وہ ساتھ لڑکی کون تھی۔۔ واپسی پہ روشم مسلسل بے جی کی باتیں سوچ رہی تھی جب ابان کی آواز پہ چونکی۔۔
کونسی لڑکی۔۔
وہی جو بلی آنکھوں والی تھی۔۔ جس نے مجھے دیکھتے ہی پردہ کر لیا تھا۔۔ ابان کے ذہن پہ تب سے عکس جھلملا رہا تھا۔۔ اس لیے روشم سے پوچھ بیٹھا۔۔
آہاں۔۔ وہ۔۔ وہ تو ندرت بھابھی ہیں۔۔ پردے والے سین کا تو نہیں پتہ تھا اسے لیکن بلی آنکھوں والی سے اس نے گیس کیا۔۔
ویسے آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔ بات سے ذیادہ ان کے لہجے سے وہ ٹھٹھکی جس میں پسندیدگی کا عنصر شامل تھا۔۔
بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔ روشم کی ذو معنی بات کو سہ سمجھ گیا تھا اس لیے فورا اپنے لہجے کو نارمل کیا۔۔
مجھے ایسے ہی کچھ لگ نہیں رہا۔۔ لگتا کچھ کالا ہے۔۔ ایک پل کو وہ اپنی ٹینشن بھول گئی۔۔ اس بات پہ اسے واقعی بہت خوشی ہوئی تھی۔۔
اروشم کی بات پہ وہ بولا تو کچھ نہیں تھا لیکن اس کے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ اس کے دل کی بات بیان کر رہی تھی۔۔
دو ماہ بعد
سرکار کچھ کریں نہیں تو وہ روئوف چوہدری میری زمینیں ہڑپ کر جائے گا۔۔ میں غریب بندہ ہوں۔۔ میری تو روزی روٹی کا ذریعہ ہی ان زمینوں پہ اگنے والا اناج ہے۔۔
شیدا ہاتھ جوڑے عرش میر کے سامنے کھڑا تھا۔۔ بائو جی کے بعد اس کو ہی تو اپنے علاقے کے لوگوں کا خیر خواہ بننا تھا اور وہ بنا بھی۔۔
کتنی بار بولا ہے شیدے یہ ہاتھ مت جوڑا کرو۔۔ تم لوگوں کے کام آنا میرا فرض ہے۔۔ اور دوسری بات تم پریشان مت ہو مجھے تمہاری زمینیں بچانے کے لیے جو کرنا پڑا کروں گا تم فکر مت کرو۔۔
اس کے کندھے کو تھتھپا کر اس نے سے حوصلہ دیا۔۔
کرم دین۔۔ کوئی اور سائل تو نہیں ہے؟؟۔۔ شیدے کے جانے کے بعد اس نے پاس کھڑے کرم دین کو بلوا کر پوچھا۔۔
نہیں سرکار۔۔ ابھی کوئی اور نہیں ہے۔۔ نظریں جھکائے وہ ہاتھ باندھے مئودبانہ انداز میں بولا۔۔
ٹھیک ہے پھر میں گھر جا رہا ہوں۔۔ کوئی آئے تو بتا دینا مجھے۔۔ آنکھوں پہ گلاسز لگا کر وہ اپنی جیپ پہ بیٹھا اور گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا۔۔
***
بند کر دیا دروازہ؟؟ ندرت بائو جی کو کھانا دے کر آئی تو بے جی نے پوچھا۔۔ وڈی اماں کی ڈیتھ کو ڈیڑھ ماہ ہو چکا تھا۔۔ اور تب سے ہی بائو جی کی ذہنہ حاکت ٹھیک نہیں تھی ۔۔
ان کی موت سے پہلے وہ بلکل چپ ہو گئے تھے روز وڈی اماں کے پاس جاتے تھے پر وڈی اماں ان کو معاف کرنا تو درکنار ان کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں۔۔
اور بائو جی کے لیے یہی صدمہ کافی تھا کہ ان کی ماں ان سے ناراض ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔۔ پہلے تو وہ زور زور سے چلاتے تھے۔۔ پھر آہستہ آہستہ چیزوں کی توڑ پھوڑ کرنا بھی شروع کر دی۔۔
اب تو یہ حال تھا کہ ان کو کمرے تک ہی محدود رکھا تھا ورنہ وہ باہر آ کر بلکل دیوانوں کی طرح کوئی بھی نقصان کر گزرتے تھے۔۔ابھی ایک ماہ پہلے ہی انہوں نے ندرت کو جو کہ انہیں کھانا دینے گئی تھی اس پہ گلاس اٹھا کر مارا تھا وہ تو خوش قسمتی تھی کہ وہ سائڈ پہ ہو گئی اور بچ گئی۔۔
اس کے بعد سے ان کے کمرے کو بند رکھا جاتا تھا اور کھانا بھی ہلکا سا دروازہ کھول کر ہی دیا جاتا۔۔ ڈاکٹرز نے تو کہا تھا کہ انہیں مینٹل ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروائیں پر عرش میر کا ضمیر اس بات کو نہ مانا۔۔
جی بے جی۔۔ دے تو آئی ہوں۔۔ پر یہ دیکھیں۔۔ آج بھی ندرت نے کھانا دینے کے لیے دروازہ کھولا تو بائو جی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچنا چاہا۔۔ وہ فورا باہر آ تو گئی تھی لیکن اس کھینچا تانی میں اس کا ہاتھ سرخ ہو چکا تھا۔۔
آج عرش میر آتا ہے تو بات کرتی ہوں میں۔۔ یہ سب ایسے تو نہیں چلے گا۔۔ اس کا سرخ ہاتھ دیکھ کر وہ ابھی بات کر ہی رہی تھی کہ کمرے سے چیخ وپکار کی آوازیں آنے لگیں۔۔
دروازہ کھولو۔۔ تم لوگ کیسے ایک گدی نشین کو قید کر سکتے ہو۔۔ میں تم سب کو سولی پہ لٹکا دوں گا۔۔ وڈی اماں۔۔ وڈی اماں۔۔ ادھر دیکھیں آپ کے بچے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں یہ۔۔ ایک گدی نشین کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔۔
چیخ و پکار کے ساتھ توڑ پھوڑ کی آوازیں بھی بخوبی آ رہی تھی۔۔ دروازہ اتنی زور سے وہ بجا رہے تھے کہ لگتا تھا ٹوٹ جائے گا۔۔
ندرے سہمی سی بے جی کے ساتھ لگ گئی۔۔ اسی وقت عرش میر اندر آیا۔۔ اسے آتا دیکھ کر بے جی اس کی طرف فورا بڑھی۔۔ چیخ وپکار کی آواز وہ بھی سن سکتا تھا۔۔
مت جائو عرش میر۔۔ وہ ایک نظر ان کو دیکھ کر آگے بڑھنے لگا تھا جب بے جی نے اس کا بازو پکڑ لیا۔۔ انہیں بائو جی کے اس پاگل پن سے ڈر ہی لگتا تھا۔۔
آپ فکر مت کریں بے جی۔۔ میں بس ان کو میڈیسن دینے جا رہا ہوں۔۔ ان کو وہ تسلی دے کر آگے بڑھا ہی تھا کہ بے جی نے اس بازو پھر سے پکڑ لیا۔۔
نہیں پلیز ابھی نہیں جائو۔۔ یہ دیکھو ندرت کے ہاتھ کے ساتھ کیا کیا ہے انہوں نے۔۔ تم ادھر ہی رہو۔۔ ابھی ان کا دورہ ختم ہو گا تو پھر چلے جانا۔۔
اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے اندر نہ بھیجنے پہ بضد تھی اور کیوں نہ ہوتی اب ان کے پاس عرش میر کے علاوہ اور ہے ہی کیا تھا اور بائو جی کو اپنے پاگلے پن کے دوروں میں کسی کی پہچان بھی نہیں رہتی تھی۔۔
اچھا ٹھیک ہے نہیں جاتا۔۔ آپ ادھر بیٹھیں میرے ساتھ۔۔ ندرت بھابھی آپ بھی آ جائیں۔۔ ان کو پیار سے اپنے بازو کے حصار میں لیتا وہ صوفے پہ آیا۔۔ پیچھے ندرت کو بھی بیٹھنے کا کہا۔۔
عرش میر تم کیوں بات نہیں سنتے میری۔۔ کہا بھی ہے ان کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ کروا آئو۔۔ یہاں پہ رہے تو ہم تینوں کی جان کو خطرہ رہے گا۔۔ پاگل پن میں تمہیں پتہ بھی ہے کہ ان کو کتنا جوش آ جاتا ہے۔۔ تم بھی گھر نہیں ہوتے ہو ۔۔ میری اور ندرت کی جان چوبیس گھنٹے سولی پہ لٹکی ہوتی ہے۔۔ کچھ تو رحم کرو ہم پہ۔۔
انہوں نے آج عرش میر سے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔ اس خوف میں ڈیڑھ ماہ سے وہ رہ رہی تھی اب بس ہو گئی تھی ان کی۔۔ گھر میں وہ اکیلی عورتیں ہی تو ہوتی تھیں۔۔
آپ ٹھیک کہہ رہی ہے بے جی پر میں کیا کروں میرا دل نہیں مانتا۔۔ ان کی پریشانی وہ بخوبی سمجھتا تھا لیکن اپنے ضمیر کا کیا کرتا جو کسی طور یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا۔۔
دیکھو میر میں جانتی ہوں تم اپنے بائق جی سے بہت پیار کرتے ہو۔۔لیکن یہ سب ہمارے لیے بہتر ہے۔۔ اور پھر وہاں ان کا بہتر علاج ہو سکے گا۔۔ یہاں تو ان کی حالت مزید بگڑتی جا رہی ہے۔۔
دروازہ پیٹنے کی آواز اب بند ہو چکی تھی اب زور زور سے ہنسنے کی آواز دروازے سے آ رہی تھی اور یہ آوازیں تو اکثر رات کو بھی شروع ہو جاتی ۔۔ بے جی اب اس خوف سے نکلنا چاہتی تھی۔۔
ٹھیک ہے بے جی۔۔ میں کرتا ہوں کچھ۔۔ آپ دونوں پریشان نہ ہو۔۔ ان کا سر اپنے کندھے پہ رکھ کر وہ تھتھپا رہا تھا لیکن دروازے سے آنے والی آوازوں پہ لگا تھا جس میں وہ عفان کو قتل کرنے کا اعتراف بارہا کر چکے تھے۔۔
عرش میر نے ایک نظر اب ندرت کو دیکھا جو سہمی نظروں سے کبھی دروازے کو اور کبھی بے جی کو دیکھتی۔۔ اس کی حالت دیکھ کر عرش میر کو بے پناہ ترس آیا۔۔ اب اسے فیصلے کرنا تھا اپنے گھر والوں کی بھلائی کے لیے اور وہ کر چکا تھا۔۔
***
یہ کون ہے جو ان زمینوں کی مالیت میں آڑے آ رہا ہے فاروق۔۔ اپنے کالے ہاتھوں سے اپنی مونچھوں پہ تائو دیتا روئوف چوہدری اپنے ملازم سے پوچھ رہا تھا۔۔
سرکار ساتھ والے گائوں کا گدی نشین عرش میر خان ہے جو اس شیدے کی سر پرستی کر رہا ہے۔۔ سر جھکائے وہ مئودب بنا رپورٹ دے رہا تھا۔۔
ہمم۔۔ تو اس وجہ سے وہ ایک مکھی کی اوقات رکھنے والا اتنا اچھل رہا ہے۔۔ اسے شیدے کا دیدہ دلیری کا انکار اب سمجھ آیا تھا۔۔
جی سرکار۔۔
تو تم اب تک کیا کر رہے ہو فاروق۔۔ تمہیں نہیں پتہ جو ہمارے راستے میں آتا ہے اس کا مٹا دینا ہمارا اصول ہے۔۔ وہ زمینیں میرے لیے بہت ضروری ہیں۔۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے مجھے جو بھی کرنا پڑا میں کروں گا۔۔
ان زمینوں پہ وہ اپنے لیے شراب خانہ بنانا چاہتا تھا اور ان کی مالیت دینے کو بھی تیار نہ تھا۔۔ ان وڈیروں کا یہی تو حال تھا۔۔
اب سرکار میرے لیے کیا حکم ہے۔۔ فاروق نے چور نگاہوں سے اپنے مالک کا موڈ دیکھا۔۔
ٹھنک دو اس عرش میر خان کو۔۔ اسے حکم دیتا وہ رکا نہیں۔۔ دروازے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔
***
روشم کیا فیصلہ کیا تم نے عرش میر کے بارے میں۔۔ وہ اس وقت لان میں بیٹھی تھی۔۔ جب نمل نے روشم سے پوچھا ۔۔ چار ماہ ہو گئے تھے روشم کو وہاں سے آئے لیکن اب تک اس کی ناں ہی تھی۔۔
آپ جانتی ہیں جواب۔۔ میرا جواب ایک ہی ہے۔۔ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا۔۔ پھر وہی جواب سن کر نمل کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔۔ سب اسے سمجھا چکے تھے لیکن نہیں وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔
تو پھر تم نے ابارٹ کیوں نہیں کروایا بے بی۔۔ کیوں اسے اپنی کوکھ میں اب تک پال رہی ہو۔۔ نمل کو اس کی بات سن کر غصہ ہی تو آ گیا تھا۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں آپی۔۔ کوئی ماں اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر سکتی ہے کیا؟؟۔۔ اس کی بات پہ منہ کھولے حیرےت سے گویا ہوئی اور نمل نے پوائنٹ پکڑ لیا۔۔
یہی تو میں کہہ رہی ہوں ۔۔ تم اسے مار نہیں سکتی پر اسے باپ جیسی چھائوں سے دور رکھ بھی غلط کر رہی ہو روشم۔۔ نمل نے اسے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔۔
پتہ نہیں آپ سب مجھے میرے حال پہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔۔ روشم نے اکتا کر اپنا سر اپنے ہاتھوں میں گرا لیا۔۔ سب ایک ہی بات کر رہے تھے کوئی اسے نہیں سمجھ رہا تھا۔۔
کیونکہ ہم سب تمہارا بھلا چاہتے ہیں روشم۔۔ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ انہوں نے اسے حوصلہ دیا۔۔
بھلا؟؟ کیسا بھلا؟؟ آپ کو پتہ ہے میں جب وہاں جانے کا سوچتی ہوں کسی برے خواب کی طرح وہاں گزرے ڈھائی ماہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔۔ میں اس مینٹل سٹریس میں نہیں رہنا چاہتی۔۔
بات کرتے روشم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ نمل کو اس پہ ٹوٹ کر پیار آیا۔۔
جب تم اپنے بچے کا چہرہ دیکھو گی نا تو دیکھنا تب تمہارے ماضی کی ساری تلخیاں تمہیں اس کے چہرے میں ماند پڑتی نظر آئیں گی۔۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتی وہ پیار سے بولیں۔۔
میں دعا کروں گی تمہارے لہے جو بھی ہو اچھا ہو۔۔ بس تم بھی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی انا کو بیچ میں لانا روشم۔۔ اس کے سر پہ پیار کر کے وہ اسے وہی سوچوں کے بھنور میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔
روشم نے ایک گہرا سانس لے پاس لگے پھولوں کو دیکھا۔۔ اسے وہ بھی خود کی برح اداس لگے تھے۔۔
***
وہ سوئی ہوئی تھی جب اسے اپنے چہرے میں کسی کی نرم انگلیوں کا احساس ہوا۔۔ لیکن اس کا ذہن گھبرایا نہیں تھا کیونکہ اس کے روازنہ کھڑکی کے راستے آنے سے وہ بخوبی واقف تھی۔۔
اور ان انگلیوں کے لمس کو بھی وہ بخوبی پہچانتی تھی۔۔ اس لیے سکون سے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔
اپنے گھر میں آپ کو چین نہیں آتا۔۔ سامنے ہی وہ کروٹ کے بل لیٹا اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اس کی بات پہ مسکرایا۔۔
میری بیوی میرے بچہ ان شارٹ میرا پورا خاندان تو ادھر ہے تو سکون مجھے گھر میں کیسے آئے۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی بیئرڈ پہ رکھا۔۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے مکمل شیو کی تھی ۔۔ ابھی بھی ہلکی بڑھی شیو اس کے چہرے پہ اچھی لگ رہی تھی۔۔
جب وہاں تھی تب بھی سکون نہیں تھا آپ کو۔۔ اس نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا۔۔ پر عرش میر بھلا اسے کھینچنے دے سکتا تھا؟؟۔۔
تمہیں کس نے کہاں جب تم تھی تب سکون نہ تھا۔۔ تب ہی تو سکون تھا۔۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے شعور بعد میں آیا۔۔ پر جب آیا تب میں سے اب تک تمہاری قدر بہت بڑھ گئی ہے میرے لیے۔۔ کہو تو یقین دلائوں؟؟۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نے روشم کو خود سے قریب کیا۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ مجھے آپ کی بات پہ یقین آ گیا ہے۔۔ ابھی دور رہیں مجھ سے۔۔ دو ماہ میں وہ اس کے غصے کے باوجود کوئی نہ کوئی گستاخی کر جاتا تھا۔۔ اس لیے اس کی بات پہ وہ گھبراتے ہوئے وہ دور ہوئی۔۔
ہاہاہا۔۔ میری پیاری بیوی۔۔ اب یہ مان گئی ہو تو گھر جانے والی بات بھی مان جائو۔۔ دور تو وہ جا چکی تھی اسی وجہ سے اب کے اس نے اس کے ہاتھ کو چوم لیا۔۔
مجھے نہیں جانا۔۔ خدارا بس کر دے ایک ہی بات کہنا۔۔ میں تھک گئی ہوں سب کے منہ سے ایک راگ سن سن کر۔۔ صبح اماں کا سمجھانا پھر نمل کا اور اب عرش میر آ گیا تھا۔۔ وہ سن سن کر تھک گئی تھی ایک ہی بات۔۔
بے بسی سے آنکھوں سے ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر نکل آیا۔۔ جسے عرش میر نے گالوں پہ آنے سے پہلے ہی اپنے ہونٹوں سے چن لیا۔۔
آئم سوری۔۔ میرا ارادہ تمہیں تکلیف دینے کا نہیں تھا۔۔ لیکن بس اتنا کہوں گا کہ۔۔ گلے میں آنسوئوں کا گولا عرش میر کو اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔۔ تھوک نگل کر اس نے پھر سے بات کو وہی سے جوڑا
میرے مرنے سے پہلے مجھے معاف کر کے میری زندگی میں آ جائو روشم۔۔ میں اس بے چینی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا۔۔ اس کے ماتھے کو چوم کر وہ بیڈ سے اترا۔۔ اور جیسے آیا تھا ویسے ہی کھڑکی کے راستے واپس چلا گیا۔۔
وہ چلا گیا تھا پر روشم اب تک بلکل ویسے ہی لیٹی رہی۔۔ پہلے بھی وہ ہلکی پھلکی جسارتیں وہ کر جاتا تھا پر آج اپنے ماتھے پہ اس کا لمس اسے پہلی بار ایک نئے احساس سے اس کا دل دھڑکا۔۔
جس کا اندازہ اسے تب ہوا جب اس کی آنکھوں سے آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔۔ روشم نے حیرت سے آنکھوں پہ ہاتھ پھیر کر انہیں دیکھا۔۔
یہ کیوں بہہ رہے تھے؟؟ کیا واقعی عرش میر اس کے دل کی دھڑکن بن گیا تھا؟؟ کیا واقعی روشم کو اس کے مرنے والی بات سن کر فرق پڑا تھا؟؟۔۔ وہ حیران تھی ان سب باتوں پہ اور شاکڈ تو تب ہوئی جب دل نے زور زور سے دھڑک کر اس کے سب سوالوں کی تصدیق کر دی۔۔
***
روشم کے گھر سے ہو کر وہ یونہی سڑکوں پہ گھوم رہا تھا۔۔ گاڑی وہ وہی چھوڑ آیا تھا۔۔ سب جانتے تھے کہ وہ روشم سے ملنے آتا ہے تو اسے اس بارے میں تو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔
روشم کے آنسو اس کو بے چین کرنے کو کافی تھے۔۔ اتنی دیر ہو گئی تھی اس سب کو۔۔ اسے جو لگتا تھا وہ آہستہ آہستہ اپنی محبت سے اسے پگلا دے گا تو وہ غلط تھا۔۔
اس کی محبت بھی اب تک اس کے غموں اور دکھوں کا مداوا نہیں کر سکی تھی۔۔ اب بھی وہ سب یاد کر کے وہ روتی تھی۔۔
یا اللہ روشم کے سارے غم مجھے دے دے۔۔ میری خوشیاں اسے دے دے۔۔ میں مزید اسے غمگین نہیں دیکھ سکتا۔۔ سر اوپر کیے پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ پھر سے رو پڑا۔۔
اور شاید وہی قبولیت کا وقت تھا۔۔ وہ اپنے دھیان میں اوپر آسمان کق دیکھ رہا تھا جب دور کھڑے فاروق نے اس کا نشانہ لیا۔۔ بے شک اندھیرا تھا لیکن اسے اندھیروں میں ہی تو قتل کرنے کی عادت ہو چکی تھی۔۔
ٹھاہ۔۔ فائر چلا تھا اور عرش میر کے دل کے مقام سے آر پار ہو گئی۔۔
عرش میر نے حیرت سے اپنا ہاتھ پنے سینے پہ رکھا۔۔ خون سے اس کا ہاتھ بھی رنگ چکا تھا۔۔ درد سے اس سے مزید کھڑے رہنا محال تھا وہ وہی بیٹھتا چلا گیا۔۔ محض ایک گولی اس کا کام تمام کر چکی تھی۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...