ﺁﻧﺎً ﻓﺎﻧﺎً ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﺍﻭﺯﺍﻥ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﮯ
ﺑﻐﯿﺮ،ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺭﻭﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﺰﻧﺲ ﮐﯽ ﺁﮌ
ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﭽﮭﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻻﮐﮫ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ،ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺟﻮﺍﺩ ﺣﺴﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻃﮯ ﮨﻮ
ﮔﺊ ـ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﮨﻮ
ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺱ
ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯽ ـ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ـ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﻠﭧ
ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﮭﻠﺘﯽ ﺑﺎﻻﺁﺧﺮ ﺟﻮﺍﺩ ﺣﺴﻦ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﮔﺊ ـ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺍﺳﮯ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮭﻮﺋﮯ،ﺍﺳﮑﺎ ﺩﻝ
ﺟﻠﮯ،ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺷﺎﺩﯼ
ﺭﮐﻮﺍﺩﮮ،ﺍﺳﮯ ﮐﮩﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ
ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﮯ،ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ،ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺁﮐﺮ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ،ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﮨﯽ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﻭﮦ
ﺍﺳﮯ ﭘﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ
ﺳﮑﺘﺎ،ﻣﮕﺮ ۔۔۔۔ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ـ
ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺭ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ـ ﺍﯾﮏ
ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ
ﺳﻮﭼﯿﮟ،ﺧﯿﺎﻻﺕ ﺑﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﺭﮪ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ـ
ﻭﮦ ﮨﻨﺲ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ،ﺑﺎﺕ ﺑﮯ ﺑﺎﺕ ﻣﺴﮑﺮﺍ
ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮐﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺳﺐ ﮐﻮ
ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﮯ ـ
ﺍﮔﺮ “ﮐﺴﯽ ” ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ “ﮐﺴﯽ “ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻧﮯ
ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻼﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ،ﻣﮕﺮ ۔۔۔۔۔ ﻭﮦ
ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﭨﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ
ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﯽ ﺟﻮﺍﺩ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮭﻞ ﮔﺊ
ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ
ﻭﺟﻮﺩ ﺁﯾﺎ ﮬﮯ ﺭﻭﺡ ﻧﮩﯿﮟ ـ
ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﯽ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﻨﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻓﻘﻂ
ﭼﮭﮯ ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ ـ ﯾﻮﮞ ﺳﻠﮕﺘﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ
ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﺎ ﭘﯿﺮﺍﮨﻦ ﺍﻭﮌﮬﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﻮﭦ ﮔﺌﯽ ـ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﺑﮩﺮ
ﮨﻮﺗﺎ،ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺛﻤﺮﮦ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ
ﮐﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﯽ،ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﯾﮏ
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ـ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﯽ ﻓﻀﻮﻝ ﺍﻧﺎ ﮐﮯ
ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ
ﺳﮯ ﺑﮑﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ
ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﮭﻨﮑﺘﯽ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ
ﭼﮭﻨﮑﺎﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻭﺍﺯﺍﻥ ﮐﯽ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﭨﻮﭦ
ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺟﺎﮒ ﮐﺮ
ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺩﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮭﮯ ﺭﮨﻨﺎ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﮐﺜﺮﺕ
ﺳﮯ ﺳﮕﺮﯾﭧ ﻧﻮﺷﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺻﺤﺖ
ﺑﮕﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ـ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺏ
ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺟﻠﺪ ﮐﺮ
ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ،ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻣﻨﮑﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ـ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ
ﺍﭼﺎﭦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﺁﺳﯿﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺛﻤﺮﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ
ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﻃﺎﺑﮧ ﮐﻮ ﺿﺮﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺩﻟﮩﻦ ﺑﻨﺎﮐﺮ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟ ـ ﺍﭘﻨﯽ
ﺍﺱ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺎﺩﯾﮧ
ﺑﯿﮕﻢ ﺍﻭﺭ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ
ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺧﻮﺩ ﺍﻭﺯﺍﻥ
ﮐﮯ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ،
ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﮯ ﻻﮐﮫ
ﺑﺪﮐﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺭﻃﺎﺑﮧ ﺳﮯ ﻃﮯ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯽ ـ
ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺭﻃﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮯ
ﭘﺮ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ،ﻭﮦ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ
ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ـ
ﺍﺳﮯ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﯽ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺗﮭﺎ ـ ﻣﮕﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ
ﺁﺳﯿﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ
ﭘﮭﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ۔۔
ثمرہ کو جونہی اس فیصلے کی خبر ہوئی وہ پاکستان چلی آئی تھی ـ رطابہ دیکھ سکتی تھی کہ اس کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی ہے،
کھلے کھلے گلاب چہرے پر خزاں پڑاو ڈال کر بیٹھ گئ تھی ـ آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑگئے تھے ـ
آسیہ بیگم اور نادیہ بیگم دونوں اس کا حال دیکھ کر تڑپ اٹھی تھیں ـ مگر۔۔۔۔وہ اب بھی اپنی لولی لنگڑی محبت کا بھرم رکھنے کے لیے بات بے بات مسکرانے کی کوشش کر رہی تھی ـ
پچھلی بار جب وہ پاکستان آئی تھی تو اس نے یہ طے کیا تھا کہ وہ اوزان اور ماریہ آفندی کے تعلقات کی حقیقت رطابہ سے ضرور پوچھے گی مگر۔۔۔اس بار یہ سوال پوچھنے کی نوبت بھی نہیں آئی تھی ـ
رطابہ نے اس کی شادی کے بعد اوزان کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی ـ وہ اس کا ذکر چھیڑنا چاہتی بھی تو رطابہ بات کو سرسری انداز میں ٹال دیتی تھی ـ
اس کا دل تڑپتا،مچلتا رھ جاتا،مگر کوئی بھی اس کے ساتھ اوزان کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں تھا ـ اس گھر سے،اس گھر کے لوگوں سے،اس کی کروڑوں یادیں،ہزاروں لمحات وابستہ تھے،مگر اس نے خود اپنی ذات کو اس گلشن سے الگ کر لیا تھا ـ
اب یہی اکیلا پن اسے اندر سے کھوکھلا کر رہا تھا ـ وہ یونہی بے سبب ،چھپ چھپ کر پہروں روتی رہتی تھی ـ دل و روح کے ساتھ ساتھ جسم پر لگنے والے گھاؤ بھی ابھی تک اس نے سب سے چھپا رکھے تھے ـ وہ اپنی ماں کو بتانا چاہتی تھی کہ جواد احسن نے اسے دھتکار کر دوسری شادی کرلی اور وہ شب و روز اس کی روح کو رگیدتے ہوئے اپنی دوسری شادی اور بچوں کے ساتھ زندگی انجوائے کررہا ہے ـ
یہی نہیں بلکہ بات بے بات وہ اسے اوزان کے حوالے سے طعنے دے کر لمحہ بہ لمحہ اس کے وجود کو کانٹوں پر گھسیٹنا نہیں بھولتا ـ
وہ اپنے سب زخم انھیں دیکھا نا چاہتی تھی ـ یہ بتانا چاہتی تھی کہ اس بار وہ واپس جواد کے پاس انگلینڈ جانے کا حق کھو آئی ھے ـ
مگر ۔۔۔
آسیہ بیگم اور نادیہ بیگم جس خوشی کے ساتھ،بھرپور مگن انداز میں اوزان اور رطابہ کی شادی کی تیاری کر رہی تھیں،اس چیز نے اس کے لبوں پر قفل ڈال دیے تھے ـ
رطابہ کے چہرے کی خوشی اور اوزان کے حوالے سے اسکے خوبصورت احساسات بھی اس سے پوشیدہ نہیں رہے تھے،یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک مرتبہ پھر خود کو کرب کی سولی پر سلگنے کے لیے لٹکا دیا تھا ـ
رطابہ کا بی ہیوئیر بھی اسکے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا تھا ـ اوزان کی ہر چیز پر اسے جتاجتا کر یوں اپنا حق جماتی ،جیسے وہ ازل ازل سے صرف اسی کا ہو ـ
اوزان اگلے چند روز میں گھروالوں کی منت پر،بے حد مجبور ہو کر پاکستان آرہا تھا ـ اور اسی موقع سے فائدہ اٹھا کر گھر والے اس کی شادی رطابہ کے ساتھ کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے ـ
وہ شخص جس پر کسی کی پرچھائی پڑنا بھی اسے گوارا نہیں تھا،آج حالات کی ستم ظریفی کے باعث اس کی سوچ کی حدود سے بھی باہر نکل گیا تھا ـ
وہ اس کے بارے میں اپنی خواہش سے کچھ سوچنے کاحق بھی کھو بیٹھی تھی ـ اسے یہ حق بھی نہیں رہا تھا کہ وہ اس کے استعمال کی کسی چیز کو سب کے سامنے ہاتھ لگا کر چھو ہی لے ـ
اس روز رطابہ آسیہ بیگم اور نادیہ بیگم کے ساتھ شاپنگ کے لیے مارکیٹ گئی ہوئی تھی ـ جب وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شکستہ وجود کو گھسیٹتی،ایک مدت کے بعد اوزان کے کمرے میں چلی آئی،جو اس کے جانے کے بعد لاکڈ ہی رہتا تھا ـ
دیدہ زیب سٹینگ کے ساتھ،اوزان کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو سے مہکتا کمرہ اب بھی ویسا ہی تھا،جیسے آٹھ سات سال قبل ہوا کرتا تھا ــ
اوزان اپنا کمرہ صاف ستھرا رکھنے کا عادی تھا،جبکہ وہ ـاپنی لاپروا عادت کے باعث اکثر وہاں گند ڈالتی رہتی تھی ـ
کبھی پھلوں کے چھلکے،کبھی چیونگم کے ریپر،کبھی چلغوزے اور مونگ پھلی کے چھلکے،اوزان سے اس مسئلے پر اس کی کئی بار زبردست لڑائی ہوئی تھی
ـ بہت دنوں تک اس نے اپنے کمرے میں اسکا داخلہ بھی بند کردیا تھا ـ
بیتے لمحے جیسے یادآتے تھے،اسکی آنکھیں سمندر بن جاتی تھیں، اس وقت بھی نم آنکھوں کے ساتھ اسکے کمرے کی ایک ایک چیز کا جائزہ لیتی وہ اندر ہی اندر زوروقطار رو رہی تھی ـ
اس کے ملبوسات اب بھی ترتیب و نفاست کے ساتھ، یوں وارڈروب میں ہینگ کیے گئے تھے گویا وہ ابھی ابھی انھیں خود پریس کر کے لٹکا گیا ہو ـ بھرائی آنکھوں کے ساتھ اسکی وارڈ روب کے دونوں پٹ کھولے وہ ایک ایک شرٹ پر ہاتھ پھیر کر جانے اپنی کونسی تشنگی کو قرار بخش رہی تھی ،کہ اچانک اس کی نگاہ کپڑوں کے پاس رکھے اس خوبصورت بریسلیٹ پر جاپڑی جو اوزان نے اسے دیکھا کر ماریہ آفندی کی برتھ ڈے کے لیے خریدا تھا ـ
وہ ٹھٹکی تھی ـ نگاہوں کے ساتھ گویا ہاتھ بھی ساکت ہو گئے تھے۔
اگر اوزان،ماریہ کو یہ بریسلٹ اسکی برتھ ڈے پر دے چکاتھا تو پھر یہ کیاتھا؟؟
بریسلٹ کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں ـ
ثمرہ نے ایک ایک چیز کا بغور جائزہ لیا تھا ـ یہ سب چیزیں وہی تھیں جو اس نے گاہے بگاہے ماریہ آفندی کا نام لے کر اسے جلاتے ہوئے خریدیں تھیں۔
اسے یاد آرہا تھا اس وقت وہ ان چیزوں پر کسی اور کے حق کا سوچ کر کتنی ہرٹ ہوئی تھی ـ
اس لمحے بے ساختہ اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے ٹپک کر اسکے گالوں پر پھسل گئے تھے ـ
“اوزان۔۔۔ ”
عجیب بے خودی میں اسے دھیمے سے پکارتے ہوئے وہ سسک اٹھی تھی۔
زخم جتنے پرانے ہوں اتنی کسک کا باعث بنتے ہیں۔
بریسلٹ کے قریب ہی اسکی خوبصورت اسکی کور والی ڈائری پڑی اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرواگئی تھی ـ
ٹپ ٹپ آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے وہ ڈائری اٹھا کر اوزان کے بیڈ پر آبیٹھی تھی ـ دیدہ زیب رنگوں سے ڈھلے دلکش اوراق پر موتیوں سے چمکتے الفاظ اسے سحر زدہ کر گئے تھے ـ ڈائری کھلتے ہی اسکی خوبصورت تصویر پھسل کر اسی کی گود میں آگری تھی ـ
کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے تصویر اٹھاتے ہوئے مزید کتنے آنسو بے مول ہوئے تھے ـ
“زندگی کے خوبصورت احساس ثمرہ بخاری کے نام۔۔۔۔۔ ”
پہلے ہی صفحے پر تحریر یہ الفاظ اسکا دل جکڑ گئے تھے ـ وہیں پڑی ہوئی سوکھی ہوئی گلاب کی ادھ کھلی کلی جانے کون کون سے دبے ہوئے جذبات کو ہوا دے گئ تھی ـ
“تم بہت بری ہو ثمرہ،کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ تمہاری اتنی پٹائی کروں کہ دماغ درست ہوجائے ”
جانے اسکی کس حرکت پر خفا ہو کر اس نے یہ لکھا تھا ـ وہ سسک اٹھی تھی ـ اگلے چند صفحات خالی تھے ـ پھر ڈیٹ ڈالے بغیر اس نے بڑی روانی سے لکھا تھا ـ
“بیوقوف چڑیل لڑکی،یہ کس سے چکر چلا لیا ہے تم نے؟ میرا بس نہیں چل رہا کہ میں تمہارے اس نامراد عاشق جواد حسن کی ہڈی پسلی ایک کردوں،آج بہت اچھے طریقے سے طبعیت صاف کردی تھی اسکی ـ امید ہے آئندہ تمھارے بارے میں کوئی بھی خیال دل میں ہرگز نہیں لیکر آئے گا ـ
ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺣﻤﺎﻗﺖ ﮐﯽ ﺗﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ،ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺛﻤﺮﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﯽ ﮨﮯ،ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﺳﮯ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﮑﺘﺎ،ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺗﻢ” ۔۔۔
ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ـ ﺗﯿﺰ ﺁﻧﺪﮬﯿﻮﮞ ﺳﺎ ﻣﺰﺍﺝ
ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ
” ـﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻭﺍحد وﺟﮧ ﺍﺱ ﺭﺍﺯ ﮐﺎ
ﺍﻓﺸﺎ ﮨﻮ ﻧﺎ ﮨﮯ ـ ﺟﻮ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﺏ
ﺗﮏ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﺁﺝ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ
ﻣﺠﮭﮯ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ،ﺗﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ کو ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ
ﺳﮑﯽ،ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﺳﺒﮭﯽ
ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ،ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺁﺝ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ
ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻋﯿﺎﮞ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ
ﺑﮩﺖ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ ” ـ
“ﺛﻤﺮﮦ ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﮮ ﮨﻮﮔﺌﮯ
ﮨﯿﮟ،ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮑﺪﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﮑﺪﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﮑﺎﻧﮯ
ﮐﯽ ﻓﻀﻮﻝ ﺿﺪ ﻭ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺩﮐﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ـ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭ ﭘﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻢ
ﺻﺮﻑ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ ـ ﻣﮕﺮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ
ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﺎ ﭘﯿﺶ ﺧﯿﻤﮧ ﮨﮯ،ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﭗ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ
ﺛﻤﺮﮦ،ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﮐﮭﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ،ﺗﻤﮩﮟ
ﮨﺮﭦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ،ﻣﮕﺮ ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ
ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﻠﺘﯽ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮍﺍ ﻟﻄﻒ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ،ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ
ﺳﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ـ
ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻢ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮ،ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ
ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺍﮔﻨﻮﺭ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ
ﮐﺮﻭﮞ،ﻣﺎﻥ ﺟﺎﺅ ﻧﺎﮞ ﺛﻤﺮﮦ ﭘﻠﯿﺰ۔۔۔۔”
ﯾﮧ ﺍﺳﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﺭﻭﺯ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﻮﻟﮉ ﮐﺎ ﺑﺮﯾﺴﻠﭧ ﺍﺳﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ
ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﮐﻮ ﮔﻔﭧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ـ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ ﭘﺮ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺱ
ﭘﺮ ﻭﮦ ﺭﺍﺯ ﻣﻨﮑﺸﻒ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯـ
ﺍﮔﻠﮯ ﺻفحے ﭘﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﮩﺖ
ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
” ـﺛﻤﯽ،ﺁﺝ
ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﻭﺵ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ،ﺻﺮﻑ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﯽ
ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﺮﻭ،ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﺳﺐ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺟﺴﮯ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺟﺎﻧﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺪ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ،ﮐﺐ
ﺗﮏ ﺑﮭﺎﮔﻮ ﮔﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ؟؟ ﮐﺐ ﺗﮏ
ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﺎ ﭘﺮﭼﻢ ﺑﻠﻨﺪ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﯽ،ﺗﻢ
ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮ ﺛﻤﺮﮦ،ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ
ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﮭﮑﺎﻧﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ـ
ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﯾﮧ ﭘﻞ ﺻﺮﺍﻁ ﭘﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻮ
ﺩﯾﮑﮭﻮ،ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ
ﮐﮯ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺭﺍﮦ ﺩﯾﮑﮫ
ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﮞ۔۔ ﯾﮧ ﺑﺮﯾﺴﻠﭧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺻﺮﻑ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﮨﯽ ﺑﮍﯼ ﭼﺎﮦ ﺳﮯ
ﺧﺮﯾﺪﺍ ﮨﮯ،ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ ﺍﺳﮑﯽ ﺍﮨﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﮯ،ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ
ﮐﺒﮭﯽ،ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺟﮕﮧ
ﻟﮯ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ” ـ
ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﮈﺍﺋﺮﯼ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﺭﺟﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯـ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺣﺎﻝ ﺗﻮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﯽ ﺭﮪ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ـ
ﺁﮔﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﺧﺎﻟﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭا
“ﺛﻤﺮﮦ،ﺁﺧﺮ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﻧﺎﮞ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ
ﺩﻝ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺗﮭﺎ،ﺍﯾﮑﺪﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ
ﭘﭽﮭﺎﮌﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻻﺁﺧﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻓﺎﺻﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮫ ﮨﯽ
ﺩﯼ ـ ﺗﻢ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﮨﻮ،ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ
ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ
ﺳﮯ ﮨﻤﮑﻨﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ،ﺗﻢ ﺍﺗﻨﯽ
ﺟﻠﺪﯼ،ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﻮ ﮔﯽ،ﺁﺝ ﺗﻢ ﻧﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﻏﺮﻭﺭ ﭘﺎﺵ ﭘﺎﺵ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ، ﺑﺎﻃﻞ ﺛﺎﺑﺖ
ﮐﺮﺩﯾﺎ،ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﮐﻮ، جو ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ
ﺟﮭﻠﻤﻼﺗﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ـ ﭘﮩﻠﯽ
ﺑﺎﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﺘﮯ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ھے ﺛﻤﺮﮦ،ﺩﻝ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻃﻮﺭ
ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﻟﮍﮐﯽ،ﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺗﮭﺮﮈ
ﭘﺮﺳﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ کیسے ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮ ﮔﺊ
ﺍﻭﺭ ﺗﮭﺮﮈ ﭘﺮﺳﻦ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺟﺲ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ،
ﺗﻢ ﭘﭽﮭﺘﺎﺅ ﮔﯽ ﺛﻤﺮﮦ،ﺍﻭزﺍﻥ ﺳﯿﺪ ﮐﻮ ﮐﮭﻮ
ﮐﺮ ﺑﮯ ﺣﺪ ﭘﭽﮭﺘﺎﺅ ﮔﯽ ﺗﻢ۔۔۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺲ ﮐﺮﺏ ﺳﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﮯ
ﮨﻮﻧﮕﮯ،ﺛﻤﺮﮦ ﻭﮦ ﮐﺮﺏ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ
ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ـ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻝ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ
ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﭘﮭﭩﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ـ ﺍﺳﮯ ﺍﻭﺯﺍﻥ
ﮐﯽ ﺑﺪﺩﻋﺎ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ـ
ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ
ﭘﭽﮭﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ،ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﮭﻮ
ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﺎﺱ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ
ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻧﮓ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﺗﮭﺎ ـ ﻭﮦ
ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﮩﯽ ﺩﺍﻣﺎﮞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮪ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺳﺎﺕ ﺁﭨﮫ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺩ
ﺣﺴﻦ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻇﻠﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ـ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ
ﺍﺳﮑﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺮ ﻏﺎﻓﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ـ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ
ﺳﻮﺩﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ،ﺑﮯ
ﺣﺎﻝ ﭘﮍﯼ ﺭﮨﺘﯽ،ﺍﺳﮯ ﭘﺮﻭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺗﮭﯽ ـ
ﺛﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺳﯽ،ﺍﺳﮑﯽ ٍﻏﺎﺋﺐ
ﺩﻣﺎﻏﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﭗ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...