم نے آج کی DEBATE جیت لی ہے۔ تمھاری باتوں میں وزن اور منطق تھا ۔ میں ذاتی طور پر آج سے کشمیریوں کے حق خود ارادی کے حق میں ہوں ۔ میری خواہش ہے کہ ان کا یہ حق انہیں جلد مل جائے‘‘
’’ مولی! صرف تم نہیںبلکہ ہم سب اصل صورت حال جان گئے ہیں۔ کاش کہ وہ لوگ بھی جان جائیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں۔ دنیا کو ان دو ایٹمی ممالک کے درمیانی معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘مارگریٹ یہ کہہ کر مولی کے ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ بھی خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔
ان کے جانے کے ایک گھنٹہ بعد تک ہم وہیں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے ۔ آج میرے علاوہ جولی بھی صرف کوک سے شغل کرتی رہی۔ ایک دو دفعہ اس کو بیئر کی آفر ہوئی بھی تو خلاف ِمعمول اس نے انکار کر دیا۔ شاید پیرس کی آخری رات کا تجربہ اُسے یاد تھا۔ دو بجے کے لگ بھگ ہم سبھی اٹھ کر اپنے اپنے کمروں کی جانب چلے ۔میرا اور جولی کا کمرہ سڑک کی دوسری طرف والی عمارت میں تھا ۔ہم ہوٹل سے باہر سڑک پر نکلے تو پہاڑوں سے گھر ے اس شہر میں اس وقت سردی کا راج تھا ۔سڑکیں روشن مگر بالکل ویران تھیں۔ عجیب خاموشی اور ہو کا عالم تھا۔ ہم ہوٹل کے بند ہال سے نکلے تو سردی کے ساتھ ساتھ تازہ خوشبو بھری ہوانے ہمارا استقبال کیا ۔ ایک بھینی بھینی سی مہک فضا کو معطر کئے ہوئے تھی۔ شاید اردگرد پھیلے رنگا رنگ پھولوں میں سے کچھ خوشبو آور بھی تھے۔ ورنہ یورپ اور آسٹریلیا کے پھولوں میں خوشبو نہیں ہوتی ہے۔ جولی نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر چند لمبے لمبے سانس لئے۔ جیسے اس خوشبو کو اپنے اندر سمیٹنا چاہ رہی ہو۔ پھر گھوم کر میرا ہاتھ پکڑا اور بولی’’ چلو! تھوڑی دور تک چہل قدمی کر کے آئیں‘‘
’’جولی! اس وقت رات کے دو بجے ہیں ۔ سردی سے دانت کپکپا رہے ہیں۔ تم ہو کہ گرم کمرے میں جانے کے بجائیسڑکپر چہل قدمی کرنا چاہتی ہو‘‘
اس کے جواب میں جولی نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور کہا’’ چلو! یہ سردی ہمیں کچھ نہیں کہتی ۔دیکھونا ! کیسا پرسکون اورخوبصورت ماحول ہے‘‘
ہم رات کے سناٹے میں تقریباً آدھ میل تک چلتے چلے گئے۔ اس دوران زیادہ تر جولی ہی باتیں کرتی رہی۔ وہ سڈنی میں موجود اپنے گھر والوں اور دوستوں کے بارے میں بتاتی رہی ۔ لگتا تھا جولی ان سب کو بہت مس کر رہی ہے۔لیوزرن کے خوابیدہ اور خاموش شہر کی سڑکوں پر آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے تو سردی سے جسم کپکپا رہے تھے۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ میں نے جولی کو گڈ نائٹ کہہ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ میرے پیچھے پیچھے میرے کمرے میں آگئی۔ کمرہ مرکزی حرارتی نظام کی وجہ سے خاصا گرم اور خوشگوار ماحول لئے ہوئے تھے ۔ میں نے گھوم کر سوالیہ نظروں سے جولی کی طرف دیکھا ۔وہ میرے قریب آگئی’’ میں آج رات یہیں سوئوںگی‘‘ اس کے نازک ہونٹ سردی سے قدرے نیلے نظر آ رہے تھے۔
’’وہ کس خوشی میں؟ تمھارا الگ کمرہ ہے۔ تم وہاں کیوں نہیں سوتی؟‘‘ میں نے اسے گھور کر دیکھا
’’ مجھے اکیلے میں ڈر لگتا ہے۔ آج تو میں نے پی بھی نہیں ہے۔ نہ نشے میں ہوں ۔میں تمھیں تنگ نہیں کروں گی ‘‘
’’وہاں پیرس میں اکیلی رہتی رہی ہو۔ یہاں کیوں ڈر لگنے لگا؟ ‘‘ میں نے پیچھے ہٹتے ہو ئے کہا
’’ وہاں بڑا ہوٹل تھا اور ہمارے کمرے زمین سے کئی منزل کی بلندی پر تھے۔ یہاں یہ اکیلی عمارت ، گرائونڈ فلور پر کمرے اور صدر دروازے پر کوئی استقبالیہ عملہ بھی نہیں ہے۔ اس لئے مجھے اکیلے میں ڈر لگے گا‘‘
’’ جولی مذاق بند کرو اور جا کر سو جائو ۔ مجھے بہت نیند آ رہی ہے‘‘
’’ میری وجہ سے تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔میں یہاں صوفے پرسو جائوں گی‘‘
میں نے جولی کا ہاتھ پکڑا ۔ باہر لے جا کر اسے اس کے کمرے کے سامنے چھوڑااور شب بخیرکہہ کر اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اپنے پیچھے دروازہ بھی مقفل کر دیا۔
بادلوں سے ملاقات
دروازے پر دستک ہوئی تو میں گہری نیند میں تھا۔ دو تین بار کی دستک کے بعد آنکھ کھلی۔ آنکھیں ملتے ملتے اُٹھ کر دروازہ کھولا ۔ سامنے ہوٹل کی بوڑھی مالکن تازہ پھولوں کا گلدستہ لئے موجود تھی ۔ اس نے گڈمارننگ کہہ کر پھولوں کا گلدستہ میری طرف بڑھایا’’ ناٹی بوائے! تمھار ا گروپ ناشتہ کر کے تیار ہو چکا ہے۔ تم بھی جلدی جلدی آجائو۔ ناشتے کا وقت ختم ہونے والا ہے‘‘
میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو سوا نو بجے تھے۔ دس بجے ہم نے قریبی پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لئے روانہ ہونا تھا۔ آدھے گھنٹے میں تیار ہو کر میں ریستوران جا پہنچا۔ وہ مہربان بوڑھی عورت میرا اور جولی کا انتظار کر رہی تھی۔ جولی مجھ سے تھوڑی دیر پہلے وہاں پہنچی۔ہم ریستوران کی ٹیبل پر بیٹھنے کی بجائے کچن میں چلے گئے۔میں نے فرائی کئے ہوئے انڈے کا سینڈوچ اور کافی لی۔ جبکہ جولی نے سیریل میں دودھ ڈالا اور پیالالے کر وہیں کھڑے ہو کر کھانے لگی۔ باہر نکلے تو گروپ کے سب لوگ کوچ میں سوار ہو چکے تھے ۔ہمارے بیٹھتے ہی کوچ چل پڑی۔ ہماری منزل لیوژرن سے ملحق ایک بلند قامت پہاڑ کی چوٹی تھی۔ یہ چوٹی شہر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ چوٹی پر سیاحوں کے لئے بہت سے قابلِ دید نظار ے ہیں اس لئے اسے تمام سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ چوٹی پر جانے کے لئے بھی خصوصی اور دلچسپ انتظامات ہیں۔
ہماری کوچ ہمیں لے کر جھیل کے کنارے اور پہاڑ کے دامن کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی۔ سڑک کے ایک طرف نیلے پانی والی وسیع اور خوبصورت جھیل تھی اور دوسرے کنارے پر سرسبز و شاداب درخت تھے۔ سبزے اور پانی کے علاوہ وہاںاور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ موسم صاف تھا۔ تاہم بادلوں کے کچھ ٹکڑے اِدھر اُدھر تیر رہے تھے۔اوپر جا کر ان بادلوں سے ہماری ملاقات بھی ہوئی ۔
پہاڑ کے دامن میں ایک مخصوص جگہ ہماری کوچ رُک گئی۔ وہاں سے ہم نے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لئے زنجیر سے کھینچی جانے والی ایک خصوصی ٹرین پر سوار ہونا تھا۔ اس ٹرین کی چھوٹی چھوٹی بوگیاں تھیں۔ ایک بوگی میں آٹھ افراد سوار ہو سکتے تھے۔ ہمارا گروپ ٹرین کے د و چکروں میں اوپر پہنچ سکا ۔جب ٹرین ہمیں لے کر اوپر کی طرف چلی تو وہ بھی عجیب منظر تھا۔ اس ننھی سی ٹرین کا رخ سیدھا آسمان کی طرف تھا۔ وہ گرر گرر کی آواز سے اوپر کی طرف کھینچی چلی جا رہی تھی ۔دونوں کناروں پر گہری کھائیاں تھیں۔ بلندی پر پہنچنے کے لئے ٹرین نے آدھ گھنٹہ لگایا ۔اس دوران کچھ لوگ تو اس عجیب و غریب سواری سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن کچھ کے چہروں پرخوف کی پر چھائیاں تھیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال جاگا ۔ اگر اوپر کھینچنے والی زنجیر ٹوٹ جائے یا اس کا مکینیکل سلسلہ منقطع ہو جائے تو ہم سب پر کیا بیتے گی ۔ پھر یہ سوچ کر دل کو سنبھالا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی مشینری کی دیکھ بھال کا نظام نہایت مکمل اور قابلِ بھروسا ہوتا ہے۔
چوٹی پر پہنچ کر ہم ٹرین سے باہر نکلے تو یہاںموسم مختلفتھا۔ ہوا میں خنکی بلکہ خنک نمی تھی۔ بادل ہمارے اردگرد منڈلا رہے تھے۔ ایک دو مرتبہ تو ہمارے چہروں اور جسموں سے ٹکرا کر ہمیں بھگو سا دیا۔ ایک منٹ بعد دھوپ سہار ا دینے نکل آتی۔ اس طرح جتنی دیر بھی ہم وہاں ٹھہرے سورج اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری رہی۔ تاہم ٹھنڈی ہوا ئوںکا سلسلہ مستقل جاری رہا۔ وہ تو بھلا ہو ہماری گائیڈ کا، جس نے ہمیں قبل از وقت یہاں کی سردی سے آگاہ کر دیا تھا۔ اس لئے ہم جیکٹ وغیرہ ساتھ لائے تھے۔ پورے سفر ِیورپ کے دوران یہ پہلا اور آخری موقع تھاجب میں نے جیکٹ پہنی تھی۔ گرمیوں کے ا ِس موسم میں زیادہ تر خوشگوار موسم سے سامنا رہا ورنہ یورپ کی سردی سے خدا بچائے۔
پہاڑ کی چوٹی پر سیاح ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے ۔ ایک عمارت میں کیفے ، سووینئر شاپ اور ریسٹ روم بنے ہوئے تھے۔ کیفے کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ کچھ عمر رسیدہ سیاح کیفے کے اندر کرسیوں پر بیٹھے کافی کا مگ ہاتھ میں لے کر شیشے سے باہر کا منظر دیکھ رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے ۔کچھ پیسے دے کر دوربینوں سے دور کے نظاروں کو نزدیک لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں چلتے چلتے خاصی بلند چوٹی پر پہنچ گیا۔ یہاں سے پورا لیوژرن شہر حد نظر تک میرے سامنے تھا۔ لیوژرن چھوٹا سا شہر ہے بلکہ ایک دیہاتی قصبے کی طرح ہے۔ بڑی اور جدید عمارتیں نہ ہونے کی برا بر ہیں۔ زیادہ تر گھر ہیں اوروہ بھی فاصلے فاصلے پر بنے ہوئے۔ گھروں کے اردگرد خالی قطعات ، سرسبز فارم اور مویشیوں کے باڑے نظر آرہے تھے۔ پہاڑ پر جہاں تک نظر جاتی تھی سبزہ اور درخت نظر آرہے تھے۔ ایک انچ جگہ بھی سبزے سے خالی نظر نہیں آتی تھی۔اتنی خوبصورتی ،اتنا حسن، اتنا سبزہ اور اتنے پھول میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
ایک گھنٹہ ہم نے پہاڑ کی اس چوٹی پر گزارا ۔رنگا رنگ نظاروں سے لطف اندوز ہوئے، تصویریں بنائیں، بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھی بلکہ اپنے جسموں پرمحسوس کی۔ اس کے بعد ایک بڑی لفٹ میں سوار ہو کر چوٹی سے نسبتاً نیچے کے ایک مقام پر آئے۔ اس لفٹ میں بیک وقت پچاس افراد کی گنجائش تھی۔ لفٹ جب دو پہاڑوں کے درمیان نیچے کی طرف جا رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ کچھ خواتین نے ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔ ہمارے گروپ کے کچھ لوگ بلندی کے خوف کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آئے تھے۔ لفٹ جس جگہ رکی وہ بھی زمینسے کافی بلندی پر واقع تھی۔ تا ہم ہم چوٹی سے کافی نیچے آچکے تھے۔ اس مقام سے ہم نے چیئر لفٹ پر سوار ہونا تھا۔ اس چیئر لفٹ کے ہر کیبن میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ میرے ساتھ جولی تھی۔ ہمارے مقابل کی سیٹ پر ایک کینیڈین جوڑا براجمان تھا۔ ہمیں مولی نے بتایا کہ جہاں لفٹ رکے گی وہاں کوچ ہمارا انتظار کر رہی ہے ۔گو یا ہم نے پہاڑ پر جانے کیلئے ٹرین اور واپسی پر چیئر لفٹ استعمال کی۔ مقام روانگی اور مقام واپسی بھی الگ الگ تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ چیئر لفٹ ہمیں پہاڑ کے دامن میں پہنچائے گی۔
لیکن جب یہ چلی تو چلتی ہی چلی گئی۔ پہاڑ سے نکل کر یہ میدانی علاقے کے اُوپر پرواز کرنے لگی۔ نیچے مکانات بنے ہوئے تھے ۔ یہ شہر سے باہر کا مضافاتی علاقہ تھا ۔مکانات خاصے فاصلے فاصلے پر واقع تھے۔ لکڑی کے مکانات تھے جن کے اردگرد پھولوں کے قطعات تھے۔ بھوری بھوری خوبصورت گائیں گھاس چر رہی تھیں۔ کہیں کہیں خرگوش ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ برف کے گولوں سے مشابہ بھیڑیں چرتی نظر آرہی تھیں۔ مکانوں کے سامنے خوبصورت سوئس بچے کھیل رہے تھے۔ مویشیوں کے باڑے کے اردگر د لکڑی کی باڑ یں بنی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ حتی ٰکہ بیک یارڈ میں بنے فوارے بھی لکڑی کے تھے ۔جلانے کی لکڑی کاٹ کر ترتیب سے گھروں کے پیچھے رکھی ہوئی تھی۔
یورپ میں لکڑی کے استعمال کا رواج عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لکڑی کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ لگتا ہے یہاں چوبی مصنوعات کے کاریگر بھی بہت ہیں۔ گھر میں رکھے ڈیکوریشن پیس ہوں یا فرنیچر، دروازے اور کھڑکیاں ہوں یا کھلونے، وال کلاک ہوں یا تصویروں کے فریم، یہاںہر طرف خوبصورت اور مضبوط لکڑی کا وافر استعمال نظر آتا ہے۔ ہماری لفٹ چلتی ہی جارہی تھی۔ گھروں کے اوپر ،سر سبز کھیتوں کے اوپر ،چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اوپر، درختوں کے جھنڈوں کے اوپر ، پھولوں کے قطعات کے اوپر، چرتی ہوئی گائیوں اور بھیڑوں کے اُوپر۔ آدھے گھنٹے تک یہ فضا میں تیرتی رہی۔ ہمارے اردگرد سنہری روپہلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا میں خوشگوار سی خنکی تھی لیکن پہاڑ کی چوٹی کی طرح سردی نہ تھی۔ میں نے جیکٹ اتار کر دوبارہ بیگ میں ڈال لی ۔آخرکار یہ لفٹ لیوژرن شہر میں جا کر ایک مقام پر رُکی ۔
یہ جگہ بھی ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ تھی۔ جھیل کے کنارے ایک دلکش پارک تھا ۔ جہاں باربی کیو کا بھی انتظام تھا۔ کچھ فیملیاں خور دو نوش میں مصروف تھیں۔ مولی اور فشر کوچ کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ جب ہمارا گروپ اکھٹا ہوگیا تو ہم شہر کے مرکزی حصے میں واقع ایک بڑے اور خوبصورت ریسٹورنٹ میں لنچ کرنے کے لئے روانہ ہو گئے۔ پہاڑ کی سیر اور یہ لنچ ہمارے اضافی پیکیج میں شامل تھا۔
ریسٹورنٹ سیاحوں سے بھر اہوا تھا۔ چونکہ ہم سب کی سیٹیں ریزرو تھیں اس لئے ہمیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اس ریستوران کا کھانا بہت اچھا تھا۔ وہاں موسیقی اور تفریح کا بھی بندوبست تھا ۔ ایک بینڈ مختلف دھنیں بجا کر مہمانوں کو محفوظکرنے میں مصروف تھا۔ علاوہ ازیں کچھ گلوکار اور مزاحیہ فنکار بھی حاضرین کی تفریح طبع کے لئے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس ریسٹورنٹ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہاں تمام ویٹرس نوجوان اور بے حدخوبصورت تھیں۔اس پر مستزادیہ کہ ان کے سڈول اور خوبصور ت جسمَ نیم برہنہ تھے۔ شاید یہ اس ریستوران کی’ سروس ‘کا حصہ تھا۔اتنی حسین ویٹرس دیکھ کر لوگ کھانے میں رہ جانے والی کسی کمی کو خاطر میں نہیں لاتے ہوں گے۔ کھانے کی طرف دیکھنے کی انہیں فرصت ہی کہاں تھی کہ نظر تو دل پسند نظاروں میں محو تھی ۔
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
میرے اور انڈین فیملیوں کے لئے خصوصی طور پر مسالوں والا کھانا تیار کیا گیاتھا ۔ اِس تفریح بھرے لذیذ لنچ کے بعد شام تک ہم گروپ سے آزاد تھے۔ تمام سیاح ادھر ادھر پھیل گئے ۔ اگلے پانچ گھنٹے میں نے لیوژرن شہر کی آوارہ گردی کرتے گزارے۔ سوئٹزرلینڈ دنیا بھر میں گھڑ یاں بنانے کے لئے مشہور ہے ۔سوئس گھڑیاں کوالٹی اور خوبصورتی میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ میں نے بھی ایک اپنے لئے اور تحائف دینے کے لئے چند گھڑیاں خریدیں۔ کچھ سووینئر اور گفٹ کارڈ بھی لئے۔ بعد میں علم ہوا کہ اس طرح کے تفریحی مقامات پر گھڑیوں اور دوسرے تحائف کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ سیاحوں کو مارکیٹ اور سستی دکانوں کا صحیح علم نہیں ہوتا لہذا اکثر وہ گفٹ شاپوں اور ٹورسٹ پوائنٹ پر واقع سٹوروں سے مہنگی اشیاء خرید لیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔جو گھڑی میں نے لیوژرن سے تین سو پچاس ڈالرمیں خریدی ۔ سڈنی آنے کے بعد ایک دکان پر مجھے وہی گھڑی نظر آئی۔ سوئٹزرلینڈ سے آسٹریلیا کا سفر طے کرنے کے بعد بھی وہ یہاںصرف دوسو ڈالر میں دستیاب تھی ۔
خیر سیاح تو ہمیشہ لٹتے ہی رہتے ہیں۔ انہی کے دم سے دنیا بھر میں بے شمار افراد کا روزگار لگا ہواہے۔ بعض ممالک کی تو پوری معیشیت ہی سیاحتکی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یورپ کے تقریباً سبھی ممالک اس مد میں بجٹ کا ایک بڑا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ایک اپنا وطن پاکستان ہے جہاں قدرت نے سیاحوں کے لئے بے شمار پُرکشش مقامات مہیا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان سے استفادہ کرنے کی آج تک کوشش نہیں کی گئی۔ بین الاقوامی سیاحوں کو ان مقامات کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوئی باضابطہ مہم نہیں چلائی جاتی۔ نہ ہی ان مقامات کو سیاحوں کی سہولتوں سے آراستہ کر کے پُرکشش بنانے کی کوئی قابلِ ذکر کوشش روا رکھی جاتی ہے۔ نہ رسل وسائل کا مناسب بندوبست ہے اور نہ ایسی جگہوں پر رہائش کے لئے مناسبسہولتیں حاصل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کی مد میں ہونے والی آمدنی برائے نام ہے۔ حالانکہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں دنیا بھر کے سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہاں آسٹریلیا کا ہر وہ شخص جسے سیاحت کا ذرا سا بھی شوق ہے وہ بھارت کی سیر ضرور کر کے آیا ہے۔
بھارت بھی پاکستان کی طرح ایک غریب ملک ہے۔وہ اگر سیاحوں کے لئے سہولتیں مہیا کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں بھارت سے زیادہ پُر کشش مقامات موجود ہیں۔ صرف سیاحوں کو سہولتیں دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان مقامات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں لوگوں کو پاکستان کی خوبصورتی اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے بارے میں بتانے کے لئے ایک تشہیر ی مہم کی ضرورت ہے۔ جس میں ان ممالک میں ہمارے سفارت خانے اور یہاں بسنے والے پاکستانی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے جب آسٹریلین لوگ ہمیں بتائیں کہ ہم پاکستان کی سیر کر کے آئے ہیں۔ وہ دن ہم یہاں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے باعثِ مسرت و افتخار ہوگا۔
لیوژرن کی سیر کرتے کرتے میں پاکستان جا پہنچا ۔دراصل انسان جہاں پیدا ہو، جو اس کا آبائی وطن ہو وہ ساری زندگی خیالوں اور خوابوں میں بسا رہتا ہے۔ میں اور میرے جیسے لاکھوں دیگر پاکستانی جو سالہا سال سے وطن سے دور دیار غیر میں رہ رہے ہیں انہی جذبات کے حامل ہیں۔ وطن سے دور رہنے کے باوجودوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن کی محبت ہمارے دلوں میں بڑھتی ہی رہتی ہے۔ اپنی مٹی کی خوشبو ہمیں ہر لمحے پکارتی رہتی ہے۔ وطن کے ترانے ہمارے دلوں کو گد گداتے رہتے ہیں۔ اپنے گھر کے درو دیوار نگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اپنے لوگ ، دوست احباب ، عزیز و اقارب یاد آتے رہتے ہیں ۔بچپن اور نوجوانی کا جو زمانہ وطن میں گزر ا اس کی سنہری یادیں دل و دماغ میں جلتی بجھتی رہتی ہیں۔
مدت ہوئی وہ گلیاں چھوڑے ہوئے طارق ؔ
خوابوں میں مگر وہی منظر پھرتے ہیں
لیکن کئی ایسی بندشیں اس وقت تک پروان چڑھ چکی ہوتی ہیں جو باوجود خواہش کے وطن واپسی کے راستے میں حائل ہوتی رہتی ہیں۔ پھر بھی ہم میں سے کافی لوگ ان بندشوں اور زنجیروں کو توڑ کر مادر ِوطن کی آغوش میں پناہ لینے واپس چلے جاتے ہیں۔ایک وقت یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ کی جو چکا چوند ہمیں یہاں لے آتی ہے زندگی کے کسی دوسرے حصے میں یہ چکا چوند ماند پڑ جاتی ہے اور وطن کی خوشبو اس پر غالب آجاتی ہے۔ اس کے بعد ہم دو دیسوں کے درمیان دو کشتیوں کے مسافر کی مانند لٹکے رہتے ہیں۔
جن کے دم سے جلتے ہیں گھروں کے چراغ
وہی تو بے وطن اور بے گھر پھرتے ہیں
زندگی تو ویسے بھی کشمکش کا دوسر ا نام ہے۔ لیکن ہم جیسے مسافر اس کشمکش کے کچھ زیادہ ہی شکار رہتے ہیں۔ ایسے وقت میں ہم دنیا کے جس خطے میں بھی ہوں ذہن میں وطن کا تصور بسارہتا ہے۔ ہم اپنے وطن میں دنیا بھر کی خوبصورتیاں دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ اپنے پیارے وطن کو ترقی کے زینوں پر اوپر سے اوپر جانے کی آرزو ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کی ہر خوبصورت جگہ کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگروطنِ عزیز میں کچھ کمی نظر آئے تو دل میںلا محالہ یہ خواہش ابھرتی ہے کہ کہ یہ کمی دور ہو جائے۔ ہمارا وطن بے داغ ہو کر چاند تاروں کی طرح منور اور تاباں نظرآئے اور پوری دنیا کے لئے ایک قابلِ رشک بن جائے۔
مجھے تمھارا آنٹی کہنا بہت اچھا لگا
میں گھومتا گھماتا دریائے لیوژرن کے بازو میں واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں بہت سے سیاح جمع تھے۔ وہاں شیر کا ایک بڑا سنگی مجسمہ نصب تھا ۔اس شیر کے جسم میں کئی تیر پیوست تھے او ر وہ مرا پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک پتھر نصب تھا ۔جس پر تحریر تھا کہ یہ شیر جنگ عظیم میں بے شمار انسانی جانوں کی ضیاع کی علامت کے طور پر مردہ دکھایا گیا ہے۔ شیر سے مراد بنی نوع انسان تھا۔ جو اپنے جیسے دوسرے انسان کے ہاتھوں سینے پر تیر کھا کر گھائل ہوا ۔ پھر اپنی ہزاروں حسرتوں اور خواہشوں سمیت دنیا سے قبل از وقت رخصت ہو گیا۔ سیاح ہر زاویے سے اس مردہ شیر کی تصویریں اتار رہے تھے۔
لیوژرن میں ان دنوں سیاحوں کا جیسے تانتا سا بندھا ہوا تھا۔ مقامی لوگ کم اور سیاح زیادہ نظر آرہے تھے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب سردیاں آتی ہیں اور سیاحت کا سیزن ختم ہو جاتا ہیتو پھر یہ شہر کیسا لگتا ہو گا۔اور یہاں کے لوگ جن کا ذریعہ معاش زیادہ تر سیاحت سے ہی جڑا ہوا ہے، وہ کیا کرتے ہوں گے۔ یہی سوال میں نے ایک چھوٹے سے کیفے کے بوڑھے مالک سے کیا۔ اس کا جواب تھا’’ سردیوں میں تقریباً یہاں کے سب کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ جن دکانوں پر اب چار پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، اُن دنوں وہاں صرف ایک شخص کافی ہوتا ہے۔ بعض دکانیں ، ریستوران اور ہوٹل تو مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن سیاحوں کا سلسلہ مکمل طور پر بند نہیں ہوتا ۔سردیوں میں اور برف باری میں بھیتھوڑے بہت سیاح آتے رہتے ہیں۔ لیکن جو گہما گہمی اور چہل پہل اب نظر آرہی ہے، سردیوں میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو تا‘‘
اس کیفے کا بوڑھا مالک جب یہ باتیں کر رہا تھا تو ایپرن باندھے ایک عورت کچن سے نکل کر اس کے ساتھ آکھڑی ہوئی۔ اس عورت کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہو گی ۔ اگر کسی غریب ملک کے غریب گھر کی ہوتی تو وہ بوڑھی کہلاتی۔ لیکن اس کی صحت اتنی اچھی تھی کہ میں نے اُسے بوڑھی نہیں کہا۔ سفید بالوں اور سرخ و سفید چہرے والی اس مہربان سی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے اسے بتایا’’بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے لیکن آج کل آسٹریلیا میں رہتا ہوں‘‘
پاکستان کا نام سن کر وہ دونوں میاں بیوی (مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ میاں بیوی ہیں) بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے یورپ کے رواج کے برعکس مجھ سے کافی کے پیسے بھی نہیں لئے۔ میں نے اصرار کرتے ہوئے کہا’’ آنٹی! کافی کے پیسے تو لے لیں۔ یہ آپ کا کاروبار ہے‘‘
میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ کاوٗنٹر سے باہر نکل آئی۔ دونوں ہاتھ میرے گال پر رکھے اور بولی ’’کیا کہا تم نے ؟ پھر کہو ‘‘
میں قدرے گھبرا سا گیا کہ شاید میرے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہے۔ اسی گھبراہٹ میں، میں نے کہا’’ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے کافی کی قیمت لے لیں‘‘
اس نے کہا’’ نہیں! میں کافی کی بات نہیں کر رہی۔ تم نے مجھے آنٹی کہا! یہی کہا تھا نا؟ ‘‘
’’ جی‘‘ میں اب بھی نہیں سنبھلا تھا۔
اس نے میرے گال سہلاتے ہوئے کہا’’ تمھیں شاید احساس نہیں ہوا ۔لیکن مجھے تمھارا آنٹی کہنا بہت اچھا لگا ۔یہاں کوئی کسی کو ایسے نہیں پکارتا نہ ایسے سمجھتا ہے ۔ہمیںتو اپنے بچوں کی آوازیں سنے ہوئے بھی ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ تمھار ا یوں اپنائیت سے آنٹی کہناجیسے میرے دل کے تاروں کو چھیڑ سا گیا۔ بیٹے تم کب تک یہاں ہو؟‘‘
اس عورت کی اپنائیت دیکھ کر اور بیٹے کا لفظ سن کر میرا دل بھی کچھ بھر سا آیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگلی صبح ہم وہاں سے چلے جائیں گے۔ اس مہربان عورت کیخاوند نے میری طرف ہاتھ بڑھایا’’ میرا نام اسمتھ ہے اور یہ میری بیو ی میری ہے۔ ہم پاکستان کی سیر کر کے آئے ہیں اور وہاں سے کچھ بہت اچھی یادیں لے کر آئے ہیں۔ آج اتنے عرصے بعد ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی تو جیسے وہ اچھی یادیں پھر لوٹ سی آئیں۔ تم آج شام ڈنر ہمارے گھر پر کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
میں یورپ میں تھا جہاں اس طرح کے جذباتی سین بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی اس شام میں فارغ تھا اس لئے میں نے بلا تردد حامی بھر لی ۔ اسمتھ نے اپنا پتہ لکھ کر مجھے دیا اور پوچھا’’ اگر آنے میں کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتا دینا۔میں تمھیں ہوٹل سے پک بھی کر سکتا ہوں ‘‘
میں نے اُسے تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا’’ آپ فکر نہیں کریں میں ٹیکسی لے کر آجائوں گا‘‘
ساڑھے چھ بجے کا وقت انہوں نے دیا تھا۔ وقت پر پہنچنے کا وعدہ کر کے میں وہاں سے نکل آیا۔
بقیہ وقت میں نے دریا کے کنارے واقع اس خوبصورت علاقے میں گھومتے گزارا۔ دریا کے اوپر ایک پرانا مگر پھولوں سے لدا پل واقع تھا ۔ پل کی ریلنگ پر رنگ برنگ پھولوں کے اتنے زیادہ گملے تھے کہ ان کا شمار مشکل تھا ۔یہ پل چھتا ہوا تھا ۔ چھت کے نیچے خوبصورت اور رنگا رنگ روشنیوں والے لیمپ نصب تھے۔ پل کے کناروں پر کھڑے ہونے کے لئے خصوصی ریلنگ تھیں ۔ جہاں کھڑے ہو کر لوگ تصویریں بنوارہے تھے۔ پل کے نیچے صاف اور شفاف پانی پہاڑوں سے میدانوں کی طرف بہہ رہا تھا۔ دریا کے کنارے دور دور تک ریستوران ، کافی شاپس ، بار اور خوبصورتی سے سجی دکانیں تھیں۔ ریستورانوں اور کافی شاپوں اور دکانوں کے سامنے بڑی بڑی رنگین چھتریاںنصب تھیں۔ جہاں دیدہ زیب پھولوں کے درمیان ترتیب و تزئین سے کرسیاں اور میز لگے تھے۔ ان پر لوگ بیٹھے خوردو نوش میں مشغول تھے۔
ایسے لگتا تھا کہ بے فکروں ،شاہ خرچوں اور زندگی کا ہر خوبصورت رنگ چرا لینے والے لوگوں کا یہاں میلہ لگا ہوا تھا۔ میزوں پر رنگا رنگ مشروبات اورانواع وا قسام کے کھا نے رکھے تھے۔ ہر طرف خوشیوں اور قہقہوں کا راج نظر آ رہا تھا۔ یہ ایسا ماحول ہے جہاں کوئی اداس نہیں۔ کوئی بجھے دل والا نہیں۔ جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں غم کا کوئی شائبہ نہیں ۔ جہاں ہر سو قہقہوں اور مسکراہٹوں کا راج ہے۔ چھٹیاں اسی لیے منائی جاتی ہیں کہ آدمی سال بھرکے کام کاج کی تھکن کو ایک حسین ماحول اور خوشگوار قہقہوں میں مٹا ڈالے اور پھر سے تازہ دم ہو کر دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔
پل کے دوسرے کنارے پر بھی سیاح اسی طرح گھوم رہے تھے۔میرے سامنے قدیم چرچ کی ایک بلند و بالا اور عظیم الشان عمارت کھڑی تھی۔ جس کے ماتھے پر کسی بہت اچھے فنکار کے ہاتھوں سے بنے خوبصورت مناظر عجب بہار دکھا رہے تھے ۔ یہ مناظرچوبی تختوں پر تراشے گئے تھے۔ان میں رنگوں کا اتناخوبصورت استعمال کیا گیا تھا کہبے اختیار داد دینے کو دل چاہتا تھا۔ پتھروں اور لکڑی کے امتزاج سے بنے قدیم زمانے کے اس چرچ کی عمارت فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھی۔ میں چرچ کے اندر داخل ہوا تو درجنوں سیاح پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انتہائی اونچی چھت والے اس چرچ کی مختلف دیواروں پر فنِ مصوری کے بیش بہا نمونے آویزاں تھے۔ یہ تصاویر بظاہر ماربل کے پتھروں پر بنی نظر آرہی تھیں۔ لیکن چرچ کی ایک میزبان خاتون نے بتایا کہ دراصل ماربل نظر آنے والی یہ پینٹنگزچوبی ہیں۔ ان پر رنگوں کا اس خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے کہ وہ ماربل نظر آتی ہیں۔ اس عورت نے بتایا کہ جب یہ چرچ بنا تھا تو سوئٹزرلینڈ اتنا امیر ملک نہیں تھا ۔ ہم اس وقت ماربل جیسے گراں قیمت پتھر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمارے بڑھئیوں اور خصوصاً مصوروں نے سوئٹزرلینڈ میں وافر مقدار میں پائی جانے والی لکڑی کا اتنا اچھا استعمال کیا ہے کہ ان تصاویرکو زندہ جاوید فن پارے بنا دیا۔ اس چرچ میں ہمیںپائیداری، حسنِ تعمیر اور فنِ مصوری کا خوبصورت امتزاج نظر آیا۔ لیکن اس کے اندر کا ماحول بقول جولی پراسرار سا تھا۔ میں اس پر اسرار ماحول سے باہر رنگ و خوشبو کی دنیا میں نکل آیا۔
باہر نکلا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ اگرچہ زیادہ تیز نہیں تھی پھر بھی کپڑے بھگونے کے لئے کافی تھی۔ میں سیدھا اپنی کوچ کے پاس پہنچا۔ وہاں میرے گروپ کے چند اور سیاح پہلے سے موجود تھے۔ وہ بھی واپس ہوٹل جانا چاہتے تھے۔ فشر ہمیں ہوٹل ڈراپ کر کے واپس چلاآیا ۔ اس نے بقیہ سیاحوں کو بھی ہوٹل واپس لانا تھا۔
ہوٹل کی مالکہ شین نے میرے لئے ٹیکسی بُک کر ا دی تھی۔ سوا چھ بجے ٹیکسی ہوٹل کے دوراز ے پر موجود تھی۔ میں نے اسمتھ کا دیا ہوا کاغذ کا پرزہ نکال کر ٹیکسی ڈرائیور کو پتا بتایا۔ اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور چل پڑا۔ اس دفعہ ہم شہر کے مرکزی حصے کی بجائے مضافاتی علاقے کی طرف جا رہے تھے۔ جُوں جُوں شہر سے دور ہورہے تھے کھلے پن کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شہر کے اندر زیادہ بڑی تو نہیں لیکن چار پانچ منزلہ عمارتیں تو تھیں۔ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد کہیں دو منزلہ عمارت بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ زیادہ ترایک منزلہ مکانات تھے جو بڑے بڑے پلاٹوں کے ایک حصے پر بنے ہوئے تھے۔ بقیہ خالی حصہ پھولوں اور پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ مکانات کا درمیانی فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ چھدرے چھدرے مکانات تھے جو بڑے بڑے فارموں کے درمیان بنے تھے۔ یہ فارم پھولوں ، پودوں ، پھلدار درختوں اور مویشیوں کے باڑوں پر مشتمل تھے۔ٹیکسی ڈرائیور جو چند منٹ تک خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا ،اچانک گویا ہوا ’’آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ ‘‘
لب ولہجے اور رنگت سے وہ بھی ایشیائی نظر آرہا تھا۔ لہذا میںنے آسٹریلیا کے بجائے اسے پاکستان بتایا۔ اس نے اُردو میں کہا ’’میرا تعلق بھی پاکستان سے ہے‘‘
میں نے ایک قدم آگے بڑھ کر انگریزی اور اُردو کی بجائے پنجابی میں کہا’’ بھئی! یہاں شدھ گوروں کے دیس میں اپنے ہم وطن سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔میرا نام طارق مرزا ہے اور آپ؟‘‘
’’ جی ! اسد ملک‘‘
’’ اسد! کب سے یہاں ہیں؟ ‘‘
’’ جی پاکستان چھوڑے تو دس سال ہو گئے ہیں ۔لیکن یہاں لیوژرن میں پچھلے چھ سا ل سے رہ رہا ہوں۔ میں پانچ سال سے یہاں ٹیکسی چلا رہا ہوں لیکن آپ میرے پہلے پاکستانی پیسنجر ہیں ۔یہاں دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں لیکن میں نے کسی پاکستانی کو کبھی نہیں دیکھا‘‘
’’ اچھا! ہو سکتا ہے کچھ اور پاکستانی بھی یہاں آئے ہوں لیکن آپ کی ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو؟ ‘‘میں نے کہا
’’جی! ہو سکتا ہے‘‘
’’ اسد آپ کے علاوہ یہاں اور پاکستانی بھی رہتے ہیں ‘‘
’’پانچ چھ ہیں ۔ان میں سے دو فیملیاں ہیں اور ایک صاحب کنوارے ہیں ۔اچھا ہے جی! یہاں زیادہ پاکستانی نہیں رہتے اور نہ گھومنے کے لئے زیادہ آتے ہیں‘‘ اسد نے کچھ عجیب سے لہجے سے کہا۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر اداسی کا رنگ بکھرا نظر آیا۔ میں نے اسے کریدنے کے لئے پوچھا’’ آپ کیوں نہیں چاہتے کہ یہاں زیادہ پاکستانی آکر رہیں یا پاکستانی سیاح آئیں ۔کیا آپ اپنے ہم وطنوں کو پسند نہیں کرتے؟ ‘‘
اسد نے ہولے سے کہا’’ نہیں جی! یہ بات نہیں ہے۔ کسی پاکستانی کو دیکھ کر میرا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ مجھے آپ سے اپنے وطن کی خوشبو آرہی ہے۔ میں تو یہاں رہ بھی مجبوراً رہا ہوں۔ اگر میرے بس میں ہو تو ایک دن بھی یہاںنہ رُکوں اور اُڑکر وطن پہنچ جاوٗں‘‘
’’ میرا سوال تو ابھی تک وہیں ہے کہ آپ کیوں پاکستانیوں کو یہاںنہیں دیکھنا چاہتے ؟ ‘‘
’’جی! مجھے ڈر لگتا ہے‘‘ اس نے کہا
میں نے مزید حیراں ہو کر پوچھا’’ کس سے ؟ پاکستانیوں سے؟‘‘
’’نہیں جی! اپنی قسمت سے! ‘‘
’’میں سمجھ نہیں سکا، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے سوالات کا سلسلہ جاری رکھا
’’ چھوڑیں مرزا صاحب ! یہ لمبی کہانی ہے۔ آپ یہاں گھومنے پھرنے آئیں۔خوشگوار وقتگزارنے آئے ہیں ۔میں اپنی کہانی سے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا ‘‘
’’ مائی ڈیئر اسد ملک ! آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں دنیا گھومنے ضرور نکلا ہوںلیکن میری دلچسپی کا اصل مرکز انسان ہے۔ عمارتیں، پہاڑ اور دریا نہیں۔ انسان اور اس کے اندر پوشیدہ کہانیاں ہی مجھے دوسرے جہانوں کی سیر کراتی ہیں۔ نئے نئے جہانوں اور نئے نئے کرداروں کے ذریعے میری سیاحتی حس کوتسکین مہیا کرتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی کردار مجھے نظر آجائے تو ان پتھروں اور جنگلوں سے زیادہ اس کے دل میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اصل سیاحت ہی یہی ہے کہ دلوں کی دنیا میں جھانک کر نئے نئے جذبوں اور تجربوں سے خود کو روشناس کر ا یا جائے ۔ دلوں کی اس دنیا سے زیادہ دلچسب چیز کوئی نہیں ہے‘‘
اسی دوران ٹیکسی ایک بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے فارم کے مرکز میں بنے مکان کے سامنے جا کر رک گئی۔ یہ فارم کم از کم پانچ ایکڑ کا تھا۔ جس میں پھول، پودے اور پھلدار درخت ہر طرف بہار دکھا رہے تھے۔ فارم کے ایک حصے میں مجھے چند گھوڑے ، گائیں اور بھیڑیں بھی نظر آرہی تھیں۔ گاڑی رکتے ہی اسمتھ اور میری باہر نکل آئے۔ اسد ملک نے گاڑی سے اتر کر ہولے سے کہا’’ آپ کے سوال کا جواب کافی طویل ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہاں کب تک رکیں گے؟ مجھے وقت بتا دیں میں آپ کو لینے آجاوٗں گا اور باقی باتیں پھر ہوں گی‘‘
میں نے کہا’’ یہ ٹھیک ہے۔ آپ نو بجے آجائیں میں تیار ملوں گا‘‘
میں نے جب اسے کرایہ دینا چاہا تو اسد نے میرا ہاتھ روک دیا اور بولا’’ مجھے شرمندہ تو نہ کریں۔ آپ نو بجے تیار رہیںمیں پہنچ جاوٗں گا‘‘
اس نے یو ٹرن لیا اور ہاتھ ہلاتا ہوا واپس چل دیا۔
اس دوران اسمتھ اور میری میرے پاس پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے شاید اسد سے میرا آخری مکالمہ سن کر اندازہ کر لیا تھا کہ وہ بھی پاکستانی ہے۔ میری نے کہا’’ تم نے اپنے دوست کو کیوں واپس کر دیا۔ اسے بھی ساتھ لے آتے‘‘
اصل میں لیوژرن میں بغیر سائن کے ٹیکسیاںچلتی ہیں۔اس لیے اسمتھ اورمیری نے سمجھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ پرائیویٹ کار میں آیا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کے وہ میرا ہم وطن ضرور ہے۔ لیکن اس سے یہ میری پہلی ملاقات ہے اور اس کی ٹیکسی میں یہاں آیا ہوں۔ اسمتھ نے پوچھا ’’لیکن اس نے کرایہ نہیں لیا ‘‘
’’ ہاں ! کیونکہ اسے میرے پاکستانی ہونے کا علم ہو گیا تھا، اسی لیے‘‘
اسمتھ اور میری نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے چہروں پر ایک عجیب سی چمک دکھائی دی۔ میری اور اسمتھ کا گھر اندر سے سادہ مگر صاف ستھرا اور قرینے سے سجا ہوا تھا۔ وہ دونوں میاں بیوی باتیں کرتے ہوئے مجھے ڈرائنگ روم کی بجائے سیدھا کچن میں لے گئے ۔کچن اتنا بڑا تھا کہ کھانے کی میز وہیں لگی ہوئی تھی۔ میری نے فوراََمیرے آگے گرم گرم سبزیوں کا سوپ لا کر رکھ دیا۔ میں نے اسمتھ سے کہا’’ تمھارا گھر بہت بڑا ہے۔ یہ فارم کتنے ایکڑ کا ہے؟‘‘
’’ پانچ ایکڑ! یہ ہم نے اپنی جوانی کے دور میں خریدا تھا۔ اب تو یہاں بھی زمین کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں‘‘
’’ کیا اُس وقت بھی آپ ریسٹورنٹ چلاتے تھے یا کوئی اور کاروبار تھا ‘‘میں نے پوچھا
’’ میری ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی تھی اور میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ میرے کئیٹرک تھے جو یورپ کے مختلف ملکوں کے درمیان چلتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ سب ختم ہو گیا۔ اب ہم نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے یہ چھوٹا ریسٹورنٹ کھول رکھا ہے جس سے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی ہے‘‘
’’ اس فارم اور مویشیوں سے بھی تو آپ کچھ نہ کچھ کما رہے ہوں گے‘‘
’’ کچھ خاص نہیں! دو گھوڑے ، چند گائیں اور چند بھیڑیں ہیں ۔یہ بھی شوقیہ پال رکھے ہیں ۔ورنہ ان سے کچھ نہیں ملتا‘‘ اس دفعہ اسمتھ کی بجائے میر ی نے میرے سامنے بیٹھتے ہوئے جواب دیا ۔
میں نے اپنی جرح جاری رکھتے ہوئے پوچھا’’ آپ دونوں تو ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہیں۔ انہیں کون سنبھالتا ہے؟‘‘
میری نے کہا’’ ان کی دیکھ بھال میں ہی زیادہ تر کرتی ہوں۔ ویسے ان چند جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کچھ زیادہ محنت نہیںکرنا پڑتی۔ ان کی خوراک کا ذخیرہ ہر وقت ہمارے پاس موجود رہتا ہے۔ تازہ گھاس ہمارے اپنے فارم میں کافی ہوتی ہے۔ روزانہ صبح شام تھوڑا ساوقت ان کے لئے نکالنا پڑتا ہے۔ کچھ وقت میں گھر کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہوں۔ کبھی کبھار ریسٹورنٹ جا کر اسمتھ کی مدد بھی کر آتی ہوں۔ میں ریسٹورنٹ میں روزانہ نہیں جاتی‘‘
دراصل جانوروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے جو سوال میں نے کیا تھا، اس کا پسِ منظر پاکستان کا کسان ہے جو چند گائیوں، ایک آدھ بھینس یا چند بکریوں کے چارے کے لئے سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ان کے پینے کے پانی کا بندوبست کرتا ہے۔ اور سردی، گرمی اور دن رات کے حساب سے انہیں کمروں کے اندر یا باہر باندھتا ہے۔ وہ ایک یا دو جانوروں کے لئے صبح سے شام تک مصروف رہتا ہے۔ لیکن میں یہ بات بھول گیا تھا کہ یورپ اور آسٹریلیا کے کسان ان تمام مسائل سے مبرا ہیں ۔ یہاں بڑے بڑے فارم ہوتے ہیں جہاں جانور کھلے پھرتے رہتے ہیں ۔ا نہیںہانکنے اور کل وقتی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں ہوتا۔ جانور خود ہی کھاتے پیتے ہیں ۔ تاہم سردیوں میں شام کو انہیں ہانک کر ایک بڑے باڑے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ اس طرح جگہ اور چارے کی فراوانی کی وجہ سے کسان فالتو محنت سے بچا رہتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل سڈنی میں میری ملاقات اندرون آسٹریلیا سے آئی ہوئی ایک کسان عورت سے ہوئی۔ میں نے اس سے ذریعہ معاش پوچھا تو کہنے لگی ’’ہمارا مویشیوں کا چھوٹا سا فارم ہے جہاں چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں ہیں۔انہی سے ہمارا گزارا ہوتا ہے‘‘
میں نے حیرانگی سے کہا’’ چھ سو گائیں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑیں اور چھوٹا سا فارم ؟ ‘‘
وہ اطمینان سے بولی’’ یہ نسبتاً چھوٹا فارم ہے۔ آسٹریلیا میں زیادہ تر فارموں میں ہزاروں کے حساب سے گائیں اور بھیڑ یں ہوتی ہیں‘‘
’’ تو اس چھوٹے سے فارم کی دیکھ بھال کے لئے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ ‘‘
’’کتنے لوگ! میں اکیلی کرتی ہوں ۔میرا خاوند ٹریکٹر اور دوسری مشینوں کے ساتھ کھیتی باڑی میں مصروف رہتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال میرے ذمہ ہے‘‘
میں حیرانگی سے اس عورت کو دیکھنے لگا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھاکہ چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزار بھیڑ وں کی دیکھ بھال ایک عورت کرتی ہے۔ میری حیرت اس سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ اسی متانت اور سنجیدگی سے بولی’’ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ان جانوروں کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بیمار وغیرہ تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی ہمارے فارم میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ وہ خود ہی چر کر اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ جب رات آتی ہے تو سو جاتے ہیں۔ ہاں ایک مخصوص مدت اور عمر کے لحاظ سے انہیں مختلف بیماریوں سے حفاظت کے ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں۔ علاوہ ازیں بھیڑوں کی اون کترنے والوں کو بلانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ زیادہ تر انتظامی نوعیت کے کام ہوتے ہیں اور ان کا شیڈول مقرر ہوتا ہے۔ جسے کوئی بھی شخص بغیر کسی دقّت کے انجام دے سکتا ہے‘‘
میں نے پھر پاکستانی پسِ منظر کے تحت دریافت کیا’’ جانوروں کو جب کھلا چھوڑ دیا جاتاہے تو وہ گم نہیں ہو تے یا چوری نہیں ہو تے یا دوسروں کے علاقے میں نہیں چلے جاتے‘‘
وہ کہنے لگی’’ ایسا کچھ نہیںہوتا ۔کیونکہ ہر فارم کے ارد گر دباڑ لگی ہوتی ہے لہذا مویشی اپنی حدود کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اگر کہیں چلے بھی جائیں تو اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔ انہیں کوئی نہ کوئی واپس کر دیتا ہے‘‘
یہ باتیں جب میں نے پہلی دفعہ سنیں تو مجھے پاکستانی اور آسٹریلین کسان کے درمیان بہت بڑے فاصلے کااحساس ہوا ۔ پاکستان میں کسی نے ایک بکری بھی پال رکھی ہو تو پورا گھر اس کی خدمت میںلگا رہتا ہے۔ اسے باہر جا کرچرایا جاتا ہے۔ جس میں پورا پورا دن صرف ہو جاتا ہے۔ گھر میں بھی اس کے چارے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے مزید وقت لگتا ہے۔ پھر صبح شام اور دن رات اسے اندر یا باہر منتقل کرنا، اس کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنا ، یہ ایک کل وقتی کام ہے جس میں بعض اوقات دو دو فرد لگے رہتے ہیں۔
دوسری جانب آسٹریلیا کی یہ کسان عورت تھی جو اکیلی ہی چھ سو گائیوں اور ڈیڑھ ہزاربھیڑوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اور جب شہر میں کوئی کام آن پڑے تو پینٹ اور کوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لئے اس طرح جہاز سے اترتی ہے جیسے کسی بڑی فرم کی ڈائریکٹر ہو ۔ یہ وہ کسان عورت ہے جسے پوری محنت کیباوجود دنیا کے ایک خطے میں دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ لیکن دوسر ے خطے میں وہ اتنی خوشحال اور پر اعتماد ہے کہ اس کے درمیان اور شہر کے بڑے کاروباری فرد کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ آسٹریلیا ہو یا یورپ یہاں کسان جدید مشینوں ، کھلی زمینوں اور وافر وسائل کی بدولت ان مسائل سے نہیں گزرتاجس سے تیسری دنیا کے کسان کو گزرنا پڑتا ہے۔
میری کی باتوں سے میرا دھیان اُس آسٹریلین کسان عورت کی طرف چلا گیا تھا۔ میری اور اسمتھ سے باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔بیچ بیچ میں میری کوئی ڈش بنا کر لے آتی۔ پھر ہمارے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگتی ۔ آدھ گھنٹے بعد پھر اٹھتی اور کچھ اور بنا کر لے آتی۔ باتوں باتوں میں میری اور اسمتھ نے مجھے اتنے پیار سے ڈنر پر بلانے کی وجہ بھی بتا دی۔ میری نے کہا’’ تم نے اتنے پیار سے آنٹی کہہ کر مجھے بلایا تو مجھے بہت اچھا لگا ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے ہمارا ایک خصوصی تعلق اور اُنسہے۔ اس تعلق کے حوالے سے ہمیں ہر پاکستانی سے محبت ہے ۔مجھے میری کی باتیں اچھی بھی لگیں اور عجیب بھی۔ کیونکہ پاکستان اتنا مشہور ملک نہیں ہے۔ یورپ اور آسٹریلیا کے بہت کم لوگ وہاں گئے ہیں۔ عام لوگوں کی پاکستان کے بارے میں معلومات ناکافی ہوتی ہیں۔ پُر تعصب میڈیا پاکستان کے حوالے سے اکثر کوئی نہ کوئی منفی خبرلگاتا رہتاہے۔ عام لوگوں کو پاکستان اور اس کے لوگوں کی اچھائیاں تو معلوم نہیں ہو پاتیں۔ تا ہم یہ منفی باتیں خوب یاد رہ جاتی ہیں۔ اسپسِ منظر میں اسمتھ اور میری کا پاکستان کے بارے میں یہ مثبت بلکہ والہانہ انداز اپنے اندر کوئی کہانی سمیٹے ہوئے تھا۔ میں وہی سننا چاہتا تھا۔ باتوں باتوں میں ہماری گفتگو اسی موضوع کی طرف آنکلی جو میں چاہتا تھا۔ اسمتھ نے بتایا کے آج سے 25سال پہلے ان دونوں میاں بیوی نے پاکستان کی سیر کی تھی۔ اس دوران ان کو جو تجربات پیش آئے وہ اسمتھ کی زبانی ہی سنئے۔
ہمیں ذبح کرنے کی تیاری تو نہیں ہورہی
ہم دنیا کے دور ے کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ یورپ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کا سفر ہم نیسڑک کے راستے کیا۔ اس مقصد کے لئے ہم نے خصوصی طور پر ایک مضبوط جیپ خریدیتھی جس نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ لیکن ہر مشین کی طرح ہماری جیپ بھی دورانِ سفر ایک مقام پر دھوکا دے گئی۔ یہ مقام پاکستان کا شہر لاہور تھا۔ ہم بھارت کے سفر کے بعد لاہور پہنچے جہاں سے پشاور اور آگے افغانستان جانا تھا۔ لاہور کے نزدیک ہماری گاڑی کا ٹرانسمشن جواب دے گیا ۔شا م کا وقت تھا۔ ہم نے لاہور کے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا ۔ رات وہاں گزاری۔ اگلی صبح ہوٹل والوں کی مدد سے ایک بڑی ورکشاپ میں جا پہنچے۔ ورکشاپ والوں نے گاڑی کی جانچ پڑتا ل کے بعد ہمیں بتایا کہ ٹرانسمیشن باکس ناقابلِ مرمت ہے اور نیا لگانا پڑے۔ نئے گیئر باکس اور مزدوری سمیت انہوں نے تیس ہزار روپے کا بِل بنایا۔ ہمارے پاس کوئی اور چارا نہ تھا لہذٰا ہم نے یہ رقم ادا کرنے کی حامی بھرلی۔
چار پانچ گھنٹے میں گاڑی تیار ہو گئی اور ہم پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے صدر مقام پشاور کے لئے روانہ ہو گئے۔ پنجاب کے سرسبز میدانوں اور جہلم کے آگے کے سطح مرتفع علاقوں سے گزر کر جب ہم راولپنڈی کے نزدیک پہنچے تو گیئر باکس سے عجیب و غریب آوازیں برآمد ہونا شروع ہو گئیں۔ آدھا دن ضائعکرنے اور تیس ہزار روپے کی رقم خرچ کرنے کے بعد گیئر باکس کی دوبارہ خرابی ہمارے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنی۔ ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے گاڑی کے گیئر بکس میں آوازوںکا سلسلہ بھی بڑھتا چلا جارہا تھا۔ علاوہ ازیں گاڑی جھٹکے بھی دینے لگی تھی ۔ا س وقت ہم پشاور سے پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں گے کہ گیئر بکس نے مکمل طور پر جواب دے دیا اور گاڑی جھٹکے لے کر بند ہو گئی۔
سردیوں کا موسم تھا۔ شام کے چھ بجے ہی اندھیرا پھیل چکا تھا۔ جہاں ہماری گاڑی خراب ہوئی خوش قسمتی سے وہ جگہ ایک گائوں یا چھوٹے سے قصبے سے زیادہ دور نہیں تھی۔ کسی ویرانے میں ایسا ہو جاتا تو بہت مشکل پیش آتی۔ ہم دونوں میاں بیوی گاڑی کو وہیں چھوڑ کر تقریباً دو فرلانگ دور اس قصبے میں پہنچے۔ اندھیرا اچھا خاصا پھیل چکا تھا۔ وہاں ایک چائے خانہ یا چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا ۔جہاں چند میزوں پر کچھ مرد بیٹھے چائے وغیرہ پی رہے تھے۔ ہم نے ان سے کسی ورکشاپ یا مکینک کے بارے میں دریافت کیا۔ وہاں زبان کا مسئلہ آڑے آگیا۔ انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی جب کہ ہم پشتو یا اُردو سے نا بلد تھے۔ بہر حال اشاروں کی بین الاقوامی زبان کی مدد سے ہم نے انہیں اپنا مسئلہ سمجھا دیا۔ انہوں نے ہمیں ایک میز پر بٹھایا ،چائے پلوائی۔ اتنی دیر میں ان میں سے ایک جا کر کسی مکینک کو پکڑ لایا۔ خوش قسمتی سے وہ مکینک گزارے لائق انگریزی سمجھ اور بول سکتا تھا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی ۔جس میں بیٹھ کر ہم جیپ کے پاس پہنچے ۔مکینک جس کا نام افضل خان تھا اس نے ٹارچ کی مدد سے گاڑی کو چیک کیا۔ اسے اسٹارٹ کیا، تھوڑی دور تک چلائی اور پھرہمیں بتایا کہ گیئر بکس میں کافی بڑی خرابی ہے جسے دن کی روشنی اور ورکشاپ میں ہی مرمت کیا جاسکتا ہے۔
ہم پریشان ہو گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ اس گائوں میں تو کوئی ہوٹل بھی نہیں تھا۔ ہم اس سردی میں رات کہاں گزاریں گے۔ تیس ہزار روپے خرچ کر کے مسئلہ جوں کا توںباقی تھا۔ ہمیں لاہور کے مکینک پر سخت غصہ تھا اور اپنے خون پسینے کی رقم کے زیاں کا افسوس بھی تھا۔ افضل خان سے ہم نے دریافت کیا ’’کیا یہاں کوئی ہوٹل ہے جہاں ہم رات گزار سکیں؟‘‘
افضل خان جسے ہم نے لاہور میں ہونے والی مرمت اور وہاں ادا کی ہوئی رقم کے بارے میں بھی بتایا تھا ہمارے ساتھ بہت ہمدردی سے پیش آیا۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا ’’نہیں ! یہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے مگر آپ فکر نہ کریں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ رات ہمارے ہاں گزاریں صبح دیکھیں گے کہ آپ کی گاڑی کا کیا کیا جا سکتا ہے‘‘
میری اس صورت ِحال سے خوف زدہ سی نظر آرہی تھی۔ اس نیکیفے میں بھی دیکھا تھا کہ مرد اپنے گلے میں پستول لٹکائے ہوئے تھے۔ گائوں کے راستے میں بھی ہم نے کئی لوگوں کو بندوقیں ہاتھ میںاٹھا ئے دیکھا تھا۔ ویران سا گائوں تھا۔ بہت کم لوگ اِدھر اُدھر آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ جو اکا دکا نظر آتا تھا وہ بھی بڑی بڑی مونچھوں ، لال سرخ آنکھوں، کھلے کھلے کپڑوں اور ہتھیاروں سے سجا’’ خطرناک‘‘ دکھائی دیتا تھا۔افضل خان کے پاس ہمیں ہتھیار تو نظر نہیں آیالیکن اس کا حلیہ بھی باقی پٹھانوں سے مختلف نہ تھا۔ اس صورت حال میں کسی اجنبی ملک کے اجنبی شخص کے ہاں رات گزارنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا۔میری نے ڈر کی وجہ سے میرا بازو تھاما ہوا تھا۔ میں بھی اندر سے تو خوفزدہ تھا لیکن میری کو تسلیاں دے رہا تھا۔ افضل خان کو ہماری ہچکچاہٹ سے ہمارے خوف کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے براہ ِراست میر ی کے سامنے آکر کہا ’’مجھے آپ کی کیفیت کا اندازہ ہے ۔لیکن آپ ہماری روا یات سے آشنا نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو اپنا مہمان بنایا ہے تو آپ کی حفاظت اور تمام ذمہ دار ی میرے اُوپر ہے ۔آپ میری بہن کی طرح ہیں۔ میرے گھر میں بھی بیوی اور بیٹی موجود ہے۔ آپ بے فکر ہو کر میرے ساتھ چلیں‘‘
ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ افضل خان کی باتوں نے ہمارا خوف قدرے کم کر دیا۔ ہم نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ افضل خان نے ہماری گاڑی اپنی گاڑی کے پیچھے باندھی۔ ورکشاپ کے سامنے جیپ پارک کر کے ہم نے ضروری سامان اس سے نکالا اور افضل خان کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر چلے گئے۔ ہم پہلی دفعہ کسی پاکستانی گھر کے اندر داخل ہوئے تھے۔ باہر سے یہ گھر بھی عام سا ، سادہ سا بلکہ بوسیدہ سادکھائی دیتا تھالیکن اندر سے خوب سجا ہوا اور صاف ستھرا تھا۔ افضل خان نے میری کو اندر زنا ن خانے میں بھیج دیا ۔ میں اس کے ساتھ بیٹھک میں جا بیٹھا جہاں زمین پر نر م قالین بچھا ہوا تھا۔ اوپر کڑھی ہوئی چادر یں بچھی تھیں۔ چاروں طرف نرم نرم تکیے رکھے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں افضل خان کی بیٹھک میں لوگ آنا شروع ہو گئے۔ ایک گھنٹے میں قریباً پندرہ مرد میرے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ افضل خان نے بتایا کہ یہ میری وجہ سے بلکہ مجھے ملنے آئے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ پٹھانوں کا رواج ہے کہ ایک گھر میں مہمان آئے تو وہ پورے محلے اور گائوں کا مشترکہ مہمان ہوتا ہے۔ سب لوگ اس سے ملنے آتے ہیں۔ باری باری ہر گھر میں اس کی دعوت کی جاتی ہے اور ہر رات گائوں کے سب لوگ اکھٹے ہو کر مہمان کی دلجوئی کرتے ہیں۔
میں نہ صرف اس روایت اور اس رواج سے لا علم تھا بلکہ یورپین معاشرے سے تعلق کی وجہ سے یہ سب کچھ میرے لئے ناقابلِ یقین تھا۔ جسے ہم انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ کہتے ہیں وہاں پڑوسی کو پڑوسی کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اکیلے لوگ اپنے گھر میں مر بھی جاتے ہیں تو دنوں اور ہفتوں تک کسی کو خبر نہیں ہوتی حتیٰ کہ لاش سے بدبو آ نے لگتی ہے۔ پھر پولیس یا کسی اور سرکاری محکمے کے کارندے آکر لاش اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ کسی شخص کے ساتھ کوئی زیادتی کر رہا ہو تو کوئی مدد کو آگے نہیں بڑھتا۔کسی کو اپنے گھر میںرہنے کی دعوت دینے کا تو تصور ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار شادی بیاہ یا مرگ کی تقریب میں شرکت کے لئے یا محض ملنے کے لئے دوسرے شہر یا ملک سے آتا ہے تو اسے اپنے گھر میں کوئی نہیں ٹھہراتا ۔وہ اپنے خرچ پر ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دن میں کسی ایک کھانے کے وقت اسے گھر یا ریسٹورنٹ میں دعوت دے دی جاتی ہے۔ پھر میزبان اپنے گھر اور مہمان واپس ہوٹل میں چلا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ باپ بیٹے یا بیٹی سے ملنے آئے تو بھی اس کی اس سے زیادہ خدمت نہیں کی جاتی۔ مگر پاکستان جیسے پسماندہ ، غریب اور انتہائی کم شرحِ تعلیم والے ملک میں ہم جیسے انجانے پردیسیوں کو اس طرح کی عزت افزائی ملے گی یہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
کھانے کا وقت آیا تو ہمارے آگے اتنی بہت سی ڈشیں سجا دی گئیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں تھا۔ افضل خان نے بتایا کہ اسے ہمارے کھانوں اور پسند کا علم نہیں ہے۔ پاکستانی کھانوں کی مختلف ڈشیں اس لئے بنوالی ہیں کہ ان میں کچھ تو ہمیں پسند آئیں گی۔ کھانا انتہائی لذیذ تھا۔ ہر ڈش بے مثال اور انوکھی تھی۔ لگتا تھا کہ ہم کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے انتہائی ماہر باورچی کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانے میں ہمارے ساتھ سبھی حاضرین شامل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ تھوڑی بہت انگریزی جانتے تھے جبکہ زیادہ تر اس سے نابلد تھے۔ لیکن ان کی آنکھوں میں موجود محبت واضح طور پر پڑھی جا سکتی تھی۔ افضل خان میزبانی کے ساتھ ساتھ ترجمانی کے فرائض بھی ادا کر رہا تھا ۔ غرضیکہ رات گئے تک یہ محفل جاری رہی جس سے میں بے انتہالطف اندوز ہوا ۔اس دوران میں نے پہلے کافی پی جو خصوصی طور پر میرے لئے بنائی گئی تھی۔ پھر دوسرے میزبانوں کے ساتھ ساتھ ان کا من پسند قہوہ بھی نوشِ جان کیا جو دراصل کافی سے زیادہ ذائقے دار تھا۔
رات گئے مجھے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ جہاں صاف ستھرا بستر اور بڑا سا اونی کمبل (رضائی ) موجود تھا ۔ وہاں میں نے میری سے اُس کا حال دریافت کیا ۔ وہ بھی میری طرح اپنے میزبانوں سے بہت متاثر تھی ۔ اس نے دل کھول کر افضل خان کی بیوی اور دیگر عورتوں کی محبت اور خاطر مدارت کی تعریف کی۔ تا ہم زبان کا مسئلہ ان کے درمیان حائل رہا ۔ وہ ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت نہیں کرسکی تھیں۔ ہم دونوں کے دلوں میں افضل خان ااور ان کے اہلِ محلہ کی عزت اور محبت بس گئی۔ شام کو گاڑی خراب ہونے اور پھر ہوٹل کی عدم دستیابی کیے بعد جو پریشانی اور خوف و ہراس ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا وہ قدرے دور ہو گیا ۔
لیکن اس نئے ملک کے حالات، کلچر ،زبان اور رسم و روایات سے لا علمی کی وجہ سے ابھی بھی ذہن میں کئی اندیشے کلبلا رہے تھے۔ کبھی خیال آتا کہ ہمیں قربانی کے بکرے کی طرح کھلا پلا کر ذبح کرنے کی تیاری تو نہیں کی جارہی ۔ رات کے اندھیرے میں اس ویران سے گاوٗں میں ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو جاتا تو کسی کو علم بھی نہیں ہو پاتا۔ ہمارے پاس جو زادِ رہ اور گاڑی ہے وہ چھیننے کے لئے یہ سب ڈرامہ تو نہیں رچایا جا رہا۔ اگلے لمحے افضل خان اور دوسرے پاکستانیوں کے رویے کی طرف دھیان جاتا تو اپنے اندیشے بے بنیاد محسوس ہونے لگتے۔ پھر خیال آتا کہ رہائش ، کھانے پینے اور گاڑی کی مرمت کے معاوضے کے طور پر یہ لوگ نہ جانے کتنے روپے لیں گے۔ اب تو ہمارے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ ہر صورت میں افضل خان سے گاڑی مرمت کروانی پڑے گی۔ تیس ہزار لاہور میں دیئے ہیں۔ یہاں نہ جانے کتنا جرمانہ ادا کر نا پڑے ۔ انہی خیالات میں کھو کر جو کبھی مثبت اور کبھی منفی بن کر کبھی ڈراتے اور کبھی دلاسا دیتے رہے ہم نیندمیں گم ہوتے چلے گئے۔
رات خیریت سے گز گئی۔علیٰ الصبح ناشتے کے بعد میری کو افضل خان کے گھر چھوڑ کر میں اور افضل خان ورکشاپ پہنچے۔ وہاں جا کر علم ہو اکہ افضل خان اس گیراج کا مالک بھی ہے۔ اس کے علاوہ چار مزید افراد بھی وہاں کام کرتے تھے۔جو ہمارے پہنچنے سے پہلے وہاں موجود تھے ۔ یہ ورکشاپ چھوٹی سی اور جدید ٹیکنالوجی سے محروم تھی۔ لیکن افضل خان اور اسکے ساتھیوں نے جب گاڑی کا گیئر باکس کھول کر اس کی مرمت شروع کی تو ان کی مہارت کا قائل ہونا پڑا۔ گیئر باکس کے اندر کافی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی تھی۔ اگر ہم سوئٹزرلینڈ میں ہوتے تو اس کی مرمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ہر صورت میں نیا گیئر باکس ڈالا جاتا ۔ لیکن افضل خان اور اس کے ساتھی مکینکوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔ انہوں نے گیئر بکس کا قریب قریب ہر پرزہ الگ کر دیا۔ پھر ان پرزوں کو جوڑکر گیئر بکس کو انتہائی مضبوط طریقے سے اسمبل کیا۔ چھ گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد جس میں مجموعی طور پر تین ماہر افراد مسلسل مصروفِ کار رہے گیئر باکس دوبارہ کار میں لگا یا گیا۔اس کے بعد جب ہم نے گاڑی اسٹارٹ کر کے چلائی تو گیئر بکس بہترین انداز میں کام کر رہا تھا۔
دراصل افضل خان نے اسے نئے گیئر بکس سے بھی مضبوط بنا دیا تھا۔ سہ پہر تین بجے تک گاڑی بالکل تیار ہوچکی تھی۔ میں افضل خان کے ساتھ اس کے گھر گیا۔ وہاں لنچ کر نے کے بعد میں اور میری اپنی اگلی منزل یعنی پشاور کی جانب روانہ ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ میں نے اپنی جیپ سے پرس نکالا اورافضل خان سے اس کا بل طلب کیا۔ افضل خان نے کہا ’’بل تو آپ پہلے ہی ادا کر چکے ہیں ۔ہم آپ سے دوبارہ تو نہیں لے سکتے‘‘
میں نے حیرانگی سے پوچھا’’ میں نے تو پہلے تمھیں کوئی بل ادا نہیں کیا۔تم کس بل کی بات کر رہے ہو؟ ‘‘
’’میں اس بل کی بات کر رہا ہوں جو آپ لاہور میں ادا کرچکے ہیں‘‘
’’کیا بات کر رہے ہو افضل خان ! لاہور والے بل سے تمھار اکیا تعلق! تم نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ تقریباً پورا دن میری گاڑی پر صرف کیا ہے۔نئے پرزے بھی لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم تمھارے گھر میں رہے ہیں ۔کھایا ہے پیا ہے۔ میں اس بل کی بات کر رہا ہوں ۔مجھے بتاوٗ کل کتنی رقم مجھے ادا کرنی ہے؟‘‘
میں نے دیکھا کہ افضل خان کا چہرہ قدرے لال ہو گیا۔ ا س نے کہا ’’مسڑ اسمتھ آپ ہمارے گھر میں رہے اور کھایا پیا وہ آپ کی مہربانی ہے۔ کیونکہ مہمان تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس کے معاوضے کی بات کر کے ہمار ا دل تو نہ دکھائیں۔ جہاں تک گاڑی کی مرمت کا تعلق ہے آپ پاکستان میں ہمارے مہمان ہیں۔ گاڑی کے ایک نقص کے لئے دوبار بل وصول کر کے ہم پاکستانی آپ کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتے۔ لاہور میں آپ نے جو ادا کر دیے ہیں وہی اس مرمت کا معاوضہ ہے ۔میں آپ سے کوئی مزید رقم نہیں لوں گا ۔برائے مہربانی اصرار کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں‘‘
’’ لیکن مسڑ افضل تم اور تمھارے ساتھیوں نے سارا دن جو محنت کی ہے وہ۔۔۔۔ ‘‘
’’اس کا پھل اللہ دے گا ‘‘افضل خان نے میری بات کاٹ کر کہا ۔اس کے لہجے کی قطعیت، خدا پر راسخ بھروسے کا اظہار تھا’’ روزی رساں وہ ہے۔ ہماری محنت کا پھل یہ ہے کہ آپ پاکستان سے یہ تاثر نہ لے کر جائیں کہ پاکستانی بے ایمان ہیں۔ وہ معاوضہ تو پورا لے لیتے ہیں لیکن کام صحیح نہیں کرتے ۔اگر میرے ایک بھائی نے لاہور میں اپنے کام میں ذرا سی غفلت دکھائی ہے تو میں نے اس کام کو مکمل کرکے آپ کے دیے گئے معاوضے کا حق ادا کر دیاہے۔ کسی پر احسان نہیں کیا ہے۔ بلکہ آپ کو جو زحمت ہوئی ہے میں اس کے لئے بھی آپ سے معذرت خواہ ہوں‘‘
میں افضل خان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی بستے ہیں ۔ غربت میں غنا کا یہ عالم ہے۔ انسانیت کا کتنا درد موجود ہے ان کے عمل اور کردار میں ۔ میں نے دنیا دیکھی ہے۔ کردار کی یہ بلندی مجھے روئے زمین پر کہیں نظر نہیں آئی۔ انتہائی دولت مند اور قبر میں پاوٗں لٹکائے بڈھوں کو بھی ایک ایک ڈالر کے لئے اپنی ہی اولاد کو ترساتے دیکھا ہے۔ کہاں یہ لوگ کہ محدود وسائل کے باوجود دل کے اتنے غنی ہیں۔ افضل خان کا رویہ اور اس کی خوشی دیکھ کر میں اور میری نے رقم دینے پر مزید اصرار نہیں کیا ۔ہم بو جھل دل اور پرنم آنکھوں کے ساتھ افضل خان سے جدا ہوئے۔ افضل خان، پاکستان اور پاکستانیوں کے جذبہِ مہمان نوازی کو اپنے ذہن و دل میں بسا کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔
یہ نہ صرف ہمارے ورلڈ ٹور بلکہ ہماری زندگیوں کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ سوئٹزرلینڈ آنے کے بعد نہ صرف ہم نے یہ واقعہ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سنایابلکہ میری نے اُسے قلمبند کر کے ایک اخبار کو بھی بھیجا۔اخبار والوں کی فرمائش پر ہم نے انہیں افضل خان کی تصویر بھی مہیا کی جو اس مئوقراخبار کی زینت بنی۔ اس واقعے کے بعد ہر پاکستانی ہمارے لئے قابلِ عقیدت ہو گیاہے کیونکہ ہر پاکستانی کے چہرے میں ہمیں افضل خان نظر آتا ہے۔
خرید کر پینے چھوڑ دیئے ہیں
اسد ملک نے پورے نو بجے ہارن دیا۔ میں اسمتھ اور میری سے اجازت لے کر باہر نکل آیا۔ دونوں میاں بیوی نے بہت پیار سے مجھے رخصت کیا۔ میں نے بھی ان کی محبت بھری دعوت اور ان کے خلوص کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔ میری اور اسمتھ کو خدا حافظ کہہ کر میں دروازہ کھول کر اسد کے برابر پیسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسد نے پوچھا’’ کہیے ! کیسی رہی آپ کی دعوت ؟ ‘‘
’’اچھی ! بہت اچھی! ‘‘
’’ان گوروں کی خوراک توبہت مختلف ہے۔ وہاں آپ کے کھانے کے لائق کیا ہوگا؟‘‘ اس نے کہا
’’ ہاں! ہمارے ہاں سے بہت مختلف ۔ دیکھا جائے تو ہمارے حساب سے یہ کھانا نہیں تھا۔ اسے صرف اسنیکس کہا جا سکتا ہے۔ ہم دو گھنٹے تک کچن میں بیٹھے رہے۔ وقفے وقفے سے سوپ، سلاد ، مکئی کے بھٹے ،کیک اور کافی سے گپ شپ کے درمیان شغل کرتے رہے‘‘
’’ یہی کل ڈنر تھا ؟‘‘ اسد نے پوچھا
’’ اس کے علاوہ پیار، خلوص اور محبت بھی اس میں شامل تھی۔ بہرحال ان کے کھانے پاکستان کی طرح نہیں۔ جہاں بیک وقت مختلف ڈشیں سامنے رکھی جاتی ہیں۔ بیک وقت سب سے انصاف کرنا پڑتا ہے اور دس منٹ کے بعد ہاتھ دھو کر ڈکار لیتے ہوئے گھر کی جانب چل پڑتے ہیں۔ پاکستان میں دعوتوں میںکھانا اتنا زیادہ کھایا جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ زندگی کا پہلا اور آخری کھانا ہے۔ اس کے بعد کولڈ ڈرنک یا پانی کے تین چار گلاس غٹاغٹ حلق میں انڈیل کر کھانے کو نیچے اتارا جاتاہے۔ اگلے دس بارہ گھنٹے بلکہ ایک آدھ دن کے لئے پیٹ میں ایکتنکے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ بعض صاحبان کا تو یہ فارمولہ ہے کہ کھانااتناکھانا چاہئیے کہ یا تو میز پر کچھ باقی نہ رہے یاپیٹ میز سے ٹکرانا شروع ہو جائے۔ دعوتوں اور پارٹیوں میں سب سے پہلے کھانا لینے اور انتہائی سرعت سے کھانے کا تو جیسے مقابلہ ہوتا ہے۔ پارٹیوں میں کھانا لگتے ہی لوگ اس پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ایک منٹ کی تاخیر ہو گئی تو کھانے کے لئے کچھ بچے گا ہی نہیں۔ اس وقت لوگ اپنے ساتھ آئے ہوئے دوستوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ مرغی کی ٹانگوں اور بھنے ہوئے گوشت کے علاوہ میز پر اور بھی بہت ساری ڈشیں سجیہیں۔ ایسی دعوتوں میں سبزی یا دال کو ہاتھ لگانا تو جیسے گناہ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ روٹی اور چاول لینے کی بجائے صرف گوشت کھاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک دعوت میں ہم چند دوست موجود تھے۔ ایک صاحب نے جب ایک بڑی سی پلیٹ صرف گوشت سے لبا لب بھر لی تو ایک دوسرے دوست نے اسے ٹوکا کہ یہاں دوسری ڈشیں بھی رکھی ہیں۔ اس نے منہ بنایا، ہاتھ جھٹکا او کہا’’ ہٹاوٗ! دال اور سبزی کون کھاتا ہے‘‘
تیسریبے تکلف دوست نے کہا’’ تم تو ایسے کہہ رہے جیسے گھر میں بھی صرف گوشت ہی کھاتے ہو‘‘
ایک اور دوست کو بھی موقع مل گیا۔ اس نے بھی اسے رگیدنے کے لئے کہا’’ ہاں! گھر میں تو جیسے روز بکرا ذبح ہوتا ہے کہ دال اور سبزی سے یوں نفرت کا اظہار کر رہے ہو‘‘
ایک دو اور دوستوں نے بھی اس پر طنزیہ فقرے کسے۔ لیکن وہ صاحب سب دوستوں کے مذاق کو نظر انداز کر کے گوشت سے بھری ہوئی پلیٹ سے انصاف کر تے رہے۔ جب پلیٹ خالی ہوئی تو انہوں نے اسے دوبارہ بھر لیا۔ واپس میز پر آکر بیٹھے اور بولے’’ بس یا کسی اور کو بھی کچھ کہنا ہے۔ اب آپ سب توجہ سے میری بات سنیں کہ میں گھر میں کیا کھاتا ہوں۔ تو بھائی گھر میں روزانہ دال پکتی ہے۔ وہی کھاتا ہوں۔ ایسی دعوتوں اور پارٹیوں میں ہی تو گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ یہاں آکر بھی دال ہی کھاوٗں‘‘ پھر انہوں نے مزید اضافہ کیا ’’آخر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق جسم کو پروٹین کی مطلوبہ مقدار بھی تو مہیا کر نی پڑتی ہے وہ ایسی پارٹیوں جا کر پوری ہوتی ہے‘‘
سڈنی میں میرے ایک دوست ڈاکٹر ہیں۔ وہ مجھے ہمیشہ موٹاپے اور کولیسٹرول سے ڈراتے رہتے ہیں۔ مسالے دار کھانوں سے پرہیز کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اکثر پارٹیوں میں ان ڈاکٹر صاحب کو بھی میں نے کھانا کھاتے دیکھا ہے ۔ وہ گوشت والی ڈشوں سے پلیٹ بھر کر ایسے کھا رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جسم میں پروٹین کی مطلوبہ مقدار سال بھر کے لئے جمع کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو دن سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ انہیں کھاتے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگلے دو دن بھی ان کو کھانے کی حاجت نہیں ہو گی۔ اس کے باوجود ان کی سرجری میں جب بھی جاو ٗ ہمیں سبزیاں اور سلاد کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ گوشت اور موٹاپا بڑھانے والے دوسرے کھانوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے ڈاکٹر صاحب ہیں۔وہ ہمیشہ مجھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ سگریٹ نوش اپنی قبر خود کھودتا ہے۔ لیکن یہ ڈاکٹر صاحب خود ہر تین مریضوں کو دیکھنے کے بعد سرجری کے پیچھے بنے صحن میں جا کر سگریٹ کا دھواں اڑا رہے ہوتے ہیں۔ پارٹیوں میں جتنی سگریٹ فری ملیں پی لیتے ہیں۔ ہاں اتنا پرہیز ضرور کرتے ہیں کہ اپنے پیکٹ سے نہیں پیتے ۔ برانڈ کی پروا کئے بغیر ہر دوست کے پیکٹ سے سگریٹ لے کر ایسے کش لگاتے ہیں جیسے مریضوں کو دئے گئے مشورے کے مطابق صبح کی تازہ ہوا میں لمبے لمبے سانس لے رہے ہوں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کافی دوست دار اور گپ شپ کے شوقین ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ سگریٹ نوشی ترک کر رہے ہیں۔لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایک پارٹی میں جب انہوں نے مجھ سے سگریٹ طلب کی تو میں نے پوچھا ’’ڈاکڑ صاحب! آپ نے ابھی تک سگریٹ چھوڑے نہیں‘‘
کہنے لگے ’’خرید کر پینے چھوڑ دیئے ہیں‘‘
کھانے اور سگریٹ نوشی کی میری باتوں کے دوران پتا ہی نہیں چلا اور ہماری گاڑی ایک دو منزلہ عمارت کے کار پورچ میں جا رکی ۔ اس عمارت میں اُوپر نیچے آٹھ فلیٹ تھے۔ اسد نے گاڑی کا انجن بند کرتے ہوئے کہا’’ آئیے‘‘
میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ دراصل میں یہ توقع کر رہا تھا کہ اسد مجھے کسی کافی شاپ وغیرہ میں لے کر جائے گا ۔ یہ تو اس کا گھر لگتا تھا۔ اس نے میرا دروازہ کھولتے ہوئے پھر کہا’’ آئیے‘‘
اسد ملک کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا ۔ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے۔ اسد نے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکٹایا تو اندر سے سوئس زبان میں کچھ پوچھا گیا۔ جس کا مطلب میں نے اخذ کیا کہ کون ہے؟ اسد نے پنجابی میں کہا ’’میں ہوں دروازہ کھولو‘‘
اسد کی بیوی نے دروازہ کھولا اور ہم نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ اسد کی بیوی جس کا نام شبانہ تھا ،سے اسد نے میرا تعارف کروا یا۔ اس نے بیوی کو میرے بارے میں بتایا کہ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں ۔ اسد پنجاب کی دھرتی کا روایتی گبرو جوان تھا۔ گھنگریالے بال ، کالی آنکھیں، دراز قد اور مضبوط ہاتھ پاوٗں۔اسد کی طرح قدرت نے شبانہ کو بھی خصوصی حسن سے نوازا تھا۔ شبانہ حسن و نزاکت کا مرقع تھی۔ حسین کتابی چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں، چہرے پر دودھ کی ملائی کا پر تو ، گوری رنگت اور صراحی دار گردن۔ قدرت نے اس جوڑی کو فرصت میںتخلیق کیا تھا۔ اسد اور شبانہکی جوڑی خوب تھی۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خدا اس جوڑے کو نظرِ بد سے بچائے۔
اس وقت اگرچہ رات کے دس بجے تھے۔ لیکن ابھی تک دن کی روشنی باقی تھی۔ رسمی علیک سلیک اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد اسد نے بیوی سے کہا’’ بھئی ! خالی باتوں سے پیٹ نہیں بھرتا ۔کچھ کھانے پینے کا بندوبست بھی کریں‘‘
میں نے اسد سے کہا’’ آپ کو تو معلوم ہے کہ میں ابھی کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس لئے میرے لئے کسی تکلف کی ضرورت نہیں‘‘
اسد ہنس کربولا ’’مجھے علم ہے آپ کیا کھا کر آئے ہیں ۔میں نے خود بھی کھانا ابھی تک نہیں کھایا۔ آپ یورپین کھانا کھا کر آئے ہیں اب کچھ دیسی کھانوں سے زبان کا ذائقہ بدل لیں‘‘
لگتا تھا اسد نے شبانہ کو میری آمد سے پہلے مطلع کر دیا تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہیں ڈرائنگ روم کی کافی ٹیبل پر ہمارے آگے گرم گرم بریانی اور لذیذ شامی کباب موجود تھے ۔ قورمہ اور چپاتیاں بھی تھیں۔ میں اگر واپس ہوٹل گیا ہوتا تو اسمتھ اور میری کے ہاں کھائے ہوئے مکئی کے بھٹوں اور سلاد کو پورا کھانا سمجھ کر اب سونے کی تیاری کر رہا ہوتا ۔پردیسی ہونے کی حیثیت سے اس اجنبی ملک اور اجنبی شہر میں گھر کے بنے ہوئے ان ذائقے دار کھانوں سے انصاف نہ کرناکفران ِنعمت تھا۔ میں تھوڑا کھا کر ہاتھ کھینچتا تو اسد اور شبانہ اصرار کر کے میری پلیٹ میں کچھ اور ڈال دیتے۔ خصوصاً شبانہ بھائی کہہ کر پکارتی تو بہت اچھا لگتا۔ بہت دنوں بعد گھر کا ماحول اور کھانا نصیب ہوا تھا۔ جس میں اہلِ خانہ کے خلوص اور محبت کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ میں اس حسین جوڑے کے خلوص اور محبت سے بہت متاثر ہوا ۔لگتا تھا کہ قدرت نے انہیں ظاہر ی حسن کے ساتھ ساتھ باطنی خوبصورتی اور محبت کرنے والے دلوں سے بھی نوازا ہے۔ کھانے اور چائے کے ساتھ ساتھ باتوں کا دور چل نکلا ۔میں نے انہیں اپنے بارے میں بتایا او ر اسد سے اس کی کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی۔ اسد نے مجھے بتایاکہ پچھلے دس سال سے یورپ میں رہتے ہوئے میں پہلا شخص ہوںجسے وہ اپنی کہانی سنا رہے ہیں۔
وہ شکاری کتوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے
میرا تعلق پنجاب کے وسطی علاقے کے ایک چھوٹے سے شہر سے ہے۔ میری آنکھ ایک نچلے درجے کے زمیندار گھرانے میں کھلی۔ ہماری چند ایکڑ زمین تھی جس کی دیکھ بھال میرے والد صاحب کر تے تھے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ ان کے تمام پیار، ساری محبتوں اور توجہ کا واحدمرکز ۔میں بارہ سال کا تھا جب میری ماں چل بسی ۔ ماں کی جدائی میری زندگی کا بہتبڑا المیہ تھا ۔ ماں کی رحلت لڑکپن کی لااُبالی عمر کے باوجو میرے دل و دماغ پر ایک گہرا صدمہ ثبت کر گئی۔ میری ماں جو پیار اور ممتا کا خزانہ تھی جیسے مجھے تپتی دوپہر میں ننگے سر چھوڑ گئی ۔پیشتر اس کے کہ میں بالکل ہی بکھر جاتا میرے والد نے مجھے اپنی محبت اور شفقت کی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ والد صاحب پہلے ہی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ماں کے جانے کے بعد تو جیسے مجھے ایک پل کے لئے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے ۔ وہ چاہتے تو دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن میری وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مجھ پر سوتیلی ماں کا سایہ نہیں پڑنے دینا چاہتے تھے۔ ان کی ساری توجہ میری تعلیم و تربیت پر مرکوز ہو گئی۔ وہ خود پڑھے لکھے نہیںتھے لیکن ان کے دل میں علم کا شوقبہت تھا۔ وہ علم اور اہل علم کی بہت قدر کرتے تھے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ایک اچھا شہری بنوں اور علم و فکر کی شمع سے اپنے دل و دماغ کو منور کروں ۔ دنیا میں نام کماوٗں اور ان کا نام بھی روشن کروں۔ والد صاحب کی اس خواہش کا مجھے بہت احترام تھا۔میں نے بھی اس مد میں کوئی دقیقہ فردگزاشت نہیں کیا۔ پوری محنت اور جانفشانی سے تحصیلِ علم میں جُت گیا۔
پڑھنے کا مجھے خود بھی شوق تھا اور میرا دماغ بھی اچھا تھا۔ گھر میں مجھے کوئی پڑھانے والا نہیں تھا بلکہ گھر آکر مجھے زمینداری کے کام کاج میں والد صاحب کا ہاتھ بھی بٹانا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے آسانی سے میڑک سائنس کے ساتھ فرسٹ دویژن میں پاس کر لیا۔
میٹرک کے بعد مجھے والد صاحب سے دُور لاہور جانا پڑا ۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہیں ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔ ہفتے کے ہفتے گھر جاتا جہاں والد صاحب جیسے میرا راستہ دیکھ رہے ہوتے۔ ایک دن اور دو راتیں اکھٹی گزا ر کر میں واپس لاہور چلا آتا ۔ والد صاحب اگلے ویک اینڈ کا انتظار کرنے لگتے۔ مجھے ان سے جدائی اور ان کی تنہائی کا بہت احساس تھا لیکن اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں تھا ۔ میرا خواب ڈاکٹر بننے کا تھا ۔یہ خواب مجھے میرے والد نے ہی دیا تھا۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے ہم باپ بیٹا عارضی طور پر جدا ہوئے تھے۔ میں تو ہوسٹل میں دوستوں کے ساتھ رہتا تھا مگر والد صاحب گھر میں اکیلے سوچوں اور انتظار میں گھلتے رہتے۔
گھلنے کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ وہ تنہائی ، شریک حیات کی دائمی جدائی ، شب و روز کی مشقت سے بیمار رہنے لگے تھے ۔میں جب بھی انہیں ملنے جاتا تو ان کی گرتی ہوئی صحت دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوجاتا ۔ وہ میرے سامنے اپنی بیماری کو ظاہر نہ ہونے دیتے بلکہ میرے سامنے ہنستے کھیلتے اور خوش رہنے کی پوری کوشش کرتے۔ شروع میں مجھے نہ اتنی سمجھ تھی اور نہ میرے پاس کوئی طریقہ تھا جس سے ان کی بیماری کے بارے میں جان سکوں۔ اس وقت میں ایم بی بی ایس کے چوتھے سال میں تھا جب والد صاحب کی بیماری کا مجھے علم ہوا۔ وہ بھی اس طرح کہ میں زبردستی انہیں اپنے ساتھ لاہور لے کر گیا ۔جہاں میرے ایک استاد ڈاکٹر نے اپنے کلینک میں ان کا چیک اپ کیا ۔
مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ والد صاحب کے پھیپھڑے تقریباً جواب دے چکے ہیں۔میں اپنی پڑھائی اور باقی سب کچھ بھول کر والد صاحب کا علاج کرانے میں جت گیا۔ اس کے لئے میں کئی دوستوں کا مقروض بھی ہو گیا۔ ان کا علاج میں نے اچھے ڈاکٹروں سے کرا یا۔ مگر جب موت آتی ہے تو ڈاکٹر اور دوائیاں اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ میرے والد صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ایک دن دنیا میں میرا واحد سہار ا،میرا باپ ، میری ماں ، میرا دوست، میرا سب کچھ، میری بانہوں میں دم توڑ گیا۔ میں اس بھری دنیا میں بالکل تنہا رہ گیا۔ محبتوں کا گھنا اور سایہ دار درخت یکلخت میرے سر سے اٹھ گیا۔ میں دنیا کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے سر کھڑا رہ گیا۔
یہ صدمہ میرے لئے ناقابلِ برداشت تھا۔ لیکن میرے دوستوں اور اساتذہ نے مجھے بہت سہارا دیا۔ والد صاحب کی علالت کے دوران اور ان کے انتقال کے بعدذہنی یکسوئی کی عدم موجودگی کی وجہ سے میری پڑھائی بھی متاثر ہوئی۔ لگتا تھا کہ میں اس سال کا امتحان نہیں پاس کر سکوں گا۔ آخری تین ماہ میں نے سر توڑ کوشش کی کیونکہ میں والد صاحب کے خواب کو شرمندہ ِتعبیر کر نا چاہتا تھا۔ خدانے میری مدد کی اور اس امتحان میں بھی سرخرو ہوا۔ اب ڈاکٹر بننے کے لئے صرف دو سال کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے میںنے زمین کا کچھ حصہ فروخت کر دیا۔ میرا اور والد صاحب کا مشترکہ خواب عنقریب پورا ہونے والاتھا اور منزل سامنے نظر آرہی تھی۔ لیکن بعض اوقات انسان کی زندگیوں میں وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ جو اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوتا۔ منزلیں اور راستے اچانک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی قسمت پر کس کا اختیار ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
شبانہ میری کلاس فیلو تھی۔ وہ ہمارے ہی علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار کی بیٹی تھی ۔ اس زمیندار کی زرعی زمین لامحدود اور دولت بے حساب تھی۔ زمینوں کے علاوہ فیکٹریاں اور دوسرے کاروبار بھی تھے۔ وہ نہ صرف اپنے علاقے بلکہ قومی سطح کے سیاستدان تھے۔ علاقے کے لوگوںپر ان کی سیاست سے زیادہ ان کی زمینداری اور دہشت کا اثر تھا۔ ان کے خلاف انتخابات میں کھڑا ہونا تو درکنار کوئی بات تک نہیں کر سکتا تھا۔ پولیس اور دیگر سرکاری انتظامیہ جیسے ان کی مٹھی میں تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ اور دارلحکومت میں بادشاہ گر کہے جا سکتے تھے۔ باپ کے مزاج کے برعکس شبانہ جتنی خوبصورت تھی اتنا ہی دردِ دل رکھنے والی لڑکی تھی۔ اسے باپ کی سیاست اور زمینداری کے طور طریقوں سے سخت اختلاف تھا۔ لیکن اس کا باپ کے آگے بس نہیں چلتا تھا۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ اس کے بے انتہا شوق کو مد نظر رکھ کر اس کے باپ نے اسے میڈیکل کالج میں داخلہ دلوادیا۔ تاہم وہ اپنی بیٹی کو نوکری کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتے تھے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی پذیرائی کے پیش نظر انہوں نے بیٹی کے شوق میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور اسے ڈاکٹر بننے کا موقع دے دیا۔
وہی شبانہ پہلے میری کلاس فیلو پھر دوست اور پھر جان ِ جاناں بنی۔ سب کچھ خود بخود ہوتا چلا گیا۔ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب کب اور کیسے آئے اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے ہمیں یکجا کرنے کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی ۔ ورنہ اس انتہائی امیر گھر کی لڑکی کا میرے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تھا۔ میرے کوئی آگے تھا نہ پیچھے ۔ ایک بہت بڑے زمیندار اور سیاسی خاندان کی نورِ نظر ہونے کی وجہ سے شبانہ کو اپنے جیسے کسی بڑے خاندان میں بیاہ کر جانا تھا۔ محبت اور محبت کی شادی کا شبانہ کے خاندان میں کوئی تصور نہیں تھا۔ خاص طور پر لڑکی کی ایسی جسارت ناقابلِ معافی تھی۔ اس حقیقت کا شبانہ اور مجھے بخوبی علم تھا ۔لیکن دل پر کس کا زور ہے ۔ ہم دونوں بھی دِل کے ہاتھوں مجبور تھے ۔ پھر بھی ہم ہر ممکن احتیاط برت رہے تھے ۔کالج سے باہر نہیں ملتے تھے۔ کالج میں بھی ہماری ملاقاتیںمحدود اور مختصر وقت کی ہوتی تھیں ۔ ہم مستقبل کے سنہرے خواب بھی دیکھتے جو ہر انسان کا حق ہے۔ ان خوابوں میں بکھرے جا بجا زہریلے کانٹوں پر بھی ہماری نظر تھی۔ اس کشمکش میں میڈیکل کالج کی شبانہ روز پڑھائی سے بھی جاری تھی۔مستقبل کے شوق اور اندیشوں اور آس و نراس کیجذبوں کے ساتھ زندگی کی نیا کبھی ڈوبتی اور کبھی اُبھر تی دکھائی دیتی تھی۔
اچانک اس میں ایک ایسا زبردست طوفان آیا جس میں سب کچھ بہہ گیا۔ ہم دونوں کے ڈاکٹر بننے کا خواب ، میرا کیرئیر ، میرے مرتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں سجے سپنے، انسانیت کی خدمت کا خواب اور اپنی مٹی، سب کچھ چھن گیا اور ہم دربدر اور ملکوں ملکوں کی خاک چھانتے ہوئے آج یہاں چھپے بیٹھے ہیں۔ میں ڈاکٹرکے بجائے ٹیکسی ڈرائیور بن گیا ہوں ۔اور شبانہ جو سونے کا چمچہ لے پیدا ہوئی تھی جو ایک درد دل رکھنے والی ڈاکٹر بن رہی تھی، ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس کا کام کر رہی ہے۔ ہم اپنی زمین، اپنی مٹی، اپنے لوگوں اور اپنے ملک کی ہوائوں کو ترس گئے ہیں۔وہاں تک رسائی ہمارے لئے نا ممکن بنا دی گئی ہے۔ ہماری موت کے ہر کارے پاکستان سے ہمارے تعاقب میں یورپ تک چلے آئے۔ خوش قسمتی سے اب تک ہم زندہ ہیں ۔لیکن کل کا علم کس کو ہے۔ کسی بھی وقت موت کے وہ ہر کارے ہماری شہ رگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
دراصل شبانہ اور میری محبت کی خبر کسی نے شبانہ کے باپ تک پہنچا دی۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان آگیا۔ شبانہ کو میڈیکل کے آخری سال میں کالج چھڑوا کر زبردستی گھر میں بٹھا دیا گیا ۔میرا گائوں کا گھر اور فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ مجھے قتل کرنے کے لئے کرائے کے قاتل میرے پیچھے لگا دیئے گئے۔دشمنوں نے ایک رات میرے گھر پر حملہ کر دیا ۔ وہ تو میر ی قسمت اچھی تھی کہ مجھے چھت کے راستے فرار کا موقع مل گیا۔میڈیکل کالج کے دروازے پر بھی قاتل پہرہ دینے لگے۔ وہ شکاری کتوں کی طرح مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایئر پورٹ ، ٹرین اسٹیشن اور لاریوں کے اڈے ہر جگہ موت کے ہر کار ے تعینات تھے۔ قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میری شہ رگ تک پہنچ جاتے میں ایک دوست کی مدد سے لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی دوست نے کسی طرح شبانہ کا فون نمبر مجھے مہیا کر دیا۔ میں نے کراچی سے شبانہ سے فون پر رابطہ کیا۔ ایک رات شبانہ بھی ان کڑے پہروں کی قید سے فرار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی ۔ اس کے بعد ہم فوری طور پر پاکستان سے فرار ہو کر پہلے دبئی اور پھر لندن پہنچے۔ لندن جاکر ہم نے شادی کر لی ۔
اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو کسی قدر سمیٹ کر محبت کے سائے میں زندگی گزارنا شروع کی ہی تھی کہ ہماری زندگیوں کے دشمنوں کو لندن میں ہماری موجودگی کا علم ہو گیا۔ ان کے اثروروسوخ کی انتہا دیکھئے کہ ان کے بھیجے ہوئے موت کے فرشتے لندن میں ہمارے گھر تک پہنچ گئے۔ وہ تو شبانہ نے فلیٹ کی نگرانی کرنے والوں میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ شخص شبانہ کے باپ کا سیاسی غنڈا تھا۔ ہم نے لندن پولیس کو خود سے درپیش خطرے سے آگاہ کیا ۔ پولیس ان لوگوں کو گرفتار تو نہ کر سکی لیکن ہمیں ایک دوسرے محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ برطانیہ میں ہم دشمنوں کی نظروں میں آچکے تھے ۔ اسی لئے ایک دن ہم نے خاموشی سے برطانیہ کی سرحدیں عبور کیں اور دنیا کے اس جنت نظیر خطے میں آکر پناہ لی ۔
اس چھوٹے سے شہر میں رہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا دھیان شاید یہاں تک نہیں آئے۔ یورپ کے تمام بڑے شہروں میں ہماری تلاش کافی عرصے تک جاری رہی ۔ کچھ عرصہ قبل شبانہ کے والد کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ بند ہوا۔ شبانہ کا پاکستان میں ایک سہیلی سے رابطہ ہے۔ اسی نے بتایا کہ شبانہ کے بھائیوںنے والد کا جاری کردہ ہماری موت کا حکم منسوخ کر دیا ہے۔وہ شبانہ اور مجھے معاف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن ہم یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شکاریوں کا بچھایا ہواجال ہو۔
زندگی نے ہم سے جہاں بہت کچھ چھینا ہے وہاں کچھ دیا بھی ہے۔ جہاں ہمارے اتنے خواب شرمندہِ تعبیر ہونے سے رہ گئے وہاں ایک دوسرے کو پانے کا سب سے مشکل بلکہ نا ممکن خواب سچا ثابت ہوا ۔ اگر ہم ڈاکٹر نہیں بن سکے تو کم ازکم پڑھے لکھے اور باشعور شہری تو ہیں ۔ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی دولت پیار تو ہے۔ اور پھر قدرت نے ہمیں ایک پھول سی بیٹی سے بھی نوازا ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں جن خوابوں کا رنگ نہ بھر سکے وہ اپنی بیٹی کے ذریعے پایہِ تکمیل تک پہنچا ئیں گے ۔ ہم اسے ڈاکٹر بنائیں گے تا کہ وہ ماں اور باپ دونوں کے خوابوں کی مشترکہ تعبیر بن سکے۔