بھائی۔۔۔اب باہر آ بھی جائیں ورنہ میں سجل کو فون کرنے لگی ہوں کہ بارات نہیں آئی گی- آج مصطفی اور سجل کی شادی تھی۔۔۔انکا نکاح صبح ہوچکا تھا-
ظالما۔۔۔۔ایسا مت کرنا- مصطفی کہنے کے ساتھ ہی باہر نکلا اور نورالعین اپنے بھائی کو شیروانی میں دیکھتی رہ گئی-
بھائی سجل کیسے سنبھالے گی اتنی لڑکیوں کو۔۔۔آپ نے سبکو بے ہوش کر کے ہی دم لینا ہے- نورالعین اب اسکے ساتھ باہر آگئی۔۔۔
وہ خود کو سنبھال لے بہت ہے۔۔۔باقیوں کو میں سنبھال لوں گا۔۔وہ آنکھ مارتے ہوئے بولا-
زیادہ نہ بنیں کوئی خاص نہیں لگ رہے ہیں- وہ تو میں بس مذاق کر رہی تھی-
ہاں پتہ تھا۔۔۔چلو اب جلدی- اتنا انتظار نہیں ہورہا- وہ اسے گاڑی میں بیٹھنے کا بولا تھا اور دو گاڑیاں رخصتی کیلئے روانہ ہوچکیں تھیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل باجی۔۔۔اللہ آپکو نظر نہ لگائے- آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپکے خاندان والے بھی موجود ہیں-
سجل اس رات جب دو بجے مصطفی کے ہمراہ گھر پہنچی تب اسے باہر مزمل بینچ پہ سویا ملا تھا- اس نے مزمل کو اٹھایا تو وہ معافیاں مانگنے لگا تھا- سجل کے جانے بعد ایک دن بھی بتول اور وہ خوش نہیں رہ پائے تھے- صفیہ بیگم کو بھی بتول ایک آنکھ نہ بھاتی تھی- تبھی انہوں نے اپنے شوہر سے بات کرلی کہ اس گھر کے اب دو حصے کردیے جائیں اور اس گھر کے حصے کرنے میں ہی مزمل اور بتول کا گھر ٹوٹ چکا تھا- صفیہ بیگم اور نائلہ بیگم ایک دوسرے کو طعنے دینے اور گالیاں دینے سے باز نہ آتی تھیں- سردیوں کے ہی دن تھے جب صفیہ بیگم ، مزمل اور ارمان شاہ کسی شادی میں گئے ہوئے تھے- بتول اور نائلہ بیگم گھر میں تھیں- اس دن گیس پائپ لائن لیک ہونے کی وجہ سے گھر میں آگ لگ چکی تھی- نہ وہ گھر نائلہ بیگم کا رہا اور نہ ہی صفیہ بیگم کا۔۔۔۔وہ گھر جل کر راکھ ہوچکا تھا- اور مزمل اپنے ماں باپ کو لیے اب سجل کے پاس آچکا تھا- صفیہ بیگم اس سے معافیاں مانگتی رہتی تھیں- مزمل بھی اسکی شادی پہ خوش تھا اور دوستوں کی طرح اسکی شادی کے ہر انتظامات کو دیکھ رہا تھا-
سجل بیٹا بارات آچکی ہے۔۔۔صفیہ بیگم اسکے پاس چلی آئیں-
سجل میری کوئی بیٹی نہیں ہے۔۔۔کیا میں تمہیں اپنی بیٹی مان کر رخصت کرسکتی ہوں-
تائی جان آپ میری ماں ہی ہیں۔۔۔اور آپ مجھے ماں بن کر ضرور رخصت کریں۔۔میں بھی اپنے ماں باپ کی کمی محسوس نہیں کروں گی- وہ انکے ہاتھ چومتے ہوئے بولی-
باجی باجی باہر سب بلا رہے ہیں- نوری دوبارہ اندر چلی آئی تھی-
ہوں۔۔۔ﮈوپٹہ اڑا دو نوری- پھر چلتے ہیں- سجل آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے بولی-
وہ نوری اور صفیہ بیگم کے ہمراہ سٹیج تک آگئی- اسے مصطفی ہمدانی کے پہلو بٹھادیا گیا تھا- ہر کوئی انکی جوڑی کو رشک بھری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا- ماریہ بھی مسز اقبال کے ساتھ آئی تھی اور حسد سے دونوں کو دیکھے جارہی تھی- اقبال ملک جیل میں تھے اور انکا فیصلہ اب عدالت نے کرنا تھا–
صفیہ بیگم نے اسکو اپنی بیٹیوں کی طرح الوداع کیا اور ارمان شاہ نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھ کے اسے دعاؤں میں رخصت کیا تاکہ سجل کو اپنی ماں باپ کی کمی کبھی محسوس نہ ہو-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل رخصت ہوکر مصطفی ہمدانی کے گھر مالکن بن کر آچکی تھی- اور اب استحقاق سے اسکے بیڈ پر چڑھ کے بیٹھی اسکے آنے کا انتظار کر رہی تھی-
آہم آہم۔۔اندر آسکتا ہوں؟ مصطفی دروازہ پہ کھڑا اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے وہی اکیلے اس کمرے کی مالک ہو-
جی آپکا ہی کمرہ ہے- اسکے آہستگی سے کہنے پر مصطفی کمرے کا دروازہ لاک لگا کر اسکے پاس آبیٹھا-
کیسا لگا آپکو اپنا روم شہزادی صاحبہ- مصطفی نے کان میں سرگوشی کی تو وہ جو چہرہ جھکائے بیٹھی تھی شرم کے مارے سرخ ٹماٹر ہوگئی-
بہت اچھا۔۔۔لیکن آپ— وہ کہتے کہتے خاموش ہوگئی-
لیکن کیا؟
لیکن آپ سے زیادہ اچھا نہیں لگ رہا- وہ چہرہ ہاتھ میں چھپائے شرمانے لگی-
اچھا۔۔۔۔شہزادی کا شہزادہ ہی لگ رہا ہوں گا نا؟ مصطفی اسکی حرکت پر ہنس دیا-
ہاں۔۔۔شہزادی کو شہزادہ ہی ملتا ہے- اب شہزادہ منہ دکھائی کب دیگا۔۔۔- سجل اب چہرے سے ہاتھ ہٹا چکی تھی-
منہ بھی تو اچھا ہونا شہزادی کا۔۔۔ایسے سڑے منہ کی منہ دکھائی نہیں دے سکتا- مصطفی بمشکل ہنسی کنٹرول کیے سنجیدگی سے بولا اور سجل غصے سے لال پیلی اسکو گھورنے لگی-
میں سڑی نظر آرہی ہوں- بس ٹھیک ہے آئندہ تیار ہی نہیں ہوں گی- سجل منہ بسورتے ہوئے بولی-
نہیں نہیں میری جان مذاق کررہا ہوں- مصطفی اسکے گلے میں ہاتھ ﮈالتے ہوئے بولا-
کوئی نہ دور ہٹیں۔۔اب میں نے نہیں ہونا تیار بس– سجل اس کے قریب آنے سے گھبرا گئی-
یہ دیکھو۔۔۔تمہاری منہ دکھائی۔۔۔وہ جیب سے مخملی ﮈبیا نکال کر اب اسکی طرف بڑھا رہا تھا-
واؤ۔۔۔۔اتنا پیارا ہے یہ تو۔۔۔۔اب مجھے خود پہنا دیں- وہ بریسلیٹ کو دیکھتے ہوئے ساتھ فرمائش بھی کرنے لگی-
بڑی تیز ہو۔۔۔بریسلیٹ دیکھ کے سیدھی ہوگئی- مصطفی اسکے ہاتھ میں پہناتے ہوئے بولا-
ہاں تو اب اتنی اچھی چیز کو دیکھ کر بھی ناراض رہتی-
نہ نہ۔۔۔پھر منانے کے اور بھی بہت سے طریقے آتے تھے مجھے۔۔۔اچھا کیا جو ایسے مان گئی ورنہ پچھتاتی-وہ معنی خیز انداز میں بولا-
اچھا یہ دیکھیں میری مہندی۔۔۔۔۔اسنے اب ہاتھ آگے کردیے تھے- مہندی کے ﮈیزائن میں بیچ میں (Sajal ❤ Mustafa) لکھا ہوا تھا-
کس نے لکھا؟ مصطفی دیکھ کر اسکے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کے بولا-
نوری نے مہندی لگائی تھی پر یہ میں نے خود لکھا ہے۔۔۔سجل اسکے سینے پر ہاتھ رکھنے کے بجائے اپنا سر رکھ چکی تھی- اور مصطفی ہمدانی سوچ رہا تھا کہ میری ماں نے صیح کہا تھا کہ ایک مرد ہی کانچ کی گڑیا کو توڑ سکتا ہے اور دوبارہ اسی کانچ کی گڑیا کو مرد ہی مسیحا بن کر جوڑ سکتا ہے- آج اس نے ہر قدم پہ ماں باپ کو یاد کیا تھا- پر سجل کے آنے کے بعد اسے لگا تھا کہ اسکی زندگی اور اسکی دنیا پوری ہوچکی ہے- 4 جنوری کی یہ رات سجل نے اسکے لیئے ساری زندگی کیلئے یادگار بنادی تھی- اور وہ اپنی سالگرہ کی رات کو بھلا کر اپنی شادی کی رات یاد گار بنارہا تھا-کیونکہ انکا یہ ملن بڑے صبر، بڑی برداشت اور بڑے ضبط کے بعد ہوا تھا- بڑی اﺫیتیں اور عذاب جھیلے تھے انھوں نے- اسلیے اس وصال کی رات پہ اب ان دونوں کا پورا پورا حق تھا- اور اس حق کو پورا کرنے میں دونوں گم تھے- اس طرح کے باقی کائنات کا ہر احساس پس پشت ﮈال دیا تھا- سوائے ایک دوسرے کے— کیونکہ اس وقت سجل کیلئے اسکا شہزادہ اور مصطفی ہمدانی کیلئے اسکی شہزادی ہی کل کائنات تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ایک سال بعد۔۔۔۔۔
پتھر ہوجاتے ہیں
لوگ کہانی ہوجاتے ہیں
ایسا وقت بھی آجاتاہے
کہ دشمن جانی ہوجاتے ہیں
ﮈائری کے خوبصورت صفحات پہ وہ اپنے پسندیدہ اشعار لکھتے لکھتے آخری جملے پہ ٹہر سی گئی اور مسکرا کر سائیڈ میں لیٹے مصطفی ہمدانی کو دیکھنے لگی جو فجر کی نماز پڑھ کر دوبارہ سو چکا تھا- سجل عادت کے مطابق قرآن پڑھ کر اب فارغ ہوئی تھی- تو اپنی ﮈائری نکال کر ماضی کی ساری باتیں پڑھنے لگی- یہ وہی ﮈائری تھی جو مصطفی ہمدانی کے گھر میں گم ہو چکی تھی اور مصطفی نے ہی اسے یہ ﮈائری واپس دی تھی۔۔۔۔وہ اب بھی ﮈائری نہیں لکھتی تھی پر اسے اپنا پسندیدہ اشعار لکھنا تھا-
مصطفی میری جان اٹھ جائیں- آپ نے جانا ہے- سجل کی محبت بھری سرگوشی پہ مصطفی نے اپنی آنکھیں کھول دی-
میری جان تمہیں پتہ ہے نا۔۔۔تمہاری ایسی باتوں پہ میرا کیا حال ہوجاتا ہے اور تم صبح صبح میری نیت خراب کرنے کے در پر ہو۔۔۔۔وہ اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا اور سجل اسکے سینے سے جالگی-
افف۔۔۔مصطفی چھوڑیں۔ سجل اسکے چوڑے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی پر مصطفی اسکی کوشش کو ناکام بنارہا تھا-
بوا جی۔۔۔مجھے کام ہے فوراً آئیں- سجل کے آواز لگانے پر مصطفی اسے چھوڑ چکا تھا اور وہ فوراً بیڈ سے اتر آئی-
آئندہ میں جگانے کی کوشش بھی نہیں کروں گی۔۔۔خود الارم لگا کر سوئیں- وہ غصے سے تلملائی-
میں بھی یہی چاہتا ہوں کیونکہ اتنے رومینٹک انداز میں جگانے سے کس کافر کو جاگنے کا جی چاہے گا– مصطفی بیڈ سے اتر کر اسکے پاس چلا آیا-
اچھا۔۔۔میں نیچے جارہی ہوں- تیار ہوکر آجائیے گا- وہ باہر جانے کو لپکی تھی پر مصطفی اسکا ہاتھ تھام چکا تھا-
سجل اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔۔کیونکہ مجھے اس بچے سے زیادہ تم پیاری ہو- سجل اور اسکی شادی کو ایک سال ہوگیا تھا اور اب اس دنیا میں ایک ننھا وجود میں آنے والا تھا –
رکھتی تو ہوں۔۔۔اب نیچے جانیں دیں کیونکہ ناشتہ خود اوپر چل کر نہیں آسکتا ہے- وہ ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی-
سجل نہ جاؤ۔۔۔۔مصطفی اسے روک رہا تھا-
کیا ہوگیا ہے آپکو۔۔۔میں مرنے تھوڑی جارہی ہوں- نیچے کھانا بنانے جارہی ہوں-
فضول باتیں نہ کرو۔۔۔مصطفی غصے سے بولا اور وہ ہنستے ہوئے سیڑھیوں کی طرف آئی پر وہ ایک سٹیپ نیچی قدم رکھتے ہی سیڑھیوں سے جاگری۔۔۔کیونکہ اسکا پاؤں ﮈوپٹہ کی زد میں آگیا تھا-
مصطفی– وہ زور سے چیخیی تھی۔۔۔اسکی چیخیں مصطفی ہمدانی کے گھر کی درو دیوار ہلا گئیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مبارک ہو مصطفی سر۔۔۔۔آپکے دو جڑواں بچے ہوئے ہیں- مصطفی ﮈاکٹر کی بات پر خوش بھی نہ ہوسکا اسے صرف سجل کی فکر تھی-
سجل کیسی ہے ﮈاکٹر؟ مصطفی نے ﮈرتے ہوئے پوچھا-
انکی حالت اب بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔۔۔انکا سر پہ سٹچز آئیے ہیں اور انکا پیر بھی زخمی ہوا ہے۔۔۔۔انکا دماغی توازن صیح ہوگا یا نہیں یہ ہم نہیں جانتے آپ بس دعا کریں کہ انکو ہوش آجائے–
ﮈاکٹر کہ کر جاچکا تھا۔۔اور مصطفی ہمدانی بھول گیا تھا کہ اسکے دو جڑواں بچے ہوئے ہیں- وہ ہسپتال سے نکل کر مسجد چلا آیا۔۔۔اسے آج ہر حال میں اللہ سے سجل کی زندگی مانگنی تھی ورنہ وہ بھی اسکے بغیر مرجاتا–
اللہ سجل کو نئی زندگی دے۔۔۔اللہ تو کُن کہہ کر سب کچھ کرسکتا ہے۔۔۔میرے مالک اسے واپس مجھے دے۔۔۔ان چھوٹے بچوں کیلئے اسکو نئی زندگی دے میرے خدا۔۔۔وہ 28 سالہ مرد رو رو کر اللہ کے سامنے گڑ گڑا تھا- وہ جب اس سے دور تھی تب بھی اس نے اسکے لیے اتنی دعائیں نہ کی تھی- اردگرد کے آدمی سب اسے دیکھ رہے تھے اور تعجب کا شکار تھے کہ ایک مرد بھی رو سکتا ہے– کیا ایک مرد رو نہیں سکتا۔۔۔۔کیا وہ ایک انسان نہیں ہوتا۔۔۔۔کیا اسکے سینے میں دل نہیں ہوتا؟؟ تو پھر یہ دنیا کیوں کہتی کہ مرد رویا نہیں کرتے- مرد مضبوط ہوتے ہیں- ہاں مرد مضبوط ہوتے ہیں پر انکے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔۔۔وہ بھی ایک انسان ہی ہوتے ہیں- اور انکو بھی رونے کا حق ہوتا ہے۔۔۔جہاں وہ کچھ نہ کرسکیں وہاں اللہ کے سامنے رو رو کر مانگ سکتے ہیں کیونکہ انکے بھی سینے میں دل ہوتا ہے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل آنکھیں کھولو۔۔۔۔دیکھو میں اور تمہارے بچے انتظار کررہے ہیں- مصطفی دونوں بچوں کو ہاتھ میں لیے اسکے قریب کھڑا تھا اور سجل نے آنکھیں کھول دیں- وہ ہوش میں آگئی تھی- نرس اسے ہوش میں آتا دیکھ کر فوراً باہر ﮈاکٹر کو بلانے دوڑی- اور مصطفی ہمدانی کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں-
سجل کیسی ہو؟ وہ بچوں کو کاٹ میں سلا کر اسکے پاس آبیٹھا اور اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا-
ٹھیک ہوں۔۔۔میرا بچہ۔۔۔کہاں ۔۔ہے- وہ بمشکل بولی-
یہی ہیں۔۔۔پانی دوں- مصطفی نے اس سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا-
اٹھو نہیں۔۔میں پلا دیتا ہوں- وہ اسے کندھے سے تھام کر سر اونچا کرکے پانی پلانے لگا۔۔۔اسی دوران ﮈاکٹر آگئے-
آپ کیسا فیل کر رہی ہیں سجل ہمدانی۔۔۔ﮈاکٹر بھی اسکو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے انکو امید نہ تھی کہ یہ لڑکی اتنی جلدی ہوش میں آجائی گی-
بہتر۔۔۔وہ مختصر سا کہ کر خاموش ہوگئی- ﮈاکٹر اسے سکون آوار انجیکشن لگا کر جاچکے تھے اور وہ دنیا سے بے خبر نیند کی وادیوں میں جاچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
5 جنوری کی صبح کا سورج اور ہلکی نرم گرم ہواؤیں انکی زندگی میں خوشیاں لائیں تھیں- سجل گھر واپس آچکی تھی پر اکیلی نہیں اپنے دو جڑواں بچوں کے ساتھ اور اب اسکے پاس صفیہ بیگم، نورالعین ، نوری، مزمل، ارمان شاہ اور مصطفی ہمدانی بیٹھے تھے- وہ آج کے دن بہت خوش تھی کیونکہ اسکی سالگرہ بھی تھی اور آج ان دونوں نے اپنے بچوں کے نام بھی رکھنے اسیلیے سب ساتھ بیٹھے تھے تاکہ سب کی موجودگی میں نام منتخب کیے جائیں-
بھائی آپ اور سجل ہی نام رکھیں دونوں بچوں کے- نورالعین کے بولنے پر سجل نے مصطفی کو دیکھا جو اسکے ساتھ ہی بیٹھا اپنی گود میں بچے کو کھلا رہا تھا-
بیٹے کا نام ثقلین رکھ لیں؟ وہ مصطفی سے پوچھی تو اس نے سر اثبات میں ہلا دیا-
اور میری بیٹی کا نام فجر۔۔۔۔وہ بھی فوراً بولا- اور اسکی بات پر سجل منہ پھلا گئی-
میری بھی ہے بیٹی۔۔۔وہ منہ بناتے ہوئے بولی-
نہیں تمہارا بیٹا ہے اور میری بیٹی ہے- مصطفی اسکی پھلی ہوئی ناک کو دباتے ہوئے بولا-
ہاں پھر جب یہ ﮈائپر گندا کرے گی تو مجھے نہیں بلائیے گا-
گندا کرے گی کیا۔۔۔گندا کرچکی ہے- مزمل ہنستے ہوئے بولا- اور مصطفی نے اسکی بات پر بچی کو فوراً سجل کی گود میں ﮈال دیا– اسکی اس حرکت پہ سب کھلکلا کر ہنس دیے—
ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مسیحا ہوتا ہے جو ہماری ٹوٹی کرچیوں کو سمیٹنے میں ہماری مدد کرتا ہے اور آج انسپکٹر مصطفی ہمدانی بھی ایک ٹوٹی گڑیا کو سمیٹ چکا تھا۔۔۔۔اور اسکی مسیحائی کر کے اسکا ساتھ مرتے دم تک نبھانے کا خواہشمند تھا۔۔۔۔کانچ کی گڑیا کو بھی اسکا مسیحا مل گیا تھا اسیلیے وہ آج بہت خوش تھی—-
آئینے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔۔
لڑکیاں بھی تو کانچ کے جیسی ہی ہوتی ہیں❤❤
★★★★★★★★★★★★★★★★★
♡♡♡The End♡♡♡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...