زمیں پیروں تلے نیچی سے نیچی
فلک بالاے سر اونچے سے اونچا
یہ کیسی زندگی ہے آدمی کی—؟
زمیں کا ہے— نہ ہے وہ آسماں کا—!
بصارت پر بٹھا کر لاکھ پہرے
سماعت پر لگا کر لاکھ قدغن
حواسِ خمسہ کو پابند کرکے
کہا
’’دیکھو، پڑھو— سوچو‘‘
قلم کی دی عطا اور لکھنے کی
تلقین فرمائی—!
مری آنکھوں نے جو دیکھا— پڑھا…..
سوچا:
وہ میرے دل کے دروازوں، دریچوں سے نہیں گزرا!
وہ میرے جسم سے ہوتا ہوا
اندر نہیں اُترا—!
مری آنکھوں کے آگے
بلند و پست تھے، پہنائیاں، آبادیاں…
ویرانیاں تھیں
مرے قدموں تلے
دنیا تھی،
آدم کی زمیں—
وراثت میں ملی تھی
آدمی کو—!
بالاے سر—
از افق تابہ افق
پھیلا ہوا
آسماں کا سائباں
اصل میں ہو یا نہ ہو—
موجود تھا—!
زمیں رب کی تھی، میری تھی،
سنا تھا۔
پڑھا بھی تھا مگر دیکھا
زمیں میری نہیں تھی
رب کی بھی نہ تھی
بالاے سر پھیلا ہوا جو سائباں تھا
آسماں!
میرا نہ تھا، رب کا نہ تھا
جمہور کا
سب کا نہ تھا!
ان کا تھا جو آگ اور بارود والے تھے:
جو بستیاں تاراج کرتے اور ان پر
راج کرتے تھے—!
زمیں پر، ان کے فوجی بوٹ سے—
ملبے اُبلتے تھے:
در و دیوار گرتے اور گھر
مسمار ہوتے تھے—!
مری آنکھوں نے دیکھا بھی
پڑھا بھی اور جانا بھی
مطابق حکمِ رب سوچا….. بہت سوچا!
قلم کو
انگلیوں میں تھام کر خاموش بیٹھا ہوں
مرا کاغذ ابھی تک بے نشاں ہے
مرے مالک— مرے رب
لکھوں تو کیا لکھوں—!!