قیامت
تو گویا اُس دن آگئی جب اِس خبرکو سرکار کی طرف سے مستند قرار دے دیا گیا کہ نہ صرف لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے نواحی علاقوں میں بلکہ شہر کے دوسرے حصوں میں بھی اس وائرس سے متاثر مریض پائے گئے ہیں۔ سرکار نے اس سلسلے میں ایک وہائٹ پیپر بھی جاری کردیا جس میں اس سنگین مسئلے سے نپٹنے اور لڑنے کے لیے اُٹھائے جانے والے اقدامات اوراُن کے جواز کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ حالات اب اس درجے تک بگڑ چکے تھے کہ اسپتالوں کے ڈاکٹر اور نرسیں بھی بیماری کی زد میں آچکے تھے۔ یہی نہیں خون اور پیشاب وغیرہ کی جانچ کرنے والی لیبارٹریز کا عملہ بھی بیمار پڑنے لگا لہٰذا اب اِس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں بچی تھی کہ یہ ایک بہت ہی خوفناک اور چھوت چھات سے پھیلنے والی بیماری تھی جو ایک انسان سے دوسرے انسان تک بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پہنچ سکتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک شخص سے دوسرے شخص تک پہنچنے میں اسے صرف گیارہ سیکنڈ لگتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ اس انتخابی حلقے کا ایم۔ایل۔اے۔ تک بخار، دستوں اور اُلٹیوں میں مبتلا تھا۔ ضلع کا حاکم آئی۔ اے۔ایس۔، میونسپل کارپوریشن کا چیف انجینئر، محکمہ ہیلتھ کا ڈائریکٹر، شہر کا میئر اور وہ بلڈر بھی۔ کون تھا جو اس بیماری کی زد میں نہیں آگیا تھا۔ یہ خطرناک تو تھا ہی مگرکچھ کچھ مضحکہ خیز بھی۔ اب سب کو یقین آگیا تھا کہ یہ بری طرح پھیلنے والی وَبا ہے۔ اسی لیے کتوں اور بلیوں نے رات میں، آسمان کی طرف منھ اُٹھا اُٹھا کر پہلے ہی سے رونا شروع کردیا تھا۔ جو لوگ ابھی اس بلا کی زد میں نہیں آئے تھے، انھوں نے ردِ بلا کی دُعائیں پڑھنا اور ایک دوسرے کو بھیجنا شروع کردیں۔ بہت سوں نے صدقے دینا شروع کردیے۔ اتنی بڑی تعداد میں جان و مال کے صدقے دیتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایسا نظرآنے لگا جیسے صدقہ دینے والوں کا ایک میلہ لگا ہوا ہے جس طرح گاؤں میں ہفتہ بازار لگتے ہیں اوراُن میں جگہ جگہ گیہوں، چاول اور چنے کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہوئے نظرآتے ہیں۔ مگراُنھیں نہیں معلوم کہ خدا کے فیصلے انسانوں کے فیصلوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو بالکل ہی مخالف۔ خدا کے بھید خدا ہی جانتا ہے یا وہ جو اُس جیسا ہو۔
اُدھر اسپتالوں میں مرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ لاشوں کے پہلے تو پوسٹ مارٹم کیے جاتے اورپوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شراب کے نشے میں چور ہوکر، مگرپھر بھی ڈرے اور سہمے ہوئے مُردہ جسموں پر اپنے بُغدے چلاتے۔ جب لاشیں اُن کے لواحقین کے سپرد کردی جاتیں تواُنھیں تجہیزو تکفین کے لیے گھر نہیں لے جایا جاتا بلکہ اسپتال سے سیدھے، ایمبولینس میں ڈال کر قبرستان یا شمشان گھاٹ پہنچا دیا جاتا جہاں اُنھیں دفنانے یا نذرِ آتش کرنے میں بہت دِقّتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ ضروری ارکان پورے کرنے کے لیے ملّا، مجاور یا پنڈت کو دس گنا زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی کیونکہ کوئی بھی بیماری کے پوٹ بنے مردہ جسم کو نہ تو غسل دینا چاہتا تھا اور نہ ہی ہاتھ لگانا۔ اس لیے کم سے کم ارکان میں ہی کام چلایا جانے لگا۔ لوگ کسی اور وقت مرنے کی دُعائیں مانگنے لگے۔ وہ اس وبا میں مرکر اپنی لاشوں کی ایسی بے عزتی اور بے حرمتی نہیں کرانا چاہتے تھے۔ مگرکیا یہ صرف لاشوں کی بے عزتی تھی۔ نہیں سب سے بڑھ کر تو یہ موت کی بے عزتی تھی۔ موت جو اتنی شیخی خور واقع ہوئی تھی۔ لوگ جس سے ڈرتے تھے، مگراحترام بھی کرتے تھے۔ اج اتنی خوار ہوکر گلیوں گلیوں بھٹک رہی تھی اُس کی اوقات اُس معمولی چور کی طرح ہو گئی تھی جو کسی کے گھر میں نقب لگانے سے پہلے، کئی دن پہلے اُس گھر کے چاروں طرف گھومتا رہتا ہے۔ محل ِ وقوع کا جائزہ لینے کے لیے اور ماحول کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے کبھی کبھی بھیک مانگنے کے بہانے چور گھر کے دروازے سے اندر ہی چلا آتا ہے۔ تاکہ دیکھ سکے کہ کون سا کمرہ کہاں ہے اور وہ جگہ کہاں ہو سکتی ہے جہاں مال چھپا کررکھا گیا ہوتا۔ بالکل اسی طرح چھپ چھپ کرموت بھی گھر دیکھنے آنے لگی۔ کبھی بیماری کے بہانے، کبھی خودکشی کے بہانے اور کبھی قتل کے بہانے۔ موت بری طرح ذلیل ہو رہی تھی۔ لوگ اُس پر تھوکتے تھے۔ اورجسم
جسم کو تو روح نے اپنی بنائی ہوئی خوفناک اندھیری جیل میں قید کرکے ڈال رکھا ہے۔ نہ جانے کب سے روح خود تو ہرتماشے سے ماورا تھی مگرسرکس کے تنبو کے سارے بانس جسم میں ہی گڑے ہوئے تھے۔ انسانی جسم ہی ہرڈرامے کا اسٹیج بنتا آیا ہے۔ سارا کھیل جسم کی سرحدوں کے اندر ہی کھیلا جاتا ہے۔ موت کی ریاضی بھلے ہی بدل گئی ہو مگرتختہ سیاہ تو انسان کا مقدر کا مارا جسم ہی تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ جیسا لوگ کہتے ہیں کہ یہ وقت خراب تھا۔ وقت کبھی اچھا نہیں ہوتا کیونکہ جانداروں کا جسم وقت میں ہی موجود رہتا ہے۔ وقت سے ماورا ہوکر جسم اپنے آپ کو دُکھ سے آزاد کرسکتا ہے۔ مگرہم سب ابھی وقت میں ہی جی رہے ہیں۔ وقت سے باہر نہیں۔
خبریں ساری دنیا میں پھیلنے لگیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے بھی اس معاملے میں دلچسپی لینا شروع کردی اورپھر وہی ہوا جس کی افواہ پہلے ہی سے گشت کررہی تھی۔ یعنی احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے آخرکار حکومت نے چالیس کلومیٹر کے رقبے میں پھیلے ہوئے اس علاقے کو پوری طرح سِیل کردیا۔ اب نہ کوئی یہاں سے جا سکتا تھا اور نہ کوئی یہاں آسکتا تھا۔ دیکھا جائے تو تمام شہر کی ناکہ بندی کردی گئی۔ لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں علیحدگی کے ساتھ رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ موبائل نیٹ ورک بھی منقطع کردیا گیا۔اس سے یہ امر بھی آشکار ہوتا ہے کہ محض بیماری بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتی ہے۔ ایک بخار، کھانسی کا ایک ٹھسکہ، حلق سے باہر آتی ہوئی ایک اُلٹی اور فالج کا ایک حملہ ہمارے اور بیمار کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرسکتا ہے۔ اس دیوار کو توڑنا آسان کام نہیں۔ تیمارداری کی اخلاقیات بھی اس پردے کی دیوار کا احترام کرتی ہے۔ اکثر حالات کے مطابق ضرورتوں کوڈھالا جاتا ہے۔ مگرجب ضرورت زیادہ بڑی ہو، زندہ رہنے کی ضرورت تو پھراُس کے مطابق صورتِ حال کی ایجاد کرلی جاتی ہے۔
لائف اپارٹمنٹ، رفیق انکلیو، جنت باغ، فلوراگارڈنز اور دوسری سوسائٹیز کے گرد پولیس کا محاصرہ کردیا گیا۔ بحالتِ مجبوری وہاں اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھی ہوئیں منرل واٹر اور کولڈ ڈرنک کی کمپنیوں کی ایجنسیاں بھی اپنی دکانیں بڑھا گئیں۔ حفاظت کے خیال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جل بورڈ کے پانی کے ٹینکر بھی یہاں سے ہٹا لیے گئے۔ اب جو بھی تھا، جہاں بھی تھا، وہیں محصور ہو کر رہ گیا۔ بیماری اب ایک جرم تھی، ایک سماجی انحراف۔ جس گھر میں کوئی موت واقع ہوتی اُس گھر کے دروازے پر کراس کا نشان لگا دیا جاتا اور پولیس والے اُس میں رہنے والے دوسرے افراد کو اپنے ساتھ کار میں بٹھا کر کہیں دور لے جاتے، شاید زندہ انسانوں کا بھی کوئی قبرستان تھا۔ اُسی اندھیرے میں اُنھیں دفن کرنے وہ اُنھیں بھی لے جاتے جو بیمار نہ تھے۔
یہ تو اچھا تھا کہ اس شہر میں کوئی ہوائی اڈہ نہیں تھا، ہاں مگرایک فوجی ہوائی اڈہ ضرور تھا مگر احتیاطی تدابیر کے طورپر فی الحال اُس کی اُڑانیں بھی روک دی گئی تھیں کیونکہ یہ علاقہ ایئر فورس کا لونی کے نزدیک تھا اور ملٹری چھاؤنی بھی یہاں سے تقریباً ملی ہوئی تھی۔ چاند ماری کے میدان میں ہونے والی فائرنگ کی آوازیں لائف اپارٹمنٹس میں رہنے والے اکثر سنتے رہتے تھے۔ شہر کے اس حصے کو دوسرے حصے سے منسلک کرنے کا کام، کالی ندی پر بنا ہوا ایک پرانا کنگورے دار سفید پُل کرتا تھا۔ اسی پُل کے دونوں سروں پر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔ پُل کے مغرب میں ایئر فورس کی پرانی کالونی تھی اور مشرق میں ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں چاند ماری کا میدا تھا اوراُن دونوں کے درمیان سے کالی ندی بہا کرتی تھی۔ وہ چھوٹی اور پتلی سی ندی جو شمالی پہاڑوں میں واقع کسی جھرنے سے نکل کرآتی تھی اوراِس بات کے لیے بدنام تھی کہ نہ جانے کہاں کہاں سے ‘لاوارث لاشیں’ اس میں بہہ بہہ کرآتی ہیں۔ دراصل کالی ندی کا راستہ بہت گھنے اور خطرناک جنگلوں میں سے ہو کر گزرتا تھا۔
پُل کے اِدھر اور اُدھر دونوں طرف ناکہ بندی تھی۔ دونوں طرف لوگ اپنے اپنے گھروں میں قید تھے، مگرپھر بھی ان دونوں علاقوں میں ایک بڑا اور واضح فرق تھا اور وہ یہ کہ اُدھر پانی کی سپلائی ہو رہی تھی مگراِدھر نل سوکھے پڑے تھے۔ پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔
مگردنیا قائم تھی اگرچہ اب اس دنیا کو بھوگنا، گندے پانی میں پیدا ہونے والی مچھلیوں کو بھون بھون کر کھانے کے برابر ہے۔ سنا ہے کہ گندے اور میلے پانی سے پیدا کی گئی مچھلیاں لذیذ ہوتی ہیں۔
Jesus Christ, you
Travelled through towns
And villages curing
Every disease and illness”
Come to our aid now, that we may
Experience your healing love.
لائف
اپارٹمنٹس کے فلیٹ نمبر13 میں، جو سب سے اوپری منزل پر واقع ہے، ایک ادھیڑ عمر کا شادہ شدہ جوڑا، ساکت و جامد بیٹھا ہوا ایک دوسرے کو خالی خالی آنکھوں سے دیکھے جارہا ہے۔ برابر والے کمرے میں سے ایک لڑکے کی کھانسی کی آواز لگاتار چلی آرہی ہے۔ نہیں، نہیں۔ یہاں وائرس سے بیمار کوئی نہیں ہے۔ مگراس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بیماری کے قیمتی خزانے پر صرف اسی منحوس وائرس کا اجارہ تو نہیں۔ دنیا میں ہزاروں طرح کے جراثیم ہیں اور ایسا کوئی اُصول نہیں کہ جس زمانے میں یہ وائرس چھٹّے بیل کی طرح ہر جگہ گھومتا اور منھ مارتا پھر رہا ہو، دوسری بیماریاں یا دوسرے جراثیم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔
لڑکے کو پھیپھڑوں کی پرانی ٹی۔ بی۔ ہے اور لاپرواہی کی وجہ سے اس کا علاج بیچ بیچ میں ٹوٹتا رہتا ہے۔ بیماری بگڑ چکی ہے۔ دن میں کم از کم چارپانچ بار کھانسی کے خشک دوروں کے ساتھ اُس کے منھ سے خون آنے لگتا ہے۔ بخار تو زیادہ نہیں رہتا مگر یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ہلکا بخار رہنا زیادہ خطرناک اور کیف پُراسرار ہوتا ہے۔ وہ کھال اور گوشت کے نیچے ہڈیوں میں کسی سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتا ہے۔ جہاں سے اُسے آسانی سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔
اُس کی قمیض پر خون لگا ہوا ہے۔ عورت نے کہا، میں نے بھی دیکھا ہے۔ قمیض بدلی نہیں مرد نے کہا، تین قمیضیں اور تین پاجامے خون کے دھبوں سے پٹے پڑے ہیں۔ دھوؤں کیسے؟ اب تو بازار میں بھی پانی نہیں مل رہا ہے۔ پینے کے پانی کا بس یہ ایک جگ بچا رہ گیا ہے۔ میں نے جانے کیسے کیسے کرکے اکٹھا کیا ہے۔ مرد اُٹھ کرسامنے لکڑی کے اسٹول پر رکھے ہوئے جگ کے اندر جھانکنے لگتا ہے۔ جھانک کیا رہے ہو، پانی ہے۔ عورت کا لہجہ ناگوار ہے۔ مرد خاموشی سے واپس آکر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ذرا دیکھو، وہ بہت زور سے کھانس رہا ہے۔ مرد کہتا ہے، تم ہی دیکھ لو۔ پیدا تو تم نے بھی کیا ہے۔ عورت کا لہجہ ابھی بھی ناگوار ہے۔ جا رہا ہوں۔ مرد تھکی ہوئی آواز میں کہتا ہے اور لڑکے کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ عورت بھی کچھ منھ ہی منھ میں بڑ بڑاتی ہوئی اُس کے پیچھے آرہی ہے۔ تقریباً گیارہ سال کا لڑکا ہے۔ اُس کا چہرہ کھانستے کھانستے سرخ ہو گیا ہے۔ اُس نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں۔ اُس کا سر تکیے میں اس طرح دھنسا ہوا ہے۔ جیسے دلدل میں پھنس گیا ہو۔ اُس کی پتلی پتلی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور پسلیاں چل رہی ہیں۔ عورت اور مرد دونوں زور زور سے اُس کی پیٹھ سہلانے لگتے ہیں۔ نہیں کوئی بات نہیں، بیٹا۔ پھندہ لگ رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔ دونوں مل کر کہتے ہیں اوراُن کے جملے شور میں بدل جاتے ہیں۔ پانی۔ پانی۔ لڑکا پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان آہستہ سے بد بداتا ہے۔ اُس کی آواز اُس چوہے سے مشابہہ ہے جو اچانک چوہے دان میں پھنس گیا ہو۔ عورت پانی کے آخری جگ میں سے ایک چھوٹی سی تانبے کی کٹؤری میں پانی اُنڈیلتی ہے۔ پانی نہیں، پانی کی چند بوندیں ہیں۔ پانی کی چند بوندیں لڑکے کے حلق میں ڈال دی جاتی ہیں۔ اور۔ اور پانی۔ اور پانی۔ لڑکا کپکپاتی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔ مگرابھی وہ وقت نہیں آیا ہے جب پانی کی کچھ اور بوندیں اُس کے منھ میں اُنڈیلی جائیں گی۔ جیسے جیسے اُس کی کھانسی کم ہو رہی ہے ویسے ویسے اُس کے سرخ چہرے پر زردی واپس رینگتی ہوئی چلی آرہی ہے۔ جلد ہی اس زردی نے لڑکے کے چہرے کو اس طرح ڈھک لیا جیسے مغرب میں ڈوبتے ہوئے لال سورج کو آسمان پر چھاتا ہو زرد غبار ڈھک لیتا ہے۔
اُس کی قمیض اُتاردیں۔ مرد نے آہستہ سے کہا۔ آج نہیں کل۔ شاید کل پانی آجائے۔ عورت نے کمزور لہجے میں جواب دیا۔ پانی کا کیا بھروسہ۔ مرد نے ٹھنڈی سانس لی۔ اور یہ سچ تھا کہ بہنے والی چیزوں کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ وہ وقت کی طرح ہوتی ہیں۔
مرد کھڑکی کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ دونوں وقت مل رہے ہیں۔ شام ہو رہی ہے۔ کچھ دیر پہلے تک مشرق میں اُڑنے والی چیلیں اب تقریباً ڈوب گئے سورج کی چھوڑی ہوئی لالی کے آس پاس، مغرب میں منڈلانے لگی ہیں۔ اچانک لڑکا دوبارہ کھانستا ہے۔ پہلے آہستہ سے کھانسی کا ایک ٹھسکہ آتا ہے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ وہ اُٹھ کر باتھ روم سے ملحق دیوار پر لگے ہوئے واش بیسن کی جانب بھاگتا ہے۔ اُس کا منھ اُبکائی کے لیے کھلتا ہے۔ منھ سے گاڑھا گاڑھا خون نکل کر سفید چینی کے بیسن میں گرنے لگتا ہے۔ بیسن پہلے سے ہی خون سے بھرا پڑا ہے۔ وہاں پانی کا قطرہ تک نہیں۔ وہ لرزتے ہوئے ہاتھ سے ٹونٹی کھولتا ہے تو اُس میں سے صرف سرسراتی ہوئی ہوا باہر نکلتی ہے، ایک بھوتانہ ہوا۔
عورت شاید جاہل اور گنوار ہے۔ وہ اپنے سرکو دونوں ہاتھوں سے بے تحاشہ پیٹنے لگتی ہے۔وہ غم اور غصے سے پاگل ہو رہی ہے۔ وہ ایک ڈائن میں بدل گئی ہے جو اپنے بچے کو کھا جاتی ہے۔ مرجا۔ اس سے تو تُو مرجا۔ کل کا مرتا ہوا آج مرجا۔ جینا حرام کردیا۔ مرتا بھی نہیں۔ ہائے میں کیا کروں۔ وہ بے تحاشا منھ بھر بھر کے لڑکے کو کوس رہی ہے اور اپنے سینے پر دوہتھڑ مارے جا رہی ہے۔ جس کے سبب اُس کے بھاری بھاری پستان اس طرح ہل رہے ہیں جیسے زلزلے کی زد میں آگئے ہوں۔
کیوں کوس رہی ہو بچے کو۔ دونوں وقت ملے بھلا کسی کو کوسا جاتا ہے۔ مرد تنبیہ کرتا ہے۔ یہ آمین کی گھڑی ہوتی ہے۔ مرد تنبیہ کرتا ہے۔ تو کیا کروں مارڈالو مجھے۔ واش بیسن میں ابھی تک وہی پرانا خون جمع ہے جو یہ تین دن سے اُگل رہا ہے، اوک رہا ہے خون کیسے بہاؤں۔ پانی کو موت آگئی ہے۔ خون بھرےکپڑے کیسے دھوؤں۔ پانی کو موت آگئی ہے، اسے کیوں نہیں آتی۔ یہ کیوں نہیں مرجاتا۔ عورت زور زور سے چیختی ہوئی فرش پر اُکڑوں بیٹھ جاتی ہے۔ مجھے قے آرہی ہے۔ وہ کہتی ہے اور سوکھی سوکھی اُبکائیاں لینے لگتی ہے۔ جو کراہیت اور صدمے سے متاثر ہونے کے سبب آیا کرتی ہیں۔
لڑکا کپکپاتا ہوا اپنی ماں کے قریب آگیا ہے۔ اُس کے ہونٹوں اور ٹھوڑی پہ خون چپکا ہوا ہے۔ وہ اب کھانس نہیں رہا ہے۔ اُس نے کھانسی کو کسی نا معلوم طاقت کے ذریعے روک لیا ہے۔ امی، امی۔ وہ ماں کا کندھا پکڑتا ہے۔ امی ناراض مت ہو۔ اب نہیں کروں گا خون کی اُلٹی۔ کبھی نہیں کروں گا۔ میری اچھی امی۔ لڑکے کو اس وقت ہلکا بخار نہیں بلکہ تیز بخار ہے۔ سارا بدن تپ رہا ہے اور چہرہ نہ تو لال ہے نہ پیلا۔ چہرہ کالا پڑگیا ہے۔ اُس کی قمیض سے پسینے اور خون کی بھاپ اُٹھ رہی ہے۔ عورت فرش سے اُٹھتی ہے اور زور زور سے روتے ہوئے لڑکے کو چمٹا لیتی ہے۔ عورت کی گردن پر، لڑکے کے منھ اور ہونٹوں پر چپکا ہوا خون خاموشی کے ساتھ آکر لگ گیا ہے۔ ماں بیٹے ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگے ہیں۔ مگررونے کی یہ آوازیں غیر انسانی ہیں۔ انسان ان آوازوں میں نہیں روتے۔
مرد کو اچانک سخت گرمی میں بھی سردی لگنے لگتی ہے۔ اُس کے دانت بجنے لگتے ہیں۔ دانت بجنے کی وجہ سے وہ اُن کے رونے کی آوازیں نہیں سن سکا ہے۔ وہ یہی سوچے جا رہا ہے کہ کاش اُس کی آنکھوں کا آپریشن کامیاب نہ ہوتا، وہ پہلے کی طرح اندھا ہی رہتا۔ آخر اندھا پن ایک نعمت بھی تو ہے۔
اب اندھیرا ہوگیا ہے،جلد ہی سوسائٹی کی سڑکوں اور پارکوں میں لگے ہوئے بجلی کے کھمبے روشن ہو جائیں گے مگرکسی کو یہ نہیں معلوم کہ پانی کب آئے گا۔
کسی کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ جلد ہی یہ بیماری انسانوں کے ساتھ ساتھ کتوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لے گی۔ کتے پہلی بار ہر جگہ مٹی کریدتے ہوئے نظرآئے۔ پھر گندگی کرتے ہوئے اورپھر اُلٹیاں کرتے ہوئے۔ اُن کے منھ سے ہرے ہرے جھاگ نکلنا شروع ہو گئے۔ کھرکی اور بالکونیوں میں کھڑے ہوئے لوگوں نے اُنھیں دیکھا۔ پہرہ دیتے ہوئے پولیس والوں نے اُنھیں دیکھا۔ کتےپالتو نہ تھے، مگرکالونی والوں کے لیے اجنبی بھی نہ تھے۔ وہ یہیں گھومتے رہتے تھے اور ہرآتے جاتے کو دیکھ کر محبت سے اپنی دُمیں ہلاتے تھے۔ مگراب منھ میں جھاگ بھرے ہوئے یہ کتے حواس باختہ سے اِدھر اُدھر دوڑتے تھے۔ پھر کسی نامعلوم تکلیف کے سبب زمین پر لوٹیں لگانے لگتے تھے۔ اُن کی آنکھیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح سرخ تھیں اوراُن کے جبڑے پھیل گئے ھتے۔ اور کوئی شخص تو گھر سے باہر نکل نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ باہر نکلنے کی سزا جیل تھی۔ مگرکالونیوں میں پہرہ دینے والے پولیس کے سپاہی تو باہر موجود تھے جو سرکار کی طرف سے ڈیوٹی کے لیے دی گئی اپنی اپنی پانی کی بوتلوں کو ایک دوسرے سے چھپا کر رکھتے تھے اور یہ احتیاط بھی کرتے تھے کہ کبھی کھڑکی یا بالکونی میں کھڑے شخص کی نظران بوتلوں پر نہ پڑجائے۔
کتے ان پولیس والوں کو بھنبھوڑنے لگے۔ وہ عجیب و غریب طرح سے پاگل ہو گئے تھے۔ وہ اگرکسی پنڈلی منھ میں دبالیتے تو چھوڑتے ہی نہیں تھے اور طرح طرح کی غراہٹیں اپنے حلق سے نکالتے رہتے جن میں شدید غصے کے علاوہ ایک ناقابلِ فہم قسم کی تکلیف بھی شامل تھی۔ اُن کے سر اور جسم کو ڈنڈوں سے بے تحاشا مارا جاتا تب کہیں جا کر وہ اُس چبائی گئی پنڈلی کو چھوڑتے مگرجیسے ہی وہ یعنی کتے ہٹتے، اُں کے کاٹے کا شکار وہ بدنصیب پولیس والا فوراً ہی کتوں کی ہو بہو آواز میں بھونکنے لگتا۔ چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا ہوا، وہ دوسرے آدمیوں کو کتے کی طرح ہی کاٹنے کے لیے دوڑتا۔ اُس کی آنکھیں لوہار کی بھٹی کی طرح سرخ ہوتیں اور جبڑے پھیل جاتے۔ جلد ہی ان اطراف میں نظرآنے والے ہرکتے کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم صادر کردیا گیا اورشاید اُس شخص کو بھی جسے کتے نے کاٹا ہو۔ اگرچہ یہ یقینی طورپر نہیں کہا جا سکتا۔
مگرکیا اس دنیا کے بارے میں یقینی طورپر کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا دنیا اپنی مرضی سے اب ختم ہونے والی تھی۔ اگر ایسا تھا تو زمین اور فطرت کو اپنے کام کرنے سے روکنے کا حق کس کو تھا۔ اگرفطرت اور زمین نے اپنے آگے کے منصوبے بغیر انسان کی شمولیت کے بنا ہی لیے تھے اور اب وہ اپنا کام جانداروں کی مطلق غیر حاضری میں اکیلے ہی کرنا چاہتی تھیں تو ہمیں اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے دنیا کو ایک اچھے کرایہ دار کی طرح خوش دلی کے ساتھ خالی کردینا چاہیے۔
گلاب اپارٹمنٹس کے ہر فلیٹ میں ایک ہی قسم کی مصیبت آئی ہوتی ہے۔ سب کو ایک ہی شکایت ہے اورسب کا ایک ہی مسئلہ ہے۔ ویسے یہ مسئلہ ان اطراف کی تمام سوسائٹیز میں مشترک ہے لیکن کسی بھی تاریخی بیانیہ کی تائید کے لیے بس ایک دو مثالیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ ورنہ گلاب اپارٹمنٹس کے لفظ کو مون انکلیو، آفتاب باغ اور فلورا گارڈن سٹی بھی پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
گلاب اپارٹمنٹس کے فلیٹ نمبر 13 میں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے بدبوئیں پھیلی ہوتی ہیں۔ گھرمیں ہوا کے دباؤ کے تحت کبھی ایک بدبو حاوی ہوجاتی ہے اورکبھی دوسری اور کبھی تیسری۔ یہ بدبوؤں کا ایک نہ نظرآنے والا اسمبلاژ ہے جس کے مختلف رنگوں کو صرف ناک کی آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ان دنوں ناک پر نت نئے انکشافات ہورہے ہیں اور قوتِ شامہ نئے نئے جہانوں کی سیر کو نکل کھڑی ہوئی ہے۔ دروازے اور کھڑکیوں کے شیشے بند ہونے کے باجود نہ جانے کہاں سے آکر ڈھیر ساری ہرے پروں والی مکھیاں آ کر بھنبھنانے لگی ہیں۔ یہاں کے ہر فلیٹ میں دونوں اقسام کے ٹوائلٹ بنائے گئے ہیں۔ ایک مغربی قسم کے کموڈ والا اور دوسرا مشرقی روایت کے پاسداری کرتا ہوا۔ دونوں قسم کے کموڈ انسانی فضلے سے لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ دونوں سیٹوں کی سفید چینی اس گندگی میں ڈھک کررہ گئی ہے۔ فلش کرنے کی ٹنکی نہ جانے کب سے سوکھی پڑی ہے۔ اُس پر موٹے موٹے چیونٹے رینگتے پھر رہے ہیں۔ ہر بالٹی خالی ہے اور ہر برتن خشک اور گندا باورچی خانے میں نہ جانے کب سے جھوٹے برتن پڑے سڑرہے ہیں۔ باورچی خانے سے وہی بدبو اُٹھ رہی ہے جو پاخانے سے آرہی ہے۔ زیرِ زمین نالیاں بھی بند ہیں اوراُن میں گندگی ٹھسی ہوئی ہے۔ سارے گھرمیں سوکھے ہوئے پیشاب کی ایسی کھراند ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ یہ کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہر طرف ڈھیر سی بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ واش بیسن میں نہ جانے کب کی، کی گئی کلّیوں کے ساتھ منھ سے نکلے ہوئے غذائی ذرات، تھوک اور بلغم اکٹھا ہیں۔ یہ جہنم ہے۔ جیتا جاگتا جہنم جس کی آگ کو اور بھڑکانے کے لیے وہاں تین بچے اوراُن کے ماں باپ بھی زندہ موجود ہیں۔ باپ جس کی آنکھیں بھوری مگربےنور ہیں اوراُس کی ٹانگ میں پلاسٹر بندھا ہے۔ ایک زندگی آلودہ وہیل چیئر پر بیٹھا ہے۔ اس کی پلاسٹر سے بندھی ہوئی ٹانگ کے نیچے ایڑی میں ایک زخم ہے جس پر بار بار ایک مکھی آکر بیٹھ جاتی ہے۔ باپ، بچوں کی ماں، جس کی آنکھیں اور بھی زیادہ بھوری ہیں، جس کی چپٹی ناک ہے اور جو خونی بواسیر کے موذی مرض میں مبتلا ہے اور جو بیت الخلا کے نام سے خوف کھاتی ہے، کو غصے سے دیکھے جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے مجھے کھا جاؤ گے۔ آنکھیں نہیں ہیں تو یہ حال ہے۔ آنکھیں ہوتیں تو پتہ نہیں اُس میں کتنی نفرت ہوتی۔ عورت کہتی ہے۔ آنکھیں ہوتیں تو دیکھتا کہ تمھارے تھوبڑے پر میرے لیے کتنی نفرت ہے۔ مرد جواب دیتا ہے۔ بچے بے وجہ شور مچا رہے ہیں۔ پھرایک بچہ بھاگا بھاگا آتا ہے اور کہتا ہے۔اماں، اماں! ہم کیا کریں۔ پیٹ میں درد ہورہا ہے۔ میرے سرپر کردوکم بختو! تمھارا ناس جائے۔ بھری دوپہر میں یہ کوئی وقت ہے۔ماں دہاڑتی ہے۔اماں بڑے زورکا لگ رہا ہے۔ چار سالہ بچہ اپنا پیٹ پکڑے ہوئے باپ کے پاس آکر بولا۔ ابا جاؤں کہاں جاؤں۔ ورنہ نکل جائے گا۔ اُس کے پیچھے پیچھے تقریباً آٹھ سال کا دوسرا بچہ بھی اپنا نیکر سنبھالتےہوئے چلا آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ پہلے وہ فارغ ہوگا۔ نہیں، پہلے میں۔ نہیں، میں۔۔۔ میں۔
یہ یقیناً مضحکہ خیز بلکہ کسی گھٹیا قسم کے مزاحیہ ڈرامے کا کوئی منظر معلوم ہوتا ہے۔ مگرہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مضحکہ خیزی اور لطیفوں میں ایک ایسی دہشت چھپی رہتی ہے جس کو اگرمحسوس کرلیا جائے تو ہماری ہڈیاں بجنے لگیں۔ ویسے یہ دنیا بھی محض ایک لطیفہ ہے جسے دوسرے سیاروں کی تفریح کی غرض سے بنایا گیا ہے۔
جاؤ،سیٹ پر مت بیٹھنا۔ فرش پر ہی کرلو۔ سوکھ جائے گا۔ باپ نے لاپرواہی سے مشورہ دیا۔ اچھا، خوب مشورہ دے رہے ہو، گندگی پھیلانے کا۔ تم اندھے ہو، تمہیں گندگی نظرنہیں آتی۔ مگرکیا تمھاری ناک بھی مٹ چکی۔ تمہیں کوئی بدبو خوشبو کچھ نہیں آتی۔ خود بھی ہر وقت جانوروں کی طرح چرتے رہتے ہو اور بچوں کو بھی چراتے رہتے ہو۔ جب دیکھو ٹوائلٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔ معلوم ہے کہ مرنے کےلیے بھی پانی نہیں ہے۔ عورت کہتے کہتے ایک لمحے کو رُکی، پھر دوبارہ کہنا شروع کردیا۔ بلڈ پریشر کی دوا یونہی چبا لیا کرتی ہوں۔ نگلنے کو پانی نہیں۔ اپنی حاجت روک لیتی ہوں کہ ٹوائلٹ میں نہ جانا پڑے۔ قبض کرنے والی دوائیں لگاتار نگل رہی ہوں چاہے میری آنتیں سڑجائیں مگر میں اُس منحوس اور غلاظت سے بھری ہوئی جگہ پر جاکر ہرگز نہ بیٹھوں گی۔ بولتے بولتے اُس کا گلا بیٹھنے لگا۔ جب میں نے اُس وقت کہا تھا کہ نکل جا تو مایا کے ناگ کی طرح جم کر بیٹھ گئی تھی۔ کچھ بھی ہو جائے، گھر نہیں چھوڑوں گی۔ مرد نے ڈانٹ کر کہا۔ ہاں میں تو نہیں لے جاتی تمہیں اپنے مائیکے اور تو تمھارا کوئی ہے نہیں۔ سسرال کی روٹیاں توڑنے کا شوق ہے۔ ویسے کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ تم میری چھوٹی بہن پر نظررکھتے ہو۔ اپنے اندھے پن کا فائدہ اٹھاتے ہو اوراُس کے سینے کو اپنے ہاتھوں سے چھونے کی کوشش کرتے رہتے ہو۔ عورت نے زہر آلود لہجے میں کہا۔ تو بکواس بند کرے گی یا نہیں۔ مرد نے کچھ اس انداز میں کہا کہ وہ لمحے بھر کو خاموش ہوئی۔ پھر کچھ اس طرح بڑبڑانا شروع کردیاجسے صرف وہی سن سکتی تھی۔ تقریباً گیارہ سال ہیں جو گھبراہٹ کے موقع پر نکل کرآتے ہیں۔ اماں، اماں۔ اِدھر آؤ، بات سنو۔ وہ کانپتی ہوئی آواز میں کہتی ہے۔ کیا ہوا کم بخت۔ میرے پاس پانی نہیں ہے۔ تجھےہر گھڑی پیاس لگی رہتی ہے۔ بڑی گرمی بھرگئی ہے تیرے اندر۔ عورت چلائی۔ نہیں اماں! پانی نہیں چاہیے، تم اِدھر آکرمیری بات سن لو۔ بچی حواس باختہ ہے۔ عورت کراہتے ہوئے بچی کے پاس جاتی ہے۔ وہ دونوں دوسرےکمرے میں چلی جاتی ہیں۔
بچی ماں کو اپنی شلوار کی طرف دیکھنے کا اشارہ کرتی ہے جس پر خون کے دھبے ہیں۔ میرے پیڑو میں بہت درد ہو رہا ہے۔ وہ رو کر کہتی ہے۔ مرجاحرافہ۔ ابھی ہی جوان ہونے کو رہ گئی تھی۔ دیکھتی نہیں کہ گھرمیں پانی نہیں ہے او ر تو مہینہ شروع کرکے بیٹھ گئی۔ عورت بچی کی پیٹھ پر زور زور سے گھونسے مارتی ہوئی چیخنے لگتی ہے۔ بچی روتی جاتی ہے۔ ماں مارتی جاتی ہے۔ مرد زورسے دہاڑتا ہے۔ عورت بچی کو گھسیٹتے ہوئے کپڑوں کی الماری کے پاس لے جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے کہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ خدا موت دے دے۔ مگرخدا ابھی موت نہیں دینا چاہتا۔ ابھی وہ انھیں اور جینےدینا چاہتا ہے۔
حالانکہ کوئی بھی شعوری طورپر جی نہیں سکتا۔ شعوری طورپر مرتو سکتا ہے۔ خودکشی کرسکتا ہے۔ مگرکوئی یہ نہیں کرسکتا کہ سمجھ سمجھ کر زندگی گزارے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے ٹائپ رائٹر پر لکھے ہوئے حروف کو غور سے دیکھ کر ٹھہر ٹھہر کر یہ فیصلہ کرتے ہوئے کہ ‘پ’ کہاں اور ‘ژ’ کہاں، ٹائپ کیا جائے۔ انگلی توایک حرف سے دوسرے حرف تک اُڑتی ہوئی پہنچتی ہے۔ انگلی کی اپنی اُڑان ہے اور اپنا دل ہے، اپنا دماغ ہے۔
یہ سب ایک خواب کی طرح ہے۔ ایک ایسا خواب جسے مرنے کے بعد ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عورت کا قد مشکل سے چار فٹ رہا ہوگا۔ اُس کا وزن اتنا زیادہ ہے کہ اُس سے دب کر گویا وہ زمین میں دھنسی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسی فٹ بال نظرآتی ہے جو آدھی ریت میں دبی ہوتی ہے۔ بے رحمی کی حد تک پیچھے کو نکلے ہوئے اُس کے کولہوں اور پھولے پھولے مہاسوں سے بھرے گالوں میں ایک ناقابلِ یقین مشابہت ہے۔
اندھے مرد کے چہرے پر پرانی چیچک کے نشان ہیں۔ وہ بھی کبھی وبا ہوا کرتی تھی، مگراب دنیا سے اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ لیکن دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے وہ اپنے کبھی نہ مٹنے والے نشان یہیں چھوڑ گئی ہے۔ انسانوں کے چہرے پران کو اندھا کردینے کے بعد وہ ہمیشہ اس امر کی یاد دلاتی رہتی ہے کہ وہ تھی، وہ ماضی کے اُن گناہوں کی طرح ہے جو آدمی کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتے۔
اندھا آدمی بار بار پلاسٹر کے اندر ہاتھ ڈال کر ٹانگ کھجانے کی کوشش کرتا ہے۔ پلاسٹر کا رنگ اب سفید نہیں رہا، وہ میلا ہو چکا ہے اوراُس پر جگہ جگہ سالن کےپیلے دھبے بھی ہیں۔ پلاسٹر کے اندر شاید کھٹمل پیدا ہو گئے ہیں۔ کچھ کھانے کو ہے، وہ کہتا ہے کیونکہ وہ کچھ دیکھتا نہیں۔ کچھ نہیں ہے، ابھی تو کھا کر اُٹھے ہو۔ عورت کھسیا کر جواب دیتی ہے، مگرمجھے بھوک لگ رہی ہے۔ پانی ہے۔ وہ پھر کہتا ہے۔ بس ایک جگ پانی بچا ہے۔ دوا نگلنےکے لیے پانی نہیں ہے۔ میرے گردے خراب ہو رہے ہیں۔ تمھارے ساتھ رہ کر مجھے یہ ساری منحوس بیماریاں لگ گئی ہیں۔ ورنہ شادی سے پہلے میں کتنی تندرست اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اب تو اچھا ہے کہ یا تم مرجاؤ یا میں مرجاؤں۔ عورت زور سے بڑبڑاتی ہے۔ اندھا آدمی زور سے ہنستا ہے۔ اُس کی وہیل چیئر کے پہیے ہلنے لگتے ہیں۔ ‘خوبصورت لڑکی۔’ اندھا ہنستے ہوئے کہتا ہے۔ اگرتمھاری آنکھیں ہوتیں تو تم دیکھ پاتے۔ کاش میں نے ترس کھاکے تم سے بیاہ نہ کیا ہوتا۔ عورت کے لہجے میں حقارت تھی۔
ممکن ہے کہ کبھی اُن دونوں میں تھوڑی سی وقتی محبت رہی ہو مگراِسے کیا کہیں کہ محبت کے پڑوس میں بیزاری رہتی ہے اور خلوص کے برابر والی کھڑکی میں سے کینہ کا چہرہ ہمیشہ سڑک پر چلنے والوں کو گھورتا رہتا ہے۔
اندھا اپنی وہیل چیئر کو دھکیلتا ہوا کھانے کی میز کی طرف جارہا ہے۔ اُس نے میز پر رکھی ہوئی ڈبل روٹی کے دو ٹھنڈے سلائس نکال لیے ہیں۔ تو نے ترس کھا کر مجھ سے شادی کی تھی؟ تیرے باپ نے میری دولت کے لالچ میں آکر تجھے میرے سر منڈھ دیا تھا۔ میں نے چالیس لاکھ کا یہ فلیٹ اُسی کے کہنے پر تیرے نام کیا تھا۔ میرا بہت بڑا کاروبارتھا۔ میں زردوزی اور کار چوب کے کاریگروں کو سعودی عرب بھجوایا کرتا تھا۔ تیرے دو بھائیوں کے بھی ویزے لگوائے، بھول گئی؟ اندھا کہے جا رہا تھا، مگرتب ہی اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اُس کی ایڑی کا زخم رِسنے لگا ہے۔ زخم پر دو مکھیاں آکر بیٹھ گئیں۔ مکھیوں کو بھگانے کے لیے وہ اپنی ایڑی کو بار بار فرش پر بجانے لگا۔ مگراس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایڑی فرش پر بجانے سے زخم میں سے زیادہ خون نکلنے لگا ہے۔ مکھیاں اب بھلا زخم سے کیوں دورجائیں گی۔
اندھا اندازے سے سلائسوں کو ٹوسٹر کے اندر ڈال رہا ہے۔ اِس ٹوسٹر میں بھی ایک تکنیکی خرابی ہے۔ اس میں سے کبھی تو سیاہ اور کوئلے کی طرح سخت جلا ہوا سلائس باہر نکل آتا ہے اور کبھی بالکل سفید، کچا اور ٹھنڈا۔ بجلی سے چلنے والی چیزوں میں اگراس قسم کی کوئی پُراسرار خرابی پیدا ہو جائے تو وہ جاتی نہیں ہے۔ وہ گھوڑے میں پیدا ہو جانے والے عیب کی طرح ہوتی ہے۔ یاانسان کے مقدر کی خرابی کی طرح۔
اچھا چل چھوڑ، تھوڑا پانی دے۔ گلا سوکھ رہا ہے۔ اندھے نے جھگڑا ٹالنا چاہا مگروہ جھگڑا ختم نہیں کرنا چاہتی۔ اُس کے گال پھول کر کپّا ہو گئے۔ اُس کے بھاری بھاری کولھے ایک نامعمول انتقام لینے کے درپے ہوکر کچھ اور باہر نکل آئے۔ گلا سوکھ رہا ہے۔ ہونہہ، زندگی بھر شراب پیتا رہا، اُسی موت سے گلا ترکر۔ وہ غصے سے آگ بگولا ہوکر زور سے چیخی۔ اپنی زبان بند کر رنڈی۔ بھڑوے تو چُپ رہے۔ تو رنڈی۔ تو بھڑوا۔
بچے اُن کے قریب آکر کھڑے ہو گئے ہیں اور سسکیاں لے کر رو رہے ہیں۔
عورت اندھے مرد کے بہت قریب کھڑی ہوئی غصے سے کانپ رہی ہے اوراُس کے منھ سے تھوک کے جھاگ اُڑ رہے ہیں۔ آنکھیں سرخ ہیں اوراپنے حلقوں سے باہر اُبل آئی ہیں۔ اس کے جبڑے پھیل گئے ہیں۔ وہ پاگل کتیا نظرآرہی ہے۔ دفعتاً اندھا اپنی ٹوٹی ٹانگ سے اُس کے پیٹ پرایک زبردست لات مارتا ہے۔ عورت تھوڑا سا پیچھے کی طرف پھسلتی ہے۔ پھر سنبھل کرسیدھے کھڑے ہوکر اندھے کھے منھ پر نفرت سے تھوک دیتی ہے۔ تھو۔ تھو۔ تھو۔ اندھا دوبارہ اُس کے پیٹ پر لات مارتا ہے۔ عورت میز پررکھے ہوئے پانی کے جگ کو اُس کے سر پر دے مارتی ہے۔ کچے شیشے کا بنا ہوا جگ اندھے کی کھوپڑی سے ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتا ہے اور پانی سے اُس کا سراورکندھے بھیگ جاتے ہیں۔ اندھا دونوں ہاتھوں سے اپنا سرٹٹولتا ہے۔ اس کے ہاتھ پانی اورخون سے سن ہو گئے ہیں۔ وہیل چیئر کے پہیے جھٹکے سے بے قابو ہو کر بائیں طرف کو چلنے لگے ہیں۔ وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اپنے ہاتھوں کو اِدھر اُدھر پھیلا رہا ہے۔ اِس سے پہلے کہ بچے دوڑ کراُس کی مدد کریں، غلطی سے پانی اورخون میں تراُس کا ہاتھ ٹوسٹر پر پڑگیا ہے۔ اس کے ہاتھ کی تین انگلیاں ٹوسٹر کے اندر گہرائی میں چلی گئی ہیں۔ اندھے کے منھ سے ایک خوفناک مگرصرف آدھی چیخ ہی برآمد ہوتی ہے۔ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے کچھ لمحوں کے لیے اس کا جسم اوپر نیچے جھٹکے کھاتا ہے، جیسے گندے پانی میں مینڈک اُچھلتا ہے۔ پھر یہ جسم سیاہ ہوکر بے حس و بے جان ہو جاتا ہے۔
جب پولیس کی جیپ عورت کو جیل کے دروازے پر چھوڑنے آئی تو وہاں پہلے سے ہی ایک ایمبولینس کھڑی تھی۔ جس میں ایک قیدی عورت کو پولیس کی نگرانی میں ضلع سرکاری اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ قیدی عورت بھی بیماری کا شکار ہو گئی تھی۔ کھلے آسمان میں دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اسٹریچر پر لیٹی ہوئی بیمار، قیدی عورت کی ایک آنکھ کو اُس کے ماتھے سے ڈھلک آئے ہوئے بالوں نے ڈھک لیا تھا۔ وہ اپنا ایک ہاتھ بار بار اوپر نیچے کررہی تھی۔ وہ پھولے پھولے مہاسوں سے بھرے ہوئے گالوں اور بھاری کولہوں والی موٹی عورت کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے۔ تو تم نے بھی۔ اُس کی مسکراہٹ سوال کرتی ہے۔ ہاں میں نے بھی۔ جیل کے اندر جاتی ہوئی عورت کی مسکراہٹ جواب دیتی ہے۔ پانی کے چکر میں؟ ہاں پانی کے چکر میں۔ ایک عورت جیل سے اسپتال کی طرف جانے والی ایمبولینس میں ڈال دی جاتی ہے۔ دوسری عورت گھرسے جیل کے اندر۔ گھر، جیل، اسپتال اور قبرستان میں سب ایک ہو گئے ہیں۔ شام ہو رہی ہے۔ درخت سلیٹی مائل ہونے لگے ہیں اور گھاس کالی، دھول اُڑاتی ہوئی ایمبولینس کے سائرن پردورکہیں کوئی پاگل کتا بھونکنے لگتا ہے۔
اب کہا جانے لگا ہے کہ مہاماری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔اگریہ واقعی مہا ماری ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ایمبولینسیں گھومتی نظرآرہی ہیں مگرکچھ دنوں سے لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے اطراف میں کسی کالونی سے کسی مریض کے ہونے یا مرنے کی خبر نہیں آئی ہے (وہ ایک ایک دوسری موت مررہے ہیں) حالانکہ پانی کی سپلائی بند رہنے کی وجہ سے یہاں کچھ ایسے ذہنی مریض ضرور پائے گئے ہیں جنہیں یا تو پاگل خانے بھجوا دیا گیا ہے یا جیل۔ جہاں تک وائرس کا سوال ہے وہ تو پاگل خانے اور جیل دونوں جگہ پہنچ چکا ہے۔ گھروں میں قیدی بنے ہوئے لوگ اپنی عبادت بھی نہیں کرسکتے اور اگرکریں گے تو تمام ارکان پورے نہ ہو سکیں گے کیونکہ طہارت نام کی کوئی شے فی الحال اُن کے پاس نہیں۔ وہ تواچھا تھا کہ رمضان آکر گزر گئے تھے اور بقر عید ابھی دور تھی ورنہ اُن کے گھر خون میں نہا جاتے اورجانوروں کا گوشت سڑتا رہتا۔ جہاں تک پیاسے مرنے کا سوال تھا وہ تو یہ محرم کے دس دن بھی نہ تھے کہ شہدائے کربلا کی قربانی یاد کرکے، کچھ حوصلہ ملتا اور یہ کرب و بلا کے دن کٹ جاتے۔ مذہبی ارکان پورے نہ کرپانے پر سب ایک دوسرے کو یہ تسلی دیتے پھر رہے تھے کہ ایسی آزمائش کی سخت گھڑی میں خدا اُنھیں معاف کردے گا مگرکیا خدا انسانوں کو اُن کے گناہ اور برے اعمال کے لیے ہمیشہ معاف کرتا رہے گا۔ انسان جو گناہ کرنے سے کبھی دائمی توبہ تک نہیں کرتے تھے۔ خدا کا کام معاف کرنا اور رحم کھانا ہی نہیں، سزا دینا اور عذاب نازل کرنا بھی ہے اوراس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ صرف معاف کردینے والے خدا کو کوئی نہیں مانتا۔
اب ایسا بھی نہیں کہ چور دنیا سے اُٹھ گئے تھے۔ چوروں کی نظرہمیشہ اُن گھروں پر لگی رہتی تھی جن میں رہنے والے تالہ لگا کر وقتی طورپر کہیں اور رہنے چلے گئے ہوں۔ مگرایک تو اُنھیں ان گھروں میں گھسنے پر بیماری لگ جانے کا ڈرتھا اوراگرایک دو بہادرچوروں نے پولیس کی نظروں سے چھپ چھپا کر، کالونی کے اندر گھسنے کی کوشش کی بھی تو وہاں آوارہ گھومتے ہوئے پاگل کتوں نے اُنھیں کاٹ کھایا۔ جس کے بعد اُن کے بس میں صرف یہی رہ گیا کہ وہ خود بھی پاگل کتے کی طرح چارہاتھ پیروں پر چلتے ہوئے اور بھونکتے ہوئے، تندرست اور شریف آدمیوں کو کاٹتے پھریں۔ ایک چورسے زیادہ اس کہاوت پراور کون یقین کرے گا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔
لائف اپارٹمنٹس کے زندہ مگرپیاسے مکینوں نے اپنے پالتو جانوروں کو مارڈالنا شروع کردیا ہے۔ انھوں نے پنجروں سے نکال نکال کربے دردی کے ساتھ اپنے طوطوں کی گردنیں مروڑ ڈالی ہیں جو ہروقت پانی مانگنے کے لیے ٹائیں ٹائیں کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی پالتو بلیوں کے گلوں میں رسی کا پھندا ڈال کر اُنھیں ختم کردیا ہے جو ہروقت دودھ کی تلاش میں برتن پھینکتی رہتی تھیں اور میاؤں میاؤں کرتے ہوئے انسانوں کی گود میں گھس جاتی تھیں۔ انسان جانور کو جس طرح دیکھتا ہے، جانور اُس طرح نہیں دیکھ سکتا۔ کتے اور بلی کے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں جو کسی شے کو مجموعی طورپر اُس کی مکمل سالمیت میں دیکھ سکیں۔ وہ انسانوں کو صرف الگ الگ حصوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ جب کتا کاٹنے کے لیے آدمی کی ٹانگ پکڑتا ہے تو وہ اُس آدمی کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا مگرجب وہ آپ کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے آپ کا باقی جسم نظرنہیں آتا۔ وہ انسانی جسم کی بُوسے ہی اپنی وفاداری کا ثبوت دیتا ہے۔ انسانی جسم کے مکمل ادراک کے ذریعے نہیں۔ یہ آنکھیں تو بس انسان کو ہی بخشی گئی ہیں جو اشیا کو ان کی سالمیت میں ایک ساتھ دیکھنے پر قادرہیں۔ اس لیے انسان یہ جانتا ہے کہ دوسرا کتنا کمزور، حقیر، احمق اور بےز بان ہے۔ اُسے کتنی آسانی کے ساتھ مسلا جا سکتا ہے، شکار کیا جاسکتا ہے، غلام بنایا جا سکتا ہے اور ذبح کیا جا سکتا ہے۔ اور جب تک کمزور اور بے جان جانور اس دنیا میں موجود ہیں وہ انسانوں کو اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے اوراُن کی مال و دولت کا خراج اداکرتے رہیں گے۔ مگریہ سوال پھر بھی رہے گا کہ محض گوشت اور ہڈیوں کی قربانی ہی کافی ہے۔ کیا جانور کا دل اور روح اس میں شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پالتو بے زبان جانوروں کو بغیر رتّی بھر احساسِ جرم کے مار ڈالنے میں حق بجانب تھے۔ اُنھیں اتنے تاریک اور مایوس کن دنوں میں بھی اس امر کا خو ب احساس تھا کہ وہ تو دراصل اشرف المخلوقات ہیں۔
اب اگرکسی کے گھر سے موت کی خبرآتی ہے تو دوسرے لوگ اپنے اپنے فلیٹوں کی بالکونیوں میں کھڑے ہو کر زور زور سے ہنستے ہیں، تالیاں پیٹتے ہیں، برتن بجاتے ہیں۔ کیونکہ موت ہی وہ اصل قانونی دستاویز ہے جو اُنھیں وِرثے میں ملی ہے۔ موت ہی انسانوں کی جائز اور حلال جائیداد ہے اور ملک الموت ہی سب سے طاقتور منصف ہے۔ ایسے افراد کے دماغی توازن بگڑ جانے کی کسی کو پرواہ نہیں اور فی الحال اُن کے گھروں پر، اُنہیں پاگل خانے تک لے جانے والی کوئی گاڑی ابھی تک نہیں آئی ہے۔ اُدھر شہر کے کچھ پسماندہ علاقوں سے کچھ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ وہاں لوگ بیماری سے بچنے کے لیے بھوت بن کر گھوم رہے ہیں۔ وہ تو ہم پرست اور بد عقیدہ لوگ ہیں۔ حاملہ عورتوں کے بھوت اور بچوں کے بھوت کا اور لمبے بالوں والے بھوت کا بھیس بدل کر دراصل وہ ایک ایسا کارنیوال منا رہے ہیں جس کی بنیاد دہشت اور خوف ہے اور کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اُنھیں عقلیت پسندی اور سائنسی مزاج اخیتار کرنے کا درس دیتا پھرے۔ یہ وہ وقت نہیں جواس تعلیم کے لیے سازگارہو۔
گذشتہ تین دنوں میں اس پُراسرار اور تقریباً لا علاج بیماری سے مرنے والوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اس میں پانی کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے خود کشی کرنے والے یا قتل ہو جانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ مگرساتھ ہی ایک خوش آئند اور حیرت انگیز بات بھی سامنے آئی ہے۔ چنگی دفتر کے شعبہ اموات و پیدائش کے ریکارڈ کیپر نے بیان دیا ہے کہ اتفاق سے انھیں دنوں سب سے زیادہ بچوں کی پیدائش بھی ہوئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسپتال والوں کی شماریات کا جب موازنہ کرکے دیکھا گیا تو ترسیم کے مطابق کسی ایک موت کےوقت کم سے کم چار نوزائیدہ بچوں کا تناسب نظرآیا۔ یہ ابھی ایک اطمینان بخش صورتِ حال کہی جا سکتی ہے کہ فی الحال کسی بھی حاملہ عورت کے اس بیماری کے سبب موت واقع ہونے کی خبر نہیں مل سکی ہے۔ اگرچہ توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد حضرات اس مخصوص وقفے کو آسیبی اور شیطانی وقت کا ٹکڑا بتارہے ہیں جس لگاتار اموات کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی زیادہ سے زیادہ پیدائش ہوتی رہے۔ وہ اس وقفے کے دوران پیدا شدہ بچوں کو اس وبا کی شیطانی اولاد سمجھتے ہیں اوراُن کے ماں باپ کو بچوں سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ پیش گوئی بھی کررہے ہیں کہ ایسے تمام بچے آہستہ آہستہ بہت کمزور اور دُبلے پتلے ہوتے جائیں گے۔ اُن کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑتا جائے گااورآدھی رات میں اُن کے رونے کی آوازیں جنگلی لومڑیوں سے مشابہ ہوں گی۔ مگرچنگی کے دفتر کے اس ریکارڈ کیپر کو نہ تو یہ سب معلوم ہے اورنہ ہی اُس کا ان بچوں سے کوئی واسطہ ہے۔ اُس نے تو بس اتنا کیا ہے کہ اموات اور پیدائش، دونوں کے ریکارڈ اور سرٹیفیکٹ دو الگ الگ الماریوں میں بند کرکے تالہ لگادیا ہے۔
یاتو گرمی بڑھ جانے کے باعث یا کسی اور سبب سے لائف اپارٹمنٹس میں بڑی تعداد میں چھپکلیاں نکلنا شروع ہو گئی ہیں۔ وہ دیواروں اور فرش پر رینگتی پھرتی ہیں مگربے حد ڈری ڈری اور سہمی ہوئی نظرآتی ہیں۔ اُن کی بٹن جیسی ننھی ننھی ساکت آنکھیں انسانوں سے کچھ مانگتی ہوئی سی نظرآتی ہیں۔ کبھی کبھی تو گرگٹ کی طرح اپنی دُم پر کھڑی ہوکر انسانوں سے اپنے ارتقاء کے سفرمیں پیچھے رہ جانےکا ہرجانہ طلب کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں مگرانسان اُن کی پرواہ نہیں کرتا۔ اُسے اپنے ہی گناہوں کا اِزالہ کرنے سے فی الحال کوئی فرصت نصیب نہیں۔
آدھی رات کے بعد کھڑکیوں کے شیشوں پر چمگادڑ آآکرٹکراتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں۔ ان اطراف میں چمگادڑ کبھی نہیں پائے گئے ہیں مگراب غول بنا کر نہ جانے کہاں سے چلے آتے ہیں۔ چمگادڑ دنیا کی سب سے خوفناک اور ناقابلِ فہم مخلوق ہے۔ وہ تو ویمپائر تک کے سینےکا خون چوس سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس وائرس نےماحولیاتی توازن کو ضرب پہنچائی ہو۔ پربھی یہ افواہیں ہی کہیں جا سکتی ہیں اور افواہوں کو انسانوں کی طرح گھروں میں قید کرکے نہیں رکھا جا سکتا۔ چاہے یہ کتنی بھی ناقابلِ یقین کیوں نہ ہوں مگریہ افواہ نہیں تھی ایک حقیقت تھی۔ جسے پہرہ دیتے ہوئے پولیس والوں نے بھی دیکھا کہ دن میں مکانوں کی کھڑکیوں کے شیشوں پراکثر گدھ اور چیلیں آکر اپنی چونچوں سے ٹکر مارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے چونچیں زخمی ہو جاتی ہیں۔ چونچیں خون میں بھیگ جاتی ہیں، وہ کسی بُو پر پاگل ہو رہے ہیں۔
وہ بُوکس کی ہے؟ انسانی فضلے کی جو اَب اِن گھروں میں ہی سڑکر زرخیز کھاد بن جائے گا۔ خون کی جس کے کالے اور بڑے بڑے دھبے جم کر اور خشک ہو کر فرش کے ڈیزائن میں بدل جائیں گے۔ انسان کی بد مزاجی، غصے، نفرت اور پاگل پن کی جو جلد ہی ہوا بن کر اُڑ جائے گی۔ یا یہ موت کی بُو ہے جو ہمیشہ سے انسان کے بدن سے لپٹی ہوئی ہے۔ اُس کی کھال، گوشت اور ہڈیوں میں سمائی ہوئی موت کی یہ بُو ان دنوں شدید ہو گئی ہے۔ اس لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ شیشوں پر چونچیں مارتے ہیں۔ وہ دراصل گھروں کے اندر داخل ہونا چاہتے ہیں۔ یہ گھر جو اب ناقابلِ یقین طورپر اُن نقشوں کے مطابق تیار کیے گئے نظرآنے لگے ہیں جو قبروں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں اب وہی رمز ہے جو قبروں میں ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہر گھر میں ٹیلی ویژن پر صرف ایک ہی فلم چلی رہی ہوتی تھی۔ آج پھر وہ زمانہ لوٹ آیا ہے۔ یہاں ہر گھر میں ایک ہی گندی، بھیانک اور پاگل فلم چل رہی ہے۔
یہ فلورا سِٹی کا فلیٹ نمبر 13 ہے۔ اُن کی شادی ہوئے ابھی بس ایک ماہ ہی ہوا ہے۔ کچھ ضروری کاموں کی وجہ سے بار باراُن کے ہنی مون پر جانے کا پروگرام ٹل جایا کرتا تھا لیکن جس وقت ناکہ بندی کا اعلان ہوا، اُسی وقت اُن کی ٹیکسی اسٹیشن سے واپس کردی گئی اورگھر واپس پہنچ کر مایوسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں انھوں نے اپنے وہ بند سوٹ کیس کھولے جو درصل ایک خوبصورت پہاڑے علاقے کے ایک مہنگے ہوٹل کے کسی کمرے میں کھولے جانے کےلیے بند کیے گئے تھے۔ اب کافی دنوں سے وہ گھر میں قید ہیں۔ گھر، جس میں پانی کا نام و نشان نہیں ہے۔ شوہر جو آج سے تین ہفتے قبل تک بے حد اسمارٹ اور صاف ستھرا نوجوان نظرآتا تھا، آج کسی گھٹیا سے موٹر گیراج میں کام کرنے والا مستری نظرآرہا ہے۔ اُس نے اتنے دنوں سے شیو نہیں کیا ہے اوراُس کی داڑھی بے ترتیبی کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس لیے اُس کی بیوی کو وقت سے پہلے ہی یہ پتہ چل گیا ہے کہ اُس داڑھی میں کالے بالوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اُس کی اصل عمر پانی کی مستقل غیر حاضری نے ظاہر کردی ہے۔ وہ نہ جانے کب سے نہیں نہایا ہے۔ اُس کا سرچکٹ گیا ہے۔ سرکے بال تین رنگ کے ہو گئے ہیں۔ کچھ وہ بال جو ابھی سیاہ ہیں، کچھ وہ جو سفید ہیں اور سب سے زیادہ وہ بال جن پر لگایا گیا رنگ آدھا مٹ چکا ہے اس لیے وہ اُس رنگ کے نظرآنے لگے ہیں جو رنگ بندر کی کھال پر اُگے ہوئے روؤں کا ہوتا ہے۔ اُس کے کپڑے بہت گندے ہیں اور کپڑوں کے نیچے بنیان، ان سے بھی زیادہ گندی اور پسینے سے بھیگی ہوئی ہے۔ اُس کے بدن سے بدبو آرہی ہے۔ جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث اُس کے ہاتھ پیروں کی کھال پھٹنے لگی ہے۔ چہرے کی کھال کا بھی یہی حال ہے جسے اُس کی بڑھی ہوئی کھچڑی داڑھی نے ابھی چھپا رکھا ہے۔ اُس کی بیوی ایک کم عمر لڑکی ہے یا اب سے تین ہفتے پہلے تک کم عمر تھی اور خاصی قبول صورت بھی۔ اُس کے دہانے اور ہونٹوں پرایک خاص قسم کی معصومیت ہے۔ مگراب اُس کے خدوخال پہلے کی طرح نہیں رہے۔ اُس کی رنگت بہت سفید ہے جس میں ایک ایسا سنہری پن بھی شامل ہے جو لیموں کے تازہ اور شاداب چھلکے میں ہوتا ہے، مگر یہ کچھ ہفتے پرانی باتیں ہیں۔ اب اُس کی سفید جلد پر کالے کالےمیل کے چھپڑ جگہ جگہ جمتے جارہے ہیں۔ اُس کے سیاہ گھونگھرالے بال اُلجھی ہوئی جوٹ کی میلی رسیاں بن گئے ہیں۔ گھونگھرالے بالوں کو اگرپابندی کے ساتھ روز نہ دھویا جائے تو اُن میں بہت جلد جوئیں پڑجاتی ہیں۔ وہ بھی نہ جانے کب سے نہیں نہائی ہے۔ ابھی حال ہی میں گزرے ہوئے ایامِ حیض کے بعد بھی نہیں۔ اس کے بالوں میں جوئیں پڑگئی ہیں۔ جو دن سے زیادہ رات میں اُس کے دماغ کا خون پینے کےلیے بری طرح رینگتی پھرتی ہیں اور کبھی کبھی بالوں سے گر کر تکئے اور کپڑوں پر بھی آجاتی ہیں جنہیں وہ چٹکی سے مسلتی رہتی ہے۔ سراوربالوں میں اس قدر کھجلی ہے کہ وہ ہروقت بالوں میں کنگھا کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتی کیونکہ اُس کے بری طرح اُلجھے ہوئے میلے کچیلے گھونگھرالے بالوں میں پھنس کر کنگھے کے دانتے ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اُس کے جسم میں پسینے اور سڑاندھ کے سوا کچھ باقی نہیں رہاہے۔ اُس نے اپنی گندی، پسینے سے بھیگی ہوئی بریزئر اُتار کر پھینک دی ہے تاکہ سینے اورپیٹھ پر آسانی سے کھجا سکے۔ اُس کے لمبے لمبے ناخنوں میں کالا میل بھر ا پڑا ہے اور ایڑیاں پھٹ رہی ہیں۔ ایڑیوں میں بڑی بڑی کھانپیں ہو گئی ہیں۔ اُس کے جسم کا سارا پانی سوکھ رہا ہے۔ بریزئر اُتار کر پھینک دینے کے سبب سے اُس کے بڑے بڑے پستان نیچے کو لٹک آئے ہیں۔ وہ ایک عمر رسیدہ اور کئی بچوں کی ماں نظرآنے لگی ہے۔ اُس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہیں اس لیے بات بات پراُس کی آنکھوں سے آنسو نکل کراُس کے خشک اور پھٹتے ہوئے گالوں پر بہنے لگتے ہیں۔ چھوٹی آنکھوں سے جلدی باہر آتے ہیں۔ بڑی آنکھوں میں پھیل کروہیں خشک ہو جاتے ہیں۔ اُس کی آنکھیں پیلی بھی ہو رہی ہیں بالکل اُلو کی طرح جو رات کو کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے اُن دونوں کو اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے گھورتا ہے۔ جہاں تک پیلے غبار کا سوال ہے تو وہ تو رات میں بھی کم نہیں ہوتا۔ وہ بدستور موجود ہے اور ہوا چلنا بھول چکی ہے۔ ہوا کی یادداشت میں صرف سوکھی جھاڑیاں اور ببول کے درخت رہ گئے ہیں جو زمین میں پانی کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں اور انتقاماً اپنے اوپر کانٹے اُگا لیتے ہیں۔ وہ اپنی پیلی پیلی آنکھوں میں ہر وقت آنسو لیے گھر میں اِدھر اُدھر چکر کاٹتی رہتی ہے۔ یہ آنکھیں ہمیشہ ڈبڈبائی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی اُس کے شوہر کی محبت میں ایذا پسندی کا تصور دل ہی دل میں پیدا ہو جاتا تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا اور یہ شادی کی پہلی رات کے بعد سے ہی تھا کہ اگراُس کی بیوی کے جسم میں خنجر اُتار دیا جائے تو وہ آنسوؤں کے نمکین پانی کے خزانے میں ڈوب جائے گا۔ شاید اُس کی بیوی کے جسم میں خون تھا ہی نہیں۔ وہاں صرف آنسو ہی رگوں میں دوڑتے تھے۔ محبت کے گھنے کالے بادلوں میں نفرت کو ندے کی طرح چمک کرلپکتی ہے۔ اس روشنی میں اشیا اپنے اصل خدوخال میں پہچان لی جاتی ہیں۔ وہ سوچتا کہ اگراُس کے نازک بدن کو چاقو سے ہلکا سا بھی چھیلا جائے تو وہ کتنا روئے گی۔ اُس کے بدن سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو جائے گا جس میں اُس کی روتی ہوئی آنکھیں بھی بہہ جائیں گی۔ دراصل ہمیں چہرے نہیں دیے گئے ہیں۔ ہمیں صرف مکھوٹے دیے گئے ہیں۔ ہمیں جذبات کے نام پر غصہ، چڑ چڑاپن، ایذا رسانی، ہسٹریا اور پاگل پن ہی مل پائے ہیں۔ محبت اور معافی تو ایسی چیزیں ہیں جو انسانوں کے چکنے دل پرسے ہمیشہ ہی پھسل کرگرجاتی ہیں، بہہ جاتی ہیں۔
آج بھی پانی نہیں آیا۔ شوہر نے پوچھا تھا۔ نہ۔ بیوی نے جواب دیا۔ تم نے پانی کی ٹونٹی کھول کر دیکھی تھی۔ شوہر نے پوچھا تھا۔ ساڑی ٹونٹیاں کھلی ہوئی ہیں۔ بیوی نے جواب دیا تھا۔ شوہر مایوس ہوگیا تھا۔ حالانکہ اُس کا سوال اوراُس کی مایوسی اس وقت دونوں ہی احمقانہ تھے۔ یہ وہ جوڑا تھا جو ہمیشہ ایک دوسرے سے لپٹا رہتا تھا۔ ہاتھ میں ہاتھ تھام کر اور دوسرا ہاتھ ایک دوسرے کی کمر میں ڈال کر باہر نکلا کرتا تھا اور جب دیکھو وقت بے وقت مباشرت کرتا رہتا تھا۔ آج دونوں کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھ جانے سے بھی پریشانی ہونے لگتی تھی اور شاید ایک دوسرے کے وجود سے ہی چڑ سی محسوس ہوتی تھی۔ اتنی زیادہ جسمانی خواہش اور شہوت کے باوجود ممکن ہے کہ صرف اس لیےکہ فی الحال وہاں نہ محبت تھی نہ خواہش۔ ویسے بھی محبت ہمیشہ نہیں ہوتی۔ وہ آتی جاتی رہتی ہے۔ آخر محبت کوئی آوارہ مکھی تو نہیں کہ گندگی کی پوٹلیاں بنے ہوئے دونوں کے جسموں پر آکر بیٹھ جاتی اور بدنیتی کے ساتھ انھیں چاٹنے لگتی۔
تمھاری چھاتیاں کتنی لٹکی ہوئی اور ڈھیلی ڈھالی ہیں۔ تم نے اپنی عمر غلط لکھوائی ہے۔ تم مجھ سے عمر میں بڑی ہو۔ شوہر نے مرد میں تبدیل ہوتے ہوئے غصے کے ساتھ کہا۔ وہ رونے لگی۔ تمہیں رونے کے علاوہ کچھ اور بھی آتا ہے۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ یا پھر اگر تمھاری عمر وہی ہے جو تمھاری ماں نے بتائی تھی تو تم شادی سے پہلے کی کھائی کھیلی ہوئی ہو۔ مرد کے لہجے کا زہر آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ جس طرح جسم میں کوئی خطرناک بخار آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ وہ بھونچکی ہوکر اُسے دیکھنے لگی ہے۔ دیکھ کیا رہی ہو، مجھے تو شادی کی پہلی رات میں ہی شک ہو گیا تھا مگر میں نے دل کو سمجھا لیا۔ خیر رونا بند کرو۔ دیکھو تمھارے اندر سے کیسی بدبو آرہی ہے اور یہ کانوں میں بُندے کیوں نہیں ڈالے۔ تمھارے زیور کہاں گئے؟ کیا بیچ کر کھا گئیں؟ چلو بُندے ڈالو کان میں۔ مرد سرد مہری کے ساتھ کہتا ہے۔ کیوں مذاق کررہے ہیں۔ وہ سسکیاں لیتی ہوئی کہتی ہے۔ اچھا تو میں مذاق کررہا ہوں، اداکاری کرکے تمھیں رِجھا رہا ہوں۔ مرد چلاتا ہے۔ واقعی وہ اداکاری نہیں کررہا ہے کیونکہ ایک اداکار کے لیے سب سے مشکل کام اپنے اندرونی جذبات اور تاثرات کے اظہار کو کامیابی کے ساتھ چھپا لینا ہے مگرمرد کے چہرے پراُس کے اپنےاصل نجی تاثرات کے علاوہ اداکاری کی ہلکی سی پرت بھی نہیں ہے۔ یہ سخت نفرت اور غصے سے پاگل ہوتا ہوا ایک نابیدہ چہرہ ہے۔ مرداُٹھتا ہے اور سامنے سنگھار میز پر رکھی ہوئی ایک سرخ ڈبیہ اُٹھاتا ہے۔ ڈبیہ میں سونے کے چمکتے ہوئے دو خوبصورت بُندے ہیں، وہ بُندے نکال کر اُس کے پاس آتا ہے۔ پہنو۔ ڈالوں کان میں۔ اچھا نہیں ڈالو گی۔ وہ پیچھے کی طرف سرک رہی ہے، اُس کا سر دیوار سے جا لگا ہے۔ مرد ایک ہاتھ سے اُس کی گردن تھام لیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اُس کے چھِدے ہوئے کان میں بُندہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نہیں مانتی تو مرد دوسرے ہاتھ سے اُس کے کان کی لَو پکڑ کر پوری طاقت کے ساتھ کھینچتا ہے۔ اور کان کی لَو میں بنے ہوئے ننھے سے سوراخ میں بُندے کا کانٹا پیوست کردیتا ہے۔ اُس کے منھ سے ایک دردناک چیخ برآمد ہوتی ہے۔ سختی اور بے احتیاطی کے ساتھ ڈالے گئے بُندے کے کانٹے نے اُس کے کان کی لَو کو زخمی کردیا ہے۔ وہاں سے تازہ تازہ خون رِس رہا ہے۔ ایک ایسا خون جس میں لال رنگ کم ہے اور پیلا زیادہ۔ وہ روئے جا رہی ہے، کچھ تکلیف کے آنسو ہیں، کچھ صدمے کے مگردونوں آنسوؤں کا رنگ یکسر ایک ہے۔ مرد کے ہاتھ سے دوسرا بُندہ کہیں پھسل کرگرگیا ہے۔ وہ کچھ دیر اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ بُندہ نہیں ملتا ہے۔ وہ پھر آکر اُس کے قریب کھڑا ہوگیا ہے۔ شادی سے پہلے تم کون سے بیوٹی پارلر جایا کرتی تھیں؟ میں کبھی نہیں گئی، شادی والے دن دُلہن بنانے کے لیے آئی تھی گھرپر ایک پارلر والی۔ اوہ اچھا! تم تو شادی کے بعد روز میک اپ کرتی تھیں، لپ اسٹک لگاتی تھیں۔ خوب سجتی سنورتی تھیں، مجھے رِجھانے کے لیے۔ وہ کیا تھا۔ کیا اب میں مرگیا ہوں، تم بیوہ ہو گئی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتی۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔ حلق سوکھ گیا ہے۔ وہ پھر زور زور سے رونے لگی ہے۔ اُس کے ایک کان میں بُندہ لگ رہا ہے، جس پر خون جمتا جاتا ہے۔ دوسرا کان خالی ہے۔ یہ دونوں کان اچانک ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن گئے ہیں۔ جیسے خدا نے اُنہیں ایک چہرے پر نہیں بنایا تھا۔ یہ جڑواں کان نہ تھے۔ یہ بچھڑ کراِدھر اس چہرے پر غلطی سے آکر چسپاں ہو گئے تھے۔
رات بڑھ رہی ہے اور مرد کی دیوانگی بھی۔ وہ اُسی طرح کھڑا ہو اُسے گھورے جارہا ہے تو اب تمھارا کیا فرض ہے؟ میں تمھارا مجازی خدا۔ نہا دھوکر آؤ۔ اچھا پانی نہیں ہے۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ پانی نہیں ہے تو پھر میک اَپ کرو۔ سنگھار کرو۔ پہلے خوب سجو اورپھر میرے ساتھ سوؤ۔ کھچڑی داڑھی میں پوشیدہ مرد کے گال پتہ نہیں کیوں بار بار پھولنے اور پچکنے لگے ہیں۔ دور کسی کلاک ٹاور نے رات کے بارہ بجائے ہیں۔
ٹھیک ہے تم نہیں مانو گی۔ میں لے کرآتا ہوں تمھار بیوٹی بکس۔ میں سجاؤں گا تمھیں۔ مرد دوڑتا ہوا دوسرے کمرے میں گیا ہے۔ اوراُس کا بیوٹی بکس اُٹھا کر لے آیا ہے۔ دیکھو تمہارے چہرے پر پانی کی وجہ سے کتنی لکیریں ہیں۔ کتنی جھریاں نمایاں ہو رہی ہیں۔ یہ ڈی ہائیڈ ریڈشن ہے۔ یہ نابیدہ چہرہ نئی نئی دُلہن پر کتنا گندا لگتا ہے۔ اور کتنا زرد ہو رہا ہے۔ کیا سارا خون ضائع کردیا یا تمھیں یرقان ہوگیا ہے۔ چلو لگاؤ یہ۔ مرد کے ہاتھ میں کوئی شیشی ہے، وہ روتی ہوئی فرش پر لڑھک جاتی ہے۔ میں ہاتھ پیر باندھ دوں گا تمہارے۔ یہ روٹھی ہوئی رنڈی جیسے نخرے مت کر۔ ایسا چہرہ بھیانک ہے۔ شادی شدہ عورت کا ایسا بنجر چہرہ خدا کو بھی پسند نہیں۔ مرد غرا کر کہتا ہے۔ اوراُس کے سینے پر سوار ہوکر گالوں پر زبردستی بلش لگا دیتا ہے۔ لے لگا کُتیا، لگا۔ اپنی سخت کھردری انگلیوں سے وہ اُس کی پلکوں پر مسکا لگاتا ہے۔ چہرے پر فاؤنڈیشن مَلتا ہے اورپھراُس پر سفید پاؤڈر ڈال دیتا ہے۔ وہ ایذا پسندی کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ اپنی موٹی اور بے رحم اُنگلی سے وہ اُس کی روتی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں کاجل پوت دیتا ہے۔ وہ اب رو نہیں سکتی۔ کاجل کی سیاہی سے اُس کی آنکھیں مچ گئی ہیں۔ وہ اب صرف چیخ رہی ہے اور فرش پر پڑی پڑی اپنی ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔ ایڑیاں جن میں پانی کے فقدان کے سبب دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مردا پنا ایک ہاتھ اُس کی گردن پر اس طرح رکھتا ہے جیسے گلا گھونٹ دے گاپھر دوسرے ہاتھ سے اُس کے معصوم ہونٹوں پر بہت تیز سرخ رنگ کی لپ اسٹک پوت دیتا ہے۔ اب اچھا لگانا۔ یہ لے پرفیوم لے۔ بدبو آرہی ہے تجھ میں سے۔ وہ عورت کے میلے کپڑوں اور گندے جسم پر عطر کی پوری شیشی خالی کردیتا ہے۔ گھر میں پہلے سے پھیلی ہوئی بدبو عطر کی خوشبو کے ساتھ مل کر اور بھی ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے جیسے شیطان اور فرشتے۔ کسی گہری سازش کے تحت دنیا کو نیست و نابود کردینے کے درپے ہو گئے ہوں۔ دلہن سج گئی۔ مرد بڑبڑاتا ہے اوراُس سے دور جاکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اُس نے آنکھیں کھول لی ہیں اور چھت کو دیکھے جارہی ہے۔ آنکھوں پراتنا کاجل لگا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اُس نے آنکھوں پر کالی پٹی باندھ رکھی ہو۔ شاید اُس کی آنکھیں بند ہیں۔ نہیں کھلی ہیں۔ اُسے محسوس ہوتا ہے جیسا ہزاروں کی تعداد میں چیونٹیاں آکر اُس کے چہرے پر چمٹ گئی ہیں۔ وہاں ایک خوفناک جلن پڑتی جا رہی ہے۔ اور ایک بھیانک خارش۔ کمرے کی کھڑکی پر اُلّو آکر بیٹھ گیا ہے اور اپنی گول گول پیلی آنکھوں سے نہ جانے کس شے کو گھورے جارہا ہے۔ مرد دیوار کی طرف منھ کرکے کھڑا ہو گیا ہے۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے منھ کو چھپا لیا ہے اور بے اختیار رونا شروع کردیا ہے۔ اُسے پیچھے سے دیکھ کر لگتا ہے جیسے کسی زلزلے کی وجہ سے کوئی قد آدم پتھر اچانک ہلنے لگتا ہے۔ فرش پر پڑی ہوئی عورت کا چہرہ جو اَب سرکس کے کسی گھٹیا جو کر سے مشابہہ ہے یا کسی سڑک چھاپ ہجڑے سے، کندھوں سے تھوڑا اوپر اُٹھتا ہے پھر نیچے ڈھلک جاتا ہے۔ اُس کے منھ سے پہلے ایک ہچکی کی سی آواز نکلتی ہے۔ پھر وہ زور زور سے ہنسنے لگتی ہے۔ اُس کی آنکھوں اور جسم میں پوشیدہ آنسوؤں کا سیلاب خشک ہو چکا ہے۔ یہ ہنسی کچھ ایسی محسوس ہوتی ہے جیسے کسی برتن کو، اُس سے بھی زیادہ وزنی دھات کے برتن سے کوٹا جا رہا ہو۔ ایک ایسی آواز جسے زیادہ دیر تک سننے کے بعد کسی کو دل کا دورہ پڑسکتا ہے۔
آدمی کے وجود میں وہ کون سا تیزاب پوشیدہ رہتا ہے جو اُس کے ہر نیک اور عظیم جذبے کو جلا ڈالتا ہے۔ ہم نئے نئے دائرے بناتے ہیں، پھر خود ہی اُن میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک نیا دائرہ ہے جس میں قید ہو جانے کے بعد اتنی گندی مایوسی میں اگر کچھ بہتر سوچا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ اگرمحبت نہیں ہے تواِس اجنبی، غلیظ اور خوفناک دنیا میں خدا بھی نہیں ہے کیونکہ خدا محبت کا دوسرا نام ہے۔ انسانوں کا، محبت کا لمس چاہیے۔ اُن کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے خدا چاہیے۔ ورنہ یہ وہ مایوس کن صورتِ حال ہے جس میں آدمی خدا پر بھی یقین کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ شاید یہ ایک خواب ہے جسے انسانوں نے مرنے سے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا اوروہ اُن کے تحت الشعور کے کسی ریشے میں پھنسا رہ گیا تھا۔ آج وہی خواب بھٹک کر یہاں آگیا ہے۔ اُسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ خواب ہی اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ ہمیں اس کے مآخذ کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خوابوں کے ماخذ، خوابوں سے بھی زیادہ گندے اور سیاہ ہوتے ہیں۔ آدھی رات میں باہر پھیلی ہوئی زرد دُھند میں نہ جانے کہاں سے جھنڈ بنا کر جنگلی لومڑیاں چلی آئی ہیں۔ پاگل کتے سہمی ہوئی اور خوف کھاتی ہوئی آوازیں نکال کر اُن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ رُک جاتے ہیں کیونکہ جنگلی لومڑیوں کے منھ سے نکلنے والی چیخیں کتوں کی آوازوں سے زیادہ بھیانک ہیں۔ اگر کبھی بارش ہوئی اوراُس میں اتفاق سےدھوپ بھی نکلی ہوئی ہو تو یہ لومڑیاں اپنی شادی رچائیں گی۔ مگرافسوس کہ اس شادی کو دیکھ لینے والا کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک خفیہ شادی ہوگی۔ لومڑیوں کی شادی دیکھنا انسانوں کے لیے منع ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...