ملنگ بابا کے آستانے پر ہمیشہ کی طرح میلہ لگا ہوا تھا۔ بڑے بزرگوں کی مزار پر سالانہ عرس ہوتا۔ سال میں ایک مرتبہ ہفتہ دس دن کے لیے جھولے لگتے ہوٹلیں سجتیں، سیرو تفریح کا سامان ہوتا اور لوگ موج مستی کے لیے جمع ہو جاتے۔ لیکن ملنگ بابا کا معاملہ ان سے مختلف تھا یہاں لوگ اپنے دکھ درد لے کر آتے تھے۔ اس لئے کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملنگ بابا کے آستانے پر ہر شام اژدہام لگ جاتا اور رات گئے تک یہ محفل آباد رہتی۔
دنیا کے سارے دکھیارے ایک قوم ہوتے ہیں۔ اس لیے ملنگ بابا کے دربار میں آنے والوں کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز نہیں تھا۔ کوئی ہندو ہوتا تو کوئی مسلم۔ غم کے مارے سکھ اور عیسائی بھی جب ستائے جاتے تو یہاں حاضر ہو جاتے۔ بچہ، بوڑھا، جوان، مرد، عورت، امیر غریب ہر طرح کے لوگ یہاں دکھائی پڑتے تھے۔ اس لیے کہ گردش ایام کا شکار سبھی تھے۔
اس بھیڑ میں اشوک چندر، بیوی شکنتلا اور بیٹے آکاش چندر کے ساتھ بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ آکاش کی پیدائش کے بعد وہ دونوں پہلی بار یہاں آئے تھے۔ اس لیے کہ اس بیچ انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ کئی مرتبہ اشوک نے شکنتلا سے کہا کہ بابا کے چرنوں میں ایک بار آکاش کو ڈال کر ان کا آشیرواد لے لیا جائے۔
شکنتلا نے ہر بار اس رائے سے اتفاق کیا تھا اور اگلے دن جانے کا فیصلہ بھی کیا مگر وہ کل نہ آیا۔ یہاں تک کہ آکاش پانچ برس کا ہو گیا لیکن اب وہ ایک ایسے سنکٹ میں پھنسے کہ چار و ناچار ملنگ بابا کی سیوا میں حاضر ہونا ہی پڑا۔
وہ لوگ اپنی باری کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہٹو بچو کا شور اٹھا اور زائرین نو واردوں کو راستہ دینے لگے۔ یہ چار پانچ لوگ تھے جنھوں نے ایک نوجوان کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ نوجوان بالکل ہڈی کا پنجر تھا۔ گالوں کے پچکنے سے چہرے کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ آنکھیں ایسی نکلی ہوئی تھیں کہ گویا ابل پڑیں گی۔ داڑھی بڑھی ہوئی بال بکھرے ہوئے۔ اس خستہ حال انسان کی حالت زندہ بدست مردہ کی سی تھی۔ وہ چند لوگ جن میں عورت اور مرد دونوں شامل تھے بھیڑ کو چیرتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ کسی نے ان سے یہ نہیں کہا کہ ان کی باری نہیں ہے۔ سب دکھیارے تھے اس لیے دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے تھے۔
شکنتلا نے پوچھا۔ یہ کیسے دیوانے ہیں انہیں تو چاہئے تھا کہ اُسے کسی اسپتال میں لے جاتے۔ وہ یہاں لے آئے۔
اشوک نے کہا۔ اری پگلی یہ لوگ اسے کسی اسپتال ہی سے لا رہے ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ اسے دوبارہ وہیں لے جائیں۔ در اصل ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہو گا لیکن دل کہاں مانتا ہے۔ ملنگ بابا کا دربار امید کا ایسا دیا ہے جو کبھی نہیں بجھتا۔ مصیبت کے مارے جب اندھیروں سے گھبراتے ہیں تو یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
لیکن اب یہاں آنے سے کیا فائدہ؟ شکنتلا بولی۔
اشوک نے جواب دیا۔ یہ دنیا محض دوکانداری نہیں ہے جہاں صرف فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کاروبار چلتا ہو۔ یہاں تو بغیر کسی فائدے کے نقصان اٹھا کر بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے۔
اشوک اور شکنتلا کی بات چل رہی تھی کہ وہ لوگ واپس ہونے لگے۔ نوجوان کی جسمانی حالت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک چمک ضرور پیدا ہو گئی تھی۔ زندگی کی رمق۔ ساتھ والوں میں سے بیشتر کی آنکھیں ہنوز پرنم تھیں لیکن کچھ ایک کے چہرے پر تبسم بھی تھا۔
ارے یہ کیا؟ شکنتلا نے حیرت سے پوچھا؟
اشوک بولا۔ یہ چمتکار ہے۔ اسی کے لیے لوگ یہاں آتے ہیں۔ میں بھی ایک مرتبہ اسی طرح یہاں لایا گیا تھا اور تم جانتی ہو ملنگ بابا نے مجھ سے کیا کہا تھا؟
شکنتلا نے کہا۔ میں کیسے جان سکتی ہوں۔ نہ میں تمہارے ساتھ تھی اور نہ تم نے مجھے بتانے کی زحمت کی۔
ہاں میں نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مجھے آج بھی ان کے الفاظ حرف بہ حرف یاد ہیں۔ انہوں نے کہا تھا بیٹے اشوک موت اور اس کا وقت طے ہے نہ وہ اپنے وقت سے پہلے آئے گی اور نہ اس کی گھڑی ٹلے گی۔ اس لیے موت کا خوف اپنے دل سے نکال دو۔ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ موت سے ڈر کر جینے والا زندہ لاش ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ نے میرا علاج کر دیا اور میں صحت یاب ہو گیا۔
لیکن تمہیں ہوا کیا تھا؟ شکنتلا نے حیرت و استعجاب سے پوچھا۔
بہت پرانی بات ہے۔ اشوک بولا۔ اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میں اچانک بیمار ہوا۔ بخار ایسا کہ آلۂ تپش ٹوٹ جائے ہر طرح کے علاج کے بعد بھی بخار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اچانک میں بے ہوش ہو گیا اور میں نے ایک نہایت بھیانک خواب دیکھا۔
میں نے دیکھا کہ میرے بدن سے میری آتما باہر آ گئی ہے اور وہ میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ میرے عزیز و اقارب میرے آس پاس دہاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ وہ میری آنکھیں بند کرتے ہیں اور میں انہیں پھر کھول دیتا ہوں۔ وہ پھر انہیں بند کرتے ہیں لیکن میں اپنی آتما کو دیکھنا چاہتا ہوں اور پھر اسے کھول دیتا ہوں۔ وہ گھبرا جاتے ہیں اور ہمت کر کے پھر پلکوں کو گرا دیتے ہیں۔
اب میں چیخنے لگتا ہوں۔ تم لوگ میری آنکھیں کیوں بند کر رہے ہو؟ یہ دیکھو میری آتما میرے سامنے کھڑی ہے۔ میں مرا نہیں ہوں۔
تمام اعزہ و اقارب خوف سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے۔
اس کا کریا کرم ترنت کرو اس کے بھیتر کوئی پریت آتما سما گئی ہے۔
یہ سن کر میرا پارہ چڑھ جاتا ہے اور میں زور زور سے چیخنے لگتا ہوں۔ کیا بکتے ہو؟ کیسی پریت آتما؟ کسی اور کی نہیں یہ تو میری اپنی آتما ہے۔ دیکھو یہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔
یہ سن کر وہ ایک کرم کانڈ کے ماہر کو بلا لاتے ہیں۔ وہ پجاری اس آتما کو بھگانے کے لیے الٹے سیدھے منتر پڑھنے لگتا ہے۔ قریب میں ایک بڑا سا ہون روشن کر دیا جاتا ہے۔
میں اپنے رشتے داروں سے کہتا ہوں اس پاگل کو یہاں سے لے جاؤ۔ یہ میری آتما کو مجھ سے دور کرنا چاہتا ہے۔ یہ میرا دشمن ہے لیکن میری بات کوئی نہیں سنتا۔ وہ لوگ میری ار تھی لے آتے ہیں۔ مجھے اس سے باندھ دیا جاتا ہے اور میری انت یاترا شمسان گھاٹ کی جانب چل پڑتی ہے۔
میں زور زور سے چلّانے لگتا ہوں۔ آپ لوگ مجھے کہاں لیے جا رہے ہیں۔ میں مرا نہیں ہوں میں زندہ ہوں۔
وہ لوگ مجھے لکڑیوں کے ڈھیر پر لٹا دیتے ہیں اور پھر لکڑیوں سے مجھے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ میرا باپ جیسے ہی اس ڈھیر کو آگ لگانے کی خاطر آگے بڑھتا ہے میں زور زور سے چلّانے لگتا ہوں۔ میں مرا نہیں ہوں۔ آپ لوگ مجھے کیوں جلا رہے ہیں؟ آپ لوگ مجھے کیوں مارنا چاہتے ہیں۔ میں مرنا نہیں چاہتا میں مرنا نہیں چاہتا۔ اسی چیخ و پکار میں میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں اپنے آپ کو ملنگ بابا کے آستانے پر پاتا ہوں۔
میں دیکھتا ہوں کہ میرے وہ عزیز و اقارب جنہیں میں خواب میں اپنی ار تھی کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا میرے آس پاس کھڑے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ میں نے کیا سپنا دیکھا تھا۔ وہ تو بس یہ سمجھ رہے تھے کہ میں بخار کی شدت سے ہذیاں بک رہا ہوں اور میرا آخری وقت قریب آ گیا ہے۔ اس لئے کہ میرے بخار پر ساری دوائیں بے اثر ہو گئیں تھیں اور تمام ڈاکٹر بے بس ہو گئے تھے۔ اسی لئے وہ مجھے ملنگ بابا کے پاس لے آئے تھے۔
جیسے ہی میں نے آنکھ کھولی ملنگ بابا نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا اور کہا تم مرتیو نہیں چاہتے اور ہم بھی نہیں چاہتے کہ تم مرو بلکہ ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔ لیکن بیٹے ہمارے چاہنے اور نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ہم سب کی موت کا وقت طے ہے اوراس وقت ہمیں اپنے پرماتما کے شرن میں جانا ہی ہو گا۔ اس تیتھی کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ موت کو زندگی اسی نے دی ہے جو زندگی کو موت دیتا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ موت کو موت دے گا۔ پرنتو اس دن سے پہلے ہر ہر جیون کو مرتیو کا سواد چکھنا ہی ہو گا۔
ملنگ بابا کا ہر شبد بخار پراکسیر ثابت ہو رہا تھا۔ جب میں لوٹا تو بخار کی کمزوری ضرور باقی تھی لیکن حدت ندارد تھی۔ اشوک کا فسانہ شکنتلا کے لیے ناقابل یقین تھا اس نے بات بدلنے کے لیے کہا۔ وہ دیکھو کرنل گوسوامی بھی اپنی بیوی اور بچہ کے ساتھ آئے ہیں۔ میں ان سے خیریت پوچھ کر آتی ہوں۔
نمسکار بھائی صاحب۔ شکنتلا نے پرنام کیا اور پوچھا۔ آپ لوگ یہاں کیسے؟ سب ٹھیک تو ہے؟
کرنل صاحب بولے۔ ویسے تو سب ٹھیک ہے۔ آج منگیش نے انجینئرنگ کا انٹرنس ٹسٹ دیا ہے ہم نے سوچا چلو بابا کے درشن کر لیں اور ان سے پرارتھنا کرنے کی پرارتھنا کریں۔
کیوں پیپر اچھے نہیں گئے کیا؟ شکنتلا نے جھٹ پوچھا۔
نہیں ایسی بات نہیں۔ مسز گوسوامی بولیں۔ یہ تو کہتا ہے اچھے گئے ہیں لیکن پھر بھی سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کا انجینئرنگ میں داخلہ بہت ضروری ہے ورنہ انرتھ ہو جائے گا۔
کیسا انرتھ؟ شکنتلا نے سوال کیا۔ اگر انجینئر نہ بھی بن سکا تو فوجی بن ہی جائے گا سمسیا کیا ہے؟
مسز گوسوامی بولیں فوجی تو اسے بننا ہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انجینئرنگ کے بعد فوج میں جائے تاکہ خطرہ بھی کم ہو اور تنخواہ بھی زیادہ ملے۔
کیا مطلب؟ شکنتلا نے پوچھا۔ وہ کیسے؟
شکنتلا اور کرنل کی باتیں سنتے ہوئے اشوک ایک مرتبہ پھر ماضی کے دھندلکے میں کھو گیا۔ جب وہ انجینئرنگ میں زبردست کامیابی کے بعد ملازمت کے لیے در در کی خاک چھان رہا تھا۔ بڑے دنوں میں نوکری کی ایک آدھ کال آتی اور اس میں بھی ناکامی و نامرادی ہاتھ لگتی۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوتا چلا گیا کہ اسے لگنے لگا اب وہ زندگی بھر بے روزگار ہی رہے گا۔ ایسے میں اسے ملنگ بابا کی یاد آئی۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کراس نے اپنی مایوسی کی جھولی پھیلا دی۔
ملنگ بابا نے اس کی کتھا سن کر کہا بیٹا اشوک اس دنیا میں کوئی ہمیشہ بے روزگار نہیں رہتا اِلّا یہ کہ وہ خود ایسا چاہے۔ لیکن یاد رکھو سمے سے پہلے اور بھاگیہ سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا ہے اور جب سمے آ جاتا ہے تو کوئی کسی کو اس کے بھاگیہ سے ونچت نہیں کر سکتا۔ بابا نے اسے آشیرواد دیا اور ایک نئے حوصلہ اور امنگ کے ساتھ وہ دوبارہ ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ جلد ہی اسے سرکاری نوکری مل گئی اور اس کی ماں نے اس کے بیاہ کی تیاری شروع کر دی۔
اشوک کلکٹر کے دفتر میں ملازم کیا ہوا کہ اس کی ماں نے اپنے آپ کو کلکٹر کی ماں سمجھنا شروع کر دیا۔ وہ اس کے لیے لڑکی کی تلاش میں اس طرح لگ گئی گویا کلکٹر کے لیے راج کنیا کا سوئمبر ہو رہا ہے۔ کوئی لڑکی اسے جچتی ہی نہ تھی۔ اسی بیچ اس نے شکنتلا کے گھر رشتہ بھیجا مگر اس سے پہلے کہ وہ شکنتلا کو مسترد کرتی شکنتلا کے گھر والوں نے رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اشوک کی ماں کے لیے یہ عظیم صدمہ تھا اس کی انا کو ٹھیس پہنچی اور اب اس نے ٹھان لی کہ ہر قیمت پر شکنتلا ہی کو اپنی بہو بنائے گی۔ لیکن مسئلہ ناک کا تھا۔ وہ لڑکے کی ماں تھی۔ وہ اپنے مقام سے گرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے پریشان ہو کر ملنگ بابا کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔ ملنگ بابا آئے دن اس طرح کے مسائل سنتے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا۔
تمہاری سمسّیا کا ایک ماتر سمادھان یہ ہے کہ تم اس معاملے کو اشوک کے حوالے کر دو وہ شکنتلا کو راضی کر لے گا اور شکنتلا اپنے ماں باپ کو تیار کر لے گی۔ اگر وہ پھر بھی نہ مانے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی؟
ماں بولی۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں یہ اپنے بیٹے سے کیسے کہہ سکتی ہوں؟
اس مسئلہ کا بھی حل ہے۔ اشوک کو میرے پاس بھیج دو میں سمجھا دوں گا۔
اشوک کی ماں خوشی خو شی واپس ہو گئی۔ باباکا اُپائے کارگر ثابت ہوا۔ اشوک بڑی آسانی سے شکنتلا کو شادی کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس کے ماں باپ اپنی بیٹی کی مرضی کے آگے مجبور ہو گئے۔
شادی کے بعد اشوک، شکنتلا اور اس کی ماں سب ملنگ بابا کو بھول گئے لیکن جب تین سال کے بعد بھی اولاد سے محرومی شکنتلا اوراشوک کویہاں لے آئی۔ بابا نے اشوک کو دیکھا تو مسکرائے۔ اشوک تم موت اور زندگی دونوں کو اپنے بس میں کرنا چاہتے ہو۔ تم اپنی اِچھاّ سے مرنا چاہتے ہو اور آکانشہ انوسار اپنے اترآادھیکاری کو جنم دینا چاہتے ہو۔ پرنتو یہ اسمبھو ہے پتر۔ جنم کی تیتھی بھی مرن کے سمے کی بھانتی نردھارت ہے۔ دھیرج رکھو۔ اگر تمہارے کل کو باقی رہنا ہے تو تمہاری سنتان ضرور ہو گی۔
شکنتلا نے کہا۔ لیکن سوامی جی ایسا کب ہو گا؟
بابا نے کہا۔ بیٹی یہ تو میں بھی تمہاری ہی طرح نہیں جانتا۔
شکنتلا بولی۔ لیکن سوامی آپ ہمارے لیے پرارتھنا تو کر سکتے ہیں۔
کیوں نہیں۔ بابا بولے۔ میں ضرور تمہارے لیے پرارتھنا کروں گا۔ ملنگ بابا کی یقین دہانی ایسی پراعتماد تھی کہ شکنتلا کو محسوس ہوا وہ گربھ وتی ہو گئی ہے۔ تین ماہ بعد وہ واقعی حاملہ ہو گئی تھی اور ایک سال کے بعد اس نے آکاش کو جنم دیا۔
اس بات کو پانچ سال کا طویل عرصہ گذر گیا۔ اس بیچ ان لوگوں نے کئی مرتبہ ملنگ بابا سے ملنے کا ارادہ کیا لیکن کبھی اسے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ کسی نہ کسی بہانے ٹالتے رہے لیکن اب جب کہ انہیں ایسا لگا گویا آکاش باؤلا ہو گیا ہے وہ بے اختیار ملنگ بابا کے دربار میں حاضر ہو گئے۔
آکاش کا مسئلہ بڑا گمبھیر تھا۔ اس نے ایک مرتبہ آسمان میں ایک ہوائی جہاز دیکھا اور اپنی بچپن کی جگیا سا(تجسسّ) میں پوچھا۔ پاپا وہ کیا ہے؟
اشوک نے کہا بیٹے وہ ہوائی جہاز ہے۔
اچھا۔ ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟
اشوک نے جھنجھلا کر کہا۔ اپنی ممی سے پوچھو۔
آکاش نے جھٹ شکنتلا سے پوچھا۔ ممی یہ ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟
شکنتلا بولی۔ بیٹے یہ سواری ہوتی ہے جو ہوا میں اُڑتی ہے۔ لوگ اس میں بیٹھ کر آسمان کی سیر کرتے ہیں۔
آکاش نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں نئی چمک آئی۔ اس نے کہا۔ اچھا ایسا ہے تو مجھے بھی ہوائی جہاز چاہئے۔ میں بھی ہوا میں تیروں گا۔
شکنتلا پریشان ہو گئی۔ اس لیے کہ آکاش نے ضد پکڑ لی تھی۔ اس نے اشوک سے پوچھا۔ کیا کیا جائے؟
اشوک نے کہا۔ اس میں کیا مشکل ہے شام میں اسے بازار لے جائیں گے اور ہوائی جہاز نما غبارہ دلا دیں گے۔ بچہ ہے بہل جائے گا۔
شکنتلا خوش ہو گئی اور بولی۔ بھئی انجینئر صاحب کا دماغ! ماننا پڑے گا۔
اشوک بولا۔ زہے نصیب۔
شام میں وہ لوگ بازار گئے اور ہوائی جہاز نما غبارہ آکاش کو دلا دیا۔ آکاش اسے لے کر بہت خوش ہوا۔ لیکن اس کی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ اس کھلونے کو تھوڑی دیر الٹنے پلٹنے کے بعد اس نے کہا ممی اب میں اس میں بیٹھوں گا اور آکاش کی سیر کروں گا۔
شکنتلا ہنسی اور کہا۔ ٹھیک ہے بیٹے اب یہ تمہارا وِمان ہے تم جو چاہو کرو۔
شکنتلا نے تو مذاق کیا لیکن آکاش سنجیدہ تھا اس نے کہا۔ ممی مجھے اس میں بٹھاؤ میں نے آسمان کی سیر کرنا ہے۔
شکنتلا آکاش کے اصرار سے گھبرا گئی۔ اب تک وہ لوگ گھر آ چکے تھے۔ شکنتلا نے آکاش کو بہلایا پھسلایا۔ مٹھائی کھلائی، کہانی سنائی، لاکھ جتن کئے لیکن آکاش مان کر نہیں دیتا تھا۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد بضد ہو جاتا۔ مجھے اس میں بٹھاؤ میں آکاش کی سیر کروں گا۔ شکنتلا اور اشوک دونوں پریشان ہو گئے۔
آکاش نے کھیل کود بند کر دیا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ وہ بس اپنے ہوائی جہاز کو سینے سے لگائے رہتا اور یہی بات دوہرائے جاتا۔ مجھے اپنے جہاز میں بٹھاؤ میں نے آسمان کی سیر کرنی ہے۔ یہ سنتے سنتے اشوک کے کان پک گئے۔ اس نے غصہ سے اس غبارہ نما کھلونے کی ہوا نکال دی۔ اب وہ پچک گیا۔
یہ دیکھتے ہی آکاش دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میرا جہاز میرا ہوائی جہاز۔ پاپا آپ نے اسے کیا کیا؟ مجھے اپنا جہاز چاہئے۔ مجھے میرا جہاز دے دو۔ اب ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اشوک نے غصہ میں آ کر آکاش کے ایک تھپڑ جڑ دیا۔
اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر شکنتلا مچل گئی۔ وہ اشوک سے لڑ پڑی۔ آپ نے بچہ کو کیوں مارا؟ آخر بچہ ہے۔ وہ ضد نہ کرے گا تو کیا آپ کریں گے؟ اگر آپ اسے بہلا نہیں سکتے تو چھوڑ دیجئے لیکن اپنا ہاتھ نہ چھوڑئیے۔ آکاش کے آنسو پوچھتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔ آکاش رو رو کر یہی کہتا جاتا تھا۔ میرا ہوائی جہاز مجھے چاہئے میرا ہوئی جہاز۔
شکنتلا نے کہا۔ بیٹے رو مت میرے بیٹے میں تجھے تیرا ہوائی جہاز دیتی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے غبارے میں ہوا بھرنی شروع کی جیسے جیسے وہ پھولتا جاتا تھا آکاش کے چہرے پر مسکان پھیلتی جاتی تھی۔ وہ خوشی سے تالی بجانے لگا اور اپنی ماں کے ہاتھ سے کھلونا لے کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ دیر تک وہ اسے اپنے سے چمٹائے رہا۔ خوش ہوتا رہا اور کھیلتا رہا۔ اشوک اور شکنتلا بھی خوش تھے کہ آکاش بہل گیا لیکن ان کی خوشی کا غبارہ جلد ہی پچک گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آکاش کو آسمان میں اُڑنے کا خیال آیا اور اس نے پھر ضد شروع کر دی۔
وہی پرانی کہانی پھر دوہرائی گئی۔ کھلونے کا پھولنا پچکنا اب معمول بن گیا تھا۔ جب آکاش کی ضد آکاش کو چھونے لگتی تو اس کے ماں باپ کھلونے کی ہوا نکال دیتے جب وہ زار و قطار رونے لگتا تو وہ اس میں ہوا بھر دیتے۔ اس سے وہ کچھ دیر کے لیے بہل جاتا لیکن پھر وہی ضد اور پھر وہی سب کچھ۔ آکاش کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس کی صحت متاثر ہو رہی تھی۔ اشوک اور شکنتلا اپنے اکلوتے بیٹے کی اس کیفیت سے فکر مند تھے کہ اچانک شکنتلا کو ملنگ بابا کا خیال آیا اور اشوک کو تاخیر کے لیے اپنے آپ پر غصہ آیا۔
ملنگ بابا کو اپنے بیٹے کے حالات بتانے کے بعد اشوک بولا۔ بابا میں تو اسے سمجھا نہ سکا۔ اب آپ ہی اسے سمجھائیں۔
آکاش کے بارے میں سن کر بابا نے اشوک سے کہا۔ تم اسے کس طرح سمجھا سکتے تھے جب کہ تم خود ابھی تک اس بات کو سمجھے نہیں ہو۔
بابا کے اس رد عمل سے اشوک چونک پڑا اس نے کہا۔ آپ کیسی بات کرتے ہیں گرو دیو۔ کیا آکاش میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے؟
بابا بولے۔ جی ہاں میں تو یہی سمجھتا ہوں اس لئے کہ بچپن سے تمھیں جانتا ہوں۔ یہ سنسار اس کھلونے کی طرح کھیلنے کی چیز ہے۔ مایا ہے بس مایا اس کی واستوکتا(حقیقت) یہی ہے۔ تم نے بھی اسے سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور اس میں بیٹھ کر پرلوک کی سیر کرنا چاہتے ہو پرنتو یہ اسمبھو ہے۔
جب تمہاری ضد بہت بڑھ جاتی ہے تو اس کی ہوا نکال دی جاتی اور تم مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہو لیکن پھر اس میں ہوا بھرنے لگتی ہے تو تم بھی پھولے نہیں سماتے۔ عارضی طور پر ہوا کا بھرنا تمہیں مسرور کر دیتا ہے لیکن پھر جب تم اس کے ذریعہ سے سورگ کا آنند پراپت کرنے کی ضد پکڑتے ہو تو اداس ہو جاتے ہو کیونکہ تمہاری ہٹ دھرمی کے باعث اس کی ہوا پھر سے نکال دی جاتی ہے۔
اشوک نے پو چھا لیکن میرے ساتھ یہ کھیل کیوں کھیلا جاتا ہے؟
بابا بولے تمہاری اداسی کو دور کرنے کی خاطر اس میں ہوا بھری جاتی ہے۔ اسی کارن تمہارے لئے جیون سکھد(خوش کن) ہو جاتا ہے۔ کچھ شنوں (لمحوں) کے لیے تم آنند مے ہو جاتے ہو اور اکثر اداس رہتے ہو۔ تم نے مایا روپی اس لوک کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور اس کے ذریعہ پرلوک کا سنتوش پراپت کرنا چاہتے ہو جو ایسا ہی ہے جیسے کھلونے سے بچہ کا آسمان کی سیر کرنے کی خواہش کرنا۔
اشوک نے کہا۔ آپ نے درست فرمایا۔ لیکن پھر مجھے کیا کرنا چاہئے؟
تم اس لوک اور پرلوک میں فرق کرو۔ اس لوک سے کھیلو لیکن اسے اپنے جیون کا ادیشہ نہ بناؤ۔ اگر تم نے ایسانہ کیا تو آکاش کی طرح روتے رہو گے۔ جیون کا ادیشہ تو پرلوک کی موکش ہے وہی اصلی واہن ہے جس میں بیٹھ کر منوشیہ اپنے جیون کو سپھل بنا سکتا ہے۔
میں سمجھ گیا سوامی جی لیکن اب آکاش کا کیا کیا جائے؟
آکاش کے لیے غبارے میں بہت زیادہ ہوا بھر کے اسے پھوڑ دو۔
اس سے کیا ہو گا؟ وہ اور روئے گا۔ اشوک بولا
ہاں روئے گا تو ضرور لیکن اسی کے ساتھ غبارہ کی اصلیت بھی یہ جان جائے گا؟ اسے پتہ چل جائے گا کہ یہ پھٹ تو سکتا ہے لیکن اڑ نہیں سکتا۔
شکنتلا جو بڑی دیر سے خاموش تھی اچانک بول پڑی اور اس کے بعد؟
بابا مسکرا کر بولے پہلا غبارہ جب پھوٹ جائے تو اس کے بعد آکاش کو دوسرا غبارے والا ہوائی جہاز دلا دینا۔ اب وہ اس سے اُڑنے کی ضد نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ وہ جان چکا ہو گا اس طرح کی ضد کے نتیجہ میں غبارہ پھٹ جاتا ہے۔ اب وہ اس سے کھیلے گا اور خوش رہے گا۔
آکاش نے شکنتلا کی جانب اشارہ کر کے کہا یہ دھیان گیان کی باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آئیں گی لیکن میں سمجھ گیا۔ اب میں یہی کروں گا۔
شکنتلا بگڑ کر بولی تم چپ رہو جی۔
بابا پھر مسکرائے اور بولے تم دونوں کان کھول کر سن لو۔ اس سنسار میں انسان کی خوشی یا ناراضگی اس کی اپنی توقعات پر منحصر ہوتی ہیں۔ جب کوئی کسی چیز سے بے جا توقع وابستہ کر لیتا ہے تو وہ شئے نہیں بلکہ اس سے وابستہ توقع اسے غم زدہ کر دیتی ہے۔ اس لیے اگر تم دونوں اپنے آکاش کے ساتھ خوش رہنا چاہتے ہو تو سنسار اور غبارے سے ان کے حسبِ استطاعت اپیکشا (توقع)کرو ورنہ سدا غمگین رہو گے۔
٭٭٭