لو حسرت ناداری، ہم دل سے نکال آئے
تھے جیب میں جو سکے، رستے میں اچھال آئے
سر کہنیوں پر ٹیکے، بیٹھے ہیں پیاسے ہم
منہ بند شرابوں میں شاید کہ ابال آئے
تاریک مناظر نے آنکھوں کے نگر لوٹے
ہم منزل خواہش سے بے نقد خیال آئے
برسیں مری آنکھوں پر جب ٹوٹ کے دوپہریں
شاید مرے اندر کے سایوں کو زوال آئے
ہم خوار ہوئے کتنے انکار کے صحرا میں
سوچوں میں بگولے سے بن بن کے سوال آئے
جو جان کے گوہر سے قیمت میں زیادہ تھی
لو طاق زیاں میں ہم وہ چیز سنبھال آئے
نہیں کہ آگ تری انگلیوں کے مس میں نہیں
لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں
کروں زبانِ غزل میں اسے ادا کیوں کر؟
وہ راز جو کہ اشاروں کی دسترس میں نہیں
یہ فصلِ گل ہے، مگر اے ہوائے آوارہ
وہ خوشبوؤں کا ترنم ترے نفس میں نہیں
برائے سیر، خزاں کو کہاں پسند آئے
وہ راستہ کہ گزرگاہ خار و خس میں نہیں
سمٹ گیا مرے اندر کا ریگ زار کہ اب
جو تھی کبھی وہ کسک نغمۂ جرس میں نہیں
٭٭٭