یونانی مصنف لان جائنس (Longinus,B:213 AD,D:273 AD)نے اپنے اسلوب میںوفور مسرت کے جذبات کی ترسیل ، شان و شوکت ،عظمت و رفعت ،تخیل کی جو لانیوں ،عزتِ نفس اورانا کے سر بلندی اور جذبات کے سیل ِرواں کا احوال جس مستی و سر خوشی کے انداز سے بیان کیا ہے اس کی بنا پر اسے پہلا رومانی نقاد سمجھا جاتا ہے ۔اس کی تصنیف’’On The Sublime‘‘ کو ادبی تنقید میں بنیادی اہمیت کے حامل عظیم شاہکار کا درجہ حاصل ہے جس میں اس نے پہلی بار تخلیق کار کے اسلوب کو موضوع بحث بنایا۔ایک طویل عرصہ تک یہ بات زبان زدِ عام رہی کہ ادب میں ترفع کی اصطلاح سب سے پہلے لان جائنس نے تیسری صدی میں استعمال کی لیکن جدید تحقیق نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور اس جانب متوجہ کیا ہے کہ ادب میں ترفع کے حوالے سے سب سے قدیم ترین حوالہ پہلی صدی میں ملتا ہے جو کسی گم نام مصنف کے فکر و خیال کی عطا ہے۔اس گُم نام مصنف کو جدید دور میں ’’ Pseudo Longinus‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اٹھارہویں صدی میں مغرب میںیہ کتاب ایک غالب تھیوری کی حیثیت سے مقبول ہوئی۔ لان جائنس کا شمار ادبی تحسین کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے اور اس کی یہ تصنیف ادبی تنقید کا ایک اہم اور معتبر حوالہ سمجھی جاتی ہے ۔یہ قدیم ترین مخطوطہ جس کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے جو ابلق ایام کے سُموں کی گرد سے اوجھل ہونے سے بچ گیا پہلی بار سال1554میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آیا۔اس میں لان جائنس نے ادبی ترفع کے معائر کے تعین کی کوشش کی ہے ۔اٹھارہویں صدی میں لان جائنس کو جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔یہی وہ زمانہ ہے جب وہ افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں تھا اور اس کے افکار کی ضیا پاشیوں کا ایک عالم معترف تھا۔اس نے وادیٔ خیال میں گونجنے والی روحانی عظمت کی صدائے باز گشت کو دھیان سے سننے پر اصرار کیا ہے ۔اس کا خیال تھا کہ یہی وہ صدا ہے جو سدا عقدۂ تقدیرِ جہاں کھولنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔اس آواز کا تعلق قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے ہے جو تخلیقِ فن کے لمحوں میں تخلیق کار کی شخصیت میں حلول کر کے اخلاقی اور تخیلاتی صلاحیتوں میں نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ انسان کی فطرت اور جبلت اس کے اعمال و افعال میں اپنی جلوہ گری کا اہتمام کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتی ۔اس کا خیال تھا کہ تخلیق کار کی شخصیت جن فطری اور جبلی صلاحیتوں کی امین ہوتی ،ان کاواضح اظہار اس کی تخلیقات میں ہوتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کہ تخلیق کار کا اسلوب ایک چھلنی کے مانند ہے جس میں سے چھن کر اس کی شخصیت کے تمام اوصاف اور تخلیقی فن پارے کے محاسن یک جا ہو کر دیکھنے والے کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتے ہیں۔اس نے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر ذوق سلیم رکھنے والاکوئی شخص فطری اور جبلی طور پر تخلیقی استعدا د سے متمتع نہیںتو وہ سرابوں میں سر گرداں ہونے کے بجائے نابغۂ روزگار ہستیوںکے عظیم الشان کارناموں کو پیش نظر رکھے اور ان کے ابد آشنا اسلوب کو زادِ راہ بنائے ۔یہ وہ مشعل ہے جسے تھام کر سفاک ظلمتوں میں روشنی کا سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔اس نے واضح کیا کہ ایسے معمولی واقعات جنھیں ابتدا میں بالعموم لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی کامرانیوں اور لائق ِ صد رشک و تحسین کارناموں کے نقیب بن جاتے ہیں۔ اس نے ادبی تاریخ کی ممتاز شخصیات ہومر ،افلاطون اور ڈیموس تھینس(Demosthenes) کی مثال دی کہ تاریخ ہر دور میں ایسے یگانہ ٔروزگار لوگوں کے نام کی تعظیم کرے گی۔اس نے ہومر کے تخلیقی کارناموں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس یگانۂ روزگار تخلیق کار کی ایسی فقید المثال ابد آشناآفاقی خوبیوں کا ذکر کیا جو ہر دور میں اپنی اہمیت و افادیت کا اثبات کریں گی۔لان جائنس نے رومانویت کو جذبات کی ہمہ گیر اثر آفرینی کی ایک ارفع صورت کا نام دیا تو اس بات پر بھی اصرار کیا کہ ادب میں جاہ و جلال کی سب شان کلاسیکیت کی مر ہونِ منت ہے۔وہ متشکک مزاج نوجوانوں کو استدلال سے قائل کرنے کے بجائے اپنے غصے کے شعلوں سے ان کے خیالات کے تاج محل کو جلانے کی کوشش کرتاہے ،اس کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی ۔ارسطو کی شہرۂ آفاق تصنیف بو طیقا کے بعد تنقید کی جس کتاب کو سب سے زیادہ موثر اور خیال افروز سمجھا جاتا ہے وہ لان جائنس کی تصنیف’’On the Sublime‘‘ ہی ہے۔لان جائنس نے اس بات پر زور دیا کہ تخلیقی فن پارے کی عظمت کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ تخلیق کار نے صنائع بدائع اور قواعد و انشا کو کہاں تک ملحوظ رکھا ہے ۔کسی بھی ادب پارے کی عظمت اور ابد آشنا مقبولیت کا رازاس امر میں پوشیدہ ہے کہ تخلیق کار کے اسلوب میں اثر آفرینی کی کیفیت کیا ہے۔اگر صریرِخامہ نوائے سروش کے روپ میں قلب و نظر کو مسخر کرنے پر قادر ہے ،اس تخلیق کے مطالعہ سے قاری اور سامع پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ، کیف و مستی کے جذبات کو نمو ملتی اور اس کے معجز نما اثر سے بے خودی طاری ہو جاتی ہے تو ایسے ادب پارے لوحِ جہاں پر اپنا اعلیٰ مقام اور تخلیق کار کا دوام ثبت کر دیتے ہیں۔لان جائنس کی اس تصنیف کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ عظیم ادب پاروںکی تخلیق کے پسِ پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں اور تخلیق کار کس طرح اپنی تمام صلاحیتوں اور استعدا کو مجتمع انداز میں اپنی تخلیق میں سمو دینے کی سعی کرتا ہے ۔ارسطو نے قارئین میں ادب پارے کے بارے میں ترغیب کے حوالے سے بات کی اورقارئین کے رد عمل کو ادب پارے کے مقام اور قدر و منزلت کے تعین میں اہم قرار دیا۔اس کا خیال تھا کہ فن کی جمالیات اور اس کے پس پردہ کار فرما نفسیاتی محرکات ہی ادب پارے کی حقیقت کی گرہ کشائی کر سکتے ہیں۔افلاطون کا خیال تھا کہ ادب پارے کے تخلیقی محرکات کا تعلق انسانی اوصاف اور صلاحیتوں سے ہے ۔لان جائنس نے ادب پارے کے معیار ،اثر آفرینی اور تخلیقی فن کار کی مہارت اور بصیرت کی جانچ پرکھ کے لیے بلند پایہ اظہار اور رفیع الشان اسلوب کو کسوٹی قرار دیا ہے ۔
نقد و نظر کی جو بنیادی نوعیت کی مشعل لان جائنس نے فروزاں کی اس کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے۔اس کے افکار کی ضیا پاشیوں سے علم و ادب اور فکر و خیال کی دنیا منور ہو گئی۔اس کا خیال تھا کہ الفاظ کا حسن جہاں تخلیق کار کے ذوق سلیم کا مظہر ہوتا ہے وہاں تخلیق کار جب جذبات ،احساسات اور واقعات کی لفظی مرقع نگاری کرتا ہے تو یہی الفاظ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے سب استعاروں کا مخزن بن جاتے ہیں۔ فکر و خیال کے معد ن سے اظہار و ابلاغ کے گوہر نایاب کی جستجو کے لیے الفاظ کے منابع کی طر ف رجوع نا گزیر ہے ۔ادب پارے کے جمالیاتی حسن کے نکھار میں الفاظ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اس نے ادب پارے کی جمالیاتی تحسین کے سلسلے میں الفاظ کے انتخاب اور اظہار و ابلاغ کے طریقوں پراپنی توجہ مرکوز رکھی۔کسی بھی تخلیقی فن پارے کی جمالیاتی تحسین کے سلسلے میں لان جائنس کے خیالات کو اولیت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔لا ن جائنس کا اسلوب معروضی کے بجائے موضوعی نوعیت رکھتا ہے ۔رومان پسندی کا پر جوش استدلال تو اس کے اسلوب میں نمایاں ہے لیکن ایک سخت تجزیہ کار کی سنجیدگی ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ۔اس کا خیال تھا کہ ایک زیرک تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیقی فعالیت کاآغاز کرتا ہے تو اسے اپنے اسلوب کو بھرتی کے بے سرو پا مضامین سے بچانا چاہیے۔اظہار و ابلاغ کی راہیں بہت احتیاط کی متقاضی ہیں اس لیے عامیانہ اور اوچھا پن نہ صرف تخلیق بل کہ تخلیق کار کو بھی مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتا ہے بل کہ غیر مطلوبہ جملہ معترضہ کی بھر مار اسلوب کو نتہائی بوجھل اور نا گوار بنا دیتی ہے ۔اگر تخلیق کار ان عوامل کے مسموم اثرات سے اپنے اسلوب کو بچانے میں کام یاب ہو جائے تو اس کی تخلیقات پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیں گی۔ تخلیقی عمل کے دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ جذبات و احساسات کے اظہار کی تمنا میں لفظ سوجھتے ہیں تو معانی کی بغاوت مدعا کے ابلاغ کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے۔وہ افقِ ادب پر پڑی اوہام ،تشکیک اور ابلقِ ایام کے سموں کی گرد کو اپنے افکار سے صاف کر نے کا کوئی واضح لائحۂ عمل تجویز نہیں کرتا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قابل عمل خیالات کی ترسیل کے بجائے جوش اور محض زبانی اظہار کو اپنی منزل سمجھ کر چپکے سے آگے بڑھنے میں عافیت سمجھتا ہے۔اس کا خیال تھا کہ ادب کو محض اخلاقیات کا مخزن قرار دینا ایک یک طرفہ سوچ ہے ۔اس کے بر عکس حسن و رومان سے ادب کا جو گہرا تعلق ہے اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس نے رومانویت کے ساتھ ادب کے گہرے ربط کے موضوع پر اپنے خیالات سے قارئین کی توجہ حاصل کی۔لان جائنس نے اسلوب میں استعارہ کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ ایک تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور بصیرت کے اوج کمال کا راز اس امر میں نہاں ہے کہ اس نے استعارہ کو کس مہارت سے اپنے فن میں برتا ہے ۔بادی النظر میں یہ بات ارسطو اور افلاطون کے خیالات کی صدائے باز گشت معلوم ہوتی ہے لیکن ارسطو اور افلاطون نے ادبی اسلوب کے عناصر کو جذبے اور خیال کے تابع بنا کر جس طرح اس کی تزئین و آرائش پر توجہ مرکوز رکھنے پر اصرار کیا، لان جائنس نے اس سے اختلاف کیا۔افلاطون کا خیال تھا کہ اظہار و ابلاغ اور فصاحت و بلاغت کو اخلاقیات اور ما بعد الطبیعات کے جملہ سیاق و سباق سے مکمل طور پرا لگ ایک جداگانہ نوعیت کے حامل فن کی حیثیت حاصل نہیںبل کہ فن تو حرفِ صداقت اور محاسن و سعادت کے تابع رہتے ہوئے حرف و حکایت کی مسحور کن کیفیت کا مظہر ہوتا ہے ۔ سقراط نے بھی حرفِ صداقت کے بیان میںانہی خیالات اور خوابوں کی صورت گری کی کوشش کی ہے۔
اسلوب کے ترفع کے بارے میں لان جائنس نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی افادیت کا ایک عالم معترف ہے ۔اس نے تخلیقِ ادب کے بارے میں جن اہم امور کی جانب توجہ دلائی ان کی نوعیت افلاطون اور ارسطو سے مختلف ہے۔ اس نے واضح کیا کہ تخلیقِ ادب میں حسن و رومان اور عہد و پیمان کی جلوہ گری کی الگ شان دل ربائی ہے ۔وہ ادب کو محض پند و نصائح کا مرقع نہیں سمجھتا تھا بل کہ اس کا خیال تھا کہ ادب کو جمالیات کا مخزن ہو نا چاہیے۔ ہر قسم کی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اس نے کتاب زیست کے ان ابواب کے مطالعہ کی کوشش کی جن کے کئی اوراق با لعموم نہیں پڑھے جاتے ۔وادیٔ خیال کو مستانہ وار طے کرنے والوں کا خیال ہے کہ کم سِن بچے بالعموم تیرگی سے ہراساں رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ شباب کی حدود میں قدم رکھتے ہیںان کے فکر و نظر کی کایا پلٹ جاتی ہے اور خوف کا یہ المیہ بھی نیا آہنگ اپنا لیتا ہے ۔اب وہ تاریکی کے بجائے روشنیٔ چشم کے عکس اور اس کی ضیا پاشیوں کو دیکھ کر تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔رومان کی فضا میں سانس لینے والے اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ کسی مصلحت کے تحت محاذ ِ جنگ سے پسپائیاں تومناسب ہیں مگر حسن و رومان اور محبت کے دشت پُر خار میں قدم رکھنے والے واپسی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔یہ کسی ادب پارے کا فکری ترفع ہی ہے جو اُسے قبولیت عام کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔حسن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس میں کبھی تو سوز و ساز، رومی کا کرشمہ دامن ِ دل کھینچتا ہے،جگر ِ لالہ میںخنکی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور دل میں نئی لہر سی اُٹھتی محسوس ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی حسن پیچ و تاب ِ رازی کی کیفیت کامظہر بن جاتا ہے اور دریاؤں میںاُٹھنے والے طوفانوں کے دِل اسے دیکھ کر دہل جاتے ہیں۔اس عالمِ آب و گِل کے تمام مظاہر نقش ِ فانی ہی تو ہیںاور اس کائنات کے معمولات کی حیثیت ایک کہانی سے زیادہ نہیں۔اس کے باوجود جب کسی بڑے کام کا آغاز کیا جائے تو ہمیشہ اعتماد سے کام لیا جائے اور ہر سانس کو جاودانی خیال کیا جائے ۔اپنی وسعتِ نظر کو رو بہ عمل لاتے ہوئے لان جائنس نے تخلیق کار کے قلب اور روح میں اترنے والے سب موسموں کا احوال جاننے کی ضرورت پر زور دیا۔اس نے یہ بھی واضح کیا کہ وقت کی اہمیت کو سدا ذہن میں رکھا جائے اور تاریخ کے مسلسل عمل کا خیال رکھا جائے جو لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر جاتا ہے۔ایک بلند پایہ تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی تخلیقات کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سیاس قدر بلندی تک پہنچاتا ہے کہ ستاروں سے بھی آگے موجود جہان کی جستجو کو مطمح نظر بناتا ہے ۔ وہ تکنیک کو محض ثانوی مقام دیتاہے اور تکنیک کی بھول بھلیوں میں اُلجھنے کے بجائے افکارِ تازہ،نادر موضوعات،متنوع خیالات اور حسین الفاظ پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ادب میں مقاصد کواس قدر تنوع ،وسعت اور ترفع عطا کرنا کہ ہمالہ بھی جھک کر اس کی تعظیم کرے ایک مستعد تخلیق کار کا مطمحِ نظر قرار پاتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے فکر و خیال کی یکسانیت ،اظہار و ابلاغ کا خلوص،نطق و تکلم و سماعت کے سب سلسلوں میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔
وقت کی مثال بھی سیل رواں کی تند و تیز موجوں کی سی ہے ۔اس دنیا میں کوئی شخص بھی اپنی پُوری بساط،شدید تمنا اور انتھک جد و جہد کے با وجود بیتے لمحات کی چاپ دوبارہ کبھی نہیں سُن سکتا اور نہ ہی پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ فیض یاب ہو سکتا ہے ۔گلشن ہستی میںسمے کے سم کے ثمر سے کون انکار کر سکتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں بالعموم ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے ذوق،مشاغل،فعالیتیں،معمولاتِ زندگی،عزائم،عمریں،زبانیں اور اسالیب جداگانہ ہوتے ہیں لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی ایک موضوع پر ان کے خیالات میں کامل ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہو۔ لان جائنس نے اسلوب میں بے جا طوالت،الفاظ کے اُلٹ پھیر،اظہار کی پیچیدگی، سیاق و سباق سے غیر متعلق تفصیلات کے بیان،تکلم کے غیر مربوط سلسلے ،موضوع سے ہٹی ہوئی گفتگو اور بے جان مکالمات کو اسلوب کی دل کشی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دیا ۔اس نے اس جانب متوجہ کیا کہ جب ایک جری تخلیق کاراپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے ہے تزکیۂ نفس کے طور پر اپنے تخلیقی عمل کاآغاز کرتا ہے تو قوی جذبات کا سیل ِ رواں،اظہار و ابلاغ کی مہارت،اندازِ گفتگو، موزوں اور دل کش الفاظ کا انتخاب اور حسین الفاظ کی ترتیب کا قرینہ اس کے اسلوب کی اساس بنتے ہیں۔اس ارفع طریق کار کو اپنا کر وہ قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھانے پر قادر ہو سکتا ہے۔اگر تخلیق کار ،قاری اور سامع میںربط باہمی نہ ہو تو تکلم کے سب سلسلے ٹُوٹ ٹُوٹ جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال پرمعاّ قاری کو ایک ایسی محفل موسیقی کا خیال آتا ہے جس میں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ سب بھانڈوں اورمسخروں کا وتیرہ ہے۔یہاں لے ،سُر ،تال اور آہنگ سے عاری مسخرہ قماش سازندوں اور گلوکاروں کی زبان آری کی طرح چلتی ہے۔ان بے سُرے طبلچیوں پر اس آن رقت طاری ہو جاتی ہے جب ان کا نالہ سر کھینچتا ہے کہ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے موقع پرست اور چڑھتے سورج کے پجاری اب تک منقار زیر ِ پر کیوں ہیں۔ان کا المیہ یہ ہے کہ آہنگِ سازِ محفل سننے کے باوجود کسی کا اس طرف آنے کا آہنگ نہیں۔تحسین نا شناس ایک ایسے آشیاں کے مانند ہے جو کسی ایسے نخلِ تناور کی شاخِ نازک پر بنایا جاتا ہے جسے آلامِ روزگار کے مہیب بگولے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں اور یہی قضا و قدر کا اٹل فیصلہ ہے جسے نوشتۂ دیوار سمجھنا چاہیے۔
ادب میں مقاصد کی رفعت ،معیار کی توقیراور اسلوب کی عظمت ایک ایسا ادق ، پیچیدہ اور دشوار موضوع ہے جس کا مناسب تیاری کے بغیر سامنا کرنا قطعی ناممکن ہے۔ادب اور فن کی دنیا میں سالہا سال کی مسافت طے کر نے کے بعد کچھ ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیںجن کی ناقابل فراموش تلخ یادوں کے مسموم اثرات فکروخیال کا تمام منظر نامہ گہنا دیتے ہیں۔ ایام گزشتہ کی تاریخ کے اوراق میں مذکور تلخ و شیریں واقعات اور دھوپ چھائوں کی روداد کی اپنی الگ تاثیر ہے ۔ ان سے وابستہ یادوں کا تعلق جہان دیگرسے ہے۔ قریۂ جاں میںحسین یادوں کا مضبوط اور مستحکم تسلط کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔تلخ یادیں جو چرکے لگاتی ہیں وقت کا مرہم ان کے اندمال اور سمے کا ثمر ان کے سم کا تریاق بن جاتا ہے ۔لان جائینس کا خیال ہے کہ عام طور پر ترفع کی ان مثالوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے جن کی حیثیت مقصدیت اور رفعت مسلمہ ہو ۔ ایسی ہمہ گیر تخلیقات ہر عہد میں قاری کو ہمہ وقت خوشیوں اور اندیشہ ٔ زوال سے ناآشنا بہاروں سے فیض یاب کرتی ہیں ۔اس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ فکر و خیال اوراسلوب میں رفعت اپنے دامن میں متعدد ایسے گوہر ِ نایاب سموئے ہوتی ہے جن کی عکاسی سے نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔الیکزنڈر پوپ (Alexander Pope,B:21-05-1688,D: 30-05-1744) کا شمار اٹھارہویں صدی کے انگریزی زبان کے ان ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔طنز و مزاح ،نقد و نظراور ہومر کے تراجم کے سلسلے میں الیکزنڈر پوپ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اس نے سال 1711میں لکھی گئی اپنی مشہور نظم ’’An Essay on Criticism‘‘ میں مثبت انداز میں لان جائنس کو خراج تحسین پیش کیا ہے :
Thee, bold Longinus! all the Nine inspire,
And bless their Critick with a Poet’s Fire.
An ardent Judge, who Zealous in his Trust,
With Warmth gives Sentence, yet is always Just;
Whose own Example strengthens all his Laws,
And Is himself that great Sublime he draws.
ترفع کے حامل ادب پاروںاور حسین ادبی تخلیقات میںپائے جانے والے نازک فرق کی صراحت کرتے ہوئے آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ممتاز مصنف،فلسفی،اور نظریہ ساز سیاسی مفکر ایڈمنڈ برک (Edmund Burke,B:12-0-1729,D:09-07-1797)نے سال 1757میں شائع ہونے والے اپنے درج ذیل رسالے میں تمام حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے :
A Philosophical Enquiry into the Origin of Our Ideas of the Sublime and Beautiful
ترفع کی صفات سے ثروت مند ادب پارہ اپنے دامن میںانتہائی پر جوش اور قوی جذبات کی متاع بے بہا لیے ہوتا ہے اس لیے وہ لامحدود نوعیت کے اثرات کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ترفع کے حامل ادب پاروںکی ہمہ گیر اثر آفرینی کو دیکھ کر تقلیدی روش اپنانے والوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور وہ پکار اُٹھتے ہیں :
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
اٹھارہویں صدی کے دوران اور انیسویں صدی کے اوائل میں ادب میں تر فع کی جستجو کا سلسلہ جاری رہا ۔رومانوی تحریک سے وابستہ ادیبوں نے اس میں گہری دلچسپی لی اور تخلیق فن کے لمحوں میں پورے انہماک کامظاہرہ کرتے ہوئے وہ پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہے۔عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں ترفع سے متمتع جو نادر ادب پارے موجود ہیںان میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے ادیب دانتے( B:01-06-1265,D:14-09-1321 ،Dante Alighieri )کی تصنیف The Divine Comedy ، شیکسپئیر کے ڈرامے اور جرمن ادیب گوئٹے شامل ہیں۔جرمن ادیب گوئٹے ( ,B:August 28, 1749,D:March 22, 1832 Johann Wolfgang von Goethe )کی تصنیف Faust شامل ہیں۔ایڈمنڈ برک کے بعد سال 1790میںایمنوئل کانٹ نے ترفع کے حامل ادب پاروں کے مطالعہ پر توجہ دی۔اس نے واضح کیا کہ بالعموم اس ادب پارے کو رفیع الشان قرار دیا جاتا ہے جو ہر اعتبار سے عظیم ہو ۔یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ حسین و دل کش ادب پارے اور رفیع الشان ادب پارے میں جو فرق پایا جاتا ہے اس کو سمجھنا ے حد ضروری ہے۔
فرانس کے ممتاز ادیب،فلسفی ،محقق اور نقاد ایمنوئل کانٹ ( ,B:April 22, 1724,D:February 12, 1804, Immanuel Kant) نے اپنی وقیع تصنیف جائزہ کی قوت کا تنقیدی جائزہ (Critique Of the power of Judgement) )میں اس نے حسین اور رفیع الشان کے فرق کی صراحت کی ہے ۔اس کا خیال ہے کہ حسن کا تعلق کسی چیز کی ہئیت سے ہوتا ہے جس کے لیے خاص حدود کا تعین کر دیا گیا ہے ۔اس کے بر عکس رفیع الشان ادب پاروں کا ہئیت سے کوئی تعلق نہیں ۔ان کی لا محدودہمہ گیری ،وسعت اور اثر آفرینی سرحدِ ادراک سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔رفیع الشان ادب پاروں کی وسعت اور حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے:
“Thus sublimity is not contained in nature ,but only in our mind ,insofar as we can become concious of being superior to nature within us and thus also to nature outside us (insofar as it influences us).Everything that arouses this feeling in us ,which includes the power of nature that calls forth our own powers,is thus (although improperly)called sublime;and only under the presupposition of this idea in us and in relation to it are we capable of arriving atthe idea of the sublimity of that being who roduces inner respect in us ot merely through his power,which he displays in nature ,but even more by the capacity that is placed within us for judging nature without fear and thinking of our vocation as sublime in comparison with it.” (1)
لان جائنس نے اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ تخلیقی فن پارے کی وہ خصوصیات جو قاری کے ذوق سلیم کو اس طرح مہمیز کریں کہ قاری پر وفورِ مسرت سے سرشار ہو کر وجدانی کیفیت طاری ہو جائے ،وہی ادب میں ترفع کی ضامن ہیں۔ایسی تخلیقات کو عظمتِ خیال کی مظہر رفیع الشان تخلیقات کادرجہ حاصل ہے۔ایک با صلاحیت ادیب جب تخلیق فن کے لمحوں میں قاری تک اپنے جذبات ،احساسات اور خیالات کی ترسیل و تفہیم کو یقینی بنا دیتا ہے تو وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اور تخلیقی مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے اوجِ کمال تک پہنچا دیتاہے ۔عالمی ادبیات میںاس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جب تخلیق کاروں نے اپنے حسین، دل کش،منفرد ،مؤثر اور جاذبِ نظر اسلوب سے اظہار و ابلاغ کے عظیم الشان مقام تک رسائی حاصل کی اور جریدۂ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔لان جائنس کے خیالات کا عمیق مطالعہ کرنے سے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ادب میں ترفع کے عظیم الشان مظاہر اس وقت منصۂ شہود پر آتے ہیں جب خیالات میں عظمت وشوکت،جذبات میں نفاست، اظہار میں حریت و صداقت ،احساسات میں شرافت و طہارت،گفتگو میں شائستگی و پاکیزگی،بندشِ کلام میں دل کشی،الفاظ میں ترنگ ،لہجہ دبنگ اور جمالیاتی سوزو سرور کا وفور ہو ۔ ایسا ادب پارہ کائناتی وسعت اور لا محدود مقبولیت کی ابد آشنا خصوصیات سے متمتع
ہوتاہے۔لان جائنس نے ادبی ترفع کو تحریک دینے والے عوامل کی جستجو میں محض تخلیقی فن پارے کے محاسن پر توجہ مرکوز نہیں رکھی بل کہ تخلیق کار کی شخصیت کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے جس کی تخلیق فعالیت کے اعجاز سے بلند پایہ ادب پارہ تخلیق ہوا۔ ادب پارے کے محاسن تلاش کرتے وقت با کمال تخلیق کار کی اخلاقی،روحانی،تخیلاتی اور تخلیقی قوت کی تجسیم اس خوش اسلوبی سے ہوتی ہے کہ قاری اس کے مطالعہ سے مسحور ہو جاتاہے ۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ چونکہ ادب میں ترفع کا تعلق قلب اور روح کی عظمت سے ہے اس لیے رفعتِ تخیل کے بغیر ادب پارے کا وقیع اور ترفع کا حامل ہونا بعید از قیاس ہے ۔تخلیقِ فن کے مراحل میں اثر آفرینی اور رِفعت کے سوتے قلب اورروح کی عظمت ہی سے پھوٹتے ہیں۔ایسے تہی دامن لوگ جن کی زندگی فکری افلاس اور ذہنی غلامی کی بھینٹ چڑھ گئی ہو ،جن کی عادات و اطوار سفلگی اور خست و خجالت کے مدار میں گھومتی رہتی ہوں ان سے لافانی خیالات ،ابد آشنا تصورات اور لائق صد رشک و تحسین اسالیب کی تخلیق کا تصور ہی عبث ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ قدرتی طور پر انھی لوگوں کے منھ سے پھول جھڑتے ہیں جن کے خیالات میں گہرائی ،اظہار و ابلاغ میں ایک شان استغنا ، فکر و نظر میں گیرائی اور بیان میں کمال و جلال کی صورت گری کا کرشمہ دامن دلِ کھینچتا ہو۔لان جائنس نے اس بات پر زور دیا کہ باوقار اسالیب صرف ان اذہان میں نمو پاتے ہیں جن کی عظمت و شوکت مسلمہ ہو۔لان جائنس نے بھونڈی تقلید کی مہلک روش پر چلنے والے چربہ ساز ، سارق ، کفن دزد ر،جعل ساز اور لفاظ حشرات ادب کے مکرکا پردہ فاش کر تے ہو ئے ادب پا روں کی حقیقی عظمت اور رفعت کے لیے جن او صاف کو نا گزیر قرار دیا ہے ان میںعظمت فکر ، پر خلو ص جذبا ت ، صدا قتوںکی حسین مر قع نگاری ،تکلم کی شان دل ربا ئی اور سا خت کا وقا ر شا مل ہیں۔ لا ن جائنس نے ادب میں ترفع کی جس کیفیت کا ذکر کیا ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے تخلیقی وقار اور روحانی عظمت کی گونج ہے جس کی صدائے باز گشت ہر عہد میں سنائی دیتی رہے گی۔
مآخذ
1.Immannuel Kant:Critique Of the power of Judgement ,Translated by Paul Guyer,Cambridge University Press U.K.2006.Page 147.