گرمیوں کے طویل دن تھے اور لو ایسی چلتی کہ چمڑی بھی جھلس جائے۔ سکولوں کالجوں میں گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور بچوں کی موج مستیاں عروج پر۔ اچھل کود اور درختوں پر چڑھنا تو معمول کی بات تھی، صابرہ جو پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے، ایک تو لاڈلی کچھ زیادہ ہی تھی دوسرے حرکتیں بھی لڑکوں والی ہی اپنا لی تھیں، ایک دن درخت سے گری تو پاؤں میں گہری چوٹ لگ گئی، کوشش کی کہ اماں سے چھپا لے مگر کیا کرتی درد اتنا شدید تھا کہ ٹانگ بھی ہلائی نہ جا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں پاؤں میں سرخی کے ساتھ سوجن بڑھ گئی، سب بھائی بھاگے اماں کو بلا لائے۔ ماں نے گود میں اٹھا کر بستر پر لٹایا اور ابا کو بلا بھیجا جب تک ابا آئے، صابرہ نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا، سب گھر والے الگ پریشان کہ اب کیا کریں ایک پڑوسی نے مشورہ دیا کہ شہر لے جا کر ڈاکٹر سے پلستر چڑھوا لو۔ صابرہ کی پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گی ہے۔ کسی دوسرے نے مشورہ دیا کہ نا بابا نا ایک تو اتنی گرمی اور لو، اب اگر پلستر کروایا تو ماس گل جائے گا۔ آخر کافی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ صابرہ کے پاؤں کی ہڈی ساتھ والے گاؤں کے پہلوان سے چڑھائی جائے گی۔ ذرا شام ہوئی تو ابا صابرہ کو لے کر پہلوان کے پاس چلے گئے کہ ہڈی چڑھائی جا سکے۔ پہلوان کے آباء و اجداد پشتوں سے یہی کام کر رہے تھے، سب کو پورا بھروسہ تھا کہ صابرہ آٹھ دس دن میں بھلی چنگی ہو جائے گی۔ پہلوان نے لال رنگ کا تیز چبھنے والا تیل لگا کر جب مالش کی اور کھینچ کر ہڈی کو برابر کیا تو صابرہ کی اتنی چیخیں نکلیں کہ وہ نڈھال ہو گئی۔ ابا نے جلدی سے شربت کی بوتل منہ سے لگائی صابرہ کا دھیان بٹایا کہ پاؤں پر پٹیاں آرام سے لگ جائیں۔ لکڑی کے فٹے اوپر نیچے رکھ کر صاف پٹیاں باندھ دی گئیں اور صابرہ کی تکلیف میں کچھ کمی ہوئی۔ کوئی دس دن بعد پٹی کھلنی تھی۔ صابرہ نے دس دن بستر پر ہی گزارے اور خوشی خوشی ابا کے ساتھ پٹی کھلوانے گئی۔ پٹی تو کھل گئی مگر صابرہ نے جب پاؤں پر چلنا چاہا تو چال میں لنگ تھا۔ پہلوان نے مالش کا تیل ساتھ دیا اور کہا کہ گرم نمک کی ٹکور اور اس تیل کی مالش سے چند دنوں میں لنگ جاتا رہے گا۔
اس کی ماں کہتی تھی کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ؟ صابرہ کے مقدر میں لنگ کا دکھ لکھا تھا۔ ہزار حیلے کرنے کے باوجود لنگ کم تو ہو گیا مگر ختم نہ ہوا۔ اب گرمی، لو یا پہلوان کسی کو دوش دینے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا یہ سوچ کر صابرہ نے بھی صبر کر لیا۔ اس چوٹ نے صابرہ کی زندگی ہی بدل دی، اگرچہ وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ پانچوں بھائیوں کی آنکھ کا تارہ تھی مگر وہ شوخیاں باقی نہ رہیں تھیں۔ کھیل کود تو اسی دن چھوٹ گیا تھا آٹھویں کے بعد سکول بھی چھوڑ دیا کیوں کہ گاؤں میں لڑکیوں کا سکول آٹھویں تک ہی تھا۔ شہر جا کر پڑھنے کی ہمت اس لیے بھی نہ ہوئی کہ صابرہ کو کونسا پڑھ لکھ کر نوکری کرنا تھا۔ بچپن میں ہی دور رشتے کے تایا کے گھر نسبت طے تھی۔ تایا کا ایک ہی بیٹا تھا جسے تائی صرف دو سال کی عمر میں بلکتا چھوڑ کر چل بسی تھی۔ تایا نے سوتیلی ماں کے ظلم کے ڈر سے دوسری شادی نہیں کی اور اپنی بھری جوانی بھی اکیلے گزار دی تھی۔
ان سب باتوں سے قطع نظر صابرہ کے وہی خواب تھے، وہی امنگیں۔ سکول چھوٹا تو فارغ وقت میں خواتین کے ڈائجسٹ پڑھ کر وقت گزاری کرتی اور کبھی سلائی کڑھائی، کھانا پکانا۔ سلائی سے صابرہ کو بہت چڑ تھی صاف انکار کر دیتی، مگر کھانا پکانا سیکھا نے سے ماں نے جان نہ چھوڑی۔ ماں کہتی ارے بیٹی تو پرایا دھن ہے اگلے گھر بھی سدھارنا ہے۔ نہ ساس نہ نند ارے تو تو بڑی قسمت والی ہے، آگے کوئی جھنجھٹ نہیں۔ مگر جاتے ہی گھر تجھ کو سنبھالنا ہے۔ وہاں کوئی تجھے سکھانے والا نہیں ہے، جو سیکھنا ہے ابھی سیکھ۔
یہی بات اکثر صابرہ کی سہیلیاں بھی کرتیں اور اس کی قسمت پر رشک کرتیں کہ نہ ساس نہ نند۔ بس صابرہ ہو گی اور اس کا راج ہو گا۔
صابرہ کے تایا اور ہونے والے سسر غلام حسین زمیندارہ کرتے تھے۔ اور ملتان راجن پور میں آموں کے باغات تھے، کھیتوں میں تربوز اور خربوزے کی کی کاشت کرواتے، اللہ نے روزی میں خوب برکت دی تھی، کئی مزارعے تھے مگر ہر کام اپنی نگرانی میں کروانا ان کا شیوہ تھا۔ دوسری شادی نہیں کی تھی لہٰذا غلام حسین اور اس کے بیٹے احمد علی کی زندگی ڈیروں اور باغوں میں ہی بسر ہوئی تھی، مہینوں شہر کا رخ نہ کرتے۔ مگر عید شبرات اور دیگر تہوار لازما اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہی گزارتے۔ اکثر رشتہ دار اب فیصل آباد شہر میں آن بسے تھے اور شہر کے ایک اچھے علاقے میں غلام حسین نے ایک کنال کا پلاٹ بھی لے رکھا تھا، بس انتظار اس بات کا تھا کہ کب بیٹا جوان ہو اور کب اس کے سر پر سہرا سجائے۔ بن ماں کے اولاد کی پرورش کوئی آسان نہیں ہوتی، اور پھر اپنی ہمسفر کی جدائی کا داغ بھی بھر گہرا تھا ان باتوں نے غلام حسین کے دل میں بردباری، نرمی اور رحم دلی کی صفات پیدا کر دی تھیں۔
ادھر احمد علی نے بیس کا سن گزارا ادھر غلام حسین نے شہر میں مکان کی تعمیر شروع کر دی، اپنی اکلوتی اور لاڈلی بہو کو وہ گاؤں میں نہیں بسانا چاہتا تھا۔ مکان تو بن گیا مگر عورت کے بغیر مکان کبھی گھر نہیں بنتا۔ اس لیے اب غلام حسین نے سمدھیوں کے گھر کی دہلیز پکڑ لی کہ تاریخ دیں، اب کے برس بیٹے کی برات لے کرہی آئے گا۔
شادی کی تاریخ طے ہوئی، صابرہ کی ماں کی پیٹیاں اور ٹرنک کھل گئے۔ اس کے ابا نے پرانے شیشم کے درخت کٹوا کر فرنیچر بننے دیا تو ماں نے دو دو پیٹیاں رضائیوں بستروں سے بھر دیں۔
دوسری طرف کی تیاری بھی عروج پر تھی غلام حسین نے مردوں والے سب کام، گھر کی تزئین رنگ روغن کروا دیا تھا، مگر بری بنانے کے لیے سمجھ نہ آئی۔ا پنی سب سے چھوٹی بھاوج ثمینہ کو جو وہیں شہر میں ایک کالج میں ملازمت کرتی تھی بری کے لیے خریداری کا کہا۔ چھوٹی بھاوج نے بری کی تیاری شروع کی، درزیوں کو سوٹ سلنے گئے۔ جوتی کا ناپ منگوایا گیا اور آخر پر میک آپ کی خریداری کا مرحلہ آیا۔
دلہن کا رنگ ڈھنگ کیسا ہے کونسا شیڈ جچے کا کوئی اندازہ نہیں تھا، بس جو رواج تھا سب خرید لیا گیا، پرفیوم نیل پالش، فیس پوڈر بلش ان کاجل مسکارہ۔ لپ سٹک خریدتے وقت ثمینہ کو سمجھ نہ آئی کہ کون سے شیڈ لے۔ تین لپ سٹک میڈورہ کی لے چکی تو جانے دل میں کیا آیا کہ دو ریولون کے شیڈ بھی لے لیے ایک ٹیرا کوٹا اور ایک ریڈ رمل۔
آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب صابرہ بیاہ کر آ گئی، گھر میں خوشیوں کے شادیانے تھے چراغاں تھا۔ شادی میں شریک ہر شخص خوش تھا صابرہ کے دل میں ہزاروں امنگیں تھیں، شادی گھر اور صرف اس کا اپنا راج یہ خیال ہی اس کو سرشار کیے ہوئے تھا۔ جب مقلاوے سے واپس آئی تو سب مہمان رخصت ہو چکے تھے۔ ڈریسینگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کر خود پر نظر ڈالی اور بیوٹی باکس کا پہلی بار دھیان سے جائزہ لینے لگی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی خوشی کا احساس پیدا ہوا۔ صابرہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہو۔ چاہے جانے اور سرا ہے جانے کی ایک فطری خواہش نے دل میں انگڑائی لی تھی۔ پہلی بار آئینہ اس سے گفتگو کرنے لگا تھا اس کے ہونٹوں پر ادھ کھلی کلیوں جیسی مسکان کھلنے لگی تھی جیسے اس کے ہاتھوں پر محض مہندی نہ رچی ہو بلکہ بہار کی آمد کا اعلان کرتی ہوئی مہک ہو۔
، مگر دوسری جانب احمد علی کا موڈ شادی کے اگلے دن سے ہی سپاٹ سا تھا اور کسی نے خا طر خواہ دھیان نہیں دیا۔ جب اس نے میک اپ کیا اور ریڈ رمل کی لپ سٹک لگائی تو جانے کیوں احمد علی آگ بگولہ ہو گیا، کہنے لگا میں نے شادی کی رات کی بتا دیا تھا کہ مجھے یہ چونچلے نہیں پسند۔ صابرہ رسانیت سے بولی اچھا ابھی تو کوئی اور نہیں گھر میں آپ کے سوا، ابھی نئی نویلی دلہن ہوں یہ دیکھیے کتنی پیاری لپ سٹک ہے۔ میں کسی لگ رہی ہوں ؟ علی احمد نے دونوں شیڈ کی لپ سٹک اس کے ہاتھ سے چھینیں اور زور سے زمین پر پٹخ دیں۔ ایک لپ سٹک سٹور میں دور کہیں پیٹی کے نیچے گھسی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ صابرہ کے دل کے ساتھ ساتھ پاؤں میں بھی شدید ٹیس اٹھی۔ علی احمد کی ناراضی کے پیچھے پہلی بار اپنے لنگ کا احساس اس شدت سے ہوا تھا کہ ہڈی چڑھواتے بھی اتنی تکلیف نہ ہوئی تھی۔ ریڈ رمل کی لپ سٹک فرش پر کتنی دیر گھومنے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کے نیچے ٹوٹی پڑی تھی۔
خود آگاہی کا لمحہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تکلیف دہ لمحہ کبھی کبھی پتھر کو بھی پارس بنانے کا فن سکھا جاتا ہے مگر اس وقت صابرہ تو محض پتھر بنی سب دیکھ رہی تھی ایسا جمود طاری ہوا کہ گویا ہر سوال سے محروم ہو گئی ہو۔ مگر آگاہی کے اس لمحے میں یہ جان گئی تھی کہ شادی شدہ زندگی کیا ہے اور یہ ادراک بھی ہوا کہ اسے اپنے مسائل اسے خود حل کرنے ہیں، یہاں اس کے پانچ بھائی یا ماں باپ نہیں تھے جو اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھیں گے۔ کہاں سسر کو بات بتانی ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے، کونسا مسلہ کیسے حل کرنا ہے ؟ یہ سب ایک وجدان کی طرح اس پر اترے۔ مگر اس دن کے بعد سے اس کے ہونٹ ہمیشہ کے لیے لپ سٹک اور معصوم ہنسی سے محروم ہو گئے تھے۔
اگلے دن جب گھر کی صفائی کرنے لگی تو اس کے پسندیدہ رسالے اور ڈائجسٹ پلنگ کے نیچے پھٹے ہوئے اس کا منھ چڑا رہے تھے۔
کچھ دنوں بعد غلام حسین بیٹے اور بہو کو چھوڑ کر راجن پور روانہ ہو گیا، علی احمد جانے کہاں نکل جاتا اور صابرہ گھر میں اکیلی پڑی رہتی۔ کیا پکانا ہے کیا پہننا ہے یہ سب اس نے شوہر پر چھوڑ دیا تھا جو مل جاتا صبر شکر کر کے لے لیتی۔ اکثر خاموش رہتی اور اپنی ہستی کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرتی۔ غلام حسین نے ایک دم سے سارے گھر کی ذمہ داری بیٹے پر ڈال دی تھی اور خود دوبارہ سے زمینوں اور ڈیروں میں ہی بسیرا کر لیا تھا۔ شاید اپنے بیٹے کو ذمہ داری اور گھر گھرہستی سکھانے کا اس سے اچھا طریقہ اس کے ذہن میں نہیں تھا۔ علی احمد نے شہر میں ہی اپنا کاروبار شروع کیا اور دو تین سالوں کی محنت سے اپنے پاؤں جمانے میں کامیاب ہو گیا۔
صابرہ کے ہاں پہلے بیٹی پیدا ہوئی اور اگلے ہی سال بیٹا پھر ہر سال گھر میں ایک نیا وجود آن موجود ہوتا۔ کبھی کبھی اسے لگتا کہ اس کی زندگی پر ایک جمود طاری ہے اور وہ برف کی ایک مورتی کی طرح قطب شمالی کے کسی کونے میں پڑی دھوپ نکلنے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کی چچی کہا کرتی تھی کہ شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تب بھی بچے تو آ ہی جاتے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی آتے ہیں زن و شو کا تعلق ایک الگ چیز ہے اور دل میں جگہ بنا لینا الگ۔ اگر اس تعلق میں محبت و مودت کی چاشنی شامل ہو تو کیا ہی کہنے۔ اور اگر روکھا پن آ جائے تو یہ جمود طاری کر دیتا ہے۔ جھاڑن پکڑ کر گھر کی گرد صاف کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر اپنے وجود پر جمی گرد جھاڑنا آسان مرحلہ نہیں ہوتا۔ لگاتار چار بیٹیوں کی پیدائش سے علی احمد کچھ دلگرفتہ تھا تو وہیں غلام حسین بے حد خوش کہ اس کا آنگن چہکاروں سے بھر گیا تھا مدتوں تپتے صحراؤں میں سفر کرتے کرتے یہ گھر اسے گھنا سایہ دار شجر لگتا۔ صابرہ پر پہ در پہ اتنی ذمہ داریاں پڑی تھیں کہ دو دو سال میکے جانے کا وقت بھی نہ ملتا۔
وہ اپنے لنگ کی خامی سے واقف تھی اور اپنے اندر کوئی مزید کمزوری پیدا ہونے نہیں دینا چاہتی تھی۔ چھ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اس نے اپنا وزن بڑھنے نہیں دیا تھا۔ میک آپ سے محرومی کے باوجود صاف شفاف رنگت، متناسب بدن کے ساتھ وہ اپنے لباس کا بھی خیال رکھتی، شوہر سے چھپا کر کہیں نہ کہیں سے میگزین اور ڈائجسٹ منگوا ہی لیتی، نت نئے فیشن کی اندھا دھند تقلید تو نہیں کرتی تھی مگر وقت اور رواج کے مطابق کپڑے سلواتی۔ کچھ ان میگزینز سے سیکھتی تو کچھ لوگوں کو دیکھ کر۔ انسان سکول کے نصاب سے اتنا نہیں سیکھتا جتنا ایک انسان کو پڑھ کر سیکھتا ہے۔ کوئی دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ صابرہ آٹھویں پاس اور گاؤں میں پلی بڑھی ہے۔ چھوٹی موٹی باتوں پر شوہر آگ بگولہ ہو جاتا اور وہ بہت سکون سے یہ سب دیکھتی مگر اپنے حواس پر طاری نہ کرتی۔ سسر سے کبھی ان باتوں کی شکایت نہیں کی تھی۔ ایک اندرونی احساس اس کی رہنمائی کرتا کہ کہ کب اپنے اختیارات استعمال کرنا ہیں اور کب چپ سادھنا بہتر رہے گا۔ کہاں شوہر کی ڈوریاں کھینچنی ہیں، کب، کہاں اور کتنی ڈھیل دینی ہے۔
علی احمد بھی آخر ایک مرد تھا اور مرد شاذ و نادر ہی ایک عورت پر مطمئن ہوتا ہے۔ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اس نے کالونی میں نئے آ بسنے والے ایک گھرانے کی لڑکی میں دلچسپی لینا شروع کی، یہ لوگ بطور کرایہ دار یہاں رہ رہے تھے اور قدرے آزاد خیال تھے۔ صابرہ نے اسے اپنی طرف سے ایک لفظ بھی نہ کہا، خاموش تماشائی بنی سب دیکھتی رہی علی احمد سمجھتا کہ گاؤں کی بدھو عورت کو کیا پتا فون پر کس سے بات کر رہا ہے اور کس سے معاشقہ لڑ رہا ہے مگر اسے عورت کی حسیات کا درست طور پر اندازہ ہی نہیں تھا۔ تین مہینوں بعد جب غلام حسین گھر آیا تو بہو نے بہت طریقے سے ساری کہانی سسر کے گوش گزار کر دی، بہو کی پہلی شکایت تھی، اگرچہ غلام حسین کو اپنے بیٹے کے جارحانہ رویوں کا بخوبی علم تھا مگر اس سے قبل صابرہ نے شوہر کی کسی بھی بدسلوکی کا شکوہ تک نہیں کیا تھا۔ چند مہینوں بعد ہی وہ لوگ اس کالونی کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو گئے۔ تب تک غلام حسین نے آموں کے باغات کا رخ بھی نہیں کیا۔
علی احمد کا کئی بار دل چاہتا کہ اس کی ازدواجی زندگی کا یہ جمود ختم ہو مگر کبھی بھی کھل کر صابرہ سے کہہ نہ پایا۔ صابرہ نے بھی گویا قسم اٹھا رکھی تھی کہ کسی تقریب پر بھی بناؤ سنگھار نہیں کرے گی۔ کئی بار وہ سوچتا کہ اپنے رویے میں پہلے ہی تبدیلی لے آتا تو اچھا تھا مگر اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے میں انا آڑے آ جاتی۔
بہت ہی غیر محسوس طریقے سے صابرہ سب سے اہم ہستی بنتی چلی گی۔ غلام حسین کے باغات کی ساری آمدن اب صابرہ کے ہاتھ میں دھری جاتی۔ احمد علی کو اس نے کبھی اتنی ڈھیل نہیں دی تھی کہ باپ کی کمائی پر عیش کرتا پھرے۔ صابرہ نے اپنی پانچوں بیٹیوں کو کبھی اپنی کمزوری نہیں سمجھا تھا بلکہ انہیں اپنی مضبوطی میں بدل دیا۔ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ وہ نئے دور کے تقاضوں سے کبھی بے بہرہ نہیں رہی اور خود کو اور اپنی بیٹیوں کو روایات کی پابندی کے باوجود وقت کے قدم سے قدم ملا کر چلنا سکھایا۔ اولاد جوان ہو رہی تھی بیٹا ماں کا فرمانبردار تھا تو بیٹیاں کسی بات سے انکار نہ کرتیں۔ صابرہ نے انہیں ذمہ داری کے ساتھ مناسب آزادی بھی دی تھی۔
صابرہ نے بڑی لڑکی کی نسبت طے کر دی تھی اور اُس عید پر ان کا سمدھیانہ اپنی بہو کی عیدی لے کر آیا۔ جس میں دیگر تحائف کے علاوہ اس کے داماد نے اپنی منگیتر کے لیے باڈی شاپ کی کاسمیٹیکس کا بیگ بھی بھیجا تھا۔ علی احمد کسی کام سے اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف گیا۔ وہاں وہ اپنے تحائف کھولے بیٹھی تھی۔ لپ اسٹک اور کلرنگز کے اتنے سارے شیڈز دیکھ کر وہ پھولی نہیں سما رہی تھی۔ چھوٹی بہنیں بھی باری باری سب شیڈ لگا کر آزما رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر کچھ عجیب اور کچھ مانوس سی مسرت رقصاں تھی۔ یہ دیکھ کر علی احمد چپ چاپ دروازے میں سے ہی لوٹ آیا۔
کتنے دن گزر گئے، علی احمد روزانہ سٹور میں جا کر اور کبھی اپنے کمرے میں موجود ڈریسینگ ٹیبل کے نیچے کچھ ڈھونڈتا رہتا تھا۔ ایک معصوم سی ہنسی، چھوٹی سی ایک خوشی کہیں نظر نہ آتی۔ اس کے کانوں میں جلترنگ سے بجتے اور کبھی بے ہنگم شور کان پھاڑنے لگتا۔
ایک دن پیچھے مڑ کر دیکھا تو صابرہ شگفتہ چہرے کے ساتھ لپ سٹک سے محروم ہاتھ باندھے کھڑی تھی اور اس کے ہونٹوں پر بہت مبہم، بہت گہرا اور غیر محسوس سا تبسم تھا۔
٭٭٭