رات دن میں کیسے بدل گئی
ٹرین لندن میں داخل ہوئی تو میں اس کے نظاروں میں منہمک ہوگیا ۔میں نے لندن کا ذکر بہت سنا اور پڑھا تھا۔ اسی لئے یورپ کے اس شہرِ بے مثال کو دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا ۔ لندن تاریخی اور سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں بیٹھ کر انگریزوں نے سیاسی جوڑ توڑ ، سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جنگوں کے ذریعے آدھی دنیا کو اپنا زیرِ نگیں کیا۔ یہاں وہ بادشاہ حکمران ہوا کرتاتھا جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔آج جو اہمیت اکلوتی سپرپاور امریکہ کو حاصل ہے، ایک دور میںاس سے کہیں زیادہ اہمیت برطانیہ کو حاصل تھی ۔ امریکہ آج کل پوری دنیا میں اپنی من پسند حکومتیں قائم کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس کے برعکس انگریز اپنے مفتوحہ علاقوں پر خود حکومت کرتے تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر ان ممالک کی دولت سمیٹ کر لندن پہنچا تے تھے ۔ میں نے خود لندن میوزیم میں یہ تحریر پڑھی ہے کہ ایک وقت ایسا آیاکہ برطانیہ میں ذرائع آمدنی انتہائی محدود تھے۔اس وقت ان کی معیشت کا سارا د ارومدار ہندوستان سے آنے والی دولت پر تھا ۔لندن میں زیادہ تر شاندار اور پرشکوہ عمارات اسی دور کی نشانیاں ہیں ۔ وہ عمارات آج بھی قائم ہیں ۔ انگریز ان کی پائیداری،قدامت اور تاریخی حیثیت پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں مانتیکہ ان عمارتوں کی بنیادوں میں ان کی کتنی ہی نو آبادیوں کے عوام کے منہ سے چھینے گئے نوالوں کا رنگ بھی شامل ہے۔
لندن میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی ہی ہیں ۔ جدید عمارات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔لندن بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ شہر تھا ۔ انہوں نے یہاں رہ کر اپنے آبائو اجداداور اپنی قوم کا نام روشن کیا۔یہاں سے حاصل گئی تعلیم کو انہوں نے پوری قوم کی آزادی کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے انگریزوں کا انہی کی زبان میں مقابلہ کر کے اور ایک طویل قانونی اور سیاسی جنگ کے بعد برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک حاصل کیا۔ جہاں آج ہم آ زادی کی سانس لے رہے ہیں۔دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور ملک کو لوٹنے والوں کا ٹھکانہ بھی یہی شہرہے ۔ یہاں بیٹھ کر وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے اور حکومتوں کو گرانے کے لئے جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں ۔ گویا یہ شہر اب بھی سازشوں کا مرکز ہے ۔ لیکن اب ہمارے’’ اپنے ‘‘ ان سازشوں میں پیش پیش ہیں۔
میں انہی سوچوں میں غلطاں اوراس کے نظاروں میں سرگرداں تھا کہ ٹرین کنگز کراس) (kings Crossاسٹیشن پر پہنچ گئی، جہاں میں نے اُترنا تھا ۔ سٹیشن کیا ہے، یہ پورا شہر ہے۔بہت بڑا ، انتہائی مصروف۔ اس کے بے شمار پلیٹ فارم ہیں۔ میں نے جدھر نظر دوڑائی لوگوں کا اژدہام نظر آیا ۔ہر فرد جلدی میں نظر آرہا تھا ۔ سامان کے لئے ٹرالی موجود تھی۔ مدد کے لئے عملہ حاضر تھا۔معلومات کے لئے نقشے دستیاب تھے ۔ غرضیکہ مسافروں کی مدد کا پورا بندوبست تھا ۔میں نے یہاں سے لوکل ٹرین پکڑنی تھی۔ سامان ٹرالی پر رکھا اور مددگار عملے کی رہنمائی کے مطابق مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ گیا ۔چند منٹ بعد ٹرین آئی تو اس میں سوار ہوگیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں بیز واٹر (BAYS WATER )سٹیشن پر اُتر رہا تھا ۔ سامان لے کر باہر سڑک پر پہنچاتو اسے انتہائی مصروف پایا ۔اگرچہ اس وقت رات کے نو بج چکے تھے لیکن ابھی تک سورج روشنتھا اور دن کی سی گہما گہمی تھی ۔
میں ٹیکسی کے انتظار میں تھا۔ لیکن جو بھی ٹیکسی نظر آتی اس میں پہلے سے مسافر موجود ہوتا ۔ میں نے سڈنی میںبہت سے انگریزوںسے سنا تھا کہلندن کی ٹیکسی سروس بہت اچھی ہے ۔ ڈرائیور نہایت خوش اخلاق،مہذب اور سڑکوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ مسافروں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ لیکن میرا تجربہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔
ایک خالی ٹیکسی نظر آئی تو میں نے اسے ہاتھ دیا ۔وہ رک گیا ۔میں نے جب اسے اپنی منزل بتائی تو وہ کچھ کہے بنا ٹیکسی بھگا کر چلا گیا ۔ دوسری ٹیکسی روکی۔ اسے بتایاکہ میں اس ہوٹل میں جانا چاہتا ہوں۔ اس نے بھی سوری( sorry ) کہہ کر ٹیکسی آگے بڑھا دی۔ دراصل میرا ہوٹل وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور ٹیکسی ڈرائیور لمبے فیئر کے چکر میں تھے۔ اصولاََ اور قانوناََ وہ انکار نہیں کر سکتے تھے لیکن اصول اور قانون مکمل طور پردنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں ملتے ہیں ۔
اس صورت حال پر میں نے وہی کیا ،جو کرنا چاہیئے۔ میں نے تیسری ٹیکسی روکی ۔سامان اس کے اندر رکھا ۔پسنجر سیٹ پر بیٹھنے کے بعد ادھیڑ عمر انگریز ڈرائیور کو بتایا کہ اس ہوٹل لے چلو۔ ڈرائیور نے ایسے منہ بنایا جیسے کڑوی دوا نگل لی ہو ، تاہم کچھ کہے بغیر چل پڑا ۔ کیونکہ اب وہ منع نہیں کر سکتا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم ہوٹل کے سامنے موجود تھے۔اس وقت میٹر پر پانچ پونڈ بنے تھے ۔لیکن ڈرائیور کے ایک دو بٹن دبانے کے بعد جو ٹوٹل بنا وہ آٹھ پونڈ تھا ۔میں نے جب اس اضافے کا سبب جاننا چاہا تو ڈرائیور کہنے لگا’’ دراصل میں نے اس میں رات کے ریٹ کا اضافہ کیا ہے‘‘
میں نے پوچھا ’’یہ رات کا ریٹ کس وقت شروع ہوتا ہے اور اس کی شرح کیا ہے ؟ ‘‘
کہنے لگا ’’یہ آٹھ بجے شروع ہوتا ہے اور یہ عام کرائے سے پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے ‘‘
میں سمجھ گیا کہ ڈرائیور میرے رنگ کی وجہ سے مجھے پاکستان یا ہندوستان سے نیا آنے والا مرغا سمجھ کر ذبح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے میں تمہیں آٹھ پونڈ دیتا ہوں ۔تم مجھے اس کی رسید دے دو ۔ اس پر تمہاری ٹیکسی کا نمبر ، تمہارا شناختی نمبر، موجودہ وقت، اصل کرایہ الگ اور رات کا ریٹ الگ درج ہو‘‘
ڈرائیور نے چونک کر مجھے دیکھا۔ وہ فوراََسمجھ گیا کہ اس نے غلط جگہ ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس نے فوراََ پینترا بدلا اور چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے(جو سارے راستے نظر نہیں آئی تھی ) بولا’’نائٹ ریٹ کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف نارمل ریٹ جو پانچ پونڈ ہیں وہ دے دیں‘‘
میں نے کہا ’’کیوں کیا ہوگیا ؟ رات دن میں کیسے بدل گئی؟ میں نے تو وہ فون نمبر بھی نوٹ کر لیا ہے جہاں شکایت درج کی جاتی ہے ‘‘
اب تو وہ خاصا پریشان ہوگیا۔لندن میں ہر سال بے شمار سیاح جاتے ہیں۔وہاںٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے خاصے سخت ضوابط موجود ہیں اور ایسی شکایایات کا سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیوربہت پیسہ بناتے ہیں۔ ان کا لائسنس سونے کی کان کی طرح ہے۔ اگر ایسی شکایات ملتی رہیں تو یہ لائسنس منسوخ ہوسکتا ہے۔ یہ لائسنس طویل ٹریننگ اور بہت تگ ودو کے بعد حاصل ہو تا ہے۔ اس ڈرائیورکی پریشانی کی وجہ بھی یہی تھی۔ اب اس نے باقاعدہ معذرت کی کہ اس سے غلطی ہوگئی تھی اور آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ میں نے کہا ’’یہ بات یاد رکھنا کہ اٹیچی کیس اٹھائے ہوئے ہر ایشیائی گائوں سے اٹھ کر نہیں آرہا ہوتا ۔دنیا کے سامنے تو تم انگریز اپنی اصول پرستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہو ۔ یہی ہے تمہاری اصول پرستی اور ایمانداری ؟ ‘‘
اس نے پھر سوری کہا۔میں نے اسے پانچ پونڈ تھمائے اور سامان لے کر ٹیکسی سے نکل آیا۔ میں نے جب اپنا ہوٹل باہر سے دیکھا تو قدرے مایوسی ہوئی۔ وہ ایک تین منزلہ چھوٹا سا اور عام سا ہوٹل تھا ۔حالانکہ میں یہاں ایک رات کاجو کرایہ ادا کر رہا تھا اس میں آسٹریلیا میں فائیو سٹار ہوٹل میں کمرہ مل سکتا تھا۔ لیکن یہ لندن تھا۔ یہاں ہر شے ہی مہنگی تھی ۔خصوصاََ یہ علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کے باعث زیادہ ہی گراں تھا۔ کائونٹر پر میں نے اپنا نام بتایا تو انہوں نے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے میرے کوائف درج کئے۔ استقبالیہ کلرک چابی لے کر اور میرا سامان اٹھا کر مجھے میرے کمرے میں چھوڑ گیا ۔غالباََ اس وقت اس ہوٹل میں کل سٹاف یہی اکلوتا فرد تھا جوبیک وقت کلرک، سیکورٹی گارڈ اور پورٹر کا کام کر رہا تھا۔ کمرہ چھوٹا سا لیکن صاف ستھرا تھا۔ اس میں تمام بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔ مثلا اٹیچ باتھ روم ، ٹی وی، بجلی کی کیتلی، استری بمع ٹیبل،رائٹنگ ٹیبل، وارڈدوب وغیرہ وغیرہ۔ گو یا ہوٹل چھوٹا سہی، بنیادی اور اہم سہولتیں انہوں نے مہیا کر رکھی تھیں ۔ مجھے بھی یہی چاہئے تھا۔ ورنہ کئی بڑے ہوٹلوں میں اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق تکلف زیادہ اور سہولتیں کم ہو تی ہیں۔
میں نے تھوڑی دیر آرام کیا ۔ پھرنہا دھو کر کپڑے بدلے اور کسی حلال ریسٹورنٹ کی تلاش میں باہر نکل آیا ۔استقبالیہ کلرک نے میری مدد کی۔ اس نے بتایا کہ وہاں سے پانچ سات منٹ کے فاصلے پر ایک سٹریٹ ہے جہاںہر طرح کے ریسٹورنٹ موجود ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں میں اس سٹریٹ کی آوارہ گردی کر رہا تھا ۔اس وقت ر ات کے ساڑھے دس بجے تھے۔سورج غروب ہو چکا تھا ۔ اس سڑک پر رنگی برنگی دکانیں، ٹریول ایجنسیاں، کرنسی تبدیل کرنے والے دفاتر اور درجنوں ریستوران تھے ۔ بے شمار مرد اور عورتیں اِدھر اُدھر آجارہے تھے ۔ میں گھومتا گھماتا ایک ریسٹورنٹ کے سامنے پہنچا۔ یہ عربی ریسٹورنٹ تھا اور اس پرحلال کھانوں کا سائن واضح نظر آرہا تھا ۔میں نے سوچا پاکستانی ریسٹورنٹ ملے یا نہ ملے، رات بہت ہوگئی ،کیوں نہ اسی ہوٹل میں کھانا کھا لیا جائے ۔
کھانا اچھا تھا لیکن مرچ مسالے کم تھے اور ٹماٹروں کی کھٹاس زیادہ ۔ کھانے کے بعد میں آدھے گھنٹے تک اس پر رونق سٹریٹ اور اردگرد کے علاقے میں گھومتا رہا۔ اس کے بعد ہوٹل کی طرف چل پڑا ۔ ایک قدرے سنساں موڑ پر ایک انگریز لڑکی اچانک میرے سامنے آگئی۔
والدین دفتر کے باس نہیں ہوتے
بڑی بڑی نیلی آنکھوں والی اس لڑکی کی عمر تقریباََ بیس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ نیچے دیکھ کر چل رہی تھی۔میں اس سے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس لڑکی نے فوراََسوری کہا۔ پریشانی اس کے چہرے پر تحریر تھی۔ میں نے کہا’’ کوئی بات نہیں‘‘
چلنے لگا تو اس نے ایک سگریٹ طلب کی ۔میں نے اسے سگریٹ دی۔ کہنے لگی’’ تم بہت اچھے ہو۔ یہیں رہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’آسٹریلیا سے تمہارے ملک کی سیاحت کے لئے آج ہی یہاں پہنچا ہوں ‘‘
کہنے لگی ’’آسٹریلیا بہت خوب صورت ملک ہے۔ تم یہاں کتنے عرصے کے لئے آئے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا ’’چند دن لندن ٹھہر وں گا۔اس کے بعد یورپ کے چند اور شہروں میں جارہا ہوں۔ واپسی پر پھر لندن سے ہوتا ہوا آسٹریلیا واپس جائوں گا ‘‘
لڑکی نے اپنی بڑی اور نیلی نیلی آنکھیں اشتیاق سے میرے چہرے پر گاڑ دیں اور بولی ’’ بہت خوب ! میں یورپ میں پیدا ہوئی ہوں۔ حالانکہ یہاں فاصلے بھی زیادہ نہیں لیکن پھر بھی میں نے بہت کم یورپ دیکھا ہے۔ میرے حالات ہی ایسے رہے ۔ تم بہت خوش قسمت ہو جو اتنے دُور رہنے کے باوجود بھی یہاں کی سیر کا تمہیں موقع مل رہا ہے۔ ویسے تمہیں اگر جلدی نہ ہوتویہاں قریب کسی ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں؟‘‘
میں اس لڑکی کو ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ کوئی فراڈ بھی ہو سکتی تھی ۔لیکن سیاحت نام ہی اسی چیز کا ہے۔ اس میں ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے حامی بھری تو وہ مجھے لے کر نزدیکی ہوٹل کے بار میں پہنچ گئی ۔ کائونٹر پر جا کر اس نے پوچھا ’’ کیا پیو گے ؟ اسکاچ یا بیئر!‘‘
میں نے کہا ’’ میں شراب نہیں پیتا ! کوک لے لوں گا‘‘
اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا ۔میں نے مشروبات کی قیمت ادا کی۔ اس نے اسکاچ لی۔ میں نے کوک کا گلاس اٹھایا اور ہم ایک ٹیبل آ کر پر بیٹھ گئے ۔
میں اپنے سامنے بیٹھی اس لڑکی کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔اس نے اپنا نام روزی بتایا تھا ۔روزی کبھی تو ہنسنے لگتی۔ ا گلے ہی لمحے اس کی آنکھیںاشک آلود نظر آتیں، آواز گلوگیر ہو جاتی۔ کبھی وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگتی اور کبھی ناخنوں پر طبع آزمائی شروع کر دیتی۔ اس کی گفتگو بھی تسلسل سے عاری تھی۔ موسم کی بات ہو رہی ہوتی تو وہ مہنگائی کا رونا رونے لگتی۔ اچانک ہی اپنی حکومت کو برا بھلا کہنے لگتی ۔میں مسلسل اس کی اضطرابی کیفیت کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اب مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ سخت پریشان تھی۔ یہ پریشانی اس کے خوبصورت اور ملیح چہرے پر روزِ روشن کی طرح تحریر تھی۔ لیکن میں نے اسے کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک تو یہ میری فطرت ہے کہ میں دوسروں کے ذاتی معاملات کی ٹوہ میں نہیں رہتا۔ دوسرا یہ کہ انگریزوں کی اس عادت کا بھی مجھے بخوبی علم ہے کہ شروع میں وہ کھلتے نہیں نہ ہی براہ راست ذاتی نوعیت کے سوالات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ میں بھی اِدھر ُادھر کی باتیں کر تارہا ۔اس دوران اس کا ڈرنک ختم ہوگیا۔ اب اصولاََ اگلا ڈرنک اسے خریدنا چاہیئے تھا ۔لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ خالی جام کو ہاتھوں میں لئے گھماتی رہی ،لیکن اٹھنے کی کوشش نہیں کی ۔
میں جا کر اس کے لئے دوسرا ڈرنک لے آیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی لاوا ابل پڑا۔ وہ اَشک جو بہت دیر سے اس کی خوبصورت آنکھوں میں جمع ہو رہے تھے ساون بھادوں کی بارش کی طرح برسنے لگے۔اس نے سوری کہہ کر اپنا سر میز پر ٹکا دیا۔ اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ آنسو اس کے رخساروں پر سے پھسل کر میز کو گیلا کر رہے تھے ۔کافی دیر تک وہ اسی کیفیت میں رہی۔ اس دوران میں نے مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ خاموشی سے کوک کی چسکیاں لیتا رہا ۔
تقریباََدس منٹ تک یہی کیفیت رہی ۔جب میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کا غبار اچھی طرح آنسوئوں کے راستے نکل گیا ہے تو میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنا آپ سنبھالنے کے لئے کہا۔اس نے سر اٹھایا اورہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں ۔ اس کی نیلی آنکھوں میں سرخی سی بھر گئی تھی۔ چہرہ بھی متورم نظر آرہا تھا ۔میں نے اسے رومال دیا اور ایک سگریٹ سلگا کر اسے پکڑائی۔ اس نے تشکر بھری نظروںسے مجھے دیکھا اور بولی’’ سوری میں اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکی‘‘
میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں، کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے ‘‘
روزی بولی’’ تم بھی کہو گے کہ یہ کیسی لڑکی ہے۔ کبھی سگریٹ مانگتی ہے، مفت کی شراب پیتی ہے اور اچانک رونے لگتی ہے ‘‘
میں نے کہا’’ آپ کے انگریز دانشور اور مشہور ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے کہا تھا کہ زندگی ایک طویل دورانیے کا کھیل ہے۔ جہاں ہر روزنت نئے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو میں اور تم بھی اسی ڈرامے کے کردار ہیں ۔اس میں عجیب بات تو کوئی نہیں‘‘
روزی کہنے لگی’’ تھوڑی دیر پہلے تک میں خود کو بالکل تنہا اور بے آسرا محسوس کررہی تھی، لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ مجھے سہارا مل گیا ہے‘‘
میں نے سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ انگریز بھی کیسی قوم ہے۔ ایک طرف تو ان کی منصوبہ بندی اور پلاننگ صدیوں پر محیط ہوتی ہے اور دوسری طرف چند چند منٹ پہلے ملنے والے کو سہارا سمجھنے لگتے ہیں ۔ روزی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ’’وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ یہ شہر جہاں میں پیدا ہوئی ،جہاں آج صبح تک میرا اپنا گھر تھا، میرے والدین یہاںرہتے ہیں، آج اسی شہر میں میرا کوئی ٹھکانا نہیں۔ میرے پاس سرچھپانے کی جگہ تک نہیں‘‘
میں نے کہا ’’اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ تم گھر سے بے گھر ہو گئیں؟‘‘
روزی نے کہا’’ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ دوسرے والدین کی طرح میرے والدین نے بھی میری تعلیم و تربیت اور پرورش ناز و نعم سے کی۔ لیکن میں ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ گرتے پڑتے ایچ ایس سی تو میں نے کر لی لیکن نہ تو آگے پڑھ سکی اور نہ ہی کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے عام سی جاب کرنا پڑی۔ پھر بھی میرا گزارا آسانی سے ہونے لگا۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا ،جب میری ملاقات جے سے ہوئی۔ جے سے پہلے میرے کئی لڑکوں سے تعلقات رہے۔ لیکن ان تعلقات میں زیادہ سنجیدگی نہ تھی ۔ جے کے معاملے میں نہ صرف میں پوری طرح سنجیدہ تھی بلکہ اس کی دیوانی ہوگئی۔ حالانکہ جے کسی لحاظ سے اچھا شریکِ حیات نہیں تھا۔ وہ منشیات کا عادی تھا۔ کام دھندہ وہ نہیں کرتا ۔ اس کی دوستیاں بھی اپنے جیسوں سے تھیں ۔جے کے متعلق جب میرے والدین کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اس سے تعلقات بڑھانا غلط ہے۔ لیکن میں جے کی محبت میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ میں نے اپنے والدین کی ایک نہ سنی اور جے سے شادی کر لی۔
شادی کے بعد میں جے کے ساتھ رہنے لگی۔ جے ایک کمرے کے تنگ سے فلیٹ میں رہتا تھا ۔ جہاں جے کے دوسرے دوست بھی آتے تھے۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ مختلف منشیات سے نشہ کرتے اورفریج میں جو کچھ ہوتا ،چٹ کر جاتے۔ میں نے صبح اٹھ کر کام پر جانا ہوتا تھا۔ لیکن ان کی وجہ سے رات بھر سو نہ سکتی۔ صبح یا تو کام پر لیٹ پہنچتی یا نیند کی حالت میں ہوتی۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ چند ہفتوں کے بعد مجھے اس نوکری سے جواب مل گیا ۔
خوش قسمتی سے تیسرے روز مجھے نئی ملازمت مل گئی۔ یہ جاب دوپہرکے بعد شروع ہوتی تھی اور رات دس بجے ختم ہوتی تھی۔ میں پھر کام پر جانے لگی۔ جو کچھ کماتی، جے اور اس کے دوست نشے میں اڑا دیتے۔ گھر کے اخراجات کے علاوہ مکان کا کرایہ، بجلی‘ گیس اور فون کے بل بھی مجھے دینا پڑتے تھے۔ میں نے یہ توقع اور امید لے کر جے سے شادی کی تھی کہ اپنی محبت سے اسے سدھار لوں گی اور اسے راہ راست پر لے آئوں گی۔ وہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ میری امیدوں کا دیا بجھتا نظر آرہا تھا ۔
جے نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرا۔ بلکہ اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ گھر کے اخراجات اور بل کے علاوہ جے کے نشے کے لئے بھی رقم مجھے ہی فراہم کرنا پڑتی تھی۔ جو ظاہر ہے میری تنخواہ سے پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ میں نے اپنے والدین سے مدد کے لئے کہا۔ شروع میں انہوں نے کچھ مدد کی بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے سمجھاتے بھی تھے کہ جے سے پیچھا چھڑالوں ۔ لیکن میرے دل سے جے کی محبت کم نہ ہو سکی۔ میں روشن سحر کی امید میں لمبی تاریک رات کا سفر کرتی رہی۔ نتیجے میں میرے والدین مجھ سے ناراض ہوگئے۔ انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے میں توجہ سے اپنا کام بھی نہیں کرپاتی تھی۔ اس تیز رفتار شہر میںسست چال چلنے والے شخص کو جلد ہی لوگ پائوں تلے روند دیتے ہیں ۔میری کمپنی کو بھی بہتر شخص مل گیا۔ آج انہوں نے مجھے ملازمت سے الگ کر دیا۔
میں جب یہ خبر لے کر گھر پہنچی تو جے نے بجائے مجھ سے ہمدردی کرنے کے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اسے نشے کے لئے رقم کی فوری ضرورت تھی جو اب میں اسے فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ میں اس کی محبت میں سرتا پا غرق تھی اور اسے مجھ سے نہیں اپنے نشے سے پیار تھا، جو میری کمائی سے اسے حاصل ہوتا تھا۔ آج جب اسے نشہ نہیں ملا تو اس نے مجھ سے سارے بندھن توڑ دیئے۔ اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ والدین کو میں پہلے ہی ناراض کر چکی ہوں۔ میری جاب ختم ہو گئی ہے ۔میرے پاس کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ۔ مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ اس پوری دنیا میں میں اکیلی ہوں ۔ اس بھری دنیا میںمیرا اپناکوئی نہیں ہے۔ میرا ہونا نہ ہو نا برابر ہے۔ اس دنیا کو میری کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘
روزی کی داستان ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اس معاشرے کی عبرت ناک کہانی ہے جسے آزاد‘ جمہوری ‘ محفوظ اور مثالی کہا جاتا ہے۔ پروپیگنڈے کے زور پر مغربی تہذیب و تمدن کو بہترین طرزِحیات کہا جاتا ہے۔ لیکن اندر جاکر دیکھیں تو وہاں انسان کتنا اکیلا ‘ کتنا دکھی اور کتنا بے بس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہاں آزادی ہے ۔ لیکن یہ آزادی کس کام کی جب آپ کے دکھوں کو بانٹنے والا کوئی نہ ہو۔
روزی نے میز پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ اس کی حسین آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔ لیکن اب وہ پہلے کی طرح بے قرار نظر نہیں آرہی تھی۔ اب وہ قدرے بہتر نظر آرہی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ اس کے اندر کا غبار نکل چکا تھا۔ اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی ’’طارق! تمہارا بہت شکریہ !تم نے مجھے سہارا دیا۔ اب میں چلتی ہوں‘‘
میں نے پوچھا’’ تم کہاں جائو گی؟‘‘
کہنے لگی ’’یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں‘‘
میں نے کہا ’’میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟‘‘
میرے ذہن میں تھا کہ جس طرح اس کے پاس سگریٹ اور ڈرنک کے پیسے تک نہیں ہیں ۔اس کی جیب خالی ہوگی۔ تھوڑی بہت رقم سے اسے کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی تھی۔ لیکن روزی نے کچھ اور سمجھا اور بولی’’ میری تم سے آج ہی ملاقات ہوئی ہے۔ تم اچھے شخص دکھائی دیتے ہو ۔اگر آج کی رات مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دو تو کل میں کوئی بندوبست کرلوں گی‘‘
میرا اس جانب دھیان نہیں تھا ۔ میں نے سنبھلتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ جب وہ بیٹھ گئی تو میںنے کہا ’’دیکھو روزی مجھے غلط نہ سمجھنا! میں حقیقتاََ تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں ۔لیکن تم جانتی ہو میں اکیلا ہوں۔ ہوٹل میں ٹھہرا ہوں ۔ہمارا ایک کمرے میں رہنا مناسب نہیں ہے ۔لیکن اس مسئلے کا کوئی اور حل نکالا جاسکتا ہے‘‘
روزی نے پھر مجھے انہی عجیب نظروں سے دیکھاجیسے اس نے میرے شراب پینے سے انکار پر دیکھا تھا۔ کہنے لگی’’ تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا درست نہیں ہے ۔ خصوصاََ اس صورت میں جب تم مجھے جانتے تک نہیں‘‘
میں نے کہا’’ روزی تم غلط سمجھ رہی ہو۔ کسی شخص کو جاننے کے لئے مجھے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ مجھے تم پر اور تمہاری کہانی پر مکمل یقین ہے۔کمرے میں نہ ٹھہرانے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ یہ ہم دونوں کے لئے مناسب نہیں ہے‘‘
روزی میری بات سمجھ کر بولی ’’مجھے معاف کر دینا۔ میں لندن میں بے شمار پاکستانیوںسے ملی ہوں۔ میں نے تمہارے کلچر کے بارے میں بہت کچھ سنا اور پڑھا بھی ہے۔ لیکن اس کی زندہ مثال آج پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ یہاں عورت کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جوان ہوتے ہی میں نے مردوں کی وہی ایک نظر دیکھی ہے۔ آج پہلی دفعہ کسی مرد کی آنکھوں میں عورت کا احترام نظر آیا۔ میں فوری طور پر تمہاری بات کو سمجھ نہ سکی۔ مجھے معاف کر دینا ۔میں کتنی بے وقوف ہوں‘‘
اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا ۔میں تھکا ہوا تھا اور ہوٹل جا کر سونا چاہتا تھا لیکن روزی کو اس طرح فٹ پاتھ پر چھوڑ کر جانے پر میرا ضمیر مطمئن نہیں تھا۔ میں نے کہا ’’روزی رونے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔زندگی میں ایسے بے شمار اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے اور حوصلے اور سمجھداری سے ہر مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ تمہارے سلسلے میں دو تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ تم پولیس سے مدد حاصل کرو ۔ ان کے توسط سے گورنمنٹ کے بے یارو مددگار لوگوں کی مدد کرنے والے ادارے میں وقتی پناہ حاصل کرو۔ دوسرا حل یہ ہے کہ میں کچھ رقم تمہیں دے سکتا ہوں۔ اس سے ایک دو دنوں کے لئے کہیں رہنے کا بندوبست کرلو۔ اس وقت تک کوئی نہ کئی راہ نکل ہی آئے گی۔تیسرا اور سب سے مناسب حل یہ ہے کہ تم اپنے والدین سے رابطہ کرو۔ والدین آخروالدین ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دُکھی اور بے بس نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے غصے میں تم سے قطع تعلق کر لیا ہو گا۔ لیکن اب اگر انہیں تمہاری اس مصیبت کا علم ہوگا تو مجھے پوری امید ہے کہ وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے ‘‘
’’لیکن انہوں نے صاف کہا ہوا ہے کہ وہ آئندہ میری کوئی مدد نہیں کریں گے ‘‘ روزی بولی
میں نے کہا ’’انہوں نے یہ اس وقت کہا ہوگا جب تم جے کے سلسلے میں ان کی بات نہیں مان رہی تھیں۔ وہ تمہاری بہتری کے لئے ایسا کہہ رہے تھے۔ اب جبکہ جے سے تمہارا تعلق ختم ہو چکا ہے تو انہیں یقینا اطمینان ہوگا اور وہ اپنا فیصلہ بدل کر ضرور تمہاری مدد کریں گے ۔اگر وہ غصہ بھی دکھائیں تو تم برداشت کرلو۔ آخر ان کا تمہارے اوپر حق بھی تو ہے ۔ تم یہ سکہ پکڑواور ابھی انہیں فون کرو‘‘
روزی نے مجھے اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا وہ میری بات مان جائیں گے اور مجھے اپنے گھر میں آنے دیں گے؟‘‘
میں نے کہا ’’ضرور مانیں گے۔ والدین، والدین ہوتے ہیں۔ وہ دفاتر کے باس نہیں ہوتے کہ ایک دفعہ نوکری سے نکال دیں تو پھردوبارہ نہیں رکھتے۔ خونی رشتے اور پیار کے بندھن بہت مضبوط ہوتے ہیں‘‘
روزی نے وہیں کونے میں موجود پبلک فون سے والدین کو فون کیا۔ انہیں ساری کہانی سنائی۔ شروع میں اس کے ڈیڈ نے اُسے برا بھلا کہالیکن بعد میں نرم ہوتا چلا گیا۔ کافی دیر کی بات چیت کے بعد روزی کے باپ نے پوچھا ’’ تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘
روزی نے اس ہوٹل کا پتہ سمجھایا تو اس کے باپ نے کہا’’ وہیں ٹھہرو !میں اور تمہاری ماں تمہیں لینے کے لئے آرہے ہیں‘‘
میں پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا ۔ فون بند کرکے روزی پلٹی اور اچانک میرے گلے لگ گئی’’ طارق تمہارا شکریہ! میرے والدین نے مجھے معاف کر دیا ہے اور وہ مجھے لینے آرہے ہیں‘‘
میں نے اسے الگ کیا ۔ہم دوبارہ میز پر بیٹھ کر روزی کے والدین کا انتظار کرنے لگے۔ روزی کہنے لگی ’’میں اس ملک میں پیدا ہوئی ہوں۔ لیکن آج جب یہ مصیبت اچانک میرے سر پر پڑی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ کہاں جائوں اور کس سے مدد طلب کروں ۔حالانکہ ان حالات میں سرکاری اور رفاہی ادارے جو کردار ادا کرتے ہیں، ان کا مجھے بھی علم تھا ۔لیکن میرا دماغ مائوف ہو چکا تھا ۔ میں والدین سے اس لئے رابطہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مجھے ہر گز پناہ نہیں دیں گے ۔ لیکن تم نے جس انداز میں مجھے حوصلہ دیا اور درست راستہ دکھایا اس سے لگتا ہے کہ تمہیں یہاں کے حالات اور اداروں سے بخوبی آگاہی ہے۔ خصوصاََ جس یقین سے تم نے مجھے والدین سے رابطہ کرنے کے لئے کہا، رشتوں کے بارے میںوہ یقین اور اعتماد کم از کم میرے اندر نہیںہے‘‘
میں نے کہا’’آسٹریلیا میں بھی تقریبََایہی کلچر ہے اور تقریباََ ایسے ہی ادارے ہیں۔ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جہاں تک والدین پر یقین اور اعتماد کی بات ہے، یہ جذبہ اور سوچ خالصتاََ مشرقی ہے۔ ہمارے ہاں خونی رشتوں کی محبت،بزرگوں کا احترام ، اولاد سے پیار ، باہمی اعتماد اور یقین کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ یقین اور یہ سوچ مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہتی ہے ‘‘
روزی نے کہا ’’کاش میں بھی کسی ایسے ہی معاشرے میں پیدا ہوتی ،جہاں والدین سر پر چھتری کی طرح سایہ فگن رہتے ہیں۔ جہاں جے اور اس کے دوست نہیں ہوتے اور کوئی روزی ان کے رحم و کرم پر نہیں ہوتی اور جہاں مرد عورت کو ہڑپ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار خونخوار بھیڑیئے نہیں ہوتے۔ بلکہ خواتین کا احترام کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں‘‘
انہی باتوں میں روزی کے ماں اور باپ وہاں پہنچ گئے۔ اس کی ماں تو فوراََروزی سے لپٹ گئی۔ باپ ایک طرف کھڑا انتظار کرتا رہا ۔روزی ماں سے الگ ہو کر باپ کی طرف بڑھی تو اس نے بھی گلے لگا لیا۔ روزی پھر رونے لگی۔ اس کے باپ نے اس کے آنسو پونچھے اور چلنے کے لئے کہا۔ روزی ان سے الگ ہوئی اور مجھے لے جا کر اپنے والدین سے میرا تعارف کرا یا۔ دونوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور میراشکریہ ادا کیا۔ روزی نے مجھ سے پوچھا ’’ پھر کب ملو گے؟‘‘
میں نے کہا’’ ایک مسافر سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘
روزی میرا ہاتھ تھام کربولی’’ کل میں تمھارے ہوٹل آئوں گی‘‘
مجھے خدا حافظ کہہ کر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اورچلے گئے۔ میں بھی بھیگی اور خنک رات میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہوٹل کی طرف چل پڑا ۔
لندن کے ٹرین اسٹیشن پر بم
اگلی صبح تیار ہوکر میں ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں پہنچا تو اس چھوٹے سے ہال میں دس بارہ لوگ ناشتے میں مصروف تھے۔ میں نے بھی اس ہوٹل کی خوردو نوش کی صرف ایک وقت کی سروس سے پورا پورا انصاف کیا۔ ناشتے کے بعد میں نے کائونٹر سٹاف سے دریافت کیا’’ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھنا ہو تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے‘‘
کائونٹر پر کھڑی خاتون کی جوانی کا جوبن ماضی کی دُھند میں دھندلاچکا تھا ۔لیکن اس نے اپنے لباس بلکہ بے لباسی سے اسے واپس لانے کی ناکام کوشش کی ہوئی تھی۔ لباس ایسا تھا کہ چھپا کم اور کھلا زیادہ تھا۔ میرے سوال کے جواب میں پہلے مسکرائی، پھر کھلکھلائی، پھر بولی ’’مجھے ساتھ لے چلو! پورا لندن دکھا دوں گی‘‘
میں نے اسے جو جواب دیا اس کا فارسی میں ترجمہ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد، اُردو میں سر آنکھوں پر اورپنجابی میں ست بسم اللہ تھا لیکن میں دل میں سوچ رہا تھا کہ تمہارے ساتھ رہ کر تو صرف آثارِ قدیمہ ہی دیکھ سکتا ہوں۔ جبکہ میں قدیم کو دور سے اور جدید کو نزدیک سے دیکھنے کا قائل ہوں۔ بہرحال اس خاتون نے مختلف طریقے بتائے جن سے لندن کی کوچہ نوردی کی جاسکتی تھی۔ اس میں سب سے مناسب طریقہ ٹور بس تھی۔ لندن میں ٹور بس کی چار کمپنیاں ہیں۔ ہر کمپنی کی درجنوں ٹور بسیں ہیں۔ ان میں سے کسی کمپنی کا دن بھر کا ٹکٹ خرید لیں ۔جہاں دل چاہے اُتر جائیں۔ جو دیکھنا ہو دیکھیں۔ واپس اسی سٹاپ پر جائیں۔ اس کمپنی کی اگلی بس میں سوار ہو جائیں اور آگے روانہ ہو جائیں۔ یہ بسیں اس مخصوص روٹ پر سارا دن محوِ گردش رہتی ہیں ۔ان ڈبل ڈیکر ( دو منزلہ )بسوں کی چھت یعنی دوسری منزل پر بھی سیٹیں ہیں۔ ٹور گائیڈ رننگ کمنٹری کرتارہتا ہے۔(آج کل سڈنی میں بھی سیا حوں کے لئے ایسی بسیں چلنا شروع ہو گئی ہیں)آپ اس بس کے عملے سے مشہور مقامات میں داخلے کے لئے ٹکٹ بھی خرید سکتے ہیں۔ بس کے پندرہ پونڈ کے اس ٹکٹ میں دریائے ٹیمز کی پینتالیس منٹ کی کشتی کی سیر بھی شامل ہے۔
میں نے یہ آئیڈیا پسند کیا۔ ہوٹل سے تھوڑے ہی فاصلے پربڑی سڑک تھی۔ وہاں جا کر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ان بس کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بگ بس(Big Bus) کی بس آتی دکھائی دی۔ میرے اشارے پر بس رک گئی ۔میں نے پندرہ پونڈ کا ٹکٹ لیا اور بس میں سوار ہوگیا ۔
اس دن موسم صاف تھا ۔سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔میں بس کی دوسری منزل پر جا کر بیٹھ گیا۔ آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی تھیں۔ بس لندن کے مرکزی حصے کی طرف رواں تھی۔ west Minister Abbey کے پاس جا کر میں بس سے اتر گیا۔ سامنے ہی ویسٹ منسٹر ایبے کی شاندار بلڈنگ ایستادہ تھی۔ یہ عمارت لندن کی مشہور اور تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چرچ گیارھویں صدی میں بنا تھا۔تیرھویں صدی اور پھر سولہویں صدی میں موجودہ عمارت وجود میں آئی۔ 1066 ء سے تاج برطانیہ کی رسمِ تاج پوشی اس عمارت میں ہو رہی ہے۔ یہ چرچ معمول کی عباد ت کے علاوہ شاہی خاندان اور دوسری اہم شخصیات کا قبرستان بھی ہے۔ شاہی خاندان کی شادیاں بھی اسی چرچ میں انجام پاتی ہیں۔ موجودہ ملکہ الزبتھ نے آج سے چون سال پہلے دو جون 1953 ء میں اسی عمارت میں تاج پہنا تھا۔ ( اس دن کی یاد میں2 جون 2003 اس عمارت میں ایک شاندار تقریب بھی منعقد ہوئی تھی )
لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی کی گواہ بھی یہی عمارت ہے۔ اور اسی عمارت کے سائے تلے لیڈی ڈیانا کی آخری رسومات بھی انجام پائیں ۔گویا اس عمارت کی دیواریں تاجِ برطانیہ کے عروج و زوال اور خوشیوں اور غموں کی گواہ ہیں۔ عمارت کے آگے سیاحوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا ۔کیمروں کے فلیش چمک رہے تھے۔ لوگ مختلف پوز بنا بنا کر عمارت کے پس منظر میں اپنے اپنے فوٹو بنوا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خاتون کو اپنا کیمرہ تھمایا۔ اس نے بخوشی میری فوٹو اتار دی۔
اس پورے سفر میں میرا یہی طریقہ رہا ۔جہاں کہیں فوٹو بنانا مقصود ہوتا تھاکسی کے ہاتھ میں کیمرہ تھما دیتا اور فوٹو بنوا لیتا ۔ وہ الگ بات ہے کہ کئیلوگوں نے میرا سر اُڑا دیا اور کسی نے صرف آدھا چہرہ دکھایا۔( شاید انہیں میری شکل پسند نہیں آئی تھی)لیکن ایسابار بار نہیںہوا ۔زیادہ تر فوٹو بہت اچھے آئے ۔ باہر سے یہ عمارت جتنی شاندار ہے اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے مختلف حصوں میں گھوم کر باہر نکل آیا۔
ویسٹ منسٹر ایبے کے سامنے ہی برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت ہے۔ سامنے سے اس کا نظارہ کرکے، بگ بن اور سرونسٹن چرچل کے مجسمے پر نظر ڈالتے ہوئے میں پارلیمنٹ روڈ کی طرف چل پڑا۔ اس روڈ پر برطانیہ کی تمام اہم وزارتوں کے دفاتر ہیں۔ آرمی ہیڈ کوارٹر بھی یہیں واقع ہے۔ ڈائوننگ سٹریٹ بھی پارلیمنٹ سٹریٹ سے نکلتی ہے۔ میں گھومتا گھماتا ڈائوننگ سنٹر کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ برطانوی وزیراعظم کا آفس ہے۔ میرے سامنے ہی وزیراعظم ٹونی بلیئرعمارت سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھا اور مختصر سے سکواڈ کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ 10 ڈائوننگ سنٹر بھی عام سرکاری عمارتوں میں سے ایک نظر آرہی تھی ۔نہ پولیس کا جمگھٹااور نہ سیکورٹی گارڈز کی بہتات۔
اس دن موسم آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ صبح دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ بعد میں اچانک ہی بادل چھاگئے اور بوندا باندی شروع ہوگئی ۔تھوڑی دیر بعد پھر دھوپ نکل آئی ۔میں اس وقت تک کافی پیدل چل چکا تھا اور تھک گیا تھا۔ ایک فش اینڈ چپس شاپ سے میں نے کھانا لیا اور وہیں ڈائوننگ سنٹر کے سامنے ایک پارک میں بیٹھ کر کھایا۔ کھانے کے بعد گرما گرم کافی نے جسم میں حرارت سی دوڑا دی۔ میں واپس اسی روڈ پر آیا جہاں بس سے اترا تھا ۔تھوڑے سے انتظار کے بعد بِگ بس کمپنی کی بس آگئی۔ ویسٹ منسٹربرج کے پاس میں پھر بس سے اتر گیا ۔
دریائے ٹیمز پر واقع اس پل کے پاس ہی سائیکل کے پہیے کی شکل کی ایک دیو قامت رائڈ( ride)ہے۔ یہ پہیہ ایک بلند مینار پر بنایا گیا ہے۔ پہیہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں 30 کیبن بنے ہیں۔ہر کیبن میں پندرہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جب لوگ اس میں بیٹھ جاتے ہیں تو یہ پہیہ گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے حدنظر تکِ لندن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ پہیہ سست رفتاری سے گھومتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ تیس منٹ میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ اس پہیے کوMillinum London Eye کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس ہزاروی کے شروع یعنی 2000 ئمیں بنا تھا۔میں اُسی سال وہاں گیا تھا۔ نیا ہونے کی وجہ سے ان دنوں اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے والوں کا بہت رش تھا۔
لندن ویسے بھی سیاحوں کا شہر ہے۔ دنیا کے کسی اور شہر میں اتنے سیاح نہیںجاتے ہوں گے جتنے ہر سال لندن جاتے ہیں۔ لندن کو یورپ کا دروازہ بھی کہاجاتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کے سیاح جب یورپ کی سیر کے لئے نکلتے ہیں تو زیادہ تر اس کا آغاز لندن سے ہی کرتے ہیں۔ اس لئے لندن میں سیاحت سے متعلق ادارے خوب پیسہ کما تے ہیں۔ مثلاً ہوٹل‘ ریسٹورنٹ ‘ ٹور بسیں‘ ٹیکسیاں اور ٹور گائیڈ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی میلینئم آئی کی! اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے کے لئے نہ صرف غیر ملکی سیاح ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے بلکہ مقامی انگریز بھی بڑی تعداد میں اس حیرت انگیز تجربے سیمحفوظ ہونے کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں بھی ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑا ہوگیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ قطار میں کھڑے تقریباً بیس منٹ ہوئے تھے ۔لگتا تھا کہ مزید اتنا وقت نتظار کرنا پڑے گا ۔اچانک بارش شروع ہوگئی ۔تھوڑی دیر پہلے تک موسم بالکل صاف تھا ۔اسی وجہ سے صبح ہوٹل سے نکلتے وقت میں نے چھتری ساتھ نہیں لی تھی۔ تھوڑی دیر تک تو بارش کے باوجود قطار میں جما کھڑا رہا۔ جب باقاعدہ بھیگنا شروع ہوا تو کسمسایا ۔ جب پانی کیمرے اور دیگر چیزوں کو بھگونے لگا تو میں قطار سے نکل آیا ۔سامنے ہی ایک شاپ تھی۔ وہاں چھتری لینے کے لئے پھر قطار بنانا پڑی۔ ان کی چھتریاں گرم پکوڑوں کی طرح بک رہی تھیں۔ چھتری لے کر باہر نکلا تو بارش رک چکی تھی۔ دو منٹ بعد باقاعدہ دھوپ نکل آئی۔ چھتری کھولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
دوبارہ قطار میں کھڑا ہوا ۔تقریباً چالیس منٹ کے بعد میں اس دیو قامت رائڈ پر سوار ہو رہا تھا ۔جب یہ پہیہ گھومنا شروع ہوا تو ہم آہستہ آہستہ بلند سے بلند ہو تے چلے گئے ۔ جتنا بلند ہوتے جاتے اتنا ہی آنکھوں کے لئے نظارہ بڑھتا جاتا۔ حتیٰ کہ جب ہمارا کیبن چوٹی پر پہنچا تو ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی تھی لندن اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آنکھوں اور پھر دماغ کے کینوس پر منتقل ہو رہا تھا۔ دریائے ٹیمز سانپ کی طرح بل کھاتا لندن کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتا رواں دواں نظر آرہا تھا۔ وہاں سے بکنگھم پیلس‘ ویسٹ منسٹر ابے‘ لنڈن برج‘ ٹاور آف لندن‘ پارلیمنٹ ہائوس‘ ریجنٹ پارک صاف نظر آرہے تھے۔ یہ نظارہ اتنا دلکش تھا کہ آنکھیں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں نے وہاں سے کئی فوٹو اتارے۔ لیکن یہ فوٹوآنکھوں کے نظارے کے آگے ہیچ ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد جب ہم نیچے اترے تو ایسے لگا جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔ دلکش اور دلنشین خواب۔
میںدوبارہ روڈ پر آکربس کا انتظار کرنے لگا۔ اس بار بس نے بہت دیر لگائی۔ تقریباً پون گھنٹہ انتظار کے بعد اس کی شکل دکھائی دی۔ میں نے جب تاخیر کا گلہ کیا تو انہوں نے معافی مانگی اور بتایا کہ آئی آر اے کی طرف سے ایک ٹرین اسٹیشن پر بم رکھے جانے کی اطلاع ملی ہے۔ اس کی وجہ سے ٹرینیں رک گئی ہیں۔ ٹرینیں رکنے کی وجہ سے سڑکیں بہت زیادہ مصروف ہوگئی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم تاخیر کا شکار ہوئے۔
واقعی اگلے چند کلو میٹر ہم نے چیونٹی کی رفتار سے طے کئے۔ بس کمپنی نے مسافروں سے معذرت کی کہ ٹریفک کے اس مسئلے کی وجہ سے وہ طے شدہ روٹ پر ہمیں بروقت نہیں پہنچا سکتے۔ لہذا اِسی ٹکٹ میں ہم ان کی بسوں میں کل پانچ گھنٹے مزید سفر کر سکتے ہیں۔ اس دوران ہم لندن برج سے ہوتے ہوئے بش ہائوس کے سامنے سے گزرے۔بُش ہائوس بی بی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ سالہا سال سے اس عمارت سے وہ خبریں اور تبصرے پڑھے جارہے ہیں جو تقریباََدنیا کے ہر گوشے میں سنے جاتے ہیں۔ خبرجن کے حق میں ہوتی ہے وہ اسے سچ اور جن کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔میں بھی بچپن سے ریڈیو پر بُش ہائوس کا ذکر سنتا آرہا تھا۔ آج اس سالخوردہ عمارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ایسے لگا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہوگئی ہے ۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اگر وقت ملا تو یہ سٹوڈیوز اندر سے دیکھنے بھی جائوں گا۔
ہماراگائیڈ مختلف سڑکوں اور مختلف عمارتوں کے بارے میں بتاتا جارہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لطیفے بھی سنا رہا تھا۔ لیکن میں ان ہزاروں سال پرانی عمارتوں کی تاریخی حیثیت اور ان عمارتوں کے مکینوں کے کے اس کردار پر غور کر رہا تھا جس کے اثرات آدھی دنیا پر پڑے۔ ان میں زیادہ تر عمارتیں اس وقت بنی تھیں جب انگریز تقریباََ آدھی دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ گویا اس آدھی دنیا کی بیشتر آمدنی یہاں صرف ہو رہی تھی۔ اب جبکہ برطانیہ سمٹ کر ایک چھوٹا سا ملک رہ گیا ہے وہ دولت اب بھی ان کے کام آرہی ہے۔ ان عمارتوں ، سڑکوں،ریل،عجائب گھروں، پُلوں اور بندرگاہوں کی شکل میں۔
واٹر لو سٹیشن کے پاس سے دریائے ٹیمز کی کشتی کی سیر شروع ہوئی۔پینتالیس منٹ کے اس cruise میں کشتی اس بل کھاتے دریا میں لندن کے بیچوں بیچ رواں دواںہو گئی ۔ ہر مسافر کے پاس ایک ہیڈ فون تھا۔ جس میں مختلف زبانوں کا انتخاب کیا جاسکتا تھا۔ آپ اپنی پسند کی زبان کو منتخب کریں اور رننگ کمنٹری سنتے رہیں۔لیکن ان میں اُردو شامل نہیں تھی۔ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔ شاید پاکستانی سیاح زیادہ تعداد میں وہاں نہیں جاتے یا پھر پاکستانی دوسر ے بہت سے ممالک کے سیاحوں کی نسبت بہتر انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے اُردو کو شامل کرنے کی انہیں ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کمنٹری میں دریا کے دونوں طرف مشہور و معروف مقامات کے بارے میں بتایا جارہا تھا۔دریا کی اس سیر کا بہت لطف آیا۔ ویسے بھی صبح سے پیدل چل چل کر میں تھک چکا تھا۔ کشتی میں بیٹھ کر آنکھوں کو نظارہ اور کانوں کو معلومات کا خزانہ مل رہا تھا۔ پون گھنٹہ گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور ہم واپس وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔
کشتی سے اتر کرمیں تھوڑی دیر تک ملحقہ بازار میں گھومتا رہا ۔ پھرواپس بس سٹاپ پر آیا۔کافی دیر تک بس کا انتظار کیا لیکن بس کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ وہیں ایک نوٹس بورڈ پر اس بس کمپنی کا ٹائم ٹیبل چسپاںنظر آیا۔میں نے اس پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ آخری بس سوا چھ بجے تھی۔ جبکہ اس وقت پونے سات بجے تھے۔ گویا بس کمپنی کی آج کی سروس ختم ہو چکی تھی۔
میں واٹر لو ( Waterloo) ٹرین سٹیشن چلا گیا۔ اوپر سے یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن لگا۔ لیکن جب اس زمین دوز سٹیشن میں نیچے جا کر لفٹ سے باہر نکلا تو محسوس ہوا کہ نیچے تو ایک دنیا آباد ہے۔کئی پلیٹ فارم‘ ٹکٹ گھر‘ دکانیں‘ اور بے شمار لوگ ادھر ادھرآجارہے تھے۔ میںلندن میں پہلی دفعہ ٹیوب استعمال کر رہا تھا۔ کائونٹر سے ٹکٹ کے ساتھ مزید معلومات اور معلوماتی بروشر حاصل کئے ۔ یہ چھوٹا سا چارٹ لندن ٹیوب استعمال کرنے والوں کے لئے اپنے اندر پوری معلومات رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے بغیر کسی رہنمائی کے مطلوبہ ٹرین‘ اس کا روٹ اور پلیٹ فارم آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی میں اپنی مطلوبہ ٹرین میں تھا اور پندرہ منٹ کے بعد بیز واٹر( Bays water )سٹیشن پر اُترہا تھا ۔ٹرین کا یہ سفر اتنا آسان اور تیز رفتار تھا کہ اگلے چنددن لندن میں رہتے ہوئے میں نے ٹیوب ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بگ بس کا آدھے دن کا ٹکٹ بھی میں نے انہیں بخش دیا،آج کی خدمت کی ٹپ کے طور پر۔
انگریز اور کڑاہی گوشت
ہوٹل پہنچ کر میں نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ اس کے بعد اٹھ کر گرم پانی سے شاور کیا تو دن بھر کی تھکن دور ہوگئی۔ کھانے کی تلاش میںکمرِ ہمت باندھ کر ایک بار پھر ہوٹل سے نکل پڑا۔ اسی لبنانی ریسٹورنٹ کی طرف چلاجارہا تھا کہ دو پاکستانی حضرات اُردو میںباتیں کرتے ہوئے میرے پاس سے گزر ے ۔ میں نے انہیں روک کر کسی پاکستانی ریسٹورنٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے جو پتا سمجھایا اس کے مطابق وہ ریسٹورنٹ زیادہ دور نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں’’کراچی ریسٹورنٹ‘‘ میںداخل ہو رہا تھا۔ کافی بڑا اورخوبصورتی سے آراستہ ریسٹورنٹ تھا۔ زیادہ تر میزیں بھری ہوئی تھیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہاں پاکستانیوں سے زیادہ انگریز تھے۔اس وقت میں انگشتِ بدنداں رہ گیاجب میں نے ان انگریزوں کو کڑاہی گوشت‘ بریانی‘ پائے‘ نہاری اور دیگر چٹ پٹے کھانے اس طرح کھاتے دیکھا جیسے ہمارے لاہوری بٹ یا کراچی کے حضرات کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے گوروںکو اس رغبت سے پاکستانی کھانے کھاتے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مزید حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان میں سے زیادہ تر چھری کانٹے کے تکلف کے بغیر ہاتھوں سے کھارہے تھے۔ جب میں نے اپنا کھانا چکھا تو محسوس ہوا کہ اس میں مرچیں اور مسالے بھرپور بلکہ کراچی کے ریستورانوں کی طرح کچھ زیادہ ہی تھے۔ لیکن وہ گورے جس طرح ذوق و شوق سے کھا رہے تھے، اس سے لگتا تھا کہ وہ مدتوں سے ایسے کھانوں کے عادی ہیں۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ جس طرح آسٹریلین تھائی اور ترکش کھانوں کو پسند کرتے ہیں اسی طرح انگریز پاکستانی کھانوں کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔گویا چٹپٹے پاکستانی کھانوں نے گوروں کو فتح کر لیاتھا۔ہو سکتا ہے لسی اور ساگ کا ڈنر کر کے مصطفی قریشی کی طرح ڈرائونے ڈکار بھی لیتے ہوں۔ پاکستانی کھانوں کی اس مقبولیت کی وجہ سے برطانیہ کے ہر علاقے میں پاکستانی ریستورانوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔
کھانے کے بعد باہر نکلا تو رات کی سیاہی روشنی کو نگل چکی تھی۔ ہوا میں قدرے خنکی ہونے کے باوجود موسم خوشگوار تھا۔ آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد میرے قدم ہوٹل کی طرف بڑھناشروع ہوگئے۔ ایک فون بوتھ کے پاس کھڑی انگریز عورت جس کے ہاتھوں میں سلگتا سگریٹ تھا، اچانک ہی میرے بالکل سامنے آگئی۔ اس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ اپنے حلئے اور چال ڈھال سے وہ ایک پیشہ ور خرانٹ عورت معلوم ہوتی تھی۔ سگریٹ کا دُھواں میری طرف اچھالتے ہوئے بولی ’’ڈارلنگ کیا تم میرے ساتھ کچھ خوشگوار وقت گزارنا پسند کرو گے؟ ‘‘
خباثت اور کراہت اس کے میک اپ زدہ چہرے سے برس رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ مصنوعی اور انداز میں انتہائی سستا پن تھا۔ اس کے لباس کا اوپری حصہ اتنا کھلا تھا کہ کچھ چھپا نہ تھا۔ بات کرتے ہوئے وہ مزید آگے جھکی تاکہ اگر کچھ نظارہ باقی ہو تو وہ بھی دکھا سکے۔میں نے اپنی ناپسندیدگی چھپاتے ہوئے کہا ’’اس کے لئے مجھے کتنی قیمت ادا کرنا ہوگی؟ ‘‘
وہ اپنی پوری کاروباری صلاحیت استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ کر تقریباً میرے ساتھ لگ کر بولی’’ کچھ زیادہ نہیں!بس تیس پونڈ فی گھنٹہ! اگر تم اپنے ساتھ لے کر جائو تو ریٹ اور کم ہو جائے گا؟ ‘‘
میں نے پیچھے ہٹ کر اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ بڑھا یا اور کہا ’’شکریہ! مجھے یہ سودا منظور نہیں‘‘
میں چلنے لگا تو وہ پھر میرے ساتھ آلگی’’ اگر تم نے مجھے پسند نہیں کیا تو میرے ساتھ چلو۔ وہاں اور لیڈیز بھی ہیں۔ جس میں یورپین ‘ ایشین اور امریکن ہر قسم کی لیڈیز شامل ہیں‘‘
میں نے چلتے ہوئے کہا ’’تم غلط دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو۔ اپنے یہ ہتھیار سنبھال کر رکھو اور کسی اور پر آزمانا! شب بخیر‘‘
اس نے غصے سے پائوں پٹخا اور پھر جا کر اسی فون بوتھ کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔ میں چلتے ہوئے اس کے استعمال کردہ لفظ’’ لیڈیز‘‘ پر غور کر رہا تھا ۔میں نے جب بچپن میں انگریزی سیکھنی شروع کی تو استادنے لفظ لیڈی کا مطلب’’شریف عورت ‘‘بتایا تھا ۔لیکن پہلے آسٹریلیا اور اب انگریزوں کے ملک میں آکر کتابی انگریزی غلط ثابت ہو رہی تھی یا پھریہاں ایسی عورتوں کو شریف عورتیں ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ شرافت کا جو پیمانہ مشرق نے مقرر کر رکھا ہے مغرب اس میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتا۔ جس طرح آزادی کا جو پیمانہ مغرب نے مقرر کر رکھا ہے مشرق کبھی بھی اس سطح پر جانا پسند نہیں کرے گا۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ۔ ایک میں دن ہوتا ہے تو دوسرے میں رات اور رات اور دن کبھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔
میں ہوٹل پہنچا تو دو پیغام میرے منتظر تھے۔ استقبالیہ کلرک نے ایک چٹ میری طرف بڑھائی۔ اس پر روزی کا نام اور فون نمبر لکھا تھا۔ کلرک نے معذرت کرتے ہوئے بتایا ’’ اس خاتون کا صبح سے تین مرتبہ فون آچکا ہے۔ ایک دفعہ صبح جب آپ ہوٹل سے نکل چکے تھے اور دو مرتبہ شام کو جب آپ کھانے کے لئے نکلے ہوئے تھے‘‘
دوسرا نام پڑھ کر میں چونکا۔ اس پر علی کا نام اور فون نمبر تھا۔ جی ہاں، وہی علی جو میرے بچپن کا دوست تھا اور جس نے خلافِ توقع رکھائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کلرک نے بتایا کہ یہ صاحب فوراً مجھ سے بات کرناچاہتے ہیں۔میں نے کمرے میں جا کر علی کا نمبر ملایا تو اس نے فورا َہی فون اٹھا لیا ۔ایسے لگتا تھا کہ وہ فون سے لگا بیٹھا ہے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا’’ سنائو کیسے میری یاد آگئی اور میرا فون نمبر تمھیں کہاں سے ملا ؟‘‘
علی نے کہا’’ تمہارا شکوہ بجاہے۔ لیکن فون پر بات کرنے کی بجائے میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ۔یہ بتائو ابھی آجائوں تو کیسا رہے گا ؟یا تم سونا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’میں نے کون سا صبح سویرے آفس جانا ہے۔ آناچاہتے ہو تو آجائو‘‘
اس نے کہا ’’میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں‘‘
اور پھر فون بند کر دیا
اس کے بعد میں نے روزی کا نمبر ملایا۔ اس نے بھی فور اََ فون اٹھایا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگی ’’میں نے تمہاری آواز پہچان لی ہے۔ میں نے آج تین مرتبہ تمہارے ہوٹل فون کیا ،لیکن تم سے بات نہ ہو سکی‘‘
میں نے کہا’’ ہاں مجھے پتا چلا ہے۔ تم بتائو خیریت سے ہو اور کہاں ہو؟‘‘
روزی بولی ’’میں بالکل خیریت سے ہوں اور اپنے والدین کے ہاں ہوں۔ رات کو تمہارا فون نمبر نہ لے سکی۔ شکر ہے تمھارے ہوٹل کا نام یاد رہ گیا۔ صبح اٹھ کر ڈائریکٹری ہیلپ والوں سے فون نمبر لیا۔لیکن جس وقت میں نے فون کیا تم ہوٹل سے روانہ ہو چکے تھے۔ یہ بتائو میں تم سے کب مل سکتی ہوں؟‘‘
’’ میں دو دن مزید لندن میں ہوں۔ اس کے بعد اگلے سفر پر نکل پڑوں گا۔ اس سے پہلے جب دل چاہے مل سکتی ہو۔ میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر ہاتھ نہ آ سکوں‘‘
روزی نے کہا ’’اگر ابھی آجائوں تو؟‘‘
’’ ابھی اس وقت تو بہت رات ہو چکی ہے۔ کل صبح یا شام کو مل لو ۔کیونکہ کل دن میں لندن کے کچھ اور قابل ِدید مقامات دیکھنا چاہتا ہوں‘‘
روزی نے کہا’’ اگر تم برا نہ مانو تو میں صبح آجاتی ہوں۔ میں تمہیں لندن کی سیر کروائوں گی۔ ویسے بھی میں فارغ ہوں‘‘
میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر حامی بھرلی۔ روزی نے صبح آٹھ بجے پہنچنے کا وعدہ کیا اور میں نے فون بند کر دیا۔ میں نے روزی کی پیشکش اس لئے قبول کرلی کہ مقامی گائیڈ کی مدد سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھ سکتا تھا ۔ گائیڈ بھی فری اور اوپر سے حسین ،ایسے میں کون کافر انکار کر سکتا ہے۔
اتنی دیر میں کوئی میرا دروازہ کھٹکٹانے لگا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا ۔ علی تھا ۔دونوں دوست جذباتی انداز میں ملے۔ اس کے بعد گلوں،باتوں اور یادوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ علی نے اپنے سابقہ رویے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس نے بتایا’’ میں انتہائی مجبور ہوں۔ میں جس شوق اور ولولے سے برطانیہ آیا تھا وہ سرد پڑ چکا ہے۔ میرے شوق پر اوس سسرال اور خصوصاََ میری بیوی کی وجہ سے پڑی ہے۔ میری بیوی انتہائی خود سر اور بددماغ ہے۔ وہ اپنے آپ کو آسمانی مخلوق اور مجھے ایک حقیر کیڑا سمجھتی ہے ۔اس نے روزِ اول سے مجھے شوہر کا وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیاجو ہمارے معاشرے کی خواتین دیتی ہیں۔ اس نے یہ شادی والدین کے مجبور کرنے پر کر تو لی ہے لیکن ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا مکمل فقدان ہے ۔ہماری سوچوں میں وہی دُوری ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ میری بیوی کی پرورش خالصتاً مغربی انداز میں ہوئی ہے۔ اس میں مسلمانیت یا پاکستانیت برائے نام ہے۔ بلکہ وہ پاکستان کے نام سے الرجک ہے۔ دوسری طرف میرا چچا اور چچی بھی اپنے وعدوں کے برعکس آنکھیںبدل چکے ہیں۔ اس گھر میںمیری حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہیں۔ یہ سب کچھ میں اس لئے برداشت کر رہا ہوں کہ مجھے اپنے گھر اور والدین کے حالات کا بھی بخوبی علم ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میرے اوپر جو ذمہ داریاں ہیں، میں اس سے بھی آگاہ ہوں۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں ہیں جو یکے بعد دیگر شادی کے قابل ہو رہی ہیں۔ میری بیوی نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی تو مجھے ہمیشہ کے لئے برطانیہ چھوڑنا پڑے گا جو میرے اور میرے والدین کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ انہی باتوں کی وجہ سے ان نامساعد حالات میں بھی میں اس گھر میں پڑا ہوں۔ حالانکہ میں شروع دن سے کما بھی رہا ہوں۔ جو کچھ کماتا ہوں وہ چچا کے گھر ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنا جیب خرچ اور تھوڑی سی رقم بچاتا ہوں جو ہر ماہ پاکستان بھیجتا ہوں ۔ لندن میں رہتے ہوئے میں نے نہ تو یہ شہر دیکھا ہے اور نہ ہی گھومنے پھرنے کے لئے میرے پاس وقت اور سرمایہ ہے‘‘
علی کی دُکھ بھری داستان ختم ہوئی تو میری آنکھیں آبدیدہ ہو چکی تھیں۔ وہ گلو گیر لہجے میں اپنی مجبوری اور اپنے رویئے پر شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا ۔میں نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا’’ علی میں تمہارے رویئے سے غلط فہمی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس کے لئے معذرت خواہ ہوں ۔ تم یہ بتائو کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا ۔کیا ساری زندگی اِسی آگ میں جلتے رہو گے یا بہتری کی کوئی امید ہے؟‘‘
علی نے مایوسی سے بتایا ’’برطانوی قانون کے مطابق چار سال تک میں مکمل طور پر اپنی بیوی کے رحم و کرم پر ہوں ۔وہ کسی وقت بھی مجھے برطانیہ بدر کروا سکتی ہے ۔ اگر چار سال کی یہ قیدِ مشقت کاٹ لی تواس کے بعد مجھے یہاں کی بلامشروط شہریت مل جائے گی ۔اس کے بعد بھی اگر میری بیوی اور سسرال کا رویہ یہی رہا تو میں ان سے جان چھڑوا سکتا ہوں۔ لیکن یار کبھی کبھی مجھے اپنے چچا اور چچی پر بھی بہت ترس آتا ہے۔ خدا جانے انہوں نے کتنی منتیں کرکے میری بیوی کو اس شادی کے لئے منایا ہے۔ ان کا صرف یہ قصور ہے کہ انہوں نے بیٹی کی تربیت مکمل مغربی انداز میں کی ہے۔ اب و ہ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ بہرحال میری کوشش آخر وقت تک نباہ کی ہوگی‘‘
علی سے باتیں کرتے کرتے تین بج گئے۔ اس دوران ہم نے دو دفعہ چائے پی ۔میں نے علی سے کہا کہ وہ وہیں لیٹ جائے۔ اس نے کہا ’’توبہ کرو !پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ اتنی رات تک گھر سے باہر رہا ہوں۔ حالانکہ چچا ، چچی اور میری بیوی کو تمہارے بارے میں علم ہے۔ لیکن پوری رات باہر گزارنے کا میں پھر بھی رسک نہیں لے سکتا۔ اس لئے اب چلتا ہوں‘‘
میں نے پوچھا ’’پھر کب ملو گے؟‘‘
علی نے کہا ’’اوہ !میں تو بھول ہی گیا تھا ۔صبح تو میں کام پر جائوں گا ۔کل شام کو میں یہیں آجائوں گا ۔پھر اکٹھے کسی ریسٹورنٹ میں جا کر ڈنر کریں گے۔ یار برا نہیں منانا !میں تمہیں گھر نہیں لے کر جا سکتا ۔ اسی وجہ سے بیوی کے ساتھ میری لڑائی بھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں تمہیں یارک شائر فون نہیں کر سکا ۔ ہاں تمہارا فون نمبر میں نے یارک شائر والے تمہارے دوست آصف سے لیا تھا‘‘
میں نے کہا’’ کوئی بات نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہارے ساتھ ملاقات تو ہوئی۔ کل شام آٹھ بجے میں تمہارا انتظار کروں گا‘‘
اس کے بعد علی وہاں سے رخصت ہوگیا اور میں لمبی تان کر سو گیا۔
بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے!
ابھی میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ روزی آن پہنچی۔ اس دن وہ کافی نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ جینز اور ٹی شرٹ میں اس کے سڈول جسم کے پیچ و خم نظروں میں کھب رہے تھے۔ آج اس کی آنکھوں میں ستارے سے چمک رہے تھے۔ہلکے سے میک اپ نے اس کے حسین چہرے کو مزید تاباں کر دیا تھا۔ میں ابھی ناشتے کی میز پر ہی تھا۔ اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ روزی آئی تو اس نے آئو دیکھا نہ تائو ،سیدھی آکر میرے گلے لگ گئی۔ میں اِس اُفتاد سے گھبرا ساگیا۔ اسے نرمی سے الگ کیا اور سامنے والی کرسی پر بٹھایا۔ اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں اس وقت ہوٹل کے زیادہ تر مہمان موجود تھے۔ وہ ہماری جانب دُز دیدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سے میری علیک سلیک ہو چکی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ میں آسٹریلیا سے آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ اچانک ایک نوجوان اور حسین لڑکی کی آمد اور اس کا یہ انداز انہیں چونکا گیا۔ پھر یورپ کے مروجہ انداز میں انہوں نے کندھے جھٹکے اور انپے ناشتے میں مصروف ہوگئے۔ میرے پوچھنے پر روزی نے بتایا کہ وہ ناشتے سے فارغ ہو کر آئی ہے۔ تاہم اس نے کافی پینے کی حامی بھری۔کافی کے دوران میں روزی کو غور سے دیکھتا رہا۔ وہ اچانک ہنس پڑی۔ پھلجڑیاں سی پھوٹیں’’ ایسے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’خدا کی قدرت ! وہ کتنے رنگ بدلتا ہے۔ پرسوں رات والی روزی اور اس روزی میں کتنا فرق نمایاں ہے۔ آج تمہارا روپ ہی’’ وکھرا‘‘ نظر آرہا ہے۔‘‘
روزی شرمائی تو اس کے گالوں کے سیب مزید سرخ ہوگئے۔ کہنے لگی’’ تم درست کہہ رہے ہو ۔وہ روزی اور تھی اور یہ اور ہے۔ اس دن تو میں اس دنیا اور اپنی زندگی سبھی سے بے زار تھی۔ لیکن آج میں محسوس کر رہی ہو ںکہ دنیا اتنی بدصورت بھی نہیںجتنی مجھے نظر آرہی تھی ۔شاید میں نے اپنے اردگرد جو دنیا بسا لی تھی وہی بدصورت تھی۔ میں کنوئیں کے مینڈک کی طرح اسے ہی کل کائنات سمجھتی رہی۔ جبکہ اصل دنیا بہت وسیع اور بہت خوبصورت ہے‘‘
اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’ طارق ! میں تمہاری مشکور ہوں۔ اس رات جب میرا دل مایوس اور میرا دماغ مائوف ہو چکا تھا۔ میں دل و دماغ اور رات کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی تو تم نے مجھے سہارا دیا۔ اگر تم اس دن نہ ملتے تو نہ جانے کیا ہوتا ۔میں تو اپنی زندگی سے ہی بے زار تھی‘‘
میں نے کہا’’ روزی ! ہم دوست ہیں اور دوستوں میں شکریے وغیرہ کا تکلف نہیں ہوتا۔‘‘
وہ ایک دفعہ پھر جلترنگ کی طرف ہنسی۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولی’’ او کے دوست !‘‘
میں بھی ہنسا اور بولا’’ آج دوست کے ساتھ ساتھ تم میری گائیڈ بھی ہو۔ بتائو آج مجھے کیا دکھا رہی ہو؟‘‘
پروگرام یہ بنا کہ سب سے پہلے کنسنگٹن پیلس دیکھنے چلتے ہیں جو وہاں سے بہت زیادہ دُور نہیں تھا۔
تھوڑی دیر بعد ہم لندن کے مشہور کنسنگٹن گارڈن کے درختوں کے جھنڈ کے بیچوں بیچ پیدل چلے جارہے تھے۔ اچانک ہی کنسنگٹن پیلس کی شاندار عمارت ہمارے سامنے آگئی۔ سرسبز درختوں میں گھرے اس محل کو دور سے دیکھنا محال ہے کیونکہ وہ پورا علاقہ درختوں سے اٹا ہوا ہے۔ عمارت زیادہ اونچی بھی نہیں ہے۔ صدیوں تک یہ محل برطانیہ کے شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا۔ بکنگھم پیلس بننے کے بعد بادشاہ یا ملکہ تو وہاں جا بسے۔ لیکن کنسنگٹن پیلس میں اب بھی شاہی خاندان کے کئی لوگ رہتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا پرنس چارلس سے علیحدگی کے بعد اس محل میں منتقل ہو گئی تھی۔ وفات کے وقت بھی وہ یہیں رہتی تھی ۔گویا اب یہ شاہی خاندان کا دوسرا گھر ہے۔ جس حصے میں یہ لوگ رہتے ہیں اسے چھوڑ کر بقیہ عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس کے لئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ گویا شاہی خاندان نے محل کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
ٹکٹ خرید کر جوں ہی ہم اندر داخل ہوئے اس تاریخی محلکا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ۔باہر سے سادہ سی نظر آنے والی یہ عمارت اندر سے انتہائی دیدہ زیب اور خوبصورتی سے آراستہ ہے۔ اس کی راہداریاں گزرے ہوئے بادشاہوں اور ملکائوں کی تصاویر اور پینٹنگز سے سجی ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں موبائل فون کی شکل کا ایک آلہ دے دیا گیا۔ اس کو آن کرکے ہم کوئی سی زبان منتخب کرسکتے تھے۔ ہر کمرے کے باہر نمبر پلیٹ چسپاں تھی۔ آلیپر وہ نمبر پنچ کریں تو وہ اس کمرے کا تمام تاریخ جغرافیہ آپ کو بتا دیتا تھا ۔ وہ بھی آپ کی اپنی زبان میں۔ گویا یہ ایک مشینی گائیڈ تھا ۔اس طرح جس کمرے میں جائیں آلے پر وہ نمبر پنچ کرتے جائیں اور اس کی رننگ کمنٹری سنتے جائیں۔
اس محل کاہر کمرہ نہایت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی میں کوئی مشہور بادشاہ پیدا ہوا ہے اور کسی میں ملکہ نے آنکھ کھولی ہے۔ موجودہ ملکہ الزبتھ بھی اسی محل میں پیدا ہوئی تھی اور اس کا بچپن یہیں گزراتھا۔ ماضی کے ان مشہور بادشاہوں سے متعلق تاریخی اشیاء بھی ان کمروں میں موجود ہیں۔ ان کے تاج ‘ تخت ‘ مرصع شاہی کرسیاں‘ میز ‘ فانوس‘ ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے‘ بچوں کے پنگھوڑے‘ پرانے دور کی لالٹین‘ قلم ‘دوات‘ تلواریں‘ رائفلیں‘ زرہ بند اور بادشاہوں کے شکار کئے ہوئے درندوں کے سر بھی ان کمروںمیں محفوظ ہیں۔ گویا برطانیہ کے شاہی خاندان کا صدیوں پرانا تاریخی ورثہ اس محل میں موجود ہے۔ 1760ء تک یہ محل شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا ۔ اس کے بعد بھی اس کی اہمیت جوں کی توں قائم ہے۔ انگریز اور دنیا بھر کے سیاح ذوق و شوق سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔انگریزوں کی شاہی خاندان سے محبت اور روایت پسندی یہاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اگر عمارت کی مرمت بھی کی ہے تو اس کا پرانا انداز بلکہ قدیم پتھر بھی جوں کے توں رکھے ہیں۔
میں اس محل کے مختلف کمروں کے سحر میں یوں کھویا کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا ۔جس کمرے میں جاتااس کی تاریخ اور تاریخی نوادرات میں اس طرح کھو جاتا کہ اردگرد کے ماحول‘ اپنے ساتھی بلکہ اپنے آپ کو بھی بھول سا جاتا ۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا ۔ میں جیسے کسی خواب سے جاگ اٹھا۔ دیکھا تو روزی تھی۔ کہنے لگی ’’کچھ دیکھنا باقی ہے یا چلیں ؟‘‘
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر محل کی اس جادو نگری سے باہر لے آئی۔میں جیسے ماضی کے اس سنہرے خواب کے طلسم سے باہرنکل آیا ۔گھڑی دیکھی تو احساس ہوا کہ چار گھنٹے تک میں ان تاریخی بھول بھلیوں میں گم رہا تھا۔کنسنگٹن پیلس سے نکل کر ہم سیدھے بکنگھم پیلس پہنچے ۔ میں نے روزی سے ہنستے ہوئے کہا’’ تم اپنے شاہی محل دکھا کر مجھے مرعوب تو نہیں کرنا چاہ رہیں؟‘‘
روزی نے کہا’’بالکل نہیں! لیکن لندن میں آکر اگر کوئی سیاح یہ دو محل نہیں دیکھتا تو اس کی سیر مکمل نہیں ہوتی ۔ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے، ہم انگریز اپنے شاہی خاندان سے محبت ضرور کرتے ہیں لیکن ان سے مرعوب ہر گز نہیں ۔ کیونکہ اکیسویں صدی میں بھی اگر ہم نے بادشاہت کو قائم رکھا ہوا ہے تو یہ برطانوی عوام کی مہربانی ہے۔ شاہی خاندان کا رعب، دبدبہ اور حکومتی جاہ و جلال تاریخ کی کتابوں اور عجائب گھروں تک محدود رہ گیا ہے۔ شاہی خاندان اب اپنے پرشکوہ ماضی کی ایک علامت کے طور پر باقی ہے۔‘‘
بکنگھم پیلس کی شاندار اور بارُعب عمارت ہمارے سامنے جلوہ گر تھی ۔ مسلح شاہی محافظ اپنی شاندارشاہی وردیوں کے ساتھ صدر دروازے پر مجسموں کی طرح ایستادہتھے۔بکنگھم پیلس 1837 ء سے برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہ‘ بادشاہ یا ملکہ کا دفتر اور بادشاہت کا مرکز ہے۔ ملکہ برطانیہ یہیں مقیم ہے ۔تمام اہم شاہی تقریبات یہیں منعقد ہوتی ہیں۔ محل کے باہر گارڈ کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کے لئے سیاحوں کاجمگھٹالگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گارڈز کی تبدیلی عمل پذیر ہوئی ۔نئے گارڈز پوری سج دھج اور بینڈز کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے برآمد ہوئے۔انتہائی منظم انداز میں انہوں نے اپنی جگہیں سنبھالیں اور پرانے گارڈز اسی نظم و ضبط سے رخصت ہوئے۔ گارڈز کی تبدیلی کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔
بکنگھم پیلس کا ایک حصہ گرمیوں کے دنوں میں عوام کے لئے کھول دیا جاتا ہے ۔ہم بھی ٹکٹ لے کر محل کے اندر داخل ہوگئے۔ اندر کا منظر کنگنسٹن پیلس سے ملتا جلتا تھا۔ تاہم بکنگھم پیلس کی عمارت قدرے جدید اور زیادہ آراستہ ہے۔ ملکہ کا سرکاری دفتر‘ شاہی عملے کے دفاتر اور شاہی خاندان کے استعمال شدہ کمروں کی سیر کرتے ہوئے میں ایک بار پھر اسی طلسمی دنیا میں کھو گیا۔ وہاں ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت پینٹنگز آویزاں تھیں۔ شاہی فرنیچر‘ بیڈز‘ کرسیاں‘ صوفے ‘ پردے‘ وارڈ روب ‘ منقش ٹائلیں‘ دیدہ زیب آرٹ پیس‘ مرصع لائٹس‘ اور کھڑکیوں پر سجے ہوئے رنگا رنگ پھول دماغ کو کسی اور جہاں میں لے گئے۔ ایک ایک کرسی کسی ماہر کاریگر کے فن کا نادرنمونہ تھی۔ اس میں جڑے ہوئے موتی ، نقش و نگار اور اس کی تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کسے دیکھوں،کسے اپنی آنکھوں میں سمیٹوں اور کسے دماغ کے کینوس پر محفوظ کروں۔ میں ایک ایک کمرے، ایک ایک چیز اور ایک ایک تصویر میں کھو جاتا۔ ایسے لگتا تھا کہ میں اسی منظر کا حصہ ہوں یا تاریخ کے اس دور میں پہنچ گیا ہوںجب یہ سب چیزیں زیرِاستعمال تھیں۔
نہ جانے کتنا وقت ‘ کتنا عرصہ یا کتنی عمر وہیں بیت گئی۔ پھر کسی نے مجھے بیدار کر دیا ۔ مجھے خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔ یہ شاہی گارڈ تھاجو بہت نرم انداز میں بتا رہا تھا کہ سیاحوں کے لئے مختص وقت ختم ہونے کو ہے۔ میں اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ میں کہاں ہوں۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا ’’اگر آپ کو باہر کا راستہ نہیں معلوم ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔‘‘
میں نے سر ہلا دیا ۔ وہ نہ جانے کیا باتیں کرتا ہوا میرے ساتھ چل دیا۔جب باہر پہنچا تو سورج کی روشنی میری آنکھوں کو چندھیانے لگی۔ آج کے سورج کی روشنی مجھے کل کی چاندنی کے سحر سے باہر لے آئی۔ روزی آگے بڑھی اور بولی’’تم کہاں کھوگئے تھے۔میں ہر جگہ تمہیں تلاش کرتی رہی۔ اب باہرآ کر بہت دیر سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘
میں نے کہا’’ میں یہیں تھا یا شاید کہیں اور تھا۔ اب آگیا ہوں ،چلیں؟‘‘
اس نے عجیب نظروں سے دیکھا ۔جیسے کہہ رہی ہو’’ پاگل ہوگئے ہوکیا؟‘‘
ٹیوب پکڑ کر ہم سٹی سنٹر جا پہنچے۔ ٹریفا لگر سکوائر لندن کا مشہور و معروف مقام ہے۔ جہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ وہاں دنیابھر سے آئے ہوئے سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ادھر اُدھرگھوم رہے تھے۔خوبصورت چہروں کی بہار آئی ہوئی تھی۔بے فکرے اور نئے جہانوں کی کھوج میں نکلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوںکی ٹولیاں ہر سو قہقہوں کے رنگ بکھیر رہیں تھیں۔موسم ابر آلود لیکن خوشگوار تھا۔
ٹریفالگر اسکوائر میں کبوتروں کی بہتات ہے۔ جھنڈ کے جھنڈ کبوتر میدان میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ کبوتر انسانوں سے بالکل نہیں ڈرتے بلکہ ان کے ہاتھوں اور کندھے پر آبیٹھتے ہیں۔ میں نے باجرے کے دانوں کا ایک لفافہ خریدا۔ اپنے سامنے دانے بکھیرے تو درجنوں کبوتر میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ کوئی میرے ہاتھ پر تھا تو کوئی سر پر بیٹھا تھا۔ روزی نے کیمرہ لے کر چند تصاویر بنائیں ۔ تصویر کے ذکر پر یاد آیا، ا یزل اور کینوس لے کر کئی فنکار وہاں براجمان تھے۔ اگر کوئی شخص اپنی پینٹنگ بنوانا چاہے تو یہ فنکارتھوڑی دیر میں بنا کر اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مجھے بھی کئی ایک نے آفر کی۔ لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ مجھے اپنی تصویر سے زیادہ اردگرد کی دنیا سے دلچسپی تھی۔ دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلتے اور لندن کی حشر سامانیوں کا نظارہ کرتے ہوئے شام ہوگئی۔ آٹھ بجے علی مجھ سے ملنے ہوٹل آرہا تھا۔ اس لئے میں نے واپس چلنے کا عندیہ ظاہر کیا ۔روزی نے پوچھا ’’آج کا دن کیسا گزرا ۔کیا تم نے انجوائے کیا؟‘‘
میں نے کہا’’ دن گزر گیا ! انجوائے کا تو مجھے معلوم نہیں۔ لیکن یہ یادگار دن تھا۔ اتنے تاریخی مقامات اور وہ بھی ایک حسین ساتھی کے ساتھ !پھر شاید ایسا دن نہ آئے‘‘
وہ بولی ’’کیوں نہیں ! میں کل پھر تمہیں لندن گھمائوں گی۔ جب تک تم یہاں ہو میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ ہاں اگر تم مجھ سے اکتا گئے ہو تو وہ الگ بات ہے۔‘‘
وہ شوخ نظروں کا رنگ بکھیر رہی تھی۔
’’میں نے غالبؔ‘ فیضؔ اور فرازؔ کو پڑھا ہے۔ ان کی شاعری کا دیوانہ ہوں۔ تم بھی فرازؔ کی غزل سے کم نہیں ہو ۔تمہاری سنگت سے انکار کرکے میں اپنی ادب پرستی کی توہین نہیں کر سکتا۔‘‘
روزی مسکرائی، کلیاں چٹکیں‘ پھول مسکائے ’’مجھے نہیں معلوم تم کن کا نام لے رہے ہو اور کیا کہہ رہے ہو۔‘‘
میں نے کہا’’ غالبؔ‘ فیضؔ اور فرازؔ کو نہیں جانتی تو شیکسپئرؔ ‘ ملٹنؔ،ورڈس ورتھؔ اور شیلےؔ کو تو جانتی ہو۔ میرے لئے تم ان کی دِلربا شاعری سے کم نہیں ہو اور میں شاعری کا دلداہ ہوں‘‘جیسے شیکسپئر نے لکھا ہے۔
So long as men can breathe,or eyes can see
and this gives life to thee ‘ So long lives this
میں نے کالج کے زمانے میں رٹی ہوئی شکسپئیر کی چند نظموں کا بروقت استعما ل کیا۔ وہ ہنسی ’’اوہ!میں سمجھی ! کیا تم مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے؟‘‘
’’میری یہ جر ات ! یہ تمہارا شہر‘ تمہارا ملک ہے۔ میں بے چارہ پردیسی تمہیں کیا بے وقوف بنائوں گا۔میں تو خود تمہارے رحم و کرم پر ہوں۔‘‘
روزی کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔’’ تعریف کا شکریہ ! اور اب یہ شاعری بند کرکے مجھے بتائو کہ تمہارا کیا پروگرام ہے۔ کیا میں تمہارے ساتھ ہوٹل چلوں؟‘‘
میں نے کہا’’ جو مزاجِ یار میں آئے۔‘‘
وہ بولی’’ اچھا ! پھر یہ تو یہ سہی! میں کل صبح تمہیں گھمانے لے جارہی ہوں۔ کیوں نہ رات تمہارے ہوٹل میں رہ جائوں۔ اس طرح آنے جانے کی دقت سے بچ جائوں گی۔ ‘‘شرارت اس کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔
میں نے کہا’’ بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
’کیا میں تمہیں بچی نظر آرہی ہوں؟‘‘
’’ہاں ! کبھی کبھی بچی ہی نظر آتی ہو۔‘‘
اب اس نے کہا ’’بری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
میں نے کہا’’ اچھا بڑی بی! تم اب گھر جائو ۔میرا دوست انتظار کر رہا ہوگا ۔صبح ملاقات ہوگی‘‘
کچھ بحث و تمحیص کے بعد ہم نزدیکی ٹرین سٹیشن گئے۔ ٹکٹ خرید کر روزی نے مجھے ٹرین میں بٹھایا اور خود اپنی ٹرین کے لئے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی۔میں جو گائیڈ کی مدد کا عادی ہوتا جارہا تھا جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ میرا سٹیشن پیچھے رہ گیا اورمیں ٹرین میں بیٹھا رہ گیا۔ ٹرین چلی تو باہر لکھے ہوئے سٹیشن کے نام پر میری نظر پڑی۔ اگلے سٹیشن پر اُترا ۔ٹکٹ اینڈ اسسٹنٹس Ticket and Assistanceکے کائونٹر پر گیا تو انہوں نے واپسی کے لئے پلیٹ فارم اور ٹرین کا وقت بتایا ۔تھوڑی دیر بعد ہی میں اپنے نزدیکی ٹرین سٹیشن Queensway) (کی عمارت سے نکل کر ہوٹل کی طرف رواں دواں تھا۔Queensway اور Bayswater دونوں اسٹیشن میرے ہوٹل کے قریب تھے۔
لندن کا بازارِ حسن
اس رات علی سے دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ طالب علمی کے دور کے قصے دہرائے گئے۔اس دور کی اپنی شرارتوں کا ذکر ہوا۔پرانے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو یاد کیا۔ ان حماقتوںکو یاد کیاجن کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ وہ سب ہم سے سرزد ہوئی تھیں۔بچپن اور لڑکپن کے ہم جماعت اور جگری دوست جو بچھڑے تو بہت سوں کی صورت اب تک دکھائی نہیں دی۔ ایک دوسرے کو نہ بھولنے کے دعوے اور قسمیں ریت کی دیوار یں ثابت ہوئیں۔ ہم زندگی کی بھیڑ میں ایسے گم ہوگئے کہ دوست تو درکنار ،اپنا وہ معصومیت بھرا روپ بھی ذہن سے محو ہوتا چلا گیا۔ زمانے کی سرد اور گرم ہوائوں نے ہماری معصومیت،محبت ، دوستیاں اورنہ جانے کیا کچھ چھین لیا تھا ۔ ہم اندر اور باہر ہر طرف سے بدل چکے تھے۔ معصومیت کی جگہ منافقت،سچ کی جگہ مصلحت،دوستی کی جگہ مطلب پرستی، خوابوں کی جگہ تلخ حقیقتوں اور قہقہوں کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی تھی۔ جن دوستوں کے بارے میں اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم کبھی الگ رہ ہی نہیں سکتے۔ آج ان کے بارے میں علم بھی نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے کسی کو کہاں پھینکا اور کسی کو کہاں۔
ریسٹورنٹ میں بیٹھے بیٹھے بہت دیر گزر گئی۔ علی نے کہا’’ اب بند کرو یادوں کی یہ پٹاری چلو تمہیں لندن کی نائٹ لائف دکھاتا ہوں۔‘‘
میں اگرچہ تھکا ہوا تھا لیکن ایک تو علی کا ساتھ غنیمت تھا ۔دوسرا یہ کہ لندن میں نے صرف دن میں ہی دیکھا تھا۔ اس کی راتوں کی چکا چوند سے ابھی تک محروم تھا۔ اس لئے میں علی کے ساتھ نکل پڑا ۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ لیکن لندن کی سڑکیں دن کے بارہ بجے سے مختلف نہ تھیں۔ ٹریفک ویسے ہی رواں دواں تھی۔ فٹ پاتوں پر ویسے ہی لوگوں کا کھوا چھل رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اور کلب بھر ے ہوئے تھے۔ غرض یہ کہ خوب گہما گہمی تھی۔ روشنیوں اور رنگوں کا ایک سیلاب تھا ۔جوں جوں ہماری گاڑی شہر کے مرکزی حصے کی طرف بڑھ رہی تھی ٹریفک کا دبائو بڑھتا جارہا تھا ۔علی پارکنگ کی جگہ ڈھونڈنے لگا جو کافی تلاش کے بعد ملی۔
گاڑی پارک کرکے اس سٹریٹ پر چند ہی قدم چلے تھے کہ مجھے احساس ہوگیا کہ یہ ’’سرخ روشنی ‘‘والا علاقہ ہے۔ علی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سوہو (soho)ہے۔ لندن کا مشہور و معروف بازار جہاں جسم بکتے ہیں، حسن کا سودا ہوتا ہے۔ ہر رنگ و نسل کے شوقین خریدار ہوتے ہیں اوریورپ کے کونے کونے سے آ ئی ہوئی بکائو عورتیں اس بازار میں جسم کی دکان سجا کر بیٹھتی ہیں ۔برصغیر میں اس بازار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا اور یورپ میں ایسے بازاروں میں دن بھی جاگتے ہیں اور راتیں بھی۔ ہاں شفٹیں بدلتی رہتی ہیں۔
سوہو کے اس علاقے میں سٹرپ کلبوں کا ایک جال سا بچھا ہے۔ ہر گلی ،ہر کونے میں کلب کے ایجنٹ گاہکوں کو لبھا اور پھسلا کر اندر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بکائو عورتیں قدم قدم پرقدم روک رہی تھیں۔ ان کی جسمانی حرکتیں، لباس اور سستا انداز ان پر برائے فروخت کے سائن کی طرح سجا ہواتھا۔ لباس کے نام پر بے لباسی تھی۔ ان کی حرکتیں اتنی سستی تھیں کہ دل میں کراہت کا جذبہ ابھرتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کسی قصاب مارکیٹ میں موجود ہوں۔ ہم ان سے بچتے بچاتے اور دلالوں سے جان چھڑاتے آگے بڑھتے رہے۔ سٹرپ کلبوں کے یہ ایجنٹ قدم قدم پر راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے، بازو تھام لیتے اور درجنوں حسینوں کی حشر سامانیوں کی تفصیل بیان کرتے۔ ایسے ہی ایک دلال پر مجھے شبہ گزرا کہ یہ پاکستانی ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے اثبات میں جواب دیا’’ ہاں جی میں پاکستانی ہوں۔ دیکھیں نا جی! روزی روزگار کے چکر میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
میں نے کہاں ’’ہاں بھئی ولایتیا بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی جب سوٹ پہن کر واپس جائو گے تو کسی کو اس بات کا علم کیسے ہوگا کہ یہ سوٹ کہاں سے اور کس کاروبار سے بنا ہے‘‘
اس نے میرے طنز کو سمجھے بغیر کہا’’ آپ درست کہتے ہو۔ لوگ تو چھوڑیں میرے اپنے گھر والے بھی نہیں جانتے کہ میں یہاں یہ کام کرتا ہوں۔ ویسے بھی میں یہاں اکیلا پاکستانی نہیں ہوں ،بہت سے اور بھی ہیں۔بلکہ اندر جو لڑکیاں کام کر رہی ہیں ان میں بھی چند پاکستانی ہیں‘‘
میں نے علی سے کہا ’’بھئی تم لوگوںنے تو بہت ترقی کر لی ہے‘‘
علی نے کہا’’ فکر نہ کرو ۔ابھی وہاں تمہاری پہلی نسل ہے۔ دوسری اور تیسری نسل تک تم لوگ بھی ترقی کے ان زینوں پر قدم رکھ چکے ہو گے‘‘
میں نے کہا’’ درست کہتے ہو! لیکن اس کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ہم خود پر اور اپنی آنے والی نسل پر اپنی تہذیب و ثقافت کا کتنا گہرا رنگ چھوڑتے ہیں جو وقت کی دھوپ اور حالات کی بارش میں قائم و دائم رہ سکے‘‘
علی نے کہا’’ یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ تم یہ بتائو کسی کلب کے اندر چلو گے یا یوں ہی و نڈو شاپنگ کر کے واپس چلے جائو گے؟‘‘
’’بھئی میراا دل تو ویسے ہی بھر چکا ہے ۔ بہتر ہے واپس چلیں۔ ویسے بھی ایسی جگہوں میں پاکستان سے نئے آنے والوں کو دلچسپی ہو سکتی ہے ۔آسٹریلیا میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد مجھے ان میں کشش نظر نہیں آتی بلکہ کراہت محسوس ہوتی ہے‘‘
ہم واپس ہوٹل پہنچ گئے۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بجے تھے۔ تھکن سے میرے قدم اٹھ نہیں رہے تھے۔ پپوٹے کچھ نیند اور کچھ لندن کے حشر سامان نظاروںسے جل سے رہے تھے۔ علی کو خدا حافظ کہہ کر کمرے میں پہنچا اور بے سدھ ہو کر بستر پر گر پڑا۔
کُڑی تے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ
میںروزی کے ساتھ برطانیہ کے مشہور و معروف عجائب گھر میوزم آف لندن کے صدر دروازے پر کھڑا تھا۔ حسبِ معمول سیاحوں کی قطار ٹکٹ خریدنے کے لئے موجود تھی۔روزی صبح وقت پرہوٹل پہنچ گئی تھی۔ میں نے بھی نیند کی کمی کی پرواہ نہیں کی اور فوراََ تیار ہو گیا ۔ ٹکٹ خرید کر ہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو جیسے ایک انوکھی دنیا میں داخل ہوگئے۔ میوزیم آف لندن میں نوادرات اور انواع و اقسام کی تاریخی اشیاء کا اتنا بڑا ذخیرہہے کہ اسے اچھی طرح دیکھنے کے لئے کئی دن درکار ہیں۔ صدیوں پرانے لباس ، کپڑوں کے نمونے ، کھلونے ، زمانہِ قدیم کے گھر ، تیرہ ہزار سے زائد سجاوٹ کی اشیاء ، قدیم برتن ، مختلف دھاتوںسے بنے صدیوں پرانے اوزار ، زیورات ، فرنیچر سب اس میوزیم کا حصہ ہیں۔ فنِ مصوری کے نئے اور پرانے آرٹ کے شہہ پارے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ پندرہ ہزار سے زائد واٹر کلر پینٹنگز ، سینکڑوں آئل پینٹنگز اور لندن کی تاریخ سے متعلق ہزاروں تصاویر ہیں۔ علاوہ ازیں ہزاروں کی تعداد میں گھریلو تاریخی اشیاء ، تعمیری اوزار ،صدیوں پرانی گاڑیاں ،سکے اور طباعت کا ابتدائی دور کامواد بھی اس میوزیم میں محفوظ ہے۔یوںلگتا تھا اس میوزیم میں برطانیہ کی صدیوں پرانی تاریخ محفوظ ہے۔ خصوصاََلندن کی تاریخ سال بہ سال اشیاء اور تحریری شکل میں موجود ہے۔ قبل مسیح سے لے کر جب لندن پر رومنوں کی حکمرانی تھی کے دور سے لے کر موجودہ لندن کا مرحلہ وار سفر اور اس شہرِ بے مثال کا عروج و زوال اس عجائب گھر میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔
1907 ء میں بننے والی پہلی فورڈ کار اس میوزیم میں ہے۔ کار سے پہلے نقل و حرکت کے لئے جو سواریاں استعمال ہوتی تھیں، وہ مختلف شکل کی بگھیوں کی صورت میں اپنی اصلی حالت میں میوزیم میں موجود ہیں۔ لندن اور برطانیہ کی تاریخ میں ایک جگہ واضح درج تھا کہ امریکہ اور دوسری کالونیاں چھن جانے کے بعد کافی عرصے تک برطانیہ کی معیشت کا دارو مدار ہندوستان سے حاصل ہونے والی دولت پر رہا۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر کیوں قبضہ کیا تھا۔ وہ اس کی دولت کو اس کے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے سمندر پار منتقل کرتے رہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام آج بھی غربت کے اس چکر سے نہیں نکل پائے ۔ انگریز اپنی معیشت کو مضبوط کرکے خود تو پائوں پر کھڑا ہوگیا۔ جاتے جاتے سونے کی اس چڑیا کے پر بھی نوچ کر لے گیا ۔ یہ پر کٹی چڑیا آج تک پھڑ پھڑا رہی ہے۔
اس میوزیم کے مختلف شعبوں میں فن، تاریخ ،نوادرات،فن تعمیر ، ہوزری، ٹیکسٹائل ، دستکاری ، مصوری ، تصویر کشی ، کاریگری ، جدید و قدیم مصنوعات اور سائنسی ترقی سے متعلق ایک خزانہ موجود ہے۔ ہم نے لنچ بھی میوزیم کی کینٹین میں کیا۔ روزی نے یہ میوزیم صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔ اس لئے وہ بھی میوزیم کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک فن پارے میں بھرپور دلچسپی لے رہی تھی۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہوگئی لیکن تاریخی اور فنی جادونگری سے نکلنے کو ہمارادل نہیں چاہ رہا تھا۔ ایک دن قبل میں سوچ رہا تھامیرے پاس وقت کم ہے اس لئے اس عجائب گھر کو دیکھنے نہ جائوں۔ روزی کی سفارش پر میں یہاں چلا آیا تھا۔میوزیم کی سیر کے بعد احساس ہو رہا تھا کہ اگر یہاں نہ آتا تو نہ لندن کی سیر مکمل ہوتی اور نہ ہی تاریخ کا یہ علم حاصل ہو پاتا۔ یوں تو لندن میں درجنوں عجائب گھر ہیں لیکن اپنی نوعیت اور مختلف النوع اشیاء کی کثیر تعداد کی وجہ سے یہ سب سے نمایاں میوزیم ہے۔ میوزیم کی سیر کے بعد اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اپنی ثقافتی ، سائنسی اور فنی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ان عجائب گھروں کی صورت میں ایک بیش بہا تاریخی خزانہ چھوڑا ہے۔
تقریبا چھ گھنٹے کھڑے یا چلتے رہنے سے ٹانگیں تھکن سے شل ہو چکی تھیں۔ ہم نے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی پی۔ اس دوران روزی مجھ سے کبھی آسٹریلیا اور کبھی پاکستان کے بارے میں مختلف سوال کرتی رہی۔ اسے پاکستان کے کلچر سے لگائو سا ہو گیا تھا ۔خصوصاََباہمی محبتوں اور خاندانی بندھنوں کی خوبصورتی کی معترف تھی۔ دوسری طرف روزی کو آسٹریلیا کے خوبصورت ساحلوں اورسہانے موسم میں بھی دلچسپی تھی۔ اسے لندن کا روتا بسورتا موسم زیادہ پسند نہیں تھا ۔ سرما کی طویل اور سرد راتیں اور مختصر اور گیلے دن اسے بالکل نہیں بھاتے تھے۔ تاہم اسے انگریزوں کی تاریخی فتوحات اور روایتی طرز زندگی پر بھی فخر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انگریز سب سے الگ اور منفرد قوم ہے۔
میں روزی سے باتوں میں منہمک تھا کہ سنائی دیا ’’کڑی تے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ ‘‘
میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تودو ایشیائی نوجوانوں کی نظروں کو نگراں پایا۔ ان کے ہاتھوں میں کوک کے ڈبے اور لباس ملگجے سے تھے۔ میرے یوں دیکھنے پر وہ کچھ جھینپ سے گئے ۔میں روزی سے معذرت کرکے اٹھا اور ان نوجوانوں کے سامنے جا کر السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواباََ’’ وعلیکم السلام‘‘ کہا۔ وہ کچھ سہمے سہمے سے لگ رہے تھے۔ میں نے اپنا نام بتایا تو وہ ’’جی‘‘ کہہ کر رہ گئے۔ میں نے کہا ’’بھئی اپنا تعارف تو کروائیں‘‘
ایک بولا’’میرا نام شکیل ہے اور یہ جاوید ہے‘‘
میں نے کہا ’’بہت خوب! اگر زحمت نہ ہو تویہاں اس بنچ پر آجائو کچھ گپ شپ ہی ہو جائے‘‘
میں نے روزی سے ان کا تعارف کروایا۔ روزی نے خوش دلی سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ ملایا اور ہمارے سامنے والے بنچ پر بیٹھ گئے۔ روزی کہنے لگی’’ میں ان کے لئے کافی لے کر آتی ہوں‘‘
میں نے کہا ’’میں نے اپنا نام تو بتا دیا ہے۔ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں۔ پاکستان میں میرا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ اب آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے‘‘
شکیل کہنے لگا ’’ہمارا تعلق جہلم سے ہے ۔چند ماہ قبل برطانیہ آئے ہیں اور مسلسل دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘‘
’’مسئلہ کیا ہے؟‘‘
جاوید نے کہا’’ سر ہم دونوں ہی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ہم جماعت اور بچپن کے دوست ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد آگے نہ پڑھ سکے۔ پاکستان میں حصولِ روزگار کے لئے بہت ہاتھ پائوں مارے ۔دو سال تک بے روز گار پھرتے رہے۔ پھر جہلم کے ہی ایک مائیگریشن ایجنٹ نے دو لاکھ روپوں کے عوض ہمیں برطانیہ بھجوانے کا وعدہ کر لیا ۔ یہ رقم ہم نے کیسے حاصل کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یوں سمجھیں کہ اپنے اپنے خاندان کا کل اثاثہ ہم نے برطانیہ پہنچنے کے لئے دائو پر لگا دیا ۔ ترکی تک تو ہم ہوائی جہاز پر آئے۔ وہاں سے سڑک کے راستے مختلف ملکوں میںسفر کرتے چھپتے چھپاتے چوروں کی طرح برطانیہ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر انتہائی دشوار گزار تھا۔ کبھی ہمیں بھیڑ بکریوں کے ساتھ ٹرک میں سفر کرنا پڑا اور کبھی سبزیوں اور پھلوں کی بوریوں میں چھپ کر بارہ بارہ گھنٹے گزارنے پڑے۔ بھوک پیاس اور جسمانی تھکاوٹ کی انتہا سے کئی ہفتے گزرنے کے بعد برطانیہ کی سرحد غیر قانونی طریقے سے پار کی ۔یہاں پہنچانے کے بعد ہمارے ایجنٹ نے ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہم مانچسٹر، لیڈز،برمنگھم اور اب لندن میں چھپتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی روزگار ملتا ہے اور نہ رہنے کے لئے ٹھکانہ ہے۔ اگر کوئی وقتی روزگار ملتا بھی ہے تو وہ ہمیں غیر قانونی سمجھ کر نہایت قلیل معاوضہ دیتے ہیں۔ امیگریشن والے آئے دن چھاپے مارتے رہتے ہیں ۔دو جگہوں سے ان چھاپوں کی وجہ سے ہمیں اپنی تنخواہ چھوڑ کربھاگنا پڑا ۔
دوسرے شہروں میں جب کوئی بندوبست نہ ہوا تو ہم لندن چلے آئے کہ یہ بہت بڑا شہر ہے۔ شاید یہاں کوئی روزگار یا رہنے کے لئے ٹھکانہ مل جائے۔ لیکن یہ شہر تو ان سے بھی زیادہ ستم گر نکلا ۔یہاں نہ کوئی سستا مکان کرائے کے لئے ملتا ہے اور نہ مناسب روزگار۔ ایک دو جگہ جز وقتی مزدوری ملتی ہے۔ کبھی دیہاڑی لگ جاتی ہے اور کبھی نہیں۔ اب تک جو کچھ کمایا ہے اس سے بمشکل دو وقت پیٹ کا ایندھن بھر سکے ہیں ۔ نہ تو ہمارے پاس زر ِضمانت کی رقم ہے کہ ہم کوئی مکان کرائے پر لے سکیں اور نہ ہی ایسے کاغذات ہیںجنہیں دکھا کر مکان یا روزگار کا بندوبست ہو سکے۔‘‘
میں نے پوچھا’’ پھر آپ لوگ رہتے کہاں ہیں؟‘‘
جاوید بولا ’’ایک اسلامک سنٹر والوں نے چند دنوں کے لئے پناہ دی تھی۔ اب تو وہ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی بندوبست ہی نہیں تو جائیں کہاں! ‘‘
میں نے کہا ’’آپ لوگوں کا کوئی واقف کار نہیں ہے یہاں ؟کوئی دوست کوئی رشتہ دار؟‘‘
شکیل کہنے لگا ’’دوست اور رشتہ دار تو کوئی نہیں ! ہاںہمارے علاقے کے دو بندے یہاں انگلینڈ میں عرصے سے رہ رہے ہیں۔ ایک بریڈ فورڈ میں ہے، ایک یہاں لندن میں ہے۔ بریڈ فورڈ میں ہم اسی کی وجہ سے گئے تھے۔ اس نے ہمیں سو پونڈ دے کرمعذرت کر لی کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں لندن والے نے ملنا ہی گوارا نہیں کیا۔ ہم اس کا فون نمبر لائے تھے پاکستان سے۔ یہاں سے ہم نے اسے فون کیا تو کہنے لگا ’’میں نہ تمہیں اور نہ ہی تمہاے گھر والوں کو جانتا ہوں۔ ویسے بھی میں بہت مصروف شخص ہوں۔ آپ لوگ اس طرح غیر قانونی طریقے سے یہاں آئے ہی کیوں۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ کل کلاں آپ لوگ پکڑے گئے تو میں بھی لپیٹ میں آجائوں گاکہ غیرقانونی لوگوں کی مدد کرتا ہوں ۔اس لئے مجھے تو معاف ہی رکھیں۔حالانکہ یہ آدمی جب آج سے پندرہ سال پہلے یہاں آیا تھا تو میرے والد نے اس کی مدد کی تھی۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ ہمارے گھر والوں کو جانتا ہی نہیں‘‘
اس دوران روزی کافی لے آئی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر ہمیں باتیں کرتے دیکھتی رہی۔ میں نے شکیل اور جاوید سے پوچھا ’’ توآپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟ کیا ایسے ہی یہاں چھپتے چھپاتے رہو گے یا پھر واپس پاکستان چلے جائو گے؟‘‘
جاوید نے کہا’’ پاکستان جانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ہم جن سے رقم لے کر یہاں آئے ہیں انہیں کیا جواب دیں گے ۔ پھر ہمارے گھر والے، ماں باپ اور بہن بھائی بے شمار امیدیں لے کر بیٹھے ہیں۔ ہم ان کا کس منہ سے سامنا کریں گے ؟‘‘
باتوں باتوں میں شب کی سیاہی لندن کے اوپر سایہ فگن ہوگئی۔ میں نے روزی سے کہا ’’آج تم ہمارے ساتھ ڈنر کیوں نہیں کرتیں۔‘‘
روزی ہنس کر بولی ’’میں نے کب انکار کیا ہے۔ وہ تو تم ہی ہو جسے رات کے اندھیرے میں مجھ سے ڈر لگنے لگتا ہے اور دامن چھڑا کردور بھاگنے کی سوچنے لگتے ہو‘‘
’’اچھا آج نہیں بھاگتا !لیکن ڈنر کی شرط یہ ہے کہ تمہیں پاکستانی کھانا کھانا پڑے گا‘‘
روزی نے کہا’’ اس کی تم فکر نہ کرو ۔ہم لندن و الے اپنے کھانے تو تقریباََبھول ہی چکے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی ، انڈین، ترکش اور لبنانی کھانوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ مجھے ویسے بھی انڈین اور پاکستانی کھانے بہت پسند ہیں‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’صرف پاکستانی کھانے ہی پسند ہیں یا پاکستان کے لوگ بھی؟‘‘
روزی نے ترچھی نظر سے میری طرف دیکھا اور بولی’’پسند تو لوگ بھی ہیں لیکن رسائی صرف کھانوں تک ہے‘‘
’’ اس وقت تمہارے سامنے ہم تین پاکستانی ہیں۔ اور ہمارے اوپر ’’خطرہ 11000 وولٹ‘‘ کا سائن بھی نہیں لگا ہوا‘‘
روزی بولی’’ سائن تو ہے لیکن نظر نہیں آتا‘‘
میں نے کہا’’ میں دیکھوں گا کہ یہ سائن کہاں ہے اور اسے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو تم ہمیں کسی قریبی پاکستانی ریسٹورنٹ میں لے چلو‘‘
شکیل اور جاوید نے بہت معذرت کی لیکن ہم نے انہیں ساتھ لے لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم’’لاہوری ریسٹورنٹ‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کافی مصروف ریسٹورنٹ تھا ۔اس کے اندر بیٹھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم لندن میں ہیں ۔دیواروں پر پاکستان کے حسین مناظر کی تصاویر آویزاں تھیں۔ پاکستانی موسیقی کی مدھرتانیں دھیمی آواز میں بکھر رہی تھیں۔ مختلف میزوں پر پاکستانی فیملیاں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ دروازے پر جو دربان کھڑا تھا اس نے شلوار قمیض کے ساتھ سر پر کلا باندھا ہوا تھا اور اس کے پائوں میں کھسا تھا ۔
غرضیکہ یہ ریسٹورنٹ مکمل طور پر لاہوری رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ شکیل اور جاوید کچھ ہراساں سے نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا’’ زندگی کا جو لمحہ بھی مسرتوں کی نوید لے کر آئے اس کا شایانِ شان استقبال کرنا چاہیئے کہ ایسے لمحات زندگی میں خال خال آتے ہیں۔ میں بھی یہاں پر دیسی ہوں۔ پرسوں اگلی مسافتوں پر روانہ ہو جائوں گا ۔کیوں نہ ان لمحات کو یادگار طریقے سے گزارا جائے کہ آنے والے وقت میں یہ ہم سب کے لئے ایک سہانی یاد بن جائیں۔ کل کیا ہوگا !یہ کون جانتا ہے۔ لیکن اس فکر میں آج کیوں کھویا جائے ‘‘
شکیل اور جاوید پر میری باتوں کا خوش گوار ا ثر ہوا ۔وہ یاسیت کے خول سے نکلے تو معلوم ہوا کہ خاصے زندہ دل نوجوان ہیں۔ انہوں نے کئی اچھے لطیفوں اور اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سے محفل میں جان ڈال دی۔ شکیل کہنے لگا’’ہمیں برطانیہ کی جو کشش یہاں کھینچ کر لائی تھی وہ معاشی ضرورت کے علاوہ یہاں کی آزادی، حسین چہرے ، دلکش بدن اور ان تک رسائی کی امیدیں بھی تھیں۔ پاکستان میں تو سر اٹھا کر کسی کو دیکھا نہیں کہ بدنامی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے ۔کسی کو نظر بھر کر دیکھ لو تو وہ ماں بہن کو یاد کرانے لگتی ہے ۔کسی سے بات کرنے کی کوشش کرو تو جوتا دکھانے لگتی ہے اور اگر کسی کو ہاتھ لگا دو تو باپ اور بھائیوں کو بلانے لگتی ہے ۔پھرسمجھو خیر نہیں۔ بات خون خرابے تک جا پہنچتی ہے ۔ ایسی دشمنیاں خاندانوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ برطانیہ پہنچیں گے تو پھر ہم ہوں گے اور حسینائیں ہوں گی۔ نہ ماں بہن کا طعنہ ہوگا ،نہ کوئی جوتا دکھائے گااور نہ باپ اور بھائی کا ڈر ہو گا ۔بلکہ ہر دن عید ہوگی اور ہر رات شب برات۔لیکن یہاں آکر محسوس ہوا کہ ہنوز دلی دُور است۔ یہاں حسینائیں باپ اور بھائی کو تو نہیں بلاتیںلیکن جوتے کا استعمال یہ بھی بے دریغ کرتی ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو باپ اور بھائی کی جگہ پولیس بلانے میں دیر نہیں کرتیں۔ یہاں آ کر یہ بھی احساس ہوا کہ یہاں صنفِ نازک اتنی نازک بھی نہیں ہے۔ وہ نہ صرف اپنا دفاع بخوبی کر سکتی ہیں بلکہ ضرورت پڑے تو ہم جیسوں کو دن میں تارے دکھا سکتی ہیں۔ ایک تو ان کا قد و قامت ہمارے ہاں کی خواتین سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اوپر سے جمنازیم میں گھنٹوں کسرت کرکے انہوں نے خود کو اتنا مضبوط بنایا ہوتا ہے کہ ان کے بازو میرے جیسے مرد کی ٹانگوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ شرمانا اور لجانا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں ۔مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے بات کرتی ہیں کہ انہیں ہی اپنی آنکھیں جھکانی پڑتی ہیں۔ اوپر سے قانون بھی انہی کی سنتا ہے۔ کسی عورت سے مذاق بھی کر لو تو جنسی ہراسانی کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ عورتیں خود جنسی مسائل پر مردوں سے ایسے بات کرتی ہیںجسے موسم کا حال سنا رہی ہوں‘‘
میں نے جاوید سے کہا’’ آپ نے تھوڑے عرصے میں اس موضوع پر کافی ریسرچ کر ڈالی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن یورپی زندگی میں عورت مسئلہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ آپ کے پاس وقت اور وسائل ہوں۔ ویسے یہ شوق بھی شروع شروع کا ہے۔ بعد میں سب نارمل لگنے لگتا ہے۔ معاشیات کے اصولِ طلب اور رسد کی طرح جہاں کسی شے کی فراوانی ہو اس کی طلب گھٹ جاتی ہے ‘‘
جاوید کہنے لگا ’’وقت کا تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، البتہ وسائل عنقاہیں۔ تاہم وصل کے وسائل نہ ہونے کے باوجود یہاں کے نظارے ہی اتنے ہوش ربا ہیں کہ بعض اوقات انسان آنکھیں جھپکنا بھول جاتا ہے‘‘
شکیل بولا ’’یہ صحیح کہہ رہا ہے کیونکہ یہ جس گوری کو بھی اسکرٹ یا نیکر میں دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ۔خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کن جہانوں کی سیر پر چلا جا تا ہے۔ مجھے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اسے عالمِ مدہوشی سے واپس لانا پڑتا ہے۔ بس اور ٹرین میں بیٹھتا ہے تو خالی سیٹوں کو چھوڑ کر کسی گوری کے ساتھ لگ کر بیٹھتا ہے۔ بعض اوقات وہ خشمگیں نظروں سے دیکھ کر رہ جاتی ہیں۔ کئی دفعہ اٹھ کر دوسری سیٹ پر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی کوئی اس سے دوچار باتیں کر لیتی ہیںتو اس کا وہ دن اچھا گزر جاتا ہے۔‘‘
جاوید نے گھور کر اسے دیکھا اور بولا’’ تم اپنے بارے میں کیوں نہیں بتاتے ! بازو پر گھڑی باندھی ہوئی ہے لیکن جگہ جگہ گوریوں کو روک کر وقت پوچھنے لگ جاتے ہو۔ جانا کہیں ہوتا نہیں، خواہ مخواہ بس اور ٹرین کے روٹ نمبر دریافت کرنے لگتے ہو۔‘‘
شکیل بولا’’ وہ تو میں انگریزی بولنے کی مشق کے لئے ایسا کرتاہوں۔‘‘
جاوید بولا ’’تو کیا انگریزی صرف عورتوں سے ہی سیکھی جا سکتی ہے؟ مردوں سے کیوں نہیں بات کرتے۔ کیا ان کی انگریزی کمزورہے؟‘‘
’’تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ عورتیں اچھی استاد ہوتی ہیں‘‘
’’تو کیا ان سب عورتوں کو استانی سمجھ کر بات کرتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے استاد اوراستانی کا کیا رتبہ ہوتا ہے۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور استانی روحانی ماں‘‘
شکیل بولا ’’وہ پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں نہیں۔ یہاں اصل باپ کی کوئی نہیں پرواہ کرتا۔ استادوں کو یہ رتبہ کون دیتا ہے۔ ویسے تم اتنی باتیں کر رہے ہو ۔ جب غیر عورتوں کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہو تو تمہاری مشرقی شرم و حیا کہاں چلی جاتی ہے؟‘‘
جاوید نے ہنستے ہوئے کہا’’ چلی نہیں جاتی پاکستان میں چھوڑ کر آگیا ہوں۔ اگر اسے بھی ساتھ لانا تھا تو پھر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اتنا لمبا سفر کرکے اور اتنی تکلیفیں کاٹ کر یہاں آئے ہیں تو اتنا تو ہمارا حق بنتا ہے کہ یہاں کی خوشبوئوں اور رنگوں میں سے کچھ حصہ چرا سکیں‘‘
میں نے ان دونوں کی دلچسپ بحث سے محفوظ ہوتے ہوئے کہا ’’بھئی تم دونوں کی جوڑی بہت خوب ہے۔ دونوں کے مزاج بھی رنگین ہیں اور مشن بھی ایک ہی ہے۔ جس طرح تم ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہو اس سے مشکلات کا احساس کم ہوتا ہے اور دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا رہتا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم دونوں کی زندگی اسی طرح ہنستے کھیلتے گزرے اور وہ سب کچھ حاصل کر سکو جس کے لئے سرگرداں ہو‘‘
روزی خاموشی سے ہماری پنجابی میں گفتگو سن رہی تھی۔ ظاہر ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ میں خاموش ہوا تو کہنے لگی’’ لگتا ہے کہ کافی خوشگوار باتیں ہو رہی ہیں۔ کاش کہ میں سمجھ سکتی‘‘
میں نے جاوید اور شکیل کی گفتگو کا خلاصہ اُسے سنایا تو وہ بھی بہت ہنسی اور بولی ’’ایسا میرے ساتھ کئی بار ہوا ہے۔ کئی ایشیائی نوجوان روک کر مجھ سے وقت دریافت کرتے ہیں یا بسوں اور ٹرینوں کا روٹ دریافت کرتے ہیں۔ حالانکہ و اضح محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو وقت کے علم سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں جانا ہوتا ہے ۔ ان کی اصل دلچسپی ان کی آنکھوں میں تحریرہوتی ہے۔ کسی بھی عورت کے لئے مرد کی آنکھیں پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایک بات میں ضرور کہوں گی کہ یہ زیادہ تر وہ نوجوان ہوتے ہیں جو نئے نئے یورپ میں وارد ہوتے ہیں۔ وہ بے ضرر بلکہ معصوم ہوتے ہیں۔چند باتیں کرکے یا کسی خاتون کے قریب بیٹھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مقامی غنڈے عورت کو لولی پاپ سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کا قانون عورت کے حقوق کی سختی سے حفاظت کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو عورتوں کا اس معاشرے میں جینا محال ہو جائے‘‘
جاوید نے مجھ سے پوچھا’’ آپ آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ کیا یہ خاتون بھی وہی سے ہیں؟‘‘
میںنے کہا’’ نہیں بھئی! روزی اسی شہر لندن کی پیداوارہے‘‘
شکیل بولا ’’تو آپ ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟‘‘
’’ہماری ملاقات چند دن پہلے ہوئی ہے ‘‘
جاوید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا’’ سر یہ آپ کی گرل فرینڈ ہے‘‘
میں نے کہا ’’یوں تو یہ گرل بھی ہے اور فرینڈ بھی !لیکن ان معنوں میں نہیں جس میں آپ سمجھ رہے ہیں‘‘
جاوید نے استفسار جاری رکھا’’ کیا مطلب؟‘‘
میں نے کہا ’’جاوید کچھ رشتے بے نام بھی ہوتے ہیں اور اسی میںان کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ اچھا اب رات بہت ہوگئی ہے۔ آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے ؟‘‘
شکیل بولا ’’اب ہم بھی اپنے ٹھکانے کی طرف جائیں گے ۔ویسے یہ شام آپ کی وجہ سے بہت اچھی گزری ۔ہم آپ کا کیسے شکریہ ادا کریں؟‘‘
میں نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی۔ جس طرح تم لوگ اس شام سے لطف اندوز ہوئے ہو۔ میرا بھی آپ لوگوں کی وجہ سے دل لگا رہا۔ اس لئے حساب برابر۔میں یہاں نہیں رہتا اور عنقریب یہاں سے روانہ ہوجائوں گا۔اب شاید ہی ہماری ملاقات ہو۔ لیکن میری دعائیں آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ خدا آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرے‘‘
شکیل اور جاوید نے معانقہ کیا تو ان کی آواز گلو گیر اور آنکھیں نم تھیں ۔میں اور روزی بھی بوجھل دِل کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔
ہم دونوں کا گزارا کیسے ہو گا
ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے روزی سے پوچھا ’’اب کیا پروگرام ہے۔ گھر چلیں؟
روزی نے کہا ’’کیوں؟ کیا نیند ستا رہی ہے؟‘‘
’’ نیند بے چاری مجھے کیا ستائے گی۔ میں نیند کو ستانے والوں میں سے ہوں ۔اسے اتنا بھگاتا ہوں کہ اب تو ڈر ڈر کر بلکہ پوچھ پوچھ کر آتی ہے‘‘
’’تو چلو کہیں چل کر بیٹھتے ہیں‘‘
میں بیٹھنے کا مطلب جانتا تھا۔ مجھے اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن اپنی ہم نشین کا دل توڑنا بھی گوارا نہ تھا۔ لہذا تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک پب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ روزی اسکاچ اور میں کوک سے شغل کر رہا تھا۔پرانی طرز کا پب تھا۔ چند اونچی میزیں اور اسی سائز کے سٹول موجود تھے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اِدھر اُدھر کھڑے پی رہے تھے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایسے ہی چند اونچے سٹول کائونٹر کے ساتھ بھی موجود تھے۔ وہاں بھی کچھ لوگمسلسلکھڑے تھے۔ پورے پب میں کرسی کوئی نہیں تھی۔ ایک طرف پرانے طرز کی لکڑیوں کی بڑی سی انگیٹھی تھی۔ جس میں جلتی لکڑیاں سرخ سرخ آنکھوں سے ہمیںگھور رہی تھیں۔
پب کے ایک کونے میں دو پوکر مشینیں ایستادہ تھیں۔ ان کے پاس بھی کرسی نہیں تھی ۔مے خواروں میں سے کوئی اس مشین تک جاتا ،چند سکے ڈالتا، ایک دو ہاتھ مارتا اور پھر ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا۔ اس کے مقابلے میں مجھے آسٹریلین پب اور ہوٹل بالکل مختلف محسوس ہوئے جن میں آرام دہ کرسیاں بلکہ صوفے، بڑی بڑی میزیں، ائر کنڈیشنڈ ہال، سنوکر ٹیبل اور درجنوں کے حساب سے پوکر مشینیںموجود ہوتی ہیں۔ آسٹریلین جواریوں کا سکوں سے کچھ نہیں بنتا۔ وہ مشین کے سامنے آرام دہ کرسی پر بیٹھتے ہیں ۔مشین کے ایک طرف بیئر کا گلاس اور دوسری طرف سگریٹوں سے بھری ایش ٹرے ہوتی ہے۔ وہ نوٹوں پہ نوٹ اس مشین کے پیٹ میں اتارتے جاتے ہیں، بیئر کی چسکیاں لیتے ہیں، سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں اور مشینوں کو لاتیں مارتے ہیں۔ جب سارے کریڈٹ اور جیب سے نوٹ ختم ہو جاتے ہیں تو کونے میں موجود اے ٹی ایم سے مزید رقم نکال کر پھر میدانِ کارزار میں آموجود ہوتے ہیں۔ چہرہ مسلسل ناکامی سے دھواں دھواں ہو رہا ہوتا ہے۔ سگریٹ کی راکھ کپڑوں پر گر رہی ہوتی ہے۔ آنکھیں مشین پر جمی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ پب کا سٹاف انہیں پب بند ہونے کے وقت کے بارے میں بتاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ پب بند ہونے والا ہو۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک ایسے ہوٹل اور پب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے۔ لیکن اب نیوسائوتھ ویلز کی حکومت نے قانون بنایا ہے کہ ان ہوٹلوں کو کم از کم چار گھنٹے کے لئے بند کرنا پڑے گا۔ تاکہ جواریوں کو یاد دلایا جا سکے کہ ان کا کوئی گھر بھی ہے۔ جتنا جوا ء آسٹریلیا میں ہوتا ہے شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک میں ہوتا ہو۔ کئیلوگ اس لت میں گھر بار برباد کر دیتے ہیں۔ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور لکھ پتی فٹ پاتھ پر آجاتے ہیں۔ یہ بیماری آسٹریلیا میں اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اس سے محفوظ ہو۔ خصوصا مشرقی ایشیاء کے ممالک سے آنے والے باشندے مثلا چینی ، تائیوانی ، فلپائنی ، انڈونیشین اس لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔ خود آسٹریلین بھی بڑی تعداد میں اس مرض کے مریض ہیں۔ اتنے لوگوں کی زندگی، گھر بار اور خاندانوں کی تباہی کے باوجود حکومت جوئے کو روکنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ اسے اس مد میں بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ کیسینواورہوٹل جوئے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔
اس تقابلی جائزے کا مقصد یہ ہے کہ آسٹریلیا کے مقابلے میں برطانیہ کے عام ہوٹلوں اور پبوں میں جوا ء اس تعداد میں نہیں ہوتا۔ انگریز اب بھی صدیوں پرانی روایت کے مطابق کھڑے ہو کر یا لمبی ٹانگوں والے سٹولوں پر بیٹھ کر پیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بیئر زیادہ مقبول ہے جبکہ برطانیہ میں اس کے مقابلے میں وائن زیادہ پی جاتی ہے۔ انگریز نشے میں ہونے کے باوجود بغیر تعارف کے کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دفعہ بولنا شروع کر دیں تو انہیں روکنا کارِ دار ہوتا ہے جبکہ آسٹریلین بہت جلد بے تکلف ہو جاتے ہیں۔
اس دوران روزی مسلسل مے نوشی میں مشغول تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی مشین کی طرح چل رہی تھی۔ جوں جوں اس کی رگوں میں الکوحل کی مقدار بڑھ رہی تھی توں توں اس کی زبان میں روانی پیدا ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں سرخی بڑھ رہی تھی اور گالوں کی حدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کا سٹول کھسک کھسک کر مزید میرے قریب ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس کا سر میرے شانے سے آٹکا۔ میں نے سہارا دے کر اسے اس کی سیٹ پر سیدھا کیا اور پوچھا ’’کیا خیال ہے!اب گھر چلیں؟‘‘
روزی نے عادی شرابیوں کی طرح سر اٹھایا۔ میری آنکھوں میں جھانکا ،مسکراہٹ کا تیر پھینکا اور میرے کانوں میں گنگنائی’’ جہاں تمہارا دِل چاہے لے چلو‘‘
میں سہارا دے کر روزی کو باہر فٹ پاتھ پر لے آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ نزدیکی سٹیشن کون سا ہے۔ روزی نے سٹیشن کا نام بتایا تو میں نے کہا ’’یہاں سے سٹیشن تک ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ تمہارا گھر سٹیشن سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘
روزی بولی ’’میرا گھر بھی وہی ہے، جہاں تم جائو گے۔ کیونکہ آج میں اپنے گھر نہیں جائوں گی ‘‘
میں نے گھبرا کر کہا’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘
’’کیوں نہیں ہو سکتا ۔ہم نے سولہ گھنٹے اکھٹے گزار لئے ہیں۔ اب صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے ۔باقی چند گھنٹے بھی اکھٹے گزار لیں گے تو قیامت نہیں آئے گی‘‘
’’مگر روزی یہ مناسب نہیں ہے‘‘
روزی بولی’’ اور میرا اس وقت اس حال میں اکیلے گھر جانا مناسب ہے کیا؟‘‘
میں پریشان ہوگیا۔تھوڑی دیر سوچ کر میں نے کہا ’’ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آ ئوں گا‘‘
روزی اس کے لئے تیار نہیں تھی۔بڑی مشکل سے میں نے اُس سے اس کے گھر کا پتہ ا ُگلوایا۔ روزی کو اُس کے گھر چھوڑ کر اسی ٹیکسی سے میں ہوٹل واپس آ گیا۔ آنے اور جانے میں ایک گھنٹہ صرف ہو گیا۔ روزی کے’’ بیٹھنے‘‘ کے چکر میں میرے پینتیس پونڈاُٹھ گئے تھے۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے صبح کے تین بج گئے۔
اُس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چُھو رہی تھیں
میں میٹھی نیند کی رنگین وادیوں کی سیر کر رہا تھا ۔ایسے محسوس ہوا کہ بارش کے نرم قطرے مجھے گدگدا رہے ہیں۔ ایک بھینی سی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور دل و دماغ پر نشے کی طرح چھا گئی۔ پھر کسی کی دلنشین ہنسی کی مدھر موسیقی میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ ایسا لگا کہ میں پریوں کے دیس میں پہنچ گیا ہوں۔ وہ مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ ان کی زلفیں مجھ پر سایہ فگن ہیں اور ان کی مدھر ہنسی میرے دل و دماغ میں نشہ سا انڈیل رہی ہے۔ میں نے دِھیرے دِھیرے نیند بھری آنکھیں وا کیں تو روزی کو اپنے اُوپر جھکے پایا۔ اس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چھو رہی تھیں اور ان کی خوشبو مشام ِجان کو معطر کئے دے رہی تھی۔ روزی نے ہنستے ہوئے کہا’’ اٹھ جائو مسافر! دن کے دس بج چکے ہیں‘‘
میرا بدن تھکاوٹ اور نیند کی کمی سے ٹوٹ رہا تھا ۔لیکن یہ اگلے سفر پر روانہ ہونے سے پیشتر لندن میں میرا آخری دن تھا جسے میں سو کر گزارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے دِھیرے دِھیرے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ روزی نے میرے لئے کافی بنائی ہوئی تھی اور خود بھی پی رہی تھی۔ بلیک کافی کا سنہری سیال معدے میں اُترا تو نیند کوسوں دور جا چکی تھی۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو میںحیران ہوا کہ روزی کمرے میں کیسے داخل ہوئی۔ جب یہی سوال میں نے اس سے کیا تو وہ کھلکھلائی ’’ میں نے اس کمرے کی اضافی چابی بنوالی ہے۔ اب تم مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتے‘‘
’’ روزی مذاق نہیںکرو ! سچ بتائو ،تم اندر کیسے داخل ہوئیں؟ کہیں میں دروازہ لاک کرنا تو نہیں بھول گیا تھا‘‘
’’ نشے میں تومیں تھی اور دروازہ تم نے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ میں نے کھٹکھٹانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو محسوس ہوا کہ دروازہ لاک نہیں ہے۔ مسافر ہوش کے ناخن لیا کرو ۔ کہیں پردیس میں سب کچھ گنوا نہیں دینا‘‘
اپنی لاپرواہی پر مجھے بہت غصہ آیا۔ روزی درست کہہ رہی تھی۔ اگر پردیس میں پاسپورٹ ، نقدی، بنک کے کارڈز اور دیگر اہم اشیاء کھو گئیں تو ناقابلِ بیان پریشانی ہو سکتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں آئندہ محتاط رہنے کا عزم کیا۔
اس وقت ہوٹل کا ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا۔ ان کا ناشتے کا وقت ساڑھے نو بجے تک تھا۔ باہر جا کر ایک کیفے سے میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا ۔ روزی گھر سے ناشتہ کر کے آئی تھی ۔ اس نے کافی کے ایک کپ پر اکتفا کیا۔ ناشتے کے دوران بلکہ اس پورے دن روزی یا میں نے گزری رات کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم کافی پیتے ہوئے روزی نے ہولے سے کہا ’’ طارق تمھارا بہت بہت شکریہ‘‘
میں نے حیرانی سے کہا’’ شکریہ!مگرکس بات کا؟‘‘
’’کل رات کا ‘‘ روزی نے آنکھیں جھکا کر کہا
میں اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اٹھتے ہوئے روزی سے کہا’’ یہ شکریے اور سوری کا گردان پھر کسی وقت کر لیں گے۔ یہ بتائو اِس وقت اِس پردیسی کو کہاں لے کر جارہی ہو؟‘‘
اس کے تھوڑی دیر بعد ہم ٹرین میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چند منٹوں بعد ہی ٹاور برج سٹیشن پہنچ گئے۔ سٹیشن سے باہر نکلے تو سامنے ٹاور برج تھا جو درمیائے ٹیمز کے اوپر واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس تاریخی برج سے گزر کر اور دریائے ٹیمز کا نظارہ کرتے ہوئے ہم ٹاور آف لندن کے صدر دروازے کے سامنے جا نکلے۔ اس انتہائی تاریخی عمارت کی سیر کے بغیر لندن کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ نو سو سال سے اس عمارت نے برطانیہ کی شاہی تاریخ کے اہم واقعات اور شخصیات کے عروج و زوال کو اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھاہے۔ یہ عمارت صدیوں سے شاہی محل، قلعہ ، جیل ، عقوبت خانہ اور شاہی خاندان کے نہایت بیش قیمت زیورات اور نوادرات کی نمائش گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ شاہی خاندان پہلے کنسنگٹن پیلس اور اب بکنگھم پیلس میں مقیم ہے لیکن ٹاور آف لندن کی تاریخی اہمیت جوں کی توں ہے۔ انتہائی مشہور اور تاریخی قیدی اس قلعے میں مقید رہے۔ مثلا ولیم ہشتم کی دو بیویوں کے سر اس قلعے میں جسم سے جدا کئے گئے تھے۔ قلعے کا ہر حصہ اور ہر کمرہ اپنی جگہ پرجداگانہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
تاریخی کہانیاں اور ان کی نشانیاں یہاں ہر سو بکھری ہیں۔ بادشاہوں اور ملکات کے علاوہ مشہور مجرموں کی کہانیاں بھی ٹاور آف لندن سے وابستہ ہیں۔ یہ کہانیاں معلوم نہیں مبنی بر حقیقت ہیں یا محض افسانہ مگر سیاح کو کسی انوکھی دنیا میں پہنچا ضرور دیتی ہیں۔ اس عمارت کے ایک حصے میں شاہی خاندان کے تاج اور دوسرے قیمتی زیورات بھی نمائش کے لئے موجود ہیں۔ مختلف ادوار کے بادشاہوں کے تاج آج بھی پوری سج دھج کے ساتھ یہاں رونق ا فروز ہیں۔ شاہی تخت، بادشاہوں اور ملکات کے شاہی ملبوسات، بادشاہ یا ملکہ کی عصا ( جس میں قیمتی ہیرے جڑے ہیں) اور شاہی پلنگ جو تقریباََایک چھوٹے کمرے کے برابر اور سجاوٹ میں بے نظیر ہیں، اس ٹاور میں نمائش کے لئے رکھے ہوئیہیں۔برطانیہ کا شاہی تاج جس طرح وقت کے ساتھ تبدیلی کے مراحل سے گزرتا رہا اور اس کی بناوٹ و سجاوٹ میں مختلف بادشاہوں کے ادوار میں جو تبدیلیاں آتی رہیں وہ سب یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مشہورِ زمانہ کوہ ِ نور ہیرے کے علاوہ دوسرے کئی نایاب ہیرے اور دیگر بیش قیمتی پتھر بھی سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے یہاں رکھے ہوئے ہیں۔
ٹاور آف لندن بادشاہ ولیم نے 1080 ء میں تعمیر کروا یا تھا۔ یہ مدتوں تک شاہی اسلحہ خانہ بھی رہا ہے اور اب بھی زمانہِ قدیم کے اسلحہ جات اس کے عجائب گھر میں نمائش کے لئے موجود ہیں۔ جس میں ایک ہزار سال پہلے استعمال ہونے والی پتھر پھینکنے والی توپیں اور گھوڑے والی بندوقیں بھی شامل ہیں۔یہاں لکڑی سے تراشے گئے قدرتی سائز کے شیر اور گھوڑے بھی موجود ہیں۔ ان کی تراش خراش نہائت مہارت سے کی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی ان میں جان پڑ جائے گی اور وہ دوڑنے لگیں گے ۔
گھنٹوں تک اس عمارت کے مختلف حصے اور ان میں موجود تاریخی فن پارے دیکھنے کے باوجود جی چاہتا تھا کہ ان تاریخی نوادرات کو آنکھوں میں سمیٹ لیں یا دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیں کہ جب دل چاہے تو بند آنکھوں سے انہیں بار بار دیکھ لیں۔ اس طرح کے تاریخی مقامات اور تاریخی اشیاء میں میری گہری محویت کی وجہ یہ ہے کہ میں ان چیزوں کو ان کی موجودہ شکل و شباہت میں دیکھنے کی بجائے خود کو اس زمانے میں پہنچا ہوا محسوس کرتاہوں جب یہ سب اشیاء مستعمل تھیں۔ جب ان تختوں پر اُس وقت کے بادشاہ شان و شوکتسے بیٹھتے تھے۔ یہ ہیروں والی خوبصورت عصا ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ ان قیدخانوں میں بادشاہ یا ملکہ کے خلاف آواز اٹھانے والے دیواروں کے ساتھ زنجیروں سے بندھے ہوتے تھے۔ جلاد تلوار لے کر ان کے سر قلم کرنے کے لئے ان کے سروں پرِ موت بن کر منڈلا رہا ہوتاتھا ۔ ان جہازی سائز کے پلنگوں پر وہ بادشاہ سوتے تھے جن کی حکومت آدھی دنیا پر ہوتی تھی اور پوری دنیا کے وسائل جن کی دسترس میں تھے۔
ان تصورات کے ساتھ ایسی جگہوں کی سیر انسان کو انوکھے جہاں میں پہنچا دیتی ہے۔ جہاں وہ خود کو ماضی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ا دب کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ ان بادشاہوں اور ملکائوں کے بارے میں میں نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا ۔آج ان کی زندہ نشانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو جیسے وہ زمانہ پوری آب و تاب کے ساتھ ذہن میں روشن ہو گیا۔ اس روشنی میں اس زمانے کی زندگی ایک فلم کی مانند ذہن کی سکرین پر چلتی محسوس ہو رہی تھی۔
ٹاور آف لندن سے نکلے تو شام کے چار بجے تھے۔ اس دن صبح سے کئی مرتبہ بارش کا سلسلہ شروع ہوا ۔پھر دھوپ نکلی۔ تھوڑی دیر بعد پھر بارش شروع ہوگئی۔ اس طرح بادل اور سورج میں آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ سارا دن جاری رہا۔ کل کی بھی تھکاوٹ تھی۔ اوپر سے چار گھنٹے ٹاور آف لندن میں کھڑے یا چلتے ہوئے گزرے تھے۔ میرا جسم دہائیاں دے رہا تھا کہ اسے آرام کی سخت ضرورت ہے۔
ہم نے نزدیکی میکڈونلڈ سے کھانا کھایا اور ٹاور برج کے سائے تلے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگے ۔روزی حسب ِمعمول چہک رہی تھی ۔لیکن آج اس کی باتوں میں شوخی کے ساتھ ساتھ اُداسی کا عنصر بھی شامل تھا۔ اسے علم تھا کہ اگلی صبح میں لندن سے روانہ ہو رہا ہوں۔ مجھے بھی ایسے محسوس ہونے لگا تھا کہ ہم مدتوں سے اکھٹے ہیں ۔ مجھے روزی کی عادت سی ہوگئی تھی ۔حالانکہ یہ سفر میں نے اکیلے ہی کرنا تھا ۔لیکن نہ جانے کیوں میرا اِس حقیقت سے آنکھیں چرانے کو دل چاہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ اچھے دوست کی معیت میں سیر کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اور روزی ایک بہت اچھی دوست ثابت ہوئی تھی۔شاید اس کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ جب وہ رخصت ہونے لگی تو اس کی آنکھیں نم اور آواز گلوگیر تھی۔ ہر ملن کے پیچھے جدائی بھی چھپی ہوتی ہے اور آج وہ لمحہ آگیا تھا۔ خاصے جذباتی انداز میں ملنے کے بعد روزی نے مجھے ٹرین میں سوارکرایا۔ٹرین نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ دوڑتی رہی ہاتھ ہلاتی رہی اور اشکوں کے موتی گراتی رہی ۔ جب وہ کھلی آنکھوں سے غائب ہوئی تو میں نے آنکھیں بند کر لیں حتی ٰکہ میرا مطلوبہ اسٹیشن آنے کا اعلان ہو گیا۔ روزی ہمیشہ میرے نہا ں خانہِ دل میں ایک پرخلوص دوست کی حیثیت سے موجود رہے گی۔
ٹرین سے اتر کر ابھی میں ہوٹل سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے میرا راستہ روک لیا۔ میں نے کہا ’’جی فرمایئے‘‘
وہ کہنے لگا’’ میرا تعلق اٹلی سے ہے اور میرا جیکٹوں کا کاروبار ہے۔ میں اٹلی کی بنی ہوئی جیکٹس لندن لاکر فروخت کرتا ہوں۔ اس دفعہ جو جیکٹیں میں یہاں لایا تھا وہ ساری بک چکی ہیں۔ صرف چند دانے باقی ہیں۔ میں انہیں اونے پونے نرخوں پر فروخت کرکے جلد از جلد اٹلی واپس جانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ خریدنا چاہیں تو میں اصل سے آدھی قیمت پر آپ کو فروخت کرسکتا ہوں۔ میری گاڑی یہیں کھڑی ہے۔ آیئے آپ کو دکھاتا ہوں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ مجھے ان اٹالین بیوپاریوں بلکہ نو سر بازوں سے واسطہ پڑا ہو۔ بالکل اسی انداز اور اسی کہانی کے ساتھ سڈنی میں بھی دو مرتبہ اس گینگسے واسطہ پڑ چکا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ بین الاقوامی گینگ ہے جو ایک ہی کہانی سے مسافروں اور اجنبیوں کی جیبیں خالی کراتے ہیں ۔ایک تو وہ کہانی ایسی لے کر آتے ہیں کہ مخاطب خواہ مخواہ دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ قیمت اس انداز میں اچانک کم کر دیتے ہیں کہ فریقِ مخالف کے ساتھ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ درپیش ہوتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے کچھ پٹھان حضرات قالین اور کمبل کاندھے پر لاد کر بیچتے نظر آتے ہیں ۔ان سے کسی قالین کی قیمت دریافت کریں تو وہ دو ہزار روپے بتائے گا۔ اگر اسے کہا جائے پانچسو روپے لو گے تو بولتا ہے ’ خوچہ دیو ٗ ۔قیمت لگانے والا ظاہر ہے خریدنے کی نیت سے اتنی کم قیمت نہیں لگاتا ۔لیکن چونکہ اصل قیمت اس سے بھی کم ہوتی ہے اس لئے خان صاحب اصرار کرنے لگتے ہیں’’ خوچہ نکالو پیسہ‘‘
اب یا تو بادل ِنخواستہ اسے خریدیں یا خفت کا سامنا کریں ۔یہی حال ان اٹالین بیوپاریوں کا ہے۔ لہذا میں نے جیکٹیں دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور اس سے معذرت کرکے ہوٹل کی طرف چل پڑا ۔وہ صاحب کافی دور تک میرے ساتھ چلتے رہے اور اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے رہے ۔ پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
ہوٹل پہنچ کر تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر شاور کرکے اور لباس بدل کر میں اس عربی ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لئے چلا گیا۔ اس دن میری فرمائش پر انہوںنے میرے کھانے میں ٹماٹروں کی کھٹاس کم رکھی اور مرچیں قدرے تیز رکھیں۔ جس سے کھانا خاصا ذائقے دار ہوگیا ۔کھانے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر میں ہوٹل واپس آگیا۔صبح ساڑھے چھ بجے ہماری ٹور بس روانہ ہو رہی تھی ۔ میں نے سامان پیک کیا ۔کمرے کے ٹی وی میں الارم سسٹم موجود تھا ۔ پانچ بجے کا الارم لگا دیا ۔پھر استقبالیہ پر فون کرکے احتیاطاً انہیں بھی پانچ بجے جگانے کے لئے کہہ دیا۔ یورپ سے واپسی پر میرا اسی ہوٹل میں مزید ایک رات کا قیام تھا۔ اس کی بکنگ بھی میں نے ابھی سے کروا دی ۔ ہوٹل والوں سے ہی کہہ کرصبح چھ بجے کے لئے ٹیکسی بھی بک کروا دی ۔
استقبالیہ کلرک نے بکنگ کے لئے میرا نام دریافت کیا ۔میں نے نام بتایا تو پوچھنے لگا آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ مجھے بھی اندازاہو گیا کہ وہ کیوں پوچھ رہا ہے۔ میں نے اس کی توقع کے مطابق پاکستان بتایا تو بہت خوش ہوا ۔اس کا نام نعیم احمد تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد سے تھا جہاں اس کا بھائی صوبائی اسمبلی کا رکن تھا۔ نعیم لندن میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور فالتو وقت میں کام کرکے کچھ رقم بھی کما لیتا تھا۔ رکنِ اسمبلی کے بھائی کا اس طرح ہوٹل میں کام کرنا مجھے عجیب سا لگا۔ شاید صوبہ سرحد کی ممبری میں اتنا پیسہ بنانے کا موقع نہ ملتا ہو جتنا پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں کے ممبران کو ملتا ہے۔پاکستان کی اسمبلیوں کے ارکان جب یورپ‘ امریکہ یا آسٹریلیا کے دورے پر جاتے ہیں تو پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔انہیں گلچھرے اڑاتے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ یا شہزادہ یہاں آیا ہوا ہے۔ میرے ایک دوست کادوست جو قومی اسمبلی کا ممبر تھا سڈنی آیاتو مجھے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس ممبر نے اپنے چار ہفتے کے قیام میں وہ عیاشیاں کیں کہ الامان۔ اس دوران وہ پیسہ ایسے پانی کی طرح بہا رہا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کے شہزادے بھی اس کے آگے پانی بھرتے نظر آتے۔میں اس ’’ پاکستانی شہزادے‘‘ کے یہاں قیام کے قصے سناتا ہوں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ قوم کا درد سینے میں سجائے وہ اسمبلی کا ممبر چند دنوں میں کروڑوں روپے لٹاکر واپس گیا۔
اگلی صبح پانچ بجے گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ تیار ہو کر اور ہوٹل کا بل ادا کرکے باہر نکلا تو چھے بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ پانچ منٹ کے بعد ٹیکسی آن پہنچی۔ لندن میں دو قسم کی ٹیکسیاں چلتی ہیں۔ ایک تو اصلی ٹیکسی ہوتی ہے۔ جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے تیار کی گئی ہے۔ مینڈک کی شکل کی اس ٹیکسیپر ٹیکسی کا سائن اور مخصوص رنگ ہوتا ہے۔ اس کی اگلی اور پچھلی سیٹوں کے درمیان پلاسٹک کی سکرین لگیہوتی ہے۔ یہ ڈرائیور کی حفاظت کی غرض سے ہوتی ہے۔ سکرین کے ایک حصے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی سی بنی ہوتی ہے جہاں سے ڈرائیور کرایہ لیتا ہے۔ یہ ٹیکسی میٹر کے حساب سے کرایہ چارج کرتی ہے۔
ٹیکسی کی دوسری قسم جو لندن میں رائج ہے وہ پرائیویٹ اور عام کار کی شکل میں ہے۔ اس قسم کی ٹیکسی صرف فون کے ذریعے بک کی جاتی ہے۔ یہ ٹیکسی قانوناً سٹریٹ سے مسافر اٹھانے کی اہل نہیں۔ ان کا کرایہ میلوں کے حساب سے ہوتا ہے اورپہلے طے کر لیا جاتا ہے۔ میرے لئے آنے والی ٹیکسی بھی اسی قسم کی تھی اور اس کا کرایہ دس پونڈ طے تھا ۔تھوڑی دیر میں ہی اس ایرانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے آفس میں پہنچا دیا۔